Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 12

سورة مومن

ذٰلِکُمۡ بِاَنَّہٗۤ اِذَا دُعِیَ اللّٰہُ وَحۡدَہٗ کَفَرۡتُمۡ ۚ وَ اِنۡ یُّشۡرَکۡ بِہٖ تُؤۡمِنُوۡا ؕ فَالۡحُکۡمُ لِلّٰہِ الۡعَلِیِّ الۡکَبِیۡرِ ﴿۱۲﴾

[They will be told], "That is because, when Allah was called upon alone, you disbelieved; but if others were associated with Him, you believed. So the judgement is with Allah , the Most High, the Grand."

یہ ( عذاب ) تمہیں اس لئے ہے کہ جب صرف اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا تو تم انکار کرتے تھے اور اگر اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جاتا تھا تو تم مان لیتے تھے پس اب فیصلہ اللہ بلند و بزرگ ہی کا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكُم بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ وَإِن يُشْرَكْ بِهِ تُوْمِنُوا ... (It will be said): "This is because, when Allah Alone was invoked (in worship), you disbelieved; but when partners were joined to Him, you believed!" meaning, `if you were to go back, this is how you would be.' This is like the Ayah: وَلَوْ رُدُّواْ لَعَـدُواْ لِمَا نُهُواْ عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَـذِبُونَ But if they were returned (to the world), they would certainly revert to that when they were forbidden. And indeed they are liars. (6:28) ... فَالْحُكْمُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ So the judgement is only with Allah, the Most High, the Most Great! means, He is the Judge of His creation, the Just Who is never unjust. He guides whomsoever He wills and sends astray whomsoever He wills; He has mercy on whomsoever He wills and punishes whomsoever He wills; there is no God except Him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یہ ان کے جہنم سے نہ نکالے جانے کا سبب بیان فرمایا کہ تم دنیا میں اللہ کی توحید کے منکر تھے اور شرک تمہیں مرغوب تھا اس لیے اب جہنم کے دائمی عذاب کے سوا تمہارے لیے کچھ نہیں۔ 12۔ 2 اسی ایک اللہ کا حکم ہے کہ اب تمہارے لیے جہنم کا عذاب ہمیشہ کے لیے ہے اور اس سے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں۔ جو اعلیٰ یعنی ان باتوں سے بلند ہے کہ اس کی ذات یا صفات میں کوئی اس جیسا ہو اور کبیر یعنی ان باتوں سے بہت بڑا ہے کہ اس کی کوئی مثل ہو یا بیوی اور اولاد ہو یا شریک ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] مشرک کی پکی علامت توحید خالص سے بدکنا :۔ اللہ تعالیٰ کی ایک عاجز مخلوق ہونے کے باوجود تمہارا اپنے پروردگار سے یہ سلوک تھا کہ تمہیں جب کہا جاتا تھا کہ عبادت کے لائق صرف اللہ ہی ہے تو فوراً ناگواری کے آثار تمہارے چہروں پر نمایاں ہوجاتے تھے۔ تمہاری سب نیاز مندیاں اور محبت غیروں کے ساتھ تھیں۔ جب اللہ کے شریکوں کا ذکر ہوتا تو تمہاری باچھیں کھل جاتی تھیں۔ اور آج جو تم التجا کر رہے ہو اس کا فیصلہ اس اللہ کے ہاتھ میں ہے جو تمہاری طرح عاجز مخلوق نہیں۔ بلکہ سب کا خالق اور بڑی بلند شان والا ہے۔ اب تم خود ہی سوچ سکتے ہو کہ اس کا رویہ تمہارے حق میں کیا ہونا چاہئے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ذلکم بانہ اذا دعی اللہ وحدہ…یعنی انہیں جواب ملے گا کہ آج تم جس حال میں مبتلا ہو وہ اس لئے ہے کہ دنیا میں جب اکیلے اللہ کو پکارا جاتا تو تم نہیں مانتے تھے لیکن جب اس کے ساتھ دوسرے معبود بھی شریک کئے جاتے تو تم مان لیتے تھے۔ اکیلے اللہ کی عبادت تو درکنار، اکیلے اللہ کے ذکر پر ہی تمہارے دل تنگ پڑجاتے تھے اور غیروں کے ذکر پر تمہارے چہرے خوشی سے چمک اٹھتے تھے۔ (دیکھیے زمر : ٤٥) اب اگر تمہیں دوبارہ دنیا میں بھی بھی دیا جائے تو تم وہی کچھ کرو گے جو تم پہلے کرتے رہے، اس لئے تمہارے جہنم سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں۔ دیکھیے سورة انعام (٢٨) (٢) فالحکم للہ العلی الکبیر : تو اب فیصلے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جو بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔ آج تمہارے بنائے ہوئے دیوتاؤں، داتاؤں، مشکل کشاؤں اور حاجت رواؤں کا فیصلے میں کوئی دخل نہیں۔ ان ہستیوں کا ” العلی الکبیر “ کے فیصلے میں کیا دخل ہوسکتا ہے جن کا خمیر ہی پستی اور بےبضاعتی سے اٹھایا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكُمْ بِاَنَّہٗٓ اِذَا دُعِيَ اللہُ وَحْدَہٗ كَفَرْتُمْ۝ ٠ ۚ وَاِنْ يُّشْرَكْ بِہٖ تُؤْمِنُوْا۝ ٠ ۭ فَالْحُكْمُ لِلہِ الْعَلِيِّ الْكَبِيْرِ۝ ١٢ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ علي العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعَليُّ : هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل/ 63] ( ع ل و ) العلو العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( مکسر اللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ اس دوزخ کے عذاب اور ناراضگی کی وجہ یہ ہے کہ جب تم سے کلمہ لا الہ الا اللہ کے اقرار کرنے کے بارے میں کہا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے اور اگر بتوں کو شریک کیا جاتا تھا تو تم فورا مان لیتے تھے سو بندوں کے درمیان جو یہ فیصلہ ہوا اور کافروں کے لیے دوزخ کا حکم ہوا یہ اس اللہ کا فیصلہ ہے جو سب سے بلند عالی شان اور سب سے بڑا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ { ذٰلِکُمْ بِاَنَّہٗٓ اِذَا دُعِیَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ کَفَرْتُمْ } ” یہ اس لیے ہے کہ جب اکیلے اللہ کو پکارا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے۔ “ { وَاِنْ یُّشْرَکْ بِہٖ تُؤْمِنُوْا } ” اور اگر اس کے ساتھ شرک کیا جاتا تو تم مان لیتے۔ “ { فَالْحُکْمُ لِلّٰہِ الْعَلِیِّ الْکَبِیْرِ } ” تو اب ُ کل اختیار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے جو بہت بلند ‘ بہت عظمت والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18 That is, "The Judgement now rests entirely with that God alone, Whose Godhead you did not acknowledge, and those others whom you persistently regarded as associates and partners in the powers of Godhead, have no share whatever in the judgement. " (For a fuller understanding of this point, please see verse 45 of Az-Zumar and its E.N. 64). This sentence by itself gives the meaning that there would be no possibility of any way out for the disbelievers from the state of torment, for they did not only deny the Hereafter but they had aversion to their Creator and Sustainer, and they were not satisfied until they had associated Others with Him.

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :18 یعنی فیصلہ اب اسی اکیلے خدا کے ہاتھ میں ہے جس کی خدائی پر تم راضی نہ تھے ، اور ان دوسروں کا فیصلے میں کوئی دخل نہیں ہے جنہیں خدائی کے اختیارات میں حصہ دار قرار دینے پر تمہیں بڑا اصرار تھا ۔ ( اس مقام کو سمجھنے کے لیے سورہ زمر آیت 45 اور اس کا حاشیہ 64 بھی نگاہ میں رہنا چاہیے ) ۔ اس فقرے میں آپ سے آپ یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اب اس عذاب کی حالت سے تمہارے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں ہے ، کیونکہ تم نے صرف آخرت ہی کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ اپنے خالق و پروردگار سے تم کو چڑ تھی اور اس کے ساتھ دوسروں کو ملائے بغیر تمہیں چین نہ آتا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:12) ذلکم : یعنی تمہارا دوزخ کے عذاب میں مبتلا ہونا۔ بانہ۔ میں باء سببیہ ہے ان حرف تحقیق ہے اور حروف مشبہ بالفعل میں سے ہے۔ تحقیق، بےشک۔ یقینا ہ ضمیر شان ہے اور اللہ کی طرف عائد ہوتی ہے۔ داعی۔ ماضی مجہول واحد مذکر غائب وہ پکارا گیا۔ دعاء (باب نصر) مصدر سے۔ ذلک یا نہ اذا دعی اللّٰہ وحدہ کفرتم۔ تمہارا یہ دوزخ کے عذاب میں مبتلا ہونا بدیں وجہ ہے کہ تحقیق جب بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کا ذکر کیا گیا تو تم اسے ماننے سے انکار کردیتے تھے یعنی جب بھی لا الہ الا اللّٰہ کہا جاتا تو تم کہہ اٹھتے اجعل الالہۃ الھا واحدا (38:5) کیا بنادیا ہے اس نے بہت سے خداؤں کی جگہ ایک خدا۔ یا ۔ انھم کانوا اذا قیل لہم یستکبرون ۔ (37:35) کفار کا حال یہ ہے کہ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ نہیں کوئی معبود اللہ کے سوا تو یہ تکبر کرنے لگتے ہیں۔ ان یشرک بہ ان شرطیہ یشرک مضارع مجہول واحد مذکر غائب ۔ مضارع مجزوم بوجہ عمل ان ب تعدیہ کے لئے ہ ضمیر واحد مذکر غائب جس کا مرجع اللہ ہے اور اگر کسی کو اس کا شریک بنایا جاتا۔ تؤمنوا۔ مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ نون اعرابی بوجہ جواب شرط حذف ہوگیا۔ (تو) تم اس شرک کو مان جاتے ۔ اس پر ایمان لے آتے۔ فالحکم للّٰہ : پس (آج) حکم کا اختیار (صرف) اللہ وحدہ لاشریک کو ہی ہے۔ تمہارے کسی معبود باطل کے بس کی بات نہیں العلی۔ بلند مرتبہ۔ رفیع المرتبت، عالیشان۔ فعیل کے وزن پر صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ ہر دو العلی الکبیر اپنے اعراب میں موصوف اللہ کے تابع ہیں۔ الکبیر۔ عظمت و مرتبہ میں بڑا۔ یہ بھی صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ فائدہ : یہاں اللہ کی طرف سے دوزخیوں کا جواب ختم ہوا۔ اس کے بعد ھو الذی سے کلام جدید شروع ہوا۔ جس کے مخاطب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے مومن ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی انہیں جواب ملے گا کہ تم آج جس حال میں مبتلا ہو، وہ اس لئے ہے کہ۔۔۔۔۔ 1 یعنی تمہیں انکار تھا تو اس چیز سے کہ اللہ ہی ایک خدا ہے نہ کہ اس چیز سے کہ اللہ بھی خدا ہے اور اس کے ساتھ بہت سے اور بھی ہیں۔2 یعنی آج بلا لو اپنے ان دیویوں اور پیروں فقیروں کو جن کو تم خدا سمجھ کر پکارا کرتے تھے۔ اگر وہ واقعی خدا تھے تو تمہاری مدد کو کیوں نہیں پہنچتے ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

(ف 6) یعنی چونکہ حق تعلای کے علو و کبریاء کے اعتبار سے یہ جرم عظیم تھا اس لئے فیصلہ میں عقوبت بھی عظیم تجویز ہوئی، یعنی خلود۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کا ارشاد ہوگا (ذٰلِکُمْ بِاَنَّہٗ اِِذَا دُعِیَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ کَفَرْتُمْ وَاِِنْ یُشْرَکْ بِہٖ تُؤْمِنُوْا) (تمہارا یہ عذاب میں مبتلا ہونا اس وجہ سے ہے کہ جب دنیا میں اللہ وحدہٗ لا شریک کو پکارا جاتا تھا تو تمہیں اچھا نہیں لگتا تھا تم اللہ کی وحدانیت کا انکار کرتے تھے اور اسی انکار پر جمے رہتے تھے اور اگر تمہارے سامنے کوئی ایسا موقع آجاتا کہ اللہ کے ساتھ شرک کیا جاتا تو تم اسے مان لیتے تھے اور اسے صحیح کہتے تھے اور اس کے اقراری ہوجاتے تھے، وہ دنیا گزر گئی تم اس میں برابر کافر ہی رہے آج چھٹکارا کا راستہ نہیں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ تمہیں عذاب میں ہی رہنا ہے اللہ تعالیٰ برتر بھی ہے اور بڑا بھی ہے اس کے سارے فیصلے حق ہیں حکمت کے مطابق ہیں اس کے فیصلے کو کوئی رد نہیں کرسکتا اس کی صفت علو اور کبریا کی طرف تم نے نہیں دیکھا اور اپنے من مانے خیالات اور اعتقادات میں منہمک رہے اب عذاب اور عقاب کے سوا تمہارے لیے کچھ نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ ” قالوا الخ “ جہنم میں داخل ہونے کے بعد مشرکین جہنم سے نکلنے کی راہیں تلاش کریں گے اور کہیں گے اے ہمارے پروردگار، تو نے دو بار ہمیں موت سے دوچار کیا اور دو بار ہمیں زندگی بخشی، ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں اور جس حشر و نشر کا انکار کیا کرتے تھے آج اس پر ایمان لاتے ہیں۔ کیا اب کوئی سورت ہے کہ ہمیں دوزخ سے نکال کر ایک بار پھر دنیا کی زندگی مل جائے تو ہم تیری پوری پوری فرمانبرداری کریں گے۔ والمراد طلب الخروج نظیر (فارجعنا نعمل صالحا) ۔ (روح) ۔ پہلی موت سے مراد عدم ہے جب وہ اصلاب آباء میں تھے اور دوسری موت وہ ہے جو دنیا کی زندگی کا خاتمہ کردیتی ہے۔ اور پہلی بار احیاء سے دنیا میں پیدا کرنا مراد ہے اور دوسری بار احیاء سے بعث بعد الموت مراد ہے۔ قال ابن مسعود و ابن عباس و قتادۃ والضحاک۔ کانوا امواتا فی اصلاب اباءہم ثم احیاھم ثم اماتہم الموتۃ التی لا بد منہا فی الدنیا، ثم احیاھم للبعث والقیامۃ، فھاتان حیاتان و موتتان وھو قولہ تعالیٰ کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم (قرطبی ج 15 ص 297) ۔ 15:۔ ” ذلکم الخ “ اصل میں یہ جواب نہیں، بلکہ جواب کی علت ہے اور جواب کے قائم مقام ہے اور جواب مقدر ہے ای لا سبیل الی خروج۔ یعنی اب جہنم سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں، کیونکہ دنیا میں تمہارا یہ حال تھا کہ جب خدائے واحد کو پکارا جاتا تھا تو تم اس کی وحدانیت کا انکار کرتے تھے اور جب اس کے ساتھ کوئی شرک کرنا تو شرک پر ایمان لے آتے تھے جو اب میں اختصار کے بجائے علت جواب بیان کرنے کے لیے تفصیل بیان کی گئی۔ نیز یہ بیان کیا گیا کہ کسی دوسرے کو بھی نکالنے کی طاقت نہیں۔ وفی الکلام متروک تقدیرہ فاجیبوا بان لا سبیل الی الرد و ذلک لانکم اذا دعی اللہ وحدہ الخ (قرطبی) ای ذلک الذی انتم فیہ و ان لا سیل لکم الی خروج قط بسبب کفرکم بتوحید اللہ و ایمانکم بالاشراک بہ (مدارک) ۔ 16:۔ ” فالحکم الخ “ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو بھی طاقت نہیں کہ وہ ان کو دوزخ سے نکال سکے کیونکہ فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کا نافذ ہوگا جو بلندو برتر ہے اب کلی طور پر حکومت اسی کے قبضہ و اختیار میں ہے اور اس کا فیصلہ یہی ہے کہ مشرکین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں۔ اس میں اس بات کی دلیل بیان کی گئی ہے کہ کسی دوسرے کو بھی طاقت نہیں کہ انہیں دوزخ سے نکال سکے۔ 17:۔ ” ھوالذی الخ “ تمہید کے بعد حکمنامے کو ماننے کی ترغیب ہے وہ ایسا مہربان بادشاہ ہے کہ اپنی قدرت و وحدانیت کے دلائل بھی تمہیں دکھلاتا ہے اور آسمان سے مینہ برسا کر تمہاری روزی کا انتظام بھی تمہیں دکھلاتا ہے اور آسمان سے مینہ برسا کر تمہاری روزی کا انتظام بھی فرما اتا ہے، اس لیے اسکا حکمنامہ ضرور ماننا چاہئے۔ ” وما یتذکر الخ ‘ لیکن مانے گا وہی جو ضد وعناد کو چھوڑ کر آیات الٰہی میں غور و فکر کرے گا اور اللہ کی طرف رجوع کرے گا۔ ” و ما یتعظ و ما یعتبر بایات اللہ الا من یتوب من الشرک و یرجع الی الللہ فان المعاند لا یتذکر ولا یتعظ “ (مدارک) ۔ تائید :۔ ” اللہ یجتبی الیہ من یشاء ویہدی الیہ من ینیب “ (شوری رکوع 2) ۔ ” من خشی الرحمن بالغیب و جاء بقلب منیب “ (ق رکوع 3) ۔ ” واتبع سبیل من اناب الی “ (لقمان رکوع 2) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) یہ سزا تم کو اس لئے دی جارہی ہے کہ جب صرف اللہ کا نام لیا جاتا تھا تو تم اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کیا کرتے تھے اور اگر اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جانا تھا تو تم مان لیتے تھے اور یقین کرلیا کرتے تھے سو اب یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کا ہے جو سب سے عالیشان اور سب سے بڑا ہے۔ یعنی واپسی کی کوئی شکل نہیں ہمیشہ کے لئے یہیں رہنا ہے تمہاری حالت دنیا میں یہ تھی کہ خدائے وحدہ لا شریک کا ذکر ہوتا تھا تو تم توحید الٰہی کا انکار کرتے تھے اور جب اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جاتا تھا تو تم یقین کرلیا کرتے۔ پس حکم اور فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جو سب سے بلند اور بڑا ہے اور اس کا ہی فیصلہ ہے کہ واپسی محال اور عذاب دائمی بھگتنا معین ومقرر آگے اللہ تعالیٰ کے بعض قدرتیں مذکور ہیں جن سے اس کی توحید پر استدلال مقصود ہے۔