Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 166

سورة النساء

لٰکِنِ اللّٰہُ یَشۡہَدُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اِلَیۡکَ اَنۡزَلَہٗ بِعِلۡمِہٖ ۚ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یَشۡہَدُوۡنَ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿۱۶۶﴾ؕ

But Allah bears witness to that which He has revealed to you. He has sent it down with His knowledge, and the angels bear witness [as well]. And sufficient is Allah as Witness.

جو کچھ آپ کی طرف اتارا ہے اس کی بابت خود اللہ تعالٰی گواہی دیتا ہے کہ اسے اپنے علم سے اُتارا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالٰی بطور گواہ کافی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah's statement إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ (Verily, We have inspired you...) (4:163) emphasized the Prophet's Prophethood and refuted the idolators and People of the Scripture who denied him. Allah said, لَّـكِنِ اللّهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَيْكَ ... But Allah bears witness to that which He has sent down unto you, meaning, even if they deny, defy and disbelieve in you, O Muhammad, Allah testifies that you are His Messenger to whom He sent down His Book, the Glorious Qur'an that, لاَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلاَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ (Falsehood cannot come to it from before it or behind it, (it is) sent down by the All-Wise, Worthy of all praise). (41:42) Allah then said, ... أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ ... He has sent it down with His knowledge, The knowledge of His that He willed His servants to have access to. Knowledge about the clear signs of guidance and truth, what Allah likes and is pleased with, what He dislikes and is displeased with, and knowledge of the Unseen, such as the past and the future. This also includes knowledge about His honorable attributes that no sent Messenger or illustrious angel can even know without Allah's leave. Similarly, Allah said, وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاء And they will never compass anything of His knowledge except that which He wills. (2:255) and, وَلاَ يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا but they will never compass anything of His knowledge. (20:110) Allah's statement, ... وَالْمَليِكَةُ يَشْهَدُونَ ... and the angels bear witness. to the truth of what you came with and what was revealed and sent down to you, along with Allah's testimony to the same. ... وَكَفَى بِاللّهِ شَهِيدًا And Allah is All-Sufficient as a Witness. Allah said, إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّواْ عَن سَبِيلِ اللّهِ قَدْ ضَلُّواْ ضَلَلاً بَعِيدًا

ہمارے ایمان اور کفر سے اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے چونکہ سابقہ آیتوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ثبوت تھا اور آپ کی نبوت کے منکروں کی تردید تھی ، اس لئے یہاں فرماتا ہے کہ گو کچھ لوگ تجھے جھٹلائیں ، تیری مخالفت خلاف کریں لیکن اللہ خود تیری رسالت کا شاہد ہے ۔ وہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنی پاک کتاب قرآن مجید و فرقان حمید تجھ پر نازل فرمایا ہے جس کے پاس باطل پھٹک ہی نہیں سکتا ، اس کتاب میں ان چیزوں کا علم ہے جن پر اس نے اپنے بندوں کو مطلع فرمانا چاہا یعنی دلیلیں ، ہدایت اور فرقان ، اللہ کی رضامندی اور ناراضگی کے احکام اور ماضی کی اور مستقبل کی خبریں ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی وہ مقدس صفتیں ہیں جنہیں نہ تو کوئ نبی مرسل جانتا ہے اور نہ کوئی مقرب فرشتہ ، بجز اس کے کہ وہ خود معلوم کرائے ۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ) 2 ۔ البقرۃ:255 ) اور فرماتا ہے آیت ( وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا ) 20-طہ:110 ) حضرت عطاء بن سائب جب حضرت ابو عبدالرحمٰن سلمی سے قرآن شریف پڑھ چکتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں تو نے اللہ کا علم حاصل کیا ہے پس آج تجھ سے افضل کوئی نہیں ، بجز اس کے جو عمل میں تجھ سے بڑھ جائے ، پھر آپ نے آیت ( انزلہ بعلمہ ) سے آخر تک پڑھی ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی شہادت کے ساتھ ہی ساتھ فرشتوں کی شہادت بھی ہے کہ تیرے پاس جو علم آیا ہے ، جو وحی تجھ پر اتری ہے وہ بالکل سچ اور سراسر حق ہے ۔ یہودیوں کی ایک جماعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتی ہے تو آپ فرماتے ہیں خدا کی قسم مجھے پختہ طور پر معلوم ہے کہ تم میری رسالت کا علم رکھتے ہو ، ان لوگوں نے اس کا انکار کر دیا پس اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری ۔ پھر فرماتا ہے جن لوگوں نے کفر کیا ، حق کی اتباع نہ کی ، بلکہ اور لوگوں کو بھی راہ حق سے روکتے رہے ، یہ صحیح راہ سے ہٹ گئے ہیں اور حقیقت سے الگ ہو گئے اور ہدایت سے ہٹ گئے ہیں ۔ یہ لوگ جو ہماری آیتوں کے منکر ہیں ، ہماری کتاب کو نہیں مانتے ، اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں ہماری راہ سے روکتے اور رکتے ہیں ، ہمارے منع کردہ کام کو کر رہے ہیں ، ہمارے احکام سے منہ پھیرتے ہیں ، انہیں ہم بخشیں گے نہ خیر و بھلائی کی طرف ان کی رہبری کریں گے ۔ ہاں انہیں جہنم کا راستہ دکھا دیں گے جس میں وہ ہمیشہ پڑے رہیں گے ۔ لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر اللہ کے رسول آ گئے ، تم اس پر ایمان لاؤ اور اس کی فرمانبرداری کرو ، یہی تمہارے حق میں اچھا ہے اور اگر تم کفر کرو گے تو اللہ تم سے بےنیاز ہے ، تمہارا ایمان نہ اسے نفع پہنچائے ، نہ تمہارا کفر اسے ضرر پہنچائے ۔ زمین و آسمان کی تمام چیزیں اس کی ملکیت میں ہیں ۔ یہی قول حضرت موسیٰ کا اپنی قوم سے تھا کہ تم اور روئے زمین کے تمام لوگ بھی اگر کفر پر اجماع کرلیں تو اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ وہ تمام جہان سے بےپرواہ ہے ، وہ علیم ہے ، جانتا ہے کہ مستحق ہدایت کون ہے اور مستحق ضلالت کون ہے؟ وہ حکیم ہے اس کے اقوال ، اس کے افعال ، اس کی شرع اس کی تقدیر سب حکمت سے پر ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢٠] قرآن علم الہی کا خزانہ ہے :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ یہ قرآن علم الہیٰ کا مخزن ہے۔ وحی کے ذریعہ انسان کو ایسی باتوں کا علم ہوا جنہیں معلوم کرنے کا اس کے پاس کوئی ذریعہ نہ تھا مثلاً دشمنوں کی سازشوں کی بروقت اطلاع، مسلمانوں کی بروقت امداد، ہنگامی پس منظر میں احکام الہی کا فوری نزول، مستقبل کے متعلق بہت سی پیشین گوئیاں جو قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ مثلاً روم کا ایران پر غلبہ، دین اسلام کی تمام ادیان پر سر بلندی، قیامت سے پہلے اور مابعد کے حالات نشر و حشر اور جنت دوزخ سے متعلق معلومات وغیرہ۔ اور اسی وحی الہیٰ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایک مبتدی اور ایک منتہی دونوں ہی قرآن سے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق فیض یاب ہوتے ہیں۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ جوں جوں انسان آیات الہی میں غور کرتا ہے نئے نئے حقائق اس کے سامنے آنے لگتے ہیں۔ اور یہ سب باتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے نازل فرمایا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت لامحدود ہے اسی طرح اس کے کلام کی پہنائیاں اور حقائق بھی لامحدود ہیں۔ [٢٢١] فرشتوں کی گواہی اس لحاظ سے قابل اعتبار ہے کہ وہ مدبرات امر ہیں اور کائنات کے جملہ امور اللہ کے اذن سے انہی کے ہاتھوں سر انجام پا رہے ہیں اور اللہ کا کلام بھی انہی کے ذریعہ نازل ہوتا ہے۔ اگرچہ فرشتوں کی گواہی کی بھی ضرورت نہیں بلکہ اللہ کی گواہی ہر لحاظ سے کافی ہے کیونکہ وہ ہر چیز کا خالق اور اس کا منتظم ہے اور فرشتے تو اسی کے حکم کے پابند ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لٰكِنِ اللّٰهُ يَشْهَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَيْكَ ۔۔ : یعنی وحی ہر پیغمبر پر آتی رہی ہے، کچھ نیا کام نہیں، پر اس کلام (قرآن مجید) میں اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص علم اتارا اور اللہ تعالیٰ اس حق کو ظاہر کر دے گا، چناچہ ظاہر ہوا کہ جس قدر ہدایت اس نبی سے ہوئی اور کسی سے نہ ہوئی۔ (موضح) یہ آیت بھی یہود کے مذکورہ سوال کے جواب میں ہے کہ اگر یہود قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کا انکار کرتے ہیں تو اس سے قرآن کا سچا ہونا مجروح نہیں ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے قرآن اپنے علم اور حکمت بالغہ کے ساتھ نازل کیا ہے، جو اس کے انتہائی کامل ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ اس کا علم ماضی، حال اور مستقبل سب کو محیط ہے۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے یہ قرآن اپنے علم سے، یعنی خوب جانتے ہوئے اتارا ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں سے بڑھ کر آپ ہی اس چیز کے اہل تھے کہ آپ پر یہ قرآن نازل کیا جاتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لٰكِنِ اللہُ يَشْہَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَيْكَ اَنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ۝ ٠ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ يَشْہَدُوْنَ۝ ٠ۭ وَكَفٰي بِاللہِ شَہِيْدًا۝ ١٦٦ۭ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ كفى الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل . ( ک ف ی ) الکفایۃ وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔ شَّهِيدُ وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٦) اہل مکہ نے کہا کہ ہم نے اہل کتاب سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق دریافت کیا تھا تو کسی نے بھی آپ کے نبی مرسل ہونے کی شہادت نہیں دی، اللہ تعالیٰ ان یہودونصاری کی تردید میں فرماتے ہیں کہ اگرچہ جبریل امین کے ذریعے سے نزول قرآن کی کوئی گواہی یہ کیوں نہ دے مگر اللہ تعالیٰ کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول برحق ہونے کی گواہی اس سے بھی بڑھ کر اور کافی ہے۔ شان نزول : (آیت) ” لکن اللہ یشہد “۔ (الخ) ابن اسحاق (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گئی، آپ نے ان سے فرمایا اللہ کی قسم تم یہ اچھی طرح جانتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں وہ بولے ہم نہیں جانتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، یعنی اللہ تعالیٰ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(166 ۔ 170) ۔ تفسیر ابن جریر، تفسیر خازن وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت سے ان آیتوں کی شان نزول جو بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کچھ یہود لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے ان سے آپ نے فرمایا کہ یہ تو تمہارا جانتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور قرآن کلام الٰہی ہے پھر تم اس کی صدیق عام لوگوں کے روبرو کیوں نہیں کرتے۔ یہود نے یہ بات سن کر آپ کے رسول ہونے اور قرآن کے اللہ کے کلام ہونے کی گواہی دینے سے انکار کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ٣ اور فرمایا اے رسول اللہ کے اگرچہ ان لوگوں نے تمہارے خلاف گواہی دے کر عام لوگوں کو بہکایا ہے لیکن اللہ اس بات کا گواہ ہے کہ تم اللہ کے رسول ہو۔ اور قرآن اللہ کا کلام ہے اور اس قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص علم اتارا ہے۔ اس لئے اہل مکہ نہ اس جیسا کلام بنا سکتے ہیں نہ اس میں پہلی کتابوں کی باتوں کو یہ اہل کتاب جھٹلا سکتے ہیں۔ لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اور وہاں سے زمین پر سب ملائکہ کے سامنے اس قرآن کا نزول ہوا ہے۔ اس واسطے سب فرشتے گواہی دیں گے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ پھر فرمایا ایک سچی گواہی سے یہ جھوٹے لوگ اگر مکر گئے تو اس سے کیا ہوتا ہے اللہ کی گواہی تمہارے رسول اور قرآن کے اللہ کا کلام ہونے کے لئے کافی ہے۔ اس کے بعد فرمایا باوجود اس قدر معتبر گواہی کے بھی یہ لوگ قرآن کے منکر اور اللہ نے جو قرآن میں اپنی رضا مندی کا راستہ ان کو بتلایا ہے اس سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی بڑی گمراہی ہے۔ پھر فرمایا کہ ایک توبہ لوگ خود گمراہ ہیں۔ دوسرے انہوں نے یہ ظلم کیا کہ اور عام لوگوں کے دل میں بھی طرح طرح کے شک ڈال کر ان کو بھی گمراہ کیا ایسے لوگ اللہ کے علم میں جہنمی ٹھہر چکے ہیں اس واسطے سوائے جہنم کے راستے کے ان کے لئے اور کوئی راستہ نہیں اور یہ اللہ پر آسان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوزخیوں کا ہمیشہ دوزخ میں رہ کر طرح طرح کے عذاب کا بھگتنا اور پھر جیتے رہنا انسان کی سمجھ کے آگے کچھ مشکل نہیں۔ اس کی قدرت کے آگے بڑے بڑے سب مشکل کام آسان ہیں۔ یہاں مختصر طور پر یہ فرمایا کہ یہ اللہ پر آسان ہے لیکن اور آیتوں میں انسان کی سمجھ کے موافق اس کی تفصیل بھی فرما دی ہے۔ چناچہ اس سورت میں اوپرگزر چکا ہے ١ کہ دوزخیوں کی جوں جوں کھال جلتی جائے گی اس کے معاوضہ میں فورا دوسری کھال بدل دی جائے گی اور سورة فاطر میں آئے گا لا یُقْضٰی عَلَیْہِمْ فَیَمُوْتُوْا (٣٥۔ ٣٦) جس کا مطلب یہ ہے کہ دوزخیوں کی قبض روح کا حکم نہ ہوگا اس لئے باوجود طرح طرح کے عذاب کے ان کی جان نہ نکلے گی۔ اوپر اللہ اور اللہ کے فرشتوں کی گواہی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے اور قرآن کے اللہ کا کلام ہونے کا ذکر فرمایا تھا۔ یہاں اہل مکہ اہل کتاب سب کو فرمایا کہ اے لوگو یہ اللہ کے رسول اللہ کا سچا کلام لے کر تمہارے پاس آئے ہیں اگر تم اس کو مان لو گے تو اس میں تمہارا بھلا ہے ورنہ اللہ کو تمہارے ایمان تمہاری عبادت کی کچھ پرواہ نہیں زمین و آسمان سب جگہ میں اللہ کی حکومت ہے اور آسمان پر تم سے زیادہ عبادت کرنے والے اللہ کے فرشتے موجود صحیح مسلم ‘ ترمذی وغیرہ میں ابوذر (رض) سے روایت ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سارے جن و انس ایمان دار اور نیک ہوجائیں تو اس سے اللہ کی بادشاہت میں کچھ بڑھ نہ جائے گا۔ اور اگر یہ سب بد ہوجائیں تو اس کی بادشاہت میں سے کچھ گھٹ نہ جائے گا ٢ حدیث کا یہ ٹکڑا آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے۔ عَلِیْمًا کا یہ مطلب ہے کہ اللہ کو سب کے نیک و بد کام ہر ایک معلوم ہیں ایک دن ان سب کی جزا و سزا ہونے والی ہے حَکِیْمًا کا یہ مطلب یہ ہے کہ اس نے یہ آخری شریعت وقت کی مناسبت سے اپنی حکمت کے موافق بھیجی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:166) لکن اللہ یشھد۔ آیات ماقبل کے مفہوم سے معلوم ہوتا ہے کہ لکن اللہ سے پہلے عبارت انھم لایشھدون (یہ لوگ آپ کی رسالت کی اور کتاب اللہ کے نازل ہونے کی شہادت نہیں دیتے تو نہ دیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے۔ شھد ب کسی کے متعلق شہادت دینا۔ شھد عند الحاکم بفلان او علیٰ فلان۔ اس نے حاکم کے سامنے فلاں کے متعلق یا فلاں کے خلاف شہادت دی۔ اللہ یشھد بما انزل الیک اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے۔ اس کتاب کی بابت (اس کے حق میں) جو اس نے نازل کی تمہاری طرف۔ انزل بعلمہ۔ کہ اس نے اتارا اسے اپنے علم سے۔ یعنی یہ کلام جو نازل کیا ہے اللہ تعالیٰ کے علم کا جلوہ گاہ ہے۔ (اس میں ان چیزوں کا علم ہے جس پر اس نے اپنے بندوں کو مطلع فرمانا چاہا) جیسے ارشاد ہے ولا یحیطون بشی من علمہ الا ب ماشاء (2:255) اور وہ اس کی منشاء کے بغیر کسی چیز کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتے) یہاں بھی علم سے مراد اللہ کا خاص علم ہے جو صرف وہی جانتا ہے۔ اور صرف اسی قدر اپنے بندوں کو دیتا ہے جتنا کہ وہ خود چاہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی وحی ہر پیغمبر آتی رہے پھر نیاکام نہیں۔ پر اس کلام میں اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص علم اتارہ اور اللہ تعالیٰ اس حق کو ظاہر کردے چناچہ ظاہر ہوا کہ جس قدرت ہدایت اس نبی سے ہوئی اور کسی سے نہیں ہوئ (موضح) یہ آیت بھی یہود کے مذکورہ سوال کے جواب میں ہے کہ اگر یہود قرآن کے کتاب الیٰ ہونے کا انکار کرتے ہیں تو اس سے قرآن کی صداقت مجروح نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ گواہی دیتا ہے جی قرآن اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور حکمت بالغہ کے ساتھ نازل کیا ہے۔ جو اس کے انتہائی کامل ہونے کی دلیل ہے یہاں بعلمہ کا لفظ بطور محارہ استعمال ہوا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے ہے فلاں نے یہ کتاب اپنے کامل علم وفضل کے ساتھ تصنیف کی ہے یعنی اپنے پورے علوم سے مدد لی ہے جو اس کتاب کے نہایت عمدہ ہونے کی دلیل ہے، کبیر یا مطلب یہ ہے کہ اس نے یہ قرآن اپنے علم سے یعنی یہ سب جانتے ہیں ہوئے اتارا ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں سے بڑھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی اس چیز کے اہل تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ قرآن نازل کیا جاتا اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم نفس ذارباری تعالیٰ سے الگ صفت ہے۔2 وکفی باللہ ای کفی اللہ والبا زائد ۃ (قرطبی) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ چند یہو دی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ تم کو میرے رسول اللہ ہونے کا خون علم ہے وہ کہنے لگے ہمیں تو اس کا علم نہیں ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٦٦۔ اہل کتاب اس آخری رسالت کا انکار کرتے ہیں ‘ حالانکہ یہ رسالت اللہ کی سنت کے عین مطابق ہے کہ اللہ تعالیٰ خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے رسولوں کو بھیجتے رہتے ہیں تاکہ وہ لوگوں کو ہدایت دیں اور تاکہ لوگوں کے پاس قیامت کے دن کوئی حجت نہ رہے اور یہ کہ اہل کتاب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل کے تمام رسل کو مانتے ہیں اور یہودی بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے قبل کے تمام رسولوں کو مانتے ہیں اور عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ سے پہلے کے تمام رسولوں کو مانتے ہیں ۔ اگر باوجود ان حقائق کے یہ لوگ مان کر نہیں دیتے تو نہ سہی (مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ اے نبی جو کچھ اس نے تم پر نازل کیا ہے اپنے علم سے نازل کیا ہے اور اس پر ملائکہ بھی گواہ ہیں اگرچہ اللہ کا گواہ ہونا بالکل کفایت کرتا ہے ۔ ) اس آیت میں قرآن کی سچائی پر اللہ کی گواہی ہے ‘ اللہ کے بعد فرشتوں کی گواہی ہے اور ان فرشتوں میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے اس قرآن کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کریم پر اتارا ۔ ان دو گواہیوں سے وہ دعوی ساقط ہوجاتا ہے جو اہل کتاب کرتے ہیں ۔ اگر اللہ گواہی دیتا ہے تو ان لوگوں کے انکار کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے ۔ اگر فرشتے گواہ ہیں تو انکا انکار چہ معنی دارد ۔ جبکہ اللہ کی شہادت ہی کفایت کرتی ہے ۔ اس شہادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیدی کیونکہ یہودی انکار حق کے ساتھ ساتھ رات دن سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں بھی مصروف تھے ۔ نیز اس شہادت کی وجہ سے اہل اسلام کو اطمینان دلانا بھی مطلوب ہے تاکہ وہ اپنے موقف پر اچھی طرح جم جائیں یہ یقین دہانی انہیں اس دور میں کی گئی جب وہ مدینہ میں نووارد تھے ۔ اس دور میں مدینہ کے یہودیوں نے اسلام اور اہل اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کا ایک طوفان برپا کر رکھا تھا اور وہ مختلف طریقوں ‘ مختلف اسالیب سے اسلام کو ختم کرنے کے درپے تھے اور قرآن کریم نے بھی اس دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں اس کا بھرپور جواب دیا ۔ یہاں آکر اب منکرین حق کو ایک تہدید آمیز دھمکی دی جاتی ہے ۔ اور اللہ اور فرشتوں کی شہادت کے بعد اب دھمکی ہی ان کے خلاف مناسب انداز ہے اس لئے کہ اس شہادت کے باوجود لوگ ہٹ دھرمی اور روگردانی میں مبتلا تھے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (لٰکِنِ اللّٰہُ یَشْھَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَیْکَ اَنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ وَ الْمَلآءِکَۃُ یَشْھَدُوْنَ وَ کَفٰی باللّٰہِ شَھِیْدًا) (لیکن اللہ تعالیٰ اس چیز کی گواہی دیتا ہے جو اس نے آپ کی طرف اپنے علمی کمال کے ساتھ اتاری اور فرشتے گواہی دیتے ہیں اور اللہ کی شہادت کافی ہے) ۔ معالم التنزیل صفحہ ١٠٥: ج ١ میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ روساء مکہ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے آپ کے بارے میں یہودیوں سے دریافت کیا کہ تمہاری کتابوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات بیان کی گئی ہیں یا نہیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم تو ان کو نہیں جانتے، تھوڑی دیر میں یہودیوں کی ایک جماعت آگئی ان سے آپ نے فرمایا کہ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم جانتے ہو میں اللہ کا رسول ہوں انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ ہم تو نہیں جانتے۔ اس پر اللہ جل شانہٗ نے یہ آیت نازل فرمائی جس میں یہ بتایا کہ آپ کی نبوت اور رسالت کی حقانیت ان کے ماننے پر موقوف نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے آپ پر جو کتاب اپنے علمی کمال کے ساتھ نازل فرمائی ہے (جو ایک عظیم معجزہ ہے) وہ اس کتاب کے ذریعہ آپ کی نبوت و رسالت کی گواہی دیتا ہے اور فرشتے بھی اسی کی گواہی دیتے ہیں اگر بیوقوفوں نے اور معاندوں نے نہ مانا تو اس سے حقیقت واقعیہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ کا گواہ ہونا ہی کافی ہے کسی اور کی تصدیق اور تسلیم کی آپ کو حاجت نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

110 یہ اگر قرآن کو نہیں مانتے اور اس پر اعتراضات کرتے ہیں تو اس سے اس کی صداقت میں کوئی فرق نہیں آسکتا اس بات کی گواہی تو خود اللہ تعالیٰ دیتا ہے کہ اس کو اسی نے ہی نازل کیا ہے کیونکہ ایسی جامع بلند مضامین والی اور معجز کتاب غیر اللہ کی طرف سے نہیں ہوسکتی اس طرح قرآن خود ہی مشہود بہ اور خود ہی مشہود علیہ ہے پھر اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا سے تخویف اخروی ہے یعنی اے یہود اب بھی وقت ہے کفر و انکار اور ضد وعناد سے باز آجاؤ اور ایمان لے آؤ ورنہ یاد رکھو اللہ کے قبضہ سے نہیں بچ سکتے ہو کیونکہ ساری کائنات اس کے تصرف وا قتدار کے تحت ہے وہ تمہیں اس کی سخت سزا دے گا۔ یَا ایُّھَاالنَّاسُ قَدْ جَاءَکُمْ الرَّسُوْلُ سے خطاب عام کر کے حضرت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی ترغیب دی کہ اس پر ایمان لاؤ اور مسئلہ توحید مان لو اور اللہ کے سوا حضرت عزیر اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کو پکارنا چھوڑ دو کیونکہ وہ الہ نہیں ہیں الہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اے پیغمبر ! یہ لوگ آپ کی نبوت کا اعتراف کریں یا نہ کریں لیکن اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ جس کو آپ کے پاس بھیجا ہے اور بھیجا بھی اپنے علم خاص اور اپنے کمال علمی کے ساتھ ہے آپ کی نبوت رسالت پر شہادت دے رہا ہے اور فرشتے بھی آپ کی نبوت پر گواہی دے رہے ہیں اور آپ کی تصدیق کر رہے ہیں اور گواہی کے لئے تو اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کافی ہے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی وحی ہر پیغمبر کو اتٓی رہی کچھ نیا کام نہیں پر اس کلام میں اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص علم اتارا اور اللہ اس حق کو ظاہر کر دے گا چناچہ ظاہر ہوا کہ جس قدر ہدایت اس نبی سے ہوئی اور کسی سے نہ ہوئی۔ (موضح القرآن) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ یہود کی ایک جماعت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ نے ان سے فرمایا واللہ میں جانتا ہوں کہ تم اس امر کو بخوبی جانتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں انہوں نے جواب دیا ہم نہیں جانتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جانیں نہ جانیں اور آپ کو مانیں یا نہ مانیں مگر اللہ تعالیٰ شہادت دیتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں اور اس کی شہادت کا ذریعہ یہ قرآن ہے جو اس نے اپنے کمال علمی اور علم خاص کے ساتھ آپ کی جانب بھیجا ہے یہ قرآن کریم ہی اللہ تعالیٰ کی شہادت ہے کیونکہ یہ کتاب اعجاز ہی اعجاز ہے جو آپ کی نبوت کے لئے ایک دلیل قاطع ہے ایسی معجز کتاب کا نازل کرنا جس کے جواب سے تمام دنیا عاجز ہے یہی آپ کی نبوت کے لئے کافی دلیل ہے اور چونکہ یہ کتاب ہم نے نازل فرمائی ہے اور علم خاص سے نازل فرمائی ہے لہٰذا یہی ہماری گواہی ہے کہ آپ ہمارے رسول ہیں۔ علم خاص سے مراد وہ مغیبات ہیں جو گزشتہ دور میں ہوچکے یا آئندہ ہونے والے ہیں اور یہ قرآن کریم ان مغیبات ماضیہ اور مستقبلہ کو شامل ہے یا علم خاص سے مراد قرآن کی تالیف و ترتیب ہے کہ جس کی چھوٹی چھوٹی سی سورت کا بھی جواب دینے سے تمام فصحا عاجز ہیں۔ یا علم خاص سے مراد وہ علم ہے جو نبوت کے لائق اور مناسب ہے اور جس علم کی مخلوق محتاج ہے اور جو مخلوق کی اصلاح کے لئے ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا علم مراد ہو اللہ تعالیٰ کی مرضیات و مکروہات کی جانب اشارہ ہو بہرحال ! اس کلام کا معجز ہونا اور انواع و اقسام کے علوم پر مشتمل ہونا جو پیغمبر آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شایان شان ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے لئے کھلی برہان ہے اور چونکہ اس قرآن کریم کو ہم نے نازل کیا ہے اس لئے اس قرآن کے ذریعہ ہم آپ کی نبوت پر شاہد ہیں۔ اگر یہ اعتراف نہیں کرتے تو نہ کریں مخلوق میں سے وہ مخلوق آپ کی تصدیق کرتی ہے جو ان سے بہتر اور برتر ہے یعنی فرشتے اس لئے کہ وہ اس کتاب کو لے کر آتے ہیں اور آپ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے ہیں اور آپ کی حفاظت و اعانت کرتے ہیں اس لئے وہ آپ کی نبوت کے مصدق اور شاہد ہیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کی شہادت کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ ان کی شہادت تو ظاہری تھی وہ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان ہی لائے تھے ۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی کی شہادت آپ کے لئے کافی ہے اور آپ کی نبوت پر جو دلیل اس نے قائم کی ہے وہی کافی ہے کوئی تسلیم کرے یا نہ کے۔ اس آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی ہے اب آگے منکروں کے توبیخ اور ظالموں کے لئے وعید مذکور ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)