Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 19

سورة مومن

یَعۡلَمُ خَآئِنَۃَ الۡاَعۡیُنِ وَ مَا تُخۡفِی الصُّدُوۡرُ ﴿۱۹﴾

He knows that which deceives the eyes and what the breasts conceal.

وہ آنکھوں کی خیانت کو اور سینوں کی پوشیدہ باتوں کو ( خوب ) جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah knows the fraud of the eyes, and all that the breasts conceal. Allah tells us about His complete knowledge which encompasses all things, great and small, major and minor, so that people will take note that. He knows about them and they will have the proper sense of shyness before Allah. They will pay attention to the fact that He can see them, for He knows the fraud of the eyes, even if the eyes look innocent, and He knows what the hearts conceal. Ad-Dahhak said: خَايِنَةَ الاْاَعْيُنِ (the fraud of the eyes), "A wink and a man saying that he has seen something when he has not seen it, or saying that he has not seen it when he did see it." Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, said, "Allah knows when the eye looks at something, whether it wants to commit an act of betrayal or not." This was also the view of Mujahid and Qatadah. Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, commented on the Ayah: وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ (and all that the breasts conceal). "He knows, if you were able to, whether you would commit Zina with a woman or not." As-Suddi said: وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ (and all that the breasts conceal). meaning, of insinuating whispers.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

اس میں اللہ تعالیٰ کے علم کامل کا بیان ہے کہ اسے تمام اشیا کا علم ہے چھوٹی ہو یا بڑی باریک ہو یا موٹی اعلی مرتبے کی ہو یا چھوٹے مرتبے کی اس لیے انسان کو چاہیے کہ جب اس کے علم و احاطہ کا یہ حال ہے تو اس کی نافرمانی سے اجتناب اور صحیح معنوں میں اس کا خوف اپنے اندر پیدا کرے آنکھوں کی خیانت یہ ہے کہ دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا جائے جیسے راہ چلتے کسی حسین عورت کو کنکھیوں سے دیکھنا سینوں کی باتوں میں وہ وسوسے بھی آجاتے ہیں جو انسان کے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں وہ جب تک وسوسے ہی رہتے ہیں یعنی ایک لمحہ گزراں کی طرح آتے اور ختم ہوجاتے ہیں تب تک تو وہ قابل مواخذہ نہیں ہوگے لیکن جب وہ عزائم کا روپ دھار لیں تو پھر ان کا مواخذہ ہوسکتا ہے چاہے ان پر عمل کرنے کا انسان کو موقع نہ ملے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] آنکھوں کی حرکات کی اقسام :۔ آنکھوں کی بیشمار حرکات ہوتی ہیں۔ جن میں اکثر مذموم اور خَائِنَۃَ الاَعْیُنِکے ضمن میں آتی ہیں۔ مثلاً بطور طعن وتشنیع آنکھیں مارنا پھر استہزاء کی نظر اور طرح ہوتی ہے پھر آنکھوں آنکھوں میں باتیں بھی ہوتی ہیں۔ دوسروں سے آنکھیں بچا کر غیر محرم عورتوں کو بدنظری سے چوری چھپے دیکھا بھی جاتا ہے۔ اللہ آنکھوں کے ان سب قسم کے اشاروں کو بھی جانتا ہے اور دلوں میں پیدا ہونے والے جن خیالات کے نتیجہ میں آنکھیں ایسے اشارے اور حرکات کرتی ہیں وہ ان خیالات تک سے بھی واقف ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یعلم خآئنۃ الاعین … ” خآئنۃ “ ” خان یخون “ (ن) سے ” فاعلۃ “ کے وزن پر مصدر ہے، جیسا کہ ” غافیہ “ ہے اور یہ اسم فاعل بھی ہوسکتا ہے۔ اسم فاعل ہونے کی صورت میں دراصل ” الاغبن الخائنۃ “ تھا، پھر صفت کو موصوف کی طرف مضاف کردیا ۔ معنی ” خیانت کرنے والی آنکھیں “ ہوگا۔ مصدر ہون ی کی صورت میں معنی واضح ہے اور وہ ہے ” آنکھوں کی خیانت “ ، یعنی اللہ تعالیٰ کفار کے حق میں سفارش قبول نہیں کرے گا۔ اگر کسی نے کسی شبہ کی بنا پر غلطی سے کر بھی دی تو مانی نہیں جائے گی، کیونکہ سفارش کرنے والے کو اس کے کفر کا پورا اندازہ نہیں ہوگا، جب کہ اللہ تعالیٰ نہ ایسے لوگوں کے حق میں سفارش کی اجازت دے گا نہ سفارش قبول کرے گا، کیونکہ وہ تو آدمی کے ظاہر اعمال ہی نہیں پوشیدہ معاملات کو بھی جانتا ہے، جن میں سے آنکھوں کی خیانت اور دلوں کی چھپائی ہوئی باتیں سب سے زیادہ مخفی چیزیں ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں بھی جانتا ہے، تو وہ کسی کے دل کے کفر و شرک کا علم رکھتے ہوئے اس کے حق میں سفاشر کیسے قبول کرسکتا ہے ؟ انسان کے ظاہری اعضا کے اعمال میں سب سے پوشیدہ عمل آنکھ کے مختلف اعمال ہیں۔ مثلاً لوگوں سے چوری کسی کو دیکھنا جسے دیکھنا حرام ہے اور آنکھ کے اشارے سے ناجائز تعلق قائم کرلینا وغیرہ اور باطنی اعضا میں سے دل کے وہ اعمال ہیں جن کا آدمی کبھی اظہار نہیں کرتا، بلکہ انہیں چھپا کر رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسے آنکھوں کی خیانت اور دل کے چھپائے ہوئے سب اعمال معلوم ہیں۔ قیامت کے دن ایسی تمام خیانتیں اور دلوں میں چھپائے ہوئے اعمال سب ظاہر کردیئے جئایں گے، جیسا کہ فرمایا : (یوم تبلی السرآئر) (الطارق : ٩)” جس دن چھپی ہوئی باتوں کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 19, it was said: يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ (He knows the treachery of the eyes), in other words, eyes that betray the trust. It means the action of a person who would, secretly and surreptitiously, cast a glance over something haram and impermissible for him or her, for example, casts a glance at a non-mahram person with sexual desire, and takes it away in the event someone was around, or casts a glance in a manner that is not noticed by others. All these things are open before Allah Ta’ ala.

يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَةَ الْاَعْيُنِ ۔ (یعنی الاعین الخائنة) خیانت نظر سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص لوگوں سے چرا کر ایسی چیز پر نظر ڈالے جو اس کے لئے حرام اور ناجائز ہو، جیسے کسی غیر محرم پر شہوت سے نظر کرے، اور جب کسی کو دیکھے تو نظر ہٹا لے یا اس طرح نظر ڈالے کہ جس کو دیکھنے والے محسوس نہ کریں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ سب چیزیں ظاہر ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَعْلَمُ خَاۗىِٕنَۃَ الْاَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ۝ ١٩ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا خون الخِيَانَة والنّفاق واحد، إلا أنّ الخیانة تقال اعتبارا بالعهد والأمانة، والنّفاق يقال اعتبارا بالدّين، ثم يتداخلان، فالخیانة : مخالفة الحقّ بنقض العهد في السّرّ. ونقیض الخیانة : الأمانة وعلی ذلک قوله : لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، ( خ و ن ) الخیانۃ خیانت اور نفاق دونوں ہم معنی ہیں مگر خیانت کا لفظ عہد اور امانت کا پاس نہ کرنے پر بولا جاتا ہے اور نفاق دین کے متعلق بولا جاتا ہے پھر ان میں تداخل ہوجاتا ہے پس خیانت کے معنی خفیہ طور پر عہد شکنی کرکے حق کی مخالفت کے آتے ہیں اس کا ضد امانت ہے ۔ اور محاورہ میں دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] نہ تو خدا اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو ۔ عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا [ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔ خفی خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] ، ( خ ف ی ) خفی ( س ) خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ: يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه . ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

وہ آنکھوں کی چوری یعنی خیانت و مکاری کے ساتھ دیکھنے کو بھی جانتا ہے اور ان باتوں کو بھی جانتا ہے جو دلوں میں پوشیدہ ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ { یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ } ” وہ جانتا ہے نگاہوں کی چوری کو بھی ‘ اور جو کچھ سینوں میں چھپا ہے اس کو بھی۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:19) یعلم ای اللّٰہ یعلم اللہ جانتا ہے۔ جائنۃ الاغین : خائنۃ اصل میں خیانۃ (خیانت۔ دغا) سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے اصل میں فاعل کے وزن پر خائن تھا۔ ۃ مبالغہ کے لئے بڑھا دی گئی ہے اسم فاعل واحد مؤنث کا سیغہ بھی خائنۃ (یہ تاء تانیث) آئے گا۔ لیکن ۔ یہاں جمہور علماء کے نزدیک بطور مصدر آیا ہے۔ معجم الوسیط میں ہے :۔ الخائنۃ اسم بمعنی الخیانۃ وھو من المصادر التی حاءت علی لفظ الفاعلۃ کا العاقبۃ۔ وفی القرآن الکریم۔ یعلم خائنۃ الاعین وما تخفی الصدور۔ یہاں خائنۃ فاعلۃ کے وزن پر بطور مصدر آیا ہے اسی وزن پر دیگر مصادر الکاذبۃ۔ العاقبۃ۔ العافیۃ وغیرہ ہیں۔ خائنۃ بطور مصدر قرآن مجید میں اور جگہ بھی آیا ہے مثلا ولا تزال تطلع علی خائنۃ منھم (5:13) اور ہمیشہ تم ان کی (ایک نہ ایک) خیانت کی خبر پاتے رہتے ہو۔ یا خائنۃ الاعین میں تقدیم و تاخیر ہے اور کلام یوں ہے یعلم الاعین الخائنۃ وہ چور آنکھوں کو بھی جانتا ہے۔ وما تخفی الصدور۔ واؤ عاطفہ ہے۔ تخفی مضارع واحد مؤنث غائب ۔ اخفاء (افعال) مصدر سے ۔ وہ چھپاتی ہے یا چھپائے گی۔ الصدور۔ جمع ہے الصدر کی (سینے) ما موصولہ ہے اور جو سینے اپنے اندر چھائے ہوئے ہیں ۔ یعنی دلوں کے بھید۔ خطرات، ارادات، یعنی اللہ تعالیٰ اتنا باریک بین اور لطف خبیر ہے کہ آنکھوں کی خفیف سے خفیف حرکات کو اور دلوں کے پوشیدہ بھیدوں کو بھی جانتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 15 آنکھ کے اشارے میں جو غلط جذبات مستور ہوتے ہیں۔ مثلاً کچھ لوگ بیٹھے ہوئے اتنے میں کسی اجنبی عورت کا وہاں سے گزرہو، کوئی آدمی جب لوگوں کا دھیان نیچی رکھے اور جب ان کا دھیان نہ ہو تو نظر بچا کر اس کی طرف دیکھ لے۔ ( ابن کثیر)16 یعنی دلوں کے راز اور وسوسوں تک سے واقف ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے ان پر مواخذہ نہیں کرتا جب تک ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مطلب یہ کہ اس کو تمام اعمال عباد کا احاطہ علمیہ ہے جس پر مجازات موقوف ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت کو اور دلوں کی پوشیدہ چیزوں کو جانتا ہے (یَعْلَمُ خَاءِنَۃَ الْاَعْیُنِ ) قیامت کے دن محاسبہ ہوگا نیکیوں کی جزا ملے گی اور برائیوں پر سزا یاب ہوں گے اعضائے ظاہرہ کے اعمال کو بھی اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور سینوں میں جو چیزیں پوشیدہ ہیں برے عقیدے، بری نیتیں، برے جذبات، اللہ تعالیٰ ان سب سے بھی باخبر ہے کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ میرے باطن کا حال پوشیدہ ہے اس پر مواخذہ نہ ہوگا اعضاء ظاہرہ میں آنکھیں بھی ہیں بری جگہ نظر ڈالنا جہاں دیکھنے کی اجازت نہیں اور بد اعمالیوں میں آنکھوں کا استعمال کرنا یہ سب گناہ ہے آنکھوں کے اعمال میں سے ایک عمل خیانت بھی ہے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ وہ آنکھوں کی خیانت کو اور دلوں میں پوشیدہ چیزوں کو جانتا ہے آنکھ کے گوشے سے نا محرم کو دیکھ لیا چپکے سے گناہ کی نظر کہیں ڈال لی آنکھ کے اشارہ سے کسی کی غیبت کردی یہ سب گناہ میں شمار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کو سب کا علم ہے۔ حضرت ام معبد (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں دعا کرتے تھے : اَللّٰھُمَّ طَھِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِی مِنَ الرِّیَآءِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃِ فَانَّکَ تَعْلَمُ خَآءِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ (رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر کما فی المشکوٰۃ ص ٢٢٠) ترجمہ دعاء یہ ہے۔ (اے اللہ میرے دل کو نفاق سے اور میرے عمل کو ریا سے اور میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک فرما دے کیونکہ آپ آنکھوں کی خیانت اور ان چیزوں کو جانتے ہیں جنہیں سینے چھپائے ہوئے ہیں۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27:۔ ” واللہ یقضی بالحق “ یہ اصل دعوے کی تائید ہے امر اول ” واللہ یفضی بالحق “ یعنی اللہ تعالیٰ تو ایسا قادر و متصرف ہے کہ وہ جس کام کا ارادہ فرماتا ہے، اسے اپنے ارادے اور فیصلے کے مطابق سر انجام دے لیتا ہے۔ امر دوم ” والذین یدعون من دونہ “ لیکن مشرکین، اللہ کے سوا جن خود ساختہ معبودوں کو مصائب و حاجات میں پکارتے ہیں وہ ایسے عاجز و بےبس ہیں کہ کچھ بھی نہیں کرسکتے جیسا کہ فرما ای ” واذا قضی امرا فانما یقول لہ کن فیکون “ (بقرہ رکوع 14) ۔ اور دوسری جگہ فرمایا ” قولہ الحق “ (انعام رکوع 9) ۔ اس کا ارشاد سراپا حق ہے اور اس کے ارشاد و ارادہ کی مطابق کا کا ہوجانا یہ سی کی صفت ہے، معبودان باطلہ ایسا نہیں کرسکتے ” ان اللہ ھو السمیع البصیر “ یہ ماقبل کی علت ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہے کرسکتا ہے کیونکہ وہ السمیع لکل شیء ہر بات کو سننے والا اور البصیر بکل شیء ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ لیکن معبودان باطلہ میں یہ صفت نہیں ہے اس لیے مصائب و حاجات میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارانا چاہئے جو سب کچھ دیکھتا سنتا ہے اور سب کچھ کرسکتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والی آنکھوں کو اور چوری کی نگاہ کو جانتا ہے اور ان باتوں کو بھی جانتا ہے جو سینوں نے چھپا رکھی ۔ چوری کینگاہ کنکہیوں سے کسی کو دیکھنا یا کسی پر دل آزاری کی نیت سے آنکھوں کو بچا کر دیکھنا یا اشارہ کرنا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا فرمایا کرتے تھے۔ اللھم طھر قلبی من النفاق وعملی من الریاء ولسانی من الکذب من الکذب وعینی من الخیانۃ فانک تعلم خائنۃ الاعین وما تخفی الصدور