Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 22

سورة مومن

ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَانَتۡ تَّاۡتِیۡہِمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَکَفَرُوۡا فَاَخَذَہُمُ اللّٰہُ ؕ اِنَّہٗ قَوِیٌّ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۲۲﴾

That was because their messengers were coming to them with clear proofs, but they disbelieved, so Allah seized them. Indeed, He is Powerful and severe in punishment.

یہ اس وجہ سے کہ ان کے پاس ان کے پیغمبر معجزے لے لے کر آتے تھے تو وہ انکار کر دیتے تھے پس اللہ انہیں پکڑ لیتا تھا ۔ یقیناً وہ طاقتور اور سخت عذاب والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانَت تَّأْتِيهِمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ... That was because there came to them their Messengers with clear evidences, meaning with clear proof and definitive evidence. ... فَكَفَرُوا ... but they disbelieved. means, despite all these signs, they disbelieved and rejected the Message. ... فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ .... So Allah seized them. means, He destroyed them utterly, and a similar fate awaits the disbelievers. .. إِنَّهُ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ Verily, He is All-Strong, Severe in punishment. means, He is possessed of great strength and might. شَدِيدُ الْعِقَابِ (Severe in punishment), means, His punishment is severe and agonizing; we seek refuge with Allah, may He be blessed and exalted, from that.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 یہ ان کی ہلاکت کی وجہ بیان کی گئی ہے، اور وہ ہے اللہ کی آیتوں کا انکار اور پیغمبروں کی تکذیب۔ اب سلسلہ نبوت و رسالت تو بند ہے۔ تاہم آفاق پر انس میں بیشمار آیات الٰہی بکھری اور پھیلی ہوئی ہیں۔ علاوہ ازیں وعظ و تذکیر اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے علماء اور داعیان حق ان کی وضاحت اور نشاندہی کے لیے موجود ہیں اس لیے آج بھی جو آیات الہی سے اعراض اور دین و شریعت سے غفلت کرے گا اس کا انجام مکذبین اور منکرین رسالت سے مختلف نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] بینات کے مختلف معانی :۔ بَیِّنَاتٌ (بینۃ) کی جمع دراصل ایسی دلیل کو کہتے ہیں جس کے سامنے فریق ثانی لاجواب ہوجائے۔ پھر اس لفظ کا اطلاق معجزات انبیاء پر بھی ہوسکتا ہے اور قرآن کی آیات پر بھی کیونکہ بار بار کے چیلنج کے باوجود کافر قرآن کی مثل پیش نہ کرسکے تھے۔ اور ایسے عقلی دلائل پر بھی جو فریقین میں مسلم ہوں۔ اور ایسی واضح ہدایات پر بھی جنہیں دیکھ کر ہر معقول آدمی یہ سمجھ سکے کہ ایسی تعلیم کوئی جھوٹا خود غرض آدمی نہیں دے سکتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذلک بانھم کانت ثاتیھم …” البینات “ کا لفظ عام ہے، اس سے مراد معجزے بھی ہیں، روشن دلیلیں بھی اور واضح احکام و ہدایت بھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ بِاَنَّہُمْ كَانَتْ تَّاْتِيْہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَكَفَرُوْا فَاَخَذَہُمُ اللہُ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ قَوِيٌّ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝ ٢٢ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ شدید والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق/ 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات/ 8] . ( ش دد ) الشد اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم/ 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ عُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب والعُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] ، وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] ، وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] . اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔ وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے ۔ وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا کہ اس کو دی گئی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور یہ دنیا میں ان پر عذاب اس وجہ سے نازل ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول اوامرو نواہی اور دلیلیں لے کر آئے تھے تو انہوں نے انبیاء کرام کی اور جو وہ لے کر آئے تھے اس کی تکذیب کی اللہ تعالیٰ نے ان پر مواخذہ فرمایا اور مواخذہ فرمانے والا قوت والا اور جس کو سزا دے تو سخت سزا دینے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ { ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانَتْ تَّاْتِیْہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ } ” یہ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس آتے رہے ان کے رسول بہت واضح نشانیوں کے ساتھ “ { فَکَفَرُوْا فَاَخَذَہُمُ اللّٰہُط اِنَّہٗ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ } ” لیکن انہوں نے کفر کیا تو اللہ نے انہیں پکڑ لیا ‘ یقینا وہ بہت طاقتور ‘ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

34 Bayyinat means three things: (1) The clear signs which pointed to the Messengers' being appointed by Allah; (2) the convincing arguments which were a clear proof of their teachings being based on the Truth; and (3) the clear guidance and instructions about the problems and affairs of life which could enable every reasonable person to see that such pure teachings could not be given by an impostor.

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :34 مبیّنات سے مراد تین چیزیں ہیں ۔ ایک ، ایسی نمایاں علامات اور نشانیاں جو ان کے مامور من اللہ ہونے پر شاہد تھیں ۔ دوسرے ، ایسی روشن دلیلیں جو ان کی پیش کردہ تعلیم کے حق ہونے کا ثبوت دے رہی تھیں ۔ تیسرے ، زندگی کے مسائل و معاملات کے متعلق ایسی واضح ہدایات جنہیں دیکھ کر ہر معقول آدمی یہ جان سکتا تھا کہ ایسی پاکیزہ تعلیم کوئی جھوٹا خود غرض آدمی نہیں دے سکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٢۔ ٢٨۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قریش کو عقبیٰ کے خوف کی باتوں سے ڈرایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا ہوگا اور نیک و بد کا ذرا ذرا حساب ہوگا اور جو لوگ شرک میں گرفتار ہیں اور اپنے بتوں سے شفاعت کی توقع رکھتے ہیں ان کا خیال بالکل غلط ہے وہاں مشرکوں کا نہ کوئی دوست ہوگا نہ کوئی شفاعت کرنے والا ہوگا پھر یہ فرمایا تھا کہ یہ لوگ اللہ کے رسول سے مخالفت کرتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ اللہ کے رسولوں کی مخالفت کے سبب سے بہت لوگ ان سے پہلے ہلاک ہوچکے ہیں جن کا حال انہوں نے ملک شام و یمن کے سفر میں سنا ہوگا اور جو کچھ عمارتیں ان پچھلے لوگوں کی باقی رہ گئی ہیں ان کے دیکھنے سے ان کو معلوم ہوا ہوگا کہ وہ لوگ ان سے دنیا کی ثروت میں بڑھ کر تھے ان آیتوں میں یہ جتلایا کہ ان پچھلے لوگوں کی طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک ہونا فقط اللہ کے رسولوں کی مخالفت کے سبب تھا اور ان پچھلے لوگوں میں سب سے آخر فرعون کی قوم جو ہلاک ہوئی تھی اس کا قصہ بھی مثال کے طور پر ذکر فرما دیا یہ اوپر گزر چکا ہے کہ پچھلے زمانہ کی کسی تاریخی بات کو یاد دلا کر مشابہت کے طور پر موجودہ زمانہ کی کسی بات کے انجام کو ذہن نشین کرنا کسی مطلب کے ثابت کرنے کے لئے ایک بڑا عمدہ طریقہ ہے اسی مطلب کے لئے قرآن شریف میں جگہ جگہ پچھلے لوگوں کے قصے ذکر فرمائے گئے ہیں اگرچہ قارون بنی اسرائیل میں سے تھا لیکن توراۃ کے زکوٰۃ کے حکم پر موسیٰ کی نبوت کا منکر ہو کر ان کو جادوگر کہنے لگا تھا ١ ؎۔ اکثر علمائے مفسرین نے لکھا ہے کہ فرعون نے نجومیوں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پیدا ہونے کا حال سن کر ایک دفعہ حضرت موسیٰ کی پیدائی سے پہلے بنی اسرائیل کے لڑکوں کے قتل کئے جانے کا حکم دیا تھا اور حضرت موسیٰ کے پیدا ہوجانے کے بعد جب فرعون کی قوم کے لوگوں نے یہ شکایت کی تھی کہ بنی اسرائیل میں کے بڑی عمر کے لوگ آخر اپنی موت سے مرجاویں گے اور ان کے لڑکے قتل کردیئے جائیں گے تو بنی اسرائیل کی نسل منقطع ہوجائے گی اور محنت مزدوری کا کام جو بنی اسرائیل کے ذمہ ہے اس میں بڑا فتور پڑجائے گا اس شکایت پر فرعون نے وہ حکم ملتوی کردیا تھا اب حضرت موسیٰ کے نبی ہو کر مصر آنے کے بعد پھر وہ حکم جاری کردیا تھا پہلی دفعہ یہ حکم فرعون نے اس غرض سے دیا تھا کہ حضرت موسیٰ دنیا میں پیدا ہو کر جینے اور پلنے نہ پائیں اور دوسری دفعہ یہ حکم اس غرض سے دیا تھا کہ بنی اسرائیل پر ایک طرح کا رعب قائم رہے اور بنی اسرائیل کی جماعت بھی زیادہ بڑھنے نہ پائے لیکن تقدیر الٰہی کے موافق جو کچھ ہونا تھا وہ آخر ظہور میں آیا جب فرعون حضرت موسیٰ کے مقابلے سے عاجز آیا تو اس نے اپنی قوم کے سرداروں سے یہ مشورہ لیا تھا کہ حضرت موسیٰ کو قتل کر ڈالے اس مشورہ کے وقت اس پوشیدہ ایماندار قبطی کو جوش آیا اور اس نے قوم کو وہ نصیحت کی جس کا ذکر آگے آتا ہے بعضے مفسروں نے یہ جو لکھا ہے کہ یہ پوشیدہ ایماندار بنی اسرائیل میں کا ایک شخص تھا یہ قول قرآن شریف کے مطلب کے مخالف ہے کیونکہ آگے کی آیتوں میں اس ایماندار شخص نے فرعون اور اس کی قوم کو نصیحت جو کی ہے تو اس میں میری قوم میری قوم کہہ کہہ کر نصیحت کی ہے بنی اسرائیل میں کوئی شخص قبطی لوگوں کو میری قوم میری قوم کیونکر کہہ سکتا تھا علاوہ اس کے جب فرعون خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل پر آمادہ تھا تو ایسی حالت میں بیر اسرائیل کا کوئی شخص اگر جرأت کرکے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے باب میں فرعون کو اتنی بڑی نصیحت کرتا تو فرعون ضرور اس کو سزا دیتا اسی واسطے امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس ٢ ؎ نے یہی تفسیر کی ہے کہ وہ ایماندار شخص قبطی تھا اور قوم قبطی میں سے یہ تین شخص حضرت موسیٰ پر ایمان لائے تھے ایک یہ شخص اور ایک فرعون کی بی بی اور ایک وہ شخص جس کا ذکر سورة قصص میں گزرا کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ایک قبطی کا خون ہوگیا اور قبطی لوگوں نے حضرت موسیٰ کے قتل کا مشورہ کیا تو اس نے حضرت موسیٰ کو اس مشورہ کی خبر اور مصر سے کہیں چلے جانے کی صلاح دی تھی۔ فرعون کی قوم کو قبطی قوم کہتے ہیں موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے ارادہ کو فرعون نے جب ظاہر کیا تو غرور سے یہ بھی کہا کہ جس اللہ کی مدد کا موسیٰ کو دعویٰ ہے وہ اپنے اللہ کو مدد کے لئے اور قتل سے بچا دینے کے لئے بلائے اور قوم کے لوگوں سے یہ بھی کہا کہ موسیٰ کا زندہ چھوڑ دینے میں مجھ کو یہ خوف ہے کہ وہ تمہارے قدیمی دین کو بدلنے اور نئے دنی کے پھیلانے میں ایک فساد برپا کر دے گا صحیح بخاری ١ ؎ اور مسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث ایک جگہ سے گزر چکی ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں دوزخی قرار پا چکے ہیں ان کو دوزخیوں کے سے کام اچھے اور آسان معلوم ہوتے ہیں۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ اگرچہ فرعون تمام ملک مصر کے جادوگروں کو موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں پیش کرکے عاجز ہوچکا تھا لیکن پھر بھی اس کو یہی بات اچھی معلوم ہوتی تھی کہ وہ ملعون موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر اور ان کے معجزہ کو جادو کہے اور شریعت موسوی کی باتوں کو خرابی اور فساد کی باتیں بتلائے۔ فرعون کے اس ارادہ کا حال سن کر موسیٰ (علیہ السلام) نے منکر حشر لوگوں کی ایذا سے اس لئے اللہ کی پناہ مانگی کہ جن لوگوں کے دل میں ایک دن اللہ کے رو برو کھڑے ہونے کا خوف ہے وہ اس طرح قتل ناحق کے درپے نہیں ہوتے اس قبطی دیندار شخص کی نصیحت کا حاصل یہ ہے کہ اے قوم کے لوگوں کیا تم ایسے شخص کے قتل ناحق کے درپے ہو کر جو اللہ کو معبود اور اپنے آپ کو اللہ کا رسول بتلاتا ہے اور اپنے رسول ہونے کی نشانیاں بھی اس نے تم لوگوں کو دکھا دیں۔ یہ ایک ہی نشانی کیا کم ہے کہ تم لوگ اس کو جادوگر کہتے ہو اور تمہارے بڑے بڑے جادوگر اس کے مقابلہ سے عاجز اور خلاف عادت باتوں کو تائید غیبی بتلاتے ہیں اس پر بھی میں کہتا ہوں کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچا نہیں ہے تو خدا پر جھوٹ باندھنا کچھ چھوٹی بات نہیں ہے ایک دن ضرور اس پر وبال پڑے گا مگر یہ تو کہو کہ اگر وہ سچا ہے تو سچے شخص نے جس عذاب سے تم کو ڈرایا ہے اس کا کیا انجام ہوگا کیونکہ ایسے حد سے بڑھ جانے والے لوگ بار گاہ الٰہی میں گمراہ ٹھہر چکے ہیں جو سچوں کو جھوٹا ٹھہرا کر ضد سے انہیں قتل کر ڈالیں یہ میں نے مانا کہ آج ملک مصر کی حکومت تمہارے ہاتھ میں ہے جس کو تم چاہو قتل کرسکتے ہو لیکن قتل ناحق کے سبب سے کوئی آسمانی آفت ہم پر آگئی تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے وقت پر ہماری مدد کو کون کھڑا ہوگا بنی اسرائیل کے لڑکوں کے قتل کا ذکر سورة القصص میں موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے ساتھ ہے اور یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے ساتھ اس سے یہ قول بہت صحیح معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کے قتل کا حکم فرعون نے دو دفعہ دیا تھا۔ ترمذی ٢ ؎ اور مستدرک حاکم میں ابوہریرہ (رض) کی معتبر حدیث ہے۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص راحت کے وقت اللہ کو یاد رکھے گا اور اس کی بارگاہ میں ہر طرح کی دعا اور التجا کرتا رہے گا تو سختی کے وقت کی اس کی التجا کو اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا۔ اس حدیث کو فرعون کے قصے کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ فرعون راحت کے وقت تو خدا کا منکر رہا اور ڈوبنے کی سختی کے وقت اپنے ایمان کے قبول ہوجانے کی التجا بارگاہ الٰہی میں پیش کی اس لئے اس حدیث کے موافق اس التجا کا قبول ہونا عادت الٰہی کے برخلاف ٹھہرا۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١٣٦ ج ٥۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٧٧ ج ٤۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب کان امر اللہ قدرا مقدورا۔ ص ٩٧٧ ج ٢۔ ) (٢ ؎ مشکوٰۃ شریف کتاب الدعواث فی طریق الدعاء ص ١٩٥۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:22) ذلک یہ پکڑیا گرفت۔ فاخذھم کی طرف اشارہ ہے۔ بانھم ۔۔ میں باء سببیہ ہے۔ کانت تاتیہم : کانت تاتی ماضی استمراری ہم ضمیر جمو مذکر غائب ان کے پاس آیا کرتے تھے (واحد مؤنث غائب کا صیغہ رسل کے لئے استعمال ہوا ہے۔ البینت۔ مراد معجزات اور وہ احکام جن کی صحت اور افادیت کھلی ہوئی تھی ! روشن دلیلیں۔ بینۃ واحد۔ فاخذھم میں ف تعقیب کا ہے اور سببیہ بھی ہوسکتی ہے اخذ میں ضمیر فاعل اللہ کے لئے ہے سو اللہ نے ان کو بسبب ان کے انکار (کفر) کے ان کو دھر پکڑا۔ شدید العقاب : پاداش میں سخت عذاب دینے والا۔ مضاف مضاف الیہ (نیز ملاحظہ ہو 40:3) متذکرہ بالا۔ عذاب اور عقاب اگرچہ ہم معنی ہیں لیکن عقاب اس سزا کو کہتے ہیں جو جرم ثابت ہونے کے بعد دی جاتی ہے۔ عذاب استحقاق اور بغیر استحقاق اور بغیر استحقاق دونوں طرح ہوسکتا ہے۔ عقب بمعنی پیچھے بولتے ہیں عقب الیل النھار۔ رات دن کے پیچھے ہولی ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1” بنیات “ کا لفظ عام ہے۔ اس سے مراد معجزے بھی ہوسکتے ہیں، روشن دلیلیں بھی اور واضح ہدایات وتعلیمات بھی

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی معجزات کہ دلائل نبوت ہیں۔ 5۔ پس جب علت مواخذہ کی کفر و شرک ہے جو ان میں بھی مشترک ہے، پھر یہ مواخذہ سے کیسے مامون ہیں، خواہ دارین میں خواہ دار آخرت میں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

30:۔ ” ولقد ارسلنا “ یہ تخویف دنیوی کا ایک مفصل نمونہ ہے۔ اس میں ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور اس کی قوم کے پاس معجزات اور آیات بینات لے کر آئے، کس طرح فرعون اور اس کی قوم نے ان کو جھٹلایا، اللہ کی توحید اور اس کے حکمنامے کو نہ مانا، تو پھر کس طرح ان کو رسوا کن عذاب سے ہلاک کیا گیا۔ اس کے ضمن میں مؤمن آل فرعون کا قصہ بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس تفصیل میں ایک طرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ اور دوسری طرف مشرکین مکہ کے لیے جائے عبرت۔ ” ایات “ سے معجزات مراد ہیں اور ” سلطان مبین “ حجت قاہرہ جو ان معجزات سے قائم ہوئی۔ (ابو السعود، روح) ۔ ہامان، فرعون کا وزیر۔ قارون، اگرچہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم سے تھا، لیکن کفر و طغیان میں فرعون اور اس کے وزراء میں شامل تھا یہ مقربین فرعون میں سب سے زیادہ سرمایہ دار تھا۔ ” فقالوا ساحر کذاب “ اس سے پہلے ادماج ہے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے دلیل رسالت کا مطالبہ کیا تو انہوں نے عصا اور ید بیضاء کے معجزے دکھائے، یہ معجزے دیکھ کر کہنے لگے یہ تو جادوگر ہے اور دعوائے نبوت میں جھوٹا ہے۔ العیاذ باللہ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(22) یہ گرفت اور مواخذہ اس سبب سے ہوا کہ ان کے پیغمبران کے پاس واضح دلائل اور کھلے نشان لے کر آگئے مگر وہ کفر اور انکار ہی کرتے رہے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو پکڑالیا بلا شبہ وہ بڑی قوت والا سخت عذاب کرنے والا ہے۔ یعنی ان کے پاس بھی رسول آئے تھے اور دلائل پیش کئے گئے تھے مگر وہ اپنے کفر پر قائم رہے آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان کو پکڑا کیونکہ بڑی قوی اور سخت عذاب کرنے والا ہے اسی مناسبت سے آگے فرعون اور موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔