Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 31

سورة النساء

اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا کَبَآئِرَ مَا تُنۡہَوۡنَ عَنۡہُ نُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ نُدۡخِلۡکُمۡ مُّدۡخَلًا کَرِیۡمًا ﴿۳۱﴾

If you avoid the major sins which you are forbidden, We will remove from you your lesser sins and admit you to a noble entrance [into Paradise].

اگر تم ان بڑے گُناہوں سے بچتے رہو گے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گُناہ دُور کر دیں گے اور عزّت و بُزرگی کی جگہ داخل کریں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِن تَجْتَنِبُواْ كَبَأيِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّيَاتِكُمْ ... If you avoid the great sins which you are forbidden to do, We shall remit from you your (small) sins), meaning, if you avoid the major evil deeds that you were prohibited We will forgive you the minor evil deeds and will admit you into Paradise. This is why Allah said, ... وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلً كَرِيمًا and admit you to a Noble Entrance (i.e. Paradise). There are several Hadiths on the subject of this honorable Ayah. Imam Ahmad recorded that Salman Al-Farisi said, "The Prophet said to me, `Do you know what the day of Al-Jumu`ah is?' I said, `It is the day during which Allah brought together the creation of your father (Adam).' He said, لكِنْ أَدْرِي مَا يَوْمُ الْجُمُعَةِ لاَ يَتَطَهَّرُ الرَّجُلُ فَيُحْسِنُ طُهُورَهُ ثُمَّ يَأْتِي الْجُمُعَةَ فَيُنْصِتُ حَتَّى يَقْضِيَ الاْمَامُ صَلَتَهُ إِلاَّ كَانَ كَفَّارَةً لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ مَا اجْتُنِبَتِ الْمَقْتَلَة I know what the day of Jumu`ah is. Anyone who takes a bath and cleans himself as much as he can and then proceeds for the Friday prayer and remains quiet until the Imam finishes the prayer, all his sins in between the present and the next Friday will be forgiven, as long as major sins were avoided." Al-Bukhari recorded similar wording from Salman Al-Farisi. The Seven Destructive Sins In the Two Sahihs, it is recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَات Avoid the seven great destructive sins. The people inquired, 'O Allah's Messenger! What are they?' He said, الشِّرْكُ بِاللهِ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَالسِّحْرُ وَأَكْلُ الرِّبَا وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُوْمِنَاتِ الْغَافِلَت To join others in worship along with Allah, to kill the life which Allah has forbidden except for a just cause, magic, to consume Riba, to consume an orphan's wealth, to turn away from the enemy and flee from the battlefield when the battle begins, and to accuse chaste women, who never even think of anything that would tarnish their chastity and are good believers. Another Hadith that mentions False Witness Imam Ahmad recorded that Anas bin Malik said, "The Messenger of Allah mentioned the major sins, or was asked about the major sins. He said, الشِّرْكُ بِاللهِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْن Associating others with Allah in worship, killing the life, and being undutiful to the parents. He then said, أَلاَ أُنَبِّيُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَايِرِ Should I tell you about the biggest of the major sins? قَوْلُ الزُّورِ أَوْ شَهَادَةُ الزُّورِ The false statement - or the false testimony." Shu`bah - one of the narrators of the Hadith - said, "Most likely, in my opinion, he said, `False testimony."' The Two Sahihs recorded this Hadith from Shu`bah from Anas. Another Hadith In the Two Sahihs, it is recorded that Abdur-Rahman bin Abi Bakrah said that his father said, "The Prophet said, أَلاَ أُنَبِّيُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَايِرِ Should I inform you about the greatest of the great sins? We said, `Yes, O Allah's Messenger!' He said, الاِشْرَاكُ بِاللهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْن To join others in worship with Allah and to be undutiful to one's parents. He was reclining, then he sat up and said; أَلاَ وَشَهَادَةُ الزُّورِ أَلاَ وَقَوْلُ الزُّور And I warn you against false testimony and false speech. and he continued repeating it until we wished that he would stop." Another Hadith that mentions killing the Offspring In the Two Sahihs, it is recorded that Abdullah bin Mas`ud said, "I asked, `O Allah's Messenger! What is the greatest sin?' (in one narration the biggest sin).' He said, أَنْ تَجْعَلَ للهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَك To make a rival for Allah while He Alone created you. I said, `Then.' He said, أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْيَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَك To kill your offspring for fear that he might share your food with you. I said, `Then.' He said, أَنْ تُزَانِيَ حَلِيلَةَ جَارِك To commit adultery with your neighbor's wife. He then recited, وَالَّذِينَ لاَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا اخَرَ (And those who invoke not any other god along with Allah), until, إِلاَّ مَن تَابَ (Except those who repent)." (25:68-70) Another Hadith from Abdullah bin `Amr Imam Ahmad recorded that Abdullah bin `Amr said that the Prophet said, أَكْبَرُ الْكَبَايِرِ الاِشْرَاكُ بِاللهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ أَوْ قَتْلُ النَّفْسِ شعبة الشاك وَالْيَمِينُ الْغَمُوس The greatest sins are: To join others in worship with Allah, to be undutiful to one's parents - or to take a life. Shu`bah was uncertain of which one - (and the false oath). Recorded by Al-Bukhari, At-Tirmidhi, and An-Nasai. Another Hadith by Abdullah bin `Amr about Causing one's Parents to be Cursed Abdullah bin `Amr said that the Messenger of Allah said, إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَايِرِ أَنْ يَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْه Among the worst of the major sins is for a man to curse his own parents. They said, "How can one curse his own parents?" He said, يَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّه One curses another man's father, and that man curses his father in retaliation, or he curses someone's mother and that man curses his mother. This is the wording of Muslim. At-Tirmidhi said, "Sahih." It is recorded in the Sahih that the Messenger of Allah said, سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْر Cursing a Muslim is a sin and fighting him is Kufr.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 کبیرہ گناہ کی تعریف میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک وہ گناہ ہیں جن پر حد مقرر ہے، بعض کے نزدیک وہ گناہ جس پر قرآن میں یا حدیث میں سخت وعید یا لعنت آئی ہے، بعض کہتے ہیں ہر وہ کام جس سے اللہ نے یا اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور تحریم کے روکا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بات بھی کسی گناہ میں پائی جائے تو کبیرہ ہے۔ یہاں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ جو مسلمان کبیرہ گناہوں مثلاً شرک، حقوق والدین، جھوٹ وغیرہ سے اجتناب کرے گا، تو ہم اس کے صغیرہ گناہ معاف کردیں گے۔ سورة نجم میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے البتہ وہاں کبائر کے ساتھ فواحش (بےحیائی کے کاموں) سے اجتناب کو بھی صغیرہ گناہوں کی معافی کے لئے ضروی قرار دیا گیا ہے علاوہ ازیں صغیرہ گناہوں پر اصرار و مداومت بھی صغیرہ گناہوں کو کبائر بنا دیتی ہے اسی طرح اجتناب کبائر کے ساتھ احکام و فرائض اسلام کی پابندی اور اعمال صالحہ کا اہتمام بھی نہایت ضروری ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے شریعت کے مزاج کو سمجھ لیا تھا اس لئے انہوں نے صرف وعدہ مغفرت پر ہی تکیہ نہیں کیا بلکہ مغفرت و رحمت الہی کے یقینی حصول کے لئے مزکورہ تمام ہی باتوں کا اہتمام کیا جب کہ ہمارا دامن عمل سے تو خالی ہے لیکن ہمارے قلب امیدوں اور آرزو وں سے معمور ہیں

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٢] کبیرہ گناہ کون کون سے ہوتے ہیں :۔ احادیث میں جن کبیرہ گناہوں کا ذکر آیا ہے وہ درج ذیل ہیں : ١۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا & سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ & صحابہ نے پوچھا & یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون کون سے ہیں ؟ & فرمایا & شرک باللہ، جادو، ایسی جان کو ناحق قتل کرنا جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے، سود، یتیم کا مال کھانا، میدان جنگ سے فرار، پاکباز بھولی بھالی مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔ & (مسلم، کتاب الایمان۔ باب بیان الکبائر و اکبرہا) (بخاری، کتاب المحاربین من اہل الکفرۃ والردۃ۔ باب رمی المحصنات) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا & اللہ کے نزدیک کونسا گناہ بڑا ہے ؟ & فرمایا & یہ کہ تو کسی اور کو اللہ کے برابر کر دے حالانکہ اللہ ہی نے تجھے پیدا کیا۔ & میں نے عرض کیا & یہ تو واقعی بڑا گناہ ہے اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے ؟ & فرمایا & تو اولاد کو اس ڈر سے مار ڈالے کہ اسے کھلانا پڑے گا۔ & میں نے پوچھا & پھر کون سا گناہ بڑا ہے ؟ & فرمایا & یہ کہ تو ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرے & (بخاری، کتاب التفسیر۔ باب (فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا 22؀) 2 ۔ البقرة :22) ٣۔ سیدنا انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا تو فرمایا & بڑے گناہ یہ ہیں : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ناحق خون کرنا، والدین کو ستانا۔ & پھر فرمایا & کیا میں تمہیں بڑے سے بڑا گناہ نہ بتاؤں قول الزور، (جھوٹ کو ہیرا پھیری سے سچ بنانا) یا ایسی ہی جھوٹی گواہی دینا۔ (بخاری، کتاب الادب۔ باب عقوق الوالدین من الکبائر) الغرض کبائر کی فہرست بڑی طویل ہے۔ کبائر معلوم کرنے کے لیے درج ذیل باتوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے : ١۔ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جو موقع و محل کے لحاظ سے مزید شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ مثلاً لوگوں کا مال ناجائز طریقے سے کھانا کبیرہ گناہ ہے مگر یتیم کا مال کھانا اور بھی بڑا گناہ ہے یا داؤ فریب سے مال بیچنا گناہ ہے مگر جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنا اور بڑا گناہ بن جاتا ہے۔ عام عورتوں پر تہمت لگانا بھی بڑا گناہ ہے مگر بھولی بھالی انجان عورتوں پر تہمت لگانا مزید شدت اختیار کرجاتا ہے، اولاد کا قتل بڑا گناہ ہے مگر مفلسی کے ڈر سے اولاد کا قتل اور بھی بڑا گناہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح زنا ایک کبیرہ گناہ ہے مگر جب یہ زنا اپنی ماں، بیٹی، بہن یا دیگر محرمات سے کیا جائے تو گناہ مزید شدید ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر شادی شدہ عورت یا مرد زنا کرے گا تو یہ گناہ کنوارے مرد یا عورت سے زیادہ شدید ہوجائے گا۔ ایسے ہی ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرنا کسی دوسری عورت سے زنا کرنے کی بہ نسبت شدید ہوگا۔ یا بوڑھے آدمی کا زنا کرنا جوان آدمی کے زنا کرنے کی نسبت زیادہ شدید ہوگا اور اگر بوڑھا زانی اپنے ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرے تو کسی دوسری عورت سے زنا کرنے کی بہ نسبت اس کا گناہ تین گنا بڑھ جائے گا۔ یہی صورت باقی گناہوں کی ہوتی ہے۔ ٢۔ کسی چھوٹے گناہ کو حقیر سمجھتے ہوئے اسے مسلسل کرتے جانا بھی اسے کبیرہ گناہ بنا دیتا ہے۔ ٣۔ جس گناہ کے کام کے بعد کرنے والے پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت کا ذکر ہو۔ یا صرف اللہ کی یا صرف رسول کی لعنت کا ذکر ہو وہ بھی حسب مراتب کبیرہ گناہ ہوتا ہے۔ ٤۔ جس گناہ کی بابت یہ ذکر ہو کہ قیامت کے دن اللہ اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں یا اس سے کلام نہ کرے گا یا اس پر غصے ہوگا۔ وہ بھی کبیرہ گناہ ہوگا۔ [٥٣] یعنی بڑے گناہوں سے اجتناب کے بعد چھوٹے گناہ اللہ ویسے ہی معاف کر دے گا اور جواب طلبی نہیں کرے گا۔ لیکن اگر بڑے گناہوں سے اجتناب نہ کیا جائے تو ساتھ ہی ساتھ چھوٹے گناہوں کا بھی مواخذہ ہوگا۔ واضح رہے کہ سورة نجم کی آیت نمبر ٣٢ میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے اور وہاں سیأات کی بجائے اللہم کا لفظ آیا ہے اور اس کا معنیٰ بھی چھوٹے گناہ ہیں۔ سیدنا ابن عباس (رض) کی وضاحت کے مطابق سیأات یا لمم سے مراد وہ چھوٹے گناہ ہیں جو کسی بڑے گناہ کا سبب بنتے ہیں۔ مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا & آنکھ کا زنا ہے، کان کا بھی، زبان کا بھی اور ہاتھ پاؤں کا بھی۔ پھر فرج یا ان کی تصدیق کردیتا ہے یا تکذیب & (بخاری، کتاب الاستیذان، باب زنا الجوارح دون الفرج) گویا آنکھ کا زنا غیر محرم کی طرف دیکھنا، پاؤں کا اس کے پاس چل کر جانا، زبان کا اس سے شہوانی گفتگو کرنا، نفس کا زنا کی خواہش کرنا ہے۔ اب اگر زنا اس سے صادر ہوجاتا ہے تو باقی چھوٹے گناہ بھی برقرار رہیں گے اور اگر بچ جاتا ہے تو یہ چھوٹے گناہ معاف کردیئے جائیں گے بشرطیکہ وہ نیک اعمال بھی بجا لانے والا ہو تو ان نیک اعمال کی وجہ سے یہ چھوٹے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ ۔۔ : کبیرہ گناہ وہ ہیں جن کے متعلق قرآن یا حدیث میں صاف طور پر دوزخ کی وعید آئی ہو، یا اللہ کے غصے کا اظہار ہوتا ہو، یا شریعت میں ان پر حد مقرر کی گئی ہو اور ” سَیِّءَاتُّ “ وہ گناہ ہیں جن سے صرف منع کیا گیا ہو اور ان پر وعید وارد نہ ہوئی ہو۔ (رازی۔ ابن کثیر) نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ : یعنی اگر تم کبائر سے اجتناب کرتے رہو گے تو ہم تمہارے صغیرہ گناہ تمہارے نیک اعمال کی وجہ سے معاف فرما دیں گے۔ بعض روایات میں کبائر کا شمار بھی آیا ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا، جوا، شراب نوشی اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا وغیرہ، مگر ان کی کوئی تحدید نہیں ہے، یہ سات سے ستر بلکہ سات سو تک بھی ہوسکتے ہیں اور بعض علماء نے اپنی کتابوں میں کبیرہ گناہوں کو جمع بھی کیا ہے، جن کا ذکر قرآن یا حدیث میں آیا ہے، جیسے امام ذہبی (رض) کی ” اَلْکَبَاءِرُ “ اور امام ہیثمی (رض) کی ” اَلزَّوَاجِرْ عَنِ اقْتَرِافِ الْکَبَاءِرِ “ مزید دیکھیے سورة نجم (٣٢)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Righteous Deeds: Kaffarah کَفَارَہ of Minor Sins Kaffarah is what makes amends, expiation. So the meaning is that righteous deeds will be taken as Kaffarah for minor sins which will thus be written off, resulting in reward instead of punishment and Paradise instead of Hell. This is in accordance with authentic ahadith where it has been stated that when a person makes wudu for salah, the act of washing each part of his body becomes the Kaffarah for sins; the washing of the face becomes the Kaffarah for sins committed by the eye, the ear, the nose; gargling becomes the Kaffarah for the sins of the tongue; washing feet a washes way the sins of the feet - and when he walks towards the masjid, every step he takes brings with it the Kaffarah of sins. Major Sins are forgiven by Taubah تَوبَہ alone From the verse, we find that the expiation of sins through right¬eous deeds such as wudu, salah and the rest, which appear in ahadith, concerns minor sins. As for major sins, they are not forgiven without Taubah (Repentance); and for minor sins, the condition is that one should have made the effort to stay away and remain safe from major sins. This leaves us with a note of warning - if someone, while staying involved in major sins, goes on performing his wudu& and salah, then this wudu& and salah and other righteous deeds will not at all expiate for even his minor sins, let alone the major ones. It is a warning that when a person appears on the fateful Day of Resurrection, carrying the heavy burden of his major and minor sins, he will find no helping hand to make his burden any lighter. It will be recalled that some major sins were mentioned in the previous verses alongwith the warning of severe punishment for those who commit them. It is a peculiar style of the Holy Qur&an that when it warns of punishment against a sin, it is generally followed by some aspect of persuasion towards obedience. In the present verse too, a particular Divine reward has been mentioned and people have been persuaded to acquire it by staying away from major sins, in which case, Allah Almighty will forgive their minor sins on His own. Thus, cleansed of all sins, major and minor, one could look forward to entering the home of honour and peace, the garden of Paradise. The two kinds of sins This verse tells us that there are two kinds of sins. Some of them are kabirah, that is, major sins; others are saghirah صغیرہ ، (termed as Saiyyat, in this verse) that is, minor sins. He, who musters enough courage and succeeds in staying away from major sins, has been given a promise by Allah Almighty that He will forgive his minor sins on His own. Now, the act of staying away from major sins also includes the act of fulfilling all obligations (fard and wajib) because neglecting or aban¬doning obligations is a major sin in itself. Thus, we come to the conclu¬sion that if one dutifully fulfills all obligations and succeeds in saving himself from all major sins, Allah Almighty will overlook his minor sins. Defining Major and Minor Sins The word, |"Kaba&ir|" used in the verse is the plural of &kabirah& meaning &major sins.& Before we proceed further, we should understand the nature and identification of &major sins&. Also, we should know the definition of minor sins, and their number. Being an impor-tant subject, scholars of the Muslim community have devoted regular books to throw light on this subject from various angles. Let us, first of all, realize that sin, in the absolute sense, is the name of an act which is against the command and the will of Allah Almighty. Starting from this particular point, you will be able to see that the sin known as &saghirah& or, technically, a minor sin, is, in fact, no minor sin for that matter. To disobey Allah Almighty and to oppose His will is, invariably, a grave crime. Therefore, based on this view, a large number of scholars of the Muslim community have ruled that every disobedience of Allah and every opposition to His will is nothing but &kabirah& or major sin. The distinction between &kabirah& and &saghirah&, major and minor sins, is made only when these are compared to each other. It is in this sense that the blessed Companion, Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) has been reported to have said: کُل ما نھی عنہ فھو کبیر which means that &Any act forbidden by the Shari’ ah is a major sin. In short, a sin which is technically known as minor does not mean that people should go about indulging in it neglectfully, indolently or just ignore it as something ordinary. On the contrary, the fact is that a minor sin, if done with nerve or heedlessness, does not remain minor anymore - it becomes a major sin. A good example of a major and a minor sin, as given by some sage, is that of a small scorpion and a big scorpion, or that of a large ember and a tiny spark, for man cannot bear the pain given by any of these. Therefore, Muhammad ibn Ka&b al-Qurazi said that the greatest act of worship offered for Allah is to give up sins. The ` ibadah or worship by people, who offer prayers and remember Allah, yet do not give up sins, is not accepted. The famous mystic, Fudayl ibn &Ayad said: &The lighter you take a sin to be, the greater it will become with Allah as a crime.& The most righteous elders of the Muslim community used to say: Every sin is a courier of kufr which invites people to manners and morals typical of disbelievers. According to the Musnad of Ahmad, Sayyidna ` A&ishah (رض) wrote a letter to Sayyidna Mu` awiyah (رض) which she said that a servant of Allah who disobeys Allah Almighty finds his fans become fault-finders, and friends turn into enemies. Heedlessness towards sins is the cause of man&s permanent ruination. It appears in an authentic hadith that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: When a true believer falls in sin, a black dot appears on his heart. If, after that, he repents and seeks forgiveness from Allah, this dot disappears. If he does not repent, this dot keeps on increasing, so much so that it covers his whole heart. In the Qur&an, the name given to this dot is &rayn&, as in كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَ‌انَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ that is, their evil deeds have rusted their hearts - 83:14. However, it is necessary that there be a method to distinguish between sins in terms of corruption they cause, evil results they bring and harmful outcome they produce. Thus, it is because of this need to differentiate that a certain sin is called &major& and a certain other &minor&. Major Sins The definition of &kaba&ir&, as indicated in the Qur&an and Hadith and as explained by the most revered elders, is that a sin on which a Hadd or punishment has been prescribed in the Qur&an and/or Sunnah to be enforced in this present life or on which words of curse or la&nah have appeared, or on which stern warning of Hell has been mentioned, are all major sins. Similarly, every sin the evil outcome of which is equal to or more than a major sin shall be counted as a major sin. Also, a sin done with a rebellious attitude or done as a permanent habit is also included in the major sins. Someone said before Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that the number of major sins was seven. He said: &Not seven. Say seven hundred, which is better.& In his book Al-Zawajir, Imam Ibn Hajr al-Makki (رح) has given a list of all such sins with their full explanations, sins which are included under kaba` ir in accordance with the definition given above. The number of major sins listed in his book reaches upto four hundred and sixty seven. The truth of the matter is that some scholars have considered it sufficient to count prominent major sins only and thus the number they have come up with is lower. Others who went in details and dealt with all divisions and subdivisions of the subject came up with a higher number. Therefore, this is not much of a contradiction. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has himself pointed to many sins as being major. Then, as appropriate under given circumstances, he has also named them in threes and sixes and sevens or even more elsewhere. From this, the scholars of the Muslim community came to the conclusion that the purpose is not to determine any particular number as a universal statement. Rather, each number mentioned in a hadith relates to particular occasions or circumstances where that particular number was deemed appropriate in the given situation. In a hadith of al-Bukhari and Muslim, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been reported to have said: I warn you against the top ones from among the major sins. They are three in number - to associate a created being as a partner in the divinity of Allah, to disobey parents and to give false witness or to lie. In yet another narration of al-Bukhari and Muslim, it has been reported that someone asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as to what could be the greatest of all sins. He said: &That you ascribe partners to Allah although He has created you.& He was then asked as to the greatest of all sins after that. He said: &That you kill your child for fear of his sharing in your sustenance and that you will have to feed him.& He was again asked as to the greatest of all sins after that. He said: &Committing adultery with the wife of your neighbour.& Since the protection of the family of a neighbour is the responsibility of all human beings very much like the protection of one&s own family, therefore, the gravity of this crime becomes twofold. According to yet another hadith reported by al-Bukhari and Muslim, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &That someone uses abusive language for his parents is also one of the major sins.& Surprised, the noble Companions who asked: &0 Messenger of Allah, how is it possible that someone starts using abusive language against his very own parents?& He said: &Yes. A person abuses the parents of another person as a result of which the later abuses the parents of the former. This too is as if he had abused his own parents, because he was the one who became the cause of those abuses.& As in a narration of Sahib a1-Bukhari, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has counted - shirk (ascribing partners to Allah), unjust killing, eating up of the property of an orphan by false means, devouring income from interest, deserting the battlefield of jihad, false accusation against chaste women, disobedience to parents and the desecration of the Holy Ka&bah - among major sins. In some hadith narrations, the eventuality - that a person winds up living in a country of disbelievers (dar al-kufr) and emigrates to a country of believers (dar al-Islam), but later, leaves the country to which he has migrated and goes back to live into the country of disbelievers - has also been ruled as a major sin. There are other narrations of ahadith where some of the forms of behaviour cited below have been included in the list of major sins, such as, taking a false oath, holding back water in excess of one&s need and refusing to share it with those who need it, to learn magic, and to practice magic. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said, &Drinking is the greatest of major sins&; he also said: &Drinking is the mother of all shameful deeds,& because once drunk, man can fall into any conceiv¬able evil. There is another hadith where he said: &The gravest major sin is that one imputes to his Muslim brother a fault which stains his character.& According to one hadith, one who brackets two salahs (time-bound prescribed prayers) at one time without an excuse approved by the Shari’ ah has committed a major sin. It means that he did not perform a salah at the time it was due, but performed it as qada (missed) prayer along with another salah. Some ahadith narrations declare that losing hope in the mercy of Allah Almighty is also a major sin; and so it will be in the event if one becomes careless or daring enough to forget all about His punishment and retribution. Another narration rules that making a will to bring loss to an inheritor or to reduce his share in the inheritance is also one of the major sins. And it appears in a narration from the Sahib of Muslim that the Holy Prophet once spoke the words: &Destitutes, losers, they are ruined.& He repeated this three times. Sayyidna Abu Dharr al Ghifari (رض) asked: &0 Messenger of Allah, who are these unfortu¬nate people?& He replied: &One: a person who lets his trouser or wrap or shirt or robe hang all the way down below his ankles; two: one who spends something in the way of Allah, then publicizes his favour; three: one who, inspite of his old age, indulges in shameful deeds; four: one who, despite holding a position of authority, tells lies; five: one who, despite having a family, waxes proud; six: one who gives his hand of allegiance in the hands of a worthy Imam or master just for the sake of material gains. Concluding in the same vein, we refer to another hadith from al-Bukhari and Muslim which proclaims that the back-biter will not be admitted into the Paradise. And a hadith in Nasa` i and the Misnad of Ahmad enlarges on the theme by saying that some kinds of people will not be admitted into the Paradise, that is, the drinker, the disobeyer of parents, the unjustified severer of relations with kinsmen, the public¬izer of a favour, the diviner of the unseen through jinns, satans and other mediums and the dayyuth (دَیُّوث), a wittol or cuckold who is so contented with his shamelessness that he never stops his wife and family members from going the way of immodesty. And a hadith from the Sahih of Muslim says that la&nah or the curse of Allah is for one who sacrifices an animal for anyone other than Allah.

ربط آیات : اس آیت سے پہلی آیات میں چند بڑے بڑے گناہوں کا ذکر اور ان میں مبتلا ہونے والوں پر شدید عذاب کا بیان ہے، قرآن کریم کا مخصوص انداز بیان یہ ہے کہ جب کسی جرم پر سزا سے ڈرایا جاتا ہے جسے ترہیب کہتے ہیں تو اس کے ساتھ ترغیب کا پہلو بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ جو شخص اس جرم سے باز آئے گا اس کے لئے یہ انعامات و درجات ہیں۔ اس آیت میں بھی ایک خاص انعام خداوندی ذکر کر کی ترغیب دی گئی ہے وہ یہ کہ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے بچ گئے تو تمہارے چھوٹے گناہوں کو ہم خود معاف کردیں گے اور اس طرح تم ہر طرح کے بڑے چھوٹے صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے پاک و صاف ہو کر عزت و راحت کے اس مقام میں داخل ہو سکو گے جس کا نام جنت ہے۔ خلاصہ تفسیر جن کاموں سے تم کو (شرع میں) منع کیا جاتا ہے (یعنی گناہ کے کام) ان میں سے جو بھاری بھاری کام ہیں (یعنی بڑے بڑے گناہ ہیں) اگر تم ان سے بچتے رہو تو (اس بچنے پر ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے اعمال حسنہ کے کرنے سے جب کہ وہ مقبول ہوجائیں) ہم تمہاری خفیف برائیاں (یعنی چھوٹے چھوٹے گناہ جو کہ دوزخ میں لے جاسکتے ہیں) تم سے دور (یعنی معاف) فرما دیں گے (پس دوزخ سے محفوظ رہو گے) اور ہم تم کو ایک معزز جگہ (یعنی بہشت) میں داخل کردیں گے۔ معارف و مسائل گناہوں کی دو قسمیں :۔ آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ گناہوں کی دو قسمیں ہیں، کچھ کبیرہ، یعنی بڑے گناہ اور کچھ صغیرہ یعنی چھوٹے گناہ اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اگر کوئی شخص ہمت کر کے کبیرہ گناہوں سے بچ جائے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ان کے صغیرہ گناہوں کو وہ خود معاف فرما دیں گے۔ کبیرہ گناہوں سے بچنے میں یہ بھی داخل ہے کہ تمام فرئاض و واجبات کو ادا کرے، کیونکہ فرض و واجب کا ترک کرنا خود ایک کبیرہ گناہ ہے، تو حاصل یہ ہوا کہ جو شخص اس کا اہتمام پورا کرے کہ تمام فرائض و واجبات ادا کرے اور تمام کبیرہ گناہوں سے اپنے آپ کو بچا لے، تو حق تعالیٰ اس کے صغیرہ گناہوں کا کفارہ کردیں گے۔ اعمال صالحہ صغائر کا کفارہ ہوجاتے ہیں :۔ کفارہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اعمال صالحہ کو صغیرہ گناہوں کا کفارہ بنا کر اس کا حساب بیباق کردیں گے، اور بجائے عذاب کے ثواب اور بجائے جہنم کے جنت نصیب ہوگی ........ جیسے احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ جب کوئی شخص نماز کے لئے وضو کرتا ہے تو ہر عضو کے دھونے کے ساتھ ساتھ گناہوں کا کفارہ ہوگیا چہرہ دھویا تو آنکھ، کان، ناک وغیرہ کے گناہوں کا کفارہ ہوگیا، کلی کرلی تو زبان کے گناہوں کا کفارہ ہوگیا پاؤں دھوئے تو پاؤں کے گناہ دھل گئے، پھر جب وہ مسجد کی طرف چلتا ہے تو ہر قدم پر گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ اعمال صالحہ صغائر کا کفارہ ہوجاتے ہیں :۔ کفارہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اعمال صالحہ کو صغیرہ گناہوں کا کفارہ بنا کر اس کا حساب بیباق کردیں گے اور بجائے عذاب کے ثواب اور بجائے جہنم کے جنت نصیب ہوگی ........ جیسے احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ جب کوئی شخص نماز کے لئے وضو کرتا ہے تو ہر عضو کے دھونے کے ساتھ ساتھ گناہوں کا کفارہ ہوگیا، چہرہ دھویا تو آنکھ، کان، ناک وغیرہ کے گناہوں کا کفارہ ہوگیا، کلی کرلی تو زبان کے گناہوں کا کفارہ ہوگیا، پاؤں دھوئے تو پاؤں کے گناہ دھل گئے، پھر جب وہ مسجد کی طرف چلتا ہے تو ہر قدم پر گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ کبیرہ گناہ صرف توبہ سے معاف ہوتے ہیں :۔ آیت سے معلوم ہوا کہ وضو، نماز وغیرہ اعمال صالحہ کے ذریعہ گناہوں کا کفارہ ہونا جو روایات حدیث میں مذکور ہے اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں اور کبیرہ گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے اور صغیرہ کی یہ شرط ہے کہ آدمی ہمت اور کوشش کر کے کبیرہ گناہوں سے بچ گیا ہو ........ معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کبیرہ گناہوں میں مبتلا رہتے ہوئے وضو اور نماز ادا کرتا رہے تو محض وضو نماز یا دوسرے اعمال صالحہ سے اس کے صغیرہ گناہوں کا بھی کفارہ نہیں ہوگا اور کبیرہ تو اپنی جگہ میں ہی ........ اس لئے کبیرہ گناہوں کا ایک بہت بڑا ضرر خود ان گناہوں کا وجود ہے جس پر قرآن و حدیث کی شدید وعیدیں ائٓی ہیں اور وہ بغیر سچی توبہ کے معاف نہیں ہوتے، اس کے علاوہ دوسری محرومی یہ بھی ہے کہ ان کی وجہ سے چھوٹے گناہ بھی معاف نہیں ہوں گے اور یہ شخص محشر میں کبائر و صغائر کے بوجھ میں لدا حاضر ہوگا اور کوئی اس وقت اس کا بوجھ ہلکا نہ کرسکے گا۔ گناہ اور اس کی دو قسمیں صغائر، کبائر :۔ آیت میں کبائر کا لفظ آیا ہے، اس لئے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ گناہ کبیرہ کسے کہتے ہیں اور وہ کل کتنے ہیں اور صغیرہ گناہ کی کیا تعریف ہے اور اس کی تعداد کیا ہے ؟ علماء امت نے اس مسئلہ پر مختلف انداز میں مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ گناہ کبیرہ اور صغیرہ کی تقسیم اور ان کی تعریفات سے پہلے یہ خوب سمجھ لیجئے کہ مطلق گناہ نام ہے ہر ایسے کام کا جو اللہ تعالیٰ کے حکم اور مرضی کے خلاف ہو، اسی سے آپ کو یہ اندازہ بھی ہوجائے گا کہ اصطلاح میں جس گناہ کو صغیرہ یعنی چھوٹا کہا جاتا ہے، درحقیقت وہ بھی چھوٹا نہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی مرضی کی مخالفت ہر حالت میں نہایت سخت و شدید جرم ہے اور اس کی مرضی کی مخالفت کبیرہ ہی ہے ........ کبیرہ اور صغیرہ کا فرق صرف گناہوں کے باہمی مقابلہ اور موازنہ کی وجہ سے کیا جاتا ہے، اسی معنی میں حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ کل مانھی عنہ فھو کبیرة یعنی جس کام سے شریعت اسلام میں منع کیا گیا ہے وہ سب کبیرہ گناہ ہیں۔ خلاصہ :۔ یہ ہے کہ جس گناہ کو اصطلاح میں صغیرہ یا چھوٹا کہا جاتا ہے اس کے یہ معنی کسی کے نزدیک نہیں ہیں کہ ایسے گناہوں کے ارتکاب میں غفلت یا سستی برتی جائے اور ان کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کیا جائے بلکہ صغیرہ گناہ کو بیباکی اور بےپرواہی کے ساتھ کیا جائے، تو وہ صغیرہ بھی کبیرہ ہوجاتا ہے۔ کسی بزرگ نے فرمایا کہ چھوٹے گناہ اور بڑے گناہ کی مثال محسوسات میں ایسی ہے جیسے چھوٹا بچھو اور بڑا بچھو، یا آگ کے بڑے انگارے اور چھو وٹی چنگاری کہ انسان ان دونوں میں سے کسی کی تکلیف کو بھی برداشت نہیں کرسکتا، اسی لئے محمد بن کعب قرطبی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ گناہوں کو ترک کیا جائے جو لوگ نماز، تسبیح کے ساتھ گناہوں کو نہیں چھوڑتے ان کی عبادت مقبول نہیں اور حضرت فضیل بن عیاض نے فرمایا کہ تم جس قدر کسی گناہ کو ہلکا سمجھو گے اتنا ہی وہ اللہ کے نزدیک بڑا جرم ہوجاوے گا اور سلف صالحین نے فرمایا کہ ہر گناہ کفر کا قاصد ہے، جو انسان کو کافرانہ اعمال و اخلاق کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اور مسند احمد میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے حضرت معاویہ (رض) کو ایک خط میں لکھا کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے تو اس کے مداح بھی مذمت کرنے لگتے ہیں اور دوست بھی دشمن ہوجاتے ہیں، گناہوں سے بےپرواہی انسان کے لیے دائمی تباہی کا سبب ہے ........ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے پھر اگر توبہ اور استغفار کرلیا تو یہ نقطہ مٹ جاتا ہے اور اگر توبہ نہ کی تو یہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔” یعنی ان کے دلوں پر زنگ لگا دیا ان کے اعمال بد نے “ (٣٨: ٤١) البتہ گناہوں کے مفاسد اور نتائج بد اور مضر ثمرات کے اعتبار سے ان کے آپس میں فرق ضروری ہے اس فرق کی وجہ سے کسی گناہ کو کبیرہ اور کسی کو صغیرہ کہا جاتا ہے۔ گناہ کبیرہ :۔ گناہ کبیرہ کی تعریف قرآن و حدیث اور اقوال سلف کی تشریحات کے ماتحت یہ ہے کہ جس گناہ پر قرآن میں کوئی شرعی حد یعنی سزا دنیا میں مقرر کی گئی ہے یا جس پر لعنت کے الفاظ وارد ہوئے ہیں یا جس پر جہنم وغیرہ کی وعید آئی ہے وہ سب گناہ کبیرہ ہیں، اسی طرح ہر وہ گناہ بھی کبیر میں داخل ہوگا جس کے مفاسد اور نتائج بد کسی کبیرہ گناہ کے برابریا اس سے زائد ہوں، اسی طرح جو گناہ صغیرہ جرأت و بےباکی کے ساتھ کیا جائے یا جس پر مداومت کی جائے تو وہ بھی کبیرہ میں داخل ہوجاتا ہے۔ ابن عباس کے سامنے کسی نے کبیرہ گناہوں کی تعداد سات بتلائی تو آپ نے فرمایا سات نہیں سات سو کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ ابن عباس کے سامنے کسی نے کبیرہ گناہوں کی تعداد سات بتلائی تو آپ نے فرمایا سات نہیں سات سو کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ امام ابن حجر مکی نے اپنی کتاب الزواجر میں ان تمام گناہوں کی فہرست اور ہر ایک کی مکمل تشریح بیان فرمائی ہے جو مذکور (الصدر تعریف کی رو سے کبائر میں داخل ہیں، ان کی اس کتاب میں کبائر کی تعداد چار سو سڑسٹھ تک پہنچی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بعض نے بڑے بڑے ابواب معصیت کو شمار کرنے پر اکتفاء کیا ہے تو تعداد کم لکھی ہے بعض نے ان کی تفصیلات اور انواع و اقسام کو پورا لکھا تو تعداد زیادہ ہوگئی، اس لئے یہ کوئی تعارض و اختلاف نہیں ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مختلف مقامات میں بہت سے گناہوں کا کبیرہ ہونا بیان فرمایا اور حالات کی مناسبت سے کہیں تین کہیں چھ کہیں سات کہیں اس سے بھی زیادہ بیان فرمائے ہیں اسی سے علماء امت نے یہ سمجھا کہ کسی عدد میں انحصار کرنا مقصود نہیں، بلکہ مواقع اور حالات کے مناسب جتنا سمجھا گیا اتنا بیان کردیا گیا۔ بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کبیرہ گناہوں میں بھی جو سب سے بڑے ہیں تمہیں ان سے باخبر کرتا ہوں، وہ تین ہیں، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی مخلوق کو شریک ساجھی ٹھہرانا ماں باپ کی نافرمانی اور جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹ بولنا۔ اسی طرح بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے، فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے، پھر پوچھا کہ اس کے بعد کونسا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ تو فرمایا کہ تم اپنے بچہ کو اس خطرہ سے مار ڈالو کہ یہ تمہارے کھانے میں شریک ہوگا تمہیں اس کو ساتھ بدکاری کرنا، بدکاری خود ہی بڑا جرم ہے اور پڑوسی کے اہل و عیال کی حفاظت بھی چونکہ اپنے اہل و عیال کی طرح انسان کے ذمہ لازم ہے اس لئے یہ جرم دوگنا ہوگیا۔ صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ بات کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالیاں دے، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے ہی ماں باپ کو گالی دینے لگے ؟ فرمایا کہ ہاں ! جو شخص کسی دوسرے شخص کے ماں باپ کو گالی دیتا دیتا ہے اس کے نتیجہ میں وہ اس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے تو یہ بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے خود اپنے ماں باپ کو گالیاں دی ہوں، کیونکہ یہی ان گالیوں کا سبب بنا ہے۔ اور صحیح بخاری کی ایک روایت میں رسول اللہ یا رسول اللہ نے شرک اور قتل ناحق اور یتیم کا مال ناجائز طریق پر کھانے اور سود کی آمدنی کھانے اور میدان جہاد سے بھاگنے اور پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانے اور ماں باپ کی نافرمانی کرنے اور بیت اللہ کی بےحرمتی کرنے کو کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے۔ بعض روایات حدیث میں اس کو بھی کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے کہ کوئی شخص دارالکفر سے ہجرت کرنے کے بعد پھر دارالہجرة کو چھوڑ کر دارالکفر میں دوبارہ چلا جائے۔ دوسری روایات حدیث میں ان صورتوں کو بھی گناہ کبیرہ کی فہرست میں داخل کیا گیا ہے مثلاً جھوٹی قسم کھانا، اپنی ضرورت سے زائد پانی کو روک رکھنا، دوسرے ضرورت والوں کو نہ دینا جادو سیکھنا، جادو کا عمل کرنا اور فرمایا کہ شراب پینا اکبر الکبائر ہے اور فرمایا کہ شراب پینا ام الفاحش ہے، کیونکہ شراب میں مست ہو کر آدمی ہر برے سے برا کام کرسکتا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ سب سے بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ انسان اپنے مسلمان بھائی پر ایسے عیب لگائے جس سے اس کی آبرو ریزی ہوتی ہو۔ ایک حدیث میں ہے جس شخص نے بغیر کسی عذر شرعی کے دو نمازوں کو ایک وقت میں جماع کردیا تو وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا، مطلب یہ ہے کہ کسی نماز کو اپنے وقت میں نہ پڑھا، بلکہ قضاء کر کے دوسری نماز کے ساتھ پڑھا۔ بعض روایات حدیث میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا بھی کبیرہ گناہ ہے اور اس کے عذاب و سزا سے بےفکر و بےخوف ہوجانا بھی کبیرہ گناہ ہے۔ ایک روایات میں ہے کہ وارث کو نقصان پہنچانے اور اس کا حصہ میراث کم کرنے کے لئے کوئی وصیت کرنا بھی کبائر میں سے ہے۔ اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول کریم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ خائب و خاسر ہوئے اور تباہ ہوگئے اور تین دفعہ اس کلمہ کو دہرایا حضرت ابوذر غفاری (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ محروم القسمتہ اور تباہ و برباد کون لوگ ہیں ؟ تو آپ نے جواب دیا ایک وہ شخص جو تکبر کے ساتھ پاجامہ یا تہبند یا کرتہ اور عباء کو ٹخنے سے نیچے لٹکاتا ہے دوسرے وہ آدمی جو اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کر کے احسان جتلائے، تیسرے وہ آدمی جو بوڑھا ہونے کے باوجود بدکاری میں مبتلا ہو، چوتھے وہ آدمی جو بادشاہ یا افسر ہونے کے باوجود جھوٹ بولے پانچویں وہ آدمی جو عیال دار ہونے کے باوجود تکبر کرے، چھٹے وہ آدمی جو کسی امام کے ہاتھ پر محض دنیا کی خاطر بیعت کرے۔ اور صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ چغلی کھانے والا جنت میں نہ جائے گا۔ اور نسائی و مسند احمد وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ چند آدمی جنت میں نہ جائیں گے شرابی، ماں باپ کا نافرمان، رشتہ داروں سے بلاوجہ قطع تعلق کرنے والا، احسان جتلانے والا جنات شیاطین یا دوسرے ذرائع سے غیب کی خبریں بتانے والا، دیوث، یعنی اپنے اہل و عیال کو بےحیائی سے نہ روکنے والا۔ مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اس شخص پر جو کسی جانور کو اللہ کے سوا کسی کے لئے قربان کرے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَاۗىِٕرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَـيِّاٰتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِيْمًا۝ ٣١ اجتناب ورجل جَنِبٌ وجَانِبٌ. قال عزّ وجل : إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] ، وقال عزّ وجل : وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] ، واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] عبارة عن تركهم إياه، فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة/ 90] ، وذلک أبلغ من قولهم : اترکوه . قال تعالیٰ في النار : وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى الَّذِي يُؤْتِي مالَهُ يَتَزَكَّى [ اللیل/ 17- 18] ، وذلک إذا أطلق فقیل : جنب فلان فمعناه : أبعد عن الخیر، وذلک يقال في الدعاء في الخیر، وقوله عزّ وجل : وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم/ 35] ، من : جنبته عن کذا أي : أبعدته، وقیل : هو من جنبت الفرس، كأنما سأله أن يقوده عن جانب الشرک بألطاف منه وأسباب خفيّة . الاجتناب ( افتعال ) بچنا ، یکسو رہنا ، پہلو تہی کرنا ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے ۔ اجتناب رکھو گے ۔ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] جو ۔۔۔ بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو ۔ اور آیت کریمہ :۔ واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] میں بتوں سے اجتناب کے معنی ہیں کہ انہوں نے طاغوت کی عبادت یکسر ترک دی اس طرح وہ طاغوت سے دور رہے ۔ نیز فرمایا :۔ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة/ 90] سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ ۔ اور یہ یعنی اجتنبوا بنسیت اترکوہ کے زیادہ بلیغ ہے ۔ جنب بنوفلان بےشیر شدن قوم جنب فلان خیرا ۔ فلاں خیر سے محروم ہوگیا ۔ جنب شر ا ۔ وہ شر سے دور رہا ۔ چناچہ قرآن میں نار جہنم کے متعلق ہے :۔ وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى الَّذِي يُؤْتِي مالَهُ يَتَزَكَّى [ اللیل/ 17- 18] اور جو بڑا پرہیزگار ہے وہ اس ( نار) سے بچالیا جائے گا ۔ جو اپنا مال دیتا ہ تاکہ پاک ہو ۔ لیکن اگر مطلق یعنی بغیر کسی متعلق کے جنب فلان ؛ کہا جائے تو اس کے معنی خیر سے محروم ہونا ہی ہوتے ہیں ۔ اسی طرح دعائے خیر کے لئے بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم/ 35] اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ بتوں کی پرستش کرنے لگیں بچائے رکھ ۔ كَبِيرَةُ ، گناه، مشكل والْكَبِيرَةُ متعارفة في كلّ ذنب تعظم عقوبته، والجمع : الْكَبَائِرُ. قال : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] ، وقال : إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] قيل : أريد به الشّرک لقوله : إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] . وقیل : هي الشّرک وسائر المعاصي الموبقة، کالزّنا وقتل النّفس المحرّمة، ولذلک قال : إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] ، وقال : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219] . وتستعمل الکبيرة فيما يشقّ ويصعب نحو : وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة/45] ، وقال : كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری/ 13] ، وقال : وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام/ 35] ، وقوله : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف/ 5] ففيه تنبيه علی عظم ذلک من بين الذّنوب وعظم عقوبته . ولذلک قال : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف/ 3] ، وقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] إشارة إلى من أوقع حدیث الإفك . وتنبيها أنّ كلّ من سنّ سنّة قبیحة يصير مقتدی به فذنبه أكبر . وقوله : إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر/ 56] ، أي تكبّر . وقیل : أمر كَبِيرٌ من السّنّ ، کقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] الکبیرۃ ۔ عرف میں اس گناہ کو کہتے ہیں جس کی سزا بڑی سخت ہو ۔ اس کی جمع الکبائر آتی ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ اور آیت ؛ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے ۔ اجتناب رکھو ۔ میں بعض نے کہا ہے ۔ کہ کبائر سے مراد شرک ہے ۔ کیونکہ دوسری آیت ۔ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ؛میں شرک کو ظلم عظیم کہا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہ ے کہ کبائر کا لفظ ۔ شر ک اور تمام مہلک گناہوں کو شامل ہے ۔ جیسے زنا اور کسی جان کا ناحق قتل کرنا جیسا کہ فرمایا :إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے ۔ قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219] کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں ۔ مگر ان کے نقصان فاہدوں سے زیادہ ہیں ۔ اور کبیرۃ اس عمل کو بھی کہتے ہیں جس میں مشقت اور صعوبت ہو ۔ چناچہ فرمایا : وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة/بے شک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جو عجز کرنے والے ہیں ۔ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری/ 13] جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ ان کو دشوار گزرتی ہے ۔ وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام/ 35] اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے اور آیت کریمہ : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف/ 5]( یہ ) بڑی بات ہے ۔ میں اس گناہ کے دوسرے گناہوں سے بڑا اور اس کی سزا کے سخت ہونے پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ جیسے فرمایا : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف/ 3] خدا اس بات سے سخت بیزار ہے ۔ اور آیت : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ۔ میں تولی کبرہ سے مراد وہ شخص ہے جس نے افک کا شاخسانہ کھڑا کیا تھا اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص کسی برے طریقے کی بنیاد ڈالے اور لوگ اس پر عمل کریں تو وہ سب سے بڑھ کر گنہگار ہوگا ۔ اور آیت :إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر/ 56]( ارادہ ) عظمت ہے اور اس کو پہنچنے والے نہیں ۔ میں بکر کے معنی بھی تکبر ہی کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے ہر بڑا امر مراد ہے ۔ اور یہ کبر بمعنی پیرا نہ سالی سے ماخوذ ہے جیسا کہ آیت ۔: وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] نهى النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] ( ن ھ ی ) النهي کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔ كَفَّارَة ( گناهوں کا چهپانا) والْكَفَّارَةُ : ما يغطّي الإثم، ومنه : كَفَّارَةُ الیمین نحو قوله : ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة/ 89] وکذلك كفّارة غيره من الآثام ککفارة القتل والظّهار . قال : فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة/ 89] والتَّكْفِيرُ : ستره وتغطیته حتی يصير بمنزلة ما لم يعمل، ويصحّ أن يكون أصله إزالة الکفر والکفران، نحو : التّمریض في كونه إزالة للمرض، وتقذية العین في إزالة القذی عنه، قال : وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة/ 65] ، نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء/ 31] وإلى هذا المعنی أشار بقوله : إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود/ 114] وقیل : صغار الحسنات لا تكفّر کبار السّيّئات، وقال : لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران/ 195] ، لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر/ 35] ويقال : كَفَرَتِ الشمس النّجومَ : سترتها، ويقال الْكَافِرُ للسّحاب الذي يغطّي الشمس واللیل، قال الشاعر : ألقت ذکاء يمينها في کافر «1» وتَكَفَّرَ في السّلاح . أي : تغطّى فيه، والْكَافُورُ : أکمام الثمرة . أي : التي تكفُرُ الثّمرةَ ، قال الشاعر : كالکرم إذ نادی من الکافوروالْكَافُورُ الذي هو من الطّيب . قال تعالی: كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] . الکفا رۃ جو چیز گناہ دور کردے اور اسے ڈھانپ لے اسے کفارہ کہا جاتا ہے اسی سے کفارۃ الیمین ہے چناچہ اس کا ذکر کرتی ہوئے فرمایا : ۔ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة/ 89] یہ تمہاری قسموں کا کفارۃ ہے جب تم قسمیں کھالو ۔ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة/ 89] تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ اسی طرح دوسرے گناہ جیسے قتل اظہار وغیرہ کے تادان پر بھی کفارہ کا لفظ استعمال ہوا ہے : التکفیرۃ اس کے معنی بھی گناہ کو چھپانے اور اسے اس طرح مٹا دینے کے ہیں جسے اس کا ارتکاب ہی نہیں کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ اصل میں ازالۃ کفر یا کفران سے ہو جیسے تم یض اصل میں ازالہ مرض کے آتے ہیں اور تقد یۃ کے معنی ازالہ قذی تنکا دور کرنے کے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة/ 65] اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتے ۔ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء/ 31] تو ہم تمہارے ( چھوٹے چھوٹے ) گناہ معاف کر دینگے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود/ 114] کچھ شک نہیں نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتیں ۔ لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران/ 195] میں ان کے گناہ دور کردوں گا ۔ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر/ 35] تاکہ خدا ان سے برایئوں کو جو انہوں نے کیں دور کر دے ۔ محاورہ ہے : ۔ کفرت الشمس النجوم سورج نے ستاروں کو چھپادیا اور اس بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے جو سورج کو چھپا لیتا ہے : ۔ تکفر فی السلاح اس نے ہتھیار پہن لئے ۔ الکافو ر اصل میں پھلوں کے خلاف کو کہتے ہیں جو ان کو اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے شاعر نے کہا ہے ( 375 ) کا لکریم اذ نادی من لکافور جیسے انگور شگوفے کے غلاف سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن کافور ایک مشہور خوشبو کلمہ بھی نام ہے چناچہ فرمایا : ۔ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معیم یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣١) اور اگر ان غیر شرعی باتوں کو بالکل چھوڑ دو گے، تو چھوٹے گناہوں کو جو ایک نماز سے دوسری نماز تک اور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک ہوں گے ہم انہیں بالکل معاف کردیں گے اور آخرت میں جنت میں داخل کریں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

فرمایا : آیت ٣١ (اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآءِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ ) (نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ ) ہم تمہیں ان سے پاک صاف کرتے رہیں گے۔ تم جو بھی نیک کام کرو گے ان کے حوالے سے تمہاری سیّئات خود بخود دھلتی رہیں گی۔ (وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلاً کَرِیْمًا ) یہ مضمون سورة الشُوریٰ میں بھی آیا ہے اور پھر سورة النجم میں بھی۔ واضح رہے کہ قرآن حکیم میں اہم مضامین کم از کم دو مرتبہ ضرور آتے ہیں اور یہ مضمون قرآن میں تین بار آیا ہے۔ دوسرا مسئلہ انسانی معاشرے میں فضیلت کا ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جیسا تو نہیں بنایا ہے۔ کسی کو خوبصورت بنا دیا تو کسی کو بدصورت۔ کوئی صحیح سالم ہے تو کوئی ناقص الاعضاء ہے۔ کسی کا قد اونچا ہے تو کوئی ٹھگنے قد کا ہے اور لوگ اس پر ہنستے ہیں۔ کسی کو مرد بنا دیا ‘ کسی کو عورت۔ اب کوئی عورت اندر ہی اندر کڑھتی رہے کہ مجھے اللہ نے عورت کیوں بنایا تو اس کا حاصل کیا ہوگا ؟ اسی طرح کوئی بدصورت انسان ہے یا ٹھگنا ہے یا کسی اور اعتبار سے کمتر ہے اور وہ دوسرے شخص کو دیکھتا ہے کہ وہ تو بڑا اچھا ہے ‘ تو اب اس پر کڑھنے کے بجائے یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جو کچھ دیا ہے اس پر صبر اور شکر کرے۔ اللہ کا فضل کسی اور پہلو سے بھی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا وہ ارادہ کرے کہ میں نیکی اور خیر کے کاموں میں آگے بڑھ جاؤں ‘ میں علم میں آگے بڑھ جاؤں۔ اس طرح انسان دوسری چیزوں سے ان چیزوں کی تلافی کرلے جو اسے میسر نہیں ہیں ‘ بجائے اس کے کہ ایک منفی نفسیات پروان چڑھتی چلی جائے۔ اس طرح انسان احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے اور اندر ہی اندر کڑھتے رہنے سے طرح طرح کی ذہنی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ذہنی الجھنوں ‘ محرومیوں اور ناکامیوں کے احساسات کے تحت انسان اپنا ذہنی توازن تک کھو بیٹھتا ہے۔ چناچہ دیکھئے اس ضمن میں کس قدر عمدہ تعلیم دی جا رہی ہے

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

53. God is not overly exacting and severe in His judgements. He is not on the look out for trivial omissions and lapses on the part of His creatures in order to punish them. God is prepared to condone minor omissions, and may even spare a man from being presented with a charge-sheet provided his record is free of major sins. But if a man's record is full of major transgressions, he will be required to explain all the sins he has committed - both major and minor. We need at this stage to grasp the essential differences between major and minor sins. After reflecting on this question, in the light of the Qur'an and Sunnah, it seems to me - and God alone knows what is absolutely correct - that three elements turn an act into a major sin: (1) Violation of rights - be it either the rights of God, of parents, of other human beings or even of one's own self. The greater a person's rights, the greater is the sin in violating them. Hence sin is characterized in the Qur'an as wrong-doing (zulm). It is for the same reason that associating others with God in His divinity is called the 'great wrong' in the Qur'an. (See, for example, Surah Luqman 31: 13 - Ed.) (2) Insufficient fear of God, and arrogance and indifference towards Him, as a result of which man does not heed God's commandments, even wilfully violates them, and deliberately desists from carrying them out. The greater the brazenness, temerity and fearlessness with which one disobeys God, the more heinous is the sin in His eyes. It is for this reason that sin is also termed ma'siyah (disobedience) and fisq. (See, for instance, Surah al-Baqarah 2: 26, 61; Surah al-Hujurat 49: 11; Surah al-Munafiqun 63: 6; Surah Hud 11: 59; Surah AI 'Imran 3: 112; Surah al-Nisa' 4: 42; Surah al-Ma'idah 5: 78; and passim for verbal forms derived from the word ma'siyah and fisq - Ed.) (3) Sin is aggravated by breaking those bonds and relationships on which the peace and tranquillity of social order rest. These bonds include the relationship between a man and his Lord, as well as that between a man and his fellow-beings. The more important a bond is, the greater is the harm done to the peace of human society when that bond is broken. Likewise, the stronger the expectation that the sanctity of a certain bond will be honoured, the greater is the sin incurred through its desecration. Let us take the case of unlawful sexual intercourse in its various degrees. This act is inimical to the existence of a sound social order and is therefore a major sin. But in certain cases the sin becomes even graver. For instance, it is more serious if committed by a married person than by one who is unmarried. Similarly, unlawful sexual intercourse with a married woman is graver than with an unmarried woman. Again, to commit this act with one's neighbours is more heinous than with others, and to commit this act with women within the prohibited degrees, such as one's sister, daughter or mother, is far more abominable than with others. Further still, it is a much graver sin to commit such an act in places of worship than elsewhere. The difference in the degree of such sinfulness is based on the considerations we have mentioned above. Wherever the sanctity "of a relationship is normally respected, wherever there is a bond which deserves to be held sacred, and wherever the disruption of a particular relationship is likely to result in greater harm and corruption, the gravity of the sin increases. This is why in certain places the Qur'an uses the term fujur to denote sin. (See, for instance, Surah al-Qiyamah 75: 5; Surah al-Infitar 82: 14; Surah al-Shams 9l: 8 - Ed.)

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :53 یعنی ہم تنگ دل اور تنگ نظر نہیں ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر پکڑ کر اپنے بندوں کو سزا دیں ۔ اگر تمہارا نامہ اعمال بڑے جرائم سے خالی ہو تو چھوٹی خطاؤں کو نظر انداز کر دیا جائے گا اور تم پر فرد جرم لگائی ہی نہ جائے گی ۔ البتہ اگر بڑے جرائم کا ارتکاب کر کے آؤ گے تو پھر جو مقدمہ تم پر قائم کیا جائے گا اس میں چھوٹی خطائیں بھی گرفت میں آجائیں گی ۔ یہاں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بڑے گناہ اور چھوٹے گناہ میں اصولی فرق کیا ہے ۔ جہاں تک میں نے قرآن اور سنت میں غور کیا ہے مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے ﴿واللہ اعلم بالصواب﴾ کہ تین چیزیں ہیں جو کسی فعل کو بڑا گناہ بناتی ہیں: ( ١ ) کسی کی حق تلفی ، خواہ وہ خدا ہو جس کا حق تلف کیا گیا ہو ، یا والدین ہوں ، یا دوسرے انسان ، یا خود اپنا نفس ۔ پھر جس کا حق جتنا زیادہ ہے اسی قدر اس کے حق کو تلف کرنا زیادہ بڑا گناہ ہے ۔ اسی بنا پر گناہ کو ”ظلم“ بھی کہا جاتا ہے اور اسی بنا پر شرک کو قرآن میں ظلم عظیم کہا گیا ہے ۔ ( ۲ ) اللہ سے بے خوفی اور اس کے مقابلہ میں استکبار ، جس کی بنا پر آدمی اللہ کے امر و نہی کی پروا نہ کرے اور نافرمانی کے ارادے سے قصداً وہ کام کرے جس سے اللہ نے منع کیا ہے ، اور عمداً ان کاموں کو نہ کرے جن کا اس نے حکم دیا ہے ۔ یہ نافرمانی جس قدر زیادہ ڈھٹائی اور جسارت اور ناخدا ترسی کی کیفیت اپنی اندر لیے ہوئے ہوگی اسی قدر گناہ بھی شدید ہوگا اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ”فسق “ اور ”معصیت“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ ( ۳ ) ان روابط کو توڑنا اور ان تعلقات کو بگاڑنا جن کے وصل و استحکام اور درستی پر انسانی زندگی کا امن منحصر ہے ، خواہ یہ روابط بندے اور خدا کے درمیان ہوں یا بندے اور بندے کے درمیان ۔ پھر جو رابطہ جتنا زیادہ اہم ہے اور جس کے کٹنے سے امن کو جتنا زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور جس کے معاملہ میں مامونیت کی جتنی زیادہ توقع کی جاتی ہے ، اسی قدر اس کو توڑنے اور کاٹنے اور خراب کرنے کا گناہ زیادہ بڑا ہے ۔ مثلاً زنا اور اس کے مختلف مدارج پر غور کیجیے ۔ یہ فعل فی نفسہ نظام تمدن کو خراب کرنے والا ہے اس لیے بجائے خود ایک بڑا گناہ ہے ، مگر اس کی مختلف صورتیں ایک دوسرے سے گناہ میں شدید تر ہیں ۔ شادی شدہ انسان کا گناہ کرنا بن بیاہے کی بہ نسبت زیادہ سخت گناہ ہے ۔ منکوحہ عورت سے گناہ کرنا غیر منکوحہ سے کرنے کی بہ نسبت قبیح تر ہے ۔ ہمسایہ کے گھر والوں سے زنا کرنا غیر ہمسایہ سے کرنے کی بہ نسبت زیادہ برا ہے ۔ محرمات مثلاً بہن یا بیٹی یا ماں سے زنا کرنا غیر عورت سے کرنے کی بہ نسبت اشنع ہے ۔ مسجد میں گناہ کرنا کسی اور جگہ کرنے سے اشد ہے ۔ ان مثالوں میں ایک ہی فعل کی مختلف صورتوں کے درمیان گناہ ہونے کی حیثیت سے مدارج کا فرق انہی وجوہ سے ہے جو اوپر بیان ہوئے ہیں ۔ جہاں مامونیت کی توقع جس قدر زیادہ ہے ، جہاں انسانی رابطہ جتنا زیادہ مستحق احترام ہے ، اور جہاں اس رابطہ کو قطع کرنا جس قدر زیادہ موجب فساد ہے ، وہاں زنا کا ارتکاب اسی قدر زیادہ شدید گناہ ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ”فجور“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

26: اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان گناہ کبیرہ سے پرہیز رکھے تو اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو اللہ تعالیٰ خود ہی معاف فرماتے رہتے ہیں، قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نیک عمل مثلاً وضو نماز صدقات وغیرہ سے گناہ صغیرہ معاف ہوتے رہتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4ـ31) تجتنبوا۔ اجتناب (افتعال) سے اگر تم بچتے رہو گے۔ اجتناب کرو گے۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ اصل میں تجتنبون تھا۔ ان جازم فعل کی وجہ سے نون اعرابی گرگیا۔ نکفرعنکم۔ نکفر۔ جمع متکلم مضارع جواب شرط کی وجہ سے مجزوم ہے۔ ہم دور کردیں گے۔ تکفیر۔ مصدر بروزن تفعیل۔ مدخلا۔ داخل ہونے کی جگہ۔ اسم ظرف مکان۔ مدخلا۔ مصدر بھی ہے (باب افعال) پہلی صورت میں ترجمہ ہوگا۔ ہم تمہیں عزت کی جگہ میں داخل کریں گے۔ (یعنی جنت میں) دوسری صورت میں۔ ہم تمہیں عزت کے ساتھ (جنت میں) داخل کریں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی اگر تم کبا ئر سے اجتناب کرتے رہو گے تو صغیرہ گناہ تمہارے تمہارے نیک اعمال کی وجہ سے ہم معاف کردیں گے بعض روایات کبائر کا شمار بھی آیا ہے مثلا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا کسی جان کو ناحق قتل کرنا قمار بازی شراب خوای پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا وغیرہ مگر ان کی کوئی تہدید نہیں ہے اس لیے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ من اسبع الی السبعین بل الی سبعما ئتہ (رازی) اور روایات میں ہے کہ اصرار کے ساتھ کوئی گناہ صغیرہ نہیں ہے اور تو بہ کے بعد کوئی کبیرہ نہیں ہے۔ (قرطبی کبیر)11 یعنی بہشت میں ( وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ گناہ کبیرہ کی تعریف میں بہت اقوال ہیں جامعہ تر قول وہ ہے جس کو روح المعانی میں شیخ الاسلام بارزی سے نقل کیا ہے کہ جس گناہ پر کوئی وعید ہو یا حد ہو یا اس پر لعنت آئی ہو یا اس میں مفسدہ کسی ایسے گناہ کے برابر یا زیادہ ہو جس پر وعید یا حد یا لعنت آئی ہو یا وہ براہ تہاون فی الدین صادر ہو وہ کبیرہ ہے اور اس کا مقابل صغیرہ ہے اور حدیثوں میں جو عددوارد ہے اس سے مقصود حصر نہیں بلکہ مقتضائے وقت ان ہی کا ذکر ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : رشتوں کی حرمت کو پامال کرنا اور حرام کھانا کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔ جو کبیرہ گناہوں سے بچے گا اس کے لیے چھوٹے گناہوں سے بچاؤ آسان ہوجاتا ہے۔ اگر چھوٹے گناہ بتقاضائے بشریت سرزد ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ یقیناً معاف فرما دیں گے۔ رب کریم نے اس فرمان میں مومنوں کو ایک تسلی اور اطمینان دلایا ہے کہ اگر تم بڑے اور سنگین نوعیت کے گناہوں سے اجتناب کرو تو تمہارے چھوٹے چھوٹے گناہ ہم اپنے کرم سے از خود ہی معاف فرما دیں گے۔ اس فرمان کی تفسیر رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں فرمائی مسلمان جب وضو کرتا ہے تو اس کے ہاتھوں کے گناہ دھل جاتے ہیں۔ جب کلی کرتا ہے تو زبان کے، منہ دھوتا ہے تو آنکھوں، کان اور چہرے کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں جب پاؤں دھوتا ہے تو پاؤں گناہوں سے پاک ہوجاتے ہیں۔ جب نماز ادا کرتا ہے تو وہ اس طرح گناہوں سے پاک اور صاف ہوجاتا ہے جس طرح موسم خزاں میں درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔ (عَنْ أَبِيْ ذَرٍ (رض) أَنَّ النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَرَجَ فِيْ زَمَنِ الشِّتَآءِ وَالْوَرَقُ یَتَھَافَتُ فَأَخَذَ بِغُصْنَیْنِ مِنْ شَجَرَۃٍ قَالَ فَجَعَلَ ذٰلِکَ الْوَرَقُ یَتَھَافَتُ قَالَ فَقَالَ یَاأَبَاذَرٍّ ! قُلْتُ لَبَّیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ لَیُصَلِّی الصَّلَاۃَ یُرِیْدُ بِھَا وَجْہَ اللّٰہِ فَتَھَافَتُ عَنْہُ ذُنُوْبُہٗ کَمَا یَتَھَافَتُ ھٰذَا الْوَرَقُ عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ ) [ مسند احمد : کتاب مسند الأنصار، باب حدیث أبی ذر (رض) ] ” حضرت ابوذر غفاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سردیوں کے موسم میں باہر تشریف لائے اور پتے گر رہے تھے آپ نے درخت کی دو ٹہنیوں کو پکڑا جس سے ٹہنی کے پتے زمین پر گرپڑے پھر فرمایا ابوذر ! میں نے عرض کی کہ حاضر ہوں ! اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا مسلمان آدمی جب اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ایسے ہی گرجاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے گر رہے ہیں۔ “ اس طرح بعض اذکار کے فوائد بیان فرمائے کہ ان سے گناہ معاف اور پڑھنے والے کے مرتبے بلند ہوتے ہیں۔ البتہ کبیرہ گناہ سچی توبہ اور اس کے تقاضے پورے کرنے سے ہی معاف ہوتے ہیں۔ آپ نے امت کو ایسے گناہوں سے بچنے کے لیے کبیرہ گناہوں کی ایک فہرست پیش کی ہے۔ ان گناہوں کے ساتھ علماء نے قرآن و سنت کو سامنے رکھتے ہوئے ہر اس گناہ کو کبیرہ گناہ قراردیا ہے۔ جنہیں کرنے والا اللہ تعالیٰ سے بےخوف ہو کر اور تکبر سے کرتا ہے بظاہر وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔ کچھ علماء نے ان گناہوں کو بھی کبیرہ گناہ شمار کیا ہے جن کے کرنے پر لعنت کی گئی ہے۔ تاہم یہاں ان گناہوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جن کا نام لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں کبیرہ گناہ قرار دیا ہے (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ ذَکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْکَبَآءِرَ فَقَال الشِّرْکُ باللّٰہِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ فَقَالَ أَلَآ أُنَبِّءُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَاءِرِ قَالَ شَھَادَۃُ الزُّوْرِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب عقوق الوالدین من الکبائر ] ” حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ” بڑے گناہ یہ ہیں اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ناحق خون کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا۔ “ پھر فرمایا کیا میں تمہیں بڑے گناہ سے آگاہ نہ کروں ؟ وہ جھوٹی گواہی دینا ہے۔ “ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَاھُنَّ قَال الشِّرْکُ باللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بالْحَقِّ وَأَکْلُ الرِّبَا وَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ وَالتَّوَلِّيْ یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب رمي المحصنات ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا سات تباہ کردینے والے گناہوں سے بچ جاؤ صحابہ کرام (رض) نے کہا اے اللہ کے رسول ! وہ کون کون سے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے (١) ساتھ شرک کرنا، (٢) جادو کرنا، (٣) ناحق کسی کو قتل کرنا، (٤) سود کھانا، (٥) یتیم کا مال کھانا، (٦) میدان جنگ سے پیٹھ موڑ کر بھاگنا اور (٧) پاکدامن غافل مومنہ عورتوں پر تہمت لگانا۔ “ مسائل ١۔ اگر لوگ بڑے گناہوں سے بچ جائیں تو اللہ تعالیٰ چھوٹے گناہوں کو معاف فرما کر ان کو جنت میں داخل کرے گا۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں مذکور کبیرہ گناہ : ١۔ شرک۔ (النساء : ٤٨) ٢۔ والدین کی نافرمانی۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٣۔ زنا۔ (الفرقان : ٦٨، ٦٩) ٤۔ قتل ناحق (النساء : ٩٣) ٥۔ دختر کشی کرنا۔ (التکویر : ٨، ٩) ٦۔ سود کھانا۔ (البقرۃ : ٢٧٥) ٧۔ یتیموں کا مال کھانا۔ (النساء : ١٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” ان تجتنبوا کبآئر ما تنھون عنہ نکفر عنکم سیاتکم وندخلکم مدخلا کریما “۔ (٤ : ٣١) ” ” اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جارہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کردیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے ۔ ذرا دیکھئے تو سہی ! کس قدر فیاض ہے یہ دین اور اس نظام میں کس قدر سہولتیں دی گئی ہیں ۔ ببانگ دہل دعوت دی جارہی ہے کہ انسانو ! آؤ بلندیوں کی طرف ‘ علو شان کی طرف پاکیزگی کی طرف اور ڈسپلن کی طرف ۔ یاد رکھو کہ تم پر جو فرائض عائد کئے جاتے ہیں ‘ تمہارے لئے جو حدود بھی مقرر ہوتے ہیں ‘ اور اوامر ونواہی کے جو جو احکام دیئے جاتے ہیں ‘ ان سب کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس جہان میں پاک وصاف نفوس پیدا کئے جائیں اور پھر ان نفوس طیبہ سے ایک پاک وصاف معاشرہ وجود میں لایا جائے ۔ لیکن یہ دعوت دیتے وقت اور یہ حدود وقیود عائد کرتے وقت انسان کی ضعیفی اور اس کی فطری کو تاہیاں بھی پیش نظر رکھی گئی ہیں ۔ یہ فرائض وواجبات اس کی فطری طاقت کے دائرے کے اندر اندر ہیں۔ ان میں اس کی فطرت ‘ اس کی طاقت کے حدود اور اس کے رجحانات کو پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ نیز انسانی زندگی کی راہوں کے نشیب و فراز کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام زندگی میں ‘ فرائض وواجبات عائد کرتے وقت ان فرائض اور انسانی مقدرت کے اندر ایک حسین امتزاج اور توازن رکھا گیا ہے ۔ انسانی ضروریات اور انسانی خواہشات کے درمیان بھی توازن موجود ہے ۔ میلانات اور رکاوٹوں کے درمیان بھی توازن ہے ‘ اوامر اور نواہی کے درمیان بھی توازن ہے ۔ ترغیب اور ترہیب کے درمیان توازن ہے ‘ اور اسی طرح ایک طرف عذاب الہی سے سخت ڈراوا ہے ۔ اگر معصیت کا ارتکاب کیا گیا اور دوسری جانب اگر کوئی پیشمان ہوجائے اور واپس لوٹنا چاہئے تو اس کے لئے بھی معافی کا دروازہ بند نہیں کیا گیا ۔ دین اسلام کا حقیقی مطلوب ومقصود صرف یہی ہے کہ وہ نفس انسانی کا قبلہ درست کرکے اس کا رخ اللہ کی طرف موڑ دے ‘ اور اس قبلہ رخی میں اسے مخلص ہونا چاہئے ۔ وہ حتی المقدور اپنے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے ۔ اس کے بعد اللہ کی رحمت کی سرحد شروع ہوجاتی ہے ۔ اللہ کی رحمت ضعیف وناتواں سب کے شامل حال رہتی ہے ‘ وہ تقصیرات درگزر کرتی ہے ‘ وہ توبہ قبول کرتی ہے ‘ کمزوریوں سے صرف نظر کرتی ہے ‘ گناہ معاف کرتی ہے اور واپس آنے والوں کے لئے اپنے دروازے کھول دیتی ہے اور بڑے انس و محبت سے آنے والوں کا استقبال کرتی ہے ۔ اس آیت میں حکم یہ دیا گیا ہے کہ تم کبائرے اجتناب کرو۔ گناہ کبیرہ ہمیشہ واضح ‘ کھلے اور عظیم ہوتے ہیں ‘ اس لئے کوئی شخص یہ عذر نہیں کرسکتا کہ اس نے ان گناہوں کا ارتکاب کیا جن کا اسے علم نہ تھا کہ یہ گناہ ہیں ‘ یا وہ سمجھا ہی نہیں ہے اور گناہ کا ارتکاب ہوگیا ہے ‘ اس لئے کہ جو شخص ان گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے ‘ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے گناہ سے بچنے اور اجتناب کرنے کی سعی کی ہے ‘ یا اس نے اس کے ارتکاب کے خلاف پورا مقابلہ کیا ہے لیکن ان گناہوں کے ارتکاب کے بعد بھی اگر ایک شخص صحیح طرح پورے اخلاص کے ساتھ توبہ کرے تو بھی اللہ کے ہاں معافی ہو سکتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا وعدہ بھی فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ (آیت) ” والذین اذا فعلوا فاحشۃ او ظلموا انفسم ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبھم ومن یغفر الذنوب الا اللہ ولم یصروا علی ما فعلوا وھم یعلمون “۔ (٣ : ١٣٥) ” ” اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہوجاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معا اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ دیدہ و دانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے ۔ ایسے لوگوں کی جزاء ان کے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کے گناہ معاف کر دے گا ۔ “ اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے متقیوں میں شمار فرمایا ہے ۔ یہاں کبائر سے توبہ کی بحث نہیں ‘ یہاں مدعا یہ ہے کہ اگر کوئی کبائر سے اجتناب کرے تو اس کے چھوٹے گناہ براہ راست اللہ تعالیٰ معاف فرماتے ہیں ‘ یہاں اسی کا وعدہ کیا جارہا ہے اور مسلمانوں کو خوشخبری دی جا رہی ہے ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کبائر کیا ہیں جن کے ارتکاب سے بچنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ‘ احادیث میں ان کا ذکر ہوا ہے ‘ لیکن کسی حدیث میں ان کی پوری تعداد کا ذکر نہیں ہوا ‘ بلکہ موقعہ ومحل کے اعتبار سے جن گناہوں سے ممانعت کی زیادہ ضرورت تھی ان کا ذکر کردیا گیا ‘ اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کسی حدیث میں کبائر کی پوری فہرست دے دی گئی ہے ۔ ہاں مختلف احادیث میں مختلف نوعیت اور مختلف تعداد کو کبائر کہا گیا ہے اور یہ جرائم مختلف معاشروں اور مختلف سوسائٹیون میں مختلف ہو سکتے ہیں ۔ یہاں ہم حضرت عمر بن خطاب (رض) کا واقع نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں ‘ حضرت عمر (رض) معصیت کے معاملے میں بےحد حساس اور متشدد تھے اور وہ معاصی سے سخت اجتناب فرماتے تھے ، اس واقعے سے معلوم ہوگا کہ اسلام نے ان کے اس تیز احساس کو کس طرح سیدھے راستے پر ڈال دیا تھا ‘ اور ان کے ہاتھ میں یہ ترازو ‘ حساس ہونے کے باوجود کس قدر اعتدال پر تھا ‘ خصوصا جبکہ ان کا واسطہ اجتماعی امور اور انسان کے نفسیاتی معاملات سے پڑا کرتا تھا ۔ ابن جریر نے یعقوب ابن ابراہیم ، ابن علی ‘ ابن عون اور ۔۔۔۔۔۔۔ کے واسطے سے نقل کیا ہے کہ مصر میں بعض لوگوں نے عبداللہ ابن عمرو سے پوچھا کہ ہم اللہ جل شانہ کی کتاب میں بعض احکام پاتے ہیں کہ ان کے بارے میں حکم دیا گیا ہے کہ ان پر عمل کیا جائے ‘ لیکن ان پر عمل نہیں کیا جاتا ‘ اس لئے ہم نے ارادہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں امیر المومنین سے ملیں ۔ چناچہ عبداللہ بن عمرو مدینہ آئے اور وہ لوگ بھی ان کے ساتھ آئے اور حضرت عمر (رض) سے ملے ۔ انہوں نے پوچھا تم کب آئے ہو ؟ انہوں نے کہا میں فلاں فلاں تاریخ کو آیا ہوں ‘ حضرت عمر (رض) نے پوچھا کہ کیا تم اجازت لے کر آئے ہو ؟ راوی کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ اس سوال کا حضرت عبداللہ ابن عمرو (رض) نے کیا جواب دیا ۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ امیر المومنین ! مجھے مصر میں بعض لوگ ملے تھے ‘ انہوں نے سوال کیا تھا کہ ہم قرآن کریم میں بعض احکام پاتے ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے مگر ان پر عمل نہیں کیا جاتا ‘ تو ان لوگوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اس سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : آپ ان لوگوں کو میرے لئے جمع کریں ۔ انہوں نے ان لوگوں کو جمع کیا ۔ ابو عون نے کہا : ” میرا خیال ہے کہ اس نے کہا بیٹھک میں جمع کیا ۔ اس پر انہوں نے ان میں سے ادنی تر آدمی سے بات کی اور کہا : میں خدا کو حاضر وناظر جان کر اور اسلام کا آپ پر جو حق اس کو مدنظر رکھتے ہوئے تم سے پوچھتا ہوں : ” کیا تم نے پور کے قرآن مجید کو پڑھ لیا ہے ؟ “ اس نے جواب دیا : ” ہاں “ اس پر انہوں نے فرمایا : ” کیا وہ پورا تمہارے ذہن میں ہے ؟ ‘ اس نے جواب دیا : ” خدا جانتا ہے نہیں ۔ “ اگر یہ شخص کہتا ہاں سب قرآن میرے ذہن میں ہے تو حضرت عمر یہیں سے اس کے ساتھ مباحثہ شروع کردیتے ۔ اس کے بعد حضرت عمر (رض) نے کہا : ” کیا سب قرآن تمہارے پیش نظر ہے ؟ “ کیا سب قرآن لفظ ” تمہیں یاد ہے ؟ کیا سب قرآن پر تم عمل پیرا ہو ؟ غرض ایسے ہی سوالات انہوں نے سب سے کئے اور آخری شخص تک وہ سب سے یہ سوالات کرتے چلے گئے ، اس کے بعد حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ” تمہیں تمہاری ماں روئے : کیا تم عبداللہ بن عمرو کو اس بات کا مکلف بناتے ہو کہ وہ لوگوں کو مکمل طور پر قرآن کریم کے مطابق استوار کردے ۔ ہمارے اللہ کو یہ معلوم تھا کہ ہم میں گناہ گار بھی ہوں گے ۔ “ اس کے بعد حضرت عمر (رض) نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ (آیت) ” ان تجتنبوا کبآئر ما تنھون عنہ نکفر عنکم سیاتکم “۔ (٤ : ٣١) ” ” اگر تم کبائر سے اجتناب کرو جن سے تمہیں منع کیا جارہا ہے تو ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے ۔ “ اس کے بعد حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ” کیا اہل مدینہ جانتے ہیں ۔ “ یا فرمایا : ” کیا کسی ایک شخص کو معلوم ہے کہ تم یہاں کس لئے آئے ہو ؟ “ تو انہوں نے کہا : ” نہیں۔ “ تو فرمایا اگر اہل مدینہ کو علم ہوتا تو میں تمہیں ضرور وعظ کرتا ۔ “ (لفظ احصیۃ فی اثرک کا مفہوم یہ ہے کہ کیا تم نے اپنی پوری زندگی میں قرآن کو نافذ کردیا ہے ۔ اور ابن کثیر نے اسے نقل کیا ہے اور کہا ہے : ” اسناد صحیح ہے ‘ متن حسن ہے ۔ اگرچہ یہ عمر سے حسن نے روایت کی ۔ اس میں لقطاع ہے ۔ بہرحال یہ مشہور ہے اور مشہور ہونے کی وجہ سے ہم اسے نقل کر رہے ہیں ۔ ) حضرت عمر (رض) جیسے حساس اور سخت گیر شخص بھی اس حکمت کے ساتھ معاشرے کی اصلاح کر رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے شعور کو قرآن کریم نے استوار کردیا تھا ‘ اور ان کو گہری حکمت و دانائی عطا کردی تھی ۔ انہوں نے کیا خوب کہا ‘ ” ہمارے اللہ کو پیشگی علم تھا کہ ہم سے گناہوں کا صدور ہوگا “۔ اور ہم ظاہر ہے کہ اللہ کے علم کے خلاف تو ہو نہیں سکتے ‘ اس لئے مدار فیصلہ اس پر ہوگا کہ ہم نے کیا ارادہ کیا ؟ ہم نے کس قدر اپنے آپ کو درست کرنے کی نیت کی ‘ کس قدر کوشش کی کس قدر خواہشمند رہے ‘ کس قدر ہم نے پابندی شریعت کرنے کی سعی کی ‘ کس قدر جدوجہد اور وفاداری کرنے کی کوشش کی ؟ یہ ہے اسلامی نظام زندگی کا توازن ‘ سنجیدگی ‘ اعتدال اور ہر معاملے میں آسانی پیدا کرنے کی کوشش ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تکفیر سیئات کا وعدہ اس آیت میں کبائر سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے اور صغائر کو معاف کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، اور بتایا ہے کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے تو اللہ تعالیٰ صغیرہ گناہوں کو معاف فرما دیں گے، دیگر نصوص کثیرہ کی بنا پر بعض علماء نے یہ اشکال کیا ہے کہ محض اجتناب کبائر سے (جن میں عدم ادائے فرائض بھی داخل ہے) اگر صغیرہ گناہ معاف ہوجائیں تو جتنے بھی صغائر ہیں بظاہر نتیجہ کے طور پر مباح کا درجہ لے لیں گے کیونکہ ان کے ارتکاب کرنے والے کو یہ یقین رہے گا کہ کبائر سے بچنے کی وجہ سے میرے تمام صغائر معاف ہیں، لہٰذا صغائر پر کوئی عتاب اور عذاب نہ ہوگا اور مباح ہونے کا یہی معنی ہے۔ اس اشکال کو رفع کرنے کے لیے معتزلہ کی تردید کے ذیل میں صاحب مدارک التنزیل صفحہ ٢٢٢: ج ٢ میں تحریر فرماتے ہیں۔ وتثبت المعتزلۃ بالایۃ علی ان الصغائر واجبۃ المغفرۃ باجتناب الکبائر وعلی ان الکبائر غیر مغفورۃ باطل کان الکبائر والصغائرفی مشیۃ اللہ تعالیٰ سواء ان شاء عذب علیھما وان شاء عفا عنھما لقولۃ تعالیٰ ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر مادون ذلک لمن یشاء فقدوعد المغفرۃ لمادون الشرک وقرنھا بمشیتہ تعالیٰ وقولہ ان الحسنات یذھبن السیئات فھذہ الایۃ تدل علی ان الصغائر والکبائر یجوز ان یذھبا بالحسنات لان لفظ السیات یطلق علیھا۔ مطلب یہ ہے کہ وعدہ مغفرت تو ہے لیکن مشیت الٰہی پر موقوف ہے وہ جس گناہ کو چاہے گا معاف فرما دے گا۔ اور بعض حضرات نے یوں فرمایا ہے کہ یہاں کبائر ماتنھون عنہ سے وجوہ کفر مراد ہیں مطلب یہ ہے کہ تمام وجوہ کفر سے اجتناب کرو گے یعنی مسلمان رہوگے تو تمہارے سب گناہ معاف کرنے کا وعدہ ہے، کفر کے علاوہ جو باقی گناہ ہیں وہ چونکہ کفر کے مقابلہ میں صغائر ہیں (اگرچہ فی نفسہ ان میں بھی فرق مراتب ہے ان میں صغیرہ بھی ہیں اور کبیرہ بھی) ان کے معاف فرمانے کا وعدہ فرمایا، لیکن یہ وعدہ تحت المشیۃ ہے اور اس آیت کا مفہوم اور آیت کریمہ (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ) کا ایک ہی مفہوم ہے۔ علامہ نسفی (رح) فرماتے ہیں وقیل المراد بھا انواع الکفر بدلیل قراءۃ عبداللہ کبیر ماتنھون عنہ وھو الکفر علامہ قرطبی (رح) نے بھی یہ بات کہی ہے اور جمع والی قرأت (کبائر ماتنھون عنہ) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے اجناس کفرمراد ہیں پھر فرماتے ہیں : والایۃ التی قیدت الحکم فترد الیھا ھذہ المطلقات کلھاقولہ تعالیٰ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء۔ (صفحہ ١٩٥: ج ٣) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ الصلوات الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ و رمضان الی رمضان مکفرات لما بینھن اذا اجتنبت الکبائر (یعنی پانچوں نمازیں اور ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک اپنے درمیانی وقفہ کے گناہوں کا کفارہ کرنے والے ہیں جبکہ بڑے گناہوں سے پرہیز کیا جائے۔ (صحیح مسلم صفحہ ٢٢١: ج ١) اور صحیح مسلم صفحہ ١٢١: ج ١ کی ایک حدیث مرفوع میں یوں ہے کہ مامن امرءٍ مسلم تحضرہ صلوٰۃ مکتوبۃ فیحسن وضوء ھا وخشو عھا ورکو عھا الا کانت کفارۃ لما قبلھا من الذنوب مالم یوت کبیرۃ (یعنی جس مسلمان کی موجودگی میں فرض نماز کا وقت ہوگیا اور اس نے اچھی طرح وضو کیا اور اس کا رکوع سجود بھی اچھی طرح ادا کیا تو اس سے اس کے پیچھے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا، جب تک کہ کبیرہ گناہوں کا رتکاب نہ ہو۔ ان حدیثوں میں بظاہر وہی بات ہے کہ جب بڑے گناہوں سے پرہیز کیا جائے گا تو نیکیوں سے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا، لیکن علامہ نووی شرع مسلم میں لکھتے ہیں : معناہ ان الذنوب کلھا تغفر الا الکبائر فانھا لاتغفر ولیس المراد ان الذنوب تغفر مالم تکن کبیرۃ فان کانت لا یغفرشئی من الصغائر فان ھذا وان کان محتملا فسیاق الحدیث یاباہ قال القاضی عیاض ھذا المذ کور فی الحدیث من غفران الذنوب مالم یوت کبیرۃ ھو مذھب اھل السنۃ وان الکبائر انما یغفر ھا التوبۃ ورحمۃ اللہ تعالیٰ وفضلہ واللہ اعلم۔ (شرح صحیح مسلم صفحہ ١٢١: ج ١) مطلب یہ ہے کہ نیکیوں کے ذریعہ جو گناہ معاف ہونے کا وعدہ ہے یہ صغیرہ گناہوں سے متعلق ہے کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہ ہوں گے، اور یہ مطلب نہیں ہے کہ بڑے گناہ نہ ہوں تو چھوٹے گناہ معاف ہوں گے، ظاہری الفاظ میں اس معنی کا احتمال تو ہے لیکن حدیث کا سیاق اس سے انکار کرتا ہے، قاضی عیاض (رح) فرماتے ہیں کہ یہ جو حدیث میں گناہوں کی مغفرت کا ذکر ہوا کہ جب تک کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ ہو صغائر معاف کردیئے جائیں گے یہ اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے، اور کبائر صرف توبہ سے یا اللہ کی رحمت و فضل سے معاف ہوں گے، بظاہر آیت شریفہ (اِنْ تَحْتَنِبُوْا کَبَآءِرَ مَا تُنْھَوْنَ ) اور حدیث اذا اجتنبت الکبائر اور مالم یوت کبیرۃ سے یہی مفہوم ہوتا ہے کہ بڑے گناہوں کے ہوتے ہوئے چھوٹے گناہوں کا کفارہ نہ ہوگا، لیکن علامہ نووی فرماتے ہیں کہ حدیث کا یہ مطلب نہیں اگرچہ محتمل ہے، امام نووی نے جو بات فرمائی ہے اور جو بات قاضی عیاضی سے نقل کی ہے اور جو کچھ علامہ نسفی نے لکھی ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے آیت اور حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم چاہیں گے تو تمہارے سارے گناہوں کا کفارہ کردیں گے بشرطیکہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ ہو (کبیرہ گناہوں کا کفارہ نہ ہوگا کیونکہ ان کی مغفرت اور کفارہ کے لیے توبہ شرط ہے) ۔ امام نووی (رح) کی بات ان نصوص کی وجہ سے دل کو لگتی ہے جن میں اعمال صالحہ کے ذریعہ گناہوں کے کفارہ کا تذکرہ ہے اور اس میں کبیرہ گناہوں سے بچنے کی کوئی قید یا شرط نہیں سورة ہود میں فرمایا ہے (اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیّاٰتِ ) (کہ بلاشبہ نیکیاں گناہوں کو ختم کردیتی ہیں) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت کا بوسہ لے لیا اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے واقعہ کی خبر دی تو اللہ تعالیٰ نے آیت (وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ) نازل فرمائی اس شخص نے عرض کیا کہ یہ بشارت میرے ہی لیے ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میری امت کے تمام افراد کے لیے (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٥٨: ج ١) آیت بالا کے الفاظ میں جو عموم ہے اس سے بھی یہ معلوم ہو رہا ہے کہ نیکیوں کے ذریعہ گناہ معا ف ہوتے ہیں اور بیشمار احادیث میں ان نیکیوں کا ذکر ہے جن کے ذریعہ گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے، جن کا شمار کرنا مشکل ہے۔ لفظ (اِنْ تَجْتَنِبُوْا) سے شرط معلوم ہو رہی ہے اس کے بارے میں جو اکابر نے فرمایا ہے وہ ہم نے لکھ دیا ہے، بعض حضرات نے اور بھی توجیہات کی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ آیت کا تعلق گزشتہ آیت سے ہے، گزشتہ آیت میں یہ فرمایا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل ذریعہ سے مت کھاؤ اب یہاں یہ بات فرمائی کہ باطل مال لینے کے لیے کوئی شخص چلا جس کا ارادہ مثلاً غصب کرنے یا چوری کرنے کا تھا پھر وہ غصب یا چوری کرنے سے پہلے ہی گناہ کے ارادہ سے باز آگیا تو ارتکاب کبیرہ کے لیے جو وہ اپنے گھر سے روانہ ہوا یہ روانگی اور وہ سب گناہ معاف ہوگئے جو غصب یا چوری کے ارتکاب کے لیے کیے تھے جب اس نے چوری اور غصب کو اللہ کے خوف سے چھوڑ دیا تو اس سلسلہ میں جو عمل کیے تھے وہ بھی معاف ہوگئے۔ اور بعض حضرات نے یوں فرمایا کہ (اِنْ تَحْتَنِبُوْا) میں مفہوم شرط معتبر نہیں یعنی کبائر سے اجتناب کرنے کی وجہ سے تو صغیرہ گناہ معاف ہوں گے لیکن عدم اجتناب کبائر سے صغیرہ معاف نہ ہوں اس پر اس کی دلالت نہیں ہے۔ کبیرہ گناہ کون سے ہیں ؟ کبیرہ گناہ کون سے ہیں اس کے بارے میں حافظ شمس الدین ذہبی (رض) نے کتاب الکبائر کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے اس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ ان کی تعیین میں حضرات علماء کے مختلف اقوال ہیں ایک یہ ہے کہ کبیرہ گناہ سات ہیں جنہیں بخاری و مسلم کی حدیث اجتنبوا السبع الموبقات میں بیان فرمایا ہے اور حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ کبیرہ گناہ ستر کے قریب ہیں، پھر فرمایا ہے کہ جس حدیث میں سات گناہوں کا ذکر ہے اس میں حصر مقصود نہیں ہے، بلکہ اس میں بہت بڑے بڑے گناہوں کا تذکرہ فرما دیا ہے، نیز یہ بھی فرماتے ہیں کہ جو کبیرہ گناہ ہیں ان میں خود فرق مراتب ہے، بعض بعض سے بڑے ہیں۔ علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں صفحہ ١٥٩: ج ٣ میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ کبیرہ وہ گناہ ہے جس پر دوزخ کے داخلے کی یا اللہ کے غصے کی یا لعنت کی یا عذاب کی وعید آئی ہو، نیز حضرت ابن عباس (رض) سے یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ کبیرہ گناہ سات سو کے قریب ہیں، ساتھ ہی ان کا یہ مقولہ بھی نقل کیا ہے لا کبیرۃ مع استغفار ولا صغیرۃ مع اصرار یعنی جب استغفار ہوتا رہے تو کبیرہ کبیرہ نہیں رہتا۔ (بشرطیکہ استغفار سچے دل سے ہو، زبانی جمع خرچ نہ ہو) اور صغیرہ پر اصرار ہوتا رہے تو پھر وہ صغیرہ نہیں رہتا۔ پھر لکھتے ہیں : وقد اختلف الناس فی تعدادھا وحصرھا اختلاف الآثار فیھا، و الذی انزل انہ قد جاءت فیھا احادیث کثیرۃ صحاح و حسان لم یقصد بہ الحصر و لکنھا بعضھا اکبر من بعض الی ما یکثر ضررہ و الی آخر ماقال۔ حافظ ذہبی (رض) نے اپنی کتاب میں ستر گناہ لکھے ہیں اور ان کے بارے میں جو وعیدیں ہیں وہ بھی درج کی ہیں۔ ان کی کتاب کا مراجعہ کرلیا جائے۔ کبیرہ گناہوں کی فہرست : اجمالی طور پر ہم حافظ ذہبی کی کتاب سے کبیرہ گناہوں کی فہرست لکھتے ہیں : (١) شرک اور شرک کے علاوہ وہ عقائد و اعمال جن سے کفر لازم آتا ہے (کفر و شرک کی مغفرت کبھی نہ ہوگی۔ کما جاء مصرحاً فی کتاب اللّٰہ تعالیٰ ) (٢) کسی جان کا عمداً قتل کرنا۔ (٣) جادو کرنا۔ (٤) فرض نماز کو چھوڑنا یا وقت سے پہلے پڑھنا۔ (٥) زکوٰۃ نہ دینا۔ (٦) بلا رخصت شرعی رمضان شریف کا کوئی روزہ چھوڑنا یا رمضان کا روزہ رکھ کر بلا عذر توڑ دینا۔ (٧) فرض ہوتے ہوئے حج کیے بغیر مرجانا۔ (٨) والدین کو تکلیف دینا اور ان امور میں ان کی نافرمانی کرنا جن میں فرمانبرداری واجب ہے۔ (٩) رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنا۔ (١٠) زنا کرنا۔ (١١) غیر فطری طریقے پر عورت سے جماع کرنا یا کسی مرد یا لڑکے سے اغلام کرنا۔ (١٢) سود کا لین دین کرنا یا سود کا کاتب یا شاہد بننا۔ (١٣) ظلماً یتیم کا مال کھانا۔ (١٤) اللہ پر یا اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھوٹ بولنا۔ (١٥) میدان جہاد سے بھاگنا۔ (١٦) جو اقتدار اعلیٰ پر ہو اس کا رعیت کو دھوکہ دینا اور خیانت کرنا۔ (١٧) تکبر کرنا۔ (١٨) جھوٹی گواہی دینا یا کسی کا حق مارا جا رہا ہو تو جانتے ہوئے گواہی نہ دینا۔ (١٩) شراب پینا یا کوئی نشہ والی چیز کھانا پینا۔ (٢٠) جوا کھیلنا۔ (٢١) کسی پاکدامن عورت کو تہمت لگانا۔ (٢٢) مال غنیمت میں خیانت کرنا۔ (٢٣) چوری کرنا۔ (٢٤) ڈاکہ مارنا۔ (٢٥) جھوٹی قسم کھانا۔ (٢٦) کسی بھی طرح سے ظلم کرنا۔ ( مار پیٹ کر ہو یا ظلماً مال لینے سے ہو یا گالی گلوچ کرنے سے ہو) (٢٧) ٹیکس وصول کرنا۔ (٢٨) حرام مال کھانا یا پینا یا پہننا یا خرچ کرنا۔ (٢٩) خود کشی کرنا یا اپنا کوئی عضو کاٹ دینا۔ (٣٠) جھوٹ بولنا۔ (٣١) قانون شرعی کے خلاف فیصلے کرنا۔ (٣٢) رشوت لینا۔ (٣٣) عورتوں کا مردوں کی یا مردوں کا عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا ( جس میں ڈاڑھی مونڈنا بھی شامل ہے) (٣٤) اپنے اہل و عیال میں فحش کام یا بےحیائی ہوتے ہوئے دور کرنے کی فکر نہ کرنا۔ (٣٥) تین طلاق دی ہوئی عورت کے پرانے شوہر کا حلالہ کروانا اور اس کے لیے حلالہ کر کے دینا (٣٦) بدن میں یا کپڑوں میں پیشاب لگنے سے پرہیز نہ کرنا۔ (٣٧) دکھاوے کے لیے اعمال کرنا۔ (٣٨) کسب دنیا کے لیے علم دین حاصل کرنا اور علم دین کو چھپانا۔ (٣٩) خیانت کرنا۔ (٤٠) کسی کے ساتھ حسن سلوک کر کے احسان جتانا۔ (٤١) تقدیر کو جھٹلانا۔ (٤٢) لوگوں کے خفیہ حالات کی ٹوہ لگانا، تجس کرنا اور کنسوئی لینا۔ (٤٣) چغلی کھانا۔ (٤٤) لعنت بکنا۔ (٤٥) دھوکہ دینا اور جو عہد کیا ہو اس کو پورا نہ کرنا۔ (٤٦) کاہن اور منجم (غیب کی خبریں بتانے والے) کی تصدیق کرنا۔ (٤٧) شوہر کی نافرمانی کرنا۔ (٤٨) تصویر بنانا یا گھر میں لٹکانا۔ (٤٩) کسی کی موت پر نوحہ کرنا۔ منہ پیٹنا، کپڑے پھاڑنا۔ سر منڈانا ہلاکت کی دعا کرنا۔ (٥٠) سر کشی کرنا، اللہ کا باغی ہونا، مسلمان کو تکلیف دینا۔ (٥١) مخلوق پر دست درازی کرنا۔ (٥٢) پڑوسی کو تکلیف دینا۔ (٥٣) مسلمانوں کو تکلیف دینا اور ان کو برا کہنا۔ (٥٤) خاص کر اللہ کے نیک بندوں کو تکلیف دینا۔ (٥٥) ٹخنوں پر یا اس سے نیچے کوئی کپڑا پہنا ہوا لٹکانا۔ (٥٦) مردوں کا ریشم اور سونا پہننا۔ (٥٧) غلام کا آقا سے بھاگ جانا۔ (٥٨) غیر اللہ کے لیے ذبح کرنا۔ (٥٩) جانتے بوجھتے ہوئے اپنے باپ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو باپ بنا لینا۔ یعنی یہ دعویٰ کرنا کہ فلاں میرا باپ ہے۔ حالانکہ وہ اس کا باپ نہیں۔ (٦٠) فساد کے طور پر لڑائی جھگڑا کرنا۔ (٦١) (بوقت حاجت) بچا ہوا پانی دوسروں کو نہ دینا۔ (٦٢) ناپ تول میں کمی کرنا۔ (٦٣) اللہ کی گرفت سے بےخوف ہوجانا۔ (٦٤) اولیاء اللہ کو تکلیف دینا۔ (٦٥) نماز با جماعت کا اہتمام نہ کرنا۔ (٦٦) بغیر شرعی عذر نماز جمعہ چھوڑ دینا۔ (٦٧) ایسی وصیت کرنا جس سے کسی وارث کو ضرر پہنچانا مقصود ہو۔ (٦٨) مکر کرنا اور دھوکہ دینا۔ (٦٩) مسلمانوں کے پوشیدہ حالات کی ٹوہ لگانا اور ان کی پوشیدہ چیزوں پر دلالت کرنا۔ (٧٠) کسی صحابی کو گالی دینا۔ یہاں تک حافظ ذہبی (رض) کی کتاب سے اقتباس ہوا، ہم نے ترتیب سے نمبر ڈالے ہیں، بعض چیزیں مکرر بھی آگئیں ہیں اور بعض مشہور چیزیں ان سے رہ گئی ہیں۔ اور ان کی کتاب کے بعض نسخوں میں بعض چیزیں زائد ہیں ( جو ذیل میں درج شدہ فہرس میں آگئی ہیں) ، صغائر و کبائر کے بیان میں علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی صاحب بحر الرائق (رح) کا بھی ایک رسالہ ہے جو الاشباہ و النظائر کے آخر میں چھپا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کبیرہ گناہوں کی فہرست دی ہے جو حافظ ذہبی کی فہرست سے زیادہ ہے مثلاً ۔ (٧١) کسی ظالم کا مددگار بننا، قدرت ہوتے ہوئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ترک کرنا۔ (٧٢) جادو کا سیکھنا اور سکھانا یا اس پر عمل کرنا۔ (٧٣) قرآن کو بھول جانا۔ (٧٤) کسی حیوان کو زندہ جلانا۔ (٧٥) اللہ کی رحمت سے ناامید ہوجانا۔ (٧٦) مردار یا خنزیر بغیر اضطرار کے کھانا۔ (٧٧) صغیرہ گناہ پر اصرار کرنا۔ (٧٨) گناہوں پر مدد کرنا اور ان پر آمادہ کرنا۔ (٧٩) گانے کا پیشہ اختیار کرنا۔ (٨٠) لوگوں کے سامنے ننگا ہونا۔ (٨١) ناچنا (٨٢) دنیا سے محبت کرنا۔ (٨٣) حاملین قرآن اور علماء کرام کے حق میں بد گوئی کرنا۔ (٨٤) اپنے امیر کے ساتھ غدر کرنا۔ (٨٥) کسی کے نسب میں طعن کرنا۔ (٨٦) گمراہی کی طرف دعوت دینا۔ (٨٧) اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرنا۔ (٨٨) اپنے غلام کو خصی کرنا یا اس کے اعضاء میں سے کوئی عضو کاٹ دینا۔ (٨٩) کسی محسن کی ناشکری کرنا۔ (٩٠) حرم میں الحاد کرنا۔ (٩١) نرد سے کھیلنا، ہر وہ کھیل کھیلنا جس کی حرمت پر امت کا اجماع ہے۔ (٩٢) بھنگ پینا (ہیروئن اسی کے حکم میں ہے) (٩٣) کسی مسلمان کو کافر کہنا۔ (٩٤) بیویوں کے درمیان عدل نہ کرنا۔ (٩٥) مشت زنی کرنا۔ (٩٦) حالت حیض میں جماع کرنا۔ (٩٧) مسلمانوں کے ملک میں مہنگائی ہوجائے تو خوش ہونا۔ (٩٨) جانور کے ساتھ بد فعلی کرنا۔ (٩٩) عالم کا اپنے علم پر عمل نہ کرنا۔ (١٠٠) کھانے کو عیب لگانا۔ (١٠١) بےریش حسین لڑکے کی طرف دیکھنا۔ (١٠٢) کسی کے گھر میں بلا اجازت نظر ڈالنا اور بلا اجازت اندر چلے جانا۔ علامہ ابن نجیم کی فہرست متعلقہ کبائر ختم ہوئی۔ ہم نے مکر رات کو ختم کردیا یعنی حافظ ذہبی کے رسالہ میں جو چیزیں آئی تھیں ان کو نہیں لیا۔ اور بعض دیگر چیزوں کو بھی چھوڑ دیا ہے۔ صغیرہ گناہوں کی فہرست : اس کے بعد حافظ ابن نجیم نے صغائر کی فہرست دی ہے، جو یہ ہے : (١) جہاں نظر ڈالنا حرام ہو وہاں دیکھنا۔ (٢) بیوی کے سوا کسی کا شہوت سے بوسہ لینا بیوی کے سوا کسی کو شہوت سے چھونا۔ (٣) اجنبیہ کے ساتھ خلوت میں رہنا۔ (٤) سونے چاندی کے برتن استعمال کرنا۔ (٥) کسی مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرنا یعنی سلام کلام بند رکھنا۔ (٦) کسی نمازی کا نماز پڑھتے ہوئے اپنے اختیار سے ہنسنا۔ (٧) کھڑے ہو کر پیشاب کرنا۔ (٨) مصیبت پر نوحہ کرنا اور منہ پیٹنا (یا گریبان پھاڑنا اور جاہلیت کی دہائی دینا) ۔ (٩) مرد کا ریشم کا کپڑا پہننا۔ (١٠) تکبری چال چلنا۔ (١١) فاسق کے ساتھ بیٹھنا۔ (١٢) مکروہ وقت میں نماز پڑھنا۔ (١٣) مسجد میں نجاست داخل کرنا یا دیوانے کو یا بچے کو مسجد میں لے جانا جس کے جسم یا کپڑے پر نجاست ہونے کا غالب گمان ہو۔ (١٤) پیشاب پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا یا پشت کرنا۔ (١٥) تنہائی میں بطور عبث شرم گاہ کو کھولنا۔ (١٦) لگا تار نفلی روزے رکھنا جس کے بیچ میں افطار نہ ہو۔ (١٧) جس عورت سے ظہار کیا ہو کفارہ دینے سے پہلے اس سے وطی کرنا۔ (١٨) کسی عورت کا بغیر شوہر اور محرم کے سفر کرنا۔ (١٩) کسی دوسرے خریدار سے زیادہ قیمت دلوانے کے لیے مال کے دام زیادہ لگا دینا جبکہ خود خریداری کا ارادہ نہ ہو۔ (٢٠) ضرورت کے وقت مہنگائی کے انتظار میں غلہ روکنا۔ (٢١) کسی مسلمان بھائی کی بیع پر بیع کرنا یا کسی کی منگنی پر منگنی کرنا۔ (٢٢) باہر سے مال لانے والوں سے شہر سے باہر ہی سودا کرلینا (تا کہ سارا مال اپنا ہوجائے اور پھر دام چڑھا کر بیچیں) (٢٣) جو لوگ دیہات سے مال لائیں ان کا مال اپنے قبضہ میں کر کے مہنگا بیچنا۔ (٢٤) اذان جمعہ کے وقت بیع و شراء کرنا۔ (٢٥) مال کا عیب چھپا کر بیچنا۔ (٢٦) شکار یا مویشیوں کی حفاظت کی ضرورت کے بغیر کتا پالنا۔ (٢٧) مسجد میں حاضرین کی گردنوں کو پھاند کر جانا۔ (٢٨) زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہوجانے کے بعد ادائیگی میں تاخیر کرنا۔ (٢٩) راستے میں بیع و شراء یا کسی ضرورت کے لیے کھڑا ہونا جس سے راہ گیروں کو تکلیف ہو یا راستے میں پیشاب پاخانہ کرنا (سایہ اور دھوپ میں جہاں لوگ اٹھتے بیٹھتے ہوں اور پانی کے گھاٹ پر پیشاب پاخانہ کرنا بھی اسی ممانعت میں داخل ہے) ۔ (٣٠) بحالت جنابت اذان دینا یا مسجد میں داخل ہونا یا مسجد میں بیٹھنا۔ (٣١) نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنا اور کپڑے وغیرہ سے کھیلنا۔ (٣٢) نماز میں گردن موڑ کر دائیں بائیں دیکھنا۔ (٣٣) مسجد میں دنیا کی باتیں کرنا، اور وہ کام کرنا جو عبادت نہیں ہیں۔ (٣٤) روزے دار کا بوس و کنار کرنا۔ اور وہ کام کرنا جو عبادت نہیں ہیں۔ (٣٥) گھٹیا مال سے زکوٰۃ ادا کرنا۔ (٣٦) ذبح کرنے میں اخیر تک (پوری گردن) کاٹ دینا۔ (٣٧) بالغ عورت کا اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلینا۔ (٣٨) ایک سے زیادہ طلاق دینا۔ (٣٩) زمانۂ حیض میں طلاق دینا۔ (٤٠) جس طہر میں جماع کیا ہو اس میں طلاق دینا۔ (٤١) اولاد کو لینے دینے میں کسی ایک کو ترجیح دینا، الایہ کہ علم یا صلاح کی وجہ سے کسی کو ترجیح دے۔ (٤٢) قاضی کا مدعی اور مدعیٰ علیہ کے درمیان برابری نہ کرنا۔ (٤٣) سلطان کا یا جس کے مال میں غالب حرام ہو ہدیہ قبول کرنا اور اس کا کھانا کھانا اور اس کی دعوت قبول کرنا۔ (٤٤) کسی کی زمین میں بغیر اجازت کے چلنا۔ (٤٥) انسان یا کسی حیوان کا مثلہ کرنا، یعنی ہاتھ پاؤں ناک کان کاٹ دینا) ۔ (٤٦) نماز پڑھتے ہوئے تصویر پر سجدہ کرنا یا ایسی صورت میں نماز پڑھنا کہ نمازی کے مقابل یا اس کے برابر تصویر ہو۔ (٤٧) کافر کو سلام کرنا۔ (٤٨) بچہ کو وہ لباس پہنانا جو بالغ کے لیے جائز نہ ہو۔ (٤٩) پیٹ بھرنے کے بعد بھی کھاتے رہنا۔ (٥٠) مسلمان سے بدگمانی کرنا۔ (٥١) لہو و لعب کی چیزیں سننا۔ (٥٢) غیبت سن کر خاموش رہ جانا (غیبت کرنے والے کو منع نہ کرنا اور تردید نہ کرنا) ۔ (٥٣) زبردستی امام بننا (جبکہ مقتدیوں کو اس کی امامت گوارا نہ ہو اور اس کی ذات میں دینی اعتبار سے کوئی قصور ہو۔ (٥٤) خطبے کے وقت باتیں کرنا۔ (٥٥) مسجد کی چھت پر یا مسجد کے راستے میں نجاست ڈالنا۔ (٥٦) دل میں یہ نیت رکھتے ہوئے کسی سے کوئی وعدہ کرلینا کہ پورا نہیں کروں گا۔ (٥٧) مزاح یا مدح میں افراط کرنا۔ (٥٨) غصہ کرنا (ہاں اگر دینی ضرورت سے ہو تو جائز ہے) ۔ عام طور سے جن چیزوں میں لوگ مبتلا ہیں وہ ہم نے ذکر کردی ہیں بعض چیزیں جو ابن نجیم کی کتاب میں ہیں وہ ہم نے چھوڑ دی ہیں اور صغائر ہیں انہوں نے بعض وہ چیزیں ذکر کی ہیں جن کو حافظ ذہبی نے کبائر میں شمار کیا ہے اور یوں بھی مذکورہ گناہوں میں بعض کو صغائر میں شمار کرنا محل نظر ہے۔ خاص کر کسی مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرنا اور سلام کلام بند رکھنا اس کو صغائر میں شمار کرنا نا درست ہے اس پر حدیث شریف میں سخت وعید آئی ہے۔ اور یہ ایک اجتہادی امر ہے کہ صغیرہ گناہ کون کون سے ہیں اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق حضرات اکابر نے تعیین فرما دی ہے۔ حج یا عمرہ کا احرام میں داخل ہو کر اسے فاسد کردینا یا ممنوعات احرام کا قصداً ارتکاب کرنا یا نماز شروع کر کے بغیر عذر شرعی کے توڑ دینا اس کا ذکر نہ حافظ ذہبی نے کیا نہ ابن نجیم نے، اگر دیگر احادیث شریفہ پر نظر ڈالی جائے تو بہت سے اور گناہ بھی سامنے آجائیں گے۔ ہمارا رسالہ گناہوں کی فہرست میں بھی ملاحظہ کرلیا جائے جس میں گناہوں پر جو وعیدیں ہیں وہ ذکر کردی گئی ہیں۔ صغیرہ گناہ بھی گناہ ہے۔ اس سے بھی بچنا واجب ہے۔ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا بھی مواخذہ کرنے والے ہیں یعنی فرشتے جو نیکی بدی لکھنے پر مامور ہیں وہ ان کو بھی لکھتے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٥٨) فائدہ : صغیرہ گناہ کا ارتکاب اگر عذاب اور مواخذہ سے ڈرتے ہوئے کرلیا جائے تو صغیرہ ہے، اگر لاپرواہی سے کیا جائے اور یہ سمجھ کر کرے کہ اس میں کوئی بات نہیں تو پھر کبیرہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح صغیرہ پر اصرار کرنے یعنی بار بار ارتکاب کرنے سے بھی صغیرہ کبیرہ ہوجاتا ہے اور جس عمل کی جو ممانعت قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہے اس ممانعت کو کوئی حیثیت نہ دینا یہ کفر ہے۔ خواہ گناہ صغیرہ ہو یا کبیرہ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24 ۔ کَبَائرُ ۔ کبیرۃ کی جمع ہے۔ کبائر سے مراد وہ گناہ ہیں جن پر کتاب وسنت میں سزا اور وعید وارد ہو یا ہر گناہ اپنے ماتحت کے اعتبار سے کبیرہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ کبائر سے یہاں انواع کفر وشرک مراد ہیں۔ حملوا قولہ تعالیٰ کَبَائِرَ مَاتُنْھَوْنَ عَنْہُ علی انواع الشرک والکفر (بحر ج 3 ص 233) ۔ یعنی اگر تم کفر و شرک کی تمام انواع سے اجتناب کرو گے تو باقی گناہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا معاف کر دے گا مگر شرک معاف نہیں ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 جن کاموں سے تم کو منع کیا جارہا ہے اور جن اعمال و افعال سے بچنے کا تم کو حکم دیا جارہا ہے یعنی جن گناہوں کے ارتکاب سے تم کو روکا جاتا ہے ان میں جو بڑے بڑے گناہ ہیں اگر تم ان سے اجتناب کرو اور کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو تو ہم تمہارے صغیرہ گناہ اور چھوٹی چھوٹی خطائیں اپنے قاعدے کے مطابق معاف کردیں گے اور تم سے ان خطائوں کو دور کریں گے اور تم کو ایک معزز جگہ اور باعزت مقام میں داخل کریں گے یعنی جنت میں داخل کردیں گے۔ (تیسیر) ہم نے عرض کیا تھا کہ اوپر کی آیت میں قتل نفس پر غیر مباح طریقوں سے مال کھانے پر اور نیز دوسرے جرائم پر دوزخ کی وعید فرمائی تھی۔ اب اس آیت میں کبائر سے بچنے پر صغائر کی معافی اور جنت عطا کرنے کی خوش خبری ہے۔ اس آیت سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ممنوعات شرعیہ کی دو قسمیں ہیں ایک کبیرہ اور ایک صغیرہ یا یوں کہا جائے کہ منہیات کی دو قسمیں ہیں ایک کبیرہ اور ایک صغیرہ جس کو سئیات کہا گیا ہے۔ بہرحال جہاں تک حضرت حق تعالیٰ کی بزرگی اور برتری کا معاملہ ہے اس کے مقابلہ میں تو ہرنا فرمانی کو کبیرہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ ان کی عظمت و جلال کے لحاظ سے چھوٹی سی تقصیر اور نافرمانی بھی کبیرہ اور بڑی ہے لیکن اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ شریعت میں اس قسم کی تقسیم موجود ہے بعض گناہوں پر وعید کا ذکر آیا ہے۔ بعض گناہوں پر حد جاری کرنے کا حکمے۔ اور بعض پر اس قدر سختی اور تغلیظ نہیں ہے۔ سورئہ دالنجم میں فرمایا الذین یجتنبون کبائر الاثم والفواحش الاٰللھم اس آیت سے معلوم ہوا کہ فواحش اور لمم دو چیزیں ہیں۔ اسی طرح اس آیت میں بھی ماتنھون عنہ کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کبائر الاثم ایک قسم ہے اور سئیات دوسری قسم ہے۔ گویا مقسم تومنہی عنہ ہے اور اس مقسم کی دو قسمیں ہیں اور دونوں کا مصداق الگ الگ ہے اس لئے بعض اہل تحقیق نے فرمایا ہے کہ اس تقسیم کا مبنی گناہ کی کیفیت ہے جو گناہ زیادہ ضرررساں اور بہت قبیح ہے وہ کبیرہ کہا جاتا ہے اور جس گناہ میں یہ بات نہیں ہے اس کو صغیرہ کہتے ہیں۔ اس تقسیم کا مبنی یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے اعتبار سے ایک کم ہے اور ایک زیادہ ہے۔ بہرحال ! مبنی کچھ بھی ہو یہ تقسیم مسلم ہے کہ ایک کبیرہ ہے اور دوسرا سیئہ یا لمم یا صغیرہ ہے۔ اسی سلسلے میں ایک اور بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ بندوں کی حالت چونکہ مختلف ہے اس لئے کبھی کبھی بڑے لوگوں کو معمولی سے گناہ پر سخت تنبیہ ہوجاتی ہے۔ بلکہ معمولی درجے کے لوگ جس کو حسنات سمجھتے ہیں۔ مقربین بارگاہ کی نظر میں ان ہی کو سیئات سمجھا جاتا ہے حتیٰ کہ بعض اہل سلوک کا قول مشہور ہے۔ وجودک ذنب لالیق اس بہ ذنب آخر۔ یعنی خود تیرا وجود ہی ایک ایسا گناہ ہے جس سے بڑا کوئی دوسرا گناہ نہیں۔ مقربین بارگاہ کی معمولی لغزش کو بھی گناہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس تمام گزارش کو ذہن نشین کرلینے کی ضرورت ہے۔ بہرحال ! جب گناہوں کی دو قسمیں معلوم ہوگئیں تو اب یہ زیر بحث ہے کہ کبیرہ گناہ کون کون سے ہیں اور صغیرہ کون کون سے ہیں۔ اس میں بھی سلف کے مختلف اقوال ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ کبائر کا حصر مشکل ہے۔ ان تمام اقوال میں حضرت ابو طالب مکی (رح) کا وہ قول زیادہ واضح ہے جو صاحب روح المعانی نے نقل کیا ہے۔ حضرت ابو طالب مکی (رح) فرماتے ہیں کہ کبائر کی صحیح تعداد سترہ ہے ان سترہ میں سے چار گناہ تو قلب کے ہیں۔ (1) شرک (2) اصرار علی المعصیۃ (3) قنوط یعنی اللہ کی رحمت سے ناامیدی (4) امن من مکر اللہ تعالیٰ یعنی اللہ کی گرفت سے بےخوف ہوجانا۔ پھر فرماتے ہیں ان سترہ میں سے چار زبان کے ہیں۔ (1) کسی پاک دامن پر تہمت لگانا۔ (2) جھوٹی گواہی (3) جادو کرنا (4) جھوٹی قسم کھانا پھر فرماتے ہیں ان سترہ میں سے تین پیٹ کے ہیں۔ (1) یتیم کا ظلماً مال کھانا (2) سودکھانا (3) نشے کی چیز کا پینا۔ پھر فرماتے ہیں ان سترہ میں سے دو شرمگاہ کے ہیں۔ (1) زنا (2) لواطت پھر فرماتے ہیں ان سترہ میں سے دو گناہ ہاتھ کے ہیں۔ (1) چوری کرنا (2) کسی کو بےگناہ قتل کرنا۔ پھر فرماتے ہیں ان سترہ میں سے ایک گناہ پائوں کا ہے۔ (1) میدان جہاد سے بھاگنا پھر فرماتے ہیں ایک کا تعلق پورے جسم سے ہے۔ (1) ماں باپ کی نافرمانی کرنا۔ ان سترہ کے علاوہ باقی تمام گناہ صغیرہ ہیں۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں۔ کبیرہ گناہ وہ ہیں جن پر قرآن و حدیث میں صاف وعدہ دیا دوزخ کا یا اللہ کا غصہ۔ یا حد مقرر فرمائی اور تقصیر وہ کہ منع فرمایا اور کچھ زیادہ نہیں۔ (موضح القرآن) آیت زیر بحث کا بعض معتزلہ اور اہل باطل نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کبیرہ گناہ سے بالکل بچتا رہے یہاں تک کہ ایک کبیرہ گناہ بھی اس سے سرزد نہ ہو خواہ وہ صغیرہ گناہ کتنے ہی کرتا رہے تو وہ سب صغیرہ معاف کردیئے جائیں گے اور اگر کسی نے ایک کبیرہ کا بھی ارتکاب کرلیا تو اب معافی نہیں ہوگی۔ یعنی بالکل کبیرہ نہ ہو تو صغیرہ کی معافی ضروری اور اگر صغیرہ کے ساتھ ایک یاد دو کبیرہ بھی ہوگئے تو معافی ناممکن اور سب پر عذاب ضروری۔ لیکن اہل سنت کے نزدیک اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے بلکہ آیت کا مطلب قواعد شرعیہ کی بنا پر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بہرحال خواہ کوئی صورت ہو مواخذہ کرنے اور معاف کرنے کا اختیار موجود ہے کوئی شخص تمام عمر کبیرہ گناہ نہ کرے اور صغیرہ برابر کرتا رہے تب بھی ان کو اختیار ہے اور اگر کوئی کبیرہ صغیرہ ملاکر کرتا رہے تب بھی ان کو اختیار ہے خواہ وہ سب معاف فرمادے اور خواہ سب پر عذاب فرمائے۔ اسی بنا پر فقیر نے تیسیر میں اپنے قاعدہ کے مطابق کا لفظ بڑھایا ہے تاکہ حضرت حق تعالیٰ کا قاعدہ پیش نظر رہے اور وہ یہ ہے کہ کبیرہ گناہ سے اجتناب کرے اور نیک اعمال بجالاتا رہے۔ تب صغائر کی معافی اور ازالہ کی توقع ہے۔ اس آیت میں ایک چیز کا ذکر ہے اور دوسری دوسری بات کا ذکر ہے۔ جیسا کہ فرمایا ان الحسنات یذھبن السئیآت۔ اور جیسا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ ایک وقت کی نماز دوسرے وقت کی نماز تک اور ایک جمعہ کی نماز دوسرے جمعہ کی نماز تک اور ایک رمضان کے روزے دوسرے رمضان کے روزوں تک کے درمیانی اوقات کے تمام گناہوں کا کفارہ ہیں بشرطیکہ کبائر سے اجتناب کرتا رہے یعنی یہ نمازیں اور روزے صغائر کا کفارہ ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صغائر کی معافی کا وعدہ دو باتوں پر ہے ایک کبائر سے اجتناب۔ دوسرے طاعات کی بجاآوری۔ جب تک یہ دونوں باتیں جمع نہیں ہوں گی صغائر کی مغفرت کی توقع نہیں۔ بعض اہل تحقیق نے فرمایا ہے کہ اس آیت زیر بحث میں بھی دونوں باتیں مذکور ہیں۔ ایک صراحتہً جیسے ان تجتنبوا کبائر اور دوسری لزوماً مثلاً ترکِ نماز یا ترک صوم کہ یہ افعال بھی کبائر میں داخل ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ جن کبائر سے اجتناب ضروری ہے ان سے بچتا رہے اور جن کا ترک کبیرہ گناہ ہے ان کو بجالاتا رہے۔ تب ہم صغائر کو درگزر فرمادیں گے۔ غرض ! آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کبائر بچے وہ اعمال صالحہ اور حسنات بجالاتا رہے تو اس کا یہ اثر ہوگا کہ اس سے صغائر دور کردیئے جائیں گے اور اگر کوئی کبائر سے اجتناب کرے اور اعمال صالحہ کو ترک کردے تو اس سے یہ وعدہ نہ ہوگا۔ یہ ہم نے آیت کی تفسیر کے طور پر عرض کیا ہے ورنہ حضرت حق تعالیٰ کے فضل کا معاملہ بالکل دوسرا ہے کیونکہ اس کا فضل کبیرہ کے ساتھ بھی تعلق ہوسکتا ہے اور صغیرہ کے ساتھ بھی لہٰذا جس طرح کبیرہ پر فضل کا احتمال ہے اسی طرح صغیرہ پر عذاب کا احتمال ہے۔ آیت زیر بحث کا اہل سنت کے مسلک کے موافق یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اگر تم لوگ کبیرہ گناہ سے اجتناب کروگے اور کبیرہ گناہ سے بچ نکلوگے تو وہ ذرائع اور وسائل اور وہ افعال جو تم نے اس کبیرہ کے لیے کئے تھے ان پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں مرفوعاً آیا ہے کہ ابن آدم کے ذمہ پر جو زنا کا حصہ مقرر فرمادیا ہے وہ ضرور اس کو مل کررہے گا لہٰذا زنا میں آنکھوں کا حصہ دیکھنا ہے اور زبان کا حصہ اس اجنبی عورت سے باتیں کرنا ہے اور نفس کا حصہ اس کی خواہش کرنا ہے۔ پائوں کا حصہ اس کی طرف چلنا ہے لیکن ان سب باتوں کا تحقق اور عدم تحقق شرم گاہ پر موقوف ہے اگر شرم گاہ نے زنا کی تصدیق کردی تو سب گناہ گار ٹھہرے اور اگر شرمگاہ نے تکذیب کردی یعنی زنا سے بچ گیا تو یہ سب ذرائع اور وسائل خود بخود معاف ہوگئے جو فی نفسہ مباح یا زیادہ سے زیادہ صغیرہ گناہ تھے۔ اسی طرح ایک شخص نے چاقو خریدا اور دل میں یہ خیال کیا کہ چاقو سے فلاں شخص کو قتل کروں گا لیکن مباشرت قتل سے پہلے تائب ہوگیا تو یہ چاقو کا خریدنا معاف ہوگیا۔ یہ مطلب زیادہ واضح اور صاف ہے۔ اب معنی یہ ہیں کہ اگر تم کبائر سے اجتناب کروگے تو ہم ان ذرائع اور وسائل کو معاف فرمادیں گے جو تم نے ان کبائر کے حصول کی غرض سے اختیار کئے ہوں گے۔ اگر آیت کی یہ توجیہہ کی جائے جو آخر میں ہم نے بعض اکابر سے نقل کی ہے تو تیسیر میں اپنے قاعدے کے مطابق کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ (واللہ اعلم بالصواب) بہرحال ! معتزلہ نے جو استدلال اس آیت سے کیا ہے وہ ناقابل التفات ہے اور صحیح بات وہی ہے جو حضرات اہل سنت نے فرمائی ہے اب آگے کبائر سے مجتنب رہنے اور اطاعت کرنے کی فضیلت مذکور ہے اور میراث کے متعلق چند اور چیزیں بیان فرمائی ہیں۔ (تسہیل)