Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 38

سورة النساء

وَ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ وَ مَنۡ یَّکُنِ الشَّیۡطٰنُ لَہٗ قَرِیۡنًا فَسَآءَ قَرِیۡنًا ﴿۳۸﴾

And [also] those who spend of their wealth to be seen by the people and believe not in Allah nor in the Last Day. And he to whom Satan is a companion - then evil is he as a companion.

اور جو لوگ اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور جس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو ، وہ بدترین ساتھی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِيَـاء النَّاسِ ... And (also) those who spend of their wealth to be seen of men, Allah first mentions the punished misers who do not spend, then He mentions those who spend to show off to gain the reputation that they are generous, not for the Face of Allah. A Hadith states that; the first three persons on whom the fire will feed are a scholar, a fighter and a spender who shows off with their actions. For instance, يَقُولُ صَاحِبُ الْمَالِ مَا تَرَكْتُ مِنْ شَيْءٍ تُحِبُّ أَنْ يُنْفَقَ فِيهِ إِلاَّ أَنْفَقْتُ فِي سَبِيلِكَ فَيَقُولُ اللهُ كَذَبْتَ إِنَّمَا أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ جَوَادٌ فَقَدْدِقيل The wealthy will say, "I did not leave any area that You like to be spent on, but I spent on it in Your cause." Allah will say, "You lie, you only did that so that it is said, `He is generous.' And it was said..." meaning you acquired your reward in the life, and this is indeed what you sought with your action. This is why Allah said, ... وَلاَ يُوْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الاخِرِ ... and believe not in Allah and the Last Day, meaning, it is Shaytan who lured them to commit this evil action, instead of performing the good deed as it should be performed. Shaytan encouraged, excited and lured them by making the evil appear good. ... وَمَن يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاء قِرِينًا And whoever takes Shaytan as an intimate; then what a dreadful intimate he has! Allah then said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

38۔ 1 بخل (یعنی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا) یا خرچ کرنا لیکن ریاکاری یعنی نمود و نمائش کے لئے کرنا۔ یہ دونوں باتیں اللہ کو سخت ناپسند ہیں اور ان کی ندامت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ یہاں قرآن کریم میں ان دونوں باتوں کو کافروں کا شیوا اور ان لوگوں کا وطیرہ بتایا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور شیطان ان کا ساتھی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧١] ریاکاری کی وجہ :۔ اس آیت کا تعلق سابقہ مضمون سے بھی ہوسکتا ہے۔ تب اس کا معنیٰ یہ ہوگا کہ ان متکبر اور بڑ مارنے والوں کی دوسری صفت یہ ہے کہ اگر وہ خرچ کرتے بھی ہیں تو محض لوگوں کو دکھاوے کے لیے کرتے ہیں اللہ کی رضامندی کے لیے کرنا پڑے تو بخل کرتے ہیں اور اسے الگ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ پہلی صورت میں اس کا خطاب سب کے لیے عام ہے۔ گویا یہ دو الگ الگ گناہ ہوئے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہو تو بخل سے کام لینا اور کھلے دل سے صرف اس وقت خرچ کرنا جبکہ نمود و نمائش ہی مقصود ہو اور ان دونوں گناہوں کا سبب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا یا تو اللہ پر اور آخرت پر ایمان ہی نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو بہت ہی کمزور ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

بخیلوں کی مذمت کے بعد اب ریا کاری سے خرچ کرنے والوں کی مذمت کی جا رہی ہے اور انھیں شیطان کا ساتھی قرار دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ تین آدمیوں کو سب سے پہلے آگ میں جھونکا جائے گا اور وہ ہیں : 1 ریا کار عالم 2 ریا کار مجاہد 3 اور ریا کار سخی۔ “ [ مسلم، الأمارۃ، باب من قاتل للریاء۔۔ : ١٩٠٥ ] شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” مال دینے میں بخل کرنا جیسا اللہ کے نزدیک برا ہے ویسا ہی خلق کے دکھانے کو دینا۔ قبول وہ ہے جو ان حق داروں کو دے جن کا پہلے ذکر ہوچکا ہے اور پھر اللہ کے یقین اور آخرت کی توقع سے دے۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Inverse 38, beginning with the words, وَالَّذِينَ يُنفِقُونَ another trait in the character of the arrogant has been described. Ordinarily they themselves hold back any spending in the way of Allah and persuade others to do the same. Nevertheless, when they wish to show off before people, they do spend. Since these people do not believe in Allah and the Last Day, the question of spending their wealth for the good pleasure of Allah and with the intention of earning rewards in the life¬ to-come just does not arise. Such people are the accomplices of Satan, therefore, the end of it all will be no different than the end of their comrade Satan. This verse tells us that the way it is disgraceful to be niggardly and tardy in fulfilling due rights, very similarly, it is also extremely bad to spend to show off or to spend on heads which are purposeless. A good deed aimed at drawing applause from people - and which is not for Allah exclusively - is a deed not acceptable in the sight of Allah. In hadith, it has been declared as shirk (associating others in the divinity of Allah). Sayyidna Abu Hurairah (رض) narrates that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: قال اللہ تعالیٰ انا اغنی الشرکاء عن الشرک من عمل عملاً اشرک فیہ معی غیری ترکتہ و شرکہ |"Allah Almighty says: I am absolutely free of any need to have partners. Whoever does a (good) deed and associates in it someone else with Me, I leave him (un أ helped) with this deed (of associating partners with Me) |". Sayyidna Shaddad ibn Aws (رض) narrates that he heard the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم say: عن شداد بن اوس قال سمعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَن صَلَّی یرایٔ فقد اشرک، و مَن صَامَ یرایٔ فقد اشرک، ومَن تصدَّق یرایٔ فقد اشرک (احمد بحوالہ مشکوۃ) |"Whoever performed salah to show off, committed shirk; and whoever fasted to show off, committed shirk; and whoever gave in charity to show off, committed shirk.|" (Ahmad, as cited by Mishkat). Sayyidna Mahmud ibn Labid (رض) عنہ narrates that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: عن محمود بن لبید اَنَّ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال اَن اخاف علیک الشرک الاصغر، قالوا : یا رسول اللہ وَ مَااشرک الاصغر ؟ قال : الرِّیاء (احمد بحوالہ مشکوۃ) |"What fills me with grave apprehensions about you is the minor shirk.|" The Companions asked: |"0 Messenger of Allah, what is the minor shirk?|" He said: |"riya& (i.e. to do a good deed just to show off& ). (Ahmad, as cited by Mishkat) Here, a narration from al-Baihaqi adds that, on the Day of Doom, when the reward for good deeds will be given out, Allah Almighty will say to the persons committing riya& i.e. the persons who did good deed just to earn the applause of the people: |"Go to those you wanted to see you doing good deeds in the mortal world and then find out for yourself if they have the reward for your deeds.|"

والذین ینفقون سے متکرین کی ایک دوسری صفت بتلا دی کہ یہ لوگ اللہ کے راستہ میں خود بھی خرچ نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی بخل کی ترغیب دیتے ہیں، البتہ لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتے رہتے ہیں اور چونکہ یہ لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے، اس لئے اللہ کی رضا اور ثواب آخرت کی نیت سے خرچ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ایسے لوگ تو شیطان کے ساتھی ہیں لہٰذا اس کا انجام بھی وہی ہوگا جو ان کے ساتھی شیطان کا ہوگا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس طرح حقوق واجبہ میں کوتاہی کرنا بخل کرنا معیوب ہے اسی طرح لوگوں کو دکھانے کے لئے اور بےمقصد مصارف میں خرچ کرنا بھی بہت برا ہے، وہ لوگ جو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کے دکھانے کو نیکی کرتے ہیں ان کا وہ عمل عنداللہ مقبول نہیں ہوتا اور حدیث میں اسے شرک قرار دیا گیا ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں شرک سے بالکل بےنیاز ہوں، جو شخص کوئی نیک عمل کرتا ہے اور اس میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک ٹھہراتا ہے تو میں اس عمل کو شرک ہی کے لئے چھوڑ دیتا ہوں اور اس عمل کرنے والے کو بھی چھوڑ دیتا ہوں۔ “ ” شداد بن اوس سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے نماز پڑھی دکھانے کے لئے تو اس نے شرک کیا، جس نے روزہ رکھا دکھانے کے لئے تو اس نے شرک کیا، اور جس نے کوئی صدقہ دیا دکھانے کے لئے تو اس نے شرک کیا۔ “ ” محمود بن لبید (رض) سے روایت ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے متعلق مجھے بہت زیادہ اندیشہ شرک اصغر کا ہے، صحابہ نے پوچھا، شرک اصغر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا، ریا “ (احمد بحوالہ مشکوة) اور بیہقی کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ قیامت کے دن جب اعمال صالحہ کا ثواب تقسیم ہوگا تو اللہ تعالیٰ ان ریا کرنے والوں سے فرمائیں گے۔ ” ان لوگوں کے پاس چلے جاؤ جن کو دکھانے کے لئے تم دنیا میں نیک عمل کرتے تھے اور دیکھ لو کہ کیا ان کے پاس تمہارے اعمال کا ثواب اور اس کی جزاء ہے۔ “

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝ ٠ۭ وَمَنْ يَّكُنِ الشَّيْطٰنُ لَہٗ قَرِيْنًا فَسَاۗءَ قَرِيْنًا۝ ٣٨ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ ریاء قوله : «لا تَتَرَاءَى نارهما» ومنازلهم رِئَاءٌ ، أي : متقابلة . وفعل ذلک رِئَاءُ الناس، أي : مُرَاءَاةً وتشيّعا . والْمِرْآةُ ما يرى فيه صورة الأشياء، وهي مفعلة من : رأيت، نحو : المصحف من صحفت، وجمعها مَرَائِي، رئائ۔ راء ی یرائی ( باب مفاعلۃ) مراء ۃ ورئاء مصدر ( ر ء ی مادہ) خلاف اصل و خلاف حقیقت دکھانا۔ دکھاوا۔ خود نمائی۔ کسی کو دکھانے کے لئے کسی کام کا کرنا۔ رئاء الناس۔ مضاف مضاف الیہ۔ لوگوں کے دکھاوے کے لئے۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو قرین الِاقْتِرَانُ کالازدواج في كونه اجتماع شيئين، أو أشياء في معنی من المعاني . قال تعالی: أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف/ 53] . يقال : قَرَنْتُ البعیر بالبعیر : جمعت بينهما، ويسمّى الحبل الذي يشدّ به قَرَناً ، وقَرَّنْتُهُ علی التّكثير قال : وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص/ 38] وفلان قِرْنُ فلان في الولادة، وقَرِينُهُ وقِرْنُهُ في الجلادة «1» ، وفي القوّة، وفي غيرها من الأحوال . قال تعالی: إِنِّي كانَ لِي قَرِينٌ [ الصافات/ 51] ، وَقالَ قَرِينُهُ هذا ما لَدَيَّ [ ق/ 23] إشارة إلى شهيده . قالَ قَرِينُهُ رَبَّنا ما أَطْغَيْتُهُ [ ق/ 27] ، فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ [ الزخرف/ 36] وجمعه : قُرَنَاءُ. قال : وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت/ 25] . ( ق ر ن ) الا قتران ازداواج کی طرح اقتران کے معنی بھی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے کسی معنی میں باہم مجتمع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ جاءَ مَعَهُ الْمَلائِكَةُ مُقْتَرِنِينَ [ الزخرف/ 53] یا یہ ہوتا کہ فر شتے جمع کر اس کے ساتھ آتے دو اونٹوں کو ایک رسی کے ساتھ باندھ دینا اور جس رسی کے ساتھ ان کو باندھا جاتا ہے اسے قرن کہا جاتا ہے اور قرنتہ ( تفعیل ) میں مبالغہ کے معنی پائے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفادِ [ ص/ 38] اور اور روں کو بھی جو زنجروں میں جکڑ ی ہوئی تھے ۔ اور آدمی جو دوسرے کا ہم عمر ہو یا بہادری قوت اور دیگر اوصاف میں اس کا ہم پلہ ہوا سے اس کا قرن کہا جاتا ہے اور ہم پلہ یا ہم سر کون قرین بھی کہتے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ فلان قرن فلان او قرینہ فلاں اس کا ہم عمر ہم سر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنِّي كانَ لِي قَرِينٌ [ الصافات/ 51] کہ میرا ایک ہم نشین تھا ۔ وَقالَ قَرِينُهُ هذا ما لَدَيَّ [ ق/ 23] اور اس کا ہم نشین ( فرشتہ ) کہے گا یہ ( اعمال مانہ ) میرے پاس تیار ہے ۔ یہاں قرین سے مراد وہ فرشتہ ہے جسے دوسری جگہ شہید ( گواہ ) کہا ہے ۔ قالَ قَرِينُهُ رَبَّنا ما أَطْغَيْتُهُ [ ق/ 27] ، اس کا ساتھی ( شیطان ) کہے گا کہ اے ہمارے پروردگار میں نے اس کو گمراہ نہیں کیا ۔ فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ [ الزخرف/ 36] تو وہ اس کا ساتھی ہوجا تا ہے ۔ قرین کی جمع قرنآء ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَيَّضْنا لَهُمْ قُرَناءَ [ فصلت/ 25] اور ہم نے شیبان کو ان کا ہم نشین مقرر کردیا ۔ ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

سخاوت میں ریاکاری کی مذمت قول باری ہے (والذین ینفقون اموالھم رئاء الناس ولایومنون بااللہ ولابالیوم الاخر ، اور وہ لوگ بھی اللہ کو ناپسند ہیں جو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور درحقیقت نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ روز آخرت پر) ۔ آیت کا مفہوم ۔ واللہ اعلم۔ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے جو خود کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیتے ہیں نیز ان لوگوں کے لیے جو اپنے مال مخصوص لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں ذلت آمیز عذاب تیارکررکھا ہے۔ اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ بندہ جو کام بھی اللہ کی خاطر نہیں کرتا اس میں عبادت کا پہلو نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اس کام پر ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے اس لیے کہ بندہ جو کام بھی دکھلاوے کی خاطر کرتا ہے اسمیں اس کا ارادہ دنیاوی معاوضہ حاصل کرنا ہوتا ہے مثلا ، یہ کہ اس کام پر خوبصورت الفاظ میں اس کا تذکرہ کیا جائے تعریفوں کے ڈونگرے برسائے جائیں وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح یہ بات اس قاعدے کے لیے اصل اور بنیاد بن گئی کہ ہر وہ کام جس میں دنیاوی معاوضہ مدنظر ہو وہ قربت یعنی عبادت نہیں کہلاسکتا مثلاحج کرنے یا نماز کے لیے کسی کو اجرت پر لینا، اس طرح تمام عبادات کا حکم ہے کہ جب عبادت کرنے والاکسی معاوضے کا مستحق قرار دیاجائے گا، تو وہ عبادت تقرب الٰہی کے دائرے سے خارج ہوجائے گی۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ ان افعال کی ادائیگی کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انہیں تقرب الٰہی اور اس کی رضاجوئی کی خاطر ادا کیا جائے، اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان عبادات الٰہی پر کسی معاوضے اور اجرت کا استحقاق جائز نہیں اور ان کے لیے مزدوری کے طورپر کسی کو مقرر کرنا باطل ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٨) اور رؤسا یہود جو دکھاوے کے لیے مال خرچ کرتے ہیں ان کی اصل غرض یہ ہے کہ ان کو ملت ابراہیمی کا پیرو کہا جائے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم موت کے بعد دوبارہ زندگی کے عقیدے اور اہل بہشت کی نعمتوں پر ایمان نہیں رکھتے تو شیطان جس کا دنیا میں مددگار ہو وہ دوزخ میں اس کا برا ساتھی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:38) یکن مضارع مجزوم فعل ناقص کون سے (باب نصر) اصل میں یکون تھا۔ من جازم فعل کی وجہ سے ن ساکن ہوگیا۔ اجتماع ساکنین (واؤ۔ نون) کی وجہ سے واؤ گرگئی۔ قریبا۔ بروزن فعیل۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے (باب کرم) ساتھی۔ دوست۔ اس کی جمع قرناء ہے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ وقیضنا لہم قرناء (41:25) اور ہم نے شیطان کو ان کو ہمنشین مقرر کردیا۔ ایک زمانہ کے لوگ یا امت قرن کہلاتی ہے۔ اس کی جمع قرون ہے جیسے قرون اولیٰ ۔ پہلی امتین۔ قرن جانور کا سینگ بھی ہے۔ ذوالقرنین دو سینگوں والا۔ یہاں سینگ تشبیہ کے طور پر استعمال ہوا ہے) ۔ آیات 36 ۔ 37 ۔ 38 میں مختالا فخورا۔ ان اشخاص کے لئے ہے جو اپنے مال و دولت۔ عزت و جاہ وغیرہ پر اتراتے ہیں۔ اور فخر کرتے ہیں۔ الذین یبخلون ۔۔ الخ مختالا فخورا کی صفت ہے۔ کافرین سے مراد یہی مندرجہ بالا گروہ ہے کہ کفران نعمت سے کام لیتے ہوئے اللہ کے دئیے ہوئے فضل پر بیجا گھمنڈ کرتے ہیں ۔ اس کے صحیح استعمال میں کنجوسی کرتے ہیں دوسروں کو اس کے صحیح استعمال سے منع کرتے ہیں۔ اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو دوسروں سے چھپاتے ہیں۔ والذین ینفقون کی تین صورتیں ہیں : (1) یہ الذین یبخلون پر عطف ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا۔ اور اللہ ان لوگوں کو بھی پسند نہیں کرتا۔ جو اپنا مال دکھاوے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔۔ الخ۔ (2) یہ للکافرین پر عطف ہے اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا ۔ ان لوگوں کے لئے بھی جو اپنا مال دکھاوے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔۔ الخ ہم نے ان کے لئے بھی رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (3) والذین ینفقون۔ سے نیا جملہ شروع ہوتا ہے۔ اس صورت میں والذین ینفقون ۔۔ بالیوم الاخر۔ مبتداء اس کی خبر محذوف (فلہم الشیطان قرینا۔ تو شیطان ان کا ساتھی ٹھہرا) اور جن کا ساتھی شیطان ہو (تو وہ جان لے شیطان) بہت برا ہے ایک ساتھی کی حیثیت سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 بخیلوں کی مذمت کے بعد اب ریاکاروں سے خرچ کر نیوالوں کی مذمت کی جارہی ہے اور انہیں شیطان کا ساتھی قرار دیا گیا ہے حدیث میں ہے تین آدمیوں کو سب سے پہلے آگ میں جھو نکا جائے گا اور وہ ہیں ریاکر عالم۔ ریاکار مجاہد اور ریا کر سخی۔ (ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں : مال دینے میں بخل کرنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک برا ہے ویسے ہی خلق کے دکھا نے کو دینا۔ قبول وہ ہے جو حقداروں کو دے جن کا اول مذکور ہوا اور پھر خدا کے یقین اور آخرت کی تو قع سے دے (موضح) بخل اور ریاکاری کی مذمت کے بعد ایمان وطاعت اور صدقہ و خیرات کی ترغیب دلائی پھر مزید ترغیب کے لیے فرمایا جب ذرا ذرا اسی چیز کا اللہ تعالیٰ کئی گنا اجر دیتے ہیں پھر لوگ کیوں نیک کاموں میں سستی کرتے اور ریا کاری سے کام لیکر اپنے اجر کو ضائع کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص کی تمام نیکیاں لوگوں کو دے دی جائینگی حتی ٰ کہ صرف ذرہ بھر نیکی اس کے پاس رہ جائیگی تو اللہ تعالیٰ اسے کئی گنا بڑھاکر اسے جنت میں داخل فرمادینگے پھر عبد اللہ بن مسعود یہ آیت پڑھ (قرطبہ )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اوپر کفر باللہ وبالرسول وبالقیامہ اور بخل اور ریا اور کبر کی مذمت فرمائی ہے آگے ان کے اضداد کی ترغیب دیتے ہیں پس وہ تتمہ ہے ماقبل کا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ریا کاری کے طور پر مال خرچ کرنے کی مذمت : پھر فرمایا (وَ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ رِءَآء النَّاسِ وَلاَ یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَ لا بالْیُوْمِ الْاٰخِرِ ) (اور جو لوگ اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں لوگوں کو دکھانے کے لیے اور نہیں ایمان لاتے اللہ پر اور آخرت کے دن پر) یہ بھی مختالاً فخوراً کی صفت ہے۔ درمیان میں بطور جملہ معترضہ کافروں کے لیے عذاب مہین کا تذکرہ فرما دیا اس میں یہ بتایا کہ یہ تکبر اور فخر کے متوالے اللہ کی رضا کے کاموں میں تو خرچ نہیں کرتے البتہ لوگوں کے دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ دنیا دار کو جاہ و شہرت مطلوب ہوتی ہے وہ چاہتا ہے کہ میری تعریف ہو اور لوگوں پر میری مالداری ظاہر ہو۔ اسی لیے اہل دنیا اللہ کی رضا کے کاموں میں مال خرچ کرنے سے جان چراتے ہیں۔ ان لوگوں کی مذمت فرماتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ یہ لوگ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتے اللہ پر ایمان لاتے تو اس سے ثواب لینے کی امید رکھتے اور عذاب سے ڈرتے اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے (جہاں اعمال کی جزا ملتی ہے) تو اپنی زندگی کو درست کرتے۔ آخر میں فرمایا (وَ مَنْ یَّکُنِ الشَّیْطٰنُ لَہٗ قَرِیْنًا) (یعنی اور شیطان جس کا ساتھی ہو سو وہ برا ساتھی ہے) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہاں الشیطان سے ابلیس اور اس کے مددگار جو اس کے قبیلہ سے ہیں اور وہ لوگ جو اس کی باتوں پر چلتے ہیں یہ سب مراد ہیں پھر لکھتے ہیں کہ نفسانی قوتیں اور خواہشیں اور شیاطین الانس والجن بھی مراد ہوسکتے ہیں۔ شیطان کو برا ساتھی اس لیے بتایا کہ ہمیشہ گناہوں کی طرف بلاتا ہے اور گناہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور گناہ دوزخ میں داخل ہونے کا سبب ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 وہ متکبر و فخور جو خود بھی بخل کرتے ہوں اور دوسروں لوگوں کو بھی اپنے قول و فعل سے بخل کی تعلیم دیتے ہوں اور بخل کرنا سکھاتے ہوں اور وہ اس چیز کو چھپاتے ہوں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو عطا فرمائی ہے اور ہم نے ایسے فرمانوں اور ناسپاسوں کے لئے اہانت آمیز اور ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی پسند نہیں فرماتا جو لوگ اپنے مال لوگوں کو دکھانے کی غرض سے خرچ کرتے ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخرت پر اعتقاد رکھتے ہیں اور بات تو یہ ہے کہ جس کا ساتھی اور مصاحب شیطان ہو تو وہ برا ساتھی اور برا مصاحب ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اہل حقوق کے ساتھ احسان نہ کرنے کی وجہ عام طور سے انسان کا تکبر اور خود پسندی اور اس کا بخل ہوتا ہے اسی کا اس آیت میں ذکر کیا ہے کہ یہ لوگ خود بھی بخل کے خوگر ہیں اس لئے نہ ماں باپ کا حق ادا کرتے ہیں اور نہ مساکین و محتاج کو کچھ دیتے ہیں اور نہ پڑوسیوں کی اور مسافروں کی خبر گیری کرتے ہیں اور نہ اپنے ممالک کے ساتھ اچھا برتائو کرتے ہیں اور یہ ایسے بخیل ہیں کہ دوسروں کو بھی بخل کی ترغیب دیتے ہیں یہ تو زبان سے بخل سکھانا ہوا یا ان کی دیکھا دیکھی دوسروں کو بھی بخل کا شوق رہوتا ہے یہ فعل سے بخل کا سکھانا ہوا اور فرمایا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو چھپاتے ہیں جو اس نے ان پر کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جو ان کو دے رکھا ہے اس کو یہ لوگ چھپاتے ہیں۔ چھپانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے کو مفلس ظاہر کرتے ہیں اور اہل حق سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کیا رکھا ہے جو ہم تم کو دیں یا یہ مطلب ہے کہ اگر مال غرباء کو دیتے رہیں تو اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اظہار ہو لیکن یہ بخل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نعمت کو ظاہر نہیں ہونے دیتے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اشارہ یہود کی طرف ہو کیونکہ انہوں نے ان پیشین گوئیوں کے ظاہر کرنے میں بخل سے کام لیا جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق توریت میں مذکور تھیں۔ آخر میں اہانت آمیز عذاب کا ذکر فرمایا کہ ایسے ناسپاس لوگ جو متکبر اور شیخی مارنے والے اور بخیل اور بخل کی تعلیم دینے والے اور اللہ کے فضل کو چھپانے والے ہوں ان کے لئے ذلیل و رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ اسی کے ساتھ ریا کاروں کا بھی ذکر فرمایا کہ جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر تو اعتقاد نہیں رکھتے اور کچھ دیتے بھی ہیں تو اس میں لوگوں کا دکھاوا مقصود ہوتا ہے تو اس قسم کے منافق بھی اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں اور چونکہ ان تمام خرابیوں کی اصل جڑ شیطان کی دوستی ہے اور ایک ہم نشین کا اثر دوسرے ہم نشین پر پڑنا ضروری ہے اس لئے آخر میں فرمایا کہ شیطان جس کا قرین اور ہم جلیس و ہم صحبت ہو تو وہ برا ہم جلیس ہے کیونکہ اس کی دوستی سے سوائے نقصان اور ضرر کے کوئی فائدہ نہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں مال دینے میں بخل کرنا جیسا اللہ کے نزدیک برا ہے ویسا ہی خلق کے دکھانے کو دینا اور قبول وہ ہے جو حقداروں کو دے جن کا مذکرو اول ہوا خدا کے یقین سے اور آخرت کی توقع سے دے ۔ (موضح القرآن) حدیث میں آتا ہے۔ ان اللہ یحب ان یری اثر نعمتہ علیک یعنی اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتا ہے کہ وہ اپنی نعمت کا اثر تجھ پر دیکھے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی فضل کیا ہے تو اس کو استعمال کر یہ نہیں کہ صندوق میں بند کر کے رکھ دے ان آیتوں میں جن چیزوں کی مذمت فرمائی تھی مثلاً کبر ، بخل خدا کی نعمت کا کتمان اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے سے انکار، ریا کاری اور شیطان کی دوستی ان سب باتوں کے مقابلہ میں ان باتوں کی ترغیب دیتے ہیں جو ان برائیوں کی ضد ہیں اور ان تمام نیک باتوں کا خلاصہ صرف تین چیزوں میں بیان فرمایا ہے اور درحقیقت اصولی طور پر وہی تین چیزیں ان تمام مذکورہ امراض کا علاج ہیں۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)