Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 33

سورة مومن

یَوۡمَ تُوَلُّوۡنَ مُدۡبِرِیۡنَ ۚ مَا لَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ مِنۡ عَاصِمٍ ۚ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ہَادٍ ﴿۳۳﴾

The Day you will turn your backs fleeing; there is not for you from Allah any protector. And whoever Allah leaves astray - there is not for him any guide.

جس دن تم پیٹھ پھیر کر لوٹو گے تمہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَوْمَ تُوَلُّونَ مُدْبِرِينَ ... A Day when you will turn your backs and flee, means, running away. كَلَّ لاَ وَزَرَ إِلَى رَبِّكَ يَوْمَيِذٍ الْمُسْتَقَرُّ No! There is no refuge! Unto your Lord will be the place of rest that Day. (75:11-12) Allah says: ... مَا لَكُم مِّنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ ... having no protector from Allah. meaning, `you will have no one to protect you from the punishment and torment of Allah.' ... وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ And whomsoever Allah sends astray, for him there is no guide. means, whomever Allah sends astray will have no other guide except Him. Allah's saying:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 یعنی موقف (میدان محشر) سے جہنم کی طرف جاؤ گے، یا حساب کے بعد وہاں سے بھاگو گے ۔ 33۔ 2 جو اسے ہدایت کا راستہ بتاسکے یعنی چلا سکے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٧] اس سے مراد قیامت کا دن بھی ہوسکتا ہے اور کسی قوم پر عذاب کا دن بھی۔ لیکن اس وقت اگر کوئی پیٹھ پھیر کر بھاگنا بھی چاہے تو وہ اللہ کی گرفت سے کبھی بچ نہیں سکتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) یوم تولون مدبرین : اس میں ” یوم الثنا ”‘ کی کیفیت بیان کی گئی ہے کہ یہ وہ دن ہے جس میں تم اللہ کے عذاب سے پیٹھ پھیرتے ہوئے بھاگو گے۔ (٢) مالکم من اللہ من عاصم : مگر تمہیں اللہ سے، یعنی اس کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا، جیسا کہ فرمایا (یقول الانسان یومئذ این المفر کلا لاوزر الی ربک یومئذ المستقر) (القیامۃ : ١٠ تا ١٢)” انسان اس دن کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے ؟ ہرگز نہیں، پناہ کی جگہ کوئی نہیں۔ اس دن تیرے رب ہی کی طرف جا ٹھہرنا ہے۔ “ (٣) ومن یضلل اللہ فمالہ من ھاد : یعنی میں نے تمہیں نصیحت کردی، مگر تمہاری ضد اور عناد کی وجہ سے اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں گمراہی میں ہی پڑا رہنے کا ارادہ کرلیا ہے تو جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے پھر اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٦، ٢٧)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 33, it was said: يَوْمَ تُوَلُّونَ مُدْبِرِ‌ينَ (a day when you will turn backon your heels,). In the summary of tafsir from Bayan-ul-Qur&an of Maulana Ashraf Thanavi (رح) (forming a part of the original Urdu edition of Ma’ ariful-Qur&an), it has been said with reference to Imam al-Baghawi that this is a description of the state in which culprits will be taken from the locale of reckoning out to the Jahannam. The outcome is that all calls and announcements mentioned in the explanation of &yowm-ut-tanad& (&a day when people will call one another& ) would have been made and, after that, these people will be made to detour from the locale of reckoning on to their final destination towards the Jahannam. And according to some commentators, this reflects the state that will prevail in the world at the time of the first blowing of the Horn, that is, when the Horn will be blown the first time, the earth will crack open, and they will start running here and there but there will be angels on every outlet, and there will be no way of escape. In the view of these commentators, this يَوْمَ التَّنَادِ (yowm-ut-tanad) too means the time of the first blowing of the Horn, for here too there will be calls and cries coming from all corners. This view finds it support from another قِرأت (qira&ah: rendition) of this verse reported from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) and Dahhak who used to recite the words: يَوْمَ التَّنَادِ (yowm-ut-tanad) with a tashdid (double sound) on the last letter: دال (dal) which is a derivation from the infinitive: ندّ (nadd) meaning to run away. Hence, according to this Tafsir, يَوْمَ التَّنَادِ will mean &the day of running& and the expression: تُوَلُّونَ مُدْبِرِ‌ينَ (you will turn back on your heels 33) will become its explanation. There is a lengthy Hadith in Tafsir Mazhari. It has been reported from Sayyidna Abu Hurairah (رض) with reference to Ibn Jarir, Musnad Abu Ya&la, al-Baihaqi, Musnad ` Abd Ibn Humaid and others. It mentions three soundings of the Horn on the day of Qiyamah. The first blowing of the Horn will cause consternation, the second, unconsciousness and the third, resurrection. The sonic outburst causing consternation will make the entire creation panic, then, this very outburst will become long enough to make everyone unconscious following which everyone will die. Generally, the combination of these two sonic outbursts has been called the first blowing of the Horn for the obvious reason that a single blowing will bring forth two manifestations, first - panic, then - swoon or unconsciousness. In this Hadith too, it has been mentioned that, at the time of the blowing causing consternation, people would be running around in panic: وَھُوَ الَّذِی یَقُولُ اللہ يَوْمَ التَّنَادِ (And that is what Allah says the day of myriad calls is) which tells us that, in this verse, the statement: يَوْمَ التَّنَادِ (yowm-ut-tanad) means people running around in panic at the time of the first blowing of the Horn. And Allah is Pure and High who knows best.

(آیت) يَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِيْنَ ۔ یعنی جب تم پشت پھیر کر لوٹو گے۔ خلاصہ تفسیر میں بحوالہ امام بغوی اس کے معنی یہ بیان ہوئے ہیں کہ یہ اس حالت کا بیان ہے جب مجرمین موقف حساب سے جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ پہلے یہ ندائیں اور اعلانات جن کا ذکر یوم التناد کی تفسیر میں اوپر ہوا ہے، وہ سب ہو چکیں گے۔ اس کے بعد یہ لوگ موقف حساب سے مڑ کر جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے۔ اور بعض حضرات مفسرین کے نزدیک یہ حال دنیا میں نفخہ اولیٰ کے وقت کا بیان کیا گیا ہے، کہ جب پہلا صور پھونکا جائے گا اور زمین پھٹے گی تو یہ لوگ ادھر ادھر بھاگیں گے مگر ہر طرف فرشتوں کا پہرہ ہوگا، کہیں نکلنے کا راستہ نہ ہوگا۔ ان حضرات کے نزدیک یوم التناد سے مراد بھی نفخہ اولیٰ کا وقت ہے کہ اس میں ہر طرف سے چیخ و پکار ہوگی۔ آیت کی دوسری قرات سے اس کی تائید ہوتی ہے جو حضرت ابن عباس اور ضحاک سے منقول ہے کہ یوم التناد کو بدال مشدد پڑھتے تھے، جو ندا مصدر سے مشتق ہے جس کے معنے بھاگنے کے ہیں تو یوم التناد کے معنی بھی اس تفسیر کی رو سے بھاگنے کا دن ہوئے اور تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِيْنَ اسی کی تشریح ہوئی۔ تفسیر مظہری میں ایک طویل حدیث بحوالہ ابن جریر اور مسند ابویعلی اور بیہقی اور مسند عبد بن حمید وغیرہ حضرت ابوہریرہ سے نقل کی ہے جس میں قیامت کے روز صور کے تین نفخوں کا ذکر ہے۔ پہلا نفخہ فزع دوسرا نفخہ صعق تیسرا نفخہ نشر، نفخہ فترع سے ساری مخلوق میں گھبراہٹ اور اضطراب پیدا ہوگا۔ یہی نفخہ اور طویل ہو کر نفخہ صعق بن جائے گا، جس سے سب بےہوش ہوجائیں گے پھر مر جائیں گے۔ عام طور پر ان دونوں نفخوں کے مجموعہ کو نفخہ اولیٰ کہا گیا ہے جس کی وجہ ظاہر ہے کہ یہ ایک ہی نفخہ کے وقت دو کیفیتیں ہوں گی۔ پہلی فزع دوسری صعق۔ اس حدیث میں بھی نفخہ فزع کے وقت لوگوں کے ادھر ادھر بھاگنے کا ذکر کر کے یہ فرمایا ہے وھو الذی یقول اللہ یوم التناد۔ جس سے معلوم ہوا کہ آیت میں یوم التناد سے مراد پہلے نفخہ کے وقت لوگوں کا مضطربانہ ادھر ادھر دوڑنا ہے۔ (واللہ سبحانہ، وتعالیٰ اعلم)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِيْنَ۝ ٠ ۚ مَا لَكُمْ مِّنَ اللہِ مِنْ عَاصِمٍ۝ ٠ ۚ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ۝ ٣٣ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ دبر ( پيٹھ) دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل «3» ، وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ، أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ «1» ( وأَدْبَار النّجوم) «2» ، فإدبار مصدر مجعول ظرفا، ( د ب ر ) دبر ۔ بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔ عصم العَصْمُ : الإمساکُ ، والاعْتِصَامُ : الاستمساک . قال تعالی: لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 43] ، أي : لا شيء يَعْصِمُ منه، ( ع ص م ) العصم کے معنی روکنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 43] آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ۔ بعض نے لاعاصم کے معنی کا معصوم بھی کئے ہیں یعنی آج اللہ کے حکم سے کوئی بیچ نہیں سکے گا ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ { یَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَج مَا لَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ عَاصِمٍ } ” جس دن تم پیٹھ موڑ کر بھاگو گے ‘ لیکن اللہ کی پکڑ سے تمہیں بچا نے والا کوئی نہیں ہوگا۔ “ { وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ } ” اور جسے اللہ ہی گمراہ کر دے پھر اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:33) تولون مضارع جمع مذکر پیٹھ موڑنے والے۔ ادبار (افعال) مصدر سے بوجہ ضمیر فاعل کا حال ہونے کے منصوب ہے دبر مادہ۔ آیات 32 و 33 میں یوم بوجہ ظرفیت منصوب ہے۔ مالکم من اللّٰہ من عاصم تمہارے لئے نہیں ہوگا خدا کا عذاب سے بچانے والا کوئی بھی۔ یوم تولون ۔۔ من عاصم بدل ہے یوم التناد سے۔ من ھاد۔ اسم فاعل واحد مذکر ۔ ھدایۃ مصدر۔ باب ضرب۔ ہدایت یاب کرنیوالا۔ ھاد اصل میں ھادی تھا۔ ضمہ ی پر دشوار تھا۔ ی کو ساکن کیا۔ اب ی اور تنوین دو ساکن جمع ہوئے بوجہ اجتماع ساکنین ی گرگئی۔ ھاد ہوگیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(33) جس دن تم پیٹھ پھیر کر بھاگو گے اس دن تم کو کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے بچانے والا نہ ہوگا اور جس گم کردہ راہ کو اللہ تعالیٰ ہی لے راہ رکھے اس کو کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔ یوم التناد قیامت کا دن ہے اس دن ایک دوسرے کو پکارے گا یا فرشتے پکاریں گے یا اہل دوزخ اہل جنت کو پکاریں گے حساب وکتاب اور نامہ اعمال کو دیکھ کر بھاگنے کی کوشش کریں گے لیکن بھاگنے کی کوئی جگہ نہ ہوگی۔ یا یہ مطلب کہ حساب کی جگہ سے پیٹھ پھیر کر عذاب کی طرف چلو گے اس دن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بچانے والا نہیں جو تم کو میدان حشر کی پریشانیوں سے بچا سکے یا عذاب سے بچا سکے اور جو شخص باوجود دلائل کو دیکھنے اور سمجھنے کے پھر بھی گمراہی کو نہیں سمجھتا اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی نہیں فرماتا اور اس کی عدم استعداد اور سرکشی کے باعث گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے تو اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) نے یوم التناد سے مراد وہ دن مراد لیا ہے جس دن فرعونی دریا میں غرق ہوئے چناچہ فرماتے ہیں ہانک پکارا کا دن ان پر آیا جس دن غرق ہوئے قلزم میں ایک دوسرے کو پکارنے لگا ڈوبنے میں یہ اس کو کشف سے معلوم ہوا یا قیاس سے کہ ہر قوم پر اسی طرح عذاب آتا ہے۔ اب آگے پھر اسی مرد مومن کا کلام ہے۔