Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 97

سورة النساء

اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَفّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَالُوۡا فِیۡمَ کُنۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا کُنَّا مُسۡتَضۡعَفِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ قَالُوۡۤا اَلَمۡ تَکُنۡ اَرۡضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوۡا فِیۡہَا ؕ فَاُولٰٓئِکَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا ﴿ۙ۹۷﴾

Indeed, those whom the angels take [in death] while wronging themselves - [the angels] will say, "In what [condition] were you?" They will say, "We were oppressed in the land." The angels will say, "Was not the earth of Allah spacious [enough] for you to emigrate therein?" For those, their refuge is Hell - and evil it is as a destination.

جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں تم کس حال میں تھے؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے ۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالٰی کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ پہنچنے کی بُری جگہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Prohibition of Residing Among the Disbelievers While Able to Emigrate Allah says; إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَليِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ ... Verily, as for those whom the angels take (in death) while they are wronging themselves, Al-Bukhari recorded that Muhammad bin Abdur-Rahman, Abu Al-Aswad, said, "The people of Al-Madinah were forced to prepare an army (to fight against the people of Ash-Sham during the Khilafah of Abdullah bin Az-Zubayir at Makkah), and I was enlisted in it. Then I met Ikrimah, the freed slave of Ibn Abbas, and informed him (about it), and he forbade me strongly from doing so (i.e., to enlist in that army), and then he said to me, `Ibn Abbas told me that some Muslims used to go out with the idolators increasing the size of their army against the Messenger of Allah. Then, an arrow would hit one of them and kill him, or he would be struck on his neck (with a sword) and killed, and Allah sent down the Ayah, إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَليِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ (Verily, as for those whom the angels take (in death) while they are wronging themselves)."' Ad-Dahhak stated that; this Ayah was revealed about some hypocrites who did not join the Messenger of Allah but remained in Makkah and went out with the idolators for the battle of Badr. They were killed among those who were killed. Thus, this honorable Ayah was revealed about those who reside among the idolators, while able to perform Hijrah and unable to practice the faith. Such people will be committing injustice against themselves and falling into a prohibition according to the consensus and also according to this Ayah, إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَليِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ (Verily, as for those whom the angels take (in death) while they are wronging themselves), by refraining from Hijrah. ... قَالُواْ فِيمَ كُنتُمْ ... They (angels) say (to them): "In what (condition) were you!" meaning, why did you remain here and not perform Hijrah! ... قَالُواْ كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الاَرْضِ ... They reply: "We were weak and oppressed on the earth." meaning, we are unable to leave the land or move about in the earth. ... قَالْوَاْ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُواْ فِيهَا ... They (angels) say: "Was not the earth of Allah spacious enough for you to emigrate therein!" ... فَأُوْلَـيِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءتْ مَصِيرًا Such men will find their abode in Hell - what an evil destination! Abu Dawud recorded that; Samurah bin Jundub said that the Messenger of Allah said, مَنْ جَامَعَ الْمُشْرِكَ وَسَكَنَ مَعَهُ فَإِنَّهُ مِثْلُه Whoever mingles with the idolator and resides with him, he is just like him. Allah's statement, إِلاَّ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلاَ يَهْتَدُونَ سَبِيلً

بے معنی عذر مسترد ہوں گے ہجرت اور نیت محمد بن عبدالرحمن ابو الا سود فرماتے ہیں اہل مدینہ سے جنگ کرنے کے لئے جو لشکر تیار کیا گیا اس میں میرا نام بھی تھا ۔ میں حضرت ابن عباس کے مولیٰ حضرت عکرمہ سے ملا اور اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے اس میں شمولیت کرنے سے بہت سختی سے روکا ۔ اور کہا سنو حضرت ابن عباس سے میں نے سنا ہے کہ بعض مسلمان لوگ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مشرکوں کے ساتھ تھے اور ان کی تعداد بڑھاتے تھے بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ ان میں سے کوئی تیر سے ہلاک کر دیا جاتا یا مسلمانوں کی تلواروں سے قتل کر دیا جاتا ، انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یعنی موت کے وقت ان کا اپنی بےطاقتی کا حیلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوتا اور روایت میں ہے کہ ایسے لوگ جو اپنے ایمان کو مخفی رکھتے تھے جب وہ بدر کی لڑائی میں کافروں کے ساتھ آگئے تو مسلمانوں کے ہاتھوں ان میں سے بھی بعض مارے گئے جس پر مسلمان غمگین ہوئے کہ افسوس یہ تو ہمارے ہی بھائی تھے ، اور ہمارے ہی ہاتھوں مارے گئے ان کے لئے استغفار کرنے لگے اس پر یہ آیت اتری ۔ پس باقی ماندہ مسلمانوں کی طرف یہ آیت لکھی کہ ان کا کوئی عذر نہ تھا کہا یہ نکلے اور ان سے مشرکین ملے اور انہوں نے تقیہ کیا پس یہ آیت اتری ( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:8 ) حضرت عکرمہ فرماتے ہیں یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جو اسلام کا کلمہ پڑھتے تھے اور تھے مکے میں ہی ان میں علی ابن امیہ بن خلف اور ابو قیس بن ولید بن مغیرہ اور ابو منصور بن حجاج اور حارث بن زمعہ تھے ضحاک کہتے ہیں یہ ان منافقوں کے بارے میں اتری ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد مکے میں رہ گئے پھر بدر کی لڑائی میں مشرکوں کے ساتھ آئے ان میں سے بعض میدان جنگ میں کام بھی آگئے ۔ مقصد یہ ہے کہ آیت کا حکم عام ہے ہر اس شخص کا جو ہجرت پر قادر ہو پھر بھی مشرکوں میں پڑا رہے اور دین پر مضبوط نہ رہے اوہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظالم ہے اور اس آیت کی رو سے اور مسلمانوں کے اجماع سے وہ حرام کام کا مرتکب ہے اس آیت میں ہجرت سے گریز کرنے کو ظلم کہا گیا ہے ، ایسے لوگوں سے ان کے نزع کے عالم میں فرشتے کہتے ہیں کہ تم یہاں کیوں ٹھہرے رہے؟ کیوں ہجرت نہ کی؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنے شہر سے دوسرے شہر کہیں نہیں جاسکتے تھے ، جس کے جواب میں فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین میں کشادگی نہ تھی؟ ابو داؤد میں ہے جو شخص مشرکین میں ملا جلا رہے انہی کے ساتھ رہے سہے وہ بھی انہی جیسا ہے ۔ سدی فرماتے ہیں جبکہ حضرت عباس عقیل اور نوفل گرفتار کئے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عباس تم اپنا فدیہ بھی دو اور اپنے بھتیجے کا بھی ، حضرت عباس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم آپ کے قبلے کی طرف نمازیں نہیں پڑھتے تھے؟ کیا ہم کلمہ شہادت ادا نہیں کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا عباس تم نے بحث تو چھیڑی لیکن اس میں تم ہار جاؤ گے سنو اللہ جل شانہ فرماتا ہے پھر آپ نے یہی تلاوت فرمائی یعنی تم نے ہجرت کیوں نہ کی؟ پھر جن لوگوں کو ہجرت کے چھوڑ دینے پر ملامت نہ ہو گی ان کا ذکر فرماتا ہے کہ جو لوگ مشرکین کے ہاتھوں سے نہ چھوٹ سکیں اور اگر کبھی چھوٹ بھی جائیں تو راستے کا علم انہیں نہیں ان سے اللہ تعالیٰ درگذر فرمائے گا ، عسی کلمہ اللہ کے کلام میں وجوب اور یقین کے لئے ہوتا ہے ۔ اللہ درگذر کرنے والا اور بہت ہی معافی دینے والا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد سجدے میں جانے سے پہلے یہ دعا مانگی اے اللہ عیاش ابو ربیعہ کو سلمہ بن ہشام کو ولید بن ولید کو اور تمام بےبس ناطاقت مسلمانوں کو کفار کے پنجے سے رہائی دے اے اللہ اپنا سخت عذاب قبیلہ مضر پر ڈال اے اللہ ان پر ایسی قحط سالی نازل فرما جیسی حضرت یوسف کے زمانے میں آئی تھی ۔ ابن ابی حاتم میں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد قبلے کی طرف منہ کئے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی اے اللہ ولید بن ولید کو عیاش بن ابو ربیعہ کو سلمہ بن ہشام کو اور تمام ناتواں بےطاقت مسلمانوں کو اور جو بےحیلے کی طاقت رکھتے ہیں نہ راہ پانے کی کافروں کے ہاتھوں سے نجات دے ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے ۔ اس حدیث کے شواہد صحیح میں بھی اس سند کے سوا اور سندوں میں بھی ہیں کہ جیسے کہ پہلے گذرا ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں میں اور میری والدہ ان ضعیف عورتوں اور بچوں میں تھے جن کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ ہمیں اللہ نے معذور رکھا ۔ ہجرت کی ترغیب دیتے ہوئے اور مشرکوں سے الگ ہونے کی ہدایات کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والا ہراساں نہ ہو وہ جہاں جائے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے اسباب پناہ تیار کر دے گا اور وہ بہ آرام وہاں اقامت کر سکے گا مراغم کے ایک معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے بھی ہیں ، مجاہد فرماتے ہیں وہ اپنے دکھ سے بچاؤ کی بہت سی صورتیں پالے گا ، امن کے بہت سے اسباب اسے مل جائیں گے ، دشمنوں کے شر سے بچ جائے گا اور وہ روزی بھی پائے گا گمراہی کی جگہ ہدایت اسے ملے گی اس کی فقیری تونگری سے بدل جائے ارشاد ہوتا ہے جو شخص بہ نیت ہجرت اپنے گھر سے نکلا پھر ہجرت گاہ پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں اسے موت آگئی اسے بھی ہجرت کا کامل ثواب مل گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر شخص کے لئے وہ ہے جو اس نے نیت کی پس جس کی ہجرت اللہ کی طرف اور اس کے رسول کی طرف ہو اس کی ہجرت اللہ کی رضامندی اور رسول کی خوشنودی کا باعث ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لئے ہو یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو تو اسے اصل ہجرت کا ثواب نہ ملے گا بلکہ اس کی ہجرت اس کے بارے میں ہے جس نے ننانوے قتل کئے تھے پھر ایک عابد کو قتل کرکے سو پورے کئے پھر ایک عالم سے پوچھا کہ کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس نے کہا تیری توبہ کے اور تیرے درمیان کوئی چیز حائل نہیں تو اپنی بستی سے ہجرت کرکے فلاں شہر چلا جا جہاں اللہ کے عابد بندے رہتے ہیں چنانچہ یہ ہجرت کرکے اس طرف چلا راستہ میں ہی تھا جو موت آگئی ۔ رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں اس کے بارے میں اختلاف ہوا بحث یہ تھی کہ یہ شخص توبہ کرکے ہجرت کرکے مگر چلا تو سہی یہ وہاں پہنچا تو نہیں پھر انہیں حکم کیا گیا کہ وہ اس طرف کی اور اس طرف کی زمین ناپیں جس بستی سے یہ شخص قریب ہو اس کے رہنے والوں میں اسے ملا دیا جائے پھر زمین کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ بری بستی کی جانب سے دور ہو جا اور نیک بستی والوں کی طرف قریب ہو جا ، جب زمین ناپی گئی تو توحید والوں کی بستی سے ایک بالشت برابر قریب نکلی اور اسے رحمت کے فرشتے لے گئے ۔ ایک روایت میں ہے کہ موت کے وقت یہ اپنے سینے کے بل نیک لوگوں کی بستی کی طرف گھسیٹتا ہوا گیا ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے جو شخص اپنے گھر سے اللہ کی راہ میں ہجرت کی نیت سے نکلا پھر آپ نے اپنی تینوں انگلیوں یعنی کلمہ کی انگلی بیچ کی انگلی اور انگھوٹھے کو ملا کر کہا ۔ پھر فرمایا کہاں ہیں مجاہد؟ پھر وہ اپنی سواری پر سے گر پڑا یا اسے کسی جانور نے کاٹ لیا یا اپنی موت مر گیا تو اس کا ہجرت کا ثواب اللہ کے ذمے ثابت ہو گیا ( راوی کہتے ہیں اپنی موت مرنے کے لئے جو کلمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال کیا ) واللہ میں نے اس کلمہ کو آپ سے پہلے کسی عربی کی زبانی نہیں سنا اور جو شخص غضب کی حالت میں قتل کیا گیا وہ جگہ کا مستحق ہو گیا ، حضرت خالد بن خرام ہجرت کرکے حبشہ کی طرف چلے لیکن راہ میں ہی انہیں ایک سانب نے ڈس لیا اور اسی میں ان کی روح قبض ہوگئی ان کے بارے میں یہ آیت اتری ۔ حضرت زبیر فرماتے ہیں میں چونکہ ہجرت کرکے حبشہ پہنچ گیا اور مجھے ان کی خبر مل گئی تھی کہ یہ بھی ہجرت کرکے آرہے ہیں اور میں جانتا تھا کہ قبیلہ بنو اسد سے ان کے سوا اور کوئی ہجرت کرکے آنے کا نہیں اور کم وبیش جتنے مہاجر تھے ان کے ساتھ رشتے کنبے کے لوگ تھے لیکن میرے ساتھ کوئی نہ تھا میں ان کا یعنی حضرت خالد کا بےچینی سے انتظار کر رہا تھا جو مجھے ان کی اس طرح کی اچانک شہادت کی خبر ملی تو مجھے بہت ہی رنج ہوا ۔ یہ اثر بہت ہی غریب ہے ، یہ بھی وجہ ہے کہ یہ قصہ مکے کا ہے اور آیت مدینے میں اتری ہے ۔ لیکن بہت ممکن ہے کہ راوی کا مقصود یہ ہو کہ آیت کا حکم عام ہے گوشان نزول یہ نہ ہو واللہ اعلم ۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت صمرہ بن جندب ہجرت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے لیکن آپ کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں انتقال کر گئے ان کے بارے میں یہ آیت شریفہ نازل ہوئی اور روایت میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی ضمرہ جن کو آنکھوں سے دکھائی نہ دیتا تھا جب وہ ( اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ حِيْلَةً وَّلَا يَهْتَدُوْنَ سَبِيْلًا ) 4 ۔ النسآء:98 ) سنتے ہیں تو کہتے ہیں میں مالدار ہوں اور چارہ کار بھی رکھتا ہوں مجھے ہجرت کرنی چاہئے چنانچہ سامان سفر تیار کر لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل کھڑے ہوئے لیکن ابھی تنعیم میں ہی تھے جو موت آگئی ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخض میری راہ میں غزوہ کرنے کے لئے نکلا صرف میرے وعدوں کو سچا جان کر اور میرے رسولوں پر ایمان رکھ کر بس وہ اللہ کی ضمانت میں ہے یا تو وہ لشکر کے ساتھ فوت ہو کر جنت میں پہنچے گا یا اللہ کی ضمانت میں واپس لوٹے گا اجر و غنیمت اور فضل رب لے کر ۔ اگر وہ اپنی موت مر جائے یا مار ڈالا جائے یا گھوڑے سے گر جائے یا اونٹ پر سے گر پڑے یا کوئی زہریلا جانور کاٹ لے یا اپنے بستر پر کسی طرح فوت ہو جائے وہ شہید ہے ۔ ابو داؤد میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ وہ جتنی ہے بعض الفاظ ابو داؤد میں نہیں ہیں ۔ ابو یعلیٰ میں ہے جو شخص حج کے لئے نکلا پھر مر گیا قیامت تک اس کے لئے حج کا ثواب لکھا جاتا ہے ، جو عمرے کے لئے نکلا اور راستے میں فوت ہو گیا اس کے لئے قیامت تک عمرے کا اجر لکھا جاتا ہے ۔ جو جہاد کے لئے نکلا اور فوت ہو گیا اس کے لئے قیامت تک کا ثواب لکھا جاتا ہے ۔ یہ حدیث بھی غریب ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

97۔ 1 یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ اور اس کے قرب و جوار میں مسلمان تو ہوچکے تھے لیکن انہوں نے اپنے آبائی علاقے اور خاندان چھوڑ کر ہجرت کرنے سے گریز کیا۔ جب کہ مسلمانوں کی قوت کو ایک جگہ مجتمع کرنے کے لئے ہجرت کا نہایت تاکیدی حکم مسلمانوں کو دیا جا چکا تھا اس لئے جن لوگوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ ان کو یہاں ظالم قرار دیا گیا ہے۔ اور ان کا ٹھکانا جہنم بتلایا گیا جس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حالات و ظروف کے اعتبار سے اسلام کے بعض احکام کفر یا اسلام کے مترادف بن جاتے ہیں جیسے اس موقع پر ہجرت اسلام اور اس سے گریز کفر کے مترادف قرار پایا۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ایسے دارالکفر سے ہجرت کرنا فرض ہے جہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل اور وہاں رہنا کفر اور اہل کفر کی حوصلہ افزائی کا باعث ہو۔ 97۔ 2 یہاں ارض (جگہ) سے مراد شان نزول کے اعتبار سے مکہ اور اس کا قرب و جوار ہے اور آگے ارض اللہ سے مراد مدینہ ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی پہلی جگہ سے مراد ارض کفار ہوگی۔ جہاں اسلام پر عمل مشکل ہو اور ارض اللہ سے مراد ہر وہ جگہ ہوگی جہاں انسان اللہ کے دین پر عمل کرنے کی غرض سے ہجرت کرکے جائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٤] جنت میں داخلہ کے لئے جہاد شرط نہیں : یہ آیت ایسے مسلمانوں سے متعلق ہے جنہوں نے ہجرت پر قادر ہونے کے باوجود ہجرت نہیں کی اور اپنا گھر بار چھوڑ کر دارالہجرت (مدینہ) جانے میں پس و پیش کرتے رہے۔ اور یہی ان کا اپنی جانوں پر ظلم تھا۔ اور مسلمانوں پر ظلم یہ تھا کہ جنگ کے موقعہ پر انہیں مشرکوں کا ساتھ دینا پڑتا تھا اور مشرک یہ چال چلتے تھے کہ ایسے مسلمانوں کو اپنی صفوں کے آگے کردیتے تھے کہ وہ ان کے لیے ڈھال اور دفاع کا کام دیں۔ اب یہ مسلمانوں کے لشکر کے لیے بڑی الجھن بن جاتی تھی کہ اگر لڑائی لڑیں، تیر برسائیں، تلوار چلائیں تو ان کے مسلمان بھائی ہی مرتے تھے اور اگر ہاتھ روکے رکھیں تو خود انہیں نقصان پہنچ جاتا تھا۔ چناچہ سیدنا ابن عباس (رض) اس آیت کے شان نزول کے بارے میں فرماتے ہیں کہ (مکہ میں) && مسلمانوں میں سے کچھ ایسے لوگ تھے جو مشرکوں کا ساتھ دیتے اور مقابلہ کے وقت ان کی جمعیت بڑھاتے پھر (مسلمانوں کی طرف سے) کوئی تیر ان کو بھی لگ جاتا یا کسی کو تلوار لگتی تو وہ زخمی ہوتا یا مرجاتا، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ && (بخاری، کتاب التفسیر) خ ہجرت نہ کرنے کا نقصان :۔ ایسے مسلمانوں کے لیے اس آیت میں جو وعید آئی ہے اس سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ایسا کمزور ایمان اللہ کے ہاں مقبول نہیں۔ لہذا اگر مشرکین انہیں ڈھال کے طور پر استعمال کریں تو مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کی خاطر انہیں بےدریغ قتل کردینا چاہیے اور ایسے لوگوں کے کمزور ہونے کے عذر کو اللہ نے قبول نہیں فرمایا کیونکہ یہ کمزوری نہیں بلکہ گھر بار کی محبت اور مال و دولت کی ہوس تھی جس کی وجہ سے وہ ہجرت نہیں کرتے تھے یا پھر اسے بزدلی پر محمول کیا جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ اور اس کے قرب و جوار میں مسلمان تو ہوچکے تھے لیکن انھوں نے اپنے آبائی علاقے اور خاندان کو چھوڑ کر ہجرت کرنے سے گریز کیا، (حالانکہ انھیں ہجرت میں کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی) جب کہ مسلمانوں کی قوت کو ایک جگہ مجتمع کرنے کے لیے ہجرت کا نہایت تاکیدی حکم دیا جا چکا تھا، اس لیے جن لوگوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا ان کو یہاں ظالم قرار دیا گیا ہے اور ان کا ٹھکانا جہنم بتلایا گیا ہے، جس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حالات اور موقع کے لحاظ سے اسلام کے بعض احکام کفر یا اسلام کے مترادف بن جاتے ہیں۔ جیسے اس موقع پر ہجرت کو اسلام اور اس سے گریز کو کفر کے مترادف قرار پایا۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ایسے دارالکفر سے ہجرت کرنا فرض ہے جہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل مشکل اور وہاں رہنا کفر اور اہل کفر کی حوصلہ افزائی کا باعث ہو۔ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْ ۭ۔۔ : یعنی فرشتے ڈانٹ ڈپٹ کے انداز میں ان سے پوچھتے ہیں کہ تم مسلمان تھے یا کافر ؟ یا دارالکفر میں پڑے کیا کرتے رہے اور مدینہ کی طرف ہجرت کیوں نہیں کی ؟ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے لوگ مسلمان ہونے کے باوجود بلا عذر ترک ہجرت کی بنا پر ظالم کی موت مرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ جَامِعَ الْمُشْرِکَ وَ سَکَنَ مَعَہُ فَإِنَّہُ مِثْلُہُ ) [ أبو داوٗد، الجھاد، باب فی الإقامۃ بأرض الشرک : ٢٧٨٧، عن سمرۃ بن جندب ] ” جو شخص مشرک کے ساتھ اکٹھا رہے اور اس کے ساتھ سکونت رکھے تو یقیناً وہ اسی جیسا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر بیشک جب ایسے لوگوں کی جان فرشتے قبض کرتے ہیں جنہوں نے (باوجود قدرت ہجرت کے پھر ہجرت کے تارک ہو کر) اپنے کو گناہ گار کر رکھا تھا تو (اس وقت) وہ (فرشتے) ان سے کہتے ہیں کہ تم (دین کے) کس (کس) کام میں تھے (یعنی دین کے کیا کیا ضروری کام کیا کرتے تھے) وہ (جواب میں) کہتے ہیں کہ ہم (اپنی بود و باش کی) سر زمین میں محض مغلوب تھے (اسلئے بہت سی ضروریات دین پر عمل نہ کرسکتے تھے، یعنی ان فرائض کے ترک میں معذور تھے) وہ (فرشتے) کہتے ہیں (اگر اس جگہ نہ کرسکتے تھے تو) کیا اللہ تعالیٰ کی زمین وسیع نہ تھی تم کو ترک وطن کر کے اس (سے کسی دوسرے حصہ) میں چلا جانا چاہئے تھا ( اور وہاں جا کر فرائض کو ادا کرسکتے تھے، اس سے وہ لاجواب ہوجائیں گے اور جرم ان کا ثابت ہوجائے گا) سو ان لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور جانے کے لئے وہ بری جگہ ہے لیکن جو مرد اور عورتیں اور بچے (واقع میں ہجرت پر بھی) قادر نہ ہوں کہ نہ کوئی تدبیر کرسکتے ہیں نہ راستہ سے واقف ہیں سو ان کے لئے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف کردیں اور اللہ تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے بڑے مغفرت کرنے والے ہیں اور (جن لوگوں کے لئے ہجرت مشروع ہے ان میں سے) جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں (یعنی دین کے لئے) ہجرت کرے گا تو اس کو روئے زمین پر جانے کی بہت جگہ ملے گی اور (اظہار دین کی) بہت گنجائش (ملے گی، پس اگر ایسی جگہ پہنچ گیا تو دنیا میں بھی اس سفر اور اظہار سے کامیابی ظاہر ہے) اور (اگر اتفاق سے یہ مذکور کا میابی نہ ہوئی تب بھی آخرت کی کامیابی میں تو کوئی تردد نہیں، کیونکہ ہمارا قانون ہے کہ) جو شخص اپنے گھر سے اس نیت سے نکل کھڑا ہو کہ اللہ و رسول (کے دین کے ظاہر کرسکنے کے موقع) کی طرف ہجرت کروں گا پھر (مقصد کے حاصل کرنے سے پہلے) اس کو موت آپکڑے، تب بھی اس کا ثواب (جس کا وعدہ ہجرت کرنے پر ہے) ثابت ہوگیا ( جو وعدہ کی وجہ سے ایسا ہے جیسے) اللہ کے ذمہ (گو ابھی اس سفر کو ہجرت نہیں کہہ سکتے، لیکن صرف اچھی نیت سے اس کے شروع کردینے پر پورا صلہ عطا ہوگیا) اور اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت کرنے والے ہیں (اس ہجرت کی برکت سے گو وہ ناتمام رہے بہت سے گناہ معاف فرما دیں گے جیسا حدیث میں ہجرت کی فضلت آئی ہے کہ ہجرت سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں) اور) بڑے رحمت والے ہیں ( کہ عمل کو اچھی نیت سے شروع کرنے ہی سے عمل کے پورا ہونے کے برابرثواب عنایت فرماتے ہیں۔ )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ ظَالِمِيْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْ۝ ٠ۭ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِ۝ ٠ۭ قَالُوْٓا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِيْھَا۝ ٠ۭ فَاُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمْ جَہَنَّمُ۝ ٠ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا۝ ٩٧ۙ وفی ( موت) وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔ ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اسْتَضْعَفْ واسْتَضْعَفْتُهُ : وجدتُهُ ضَعِيفاً ، قال وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء/ 75] ، قالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 97] ، إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف/ 150] ، وقوبل بالاستکبار في قوله : قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ/ 33] استضعفتہ ۔ میں نے اسے کمزور سمجھا حقیر جانا ۔ قران میں ہے : ۔ وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا[ القصص/ 5] اور ہم چاہتے تھے کہ جنہیں ملک میں کمزور سمجھا گیا ہے ان پر احسان کریں : وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء/ 75] اور ان بےبس مردوں عورتوں اور بچوں قالوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 97] تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز اور ناتوان تھے ۔ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف/ 150] کہ لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ/ 33] اور کمزور لوگ برے لوگوں سے کہیں گے ۔ میں استضاف استکبار کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ وسع السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] ( و س ع ) اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] میری زمین فراخ ہے ۔ أوى المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف/ 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود/ 43] ( ا و ی ) الماویٰ ۔ ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے { إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ } ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے { قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ } ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ صير الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] . و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال . ( ص ی ر ) الصیر کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

اپنے اوپر ظلم کرنے والے قول باری ہے (ان الذین توفاھم الملائکۃ ظالمی انفسھم قالوافیم کنتم، جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کررہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے) تاآخر آیت۔ ایک قول کے مطابق مفہوم ہے ، ہم موت کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیں گے ، حسن کا قول ہے ہم انہیں جہنم کی طرف اٹھائیں گے ایک قول اس آیت کا نزول منافقین کے ایک گروہ کے بارے میں ہوا جو ڈر کی بنا پر مسلمانوں کے سامنے ایمان کا اظہار کرتا تھا، اور جب اپنی قوم میں پہنچ جاتا تو کفر کا اظہار کرتا، یہ گروہ مدینہ ہجرت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمادیا کہ یہ لوگ اپنے نفاق ، کفر اور مدینہ کی طرف ہجرت کرکے اپنے اوپرظلم کررہے ہیں۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس زمانے میں ہجرت فرض تھی، اگر یہ بات نہ ہوتوترک ہجرت پر ان کی مذمت نہ کی جاتی ، نیز اس سے یہ بھی حاصل ہوتی ہے کہ اہل کفر بھی شرائع اسلام کے مکلف ہیں اور ان کے ترک پر انہیں سزا ملے گی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت نہ کرنے پر ان منافقین کی مذمت کی ہے۔ یہ اس قول باری کی نظیر ہے (ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی، ویتبع غیرسبیل المومنین نولہ ماتولی ونصلہ جہنم، مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمربستہ ہو اوراہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے درآنحالیکہ اس پر راہ راست واضح ہوچکی ہو تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا، اور اسے جہنم میں جھونکیں گے ) اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی روش کو ترک کرنے پر ان کی اس طرح مذمت کی جس طرح تک ایما ن پر۔ اس کے ذریعے اجماع کے حجت ہونے کی صحت پر بھی دلالت ہوگئی۔ اس لیے کہ اگر یہ بات لازم نہ ہوتی تو اللہ تعایل اس کے ترک پر ان کی مذمت نہ کرتا، اور اس چیز کو حضور کی مخالفت پر کمربستگی کے ساتھ مقرون نہ کرتا۔ یہ بات مشرکین کے درمیان قیام کرنے کی نہی پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کیونکہ قول باری ہے (الم تکن ارض اللہ واسعۃ فتھاجروافیھا، کیا اللہ کی زمین کشادہ نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے ، یہ بات مشرکین کی سرزمین سے کسی بھی اسلامی سرزمین کی طرف ہجرت کرجانے پر دلالت کرتی ہے۔ حضرت ابن عباس ، قتادہ، ضحاک، اور سدی سے مروی ہے کہ اس آیت کا نزول مکہ کے ایک گروہ کے بارے میں ہوا تھا، جو ہجرت کرنے سے پیچھے رہ گئے تھے اور انہوں نے مشرکین سے اپنی محبت اور لگاؤ کا اظہار کیا تھا، ان میں سے ایک گروہ ظاہرا ارتداد کی بنا پر بدر کے مقام پر قتل ہوگیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ان لوگوں کو مستثنی کردیاجوکمزوری اور ضعف کی بنا پر ہجرت نہ کرسکے تھے ، اور مکہ ہی میں بیٹھ رہے تھے، چناچہ ارشاد ہوا، الاالمستضعفین من الرجال والنساء والولدان لایستطیعون حیلۃ۔۔۔ تا۔۔۔۔ عنھم۔ ہاں جو مرد عورتیں اور بچے واقعی بےبس ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے بعید نہیں کہ اللہ انہیں معاف کردے۔ یعنی انہیں دارل ہجرت مدینے کی طرف نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں ملتا۔ حسن کا قول ہے کہ اللہ کی طرف سے عسی کا مفہوم اس پر دلالت کرتا ہے یہ امرواجب ہے ایک قول ہے کہ عسی کے تحت جو بات کہی جاتی ہے اس کی حیثیت وعدے کی ہوتی ہے کیونکہ شک کی بنیاد پر اس امر کی اللہ تعالیٰ خبر نہیں دیتا۔ ایک قول یہ ہے کہ اس امر میں شک بندوں کی طرف سے ہوتا ہے اس لیے اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ بندو تم اللہ کی ذات سے امیدوار اس کی رحمت کی طمع کرتے رہو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٧) پچاس آدمی مکہ مکرمہ میں اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگئے تھے، وہ غزوہ بدر میں کفار کے ساتھ ان کے حلیف بن کر آئے اور سب کے سب مارے گئے، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی بدر کے دن جب فرشتے جان قبض کرتے ہیں، تو فرشتے اس قبض کے وقت ان سے کہتے ہیں کہ تم مکہ مکرمہ کیا کرتے تھے وہ جوابا کہتے ہیں کہ ہم مکہ مکرمہ میں کفار کے ہاتھوں ذلیل اور پریشان تھے فرشتے ان سے کہتے ہیں تو کیا مدینہ منورہ کی سرزمین امن والی نہیں تھی کہ تم اس سرزمین میں ہجرت کرکے چلے جاتے، ان لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ شان نزول : (آیت) ” ان الذین توفہم “۔ ( الخ) امام بخاری (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ کچھ منافق لوگ مسلمانوں کے روب میں مشرکین کے ساتھ مل کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں مشرکین کی جماعت بڑھاتے تھے۔ چناچہ (غزوہ بدر میں) جب ان بدترین لوگوں میں سے کوئی تیر مارتا تو وہ بطور مسلمانوں کی تائید الہی کے سبب ان ہی کے لگ جاتا، جس کی وجہ سے وہ مرجاتا یا اور کوئی تیر لگ جاتا جس کی بنا پر وہ ختم ہوجاتا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی، بیشک جب ایسے مرتد لوگوں کی جان فرشتے قبض کرتے ہیں الخ اور ابن مردویہ نے اپنی روایت میں ان لوگوں کے نام بھی روایت کیے ہیں کہ یہ لوگ قیس بن ولید بن مغیرہ، ابوقیس بن فاکہہ، ولید بن عتبہ، عمروبن امیہ، علی بن امیہ تھے اور ان لوگوں کے متعلق یہ روایت کیا ہے کہ جب یہ لوگ غزوہ بدر کی طرف روانہ ہوئے اور مسلمانوں کی کمی کو دیکھا تو ان کے دلوں میں شک پیدا ہوگیا اور کہنے لگے کہ ان لوگوں کو اپنے دین کے بارے میں (نعوذ باللہ) دھوکہ ہوگیا ہے، چناچہ یہ سب بدر کے دن مارے گئے۔ اور ابن ابی حاتم (رح) نے حارث بن زمعہ (رح) اور عاص بن منبہ (رح) کا نام روایت کیا ہے اور طبرانی (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ مکہ کے کچھ لوگ اسلام لے آئے تھے، جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو ان لوگوں کو ہجرت کرنا شاق ہوئی اور یہ لوگ ڈرے، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ابن منذر اور ابن جریر (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ مکہ والوں میں سے کچھ لوگ اسلام لے آئے تھے مگر وہ اسلام کو آسان سمجھتے تھے، غزوہ بدر میں مشرکین ان کو اپنے ساتھ لے آئے۔ (ان میں سے اکثر مومنین مخلصین نہ تھے بلکہ ان کی حالت کچھ اس طرح سے تھی جیسا کہ قرآن کریم میں ہے (آیت) ” قالت الاعراب امنا، قل لم تؤمنوا ولکن قولوا اسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم “۔ (یہ چند دیہاتی یعنی غیر سنجیدہ لوگ کہتے ہیں ہم ایمان لے اے نبی مکرم آپ ان سے کہہ دیں تم حقیقتا ایمان نہیں لائے، بلکہ تم نے (کسی وجہ سے) محض ظاہرا اسلام قبول کیا ہے اور ایمان کی حقیقت ابھی تمہارے دلوں میں اتری ہی نہیں وگرنہ مومنین مخلصین کے ” ایمان “ لانے کے بعد واپس کفر کی طرف پلٹنے کی مثالیں انتہائی کم ہیں اور الشاذ کلمعدوم کے درجے میں ہیں (اتنی کم کہ گویا ہیں ہی نہیں) (مترجم) چناچہ ان لوگوں میں سے بعض مارے گئے صحابہ کرام (رض) نے دیکھ کر کہا یہ لوگ تو مسلمان تھے اور ان کو ایک گرانی ہوئی، چناچہ صحابہ کرام (رض) نے ان کے لیے دعائے مغفرت کی، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی مکہ مکرمہ میں ایسے لوگوں میں سے جو باقی رہ گئے تھے ان کے پاس یہ آیت لکھ کر روانہ کردی گئی ، اور یہ کہ اب ان کا کوئی عذر قابل قبول نہیں، چناچہ یہ لوگ وہاں سے نکلے، پھر ان کو مشرکین نے پکڑ لیا اور ان کو فتنہ میں ڈال دیا، یہ پھر لوٹ گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (آیت) ” ومن الناس من یقول امنا باللہ فاذا اوذی فی اللہ جعل فتنۃ الناس کعذاب اللہ “۔ مسلمانوں نے یہ آیت بھی ان کے پاس لکھ کر روانہ کردی جس سے وہ غمگین ہوئے اس کے بعد (آیت) ” ثم ان ربک للذین ھاجرو من بعد مافتنو “۔ (الخ) یہ آیت نازل ہوئی، یہ بھی مسلمانوں نے ان کے پاس لکھ کر روانہ کردی، چناچہ وہ مکہ سے نکلے، پھر انکو پکڑ لیا تو جو بچا اس نے نجات حاصل کی اور جس کو قتل ہونا تھا وہ قتل ہوگیا، ابن جریر (رح) نے بہت سے طریقوں سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٧ (اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰٹہُمُ الْمَلآءِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ ) یعنی انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی ‘ اس سلسلے میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی اطاعت نہیں کی تھی۔ آخر موت تو آنی ہے ‘ لہٰذا فرشتے جب ان کی روحیں قبض کریں گے تو ان کے ساتھ اس طرح مکالمہ کریں گے : (قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ ط) تم نے ایمان کا دعویٰ تو کیا تھا ‘ لیکن جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کا حکم دیا تو ہجرت کیوں نہیں کی ؟ تمہیں کیا ہوگیا تھا ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

129. The reference here is to those who stay behind along with the unbelievers, despite no genuine disability. They are satisfied with a life made up of a blend of Islamic and un-Islamic elements, even though they have had the chance to migrate to the Dar al-Islam and thus enjoy a full Islamic life. This is the wrong that they committed against themselves. What kept them satisfied with the mixture of Islamic and un-Islamic elements in their life was not any genuine disability but their love of ease and comfort, their excessive attachment to their kith and kin and to their properties and worldly interests. These concerns had exceeded reasonable limits and had even taken precedence over their concern for their religion (see also n. 116 above). 130. Those people who had willingly acquiesced to living under an un-Islamic order would be called to account by God and would be asked: If a certain territory was under the dominance of rebels against God, so that it had become impossible to follow His Law, why did you continue to live there? Why did you not migrate to a land where it was possible to follow the law of God?

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :129 مراد وہ لوگ ہیں جو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ابھی تک بلا کسی مجبوری و معذوری کے اپنی کافر قوم ہی کے درمیان مقیم تھے اور نیم مسلمانہ اور نیم کافرانہ زندگی بسر کرنے پر راضی تھے ، درآنحالیکہ ایک دارالاسلام مہیا ہو چکا تھا جس کی طرف ہجرت کر کے اپنے دین و اعتقاد کے مطابق پوری اسلامی زندگی بسر کرنا ان کے لیے ممکن ہو گیا تھا ۔ یہی ان کا اپنے نفس پر ظلم تھا کیونکہ ان کو پوری اسلامی زندگی کے مقابلہ میں اس نیم کفر و نیم اسلام پر جس چیز نے قانع و مطمئن کر رکھا تھا وہ کوئی واقعی مجبوری نہ تھی ، بلکہ محض اپنے نفس کے عیش اور اپنے خاندان ، اپنی جائیداد و املاک اور اپنے دنیوی مفاد کی محبت تھی جسے انہوں نے اپنے دین پر ترجیح دی ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۱۱٦ ) سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :130 یعنی جب ایک جگہ خدا کے باغیوں کا غلبہ تھا اور خدا کے قانون شرعی پر عمل کرنا ممکن نہ تھا تو وہاں رہنا کیا ضرور تھا ؟ کیوں نہ اس جگہ کو چھوڑ کر کسی اسی سر زمین کی طرف منتقل ہوگئے جہاں قانون الہٰی کی پیروی ممکن ہوتی؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

62: اپنی جان پر ظلم کرنا قرآنِ کریم کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب کسی گناہ کا ارتکاب کرنا ہوتا ہے، کیونکہ گناہ کرکے اِنسان اپنی جان ہی کو نقصان پہنچاتا ہے، اس آیت میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے قدرت کے باوجود مکہ مکرَّمہ سے مدینہ منوَّرہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی۔ جب مسلمانوں کے لئے ہجرت کا حکم آگیا تھا تو مکہ میں رہنے والے ہر مسلمان پر شرعا فرض تھا کہ وہ مدینہ منوَّرہ کی طرف ہجرت کرے۔ بلکہ اس کو ایمان کا لازمی تقاضا قرار دیا گیا تھا، اور اگر کوئی شخص قدرت کے باجود ہجرت نہ کرتا تو اسے مسلمان قرار نہیں دیاجاتا تھا۔ اس آیت میں ایسے ہی بعض لوگوں کا ذکر ہے کہ جب فرشتے ان کے پاس ان کی روح قبض کرنے آئے توان کے ساتھ کیا مکالمہ ہوا، چونکہ یہ لوگ ہجرت کے حکم کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے مسلمان نہیں رہے تھے، اس لئے ان کے بارے میں دوزخی ہونے کا اعلان کیا گیا ہے، البتہ جو لوگ کسی مجبوری کی بنا پر ہجرت سے قاصر رہے تھے ساتھ ہی ان کا استثناء بھی کردیا گیا ہے کہ معذوری کی وجہ سے وہ قابلِ معافی ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(97 ۔ 99) ۔ بخاری، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، اور ابن جریر نے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کچھ لوگ ظاہر میں تو جس وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تھے اس وقت اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے مگر مشرکوں کا ساتھ انہوں نے نہیں چھوڑا تھا۔ مشرکوں کے ڈر سے مکہ سے مدینہ منورہ کو انہوں نے ہجرت بھی نہیں کی۔ اور بدر کی لڑائی میں مشرکوں کے ساتھ ہو کر مسلمانوں سے وہ لڑنے کو آئے اور مارے گئے ان کی شان میں اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ٤ کہ ایسے لوگوں کے باب میں ایک طرح کا اختلاف مسلمانوں میں پڑ رہا تھا۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ اگرچہ اس طرح کے لوگ مشرکوں کی فوج میں شمار ہو کر مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے گئے۔ لیکن حقیقت میں وہ مسلمان تھے اور بعض ان کو مسلمان نہیں کہتے تھے۔ اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے لوگوں کو دوزخی قرار دیا۔ اور اس اختلاف کو رفع فرمادیا۔ فتح مکہ سے پہلے ہجرت بھی اسلام کی شرط تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا اسلام قبول نہیں فرمایا۔ جنہوں نے بلا عذر، ہجرت نہیں کی اور مشرکوں میں رہ کر مشرکوں کی جماعت اور بھیڑ بڑھائی بعد فتح مکہ کے فرما دیا کہ اب فتح مکہ کے بعد ہجرت شرط اسلام باقی نہیں رہی ١۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:97) ان الذین توفھم الملئکۃ۔ بیشک وہ لوگ جن کی روحوں کو فرشتوں نے قبض کیا۔ یہ آیت ان مسلمان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی تھی جو بلا کسی معذوری یا مجبوری کے اپنے عزیزو اقارب اور مال و جائداد کی وجہ سے مکہ میں ہی رہ گئے جب کہ ہجرت اس وقت فرض تھی۔ فرشتوں اور ان کے درمیان یہ مکالمہ ہوا۔ جب فرشتے ان کی روحیں قبض کر رہے تھے توفھم۔ ان (فرشتوں کی جماعت) نے ان (کی روحوں) کو قبض کیا۔ اس نے ان کو اٹھایا وہ ان کو قبض کرتی ہے۔ توفی فعل ماضی بھی ہوسکتا ہے اور فعل مضارع بھی۔ توفی سے قبض کرنا۔ مضارع کی صورت میں اصل میں تتوفی تھا۔ ایک تاء حذف ہوگئی ۔ صیغہ واحد مؤنث غائب۔ باب تفعیل ۔ لفیف مفروق ۔ ھم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ ظالمی۔ اصل میں ظالمین تھا۔ اضافت کی وجہ سے نون جمع گرگیا۔ ظالمی انفسہم اپنی جانوں کے دشمن۔ توفھم کی ضمیر مفعول ہم سے حال ہے یعنی درآں حالیکہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے یا کر رہے ہوں گے۔ قالوا۔ کہیں گے فرشتے۔ فیم کنتم۔ تم کس شغل میں تھے۔ تمہارے کیا طور طریقے تھے۔ یعنی تم نے ہجرت کیوں نہ کی۔ قالوا۔ کہیں گے وہ لوگ۔ کنا مستضعفین فی الارض۔ ہم وہاں ہجرت سے مجبور و معذور تھے۔ قالوا۔ کہیں گے فرشتے۔ الم تکن ۔۔ فیہا۔ کیا للہ کی زمین اتنی فراخ و وسیع نہ تھی کہ تم وہاں سے دوسری جگہ ہجرت کر جاتے۔ فاولئک۔ پس یہی لوگ ہیں۔ ماوہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کا ٹھکانہ ۔ ان کا مقام سکونت۔ ماوی اسم ظرف بھی ہے اور مصدر بھی۔ مصیرا۔ اسم ظرف۔ لوٹنے کی جگہ۔ قرار گاہ۔ ٹھکانہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ان لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو مکہ معظمہ اور دوسرے مقامات پر اسلام لا چکے تھے لیکن مجبوری کے بغیر مدینہ کی طرف ہجرت نہیں کر رہے تھے اور دارالا سلام کی زندگی چھوڑ کر دارالکفر میں رہنے پر قانع تھے۔ روایات میں ہے کہ اہل مکہ کی ایک جماعت مسلمان ہوگئی اور ان لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اظہار ایمان بھی کیا مگر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کی تو انہوں نے مکہ میں اپنی قوم کے پاس رہنا پسند کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی)5 یعنی فرشتے تقریع اور توبیخ کے انداز میں ان سے پو چھتے ہیں کہ تم مسلمان تھے یا کافر دارالکفر میں پڑے کیا کرتے رہے اور مدینہ کی طرف ہجرت کیوں نہیں کی ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ مسلمان ہونے کے باوجود بلاعذر ترک ہجرت کی بنا پر ظالم کی موت مرے ہیں۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 14 ۔ آیات 97 تا 100 ۔ ان الذین۔۔۔ غفورا رحیما۔ اور جو لوگ ہجرت نہیں کرپاتے فتح مکہ تک تو مکہ مکرمہ سے دین کی خاطر نکل جانا ہجرت تھا۔ لوگ حبشہ بھی گئے اور مدینہ منورہ بھی اور مدینہ منورہ سے اسلامی ریاست کی بنیاد شروع ہوئی۔ اور یہ دار الہجرۃ قرار پایا پھر فتح مکہ کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرما دیا اب کوئی ہجرت نہیں مگر یہ ارشاد مکہ مکرمہ کے بارے تھا۔ ورنہ اسلام تو ہمیشہ کے لیے ہے اور ساری دنیا کے لیے ہے۔ جب بھی جہاں بھی کوئی دین پر عمل کرنے سے مانع ہو اس معاشرے کو یا اس شہر کو اس غرض سے چھوڑ دینا کہ کسی اسی جگہ چل کر رہا جائے جہاں دین پر عمل کیا جاسکے ہجرت ہوگی۔ اور بدکار معاشرہ کسی کو زبردستی بھی نکال دے تو بھی مہاجر شمار ہوگا مگر نیت صرف اللہ کے لیے اور حصول دین کے لی دین پر عمل کے لیے ہو اگر ہجرت کسی دنیاوی منافع کے لیے ملازمت مل جانے کی امید پر یا کسی عورت پر فدا ہو کر کی ہو تو اجر کی امید نہ رکھے۔ اب پھر بات وہیں سے شروع کرتے ہیں کہ جو لوگ ہجرت نہیں کرپاتے ، شہر سے ، ملک سے یا کردار سے تو جب ان کی موت آتی ہے۔ اور موت کے فرشتے آتے ہیں جس کی حدیث پاک میں بہت تفصیل ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مومن کے لیے جنت سے خوشبو ، لباس اور پھول وغیرہ لاتے ہیں۔ بڑے پیار سے جان قبض کرتے ہیں اور ان لباسوں میں لے کر جاتے ہیں ، عزت کرتے ہیں ، پیار کرتے ہیں مگر کافر یا بدکار یا دوزخی کو لینے جو موت کے فرشتے آتے ہیں ان کے پاس لباس وغیرہ دوزخ کا ہوتا ہے۔ سخت گرم بھی ، بدبودار بھی ، دوزخ کی چھڑیاں ہوتی ہیں۔ چہرے ڈراؤنے اور بات غضبناک ہو کر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھئی تم کس حال میں تھے۔ تم اصل میں کیا تھے کہ دعوے اسلام کا کرتوت کفر کے ، اعمال کافرانہ تو یہ تم کیا کرتے رہے۔ وہ بڑی بےکسی سے جواب دیتے ہیں بھائی ہم غریب لوگ تھے۔ جدھر بڑے لوگوں کا رخ ہوا ہمیں خواہ نخواہ چلنا ہی پڑتا تھا۔ تو فرشتے بہت مزے کی بات کہتے ہیں کہ اب بھی تو ساری دنیا چھوڑ کر جا رہے ہو اگر اس سے پہلے یا بروقت اللہ کی اطاعت کے لیے یہ شہر یا یہ ملک چھوڑ دیتے تو کون سا غضب ہوجانا تھا۔ نیک ملک میں نیک لوگوں میں جا کر سکونت اختیار کرلیتے آج عزت و احترام اور خوشی کے ساتھ آخرت کو جاتے۔ تم نے اس وقت دنیا اور اس کی لذت کو نہ چھوڑا اب تمہاری سزا جہنم ہے جو بہت بری جگہ ہے۔ یہ کلام روح قبض کرنے سے قبل اس وقت ہو رہی ہے جب فرشتے روح قبض کرنے آتے ہیں اور خالی واپس نہیں جاتے۔ یعنی عند الموت کافر کو بھی موت کا ، فرشتوں کا عذاب وغیرہ کا کشفا نظر آجانا نہ ثابت ہوا اب مومن کی فضیلت یہی ہے کہ یہ دولت عام زندگی میں عملی زندگی اور موت سے پہلے کی زندگی میں نصیب ہوجائے اگر دل زندہ ہوجائے ، بیدار ہوجائے۔ نور صحبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مستفید ہوجائے تو یہ سب کچھ حاصل ہوسکتا ہے۔ حتی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ سے خود اللہ کا کلام کرنا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ سے جبرائیل امین کا کلام کرنا دم کرنا کتاب اللہ میں موجود ہے جبکہ دونوں ہستیاں ولیہ تھیں۔ نبیہ نہ تھیں سو جو لوگ دار الکفر میں گرین کارڈ کے لیے مرے جا رہے ہیں خواہ جنازہ بھی نصیب نہ ہو کھانے میں سور جزواعظم ہے۔ ادویات تک میں اور یورپ میں تو پینے میں شراب یا بیئر وغیرہ کے علاوہ پانی پینے کا تصور نہیں پایا جاتا ان کے لیے ذرا غور کرنے کا مقام ہے۔ ہاں ایسے لوگ جو وہاں رہ کر بھی دین پر نہ صرف قائم رہیں بلکہ دین کے لیے کام کرسکیں ان کا جانا تو جہاد ہوا اگر نیت دین کی خدمت کرنے کی ہو اور ایسے لوگ یورپ وغیرہ میں بحمداللہ ملتے ہیں جو وہاں بھی دین کا کام کر رہے ہیں۔ ہاں ایسے لوگ جو واقعی مجبوری کی وجہ سے دار الکفر سے ہجرت نہ کرسکے یا برے لوگوں سے علیحدہ نہ ہوسکے۔ عورتیں اور بےبس بچے جو راہ تک سے واقف نہ تھے اگر ایسے لوگ برے معاشرے میں پھنسے تو رہیں مگر عملی زندگی ان کی اختیار نہ کریں صرف یہ رعایت ہے کہ علاقہ یا شہر چھوڑ نہیں سکتے تو امید کرسکتے ہیں کہ اللہ کریم انہیں معاف کردے۔ مگر یہ ہر مومن کے لیے ضروری ہے کہ بری مجالس کو چھوڑ کر نیک مجالس کو اختیار کرے۔ بری عادات کو چھوڑ کر نیک اطوار کو اپنائے اور اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرے۔ پھر مزے کی بات یہ ہے کہ جو بھی اللہ کی راہ میں ترک وطن کرتا ہے وہ ہمیشہ اپنے لیے زمین کا دامن وسیع پاتا ہے۔ اور یہ ایک تاریخی حقیقت بھی ہے کہ تقریبا جس قدر اولو العزم رسولوں کے حالات ملتے ہیں وہ موسیٰ (علیہ السلام) ہوں یا ابراہیم (علیہ السلام) تو سب نے ہجرتیں بھی کیں اور دنیاوی غلبہ بھی نصیب ہوا۔ ایسے آقائے نامدار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت فرمائی اور غلبہ پایا سو اللہ کریم نے قانون بنا دیا کہ جو اللہ کے لیے ترک وطن کرے گا اپنے لیے زمین کا دامن وسیع پائے گا اور نعمتوں سے نوازا جائے گا۔ مگر دنیا میں الہ کا قانون ہے کہ ہر چیز اپنے اسباب کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ اگر کچھ وقت مشکل بھی آجائے تو تجعب کی بات نہ ہوگی۔ انجام کار وہ بہت آسودہ حال اور خوش بخت ثابت ہوگا۔ دنیوی خوشحالی بی نصیب ہوگی۔ یہی قانون عقیدے یا عمل کی ہجرت پر بھی ہے یہ جو ہمیں وہم ہے کہ سچ بولیں گے تو بھوکے مر جایں گے۔ اگر بازار میں بیٹھنا ہے تو ضرور جھوٹ بولنا ہوگا یہ شیطان کا ڈالا ہوا وہم ہے اور اللہ کری کا وعدہ یہ ہے کہ جو میری رضا اور خوشنودی کے لیے اپنا کردار درست کرلے گا وہ دنیا اور اس کی دولت ، عزت و شہرت کا بھی اپنا منتظر پائے گا۔ پھر سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ جو بھی گھر سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہ میں ہجرت کرکے نکلا دار الکفر میں تھا دار الاسلام کو روانہ ہوا۔ بری مجلس میں تھا نیک مجلس کی طرف چلا کردار برا تھا چھوڑ کر نیکی اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا اور ساتھ ہی موت نے آلیا نہ وہ منزل پہ پہنچ سکا نہ یہ مجلس میں اور نہ یہ کردار بدلنے کی فرصت پا سکا فرمایا تو اس کا انعام اس کا ثواب ، اس کا اجر اللہ کریم کے ذمہ ہے۔ تی کہ ایک حدیث شریف کا مضمون ہے کہ ایک بالشت چلا اور فوت ہوگیا۔ پہلے سارے گناہوں کی معافی کے ساتھ ہجرت کے ثواب کا مستحق قرار پایا یہی حال اخلاق و کردار کی تبدیلی کا ہے۔ کہ ایک حدیث کا مضمون ہے۔ مجاہد کامل وہ ہے جو اپنے نفس سے لڑ سکے یعنی اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پہ قائم رکھ سکے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 97-100 لغات القرآن : فیم، تم کہاں تھے، (کس دین میں تھے) ۔ واسعۃ، وسیع۔ تھا جروا، تم ہجرت کروگے۔ حیلۃ، بہانہ۔ مراغم، کشادہ جگہ۔ وقع، طے پا گیا۔ تشریح : ان ملکوں میں جہاں نظام حکومت اور نظام معاشرت کا فرانہ ہے مسلمانوں کا رہنا غلط ہے۔ اگر رہیں گے تو خواہ انفرادی سطح پر وہ نیک اور شریف رہیں ، انہیں اجتماعی مشینری کا ساتھ دینا ہوگا۔ ان کا دل چاہتا ہے اسلام کے راستے پر چلنے کو مگر وہ کفر کے راستہ پر چلنے پر مجبور ہیں۔ یہ اپنے نفس پر ظلم ہے۔ مجبوری ہو تو دوسری بات ہے موت کے وقت فرشتے ان سے سوال و جواب کریں گے قرآن و سنت کے مطابق ایسی صورت میں ہجرت فرض ہے۔ جو مسلمان کفر کی اجتماعی مشین میں پس رہے ہیں انہیں لازم ہے کہ ترک وطن کرکے ایسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح اسلامی زندگی گزار سکیں۔ نئی جگہ اسلام کو افرادی طاقت ملے گی اور افرادی طاقت کو اسلام ملے گا۔ کافرانہ نظام کے تحت رہنے کی اجازت صرف دو طرح کے مسلمانوں کو ہے۔ ایک وہ جو تبلیغ و تنظیم و جہاد کی خاطر وہاں ہیں۔ ان کا مقصد اعلائے کلمۃ الحق ہو۔ دوسرے وہ مستضعفین وہ لاچار اور مجبور مرد و عورت اور بچے ہیں جو نکل جانے کی طاقت نہ رکھتے ہوں یا انہیں راستہ معلوم نہ ہو۔ ہجرت محض ذاتی فائدہ اور تلاش معاش کیلئے نہیں ہے۔ وہی ہجرت اسلامی ہے جس کی ساری غرض وغایت اللہ کے دین کو سربلند کرنا ہے۔ نئی جگہ پہنچ کر تلاش معاش ضمنی ہوسکتا ہے لیکن اصلی مقصد نہیں۔ چناچہ اسلامی ہجرت کرنے والے پر لازم ہے کہ بری عادتیں چھوڑ دے۔ اچھی عادتیں اختیار کرے اور تبلیغ و تنظیم و جہاد میں تن من دھن سے لگ جائے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ مہاجر کو نئی جگہ کشادہ زمین اور کشادہ رزق ملے گا۔ جو شخص ہجرت کی نیت کرکے گھر سے نکلا اور راستے ہی میں مر گیا وہ بھی مہاجر ہے اور اس کا اجر قیامت تک کیلئے ثابت ہوگیا ہے اللہ کے پاس اس کی اجرت محفوظ ہوگئی۔ اللہ کے پاس بےانتہا بخشش بھی ہے اور بخشائش بھی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دارالکفر میں رہنے کی بجائے صاحب ہمت لوگوں کو دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا چاہیے یہ دنیا جب سے معرض وجود میں آئی ہے اسی وقت سے لے کر حق و باطل کے معرکے پیش آتے رہے ہیں۔ حق و باطل کی اس آویزش میں ہمیں بیشمار ہجرتیں دکھائی دیتی ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا عراق سے ہجرت کر کے شام ‘ مصر اور ارض مقدس کی طرف جانا اور پھر حجاز میں تشریف لا کر اپنے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کے ذریعے حجاز کو مرکز دعوت مقرر کرنا ‘ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور جناب یوسف (علیہ السلام) کی ہجرت مصر کی طرف، سیدنا لوط (علیہ السلام) کی ہجرت علاقہ سدوم کی جانب حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی پہلی ہجرت مدین کی طرف اور اس کے بعد ہزاروں ساتھیوں سمیت فلسطین کی طرف ہجرت کرنے کا ثبوت قرآن میں موجود ہے۔ شرعی اصطلاح میں دین کی خاطر وطن چھوڑنے والے کو مہاجر اور اس عمل کو ہجرت کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نظریۂ اسلام جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا دوسرا نام ہے اس کی خاطر ہر چیز قربان کرنا لازم ہے۔ جو شخص ایمان کے لیے قربانی نہیں دیتا اور اس پر دوسری باتوں کو مقدم جانتا ہے۔ ایسا شخص ایماندار ہونے کا حق دار نہیں۔ ہجرت میں بھی یہی فلسفہ ہے کہ ناگزیر حالات میں ہمیشہ دب کر اور کمزور رہنے کے بجائے مسلمانوں کو ایسے علاقے سے ہجرت کر کے اپنی افرادی قوت کو مجتمع کر کے کفار کے مقابلے میں کھڑا ہونے کے اقدامات کرنے چاہییں۔ ہجرت ایمان کی کسوٹی ہے : اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہ ایسی پل صراط ہے جس کی دھار تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے ہجرت کی تکالیف و مشکلات ایمان سے خالی دل کو ننگا کردیتی ہیں یہ ایسا ترازو ہے جس میں ہر آدمی پورا نہیں اتر سکتا۔ اس پیمانے سے کھرے کھوٹے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے اسباب اور طاقت رکھنے کے باوجود ہجرت نہ کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنائی ہے۔ کیونکہ انہوں نے ایمان کی نعمت ‘ مسلمانوں کی اجتماعیت ‘ اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر اپنے کاروبار ‘ مکانات اور دنیاوی مفاد کو ترجیح دی ہے۔ البتہ وہ لوگ جو ہجرت کے لیے کوئی سبیل اور وسیلہ نہیں پاتے انہیں معاف کردینے کی امید دلائی گئی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ درگزر کرنے اور معاف فرمانے والا ہے۔ مسائل ١۔ شرعی عذر کے بغیر اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کرنے والے ظالم ہیں۔ ٢۔ جان بوجھ کر ہجرت نہ کرنے والے کو موت کے وقت فرشتے ہجرت نہ کرنے کا طعنہ دیں گے۔ ٣۔ ظالموں کے لیے جہنم بدترین ٹھکانا ہے۔ ٤۔ مجبور اور معذور لوگ ہجرت سے مستثنیٰ ہیں۔ ٥۔ معذور اور مجبور لوگوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمانے اور بخش دینے والا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٩٧۔ ٩٩۔ یہ آیت جزیرۃ العرب میں بطور واقعہ موجود صورت حال سے بحث کرتی ہے اور یہ صورت حال مکہ وغیرہ میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے بعد عملا موجود تھی ‘ جبکہ مدینہ میں اسلامی مملکت قائم ہوگئی تھی ۔ ابھی تک مکہ میں ایسے مسلمان موجود تھے جنہوں نے ہجرت نہ کی تھی ۔ یہ لوگ وہاں اپنی کچھ مصلحتوں اور اپنی جائیداد کی وجہ سے رہ گئے تھے ۔ حالات ایسے تھے کہ مشرکین مکہ کسی ایسے شخص کو جو ہجرت کر رہا ہوتا ‘ اپنے ساتھ کچھ لے جانے نہیں دیتے تھے ‘ یا یہ لوگ ہجرت کی تکالیف کی وجہ سے بیٹھے ہوئے تھے ‘ اس لئے کہ جو بھی ہجرت کرتا تھا اہل مکہ اس کی راہ روکتے اور اسے منع کرتے ۔ بعض لوگ ایسے بھی تھے جو حقیقتا ہجرت کرنے پر قادر ہی نہ تھے ۔ بعض بوڑھے تھے بعض عورتیں تھیں اور بعض بچے تھے ۔ ان لوگوں کے لئے ہجرت کرنے اور بھاگنے کی کوئی راہ سرے سے نہ تھی ۔ مسلمانوں میں جو لوگ مکہ میں رہ گئے تھے ان پر مکہ والوں نے بڑی سختیاں شروع کردی تھیں کیونکہ وہ لوگ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض) کو گرفتار کرنے میں ناکام ہوگئے تھے ۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں حکومت قائم کرکے قریش کے قافلوں کو تنگ کرنا شروع کردیا تھا اور پھر جنگ بدر میں مسلمانوں پر سخت مظالم ڈھا رہے تھے ‘ ان کو مختلف قسم کی اذیتوں میں مبتلا کر رہے تھے ‘ اور سخت بوکھلاہٹ میں ظلم کررہے تھے ۔ بعض لوگوں کو انہوں نے عملا تشدد کرکے دین اسلام سے پھیر دیا تھا۔ بعض لوگ تقیہ کر کے کفر کا اظہار کر رہے تھے اور مشرکین کے ساتھ شرکیہ عبادات میں بظاہر شریک ہوتے تھے ، یہ تقیہ اس وقت ان کے لئے جائز تھا جب اسلامی حکومت نہ تھی اور ہجرت کرنے کے مواقع نہ تھے ۔ لیکن جب اسلامی مملکت کا قیام مدینہ طیبہ میں ہوگیا تو پھر انکا اس طرح فتنوں کے اندر قیام کرنا یا اپنے آپ کو تقیہ پر مجبور کرنا جائز اور معقول نہ تھا جبکہ وہ ہجرت بھی کرسکتے تھے اور دارالاسلام میں امن کی زندگی بھی بسر کرسکتے تھے ۔ ان حالات میں یہ آیات نازل ہوئیں ۔ یہ لوگ محض دولت اور مصلحت کی وجہ سے ہجرت نہ کر رہے تھے ‘ یا وہ ہجرت کی تکالیف ومشکلات کی وجہ سے مکہ میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ ایسے حالات میں اگر انکی موت واقعہ ہوگئی تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ظالم کا نام دیتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر رہے تھے اس لئے کہ انہوں نے اپنے آپ کو دارالاسلام کی آزادانہ زندگی سے محروم رکھا ‘ جہاں وہ پاک وصاف اور شریفانہ اور اپنی مرضی کی زندگی بسر کرسکتے تھے ۔ جبکہ دارالکفر میں وہ ذلیل و خوار ‘ کمزور اور مظلوم ہو کر زندگی بسر کر رہے تھے ۔ اور ان پر مظالم ہو رہے تھے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جہنم میں رہیں گے جو بہت برا ٹھکانا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان لوگوں کے لئے وعید ہے جنہوں نے فی الواقعہ ڈر کر کفر اختیار کرلیا تھا ۔ لیکن ایسے لوگوں کی تعبیر قرآن مجید نہایت ہی زندہ اور متحرک انداز میں کرتا ہے ۔ ان کے اور فرشتوں کے درمیان مکالمہ ہو رہا ہے اور یہ مکالمہ گویا زندہ افراد کے درمیان ایک اسٹیج پر ہو رہا ہے ۔ (آیت) ” (ان الذین توفھم الملئکۃ ظالمی انفسھم قالوا فیم کنتم قالوا کنا مستضعفین فی الارض قالوا الم تکن ارض اللہ واسعۃ فتھاجروا فیھا (٤ : ٩٧) ٍ (جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور ومجبور تھے ۔ فرشتوں نے کہا ‘ کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے ؟ ) قرآن انسانوں کی تربیت کر رہا تھا ‘ اس لئے اس کے پیش نظریہ ہدف تھا کہ وہ ان کے بھلائی اور عزت وشرف کے جذبے کو جوش میں لائے اور ان کے اندر ضعف ‘ بخل ‘ حرص اور سستی کے پائے جانے والے اوصاف کو ختم کرنے کی سعی کرے ۔ چناچہ اس منظر کی تصویر کشی میں قرآن کریم نے نہایت ہی حقیقی صورت حال کو پیش کیا ہے ۔ لیکن قرآن کریم اس تصویر کشی کو لوگوں کی اصلاح کے لئے استعمال کرتا ہے اور اس کے ذریعے نفوس انسانی کی اصلاح کی جاتی ہے ۔ موت کا وقت ہر انسان کے لئے خوفناک ہوتا ہے ۔ حالت نزع میں جو کچھ پیش آتا ہے انسان کے ذہن میں وہ تمام حالات بہت ہی تیزی کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور پھر اس منظر میں فرشتوں کا اسٹیج پر آنا مزید خوفناک صورت حال پیدا کردیتا ہے اور انسان کے حواس بڑی تیزی سے کام کرتے ہیں ۔ یہ لوگ مکہ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور نظر آتا ہے کہ یہ لوگ خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں اور ایسے ہی حالات میں فرشتے آ پہنچتے ہیں اور ان کی روح قبض کرنے لگتے ہیں ۔ چونکہ یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں ‘ اس صورت حال سے ہر زندہ شخص متاثر ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ ایسے مظلومانہ حالات میں بیٹھے ہوئے ہیں اور فرشتے ان کی روح قبض کر رہے ہیں ۔ اب ان کے لئے کوئی موقعہ نہیں رہا ہے کہ وہ اپنے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ہجرت کرلیں کیونکہ زندگی کا موقعہ تو ایک ہی بار آتا ہے ۔ اور یہ فرشتے ان کی روح کو خاموشی کے ساتھ قبض نہیں کرتے بلکہ وہ ان کے ماضی کو بھی سامنے لاتے ہیں اور نہایت ہی ناپسندیدہ انداز میں پوچھتے ہیں کہ تم نے اپنی زندگی کے قیمتی ایام کن کاموں میں ضائع کئے ؟ دنیا میں ان کا شغل کیا تھا ‘ وہ کیا بلند مقاصد تھے جن کے لئے وہ دوڑ دھوپ کر رہے تھے ؟ (آیت) ” (قالوا فیم کنتم (٤ : ٩٧) (تم کن حالات میں رہے) کیونکہ یہ لوگ جن حالات میں رہے تھے ایسا تو نقصان ہی نقصان تھا۔ یعنی ان کے لئے وقت ضائع کرنے کے سوا کوئی اور مشغلہ ہی نہ تھا اور یہ لوگ جن پر حالت نزع طاری تھی حالت نزع میں جواب دیتے ہیں اور نہایت ہی ناپسندیدہ صورت حالات میں نہایت ہی ذلت کے ساتھ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ ان کے لئے معذرت ہو حالانکہ وہ ذلت ہے ۔ (آیت) ” (قالوا کنا مستضعفین فی الارض (٤ : ٩٧) (ہم تو زمین میں کمزور لوگ تھے) ہم کمزور تھے ‘ طاقتور لوگوں نے ہمیں دبا رکھا تھا ۔ ہم ذلیل و خوار تھے ۔ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہ تھا ۔ ہر شخص اس بات سے نفرت کرے گا کہ حالت نزع میں اس کے ساتھ یہ مکالمہ پیش آئے اس لئے کہ اس سے ان لوگوں کی انتہائی بےبسی کا اظہار ہوتا ہے اور یہ کہ وہ پوری زندگی اس طرح بےبس ہو کر گزار گئے اور پھر بھی ملائکہ نے انہیں نہ چھوڑا جب وہ حالت نزع سے دوچار ہوئے تو ان کو یہ کہا گیا کہ تم نے موقعہ سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ (آیت) ” (الم تکن ارض اللہ واسعۃ فتھاجروا فیھا “۔ (٤ : ٩٧) (کیا اللہ کی زمین بہت وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے) حقیقت یہ ہے کہ اس ذلت ‘ مسکنت ‘ فتنے اور کمزوری میں اپنے آپ کو وہ اس لئے مبتلا نہ کر رہے تھے کہ وہ فی الواقعہ ایسے حالات میں تھے اور لاچار تھے بلکہ کچھ اور اسباب تھے جن کی وجہ سے انہوں نے اس ذلت کو قبول کر رکھا تھا ۔ وہ لالچی تھے ۔ اور دنیاوی مصلحتوں کی وجہ سے وہ ہجرت نہ کر رہے تھے اور اسی وجہ سے وہ دارالکفر میں جمے ہوئے تھے جبکہ دارالاسلام موجود تھے ۔ یہ لوگ اپنے آپ کو تنگی میں رکھ رہے تھے حالانکہ اللہ کی سرزمین وسیع تھی ۔ ہجرت وہ کرسکتے تھے اور مشکلات کو وہ برداشت کرسکتے تھے ۔ (آیت) ” فاولئک فاوھم جھنم وسآءت مصیرا “۔ (٤ : ٩٧) (یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے) اس کے بعد مذکورہ بالانجام سے ان لوگوں کو مستثنی کیا جاتا ہے جو فی الواقعہ مجبور ہیں اور ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ وہ اس صورت حال سے نکل آئیں اور دارالاسلام تک پہنچ جائیں ۔ یہ لوگ بچوں ‘ ضعیف بوڑھوں اور عورتوں پر مشتمل ہیں ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایسے لوگوں کے کیسوں پر غور کیا جاسکتا ہے شاید یہ معاف ہوجائیں کیونکہ بظاہر ان کا عذر معقول ہے اور وہ مکہ سے مدینہ منتقل نہیں ہو سکتے ۔ (آیت) ” الا المستضعفین من الرجال والنساء والولدان لا یستطیعون حیلۃ ولا یھتدون سبیلا (٩٨) فاولئک عسی اللہ ان یعفو عنھم وکان اللہ عفوا غفورا “۔ (٩٩) (٤ : ٩٨۔ ٩٩) (ہاں جو مرد ‘ عورتیں اور بچے واقعی بےبس ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے ‘ بعید نہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے ۔ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے والا ہے) یہ حکم ابدالاباد تک رہے گا ۔ یہ احکام ان حالات تک ہی محدود نہیں ہیں جو اس وقت ایک متعین سوسائٹی میں مکہ مکرمہ میں پائے جاتے تھے بلکہ یہ عام احکام ہیں ۔ جس ملک میں بھی کوئی مسلمان اپنے دین کے معاملے میں مشکلات میں مبتلا ہو اور محض اپنی دولت اور جائیداد کی وجہ سے یا رشتہ داروں اور دوستوں کی وجہ سے وہ رہ رہا ہو اور محض اس ڈر سے رہ رہا ہو کہ اگر وہ اس ملک سے نقل مکانی کرے گا تو اسے مشکلات پیش آئیں گی بشرطیکہ دنیا کے کسی حصے میں دارالاسلام قائم ہو۔ اس میں لوگ امن سے رہ رہے ہوں اور اس ملک میں ایسا شخص اپنے عقیدے کا اظہار کھلے بندوں کرسکتا ہو ‘ وہاں وہ اللہ کے احکام اچھی طرح بجا لا سکتا ہو اور اسلامی شریعت کے مطابق پاک زندگی بسر کرسکتا ہو اور شریفانہ اور معزز زندگی گزار سکتا ہو ورنہ وہ مجبور تصور ہوگا۔ سیاق کلام انسانی نفوس کی تربیت کرتے ہوئے مزید آگے بڑھتا ہے ۔ وہ لوگ جو ہجرت کی مشکلات سے ڈرتے ہیں اور اس وجہ سے ہجرت کی ہمت نہیں کرتے ایسے لوگوں کے بارے میں آیات سابقہ میں تو ایک نہایت ہی موثر اور خوفناک منظر پیش کیا گیا تھا اور مسلمانوں کو اس صورت حال سے متنفر کیا گیا تھا ۔ اگلی آیات میں امید کی کرن دکھائی جاتی ہے ۔ کوئی ہجرت کرے چاہے دارالاسلام تک پہنچے یا راستے میں مر جائے اور حالت ہجرت میں اس کی موت واقعہ ہوجائے تو فرماتے ہیں کہ گھر سے نکلتے ہی ‘ اس کا اجر اس کا حق بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اسے بڑی وسعت نصیب ہوگی وہ آزادی سے زندگی بسر کرے گا اور اسے تنگی اور ترشی سے نجات ملے گی ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کے درمیان رہنے والوں کو تنبیہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا (انہوں نے ہجرت نہ کی تھی) وہ مشرکین ہی کے ساتھ رہتے تھے مشرکین کی جماعت کی تکثیر کرتے تھے۔ (مشرکین کہیں جنگ کرنے جاتے تو یہ بھی ساتھ چلے جاتے تھے جس سے مشرکین کی جماعت میں اضافہ ہوجاتا تھا) نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ان کو بعض مرتبہ تیر لگ جاتا تھا جس سے قتل ہوجاتے تھے یا تلوار وغیرہ سے مقتول ہوجاتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت بالا نازل فرمائی۔ لباب النقول صفحہ ٧٩ میں نقل کیا ہے کہ کچھ لوگ مکہ میں مسلمان ہوگئے تھے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کی تو ان لوگوں کو ہجرت کرنا گوارا نہ ہوا (اور اپنے جان و مال پر) خوف کھانے لگے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت بالا نازل فرمائی۔ دونوں باتیں سبب نزول ہوسکتی ہیں۔ آیت شریفہ میں اس بات پر ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے کہ کوئی شخص ہجرت کے مواقع میسر ہونے کے باوجود ہجرت نہ کرے اپنے دین و ایمان اور اعمال اسلام کے لیے فکر مند نہ ہو اور کافروں ہی میں گھسار ہے۔ اول تو ایسے لوگوں کو (ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ ) فرمایا کہ یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور فرمایا کہ جب فرشتے ان کی جانیں قبض کرنے لگتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تم کہاں تھے۔ دین کے ضروری کام کیوں نہیں بجا لاتے تھے۔ وہ جواب دیتے تھے ہمارا رہنا سہنا ایسی سر زمین میں تھا جہاں ہم مغلوب تھے اس لیے بہت سی ضروریات دین پر عمل نہ کرسکتے تھے۔ فرشتے جواب میں کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین و سیع اور کشادہ نہ تھی، تم ترک وطن کر کے کسی دوسری جگہ چلے جاتے وہاں فرائض ادا کرتے۔ ابتدائے اسلام میں مدینہ کے لیے ہجرت واجب تھی جب لوگوں نے بطور نفاق اسلام قبول کیا وہ لوگ اپنے نفاق کی وجہ سے مستحق عذاب ہوئے اور جن لوگوں نے اسلام تو دل سے قبول کیا لیکن قدرت ہوتے ہوئے ہجرت نہ کی تو وہ ترک فرض کی وجہ سے اور اس لیے کہ ان کی وجہ سے دین کے دشمنوں کی مدد ہوتی تھی مستحق عذاب ہوئے، ہجرت کوئی سفر تجارت نہیں ہے کہ مال کے ساتھ اور آسانیوں کے ساتھ گھر سے نکل جائیں اور پھر واپس آجائیں یہ تو ایک مشکل چیز ہے دین ایمان کو بچانے کے لیے گھر بار زمین و جائیداد چھوڑنا پڑتا ہے وطن کو مستقل طور پر خیر باد کردیا جاتا ہے۔ پھر دشمن بھی نکلنے نہیں دیتے۔ موقعہ لگ گیا تو آل واولاد کو ساتھ لے لیا ورنہ ان کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ حضرات صحابہ کرام (رض) نے ابتدائے اسلام میں جو ہجر تیں کی ہیں ان کے درد ناک واقعات کتابوں میں موجود ہیں۔ اولاً چند حضرات حبشہ چلے گئے تھے ان کے بعد مدینہ منورہ کے لیے ہجرت شروع ہوئی پھر حبشہ والے بھی مدینہ منورہ آگئے۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے یار غار حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ساتھ آل و اولاد کو چھوڑ کر مدینہ منورہ روانہ ہوئے دونوں کے متعلقین مکہ ہی میں رہے بعد میں وہ حضرات بھی آگئے لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی زینب (رض) کو مکہ معظمہ ہی میں اپنے شوہر کے ساتھ رہنا پڑا جب ہجرت کرنے کے ارادہ سے تشریف لانے لگیں تو ایک کافر نے بطن مبارک پر لات مار دی جس سے حمل ساقط ہوگیا۔ حضرت ام سلمہ (رض) کے پہلے شوہر حضرت ابو سلمہ (رض) ہجرت کے ارادہ سے حضرت ام سلمہ کو اور اپنے بیٹے کو اونٹ پر بٹھا کر نکلے مکہ والے آڑے آگئے حضرت ام سلمہ (رض) کے گھر والوں نے حضرت ام سلمہ کو روک لیا پھر ابو سلمہ کے گھر والے آئے اور ان کے بیٹے سلمہ کو لے کر چلے گئے اس طرح تینوں میں جدائی ہوگئی۔ حضرت ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں صبح سے شام تک روتی رہتی تھی اور اس پر ایک عرصہ گزر گیا بعد میں ایک آدمی نے میرے خاندان والوں سے کہا کہ تم نے اس عورت کو اس کے شوہر اور اس کے بچے سے جدا کردیا اور اس مسکینہ کو کیوں جانے کی اجازت نہیں دیتے اس پر انہوں نے مدینہ منورہ جانے کی اجازت دے دی اور ابو سلمہ کے خاندان والے بچہ بھی دے گئے وہ فرماتی ہیں کہ میں اس حالت میں نکل کھڑی ہوئی کہ میرے ساتھ کوئی بھی نہ تھا تنعیم میں پہنچی تو عثمان بن طلحہ مل گئے انہوں نے کہا کہاں جاتی ہو میں نے کہا میں مدینہ منورہ اپنے شوہر کے پاس جا رہی ہوں پوچھا تمہارے ساتھ کوئی ہے میں نے کہا اللہ کے اور اس بچے کے سوا کوئی ساتھ نہیں ہے۔ یہ سن کر انہوں نے اونٹ کی مہار پکڑی اور مدینہ منورہ پہنچا دیا۔ (ذکرہ الحافظ فی الاصابہ) اس طرح کے بیشمار واقعات ہیں جو ہجرت کے موقع پر حضرات صحابہ کے ساتھ پیش آئے ان میں ایک واقعہ حضرت صہیب رومی کا بھی ہے جو آیت (وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتْغَآءَ مَرْضَات اللّٰہِ ) کی تفسیر میں گزر چکا ابتدائے اسلام میں مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنا فرض تھا اس کی فرضیت فتح مکہ کے بعد منسوخ ہوگئی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرما دیا کہ لا ھجرۃ بعد الفتح لیکن حسب حالات دین و ایمان بچانے کے لیے ہمیشہ ہجرت کی فرضیت مشروع ہے۔ اس زمانے میں بھی مختلف علاقوں میں مختلف اوقات میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن میں ہجرت کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ انقلابات کے مواقع میں ایسا بہت ہوتا ہے کہ کچھ مسلمان کافروں کے علاقے میں رہ جاتے ہیں باوجود موقعہ پانے کے گھر اور مال جائیداد یا رشتہ داریوں کی محبت میں اپنی جائے پیدائشی ہی میں جمے رہتے ہیں اذان بھی نہیں دے سکتے لیکن حب دنیا ان کو وطن نہیں چھوڑنے دیتی۔ ایسے لوگ ترک ہجرت سے گنہگار ہوتے ہیں ان پر ہجرت فرض ہوتی ہے جس کے چھوڑنے سے گنہگار ہوتے ہیں اور یہ اس خطاب کے ذیل میں آتے ہیں۔ (اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا) ١٣٦٦ ؁ھ میں مشرقی پنجاب میں اس طرح کے واقعات پیش آگئے تھے اور اب بھی یورپ اور ایشاء اور افریقہ کے علاقوں میں ایسے حالات پیش آتے رہتے ہیں جہاں سے مسلمانوں کو ہجرت کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ جب کوئی شخص اللہ کے لیے ہجرت کا ارادہ کرے گا تو اس کے لیے اللہ ضرور کوئی صورت پیدا فرما دے گا، جیسا کہ آئندہ آیت میں وعدہ فرمایا ہے۔ (یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِیْراً وَّسَعَۃً ) شرط یہ ہے کہ ہجرت اللہ کے لیے ہو۔ یورپ اور امریکہ جا کر بسنے والے اپنے دین و ایمان اور اعمال کی فکر کریں : آج کل تو لوگ الٹی راہ پر چل رہے ہیں اچھے خاصے دینی ماحول سے نکل کر دنیا کمانے کے لیے یورپ، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا جا جا کر بس رہے ہیں اور وہاں اپنے دین و ایمان کا خون کر رہے ہیں، اور اپنی نسلوں کے لیے دین و ایمان سے محرومی کا انتظام کر رہے ہیں، وہاں پہنچ کر خود بھی دین میں کمزور ہوجاتے ہیں اور اولادیں بےدینی میں ان سے بھی آگے بڑھ جاتی ہیں۔ اعاذنا اللّٰہ من جمیع البلایا والمحن و سائر الفتن ماظھر منھا و ما بطن۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

73 ساتواں حکم سلطانی۔ (اے مکہ میں محصور مسلمانو ! تمہاری مدد کے لیے مجاہدین کو بھیج تو رہا ہوں لیکن تم خود بھی مکہ سے ہجرت کرکے جانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ ) پہلے ان لوگوں کا حال بیان فرمایا جو جہاد میں شریک ہونے سے جی چراتے تھے اب یہاں ان لوگوں کا حال بیان فرمایا جو باوجود قدرت کے ہجرت نہیں کرتے تھے۔ بیان لحال القاعدین عن الھجرۃ اثر بیان القاعدین عن الجھاد (روح ج 5 ص 125) اور ان لوگوں کو ظالم اس لیے فرمایا کہ انہوں نے ہجرت نہ کرنے کی وجہ سے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے یہ ان لوگوں کے لیے زجر اور تخویف ہے اور اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مکہ معظمہ میں محصور تھے فرمایا تمہاری مدد اور نصرت کے لیے تو احکام سلطانیہ دے دئیے گئے ہیں اور مجاہدین تمہاری مدد کے لیے آرہے ہیں لیکن اے ایمان واسلام کے دعویدارو تم خود بھی تو کافروں کے چنگل سے نکل بھاگنے کی کوشش کرو۔ اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ والنِّسَاءِ بوڑھے، بچے اور عورتیں جو وہاں سے ہجرت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور ہر طرح سے مجبور ہیں۔ مذکورہ بالا وعید سے مستثنے ہیں۔ وَمَنْ یُّھَاجِرْفِی سَبِیْلِ اللہ الخ یہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے کی ترغیب ہے یعنی کیوں ہجرت نہیں کرتے ہو حالانکہ ہجرت کرنیوالوں کو بہت کچھ انعام بھی ملیگا۔ مُرٰغَماً سے مراد مال غنیمت ہے یا ہجرت کر جانے کی جگہ جہاں وہ آزادی سے دین کا کام کرسکیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi