Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
--- |
--- |
--- |
--- |
--- |
--- |
اَلطَّرِیْقُ کے معنی راستہ ہیں، جس پر چلا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (فَاضۡرِبۡ لَہُمۡ طَرِیۡقًا فِی الۡبَحۡرِ ) (۲۰:۷۷) پھر ان کے لیے دریا میں راستہ بنادو۔ اسی سے بطور استعارہ ہر اس مسلک اور مذہب کو طریق کہا جاتا ہے جو انسان کوئی کام کرنے کے لیے اختیار کرتا ہے عام اس سے کہ وہ فعل محمود ہو یا مذموم۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ یَذۡہَبَا بِطَرِیۡقَتِکُمُ الۡمُثۡلٰی ) (۲۰:۶۳) اور تمہارے بہتر مذہب کو نابود کردیں۔ اور امتداد میں راستہ کے ساتھ تشبیہ دے کر جھجور کے لمبے درخت کو بھی طَرِیْقَۃٌ کہہ دیتے ہیں۔ اَلطَّرْقُ کے اصل معنی مارنے کے ہیں مگر یہ ضَرْبٌ سے زیادہ خاص ہے کیونکہ طَرْقٌ کا لفظ چٹاخ سے مارنے پر بولا جاتا ہے جیسے ہتھوڑے سے لوہے کو کوٹنا بعد ازاں ضَرْبٌ کی طرح طَرْقٌ کے لفظ میں بھی وسعت پیدا ہوگئی ہے چنانچہ بطور استعارہ کہا جاتا ہے۔ طَرْقُ الْحَصیٰ: کاہن کا اپنی کہانت کے لیے کنکر مارنا۔ طَرْقُ الدَّوَابِّ: چوپائے، جانوروں کا پانی میں داخل ہوکر اسے پاؤں سے گدلا کردینا۔ طَارَقْتُ النَّعْلَ وَطَرَقْتُھَا: میں نے جوتے کے ایک پر تلہ پر دوسرا رکھ کر اسے سی دیا۔ پھر طَرْقُ النَّعْلِ کی مناسبت سے طَارَقَ بَیْنَ الدِّرْعَیْنِ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ایک زرہ کے اوپر دوسری زرہ پہننا کے ہیں۔ طَرْقُ الْخَوَافِیْ: پرند کے اندرونی پروں کا تہ بر تہ ہونا اور اَلطَّارِقُ: کے معنی ہیں: راستہ پر چلنے والا مگر عرف میں بالخصوص اس مسافر کو کہتے ہیں جو رات میں آئے چنانچہ طَرَقَ اَھْلَہٗ طُرُوْقًا کے معنی ہیں وہ رات کو آیا اور ستارے کو بھی اَلطَّارِقُ: کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بالخصوص رات کو ظاہر ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ ) (۸۶:۱) آسمان اور رات کو آنے والے کی قسم۔ شاعر نے کہا ہے۔(1) (الرجز) (۲۹۱) نَحْنُ بَنَاتُ طَارِقِ ہم طارق یعنی سردار کی بیٹیاں ہیں۔ طَوَارِقُ اللَّیْلِ: وہ مصائب جو رات کو نازل ہوں۔ طُرِقَ فُلَانٌ رات میں صدمہ پہنچا۔ شاعر نے کہا ہے۔(2) (الطّویل) (۲۹۲) کَاَنِّیْ اَنَا الْمَطْرُوْقُ دُوْنَکَ بِالَّذِیْ … طُرِقْتَ بِہٖ دُوْنِیْ وَعَیْنِیْ تَھْمُلٗ میں اس طرح بے چین ہوتا ہوں کہ وہ مصیبت جو رات کو تجھ پر آتی ہے مجھے پہنچ رہی ہے اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں۔ اور معنی ضرب یعنی جفتی کرنے کے اعتبار سے کہا جاتا ہے، طَرَقَ الْفَحْلُ النَّاقَۃَ: اونٹ کا ناقہ سے جفتی کرنا۔ اَطْرَقْتُھَا: میں نے سانڈھ کو اونٹنی پر چھوڑا۔ اِسْتَطْرَقْتُ فُلَانًا الْفَحْلَ: میں نے فلاں سے جفتی کے لیے سانڈھ طلب کیا اور یہ محاورات ضَرَبَھَا الْفَحْلُ وَاَضْرَبْتُھَا وَاسْتَضْرَبْتُہٗ کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور اس ناقہ کو جو گابھن ہونے کے قابل ہوجائے اسے طَرُوْفَۃٌ کہا جاتا ہے اور بطور کنایہ طَرُوْفَۃٌ بمعنی عورت بھی آجاتا ہے۔ اَطْرَقَ فُلَانٌ فلاں نے نگاہیں نیچی کرلیں گویا اس کی نگاہ زمین کو مارنے لگی جیساکہ مِطْرَقَۃٌ (ہتھوڑے) سے کوٹا جاتا ہے اور طَرِیْقٌ بمعنی راستہ کی مناسبت سے جَائَ تِ الْاِبِلُ مَطَارِیْقُ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی اونٹ ایک ہی راستہ سے آئے اور تَطَرَّقَ اِلٰی کَذَا کے معنی ہیں: کسی چیز کی طرف رستہ بنانا طَرَّقْتُ لَہٗ: کسی کے لیے راستہ ہموار کرنا۔ اَلطَّرِیْقُ کی جمع طُرُقٌ آتی ہے اور طَرِیْقَۃٌ کی جمع طَرَائِقُ چنانچہ آیت کریمہ: (کُنَّا طَرَآئِقَ قِدَدًا ) (۷۲:۱۱) کے معنی یہ ہیں کہ ہم مختلف مسلک رکھتے ہیں اور یہ آیت کریمہ: (ہُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ اللّٰہِ) (۳:۱۶۳) ان لوگوں کے خدا کے ہاں (مختلف اور متفاوت) درجے ہیں، کی مثل ہے یعنی جیساکہ یہاں درجات سے مراد اصحاب الدرجات ہیں اسی طرح طرائق سے اصحاب طرائق مراد ہیں اور آسمان کے طبقات کو بھی طَرَائِقُ کہا جاتا ہے قرآن پاک میں ہے: (وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا فَوۡقَکُمۡ سَبۡعَ طَرَآئِقَ ) (۲۳:۱۷) ہم نے تمہارے اوپر کی جانب سات طبقے پیدا کیے ہیں۔ رَجُلٌ مَطْرُوْقٌ: نرم اور سست آدمی پر ھُوَ مَطْرُوْقٌ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مصیبت زدہ کے ہیں یعنی مصائب نے اسے کمزور کردیا۔ جیساکہ مصیبت زدہ آدمی کو مَقْرُوْعَ یَا مَدُوْخٌ کہا جاتا ہے۔ یا یہ نَاقَۃٌ مَطْرُوْقَۃٌ کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ ذلت میں اونٹنی کے ساتھ تشبیہ دے کر بولا جاتا ہے۔
Surah:4Verse:168 |
راستے کی
(to) a way
|
|
Surah:4Verse:169 |
راستے کے
(the) way
|
|
Surah:20Verse:77 |
ایک راستہ
a path
|
|
Surah:46Verse:30 |
راستے کے
a Path
|