Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 74

سورة النساء

فَلۡیُقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یَشۡرُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا بِالۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ مَنۡ یُّقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیُقۡتَلۡ اَوۡ یَغۡلِبۡ فَسَوۡفَ نُؤۡتِیۡہِ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿۷۴﴾

So let those fight in the cause of Allah who sell the life of this world for the Hereafter. And he who fights in the cause of Allah and is killed or achieves victory - We will bestow upon him a great reward.

پس جو لوگ دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے بیچ چکے ہیں ، انہیں اللہ تعالٰی کی راہ میں جہاد کرنا چاہیے اور جو شخص اللہ تعالٰی کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہادت پالے یا غالب آ جائے یقیناً ہم اسے بہت بڑا ثواب عنایت فرمائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلْيُقَاتِلْ ... So fight, the believer with an aversion (to fighting), ... فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالاخِرَةِ ... those who trade the life of this world with the Hereafter, referring to those sell their religion for the meager goods of the world, and they only do this because of their disbelief and lack of faith. Allah then said; ... وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَيُقْتَلْ أَو يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُوْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا And whoever fights in the cause of Allah, and is killed or gets victory, We shall bestow on him a great reward. meaning, whoever fights in the cause of Allah, whether he was killed or triumphant, he will earn an immense compensation and a great reward with Allah. The Two Sahihs recorded, وَتَكَفَّلَ اللهُ لِلْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِهِ إِنْ تَوَفَّاهُ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ أَوْ يَرْجِعَهُ إِلى مَسْكَنِهِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَة Allah has guaranteed the Mujahid in His cause that; He will either bring death to him, admitting into Paradise; or, He will help him return safely to his home with whatever reward and booty he gained.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

74۔ 1 شَرَیٰ یشٰریٰ ، کے معنی بیچنے کے بھی آتے ہیں اور خریدنے کے بھی۔ متن میں پہلا ترجمہ اختیار کیا گیا ہے اس اعتبار سے (فلیقاتل) کا فاعل (الَّذِيْنَ يَشْرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا) 004:074 اگر اس کے معنی خریدنے کے کئے جائیں تو اس صورت میں الذین مفعول بنے گا اور فلیقاتل کا فاعل المومن النافر (راہ جہاد میں کوچ کرنے والے مومن) محذوف ہوگا۔ مومن ان لوگوں سے لڑیں جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا خرید لی۔ یعنی جنہوں نے دنیا کے تھوڑے سے مال کی خاطر اپنے دین کو فروخت کردیا۔ مراد منافقین اور کافرین ہونگے (ابن کثیر نے یہی مفہوم بیان کیا ہے)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٣] اس آیت میں مسلمانوں کو محض اللہ کی رضا اور اسلام کی سربلندی کی خاطر لڑنے کی ترغیب دی جا رہی ہے اور بتایا گیا ہے کہ مسلمان خواہ لڑائی میں شہید ہوجائے یا بچ کر گھر واپس آجائے اسے دونوں صورتوں میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا & کوئی شخص مال غنیمت کے لیے لڑتا ہے، کوئی شہرت اور ناموری کے لیے اور کوئی اپنی بہادری دکھانے کے لیے لڑتا ہے اور کوئی غصے اور قومی حمیت کی وجہ سے لڑتا ہے۔ ان میں سے کون اللہ کی راہ میں لڑتا ہے ؟ & آپ نے فرمایا & اللہ کی راہ میں لڑنے والا صرف وہ ہے جس کا مقصد یہ ہو کہ اس سے اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ & (بخاری، کتاب الجہاد۔ باب من قاتل لتکون کلمۃ اللہھی العلیا۔۔ مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ہی العلیا فھو فی سبیل اللہ۔۔ بخاری۔ کتاب العلم۔ باب من سأال و ہو قائم عالما جالسا) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا & جو شخص اس حال میں مرے کہ نہ اس نے اللہ کے راستے میں جنگ کی اور نہ ہی کبھی اس کے دل میں اس کا خیال گزرا ہو تو اس کی موت نفاق کی ایک شاخ پر ہوگی۔ & (مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب ذم من مات ولم یغز ولم یحدث نفسہ بالغزو) ٣۔ سیدنا ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ آپ سے پوچھا گیا کہ & لوگوں میں سب سے افضل کون ہے ؟ & فرمایا & جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرے۔ & (بخاری، کتاب الجہاد، باب افضل الناس مومن مجاھد بنفسہ و مالہ) ٤۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا & اگر میری امت پر یہ بات گرانبار نہ ہوتی تو میں کسی لشکر سے پیچھے نہ رہتا اور میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں۔ & (بخاری، کتاب الایمان، باب الجہاد من الایمان۔۔ مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب فضل الجہاد) ٥۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا۔ & جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے (بلندی درجات کے حساب سے) مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے تیار کیا ہے اور ہر درجے میں اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے۔ & (بخاری، کتاب الجہاد۔ باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ۔۔ مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب بیان ما اعد اللہ تعالیٰ للمجاہد فی الجنۃ من الدرجات) ٦۔ آپ نے فرمایا & جس بندے کے قدم اللہ کی راہ میں غبار آلود ہوں تو یہ نہیں ہوسکتا کہ پھر اسے آگ چھوئے & (بخاری، کتاب الجہاد، باب من اغبرت قد ماہ فی سبیل اللہ) ٧۔ آپ نے فرمایا & خوب جان لو ! جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ & (بخاری، کتاب الجہاد، باب الجنۃ تحت بارقۃ السیوف) ٨۔ آپ نے فرمایا & اللہ کی راہ میں ایک صبح یا ایک شام نکلنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ & (بخاری، کتاب الجہاد۔ باب الغدوۃ والروحۃ فی سبیل اللہ مسلم، کتاب الامارۃ فضل الغدوۃ والروحۃ فی سبیل اللہ ) ٩۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا & جو شخص اللہ کی راہ میں خالصتاً جہاد کرنے کی نیت سے اپنے گھر سے نکلے اور اللہ کے ارشادات کا اسے یقین ہو تو اللہ اسے یا تو شہادت کا درجہ دے کر جنت میں داخل کرے گا یا ثواب اور مال غنیمت دلا کر بخیر و عافیت اسے اس کے گھر لوٹائے گا۔ & (بخاری، کتاب التوحید باب ولقد سبقت کلمتنا۔۔ )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلْيُقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ ۔۔ : اوپر کی دو آیتوں میں جہاد سے پیچھے رہنے والوں اور دوسروں کو روکنے والوں، یعنی ” مُبَطِّئِیْنَ “ کی مذمت کے بعد اب مخلصین کو ترغیب دی جا رہی ہے۔ (رازی) ” شَرَیٰ یَشْرِیْ “ کے معنی بیچنا اور خریدنا دونوں آتے ہیں، یہاں ترجمہ بیچنے کا کیا گیا ہے اور اکثر مفسرین نے اسے ترجیح دی ہے، لیکن اگر اسے خریدنے کے معنی میں لیا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جو منافق گھر میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے آخرت کے بدلے دنیا خرید رہے ہیں، ان پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلیں اور آخرت کا نقصان کر کے دنیا حاصل نہ کریں۔ (فتح القدیر۔ طبری) فَسَوْفَ نُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًا : یعنی مسلمانوں پر لازم ہے کہ دنیا کی زندگی پر نظر نہ رکھیں، بلکہ آخرت کی خواہش رکھیں اور سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں ہر طرح نفع ہے۔ (موضح) مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کے دو ہی نتیجے ہوسکتے ہیں، شہادت یا فتح اور دونوں مسلمانوں کے حق میں خوش کن ہیں، کیونکہ دونوں ہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر عظیم کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( قُلْ هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ ۭ ) [ التوبۃ : ٥٢ ] ” کہہ دے تم ہمارے بارے میں دو بہترین چیزوں میں سے ایک کے سوا کس کا انتظار کرتے ہو۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والے اس شخص کے لیے ضمانت دی ہے کہ جس شخص کو اس کے راستے میں جہاد اور اس کے کلمات کی تصدیق کے سوا کوئی چیز نہیں نکالتی، وہ اسے جنت میں داخل کرے گا، یا اس کی رہائش گاہ پر لائے گا، جہاں سے وہ نکلا تھا، ساتھ وہ اجر اور غنیمت بھی ہوگی جو اس نے حاصل کی۔ [ بخاری، فرض الخمس، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أحلت لکم الغنائم : ٣١٢٣، عن أبی ہریرہ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلْيُقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يَشْرُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا بِالْاٰخِرَۃِ۝ ٠ۭ وَمَنْ يُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَيُقْتَلْ اَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيْہِ اَجْرًا عَظِيْمًا۝ ٧٤ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ شری الشِّرَاءُ والبیع يتلازمان، فَالْمُشْتَرِي دافع الثّمن، وآخذ المثمن، والبائع دافع المثمن، وآخذ الثّمن . هذا إذا کانت المبایعة والْمُشَارَاةُ بناضّ وسلعة، فأمّا إذا کانت بيع سلعة بسلعة صحّ أن يتصور کلّ واحد منهما مُشْتَرِياً وبائعا، ومن هذا الوجه صار لفظ البیع والشّراء يستعمل کلّ واحد منهما في موضع الآخر . وشَرَيْتُ بمعنی بعت أكثر، وابتعت بمعنی اشْتَرَيْتُ أكثر، قال اللہ تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] ، أي : باعوه، ( ش ر ی ) شراء اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] دنا ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ غلب الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] ( غ ل ب ) الغلبتہ کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے سوف سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو : سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ : شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر : إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه . ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤ (فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا بالْاٰخِرَۃِط ۔ جو لوگ یہ طے کرچکے ہوں کہ ہم نے دنیا کی زندگی کے بدلے میں آخرت قبول کی ‘ ان کے لیے تو قتال فی سبیل اللہ میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اگر انہوں نے واقعی یہ سودا اللہ سے کیا ہے تو پھر انہیں اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلنا چاہیے۔ (وَمَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ ) اللہ کی راہ میں قتال کرنے والے کے لیے دو ہی امکانات ہیں ‘ ایک یہ کہ وہ قتل ہو کر مرتبہ شہادت پر فائز ہوجائے اور دوسرے یہ کہ وہ دشمن پر غالب رہے اور فتح مند ہو کر واپس آئے۔ (فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا ) اگلی آیت میں خاص طور پر ان مسلمانوں کی نصرت و حمایت کے لیے قتال کے لیے ترغیب دلائی جا رہی ہے جو مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ ان میں کمزور بھی تھے ‘ بیمار اور بوڑھے بھی تھے ‘ خواتین اور بچے بھی تھے۔ یہ لوگ ایمان تو لے آئے تھے لیکن ہجرت کے قابل نہیں تھے۔ یہ اپنے اپنے علاقوں میں اور اپنے اپنے قبائل میں تھے اور وہاں ان پر ظلم ہو رہا تھا ‘ انہیں ستایا جا رہا تھا ‘ انہیں تشدد و تعذیب کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ تو خاص طور پر ان کی مدد کے لیے نکلنا ان کی جان چھڑانا اور ان کو بچا کرلے آنا ‘ غیرت ایمانی کا بہت ہی شدید تقاضا ہے ‘ بلکہ یہ غیرت انسانی کا بھی تقاضا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

103. The point stressed here is that fighting in the cause of God cannot be conducted by people engrossed in the pursuit of worldly benefits. This is the task of those who seek to please God, who have complete faith in Him and in the Hereafter, who are prepared to sacrifice all opportunities of worldly success and prosperity, and of all worldly interests, hoping thereby to win God's good pleasure. Irrespective of what happens in the present world such sacrifices will not be wasted in the Hereafter. Jihad (struggle in the cause of God) is not for those who mainly care for worldly benefits.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :103 یعنی اللہ کی راہ میں لڑنا دنیا طلب لوگوں کا کام ہے ہی نہیں ۔ یہ تو ایسے لوگوں کا کام ہے جن کے پیش نظر صرف اللہ کی خوشنودی ہو ، جو اللہ اور آخرت پر کامل اعتماد رکھتے ہوں ، اور دنیا میں اپنی کامیابی و خوشحالی کے سارے امکانات اور اپنے ہر قسم کے دنیوی مفاد اس امید پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائیں کہ ان کا رب ان سے راضی ہوگا اور اس دنیا میں نہیں تو آخرت میں بہرحال ان کی قربانیاں ضائع نہ ہوں گی ۔ رہے وہ لوگ جن کی نگاہ میں اصل اہمیت اپنے دنیوی مفاد ہی کی ہو ، تو درحقیقت یہ راستہ ان کے لیے نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:74) فلیقاتل۔ مقاتلہ (مفاعلۃ) مصدر سے امر کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ اس سے خطاب مؤمنین سے ہے جنہوں نے آخرت کے لئے اپنی دنیاوی زندگی بیچ دی فلیقاتل پس چاہے کہ لڑیں۔ ومن یقاتل میں فعل مضارع مجزوم بوجہ عمل من کے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 یعنی مسلمانوں کو چاہیے کہ زندگی دنیا پر نظر نہ رکھیں آخرت چاہیں اور سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں ہر طرح نفع ہے (موضح) مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کی راہ جنگ کے دو ہی نتیجے ہوسکتے ہیں یعنی شہادت یا فتحمندی اور دونوں مسلمان کے حق میں خوش کن ہیں کیونکہ دونوں ہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر عظیم کا وعدہ ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلص مجاہدین کے لیے دو چیزوں میں سے ایک کی ضمانت دی ہے اگر شہید ہوجائے تو سے جنت میں داخل کرے گا اور زندہ واپس آئے تو اجر و غنیمت کے ساتھ واپس آئے گا (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی اس شخص کو اگر فوزعظیم کا شوق ہے تو اول درست کرے ہاتھ پاوں ہلاوے مشقت جھیلے تیغ وسنان کے سامنے سینہ سپر بنے دیکھو فوز عظیم ہاتھ آتا ہے کہ نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اب پھر مسلمانوں کو جہاد پر یہ کہہ کر تیار کیا جارہا ہے کہ ان لوگوں کو جنہوں نے دنیا پر آخرت کو مقدم سمجھ رکھا ہے اللہ کے راستے میں ضرور لڑنا چاہیے۔ انہیں کسی نقصان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ تو پہلے ہی دنیا کو خیر باد کہہ چکے ہیں لہٰذا یہ اللہ کی راہ میں کٹ مریں یا غالب آئیں انہیں ہر دو صورتوں میں اجر عظیم سے نوازا جائے گا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ تَکَفَّلَ اللَّہُ لِمَنْ جَاہَدَ فِی سَبِیلِہِ ، لاَ یُخْرِجُہُ إِلاَّ الْجِہَادُ فِی سَبِیلِہِ ، وَتَصْدِیقُ کَلِمَاتِہِ ، بِأَنْ یُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ ، أَوْ یَرْجِعَہُ إِلَی مَسْکَنِہِ الَّذِی خَرَجَ مِنْہُ ، مَعَ مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِیمَۃٍ )[ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قولہ تعالیٰ ولقد سبقت کلمتنا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کا ذمہ لے لیا جسے اس کے راستے میں صرف جہاد اور اس کے کلمے کی تصدیق نے نکالا ہو کہ اسے جنت میں داخل کرے گا یا اسے اس کے اس گھر میں اجر یا مال غنیمت کے ساتھ لوٹائے گا۔ “ مسائل ١۔ منافق کامیابی کے وقت اپنی عدم حاضری پر پچھتاتا ہے۔ ٢۔ کفار کے خلاف جہاد کرنے میں کامیابی یا شہادت دونوں ہی اجر عظیم کا باعث ہیں۔ تفسیر بالقرآن مجاہد کا اجر وثواب : ١۔ مجاہد اور غیر مجاہد برابر نہیں (النساء : ٩٥) ٢۔ مجاہدین عذاب الیم سے نجات پائیں گے۔ (الصف : ١٠، ١١) ٣۔ مجاہد کے لیے جنت۔ (محمد : ٦) ٤۔ شہید کے لیے مغفرت۔ (آل عمران : ١٥٧) ٥۔ مجاہدین سے اللہ تعالیٰ کی محبت۔ (الصف : ٤) ٦۔ شہید زندہ ہیں وہ اللہ کے ہاں رزق پاتے اور بےخوف و غم ہوتے ہیں۔ (آل عمران : ١٧٠، ١٧١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” فلیقاتل فی سبیل اللہ الذین یشرون الحیوۃ الدینا بالاخرۃ ومن یقاتل فی سبیل اللہ فیقتل اویغلب فسوف نوتیہ اجرا عظیما (٤ : ٧٤) (ایسے لوگوں کو معلوم ہو کہ) اللہ راہ میں لڑنا چاہئے ان لوگوں کو جو آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو فروخت کردیں ‘ پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اسے ضرور ہم اجر عظیم عطا کریں گے ۔ “ اس لئے مومنین کو اللہ کی راہ میں لڑنا چاہئے ‘ اسلام ماسوائے اس کے کہ اللہ کی راہ میں جنگ کی جائے ‘ کسی اور جنگ کا قائم ہی نہیں ہے ۔ اس لئے جنگ نہ کی جائے کہ مصنوعات کے لئے خام مال فراہم کیا جائے ‘ نہ اسلام غنیمت کے لئے جنگ کی اجازت دیتا ہے ‘ نہ اقتدار کے حصول کے لئے اجازت دیتا ہے ‘ نہ وہ ذاتی اور قومی برتری کے لئے جنگ کی اجازت دیتا ہے ‘ نہ ملکوں کو فتح کرنے کے لئے جنگ کی اجازت دیتا ہے ‘ نہ لوگوں کو غلام بنانے کے لئے اجازت دیتا ہے ‘ اور نہ اسلام کسی ایسی جنگ کی اجازت دیتا ہے جو منڈیوں کے حصول کے لئے لڑی جائے ‘ اور نہ اسلام کی جنگ اس بات کے لئے کہ نو آبادیاتی علاقوں میں سرمایہ لگا کر مفادات حاصل کئے جائیں ۔ اسلام ذاتی برتری کے لئے جنگ کی اجازت نہیں دیتا اور نہ کسی خاندان کی برتری کے لئے جنگ کی اجازت دیتا ہے ۔ نہ کسی طبقے اور کسی حکومت کی برتری کے لئے اسلام جنگ کی اجازت دیتا ہے نہ کسی قوم اور نہ کسی نسل کی برتری کے لئے اسلام لڑتا ہے ۔ اسلام صرف اللہ کی راہ میں جنگ کی اجازت دیتا ہے ‘ اور زمین پر اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لئے اسلام کی اجازت اجازت دیتا ہے اور یہ اس لئے کہ اس کرہ ارض پر تمام انسانوں کے درمیان بےقید عدل و انصاف جاری کرے لیکن اس نظام کے تحت ہر شخص کو عقیدے اور نظریے کی مکمل آزادی ہو ۔ یوں اس ربانی انسانی اور عالمی نظام حیات کے تحت لوگ زندہ رہیں۔ جب ایک مسلمان اللہ کے راستے میں لڑنے کے لئے نکلتا ہے ‘ اور یہ لڑائی وہ صرف اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے کرتا ہے اور زندگی میں اسلامی نظام حیات کی حکمرانی کے لئے لڑتا ہے اور پھر وہ قتل ہوجاتا ہے تو وہ شہید ہوتا ہے ۔ وہ اللہ کے نزدیک مقام شہداء پر فائز ہوتا ہے اور اگر وہ اس مقصد کے سوا کسی اور مقصد کی خاطر لڑتا ہے تو وہ کسی صورت میں بھی شہید نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے لئے کوئی اجر اور صلہ نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا صلہ ان مقاصد کے زعماء کے پاس ہوتا ہے جو لوگ ایسے لوگوں کو شہداء کہتے ہیں وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو اس چیز کے ساتھ تقدس دیتے ہیں جس کی ساتھ اللہ کسی کو مقدس نہیں بناتا ۔ یہ اللہ پر افتراء کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ لہذا اللہ کے راستے میں صرف اس ایک مقصد کے لئے لڑنا جائز ہے ۔ اور یہ لڑائی وہ لوگ کرتے ہیں جو دنیا فروخت کرکے آخرت خریدتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم انتظار میں ہے ۔ دونوں حالتوں میں ان پر فضل ہے ۔ اگر وہ اللہ کی راہ میں قتل ہوجائیں تو بھی فضل ہے اور اگر وہ اللہ کی راہ میں غالب ہوجائیں تو بھی اللہ کا فضل ہے ۔ (آیت) ” ومن یقاتل فی سبیل اللہ فیقتل اویغلب فسوف نوتیہ اجرا عظیما (٤ : ٧٤) ‘ پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اسے ضرور ہم اجر عظیم عطا کریں گے ۔ “ اس طرح قرآنی نظام حیات ان نفوس قدسیہ کو بلند کرتا ہے اور وہ دونوں حالتوں میں اللہ کے عظیم فضل کے امیدوار ہوجاتے ہیں ۔ ان پر اللہ کی راہ میں موت اور جان دینا آسان ہوجاتا ہے ۔ وہ اس دنیا کے مال غنیمت کے حصول کی امید سے بھی بالا ہوجاتے ہیں ۔ اس لئے کہ پوری کی پوری زندگی اور مال غنیمت کے بڑے بڑے ڈھیر بھی اللہ کے فضل عظیم کے مقابلے میں کچھ نہیں ہیں ۔ اسی طرح یہ مختصر ٹچ ‘ انسان کے دلوں میں اس سودے کے خلاف نفرت پیدا کردیتا ہے جس میں کوئی شخص آخرت کے مقابلے میں دنیا کو خریدتا ہے ۔ لفظ یشرون متضاد الفاظ میں سے ہے جو خرید کے معنی میں بھی آتا ہے اور فروخت کے معنی میں بھی آتا ہے لیکن زیادہ تر یہ فروخت کے معنی میں آتا ہے ‘ تو یہ سودا نہایت ہی خسارے کا ہوگا چاہے انہیں دنیا میں مال غنیمت ملے یا نہ ملے اس لئے کہ دنیا کا آخرت سے کیا مقابلہ ہے اور مال غنیمت کے حقیر مال کا اللہ کے فضل عظیم کے ساتھ کیا مقابلہ ہے ۔ اللہ کے فضل میں مال بھی شامل ہے اور مال کے علاوہ دوسرے اکرام اور انعام بھی شامل ہیں ۔ اب روئے سخن مسلمانوں کی طرف پھرجاتا ہے ۔ جنگ سے پہلو تہی کرنے والوں اور جی چرانے والوں کی تصویر کشی کے انداز کو اب چھوڑ کر مسلمانوں سے خطاب کیا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کی مروت اور جوانمردی کو ابھارا جاتا ہے ۔ ان کے دلوں کے اندر احساس فرض پیدا کیا جاتا ہے ۔ اس دنیا اور جزیرۃ العرب میں زیردست لوگوں کے حالات پر غور کرو۔ مرد ‘ عورتیں اور بچے جو مکہ مکرمہ میں مشرکین کے ہاتھوں مظالم سہ رہے ہیں اورا ن کے اندر اس قدر قوت بھی نہیں ہے کہ وہ دارالاسلام کی طرف ہجرت کر آئیں اور فرار اختیار کر کے اپنے دین اور نظریات کو بچا لیں ۔ وہ آزادی کی آس لئے ہوئے ہیں اور ہر وقت دست بدعاء رہتے ہیں کہ اے پروردگار ہمیں اس گاؤں سے نکال جہاں کے رہنے والے ظالم ہیں۔ اس صورت حال کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کرکے انہیں بتاتا ہے کہ تمہاری جنگ بلند مقاصد کے لئے ہے تمہارے اہداف بلند ہیں ‘ اور یہ جنگ جس کے لئے تمہیں نکلنے کا حکم دیا جارہا ہے اس کے مقاصد نہایت ہی اونچے مقاصد ہیں۔ اس لئے انہیں اس کی طرف بوجھل قدموں سے نہ نکلنا چاہئے ، یہ پکار نہایت ہی تاکیدی ار برانگیختہ کرنے کے انداز میں ہے ۔ اور سستی اور پیچھے رہنے کو بہت ہی برا سمجھا گیا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا بالْاٰخِرَۃِ ) یعنی جو لوگ طالب دنیا ہیں اپنی دنیا بنانے کے لیے آخرت کو چھوڑ رہے ہیں اور دنیا ہی کو سب کچھ سمجھے ہوئے ہیں یہ لوگ بھی مسلمانوں کی طرح سے اللہ کی راہ میں جنگ لڑیں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے گھروں سے نکلیں کفر کو دبائیں اور کافروں کو شکست دیں۔ ھذا اذا کان شری بعمنی اشتری یعنی الذین یختارون الدنیا علی الاخرۃ و جاز ان یکون بمعنی یبیعون فیکون المراد من الموصول المومنون ویکون المعنی ان صدھم المنافقون فلیقاتلوا فی سبیل اللہ ولا یبالوا بالمبافقین الذین یصدونھم جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت : اس کے بعد اللہ کی راہ میں قتال کرنے والوں کے لیے اجر عظیم کا وعدہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَ مَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًاعظِیْمًا) جو شخص اللہ کی راہ میں جنگ کرے گا وہ خواہ مقتول ہوجائے خواہ غالب ہوجائے ہر حال میں اس کے لیے اجر عظیم کا وعدہ ہے۔ اصل تو آخرت ہی کا اجر ہے اور دنیا میں جو مال غنیمت مل جائے وہ مومن کا مقصود نہیں وہ الگ سے اللہ کا فضل ہے اس میں منافقوں کو تنبیہ ہے کہ جب مسلمانوں کو مال غنیمت مل جاتا ہے تو افسوس کرتے ہیں کہ ہائے ہم ساتھ نہ ہوئے ہم کو بڑی کامیابی حاصل ہوتی حالانکہ مال بڑی کامیابی نہیں ہے آخرت کا اجر بڑی کامیابی ہے سچے دل سے ایمان قبول کرکے اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے دشمنوں سے لڑیں۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مال غنیمت مل جانے سے اجرضائع نہیں ہوتا کیونکہ مومن مخلص کی نیت مال حاصل کرنے کی نہیں ہوتی وہ تو صرف اللہ کی رضا کے لیے لڑتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

51 یہ ترغیب الی القتال ہے۔ یَشْرُوْنَ شری سے ہے جو اضداد میں سے ہے اور خریدنے اور بیچنے دونوں معنوں میں مستعمل ہے۔ یہاں یشرون بمعنی یبیعون ہے یعنی وہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دیتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جب مومنوں نے اپنی زندگی کا مقصد یہ قرار دیا ہے کہ وہ ہر معاملے میں آخرت کو دنیا پر ترجیح دیں گے تو انہیں اللہ کی راہ میں جہاد کرنا چاہئے۔ اور انہیں میدان قتال میں ثابت قدم رہنا اور منافقوں کی بد دل کرنے والی باتوں کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔ وَمَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ یہ مجاہدین کے لیے دنیوی اور اخروی بشارت ہے اگر شہید ہوجائیں تو آخرت میں بلند ترین درجات حاصل کریں گے اور اگر شہادت نصیب نہ ہوئی ثواب عظیم اور مال غنیمت سے حصہ تو ضرور ملے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 4 لہٰذا اگر اس قسم کے منافق اور تاخیر کرنے والے جہاد سے جان چراتے ہیں تو وہ مخلص مسلمان جنہوں نے دنیوی زندگی کے مقابلہ میں آخرت کو اختیار کر رکھا ہے اور دنیا کی زندگی کو آخرت کے عوض فروخت کئے بیٹھے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کریں اور جو شخص اللہ کی راہ میں لڑے گا خواہ وہ قتل کردیا جائے یعنی مقلوب ہوجائے یا وہ غلبہ حاصل کرے اور غالب ہوجائے بہرحال ہم اس کو آخرت میں بہت بڑا اجر وثواب عطا فرمائیں گے۔ یشرون الحیوۃ الدنیا کا ترجمہ دو طرح کی اگیا ہے ایک یہ کہ دنیوی زندگی کو آخرت کے عوض فروخت کردیا ہے جیسا کہ ہم نے اختیار کیا ہے دوسرے یہ کہ جن لوگوں نے دنیوی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں اختیار کر رکھا ہے ۔ اگر یہ معنی کئے جائیں تو آیت کے پہلے فقرے کا مطلب یہ ہوگا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑیں جو دنیوی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں اختیار کئے ہوئے ہیں یعنی کافروں سے جنگ کرد اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فلیقاتل کا فاعل وہی مذکور جان چرانے اولا شخص ہو اور اسی کو یہ حکم دیا گیا ہو کہ خلای باتیں بنانے سے کوئی فائدہ نہیں اگر یہ شخص واقعی فوز اور کامیابی کا خواہشمند ہے تو اس کو چاہئے کہ گھر سے نکل کر اللہ کی راہ میں کافروں اور منافقوں سے جنگ کرے پھر اللہ کی راہ میں جنگ کرتے کرتے مارا جائے گا یا غالب آجائے گا تو ہر طرح فائدہ ہی فائدہ اور اجر عظیم ملے گا اور آخرت میں بہت بڑے ثواب کا مستحق ہوگا خلاصہ یہ کہ اگر یہ شخص فوز عظیم کا خواہمشند ہے تو اس کو چاہئے اپنا قلب درست کرے اور گھر سے نکل کر میدان جہاد میں جائے اور کفار و منافقین کا مقابلہ کرے پھر دیکھے کہ اس کو فوز عظیم اور اجر عظیم کس قدر عطا ہوتا ہے۔ بہرحال ! مفسرین کے مختلف اقوال میں سے ہم نے ایک قول اختیار کرلیا ہے اور جو قول ہم نے اختیار کیا ہے۔ اس میں فلیقاتل کا فاعل الذین کو قرار دیا ہے اور یہی عام مفسرین کی رائے ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الذین کو مفعول قرار دیا جائے اور فلیقاتل کا فاعل مخلص مسلمانوں کو قرار دیا جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فلیقاتل کا فاعل شخص مذکور کو قرار دیا ہے۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی مسلمانوں چاہئے زندگی دنیا پر نظر نہ رکھیں آخرت چاہیں اور سمجھیں کہ اللہ کے حکم میں ہر طرح نفع ہے۔ (موضح القرآن) اب آگے پھر اسی مضمون کو ذرا اور تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے جہاد میں ایک مقصد تو ظاہر ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بات بلند ہوتی ہے اور اسلام کا اقتدار بڑھتا ہے یہاں ایک اور دوسری بات بھی فرمائی کہ جو کمزور مسلمان کافروں کے قبضے میں ہیں وہ بےچارے اپنی مدافعت نہیں کرسکتے ان کے لئے بھی کافروں سے لڑنا چاہئے تاکہ وہ مسلمان آزاد ہوجائیں اور اپنے مذہب پر آزادی کے ساتھ عمل کرسکیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)