Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 15

سورة النساء

وَ الّٰتِیۡ یَاۡتِیۡنَ الۡفَاحِشَۃَ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ فَاسۡتَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِنَّ اَرۡبَعَۃً مِّنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ شَہِدُوۡا فَاَمۡسِکُوۡ ہُنَّ فِی الۡبُیُوۡتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الۡمَوۡتُ اَوۡ یَجۡعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیۡلًا ﴿۱۵﴾

Those who commit unlawful sexual intercourse of your women - bring against them four [witnesses] from among you. And if they testify, confine the guilty women to houses until death takes them or Allah ordains for them [another] way.

تمہاری عورتوں میں سے جو بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو ، اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو ، یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کر دے ، یا اللہ تعالٰی ان کے لئے کوئی اور راستہ نکالے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Adulteress is Confined in her House; A Command Later Abrogated At the beginning of Islam, the ruling was that if a woman commits adultery as stipulated by sufficient proof, she was confined to her home, without leave, until she died. Allah said, وَاللَّتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَأيِكُمْ فَاسْتَشْهِدُواْ عَلَيْهِنَّ أَرْبَعةً مِّنكُمْ فَإِن شَهِدُواْ فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىَ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللّهُ لَهُنَّ سَبِيلً And those of your women who commit illegal sexual intercourse, take the evidence of four witnesses from among you against them; and if they testify, confine them (i.e. women) to houses until death comes to them or Allah ordains for them some (other) way. `Some other way' mentioned here is the abrogation of this ruling that came later. Ibn Abbas said, "The early ruling was confinement, until Allah sent down Surah An-Nur (Surah 24) which abrogated that ruling with the ruling of flogging (for fornication) or stoning to death (for adultery)." Similar was reported from Ikrimah, Sa`id bin Jubayr, Al-Hasan, Ata Al-Khurasani, Abu Salih, Qatadah, Zayd bin Aslam and Ad-Dahhak, and this is a matter that is agreed upon. Imam Ahmad recorded that Ubadah bin As-Samit said, "When the revelation descended upon the Messenger of Allah, it would affect him and his face would show signs of strain. One day, Allah sent down a revelation to him, and when the Messenger was relieved of its strain, he said, خُذُوا عَنِّي قَدْ جَعَلَ اللهُ لَهُنَّ سَبِيلً الثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ وَالْبِكْرُ بِالْبِكْرِ الثَّــيِّبُ جَلْدُ مِايَةٍ وَرَجْمٌ بِالْحِجَارَةِ وَالْبِكْرُ جَلْدُ مِايَةٍ ثُمَّ نَفْيُ سَنَة Take from me: Allah has made some other way for them. The married with the married, the unmarried with the unmarried. The married gets a hundred lashes and stoning to death, while the unmarried gets a hundred lashes then banishment for a year." Muslim and the collectors of the Sunan recorded that Ubadah bin As-Samit said that the Prophet said, خُذُوا عَنِّي خُذُوا عَنِّي قَدْ جَعَلَ اللهُ لَهُنَّ سَبِيلً الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِايَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِايَةٍ وَالرَّجْم Take from me, take from me. Allah has made some other way for them: the (unmarried) gets a hundred lashes and banishment for one year, while the (married) gets a hundred lashes and stoning to death. At-Tirmidhi said, "Hasan Sahih". Allah said,

سیاہ کار عورت اور اس کی سزا ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ جب عادل گواہوں کی سچی گواہی سے کسی عورت کی سیاہ کاری ثابت ہو جائے تو اسے گھر سے باہر نہ نکلنے دیا جائے گھر میں ہی قید کر دیا جائے اور جنم قید یعنی موت سے پہلے اسے چھوڑا نہ جائے ، اس فیصلہ کے بعد یہ اور بات ہے کہ اللہ ان کے لئے کوئی اور راستہ پیدا کر دے ، پھر جب دوسری صورت کی سزا تجویز ہوئی تو وہ منسوخ ہو گئی اور یہ حکم بھی منسوخ ہوا ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جب تک سورۃ نور کی آیت نہیں اتری تھی زنا کار عورت کے لئے یہی حکم رہا پھر اس آیت میں شادی شدہ کو رجم کرنے یعنی پتھر مار مار کر مار ڈالنے اور بےشادی شدہ کو کوڑے مارنے کا حکم اترا ، حضرت عکرمہ ، حضرت سعید بن جبیر ، حضرت حسن ، حضرت عطاء خرسانی ٫ حضرت ابو صالح ، حضرت قتادہ ، حضرت زید بن اسلم اور حضرت ضحاک کا بھی یہی قول ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے ، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی اترتی تو آپ پر اس کا بڑا اثر ہوتا اور تکلیف محسوس ہوتی اور چہرے کا رنگ بدل جاتا پس اللہ تعالیٰ نے ایک دن اپنے نبی پر وحی نازل فرمائی کیفیت وحی سے نکلے تو آپ نے فرمایا مجھ سے حکم الٰہی لو اللہ تعالیٰ نے سیاہ کار عورتوں کے لئے راستہ نکال دیا ہے اگر شادی شدہ عورت یا شادی شدہ مرد سے اس جرم کا ارتکاب ہو تو ایک سو کوڑے اور پتھروں سے مار ڈالنا اور غیر شادی شدہ ہوں تو ایک سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ( مسلم وغیرہ ) ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث الفاظ کچھ تبدیلی کے ساتھ سے مروی ہے ، امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ، اسی طرح ابو داؤد میں بھی ، ابن مردویہ کی غریبف حدیث میں کنوارے اور بیاہے ہوئے کے حکم کے ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ دونوں اگر بوڑھے ہوں تو انہیں رجم کر دیا جائے لیکن یہ حدیث غریب ہے ، طبرانی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورۃ نساء کے اترنے کے بعد اب روک رکھنے کا یعنی عورتوں کو گھروں میں قاید رکھنے کا حکم نہیں رہا ، امام احمد کا مذہب اس حدیث کے مطابق یہی ہے کہ زانی شادی شدہ کو کوڑے بھی لگائے جائیں گے اور رجم بھی کیا جائے گا اور جمہور کہتے ہیں کوڑے نہیں لگیں گے صرف رجم کیا جائے گا اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماعز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور غامدیہ عورت کو رجم کیا لیکن کوڑے نہیں مارے ، اسی طرح دو یہودیوں کو بھی آپ نے رجم کا حکم دیا اور رجم سے پہلے بھی انہیں کوڑے نہیں لگوائے ، پھر جمہور کے اس قول کے مطابق معلوم ہوا کہ انہیں کوڑے لگانے کا حکم منسوخ ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرمایا اس بےحیائی کے کام کو دو مرد اگر آپس میں کریں انہیں ایذاء پہنچاؤ یعنی برا بھلا کہہ کر شرم و غیرہ دلا کر جوتیاں لگا کر ، یہ حکم بھی اسی طرح پر رہا یہاں تک کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے کوڑے اور رجم سے منسوخ فرمایا ، حضرت عکرمہ عطاء حسن عبداللہ بن کثیر فرماتے ہیں اس سے مراد بھی مرد و عورت ہیں ، سدی فرماتے ہیں مراد وہ نوجوان مرد ہیں جو شادی شدہ نہ ہوں حضرت مجاہد فرماتے ہیں لواطت کے بارے میں یہ آیت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے تم لوطی فعل کرتے دیکھو تو فاعل مفعول دونوں کو قتل کر ڈالو ، ہاں اگر یہ دونوں باز آجائیں اپنی بدکاری سے توبہ کریں اپنے اعمال کی اصلاح کرلیں اور ٹھیک ٹھاک ہو جائیں تو اب انکے ساتھ درشت کلامی اور سختی سے پیش نہ آؤ ، اس لئے کہ گناہ سے توبہ کر لینے والا مثل گناہ نہ کرنے والے کے ہے ۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے ، بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر کسی کی لونڈی بدکاری کرے تو اس کا مالک اسے حد لگا دے اور ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے ، یعنی حد لگ جانے کے بعد پھر اسے عار نہ دلایا کرے کیونکہ حد کفارہ ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 یہ بدکار عورتوں کی بدکاری کی سزا ہے جو ابتدائے اسلام میں، جب کہ زنا کی سزا متعین نہیں ہوئی تھی، عارضی طور پر مقرر کی گئی تھی ہاں یہ بھی یاد رہے کہ عربی زبان میں ایک سے دس تک کی گنتی میں یہ مسلمہ اصول ہے کہ عدد مذکر ہوگا تو معدود مؤنث اور عدد مؤنث ہوگا تو معدود مذکر۔ یہاں اربعہ (یعنی چار عدد) مؤنث ہے، اس لئے معدود جو یہاں ذکر نہیں کیا گیا اور محذوف ہے یقینا مذکر آئے گا اور وہ ہے رجال یعنی اربعۃ رجال جس سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ اثبات زنا کے لئے چار مرد گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔ گویا جس طرح زنا کی سزا سخت مقرر کی گئی ہے اسکے اثبات کے لئے گواہوں کی کڑی شرط عائد کردی گئی ہے یعنی چار مسلمان مرد عینی گواہ، اس کے بغیر شرعی سزا کا اثبات ممکن نہیں ہوگا۔ 15۔ 2 اس راست سے مراد زنا کی وہ سزا ہے جو بعد میں مقرر کی گئی یعنی شادی شدہ زناکار مرد و عورت کے لئے رجم اور غیر شادی شدہ بدکار مرد عورت کے لئے سو سو کوڑے کی سزا (جس کی تفصیل سورة نور اور احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] ابتدا زنا کی سزا :۔ احکام وراثت کے بعد اب دوسری معاشرتی برائیوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن میں سرفہرست زنا اور فحاشی ہے۔ زنا کے لیے گواہیوں کا نصاب چار مردوں کی گواہی ہے اور یہ سب عاقل، بالغ اور قابل اعتماد ہونے چاہئیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ دو مرد اور چار عورتیں گواہی دے دیں۔ کیونکہ عورت کی گواہی صرف مالی معاملات میں قابل قبول ہے، حدود میں نہیں۔ ایسے چار مسلمان، عاقل، بالغ اور قابل اعتماد اور معتبر آدمیوں کا اس طرح گواہی دینا کہ انہوں نے فلاں عورت کو بچشم خود دیکھا ہے بظاہر بہت مشکل نظر آتا ہے۔ ان کڑی سزاؤں کے ساتھ چار گواہوں کا نصاب مقرر کرنے میں غالباً حکمت الہی یہ ہے کہ اگر کوئی ایک آدھ شخص کسی کو زنا کرتے دیکھ بھی لے تو اس برائی کو ظاہر کرنے یا پھیلانے کی ہرگز کوشش نہ کرے۔ زنا کے گواہ دراصل خود مجرم کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں اور اگر خدانخواستہ زنا کے گواہوں میں سے کسی ایک کی گواہی بھی نامکمل رہے یا مشکوک ہوجائے تو زانی بچ جائے گا اور گواہوں پر قذف کی حد پڑجائے گی۔ اس لیے زنا کی گواہی کے لیے جانا اور گواہی دینا بذات خود بڑا خطرناک کام ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ ۔۔ : اوپر کی آیات میں عورتوں کے ساتھ احسان اور ان کے مہر ادا کرنے اور مردوں کے ساتھ ان کو وراثت میں شریک قرار دے کر ان کے حقوق کی حفاظت کا بیان تھا، اب یہاں سے عورتوں کی تادیب اور ان پر سختی کا بیان ہے، تاکہ عورت اپنے آپ کو بالکل ہی آزاد نہ سمجھے۔ (قرطبی) پہلی آیت میں زنا کار عورتوں کی سزا بیان کی کہ زنا شہادت سے ثابت ہوجائے تو انھیں تاعمر گھر میں محبوس رکھا جائے، یہاں تک کہ وہ مرجائیں، یا اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں کوئی دوسری سزا نازل فرما دے۔ اسلام میں زنا کار عورتوں کے لیے یہ پہلی سزا ہے جو بعد میں حد زنا نازل ہونے سے منسوخ ہوگئی۔ سورة نور میں جو سو کوڑوں کی سزا نازل ہوئی ہے، یہاں ” سبیلا “ سے اسی طرف اشارہ ہے۔ دوسری آیت میں زانی مرد اور زنا کار عورت کے متعلق یہ حکم دیا گیا کہ ان کو اذیت دی جائے اور ذلیل کیا جائے، حتیٰ کہ تائب ہوجائیں، یہ سزا پہلی سزا کے ساتھ ہی ہے، بعد میں یہ دونوں سزائیں منسوخ ہوگئیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھ سے (احکام دین) لو، اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے سبیل پیدا فرما دی ہے کہ کنوارا کنواری کے ساتھ (زنا کرے) تو اس کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور شادی شدہ شادی شدہ کے ساتھ (زنا کرے) تو ان کے لیے سو کوڑے اور سنگسار ہے۔ “ [ مسلم، الحدود، باب حد الزنی : ١٦٩٢، عن عبادۃ بن الصامت (رض) ] مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نور (٢) ۔ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ : چونکہ زنا کی سزا نہایت سخت ہے، اس لیے اس پر گواہی بھی زیادہ مضبوط رکھی۔ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جو چیز شمار کی جا رہی ہے، وہ مذکر ہو تو عدد مؤنث ہوتا ہے، اس لیے ” اربعہ “ کی وجہ سے ترجمہ ” چار مرد “ کیا ہے۔ وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِھَا : بعض علماء نے اس سے مراد قوم لوط کا عمل کرنے والے دو مرد لیے ہیں اگرچہ ” الذان “ کے لفظ میں، جو تثنیہ مذکر کے لیے آتا ہے اس کی گنجائش ہے، مگر یہ مطلب نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے، نہ کسی صحابی سے، بلکہ طبری اور ابن ابی حاتم نے اپنی حسن سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ سے، انھوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ عورت جب زنا کرتی تو گھر میں بیٹھی رہتی یہاں تک کہ فوت ہوجاتی اور ابن عباس نے (وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِھَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْھُمَا ۚ ) کے متعلق فرمایا کہ مرد جب زنا کرتا تو اسے تعزیہ اور جوتے مارنے کے ساتھ ایذاء دی جاتی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد یہ آیات نازل فرمائیں : (اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۠) [ النور : ٢ ] یعنی زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد کو سو کوڑے مارو۔ پھر اگر وہ شادی شدہ ہوں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے مطابق انھیں رجم کردیا جائے گا یہ ہے وہ ” سبیل “ جو اللہ نے فرمایا ” اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا ‘ (یہاں تک کہ انھیں موت اٹھائے جائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ بنا دے) اسی طرح طبری نے صحیح سند کے ساتھ مجاہد سے نقل کیا ہے کہ ” وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِھَا مِنْكُمْ “ سے مراد زنا کرنے والے مرد عورت ہیں۔ علاوہ ازیں ” يَاْتِيٰنِھَا “ میں ” ہا “ کی ضمیر پچھلی آیت میں مذکور الفاحشہ کی طرف جا رہی ہے جس سے اس مقام پر مراد زنا ہے۔ اس فاحشہ سے مراد قوم لوط کا عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ رہا ” اللذان “ تثنیہ مذکر کا لفظ تو دو افراد اگر مذکر و مؤنث ہوں تو ان کے لیے تثنیہ مذکر کی ضمیر عام استعمال ہوتی ہے اس میں کوئی قباحت نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sequence In previous verses, the objective was to correct the malpractices of the days of ignorance committed about orphans and inheritances. The people of jahiliyyah also used to subject women to cruel treatment. They had certain other evil customs also, such as marrying prohibited women. The present verses are meant to correct such customs, however, it has been permitted that if a woman commits a proven guilt, she can be punished. This subject of correcting the evil customs will continue through the next two or three sections. Commentary These verses prescribe punishments for men and women who commit zina, (adultery or fornication). If this comes from women, the first verse requires the presence of four male witnesses to prove it. It means that the executive authority before which the case goes should call for four qualified witnesses to prove zinc. Then, it is necessary that all the witnesses are male. The testimony of women in this connection is not valid. Since the guilt of zina is of extremely grave nature which not only violates honour and modesty, but also brings bad name to the family, Islam has taken very strict attitude while setting the standard of evidence to prove this guilt. Firstly, there came the condition that witnesses have to be men; the evidence of women was not considered valid. Secondly, the number of the required witnesses is raised to four. As obvious, this condition is very hard to meet. It is something which can very seldom take place. This strict approach was taken so that the husband of the woman, his mother or (another) wife or sister do not level undue accusations against her out of personal spite. It was also to check that other ill-wishing people do not get any chance to release their personal hostility by accusing her falsely. Testimony to zina by less than four individuals renders their evidence invalid in which case the complainant and the witnesses may all be charged as liars and the Hadd of Qadhf (punishment for false accusation) becomes operative against them for having falsely accused a Muslim. It has been very clearly said in Surah An-Nur: لَّوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْ‌بَعَةِ شُهَدَاءَ ۚ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَـٰئِكَ عِندَ اللَّـهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ ﴿١٣﴾ which means that those who cannot produce four witnesses are liars. Some revered elders, describing the wisdom behind the need to have four witnesses, have said that since this case involves two ; indi¬viduals, man and woman, this one single case comes, so to speak, under the purview of one rule for two cases. Since each case requires two witnesses, so four witnesses will be necessary in this case. Towards the end of the verse, it is said that should they both repent and correct themselves, then, leave them. It means that, in case they have repented after punishment, they should not be disgraced and punished any more. It does not mean that the act of repentance has absolved them of the punishment because this repentance has been mentioned after punishment as obvious from the ramification of the letter fa& (literally, |"then, turn away|", which has been left as under-stood in the present translation). However, in case repentance has not been made, reproach is in order even after punishment. No definite حدّ Hadd (punishment) has been described in these two verses of the Holy Qur&an. What has been said here is limited to |"torture them|" and |"confine the fornicating women to their homes|". No particular method of such |"torture|" has been described either, and this has been left to the discretion of the authorities. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، says that torture here means that they should be verbally reproached and put to shame, as well as, given physical punishment such as hitting with hands and shoes ... This statement reported from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) appears to be illustrative. The fact of the matter is that this whole thing has been left to the discretion of the authorities. In the order of revelation, the injunction &to torture& the adulterers came first, and it was later that the women guilty of adultery were ordered to be &confined to their homes&. While giving this command, the Holy Qur&an has mentioned two limits for the period of their confine¬ment. The words used are: |"Confine those women to their homes until death overcomes them or Allah prescribes a way for them|". It means that such women shall be confined to their homes till their death, however, if Allah prescribes some other punishment for them while they are still alive, then that punishment will replace the punishment of confinement. That new (expected) punishment has been referred to in this verse as &a way& prescribed by Allah. Later this &way& as prom¬ised in this verse was prescribed and was revealed. Interpreting the word &way& used in this verse, Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) says, یعنی الرجم للثیب و الجلد للبکر (that is, stoning to death, for the married and lashing for the unmarried.) (al-Bukhari, Kitab al-Tafsir, v.2, p. 657) This |"way|" stands proved through clear statements of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself where the relevant injunctions for the married and the unmarried have been described separately. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had pronounced the Hadd punishment of zina in the case of Sayyidna Ma` iz ibn Malik (رض) and a woman from the tribe of Azd. Since both of them were married, they were stoned to death. In addition to that, a couple from among the Jews of Madinah was also stoned to death because of zina and this judgment against them was pronounced on the authority of an injunction of Torah. The injunction relating to the unmarried offender is mentioned in Surah al-Nur of the Holy Qur&an itself: الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ (The fornicator, woman or man, administer each one of them - a hundred lashes.) - (24:2) A verse of the Holy Qur&an was also revealed earlier to cover the injunction of رجم rajm (stoning to death), but its recitation was later on abrogated. However, the injunction itself was retained as operative. Sayyidna ` Umar (رض) عنہ has said: اِنَ اللہ بعث مُحَمَّداً بلحق و انزلَ علیہِ الکتاب فکان مإَّا انزل اللہ تعالیٰ آیۃَ الرِّجم رَجَمَ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ورَجَمنا بعدہ والرَّج، ُ چی کتاب اللہِ حَقُّ علٰی من زَنٰی اذا احصن منِ الرِّجال ِ والنِّساءِ (بخاری و مسلم – مشکوٰۃ ص 309) (Surely, Allah sent Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) with the truth and sent down to him the Book. Then, in what was revealed by Allah Almighty there was the verse of Rajm. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) stoned and we stoned after him and the revealed injunction of Rajm stands proved against everyone who commits zina despite being married, whether man or woman.) (al-Bukhari, Muslim, as in Mishkat, p. 309) To sum up, the injunction of &torturing& and &confining to homes& which appears in these verses was abrogated after the subsequent revelation of the legal Hadd punishment of zinc, that is, one hundred lashes or Rajm will be mandatory. More details in this connection will, God willing, appear in the commentary on Surah al-Nur.

خلاصہ تفسیر ربط آیات :۔ ماقبل کی آیات میں ان بےاعتدالیوں کی اصلاح کی گئی ہے جو زمانہ جاہلیت میں یتیموں کے حق میں مواریث کے سلسلہ میں ہوتی تھیں، یہ لوگ عورتوں پر بھی ظلم و ستم ڈھاتے تھے، اور ان کے معاملہ میں رسوم قبیحہ میں مبتلا تھے، جن عورتوں سے نکاح جائز نہیں ہے ان سے نکاح کرلیتے تھے۔ اگلی آیات میں ان معاملات کی اصطلاح فرماتے ہیں اور اگر کسی عورت سے کوئی ایسا قصور سر زد ہوجائے جو شرعاً قصور ہو اس پر تادیب کی اجازت دیتے ہیں اور اصلاح و تادیب کا یہ مضمون بھی اگلے دو تین رکوع تک چلا گیا ہے۔ اور جو عورتیں بےحیائی کا کام (یعنی زنا) کریں تمہاری (منکوحہ) بیبیوں میں سے سو تم لوگ ان عورتوں (کے اس فعل) پر چار آدمی اپنوں میں سے (یعنی مسلمان، آزاد، عاقل، بالغ، مذکر) گواہ کرلو (تاکہ ان کی گواہی پر حکام سزائے آئندہ جاری کریں) سو اگر وہ گواہی دیدیں تو (ان کی سزا یہ ہے کہ) تم ان کو (بحکم حاکم) گھروں کے اندر (سیاستہ) مقید رکھو یہاں تک کہ (یا تو) موت ان کا خاتمہ کر دے (اور) یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور راہ (یعنی حکم ثانی) تجویز فرما دیں (بعد میں جو حکم ثانی اس سلسلہ میں تجویز ہوا اس کا ذکر معارف و مسائل میں آ رہا ہے) اور (سزائے زنا میں کھ زن منکوحہ کی تخصیص نہیں، بلکہ) جونسے دو شخص بھی وہ بےحیائی کا کام (یعنی زنا) کریں تم میں سے (یعنی بالغ عاقل مسلمانوں میں سے) تو ان دونوں کو اذیت پہنچاؤ پھر (بعد اذیت پہنچانے کے) اگر وہ دونوں (گزشتہ سے) توبہ کرلیں توبہ کرلیں اور (آئندہ کے لئے اپنی) اصلاح کرلیں، (یعنی پھر ایسا فعل ان سے سرزد نہ ہو) تو ان دونوں سے کچھ تعرض نہ کرو (کیونکہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والے ہیں، رحمت والے ہیں (اس لئے اپنی رحمت سے اللہ تعالیٰ نے ان کی خطا معاف کردی، پھر تم کو بھی ان کے در پے آزار نہ ہونا چاہئے۔ ) معارف و مسائل ان آیات میں ایسے مردوں اور عورتوں کے بارے میں سزا تجویز کی گئی ہے جن سے فاحشہ یعنی زنا کا صدور ہوجائے، پہلی آیت میں فرمایا کہ جن عورتوں سے ایسی حرکت سر زد ہوجائے تو اس کے ثبوت کے لئے چار گواہ مرد طلب کئے جائیں، یعنی جن حکام کے پاس یہ معاملہ پیش کیا جائے ثبوت زنا کے لئے وہ چار گواہ طلب کریں، جو شہادت کی اہلیت رکھتے ہوں اور گواہی بھی مردوں کی ضروری ہے، اس سلسلے میں عورتوں کی گواہی معتبر نہیں۔ زنا کے گواہی میں شریعت نے دو طرح سے سختی کی ہے، چونکہ یہ معاملہ بہت اہم ہے جس سے عزت اور عفت مجروح ہوتی ہے اور خاندانوں کے ننگ و عار کا مسئلہ سامنے آجاتا ہے۔ اولاً تو یہ شرط لگائی کہ مرد ہی گواہ ہوں، عورتوں کی گواہی کا اعتبار نہیں کیا گیا، ثانیاً چار مردوں کا ہونا ضرری قرار دیا، ظاہر ہے کہ یہ شرط بہت سخت ہے، جس کا وجود میں آنا شا ذو نادر ہی ہوسکتا ہے یہ سختی اس لئے اختیار کی گئی کہ عورت کا شوہر یا اس کی والدہ یا بیوی بہن ذاتی پرخاش کی وجہ سے خواہ مخواہ الزام نہ لگائیں، یا دوسرے بدخواہ لوگ دشمنی کی وجہ سے الزام اور تہمت لگانے کی جرأت نہ کرسکیں، کیونکہ اگر چار افراد سے کم لوگ زنا کی گواہی دیں تو ان کی گواہی نامعتبر ہے، ایسی صورت میں مدعی اور گواہ سب جھوٹے قرار دیئے جاتے ہیں اور ایک مسلمان پر الزام لگانے کی وجہ سے ان پر ” حد قذف “ جاری کردی جاتی ہے۔ سورة نور میں واضح طور پر ارشاد فرمایا : لولاجآء علیہ باربعة شھدآء فاذ لم یاتوا بالشھدآء فاولئک عنداللہ ھم الکذبون (٤٢: ٣١) جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ چار گواہ نہ لا سکیں وہ جھوٹے ہیں۔ بعض اکابر نے چار گواہوں کی ضرورت کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس معاملہ میں چونکہ دو افراد ملوث ہوتے ہیں، مرد اور عورت، تو گویا کو یہ ایک ہی معاملہ تقدیراً دو معاملوں کے حکم میں ہے اور ہر ایک معاملہ دو گواہوں کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا اس کے لئے چار گواہ ضرری ہوں گے۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ اگر وہ دونوں توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان سے تعرض مت کرو اور، اس کا مطلب یہ ہے کہ سزا دینے کے بعد اگر انہوں نے توبہ کرلی تو پھر انہیں ملامت مت کرو اور مزید سزا مت دو ، یہ مطلب نہیں کہ تب سے سزا بھی معاف ہوگئی اس لئے کہ یہ توبہ سزا کے بعد مذکور ہے، جیسا کہ فاء کی تفریع سے ظاہر ہے، ہاں اگر توبہ نہ کی ہو تو سزا کے بعد بھی ملامت کرسکتے ہیں۔ قرآن کریم کی ان دو آیتوں میں زنا کے لئے کوئی متعین حد بیان نہیں کی گئی، بلکہ صرف اتنا کہا گیا کہ ان کو تکلیف پہنچاؤ اور زنا کار عورتوں کو گھروں میں بند کردو۔ تکلیف پہنچانے کا بھی کوئی خاص طریقہ نہیں بتلایا گیا اور حکام کے صواب دید پر اس کو چھوڑ دیا گیا، ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہاں ایذاء دینے کے معنی یہ ہیں کہ ان کو زبان سے عار دلائی جائے اور شرمندہ کیا جائے اور ہاتھ سے بھی جوتے وغیرہ کے ذریعہ ان کی مرمت کی جائے، حضرت ابن عباس کا یہ قول بھی بطور تمثیل کے معلوم ہوتا ہے، اصل بات وہی ہے کہ یہ معاملہ حکام کی رائے پر چھوڑدیا گیا ہے۔ نزول کے اعتبار سے قرآن کریم کی ان دو آیتوں کی ترتیب یہ ہے شروع میں تو ان کو ایذاء دینے کا حکم نازل ہوا اور اس کے بعد خاص طور سے عورتوں کے لئے یہ حکم بیان کیا گیا کہ ان کو گھروں میں محبوس رکھا جائے یہاں تک کہ وہ عورت مر جائے، اس کی زندگی ہی میں آنیوالا حکم آجائے گا تو بطور حد کے اسی کو نافذ کردیا جائے گا۔ چنانچہ بعد میں ” وہ سبیل “ بیان کردی گئی، جس کا اللہ جل شانہ نے اس آیت میں وعدہ فرمایا تھا، حضرت ابن عباس (رض) ” سبیل “ کی تفسیر فرماتے ہیں ” یعنی الرجم للثیب والجلد للکبر “ کہ شادی شدہ کے حق میں زنا کی حد اس کو سنگسار کردینا ہے اور غیر شادی شدہ کے لئے اس کو کوڑے مارنا (بخاری، کتاب التفسیر، ص ٧٥٦) مرفوع احادیث میں بھی اس ” سبیل “ کا بیان رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وضاحت کے ساتھ ثابت ہے اور شادی شدہ، غیر شادی شدہ ہر ایک کے لئے الگ الگ حکم بیان کیا گیا ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ماعزبن مالک (رض) اور قبیلہ ازد کی ایک عورت پر زنا کی حد جاری فرمائی تھی اور یہ دونوں چونکہ شادی شدہ تھے اس لئے ان کو سنگسار کردیا گیا تھا نیز ایک یہودی کو بھی زنا کی وجہ سے رجم کیا گیا تھا اور اس کے حق میں فیصلہ توراة کے حکم پر کیا گیا تھا۔ غیر شادی شدہ کا حکم خود قرآن کریم کی سورة نور میں مذکور ہے : ” زنا کار عورت اور زنا کار مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ “ (٤٢: ٣١) شروع میں رجم کے حکم کے لئے قرآن کریم کی آیت بھی نازل کی گئی تھی، لیکن بعد میں اس کی تلاوت منسوخ کردی گئی، البتہ حکم باقی رکھا گیا۔ حضرت عمر (رض) کا ارشاد ہے : ” اللہ تعالیٰ نے محمد (علیہ السلام) کو نبی برحق بنا کر بھیجا اور ان پر کتاب بھی نازل کردی جو کچھ وحی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی، اس میں رجم کی آیت بھی تھی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا اور ہم نے بھی ان کے بعد رجم کیا، رجم کا حکم اس شخص کے لئے ثابت ہے جو زنا کرے اور وہ شادی شدہ ہو، خواہ مرد ہو یا عورت “ خلاصہ :۔ یہ کہ ان آیات میں جو حبس فی البیوت اور ایذاء کا حکم ہے وہ شرعی حد نازل ہونے پر منسوخ ہوگیا، اور اب حد زنا سو کوڑے یا رجم پر عمل کرنا لازم ہوگا، مزید تفصیل انشاء اللہ سورة نور کی تفسیر میں بیان ہوگی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَيْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْكُمْ۝ ٠ ۚ فَاِنْ شَہِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللہُ لَھُنَّ سَبِيْلًا۝ ١٥ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ فحش الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] ( ف ح ش ) الفحش والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ نِّسَاءُ والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] النساء والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔ شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے مسك إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] ، أي : يحفظها، ( م س ک ) امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہتہو نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ وفی( موت) وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس/ 46] ( و ف ی) الوافی اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ [يونس/ 46] یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینم مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

زناکاروں کی حدکابیان قول باری ہے (واللاتی یاتین الفاحشۃ من نساء کم فاشتشھدواعلیھن اربعۃ منکم ، تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو) تاآخر آیت۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ سلف میں اس بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ مذکورہ بالا آیت میں زناکار عورت کی جو سزابیان کی گئی ہے یعنی تاحکم ثانی اسے قید میں رکھاجائے یہ ابتدائی حکم تھا جو آغاز اسلام کے وقت دیا گیا تھا۔ اور اب یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے۔ ہمیں جعفربن محمد الواسطی نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان لے، انہیں ابوعبید نے، انہیں حجاج نے ابن جریج اور عثمان بن عطاء الخراسانی سے ان دونوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ قول باری (واللاتی یاتین الفاحشۃ من نساء کم) تاقول باری (سبیلا) نیز مطلقہ عورتوں کے متعلق قول باری) (ولاتخرجوھن من بیوتھن ولایخرجن الاان یاتین بفاحشۃ مبینۃ، دونوں سورة نور کے نزول سے پہلے کوڑے لگانے کے حکم پر مشتمل تھے۔ لیکن انہیں آیت (الزانیۃ والزانی فاجلدواکل واحد منھما مائۃ، جلدۃ، زناکار عورت اور زناکارمردان میں سے ہر ایک کو سوکوڑے لگاؤ) نے منسوخ کردیا اور آیت میں جس سبیل کا ذک رہے وہ زناکارعورتوں کے لیے کوڑوں اور سنگساری کی سزائیں ہیں۔ اب آئندہ کوئی عورت بدکاری کی مرتکب پائی جائے گی توحدزنا کی شرائط پوری ہوجانے پرا سے باہرلے جاکرسنگسار کردیاجائے گا۔ جعفربن محمد بن الیمان کہتے ہیں کہ ہمیں ابوعبید نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ صالح سے، انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت اور قول باری (والذان یاتیانھا منکم فاذوھما، اور تم میں سے جو اس فعل کا ارتکاب کریں ان دونوں کو تکلیف دو ) کے متعلق نقل کیا کہ عورت اگر زنا کا ارتکاب کرتی توا سے گھر میں بند کردیاجاتاحتی کہ وہیں پڑے پڑے وہ مرجاتی اور اگر مرد اس فعل قبیح کا ارتکاب کرتاتو اس کی جوتوں سے مرمت کی جاتی، سخت سست کہاجاتا اور تذلیل کی جاتی اور اس طرح اسے ایذاپہنچائی جاتی پھر یہ آیت (الزانیۃ والزانی فاجلدواکل واحد منھما مائۃ جلدۃ۔ حضرت ابن عباس (رض) نے مزید فرمایا کہ اگر یہ دونوں محصن ہوں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی بناپر اس سنگساری کی حدجاری کی جائے گی۔ یہی وہ سبیل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت (حتی یتوفاھن الموت اویجعل اللہ لھن سبیلا، یہاں تک کہ انہیں موت آجائے یا اللہ ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے) میں عورتوں کے لیے مقررکیا ہے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ آغاز اسلام میں زناکار عورت کا حکم یہی تھا جو اس مذکورہ بالاقول باری نے واجب کردیاتھا یعنی اسے قید کی سزادی جاتی یہاں تک کہ وہ مرجاتی یا اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی اور راستہ نکال دیتا۔ اس وقت عورت کو اس کے سوا اور کوئی سزانہ دی جاتی۔ آیت میں باکرہ اور ثیبہ کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حکم باکرہ اور ثیبہ دونوں قسموں کی عورتوں کے لیے عام تھا۔ قول باری (واللذان یاتیانھامنکم فاذوھما) کے متعلق حسن اور عطاء سے مروی ہے کہ اس سے مراد مرد اور عورت ہیں۔ سدی کا قول ہے کہ کنوارامرد اورکنواری عورت یعنی بن بیاہاجوڑامراد ہے۔ مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے مراددوزانی مرد ہیں۔ اس آخری تاویل کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ درست نہیں ہے اس لیے کہ پھر یہاں لفظ کو تثنیہ کی صورت میں لانے کے کوئی معنی نہیں ہوں گے وجہ یہ ہے کہ وعدہ اور وعید کا بیان ہمیشہ جمع کے صیغے سے ہوتا ہے یا پھر ان کا ذکرواحد کے لفظ سے ہوتا ہے کیونکہ واحد کا لفظ جنس ک معنی پر دلالت کرتا ہے جو سب کو شامل ہوتا ہے۔ حسن کا قول درست معلوم ہوتا ہے۔ سدی کی تاویل میں بھی احتمال موجود ہے دونوں آیتوں کا مجموعی طورپراقتضاء یہ ہے کہ عورت کے لیے زنا کی حد میں ایذادینا اور قید میں ڈال دینا دونوں باتیں شامل تھیں حتی کہ اسے موت آجاتی اور زانی مرد کی حدسخت سست کہنا اور جوتوں سے مرمت کرنا تھی کیونکہ پہلی آیت میں قید میں ڈال دینا عورت کے لیے خاص تھا اور دوسری آیت میں ایذاء دینے کے سلسلے میں مرد کے ساتھ وہ بھی مذکور تھی اس لیے عورت کے حق میں دونوں ہاتیں جمع ہوگئیں اور مرد کے لیے صرف ایذاء وہی کا ذکرہوا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ یہ دونوں آیتیں ایک ساتھ نازل ہوئی ہوں اور عورت کے لیے حبس کی سزا کا الگ سے ذکرہوا ہے لیکن ایذاپہنچانے کی سزا میں عورت اور مرد دونوں کو اکٹھا کردیا گیا۔ عورت کا الگ سے جوذکرکیاگیا ہے اس کا فائدہ یہ ہے کہ قید کی سزاصرف اس کے لیے تجویز کی گئی ہے یہاں تک کہ اسے موت آجائے۔ اس حکم میں مرد اس کے ساتھ شامل نہیں ہے۔ ایذاء پہنچا نے کی سزا میں مرد کے ساتھ اسے اس لیے اکٹھا کردیا گیا ہے کہ اس سزا میں دونوں شریک ہیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ عورت کے حق میں حبس کی سزاپہلے مقرر کی گئی پھرا س کی سزا میں اضافہ کرکے مرد پر بھی ایذاء پہنچانے کی سزاواجب کردی گئی اس طرح عورت کے لیے دوسزائیں جمع ہوگئیں اور ایذاء پہنچانے کی سزاصرف مرد کے لیے رہ گئی اگر بات اس طرح ہو تو پھر موت تک گھر میں بندرکھنایا کوئی اور راستہ پیدا کردینا عورت کے لیے حدزناء تھی لیکن جب اس کے ساتھ ایذاپہنچانا بھی لاحق کرد گیا تو یہ حکم منسوخ ہوگیا اس لیے کہ نص کے حکم کے استقرار کے بعد اس میں اضافہ نسخ کو واجب کردیتا ہے۔ کیونکہ اس وقت حبس ہی عورت کے لیے حدزنا تھی لیکن جب اس میں اضافے کا حکم بھی واردہوگیا تو حبس اس کی حداکا ایک حصہ بن گیا۔ یہ بات اس چیز کو واجب کردیتی ہے کہ گھر میں بند رکھنا ایک منسوخ سزاشمارہو۔ یہ بھی درست ہے کہ ایذا پہنچاناابتداہی سے دونوں کی سزا ہو پھر عورت کی حد میں تاموت حبس یا کسی اور صورت کا اضافہ کردیا گیا جو اللہ تعالیٰ اس کے لیے پیداکردیتایہ بات عورت کے حق میں ایذاء پہنچانے کی سزا کو منسوخ کردیتی ہے اس لیے کہ حبس کے حکم کے نزول کے بعد مذکورہ ہالاسزا عورت کے لیے حدزناکے ایک جز کے طورپر باقی رہ گئی۔ غرض مذکورہ بالاتمام وجوہات کا یہاں احتمال موجود ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ آیایہ بھی احتمال ہوسکتا ہے۔ کہ حبس کے حکم کو ساقط کرکے اسے منسوخ کردیا گیا ہو اور بعد میں تکلیف یا ایذادینے کا حکم نازل کرکے اس پر ہی اقتصار کرلیا گیا ہو۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا حبس کے حکم کو اس طریقے سے منسوخ کرنا درست نہیں ہے۔ کہ وہ بالکلیہ اٹھا لیاجائے کیونکہ ایذاد ینے کے حکم میں کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جو حبس کی نفی کا باعث بن رہا ہوکیون کہ یہ دونوں سزائیں اکٹھی ہوسکتی ہیں ۔ البتہ اسے اس طریقے سے منسوخ مانا جاسکتا ہے کہ یہ حدزنا کا ایک جزبن جائے جبکہ پہلے یہ زنا کی پوری حدشمارہوتا تھا۔ اور یہ صورت درحقیقت نسخ کی ایک شکل ہے۔ ان دونوں آیتوں کی ترتیب کے متعلق بھی دواقوال ہیں اول وہ ہے جس کی حسن سے روایت کی گئی ہے کہ قول باری (واللذان یاتیانھا منکم فاذوھما) کا نزول قول باری (واللاتی یاتین الفاحشۃ عن نساء کم) سے پہلے ہوا۔ پھر یہ حکم دیا گیا کہ تلاوت میں اسے اس کے بعد رکھا جائے اس طرح تکلیف یا ایذاء دینا مرد اور عورت دونوں کے لیے سزا کے طورپرمقرر کیا گیا اور پھر اس کے ساتھ حبس کی سزا عورت کے لیے مقررکردی گئی ۔ لیکن یہ تاویل ایک وجہ سے بہت بعید معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ آیت (واللذان یاتیا نھا منکم فاذوھما) میں حرف، الھاء، جو ضمیر تانیث ہے اس کے لیے کسی مرجع کا ہونا ضروری ہے جس کا خطاب کے اندراسم ظاہر کی صورت میں یا ایسے معہود کی شکل میں پہلے ذکر چکا ہوجومخاطب کے ہاں معلوم ومتعین ہو۔ مذکورہ بالاقول باری میں دلالت حال سے بھی یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ اس ضمیر سے مراد الفاحشۃ، ہے۔ اس سے یہ بات ضروری ہوجاتی ہے کہ یہ ضمیرلفظ، الفاحشۃ، کی طرف راجع ہوجائے جس کا ذکر آیت کے شروع میں ہوچکا ہے اس لیے کہ ایسا کیئے بغیر معنی مراد واضح کرنے اور کسی مفہوم کو واجب کرنے کے لحاظ سے سلسلہ کلام بےمعنی ہوکررہ جائے گا اس کی حیثیت قول باری (ماترک علی ظھرھا من دابۃ، پھر زمین کی پشت پر کسی چلنے والے کونہ چھوڑتا) نیزقول باری (انا انزلنہ فی لیلۃ القدر، بیشک ہم نے اسے قدر کی رات میں نازل کیا) کی طرح نہیں ہے کیونکہ دوسری آیت میں اگرچہ ضمیرمذکرکامرجع مذکور نہیں لیکن انزال کے ذکر سے یہ بات خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ قرآن ہے۔ اسی طرح پہلی آیت میں ضمیرمؤنث سے زمین کا مفہوم سمجھ میں آجاتا ہے۔ اس لیے دلالت حال اور مخاطب کے علم پر اکتفا کرتے ہوئے مرجع کا ذکرضروری نہیں سمجھا گیا۔ بہرحال زیربحث آیتوں میں ظاہر خطاب کا تقاضا ہے کہ ان دونوں آیتوں کے معانی کی ترتیب الفاظ کی ترتیب کے نہج پر ہو۔ اب یاتویہ کہاجائے کہ یہ دونوں آیتیں ایک ساتھ نازل ہوئیں یا یہ کہ اذیت کی سزاکاحکم حبس کی سزا کے حکم کے بعد نازل ہوا اگر اذیت کی سزا میں بھی عورتیں مراد ہوں جو حبس کی سزا میں مراد ہیں۔ ان دونوں آیتوں کی ترتیب کے متعلق دوسراقول سدی سے منقول ہے کہ قول باری (واللذان یاتیانھا منکم) کا حکم کنوارے مرد اور کنواری عورت یعنی بن بیا ہے جوڑے کے ساتھ مخصوص ہے۔ اور پہلی آیت کا حکم ثیبہ عورتوں کے لیے ہے تاہم یہ قول کسی دلالت کے بغیر لفظ کی تخصیص کا موجب ہے۔ اور کسی کے لیے اس تاویل کے اختیار کرنے کی گنجائش نہیں ہے جبکہ دونوں الفاظ کو ان کے مقتضیٰ کی حقیقت کی صورت میں استعمال کرنا ممکن بھی ہے۔ ا ن دونوں آیتوں کے حکم اور ان کی ترتیب کے سلسلے میں احتمال کی وجوہات میں سے جو وجہ بھی اختیار کی جائے امت کا بہرحال اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ زناء کے مرتکبین کے متعلق یہ دونوں احکام منسوخ ہوچکے ہیں۔ آیت زیربحث میں مذکورسبیل کے معنی کے متعلق سلف میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ عورتوں کے لیے اللہ نے جو سبیل مقرر کی ہے وہ غیر محصن کے لیے کوڑوں اور محصن کے لیے رجم کی سزا ہے۔ قتادہ سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ مجاہد سے ایک روایت کے مطابق قول باری (اؤیجعل اللہ لھن سبیلا) کے معنی یہ ہیں، یا ان عورتوں اوضع حمل ہوجائے۔ لیکن یہ ایک بےمعنی سی بات ہے اس لیے کہ حکم کی نوعیت یہ ہے کہ اس میں حاملہ اور غیر حاملہ دونوں قسم کی عورتوں کے لیے عموم ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ آیت میں سبیل کا ذکر سب عورتوں کے لیے تسلیم کیا جائے۔ ان دونوں حکموں کے ناسخ کے متعلق بھی اختلاف رائے ہے۔ کچھ حضرات کا یہ قول ہے کہ ان کانسخ قول باری (الزانیۃ والزانی فاجلدواکل واحد منھمامائۃ جلدۃ) کے ذریعے عمل میں آیا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥) جو آزاد عورتیں زنا کا ارتکاب کردیں، ان پر چار آزاد آدمیوں کو گواہ کرلو اور مرنے تک ان کو جیل میں ڈالے رکھو یا اللہ تعالیٰ رجم کا حکم نازل فرما دے، چناچہ پھر رجم کے حکم سے شادی کا یہ حکم منسوخ ہوگیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب اسلامی معاشرے کی تطہیر کے لیے احکام دیے جا رہے ہیں۔ مسلمان جب تک مکہ میں تھے تو وہاں کفار کا غلبہ تھا۔ اب مدینہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ حیثیت دی ہے کہ اپنے معاملات کو سنوارنا شروع کریں۔ چناچہ ایک ایک کر کے ان معاشرتی معاملات اور سماجی مسائل کو زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ اسلامی معاشرے میں عفت و عصمت کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر معاشرے میں جنسی بےراہ روی موجود ہے تو اس کی روک تھام کیسے ہو ؟ اس کے لیے ابتدائی احکام یہاں آ رہے ہیں۔ اس ضمن میں تکمیلی احکام سورة النور میں آئیں گے۔ معاشرتی معاملات کے ضمن میں احکام پہلے سورة النساء ‘ پھر سورة الاحزاب ‘ پھر سورة النور اور پھر سورة المائدۃ میں بتدریج آئے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ سورة الاحزاب اور سورة النور کو مصحف میں کافی آگے رکھا گیا ہے اور یہاں پر سورة النساء کے بعد سورة المائدۃ آگئی ہے۔ آیت ١٥ (وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ ) (فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ ج) (فَاِنْ شَہِدُوْا فَاَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوْتِ ) (حَتّٰی یَتَوَفّٰٹہُنَّ الْمَوْتُ ) اسی حالت میں ان کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔ (اَوْیَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً ) بدکاری کے متعلق یہ ابتدائی حکم تھا۔ بعد میں سورة النور میں حکم آگیا کہ بدکاری کرنے والے مرد و عورت دونوں کو سو سو کوڑے لگائے جائیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایسی لڑکیوں یا عورتوں کا تذکرہ ہے جو مسلمانوں میں سے تھیں مگر ان کا بدکاری کا معاملہ کسی غیر مسلم مرد سے ہوگیا جو اسلامی معاشرے کے دباؤ میں نہیں ہے۔ ایسی عورتوں کے متعلق یہ ہدایت فرمائی گئی کہ انہیں تاحکم ثانی گھروں کے اندر محبوس رکھا جائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14:: عورت بدکاری کا ارتکاب کرے تو شروع میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ اسے عمر بھر گھر میں مقید رکھا جائے ؛ لیکن ساتھ ہی یہ اشارہ دے دیا گیا تھا کہ بعد میں ان کے لئے کوئی سزا مقرر کی جائے گی، یا اللہ ان کے لئے کوئی اور راستہ پیدا کردے، کا یہی مطلب ہے۔ چنانچہ سورۂ نور میں مرد اور عورت دونوں کے لئے زنا کی سزا سوکوڑے مقرر کردی گئی اور آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اب اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے راستہ پیدا کردیا ہے اور وہ یہ کہ غیر شادی شدہ مرد یا عورت کو سوکوڑے لگائے جائیں گے اور شادی شدہ کو سنگسار کیا جائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(15 ۔ 16) معتبر سند سے مسند بزار میں حضرت امام المفسرین عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سورة نور کی آیت الزانیۃ الزانی کے نازل ہونے تک بد کار عورت کو بدکاری سے باز رکھنے کے لئے گھر میں تازیست بند رکھنے کا حکم تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حسب وعدہ سورة نور میں کنوارے مرد و عورت کے لئے سو کوڑے مارنے اور سال بھر کی جلا وطنی کا اور بیا ہے ہوئے مرد و عورت کے لئے سنگ سار کرنے کا حکم نازل فرمایا۔ اسی طرح مسند امام احمد (رح) صحیح مسلم اور سنن میں عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سورة نور کی آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایسی عورتوں کے تازیست گھر میں بند رکھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ نے کنوارے مرد و عورت کے لئے سو کوڑے اور برس دن کی جلاوطنی کا اور بیا ہے ہوئے مرد عورت کے لئے سو کوڑے اور سنگ سار کرنے کا حکم نازل فرما دیا اس حکم کو یاد کرلو۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے ١ سنگ ساری کے ساتھ کوڑوں کا حکم اس حدیث میں جو ہے امام احمد (رح) کا عمل بھی اس کے موافق ہے۔ باقی ائمہ کا اس میں اختلاف ہے۔ اسی طرح برس دن کی جلاوطنی کو امام ابو حنفیہ (رح) نے حاکم کی رائے پر منحصر رکھا ہے ٢۔ مفسرین کا اس میں اختلاف ہے کہ سورة نور کی آیت سے یہ آیت منسوخ ہے یا نہیں ظاہر یہی ہے کہ یہ صورت ناسخ منسوخ کی نہیں۔ کیونکہ یہ آیت سرے سے ہی ایک مدت معینہ کے عمل کے لئے تھی۔ منسوخ تو وہ ہے کہ بال قید مدت کے ایک حکم نازل ہوا اور پھر حکم سے اس پہلے حکم کا عمل موقوف کردیا جائے آیت کے دوسرے ٹکڑے میں یہ فرمایا کہ ” جو دو کرنے والے کریں تم میں وہی کام تو ان کو ستاؤ “ اس کی تفسیر میں مجاہد کا قول ہے کہ اس سے مراد بد فعلی ہے جو دو مرد آپس میں کریں۔ حد کے نازل ہونے سے پہلے ان کے سستانے کا حکم تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ان کو توبہ کرنے سے پہلے زبانی جھڑک دیا جائے اور کچھ معمولی مار پیٹ کردی جائے اب حد کے نازل ہوجانے کے بعد بعض سلف تو ان کے حق میں حد زنا کے قائل ہیں۔ ایک قول کے موافق امام شافعی کا مذہب بھی یہی ہے۔ اور بعض حد قتل کے اور بعض آگ میں جلانے یا بلند جگہ پر ہے دھکا دے کر گرا دینے کے قائل ہیں حد قتل کے باب میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے ایک مرفوع روایت ١ بھی مسند امام احمد (رح) ترمذی ابو داؤد ابن ماجہ مستدرک حاکم اور بیہقی میں اور ایک روایت ابوہریرہ (رض) سے ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں ہے۔ لیکن علماء نے ان حدیثوں میں طرح طرح کا کلام کیا ہے ہاں اتنی بات ہے کہ اس باب کی سب روایتوں کو ملایا جائے تو اس حکم کو اس طرح کی قوت ہوجاتی ہے اسی واسطے ایک روایت کے موافق امام شافعی کا مذہب یہی قرار پایا ہے ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:15) یاتین۔ مضارع۔ جمع مؤنث غائب اتیان۔ مصدر باب ضرب۔ وہ عورتیں آئیں یہاں بمعنی مرتکب ہوئیں۔ فاستشھدوا شھدین۔ فاستشھدوا۔ امر۔ جمع مذکر حاضر۔ استشھاد (استفعال) سے ۔ تم گواہ لاؤ۔ استشہاد۔ گواہ لانا۔ یا گواہ طلب کرنا۔ دونوں معنوں میں آتا ہے۔ فاحشۃ۔ اسم ۔ حد سے بڑھی ہوئی برائی۔ ایسی بےحیائی کا اثر دوسرے پر پڑے۔ زنا۔ یتوفھن۔ یتوفی۔ مضارع واحد مذکر غائب (فاعل موت) توفی مصدر۔ (باب تفعل) ھن۔ ضمیر مفعول جمع مؤنث غائب۔ وفی۔ مادہ۔ وافی۔ پورا۔ باب افعال ۔ پورا کرنا۔ یا پورا دینا باب تفعیل سے پورا پورا دینا۔ باب تفعل (توفی مصدر) پورا پورا لینا۔ قبضہ کرلینا۔ کبھی مراد روح کا قبض کرلینا ہوتا ہے۔ (باب استفعال) استیفاء پورا پورا وصول کرلینا۔ یتوفھن الموت۔ موت ان پر پورا پورا قبضہ کرلے۔ موت ان کو آلے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اوپر کی آیات میں عورتوں کے ساتھ احسان اور ان کے مہر ادا کرنے اور مردوں کے ساتھ ان کے وراثت میں شریک قرار دیکر ان کے حقوق کی حفاظت کا بیان تھا۔ اب یہاں سے عورتوں کی تادیب اور ان پر سختی کا بیان ہے تاکہ عورت اپنے آپ کو بالکل ہی آزاد نہ سمجھے (قرطبی) پہلی آیت میں زنا کار عورتوں کی سزابیان کی کہ زنا شہادت سے ثابت ہوجائے تو انہیں تاعمر گھر میں محبوس رکھا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائیں۔ یا اللہ تعالیٰ انکے بارے میں کوئی دو سری سزانازل فرمادے۔ اسلام زنا کار عورتوں کے لیے یہ پہلی سزا ہے جو بعد میں حد زنا نازل ہونے سے منسوخ ہوگئی۔ سورت نور جو سو کوڑوں کی سزا نازل ہوئی یہاں سبیلا سے اسی طرف اشارہ ہے دوسری آیت میں زانی مرد اور زنا کار عورت کے متعلق یہ حکم دیا گیا کہ ان کو اذیت دسیجائے اوذلیل کیا جائے حتی ٰ کہ تا ئب ہوجائیں یہ سزا بھی پہلی سزا کے ساتھ ہی ہے۔ بعد میں یہ دونوں سزائیں منسوخ وہ گئیں چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خذ واعنی خذ قدجعل اللہ لھن سبیلا البکر نالبکر جلد مائتہ وتغریب عام والثیب جلد مائتہ والر جم۔ کہ لو اللہ تعالیٰ نے نے کے متعلق راہ نکال دی جب کنوارا کنواری سے زنا کرے تو اس کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی چلا وطنی ہے اور شادی شدہ شادی شدہ سے زنا کرے تو انکے لیے سو کوڑے اور سنگسار ہے۔ ( مسلم۔ ابو داود) سلسلہ بیان کے لیے دیکھئے سورت نور آیت 2 (ابن کثیر قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 3 اسرار و معارف آیت 15 تا 16: زنا کی قباحت : یہاں تک ان امور میں بات چل رہی تھی جو تقسیم وراثت میں جہالت اور ظلم کی وجہ سے رواج پا چکے تھے ان کی اصلاح کے ساتھ ہی جہاں عورت کو ایک مستقل مالک اور حصہ دار کی حیثیت عطا فرمائی وہاں اس کی ذمہ داری کا احساس بھی دلایا جانا مقصود ہے یعنی جن سے حصہ پاتی ہے والدین ہوں یا خاوند یا دوسرے رشتہ داران کی عزت و ناموس بھی بہت حد تک عورت ہی کے تعاون کی محتاج ہوتی ہے اس لیے اس بارے میں عورت کو شدت سے تاکید بھی فرمائی اور یہ اہتمام بھی پیش نظر رکھا کہ شوہر کے خاندان کی عورتیں حسد وغیرہ کی وجہ سے اس پر تہمت نہ لگا سکیں فرمایا اگر تمہاری عورتوں میں سے کسی سے فاحشہ کا صدور ہو جس سے مراد زنا ہے تو ان پر اپنوں میں سے (یعنی مسلمان ، عاقل ، بالغ ، آزاد اور مذکر) چار گواہ طلب کرو حاکم یا عدالت جس کے روبرو یہ معاملہ پیش ہو کو چاہیے کہ اس پر چار گواہ جو شہادت کی اہلیت رکھتے ہیں طلب کرے اور اس بارہ میں عورت کی گواہی معتبر نہیں۔ صاحب روح المعانی نے علامہ زہری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک کی یہ سنت کہ لا تقبل الشھادۃ النساء فی الحدود۔ حدود میں عورتوں کی شہادت قابل قبول نہیں شیخین کے عہد خلافت میں بھی جاری تھی یہ آج کل جو مرد اور عورت کی برابری اور مساوات اکا شور ہے یہ ایک دھوکا ہے کہ عورت ہر وہ کام کرے جو مرد کرتا ہے یہ برابری نہیں ہے بلکہ مساوات کا اسلامی تصور اور نظریہ یہ ہے کہ عورت ہو یا مرد ہر ایک کو اس کا حق ایک جیسی آسانی سے مل جائے یعنی محض عورت ہونے کی وجہ سے اسے اپنا حق حاصل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے اب کس کا حق کیا ہے یہ اس نے مقرر فرما دیا جس نے مرد کو مرد اور عورت کو عورت پیدا فرمایا اس میں کسی کی رائے یا پسند کو دخل نہیں یہاں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ عورت کی شہادت حدود میں (جن جرائم میں سزا اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دی حاکم یا عدالت صرف شہادت لیں گے) قابل قبول نہ ہوگی اور اس کی سب سے بڑی دلیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس پر عمل ہے اگر چار گواہ شہادت دیں تو انہیں عدالت کے حکم سے گھروں میں مقید رکھو یہاں تک کہ اللہ کریم ان کے لیے کوئی راہ متعین فرما دیں۔ یا اس سے پہلے ہی ان کی زندگی پوری ہوجائے اور تم میں سے کوئی بھی دو شخص بدکاری کریں یعنی منکوحہ عورت کی تخصیص نہیں بلکہ کوئی بھی عورت اور مرد یا دونوں مرد یعنی زنا کی کوئی بھی صورت ہو یا لواطت کریں اور ان پر شہادت کا تقاضا پورا ہو تو ان کو اذیت دی جائے اب اس کا کوئی طریقہ بیان نہیں ہوا بلکہ اولاً اسے حکام کی رائے پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ جیسی مناسب جانیں سزا دیں اور عورتوں کو اس کے ساتھ گھروں میں قید بھی رکھا جائے تاآنکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا مقرر ہوجائے یا وہ مر جائیں سو وہ اللہ کریم نے اس کی سزا کا حکم نازل فرما دیا جیسا کہ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں الرجم شیب والجلد للبکر کہ شادی شدہ کے لیے رجم یعنی سنگسار اور غیر شادی شدہ کے لیے کوڑوں کی سزا۔ احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس پر عمل ثابت ہے جو معروف ہے یہاں نقل کرنے کی ضرورت نہیں اسی طرح خلفاء راشدین سے بھی ثابت ہے ایسے ہی قضائے شہوت اگر غیر فطری طریقے سے ہو تو بھی مستوجب سزا ہوگا اور اس پر حد جاری ہوگی اکثر مفسرین نے والذان سے مراد ہی لواطت کو لیا ہے حدیث شریف میں اس پر بہت سخت وعید ہے کسی حدیث میں متعدد بار لعنت آئی ہے کہیں غضب الہی سے ڈرایا گیا ہے بلکہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک روایت میں تو یہ تک موجود ہے کہ چار آدمی ایسے ہیں جن پر اللہ کریم کبھی خوش نہیں ہوتے یعنی ہر وقت غضب الہی کی زد میں رہتے ہیں پوچھا گیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ کون ہیں تو ارشاد ہوا وہ مرد جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور وہ عورتیں جو مردوں کی طرح بنتی ہیں ایسا شخص جو چوپایہ سے غیر فطری حرکت کرتا ہے اور وہ مرد جو مرد سے قضائے شہوت کرتا ہے ایسے ہی حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جس کو لواطت کرتا دیکھو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو عورت کے ساتھ غیر فطری حرکت بھی سخت قبیح حرکت ہے اور حضرت خزیمہ بن ثابت سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار فرمایا اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتے پھر فرمایا لا تاتوا النساء فی ادبارھن کہ عورتوں کے پاس غیر فطری طریقے سے مت آیا کرو حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے کہ جو بیوی سے غیر فطری حرکت کرے وہ معلون ہے سو ان تمام جرائم پر سخت ترین سزا مقرر فرمائی گئی بشرطیکہ جرم ثابت ہوجائے ورنہ محض الزام لگانے والے پر حد قذف جاری ہوگی ان افعال قبیحہ میں حد کی تعیین میں علما کی رائے میں اختلاف ہے مگر سب کے نزدیک سخت ترین سزا ہی مقرر ہے جیسے آگ میں جلا دینا دیوار گرا کر کچل دینا اونچی جگہ سے گرا دینا سنگسار کرنا یا تلوار سے قتل کردینا اور غالباً یہ بھی نوعیت کے اعتبار سے حاکم کو معین کرنا چاہئے کہ دوسروں کے لیے باعث عبرت بھی ہو ہاں اگر کسی پر سزا جاری کردی جائے اور وہ آئندہ کے لیے تو یہ بھی کرلے تو اسے پھر شرمندہ نہ کیا جائے اور اس کی تذلیل نہ کی جائے مگر یاد رہے ثابت ہوجانے پر حد جاری ہوگی توبہ سزا سے نہیں بچا سکے گی ہاں اخروی مواخذہ کے لیے مفید ہوگی یا اگر ایسی سزا ملی کہ وہ زندہ رہا مثلاً کچھ کوڑے وغیرہ لگ گئے تو پھر اسے شرمندہ نہ کیا جائے اور اس کی تذلیل نہ کی جائے مگر یاد رہے ثابت ہوجانے پر حد جاری ہوگی توبہ سزا سے نہیں بچا سکے گی ہاں اخروی مواخذہ کے لیے مفید ہوگی یا اگر ایسی سزا ملی کہ وہ زندہ رہا مثلاً کچھ کوڑے وغیرہ لگ گئے تو پھر اسے شرمندہ نہ کیا جائے لیکن اگر توبہ نہ کرے تو معاشرے میں مناسب جگہ نہیں پا سکے گا یہی حال اس مرنے والے کا ہے کہ اس کا تذکرہ کسی حقارت سے نہ کیا جائے جس نے توبہ کرلی ہو کیونکہ اللہ کریم توبہ قبول کرنے والے اور رحمت والے ہیں۔ جب اللہ نے توبہ قبول فرمائی اور اپنی رحمت سے خطا معاف کردی تو پھر لوگوں کو بھی ان کے درپئے آزار نہ ہونا چاہئے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 15 – 16 لغات القرآن : التی، وہ (مونث) ۔ یا تین، لائیں، کریں۔ الفاحشۃ، بےحیائی بدکاری۔ استشھدوا، گواہ مانگو، گواہ طلب کرو۔ امسکوا، تم روک لو۔ البیوت، (بیت) گھر۔ الذان، وہ دو مرد (تشنیہ) ۔ اذوا، تم تکلیف پہنچاؤ۔ تشریح : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جاہلیت کے دور میں یتیموں اور میراث کے معاملہ میں بڑی کوتاہیاں کی جاتی تھیں جن کی مذمت میں گذشتہ آیات نازل ہوئیں اسی طرح عورتوں کے معاملہ میں سینکڑوں رسمیں رائج تھیں جن کے ذریعہ انہیں طرح طرح سے اذیتیں دی جایا کرتی تھیں۔ آئندہ آیات میں ان ہی کی اصلاح فرمائی گئی ہے۔ ان آیات میں جو حکم نازل ہوا ہے وہ تمام مفسرین کے نزدیک ابتدائے اسلام میں زنا کار عورت کے لئے نازل کیا گیا تھا۔ مگر اللہ نے اس میں کسی اور سبیل کا بھی وعدہ کیا تھا چناچہ اللہ نے اٹھارویں پارے کی سورة نور میں ارشاد فرمایا ہے کہ زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد دونوں کو ایک ایک سو کوڑے مارے جائیں گے۔ اب شریعت اسلامیہ کا حکم یہ ہے کہ اگر شادی شادہ مرد یا شادی شدہ عورت بدکاری کریں گے تو ان کو سنگسار کیا جائے گا۔ یعنی پتھر مار کر ہلاک کیا جائے گا لیکن اگر غیر شادی شدہ ہیں تو ان کو ایک ایک سو کوڑے مارے مارے جائیں گے۔ سورة نور کی اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اب سورة نساء کی آیت 15 کا حکم منسوخ ہوگیا کیونکہ گھر میں قید رکھنے کا حکم اس وقت تک تھا جب تک یہ آیت نازل نہیں ہوئی تھی۔ سورة النساء کی سولہویں آیت میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اگر یہ بےحیائی کا خلاف فطرت کام دو مرد کرتے ہیں تو ان کو شدید اذیت دی جائے گی۔ فقہ اسلامی میں اس گندے فعل کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ اس فعل کے کرنے والوں پر لعنت کی گئی ہے تاہم اس فعل شنیع کے لیے سخت سے سخت سزائیں منقول ہیں مثلاً اس کی شدید سزاؤں میں سے ایک یہ ہے کہ ان کو آگ میں جلایا جائے۔ دیوار گرا کر کچل دیا جائے۔ اونچی جگہ سے پھینک کر سنگسار کردیا جائے یا اسے تلوار سے قتل کردیا جائے۔ سزا دینے کے بعد اگر ان دونوں نے توبہ کرلی اور اپنے افعال و اعمال کی اصلاح کرلی تو پھر خواہ مخواہ ان کے پیچھے نہ پڑا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ وہ حکم ثانی جو بعدنازل ہوا جس کو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے وہ سبیل ارشاد فرمادی ہے تم لوگ سمجھ لو اور یاد کہ ناکہ خدا کے لیے سوڈرے اور کہ خدا کے لیے سنگساری کمال فی الصحاح پس اس آیت کا حکم منسوخ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سبق ١٣ تشریح آیات : آیت نمبر ٥١ تا ٣٢ : فحاشی کو روکنے کی خاطر اور اس کی پاکیزگی اور تنظیم کی خاطر بھی اسلام نے اپنا مخصوص انداز اختیار کیا ۔ سب سے پہلے اس نے فاحشہ عورتوں کو نظر بند کرنے اور انہیں معاشرہ سے دور رکھنے کے اقدامات کئے بشرطیکہ ان پر یہ جرم ثابت ہوجائے ۔ اس کے بعد اس نے غیر فطری فعل کا ارتکاب کرنے والے مردوں یعنی لوطیوں کے بارے میں حکم دیا کہ انہیں ایذا دی جائے لیکن اس کی کوئی مقدار مقرر نہیں کی ۔ اور اس کے بعد ان لوگوں کے لئے ایک ہی سزا فرمائی یعنی سزائے حد کی سزا جس کا ذکر سورة نور میں ہوا ۔ یعنی سوکوڑے سزا اور اس کے علاوہ وہ سزائے رجم مقرر کی جس کا ذکر احادیث میں آتا ہے ۔ ان سب اقدامات کا مقصد وحدی صرف یہ تھا کہ معاشرے کو بدکاری سے پاک کیا جائے اور معاشرے کی پاکی ‘ شرافت اور عفت مالی کی حفاظت کی جائے ۔ لیکن سزا دہی کے تمام حالات میں ‘ شریعت نے ملزموں کے لئے تحفظ کا پورا پورا انتظام کیا ہے ۔ ایسا انتظام کہ جس کے ہوتے ہوئے کسی غلطی ‘ کسی ظلم اور محض ظن و گمان کی اساس پر سزا دہی ممکن ہی نہیں رہتی ۔ خصوصا ان خطرناک جرائم میں جن کے اثرات لوگوں کی رواں دواں زندگی پر پڑے ہیں ۔ (آیت) ”۔ والتی یاتین الفاحشة من نسآئکم فاستشھدوا علیھن اربعة منکم فان شھدوا فامسکوھن فی البیوت حتی یتوفھن الموت اویجعل اللہ لھن سبیلا ۔ (٥١) ترجمہ : ” تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کی مرتکب ہوں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو ‘ اور اگر چار آدمی گواہی دیدیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آجائے یا اللہ ان کیلئے کوئی راستہ نکال دے ۔ “ آیت میں نہایت ہی محتاط انداز میں قانون سازی کی گئی ہے ۔ جن عورتوں پر یہ جرم عائد کیا گیا ہے ‘ کی تحدید کردی گئی ہے ۔ (آیت) ” من نسآئکم “ یعنی مسلم عورتیں ۔ اسی طرح ان کے خلاف جو شہادت قائم ہوگی اس کی بھی تحدید کردی گئی ہے ۔ (آیت) ” منکم “ یعنی گواہ بھی مسلمان ہوں ۔ چناچہ جن ملزموں کو سزا دی جائے گی وہ صرف وہ ہوں گے جن کا جرم ثابت ہوجائے اور جن لوگوں کو بطور گواہ پیش کیا جائے گا ‘ ان کا مسلمان ہونا ضروری ہے ۔ اگر مسلمان عورتوں میں سے کوئی فحاشی کا ارتکاب کرے تو ان کے خلاف غیر مسلمانوں کی شہادت قبول نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ گواہ مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ تعداد میں بھی چار ہوں ۔ یعنی مسلم معاشرے سے ہوں ‘ اس معاشرے میں بس رہے ہوں ‘ وہ شریعت اسلامی کے تابع ہوں ۔ وہ اسلامی قیادت کے مطیع ہوں ۔ ان کے دلوں میں اسلامی شریعت کا احساس ہو ۔ اور وہ اس معاشرے کے حقوق وذمہ داریوں سے بھی آگاہ ہوں ۔ اس لئے اس معاملے میں غیر مسلمانوں کی شہادت قبول نہیں ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک غیر مسلم ایک مسلمان عورت کو محض مقدمہ میں پھنسانے کے لئے شہادت دے دے ۔ نیز ایک غیر مسلم کی امانت ‘ دیانت خدا خوفی اور مصلحت وغیرہ پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لئے کہ ایک غیر مسلم کو اسلامی معاشرے کی پاکیزگی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔ نہ اسے یہ دلچسپی ہوتی ہے کہ اسلامی معاشرے میں نظام عدالت کا میاب ہو ۔ شہادت کے سلسلے میں یہ حدود وقیود بہر حال اس وقت بھی باقی رہیں جب سزا میں تبدیلی ہوگی یعنی بعد میں جب سزا کوڑوں اور رجم میں بدل گئی ۔ (آیت) ” فان شھدوا فامسکوھن فی البیوت “۔ اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو “۔ وہ معاشرہ میں اختلاط نہ رکھیں ‘ اسے مزید گندہ نہ کریں ‘ اس میں نکاح نہ کریں اور نہ کوئی اور سرگرمی دکھائیں ۔ (آیت) ” حتی یتوفاھن الموت “۔ یہاں تک کہ انہیں موت آجائے ۔ “ وہ اسی طرح قید میں مرجائیں ۔ گھروں میں بند ہوں ۔ (آیت) ” اویجعل اللہ لھن سبیلا “۔ یا اللہ ان کے لئے کوئی راستہ نکال دے “۔ یعنی ان کی حالت میں تبدیلی کر دے یا سزا میں تبدیلی کردے ۔ یا ان کے معاملات میں کوئی اور تبدیلی لے آئے ۔ ان الفاظ سے اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ یہ حکم انتہائی اور آخری نہ تھا ۔ یہ خاص متعین وقت کے لئے تھا اور بعض خاص حالات کے لئے تھا ۔ اور اس وقت ایسے مجرموں کے لئے آخری حکم آنے کی توقعات تھیں ۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ یہ حکم سورة نور میں سو کوڑوں کی شکل میں بدل گیا اور احادیث رسول کے ذریعہ رجم میں بدل گیا لیکن شہادت اور ثبوت جرم کے سلسلے میں ملزموں کو جو ضمانتیں دی گئی تھیں وہ بدستور قائم ہیں ۔ امام احمد رحمة اللہ علیہ نے محمد ابن جعفر رحمة اللہ علیہ سعید رحمة اللہ علیہ ‘ قتادہ (رض) حسن ‘ اور ھطان بن عبداللہ الرقاشی کے واسطوں سے حضرت ابن الصامت (رض) کی یہ روایت نقل کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں : ” حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو اس کا آپ پر اثر ہوتا تھا آپ پریشان ہوجاتے تھے ‘ آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا تھا ۔ ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی آرہی تھی تو جب حال نزول وحی دور ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لو مجھ سے ‘ اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لئے راستہ نکال دیا ۔ شادی شدہ ‘ شادی شدہ کے ساتھ اور کنوارا کنواری کے ساتھ ‘ شادی شدہ کو سو کوڑے اور پھر پتھروں کے ساتھ رجم اور غیر شادی شدہ سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ۔ “ اس روایت کو امام مسلم نے قتادہ (رض) نے حسن (رض) ‘ حطان اور عبادہ ابن الصامت (رض) کے واسطہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے ۔ الفاظ یہ ہیں : ” لو مجھ سے ‘ لو مجھ سے ‘ اللہ تعالیٰ نے راستہ بنا دیا ۔ غیر شادی شدہ ‘ غیر شادی شدہ کے ساتھ سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی اور شادی شدہ ‘ شادی شدہ کے ساتھ سو کوڑے اور پتھروں کے ساتھ رجم ۔ “ ماعز اور غامدیہ کے عملی واقعات جیسا کہ صحیح مسلم میں واقعات نقل ہوئے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں رجم کی سزا دی لیکن کوڑے نہیں مارے ۔ اسی طرح یہودی اور یہودیہ کے واقعات آپ نے ان کو رجم کرنے کا فیصلہ فرمایا اور انہیں کوڑے نہیں مارے ۔ ان عملی واقعات سے معلوم ہوتا ہے ‘ آخری فیصلہ یہی تھا ۔ (آیت) ”۔ والذن یاتینھا منکم فاذوھما فان تابا واصلحا فاعرضوا عنھما ، ان اللہ کان توابا رحیما “۔ (٦١) ترجمہ : ” اور تم میں سے جو اس فعل کا ارتکاب کریں ان دونوں کو تکلیف دو ‘ پھر آکر وہ توبہ کریں اور اپنی صلاح کرلیں تو انہیں چھوڑ دو کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ “ صحیح قول یہ ہے کہ اس آیت سے مراد وہ دو مرد ہیں جو بدفعلی کا ارتکاب کریں ۔ یعنی عمل قوم لوط ۔ یہ قول مجاہد کا ہے ۔ حضرت ابن عباس (رض) ‘ سعید ابن جبیر (رض) وغیرہ نے کہا ہے کہ اذیت یوں دی جائے گی کہ انہیں گالی گلوچ اور برا بھلا کہا جائے گا اور جوتے وغیرہ مارے جائیں گے ۔ (آیت) ” فان تابا واصلح فاعرضوا عنھما “۔ ” پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کریں تو انہیں چھوڑ دو ۔ “ جس طرح بعد میں آئے گا ۔ توبہ واصلاح سے مراد ان کی زندگی میں مکمل تبدیلی ہے ۔ ان کے نقطہ نظر اور طرز عمل کی سمت کی مکمل تبدیلی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مکمل اور ہمہ جہت اصلاح کے بعد ان کی سزا موقوف ہوجاتی ہے اور سوسائٹی بھی ایسے منحرف اور بےراہ وافراد کی سزا کو جاری رکھنے پر اصرار نہیں کرتی ۔ یہاں ان کو چھوڑ دینے سے مراد یہی ہے ‘ کہ ان کی سزا کو موقوف کردیا جائے ۔ اور اس فقرے میں ایک لطیف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ (آیت) ” ان اللہ کان توابا رحیما “۔ ” اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ “ وہی ہے جس نے یہ سزا تجویز کی اور وہی ہے جو اصلاح احوال کے بعد اس سزا کو جاری رکھنا مناسب نہیں سمجھتا ۔ اس معاملے میں لوگوں کو نہ اختیار ہے کہ وہ سزا تجویز کریں اس معاملے میں قانون بنائیں اور نہ انہیں یہ اختیار ہے کہ اسے موقوف کریں ، ان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات اور قانون کے نفاذ کی کوشش کریں ۔ وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ اور وہ اصلاح پذیری کرنے والوں پر رحم بھی کرتا ہے ۔ اور اس میں دوسرا اشارہ اس طرف ہے کہ لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ تخلق باخلاق اللہ اختیار کریں ۔ اپنے اندر ربانی اوصاف واخلاق پیدا کریں ۔ اللہ توبہ کرنے والا ہے اور رحم فرمانے والا ہے تو ان کا فرض بھی یہ ہے کہ وہ باہم تعلقات میں معذرت کرنے والے کو معاف کردیں ۔ چشم پوشی سے کام لیں کہ وہ گناہ تھا جو ہوچکا اور گزر گیا ۔ اور اس کے بعد توبہ ہوگئی اور اصلاح ہوگئی ، البتہ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ مجرموں کے ساتھ نرمی کی جائے ‘ فحاشی پھیلانے والوں کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا جائے ۔ ان معاملات میں نرمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ نرمی اور مہربانی صرف ان لوگوں کے ساتھ ہوگی جنہوں نے توبہ کرلی ‘ اصلاح پذیر ہوگئے ‘ ایسے لوگوں کے بارے میں حکم یہ ہے کہ انہیں معاشرے میں قبول کیا جائے ‘ ان کو ان کے سابقہ گناہ یاد نہ دلائے جائیں ‘ انہیں طعنہ نہ دیا جائے کیونکہ انہوں نے توبہ کرلی ہے اور اصلاح کرلی ہے ۔ اس لئے اصلاح احوال کے اس عمل میں ان کے ساتھ تعاون ہونا چاہئے اور انکی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے ان کے جرائم کو بھول جانا چاہئے تاکہ سابقہ یادوں سے ان کو اذیت نہ ہو ‘ اور معاشرے میں آنے ہوئے انہیں کوئی تکلیف نہ ہو ۔ کیونکہ اگر معاشرہ ایسے لوگوں کے ماضی کو بھول نہ جائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس جرم میں ‘ اصلاح کی راہ کو چھوڑ کر دوبارہ نہ مبتلا ہوجائیں ۔ اور اس پر اصرار نہ کرنے لگ جائیں اور دنیا وآخرت کے خسارے میں نہ پڑجائیں اور معاشرہ میں فساد پھیلا کر اسے مزید گندہ نہ کریں اور معاشرہ کے لئے مزید مصیبت کا باعث نہ بنیں ۔ یہ سزا بھی زمانہ مابعد میں تبدیل ہوگئی تھی ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مرفوع حدیث اصحاب سنن نے نقل کی ہے ۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فمرایا : ” تم جسے لوطیوں کا فعل کرتے ہوئے پاو تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو ۔ “ ان احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرہ اپنی اخلاقی پاکیزگی کی خاطر کس قدر جدوجہد کرتا ہے ‘ خصوصا فحاشی سے ۔ چناچہ پہلے اسلامی معاشرہ نے اخلاقی تطہیر کی طرف بہت ہی آغاز میں توجہ شروع کردی تھی ۔ اخلاقی تطہیر کے لئے اسلام نے مدینہ میں اسلام حکومت کے قیام کا انتظار نہیں کیا ‘ کہ حکومت قائم ہوجائے اور پھر یہ حکومت شرعی قوانین کے نفاذ کا کام شروع کر دے ۔ نفاذ قانون سے پہلے سورت اسراء میں جو مکی سورت ہے زنا سے ممانعت کردی گئی تھی (آیت) ” ولا تقربوا الزنی انہ کان فاحشة ، وسآء سبیلا “۔ (٢٣) ” اور زنا کے قریب ہی نہ پھٹکو ‘ یہ بےحیائی ہے اور برا راستہ ہے ۔ “ اور سورة المومنون میں ۔ (آیت) ” قد افلح المومنون الذین ھم فی صلوتھم خاشعون والذین ھم لفروجھم حافظون الا علی ازواجھم اوماملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین “۔ ترجمہ : ” کامیاب ہوگئے وہ مومنین جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ‘ مگر بیویوں اور ان عورتوں کے ساتھ جو ان کے قبضے میں آگئی ہیں ۔ کیونکہ ان کے معاملے میں وہ قابل ملامت نہیں ہیں ۔ “ اور مزید سورت المعارج میں دوبارہ اس کا ذکر ہوا ۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ مکہ میں نہ اسلامی حکومت تھی اور نہ اسلامی انتظامیہ تھی ، اس لئے مکہ میں اسلام نے ان جرائم کی ممانعت کے باوجود ان کے لئے کوئی سزا تجویز نہیں کی ۔ ہاں جب مدینہ میں اسلامی حکومت قائم ہوگئی اور اسلامی انتظامیہ قائم ہوگئی تو اس وقت جرائم کی بیخ کنی کے لئے پھر صرف وعظ وتبلیغ اور امرونہی پر اکتفاء نہیں کیا گیا ۔ اس لئے کہ اسلام ایک حقیقت پسندانہ دین ہے ۔ اسے معلوم تھا کہ صرف ہدایات ‘ تبلیغ اور امرونہی ہی معاشرے کو گندگی سے بچانے کے لئے کافی نہیں ہیں ۔ اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ دین مملکت اور حکومت کے بغیر قائم ہی نہیں ہو سکتا ۔ اور یہ کہ دین ایک مکمل منہاج اور پورا نظام زندگی ہے ‘ جس پر لوگوں کی پوری عملی زندگی قائم ہوتی ہے ۔ دین صرف نظریاتی شعور کا نام نہیں ہے جو صرف دین دنیا تک محدود ہوتے ہیں جس کی پشت پر حکومت نہ ہو ‘ جس کا کوئی قانونی نظام نہ ہو ‘ جس کا ایک متعین منہاج نہ ہو اور جس کا معلوم ومعروف دستور نہ ہو ۔ اسلامی نظریہ حیات مکہ مکرمہ کے اندر جونہی بعض برگزیدہ لوگوں کے ذہن میں بیٹھ گیا ‘ اس نظریہ حیات نے ان دلوں کے اندر جاہلیت اور جاہلی تصورات کو چیلنج کیا ۔ اس نظریہ نے ان کی فکری تطہیر شروع کردی ۔ اور جب اسلام مدینہ میں ایک مملکت بن گیا جس کے اندر نظام شریعت نافذ ہوگیا اور اسلامی منہاج زندگی ایک متعین شکل و صورت میں سامنے آگیا تب اسلامی حکومت نے معاشرے سے فحاشی کو مٹانا شروع کیا ۔ اور اس کے لئے سزا کا نظام نافذ کیا گیا ۔ لیکن وعظ و ارشاد کا نظام بھی اپنی جگہ کام کرتا رہا ۔ اس لئے کہ اسلام فقط نظریہ ہی نہیں ہے جو صرف دل کی دنیا میں کام کرتا ہو ‘ بلکہ وہ ایک نظام مملکت بھی ہے جسے لوگوں کی عملی زندگی میں نافذ کرنا ضروری ہے ۔ لہذا نظریہ اور عمل اسلام کے دو پاوں ہیں ‘ وہ کبھی بھی ایک پاوں پر کھڑا نہیں ہو سکتا ۔ یہ شکل ہر اس دین کی رہی ہے جو اس کرہ ارض پر کبھی بھی اللہ کی جانب سے نازل کیا گیا ہے ۔ بعض لوگوں کے ذہن میں یہ غلط خیال بیٹھا ہوا ہے کہ بعض دین ایسے بھی رہے ہیں جن کی کوئی شریعت نہ تھی ؟ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ دین ہو ‘ اس کی شریعت نہ ہو ‘ اس کی حکومت نہ ہو ‘ اس لئے کہ دین زندگی کا ایک مکمل نظام ہوتا ہے اور یہ ایک عملی نظام ہوتا ہے ۔ اس میں لوگ صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں صرف اسی کی ذات سے تمام ہدایات اخذ کرتے ہیں ۔ اسی سے تصور حیات لیتے ہیں ‘ اسی سے اخلاقی قدریں لیتے ہیں اور اسی سے قانون اور عملی ہدایات لیتے ہیں اور اسی سے قانون اخذ کرکے اسے حکومت کی قوت سے نافذ کرتے ہیں ۔ جو لوگ اس نظام اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں ‘ انہیں سزا دی جاتی ہے اور اس طرح معاشرے کو جاہلیت کی گندگی سے پاک کیا جاتا ہے ۔ تاکہ دین صرف اللہ کے لئے خالص ہوجائے اور تمام اور پورا دین اللہ کا رائج ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الہ نہ ہو ۔ کسی شکل میں بھی ۔ یعنی ایسا الہ جو لوگون کا قانون ساز ہو ‘ ان کے لئے حسن وقبح کے پیمانے وضع کرتا ہو اور ان کی زندگی کی تنظیم کرتا ہو اور پھر یہ کہ انسانوں کے لئے قانون سازی کا مقام رکھتا ہو ۔ کیونکہ الہ ہوتا ہی وہ ہے جو یہ سب کام کرتا ہو ۔ انسانوں میں سے جو شخص بھی درج بالا حیثیات میں سے کوئی حیثیت اپنے لئے مخصوص کرتا ہو سمجھ لو کہ اس نے گویا الوہیت کا دعوی کرلیا ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ جو نظام زندگی اللہ کی جانب سے ہو ‘ وہ کسی بھی صورت میں ایسے شخص کو ایسے دعوی کی اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ ایسا دعوی کرے اور اس پر عمل پیرا بھی ہو ۔ لہذا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو بھی دین آئے گا وہ ایک خالص نظریہ حیات اور بعض وجدانی تصورات اپنے ساتھ لے کر آئے گا ‘ اس کے ساتھ ایک عملی شریعت ہوگی اور اس کے بعد وہ ایک نظام حکومت حاصل کرے گا اور اس میں شریعت کا نفاذ ہوگا ۔ یہی صورت حال تھی ‘ جو مدینہ طیبہ میں اسلام نے پیدا کی ، اس نے ایک مملکت کی بنیاد رکھی ‘ اس کے لئے قانون سازی کی گئی اور جرائم پر سزا دی گئی ، جس طرح اس سورت میں ان قوانیں و احکام کی تصیلات ایک ایک کرکے ہم دیکھ رہے ہیں ان احکام میں وقتا فوقتا “ تبدیلی بھی ہوتی رہی اور یہ احکام وقوانین آخری شکل اختیار کرتے رہے ۔ جس طرح اللہ نے چاہا ‘ ہوتا رہا ۔ اور اس بات میں کوئی انوکھا پن نہیں ہے کہ اسلامی ریاست معاشرہ سے فحاشی کو مٹانے کے لئے اس قدر سخت قوانین وضع کر رہی ہے اور اس کی بیخ کنی کر رہی ہے ۔ قانون سازی ‘ اس کے نفاذ ‘ سزا دہی اور تربیت اور تادیب کے ذریعہ اسلامی معاشرے کو پاک کیا جارہا ہے ۔ اس لئے کہ ہر دور میں جاہلیت کی پہلی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس میں جنسی انار کی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ‘ جیسا کہ ہمارے دور کی جاہلیت جدیدہ میں ہم ہر طرف دیکھ رہے ہیں ۔ انسان کو جنسی لحاظ سے حیوان بنادیا گیا ہے ۔ جنسی تعلق کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق نہیں رہا ہے ‘ کوئی قانون نہیں رہا ہے اور اس جنسی انار کی اور آزادانہ جنسی اختلاط کو شخصی آزادی تصور کیا جاتا ہے اور جو شخص اس کی مخالفت کرتا ہے اسے رجعت پسند کہا جاتا ہے ۔ جاہلیت کے پرستار اپنی تمام آزادیوں کو نظر انداز کرسکتے ہیں لیکن وہ اس حیوانی آزادی سے دستبردار ہونے کے لئے کسی صورت میں بھی تیار نہیں ہوتے ۔ وہ تمام دوسری آزادیاں تو چھوڑ سکتے ہیں لیکن جو شخص ان کی حیوانی جنسی آزادنی کی ضابطہ بندی کرتا ہے اور اسے پاک کرتا ہے وہ اس کے مقابلے میں آکھڑے ہوتے ہیں ۔ جاہلی معاشرے کی ایک اہم پالیسی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے تمام شعبے اخلاقی ضابطوں کی توڑ پھوڑ میں باہم معاون ہوتے ہیں ۔ یہ تمام تنظیمیں نفس انسانی کے اندر پائے جانے والے تمام فطری ضابطوں کو برباد کرنے میں لگے ہوئے ہوتے ہیں ‘ یہ لوگ لوگوں کی نظروں میں اس حیوانی جنسی بےراہ روی کو مزین بناتے ہیں اور اسے بڑے ہی خوبصورت اور پاکیزہ عنوانات کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور مختلف طریقوں سے جنسی تعلقات کے اندر ہیجان پیدا کرتے ہیں اور اسے مجبور کرتے ہیں کہ یہ تعلق کسی ضابطے کا پابند نہ رہے ۔ یہ جاہلی نظام ایک نوجوان پر سے خاندان کی طرف سے کنڑول ختم کرتا ہے بلکہ خود خاندانی نظام کو ختم کرتا ہے ‘ اور صحت مند جنسی شعور کو ذلیل ننگی جنسی بےراہ روی میں تبدیل کرتا ہے وہ اسے قابل تعریف قرار دیتا ہے بلکہ اس کی خاطر وہ عریانی کو رواج دیتا ہے اور یہ عریانی بیک وقت جسمانی جذبانی اور انداز تعبیر یعنی ادب میں بھی رواج پاتی ہے ۔ جسم ننگا ‘ جذبات ننگے اور ادب ننگا ہوجاتا ہے ۔ جب اسلام آیا تو اس وقت معاشرہ میں اس گری ہوئی جاہلیت کے تمام خدوخال موجود تھے اور اسلام کے اہداف میں سے ایک ہدف یہ تھا کہ انسان تصورات اور انسانی سوسائٹیوں کو ان گندگیوں سے پاک کر دے اور یہ خدوخال ہر جاہلی نظام میں موجود ہوتے ہیں ۔ جن لوگوں نے عرب جاہلیت کے سرخیل امرء القیس کے اشعار پڑھے ہیں تو بعینہ ویسے ہی نمونے یونانی جاہلیت میں موجود ہیں ۔ ویسے ہی نمونے رومی جاہلیت میں بھی پائے جاتے ہیں اور یہی رخ ہے آج کے تمام جاہلی آداب کا جس میں آج کے عربوں کا جاہلی ادب بھی شامل ہے ۔ اسی طرح کسی ایک جاہلی معاشرے کے رسم و رواج کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اس میں عورت کا بازاری پن ‘ عشاق چاک گریبانی ‘ مرد وزن کا بےقید اختلاط پایا جائے گا اور یہی وہ صفات ہیں جو ہر قدیم وجدید جاہلیتوں کے اندر پائی جاتی ہیں ۔ اور یہی ان سب کے درمیان قدر مشترک ہے ۔ اور یہ اوصاف ایک ہی فکر کی پیدا وار ہوتے ہیں اور باہم بالکل مماثل ہوتے ہیں ۔ تاریخ گواہ کہ یہی جنسی بےراہ روی ہے ‘ جس کی وجہ سے تہذیبوں کے اندر توڑ پھوڑ کا عمل پیدا ہوا ‘ جس سے اقوام زوال کے گڑھے میں گریں ‘ یہی صورت حال یونانی تہذیب کو پیش ہوئی ۔ اس کے بعد رومیوں کے ساتھ یہی حادثہ ہوا قدیم فارسی تہذیب کو بھی انہی اسباب نے تباہ کیا اور آج بھی مغربی تہذیب کے یورپی اور امریکی معاشرے اس جنسی بےراہ روی کے ہاتھوں توڑ پھوڑ کا شکار ہو رہے ہیں ۔ ان معاشروں کا تہذیبی زوال شروع ہوچکا ہے حالانکہ ان کی صنعتی اور تمدنی ترقی اپنے عروج پر ہے ۔ اہل غرب کے دانشمند اور دانشور اس تہذیبی زوال کے آغاز سے سخت پریشان ہیں لیکن جس طرح کہ ان کے اقوال اور تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے وہ اس زوال پذیری کے عمل کے سامنے کسی قسم کا بند باندھنے سے عاجز ہیں ۔ (١) (دیکھئے مولانا سید مودودی رحمة اللہ علیہ امیر جماعت اسلامی پاکستان کی کتاب ” الحجاب “ اس امر کے باوجود کہ وہ اپنے انجام کو اچھی طرح جان رہے ہوتے ہیں ‘ جاہلیت کے علمبردار ہر دور میں اور ہر جگہ میں اس زوال کی طرف دھکیلے چلے جاتے ہیں ۔ وہ بعض اوقات تمام انسانی آزادیوں سے دستبردار ہوجاتے ہیں ‘ یا اس کے لئے تیار ہوجاتے ہیں لیکن ان کی اس حیوانی آزادی کے سامنے اگر کوئی معمولی سی رکاوٹ آتی ہے تو وہ اس کے لئے ہر گز تیار نہیں ہوتے ۔ وہ مکمل غلامی کے لیے تو تیار ہوجاتے ہیں لیکن اس حیوانی جنسی آزادی کو ترک کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ کیا یہ آزادی ہے ۔ کیا یہ کوئی حقوق ہیں ‘ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تو انسانی مرتبے سے ‘ حیوانی زندگی کی طرف لوٹنا ہے ۔ اور حیوانی تقاضوں کی بدترین غلامی ہے ۔ بلکہ یہ لوگ حیوانوں سے بھی زیادہ گر گئے ہیں ۔ حیوانوں کی حالت تو یہ ہے کہ ان کی جنسی خواہش ایک فطری قید کے اندر مقید ہے ۔ حیوانوں کے لئے اللہ نے ایک موسم مقرر کردیا ہے جس کے اندر نر مادہ دونوں کے اندر جنسی ملاپ کی خواہش پیدا ہوتی ہے ۔ اور یہ جنسی ملاپ بھی محض تلذذ کے لئے نہیں ہوتا بلکہ فطرت کے مقاصد یعنی نسل کشی کے لئے ہوتا ہے ۔ حیوان مادہ نر کو صرف متعین وقت میں قبول کرتی ہے ۔ اور نر بھی اسی وقت آمادہ ہوتا ہے جب مادہ تیار ہو ۔ رہا انسان تو اللہ تعالیٰ نے اس کی جنسی خواہش کو اس کی عقل کے کنڑول میں دے دیا ہے اور اس کی عقل کو اس کے نظریہ کے تابع قرار دیا ہے جب بھی عقل انسانی اس کے نظریہ حیات کے کنٹرول سے باہر نکلتی ہے ۔ انسانی عقل فطری خواہش اور دباو کا مقابلہ نہیں کرسکتی وہ جسمانی تقاضوں کے سامنے کمزور پڑجاتی ہے ۔ اور ایسے حالات میں خواہشات نفسانیہ کا ضبط مشکل پڑجانا ہے اور معاشرے کو اس گندگی سے پاک کرنا محال ہوجاتا ہے ۔ یہ کام صرف نظریہ حیات ہی کرسکتا ہے جو را ہوار نفس کی زمام کی مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے ۔ اس کے بعد اس نظریہ حیات کے بل بوتے پر ایک سیاسی قوت کا وجود ضروری ہوتا ہے جو اس عقیدے اور نظریہ حیات پر مبنی ہو ‘ اور اس قوت کے ہاتھ میں پھر حکومت کا آنا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ یہ حکومت بذریعہ تربیت اور راہنمائی اور سزا دہی منحرفین کی راہ روکے اور انسان کو برے راستوں سے موڑ کر ‘ حیوانی مقام سے بلند کر دے اور وہ انسانیت کو اشراف المخلوقات کے مقام بلند تک پہنچا دے ۔ جب بھی انسان جاہلیت کے دور میں داخل ہوتا ہے ‘ اس کا کوئی نظریہ حیات نہیں ہوتا ۔ اس کے پاس جو اجتماعی حکومت بھی ہوتی ہے اس کا بھی کوئی نظریہ نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عرصہ سے مغربی جاہلیت کے دانشور چیخ رہے ہیں اور کوئی نہیں ہے جو ان کی طرف متوجہ ہو ۔ اس لئے کہ انسان محض ہوائی باتوں کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوتا ۔ جب تک ان باتوں کی پشت پر قوت نافذہ نہ ہو ‘ اسی طرح مغرب میں اہل کنیسا اور مذہبی لوگ مسلسل چیخ رہے ہیں لیکن کوئی نہیں جو ان کی بات سنے ۔ اس لئے کہ لوگ محض نظریات کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ۔ الا یہ کہ ان نظریات کی پشت پر حکومت ہو اور وہ ان کی حامی ہو ۔ وہ ان نظریات کی راہنمائی پر عمل پیرا ہو قوانین و ضوابط کو نافذ کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ انسانیت جہنم کے گڑھے کی طرف رواں دواں ہے وہ اس فطری ضابطے سے بھی آزاد ہے جو حیوان کے لئے قدرت نے خود مقرر کردیا ہے ۔ وہ نظریہ ہے ۔ وہ نظریہ ایمان اور شریعت کے بندھنوں سے بھی آزاد ہے ‘ جو اللہ نے انسان کے لئے نازل کی ہے ۔ اس مغربی تہذیب کی بربادی اور تباہی اٹل ہے ۔ ان سابقہ تاریخی تجربات کی روشنی میں جو تمام جاہلی تہذیبوں کی تاریخ میں پیش آئے چاہے بظاہر وہ پختہ اور سیملٹڈ نظر آئے چاہے بظاہر وہ وسیع الاساس نظر آئے ۔ اس لئے کہ انسان تہذیب سے بڑی اور اہم مخلوق ہے ۔ جب انسان تباہ ہوجائے تو انسانی تہذیب کو محض صنعت اور کثرت پیداوار کے بل بوتے پر نہیں بچایا جاسکتا ۔ یہ ہے اصل حقیقت اور جس وقت ہم اس کی گہرائیوں تک پہنچ گئے ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ اسلام کس قدر عظیم نظام زندگی ہے ۔ اور کیوں اس نے جنسی بےراہ روی کے لئے اس قدر سخت ترین سزائیں تجویز کی ہیں ؟ محض اس لئے کہ ” انسان “ کو ہلاکت سے بچایا جائے ۔ انسانی زندگی کو اصل انسانی بنیادوں پر استوار کیا جائے اور اس سے ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہوجائے گا کہ جو ادارے اور حکومتیں ان انسانی اساسوں کا قلع قمع کر رہی ہیں ‘ وہ انسانیت کے خلاف کس قدر عظیم جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔ وہ محض فحاشی پھیلا کر حیوانی شہوت رانی کے جذبات کو جگا کر اور عریانی کے ذریعہ جنسی بےراہ روی کو منظم کر کے ‘ اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ اس کا نام کبھی وہ فن اور فنکاری رکھتے ہیں ۔ کبھی وہ اسے آزادی کا نام دیتے ہیں ۔ اور کبھی وہ اسے ترقی پسندی کہتے ہیں ۔ لیکن ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم انسانیت کی تباہی کی ہر شکل و صورت اور ہر عنوان کے سامنے کھڑے ہوجائیں ، نصیحت وتبلیغ اور جزا وسزا دونوں کے ذریعہ اس کو روکیں یہ وہ کام ہے جسے اس دنیا میں صرف اسلام سرانجام دے رہا ہے اور یہ کام وہ اسلام کے مکمل نظام زندگی کے نفاذ کے ذریعہ کرتا ہے ۔ جو نہایت ہی قوی الاساس ہے ۔ (١) (دیکھے میری کتاب (الاسلام والسلام العالمی) کی فصل گھر کی سلامتی ۔ ہاں جنسی بےراہ روی کے خلاف ان قانونی تدابیر کے باوجود اسلام خطا کاروں کے لئے واپسی کا دروازہ بند نہیں کرتا ۔ اگر وہ توبہ کریں ‘ پاکی کی راہ اپنائیں اور واپس ہونا چاہیں تو توبہ کے دروازے کھلے ہیں بلکہ اسلام ان کی واپسی کے لئے کھلی راہ فراہم کرتا ہے ۔ وہ ان کی واپسی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ جب بھی وہ توبہ کریں اللہ تعالیٰ انکی توبہ قبول کرتا ہے ‘ اور اللہ تعالیٰ اپنے اوپر مجرموں کے لئے یہ حق لازم کرتا ہے کہ وہ ضرور توبہ قبول کرے گا ۔ صد بار اگر توبہ شکستی باز آ۔ یہ اللہ کا اس قدر عظیم کرم ہے جو انتہا کو پہنچا ہوا ہے اور اب اس میں مزید کوئی اضافہ ممکن ہی نہیں ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

احکام متعلقہ مردوزن جو فواحش کے مرتکب ہوں ان دونوں آیتوں میں زنا کاروں کے بارے میں بعض احکام بتائے ہیں اول تو یہ ارشاد فرمایا کہ جو عورتیں فاحشہ کام کر گزریں ان کے اس عمل پر چار گواہ طلب کرلو۔ جب کسی عورت کے بارے میں یہ بات سنی جائے کہ اس نے ایسا کام کیا ہے تو خبر چونکہ کانوں کان محلہ اور بستی میں گونج جاتی ہے (اگرچہ جھوٹی ہی ہو) اور یہ عورت کے لیے اور اس کے خاندان کے لیے باعث ننگ و عار بن جاتی ہے اس لیے شریعت اسلامیہ نے گواہ طلب فرمانے کا حکم دیا۔ اس قسم کے امور گواہوں کے بغیر ثابت نہیں ہوتے، جب حاکم کے پاس معاملہ چلا جائے تو وہ گواہ طلب کرے یہ گواہ صرف مرد ہوں گے، عورتوں کی گواہی اس سلسلہ میں معتبر نہیں۔ گواہ بھی چار ہوں گے اور مسلمان ہوں گے دیگر امور میں دو مردوں کی یا ایک مرد اور دو عورتیں کی گواہی معتبر ہوجاتی ہے، لیکن چونکہ یہ ننگ و ناموس اور عزت و آبرو کا معاملہ ہے اس لیے اس میں سختی کی گئی جب تک چار مرد گواہی نہ دیں اس وقت تک کوئی سزا نہیں دی جاسکتی۔ اگر چار گواہ نہ ملیں تو جن لوگوں نے یہ بات اڑائی ہے وہ سب اور خود گواہ جو چار سے کم رہ گئے ان سب پر حد قذف یعنی تہمت لگانے کی سزا نافذ کی جائے گی جو ٨٠ کوڑے ہیں، سورة نور کے پہلے رکوع میں حد قذف بیان فرما دی ہے۔ اگر کسی عورت پر زنا کی تہمت لگائی گئی اور چار مرد مسلمان گواہ قائم نہ ہو سکے تو عورت پر سزا نافذ نہ کی جائے گی۔ البتہ اگر واقعی میں اس نے ایسا کام کیا ہو جسے وہ جانتی ہے تو اللہ کے حضور میں توبہ کرے اور یہ نہ سمجھے کہ چونکہ قاضی کے پاس ثبوت نہ ہوسکا اور مجھ پر سزا نافذ کرنے کا فیصلہ نہیں دیا گیا تو میں یہ کام کرتی ہی رہوں۔ اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے۔ بندوں کو علم ہو یا نہ ہو وہ گناہوں پر سزا دے گا، لہٰذا ہر گناہ سے توبہ کرنا لازم ہے۔ اگر چار مسلمان مرد گواہی دے دیں کہ فلاں عورت نے زنا کیا ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ شادی شدہ عورت نے اگر ایسا کیا ہو تو اسے رجم کردیا جائے یعنی پتھر مار کر ہلاک کردیا جائے اور اگر شادی شدہ نہ ہو تو سو (١٠٠) کوڑے مارے جائیں یہ شریعت کا حکم ہے جو سورة نور میں مذکور ہے۔ اس سے پہلے یہ حکم تھا کہ ان عورتوں کو گھروں میں روکے رکھیں کیونکہ باہر نکلنے ہی سے عموماً زناکاری کے واقعات پیش آتے ہیں۔ یہ حکم سورة نساء میں مذکور ہے ارشاد ہے۔ (فَاَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلُ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا) (یعنی ان کو گھروں میں روکے رکھو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کو موت دیدے یا ان کے لیے کوئی راستہ نکال دے) یہ حکم سورة نور کی آیت سے منسوخ ہوگیا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے (اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا) کی تفسیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا الرجم للثیب والجلد للبکر یعنی شادی شدہ زنا کار کو سنگسار کرنا اور غیر شادی شدہ کے لیے کوڑے لگانا یہ سزا مرد عورت دونوں کے لیے ہے اس کی مزید تفصیل و توضیح انشاء اللہ تعالیٰ سورة نور کے پہلے رکوع کی تفسیر میں بیان ہوگی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17 ساتواں حکم رعیت (عورتوں کو وراثت سے حصہ ضرور دو لیکن اگر ان سے زنا سرزد ہوجائے تو ان پر شرعی حکم نافذ کرو) ۔ احکام وراثت بیان کرنے کے بعد ان عورتوں کا حکم بیان کیا گیا جن سے زنا کا رتکاب ہوجائے۔ یعنی عورتوں کو میراث سے بیشک حصہ دو لیکن اگر کسی عورت سے زنا سرزد ہوجائے تو اگر چار گواہوں کی شہادت سے ان کا جرم ثابت ہوجائے تو ان کو بند رکھو یہاں تک کہ ان کے لیے کوئی دوسرا حکم آجائے اور اگر ان کو بطور سزا کوئی تکلیف دینا چاہو تو زیادہ نہ دو اور حد اعتدال سے آگے نہ بڑھو۔ یہ حکم حد شرعی کے نزول سے پہلے تھا۔ اور اگر وہ سچی توبہ کرلیں تو پھر ان سے تعرض نہ کرو اور انہیں کچھ نہ کہو کیونکہ جو شخص گناہ کرنے کے بعد سچی توبہ کرلے اور گناہ پر اصرار نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔ وَالَّذٰنِ یَاتِیٰنِھَا مِنْکُمْ فَاٰذُوْھُمَا یہ ساتواں حکم اسی سے متعلق ہے۔ یعنی اس میں زنا ہی کا حکم مذکور ہے۔ اِنَّمَا التَّوْبَۃ عَلَی اللہِ لِلَّذِیْنَ الخ یعنی اللہ نے محض اپنے فضل وکرم سے ان لوگوں کی توبہ کو قبول کرنا اپنے ذمہ لے رکھا ہے جو نادانی میں گناہ کریں اور پھر فوراً ہی سچی توبہ کرلیں اور آئندہ کے لیے اس گناہ کے قریب بھی نہ پھٹکیں۔ وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِِلِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الخ یہ زجر اور تخویف اخروی ہے یعنی جو لوگ زندگی میں بےدھڑک اور اندھا دھند گناہ کرتے ہیں جب موت کا وقت آپہنچے اور غرغرہ کی حالت شروع ہوجائے تو توبہ کرنے لگیں تو یہ توبہ خدا کو منظور نہیں ہوگی۔ اسی طرح وہ لوگ جو حالت کفر میں مرجائیں ان کے گناہ ہرگز معاف نہیں ہوں گے اور انہیں دردناک سزا دیجائیگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں بےحیائی یعنی زنا کی مرتکب ہوں تو تم لوگ ان کے اس فعل پر اپنوں میں سے چار مردوں کی گواہی لو۔ پھر اگر وہ چاروں مسلمان مردان کے خلاف گواہی دیدیں اور اپنی آنکھوں سے زنا کے وقوع کا دیکھنا بیان کریں تو ان عورتوں کو سزا کے طور پر گھروں میں قید کردو۔ اور اس وقت تک ان عورتوں کو مقید رکھو کہ یا تو موت کے فرشتے ان کی جان قبض کرلیں اور یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور راہ مقرر کردے اور کوئی دوسرا حکم ان کے لئے تجویزکردے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حکم زنا کا فرمایا کہ چار 4 مرد مسلمان شاہد چاہئیں۔ پھر ابھی حد نازل نہ فرمائی وعدہ رکھا آخر حد نازل ہوئی۔ (موضح القرآن) مطلب یہ ہے کہ تمہاری عورتوں میں سے یعنی وہ عورتیں جو تمہاری منکوحہ ہوں جیسا کہ عام مفسرین نے کہا ہے یا تمہاری عورتوں سے مراد وہ عورتیں ہوں جو مسلمان ہوں جیسا کہ بعض نے کہا ہے۔ بہرحال تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں زنا کی مرتکب ہوں۔ یا کسی اجنبی مرد سے لواطت کرائیں یا آپس میں ایک عورت دوسری عورت سے مساحقت (چپٹی بازی) کرے فاحشہ کا لفظ ان سب باتوں کو شامل ہے۔ غرض منکوحہ عورتوں میں جب کوئی عورت اس قسم کی گندی اور فحش باتوں میں سے کسی کی مرتکب ہو تو حکام کو یا خاوندوں کو چار گواہ طلب کرنے چاہئیں۔ یہ چاروں گواہ عاقل بالغ اور مسلمان مردہوں۔ ان میں کوئی عورت نہ ہو۔ پھر اگر یہ چاروں عاقل بالغ مسلمان مرد گواہی دے دیں اور اس فعل شنیعہ کا اپنی آنکھوں سے دیکھنا بتائیں تو ایسی عورتوں کو فی الحال یہ سزا دو کہ ان کے گھروں میں مقید کردو اور گھروں سے ان کو کہیں نکلنے کی اجازت نہ دو ۔ اور یہ قید اس وقت تک رکھو کہ یا تو ان کو موت کے فرشتے قبض کرلیں یا ان کے لئے کوئی اور حکم اللہ تعالیٰ نازل فرمائے۔ ابتداء میں منکوحہ عورت کی یہی سزا مقرر ہوئی تھی بعد میں جب زنا کی حد مقرر ہوگئی اور سورة نور نازل ہوئی تو یہ حکم باقی نہ رہا۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں۔ زن فاجرہ کا یہ حکم تھا کہ اس کو گھر میں قیدرکھا جائے کہیں نکلنے نہ دیاجائے پھر اگر مرجائے تومرجائے اور زندہ رہے تو زندہ رہے۔ یہاں تک کہ سورة نازل ہوگئی۔ یہ صرف منکوحہ عورتوں کا حکم تھا۔ اس آیت میں نہ تو غیر منکوحہ کا ذکر ہے اور نہ مردوں کی سزا کا ذکر ہے۔ آگے تعمیم فرماتے ہیں اور باقی ماندہ لوگوں کا اور حکم بیان کرتے ہیں۔ (تسہیل)