Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 38

سورة مومن

وَ قَالَ الَّذِیۡۤ اٰمَنَ یٰقَوۡمِ اتَّبِعُوۡنِ اَہۡدِکُمۡ سَبِیۡلَ الرَّشَادِ ﴿ۚ۳۸﴾

And he who believed said, "O my people, follow me, I will guide you to the way of right conduct.

اور اس مومن شخص نے کہا کہ اے میری قوم! ( کے لوگو ) تم ( سب ) میری پیروی کرو میں نیک راہ کی طرف تمہاری رہبری کرونگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

More of what the Believer from Fir`awn's Family said Allah tells that, وَقَالَ الَّذِي امَنَ ... And the man who believed said: This believer said to his people who persisted in their rebellion and transgression, and preferred the life of this world: ... يَا قَوْمِ اتَّبِعُونِ أَهْدِكُمْ سَبِيلَ الرَّشَادِ O my people! Follow me, I will guide you to the way of right conduct. This is in contrast to the false claim of Fir`awn: وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلاَّ سَبِيلَ الرَّشَادِ (and I guide you only to the path of right policy). (40:29) Then he sought to make them shun this world which they preferred to the Hereafter, and which had prevented them from believing in the Messenger of Allah, Musa, peace be upon him. He said:

قوم فرعون کے مرد مومن کی سہ بارہ نصیحت ۔ فرعون کی قوم کا مومن مرد جس کا ذکر پہلے گذر چکا ہے اپنی قوم کے سرکشوں خود پسندوں اور متکبروں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تم میری مانو میری راہ چلو میں تمہیں راہ راست پر ڈال دوں گا ۔ یہ اپنے اس قول میں فرعون کی طرح کاذب نہ تھا ۔ یہ تو اپنی قوم کو دھوکا دے رہا تھا اور یہ ان کی حقیقی خیر خواہی کر رہا تھا ، پھر انہیں دنیا سے بےرعبت کرنے اور آخرت کی طرف متوجہ کرنے کیلئے کہتا ہے کہ دنیا ایک ڈھل جانے والا سایہ اور فنا ہو جانے والا فائدہ ہے ۔ لازوال اور قرار و ہمیشگی والی جگہ تو اس کے بعد آنے والی آخرت ہے ۔ جہاں کی رحمت و زحمت لبدی اور غیر فانی ہے ، جہاں برائی کا بدلہ تو اس کے برابر ہی دیا جاتا ہے ہاں نیکی کا بدلہ بےحساب دیا جاتا ہے ۔ نیکی کرنے والا چاہے مرد ہو ۔ چاہے عورت ہو ۔ ہاں یہ شرط ہے کہ ہو باایمان ۔ اسے اس نیکی کا ثواب اس قدر دیا جائے گا جو بیحد وبے حساب ہو گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

38۔ 1 فرعون کی قوم سے ایمان لانے والا پھر بولا اور کہا کہ دعویٰ تو فرعون بھی کرتا ہے کہ میں تمہیں سیدھے راستے پر چلا رہا ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فرعون بھٹکا ہوا ہے، میں جس راستے کی نشاندہی کر رہا ہوں وہ سیدھا راستہ ہے اور وہ وہی راستہ ہے، جس کی طرف تمہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دعوت دے رہے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وقال الذین امن یقوم اثبعون … : مرد مومن نے فرعون کے استہزا سے صرف نظر کرتے ہوئے قوم کو نصیحت جاری رکھی اور کہا کہ اے میری قوم ! ” سبیل الرشا ”‘ (بھلائی کا راستہ ) وہ نہیں جو فرعون بتلاتا ہے، بلکہ تم میری بات مانو، میں تمہیں بھلائیک ا راستہ بتاتا ہوں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الَّذِيْٓ اٰمَنَ يٰقَوْمِ اتَّبِعُوْنِ اَہْدِكُمْ سَبِيْلَ الرَّشَادِ۝ ٣٨ۚ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور حزقیل نے کہا بھائی تم میری راہ پر چلو میں تمہیں حق و ہدایت کا رستہ بتاتا ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ { وَقَالَ الَّذِیْٓ اٰمَنَ یٰـقَوْمِ اتَّبِعُوْنِ اَہْدِکُمْ سَبِیْلَ الرَّشَادِ } ” اور کہا اس مومن نے کہ اے میری قوم کے لوگو ! تم میری پیروی کرو ‘ میں تمہاری راہنمائی کروں گا نیکی کے راستے پر۔ “ یہ گویا فرعون کی اس بات کا جواب ہے جو اس نے کہا تھا : { وَمَآ اَہْدِیْکُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ } ” اور میں تمہاری راہنمائی نہیں کر رہا مگر کامیابی کے راستے کی طرف “۔ جواب میں مرد مومن نے فرعون ہی کے الفاظ دہراتے ہوئے اہل ِدربار کو مخاطب کیا ہے کہ اگر کوئی ” سبیل الرشاد “ کی بات کرتا ہے تو آئو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ” سبیل الرشاد “ کیا ہے۔ تم میری بات مانو ‘ میرے پیچھے آئو ‘ میں تمہاری راہنمائی کرتا ہوں کہ بھلائی اور کامیابی کیا ہوتی ہے اور کون سا راستہ رشد و ہدایت اور فلاح و کامیابی کی طرف جاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٨۔ ٤٥۔ ایماندار قبطی کی نصیحت کا سلسلہ یہاں سے پھر شروع ہوا۔ سورة الاعراف ١ ؎ میں گزر چکا ہے کہ قوم فرعون پر طوفان کی ٹڈیوں کی مینڈکوں کی غرض طرح طرح کی آفتیں آئیں اور فرعون اس طرح کا جھوٹا خدا تھا کہ اس سے کوئی آفت نہیں ٹالی گئی آخر ہر آفت کے وقت موسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کی التجا کی گئی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے ہر ایک آفت کو ٹالا۔ اسی بات کو ایماندار قبطی نے قوم کے لوگوں کو سمجھایا ہے کہ سبیل الرشاد کہہ کر جس طریقہ کو فرعون بھلائی کا طریقہ بتلا رہا ہے اس طریقہ میں ہرگز کچھ بھلائی نہیں ہے کیونکہ اس طریقہ میں اگر کچھ بھلائی ہوتی تو ان آفتوں کے وقت کچھ بھلائی ضرور پہنچتی ہاں جس طریقہ کی پابندی کی موسیٰ (علیہ السلام) نصیحت کرتے ہیں بھلائی کا طریقہ وہ ہے کہ اس کے طفیل سے تمہاری سب آفتیں رفع دفع ہوگئیں اور یہ طفیل ہوں ہوا کہ تم لوگوں نے ہر آفت کے ٹل جانے پر موسیٰ (علیہ السلام) کے طریقہ کے پابند ہوجانے کا عہد کیا تھا جس عہد پر آخر تم قائم نہیں رہے۔ سورة الزخرف میں آئے گا کہ اپنی قوم کو موسیٰ (علیہ السلام) کی پیروی سے روکنے کے لئے فرعون نے اپنے آپ کو مصر کا بادشاہ اور موسیٰ (علیہ السلام) کو تنگ دست اور بےعزت کہا۔ اس بات کو ایماندار قبطی نے قوم کے لوگوں کو یوں سمجھایا کہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے فرعون جیسے بہت سے بادشاہ ہوئے اور مٹ گئے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے طریقہ پر چلنے سے عقبیٰ کی جن راحتوں کا وعدہ ہے ان کو ہمیشگی ہے پھر اس ایماندار قبطی نے قوم کے لوگوں کو یہ سمجھایا کہ دہریہ لوگوں کے اعتقاد کے موافق حشر کا انکار کرنا بالکل عقل کے مخالف ہے کیونکہ اس بات کو ہر عقل مند جانتا ہے کہ دنیا میں جو کام کیا جاتا ہے اس کا کوئی نتیجہ ضرور سوچا جاتا ہے مثلاً کھیتی کی جاتی ہے اناج ہاتھ آجانے کے لئے باغ لگایا جاتا ہے میوہ کھانے کے لئے مکان بنایا جاتا ہے رہنے کے لئے اب دہریہ لوگوں کے اعتقاد کے موافق نیکی کی جزا اور بدی کی سزا کے لئے دوسرا جہان پیدا نہ ہو تو دنیا کے پیدا کرنے کا اتنا بڑا کام بےنتیجہ رہ جاتا ہے جو عقلی تجربہ کے برخلاف ہے اس لئے سزا جزا ضرور ہوگی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے سزا و جزا کا یہ قاعدہ رکھا ہے کہ سزا جرم کی حیثیت کے موافق ہوگی اور جزا کا کچھ حساب نہیں ایک نیکی کا بدلہ دس گنے سے لے کر سات سو تک اور کچھ نیکیوں کا بدلہ اس سے بھی زیادہ ہوگا اس لئے جنت کی نعمتیں بھی حد و حساب سے باہر ہوں گی۔ اب اے قوم کے لوگو تم ہی ذرا غور کرو کہ جس طریقہ کی میں نصیحت کر رہا ہوں وہ طریقہ نجات کا ہے یا جس طریقہ کے تم درپے ہو وہ طریقہ نجات کا ہے کہ اپنی پیدائش کو آنکھوں سے دیکھ کر پیدا کرنے والے کی ہستی کا انکار کیا جائے فرعون کو خدا ماناجائے جس کے خدا ٹھہرانے کی میرے پاس کچھ سند نہیں اور اللہ کے معبود ہونے کی سند تو تم کو معلوم ہے کہ وہ اپنی بادشاہت میں ایسا زبردست ہے کہ اس کی آفتوں کو سوا اس کے کوئی ٹال نہیں سکتا قصور معاف کرنے والا وہ ایسا ہے کہ ہر ایک آفت کے ٹل جانے پر تم نے اس کو معبود ٹھہرانے کا قرار کیا اور اس نے فقط اس اقرار پر تمہارے پچھلے قصوروں سے درگزر فرما کر ہر ایک آفت کو ٹال دیا غرض اب تک کے بیان سے جو حق بات ثابت ہوئی وہ یہی ہے کہ جس طریقہ کو فرعون نے بھلائی کا طریقہ بتلایا ہے اس طریقہ کی بھلائی کا دنیا اور آخرت میں کہیں پتا نہیں لگتا دنیا کی بھلائی کی نا امیدی کے حال تو تم کو دنیا کی آفتوں کے وقت معلوم ہوگیا اب تم اس پر خود غور کرلو کہ جو جھوٹا خدا دنیا کی آفتوں کے ٹالنے میں عاجز ٹھہرا اس سے کیا امید ہوسکتی ہے کہ جب ہم سب اللہ کے رو برو سزا و جز کے لئے حاضر ہوں گے اور نافرمان لوگوں کی سزا دوزخ کی آگ قرار پائے گی تو کیا اس عاجز خدا میں اس عذاب کے ٹال دینے کی طاقت پیدا ہوجائے گی اب تو اے قوم کے لوگو تم میری باتوں کو اوپرے دل سے سنتے ہو مگر آگے جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے یاد کرو گے اس ایماندار شخص کی پیشن گوئی کے موافق ڈویتے وقت جب خو فرعون نے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا تو اس کے ساتھیوں کو اس کی جھوٹی خدائی کا حال اچھی طرح کھل گیا۔ آخر کو اس ایماندار شخص نے اپنا انجام اللہ کو سونپا اور کہہ دیا کہ سب بندوں کا انجام اللہ ہی کو معلوم ہے تفسیر مقاتل ١ ؎ میں ہے کہ اس ایماندار شخص کی نصیحت سے غصہ ہو کر قوم کے لوگوں نے اس کو مار ڈالنا چاہا وہ بھاگ کر پہاڑوں میں جا جھپا فرعون نے اس کی گرفتاری کے لئے آدمی بھیجے لیکن وہ ان آدمیوں کو نظر نہیں آیا اسی کو آگے فرمایا کہ اس ایماندار شخص نے اپنے انجام کا بھروسہ اللہ پر رکھا تھا اور اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اس کی مدد کرتا ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے اس ایماندار شخص کو قوم کے لوگوں کی برائی بچایا اور ایسی ایسی زیادتیوں کی سزا میں فرعون اور اس قوم کو ڈبو کر ہلاک کردیا۔ صحیح سند ١ ؎ سے ابن ماجہ میں ابوامامہ کی حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ظالم بادشاہ کے رو بروحق بات کا منہ سے نکالنا بڑے اجر کا کام ہے اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ فرعون جیسے ظالم بادشاہ کے رو برو اس ایماندار شخص نے نصیحت کی باتیں جو منہ سے نکالی تو عقبیٰ میں اس کا بہت بڑا اجر اس شخص کو ملے گا۔ (١ ؎ تفسیر ہذا جلد ٢ ص ٢٨٦۔ ) (١ ؎ بحوالہ تفسیر جامع البیان حاشیہ بر آیت فوقاہ اللہ سیات مامکروا الا یۃ ص ٢٣٩ ج ٢۔ ) (١ ؎ مشکوٰۃ شریف کتاب الامارۃ فی طاعۃ الامیر ص ٣٢٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:38) اتبعون : ای اتبعونی : تم میری اتباع کرو۔ اتبعوا امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ن وقایہ ی ضمیر واحد متکلم (محذوف) اھدکم۔ جواب امر۔ میں تم کو (راہ راست) دکھاؤں گا۔ سبیل الرشاد۔ مضاف مضاف الیہ۔ رشاد۔ رشد یرشد (باب نصر) سے مصدر ہے۔ بمعنی نیکی، راستی، بھلائی۔ راہ راستگی۔ سبیل راستہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 5 ۔ آیات 38 ۔ تا۔ 50: اسرار معارف : اس بندہ مومن نے بہت کوشش کی اور بتایا کہ لوگوں میری بات مان لو میں تمہیں نیکی اور ہدایت کی طرف دعوت دے رہا ہوں کہ یہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے یہاں کی دولت و عیش فانی اس پر فدا ہو کر آخرت کو مت بھولو کہ آخرت ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے اور جو کوئی بھی گناہ کرے گا اس کو اسی کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا لیکن جس کسی نے ایمان قبول کرلیا مرد ہو یا خاتون اور پھر ایمان کے مطابق اپنا کردار بھی ڈھال لیا اور اعمال درست کرلیے تو ایسے لوگ جنت میں پہنچیں گے جہاں انہیں بیحد و حساب آرام اور عیش نصیب ہوگا ارے بوقوفو تم مجھے اپنے عقیدے کی طرف بلاتے ہو حیرت ہے میں تمہیں اللہ کی رض اور جنت کی طرف بلا رہا ہوں اور تم خود کیا آتے مجھے بھی اپنے ساتھ دوزخ لے جانا چاہتے ہو کہ میں اللہ سے کفر اختیار کرلوں اور اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک مان لوں جو اتنی بودی بات ہے کہ میں نہیاں جانتا کہ اس کے بارے کوئی بھی دلیل مل سکتی ہو اور مجھے دیکھو کہ میں تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں جس کی قدرت واضح ہے اور جو بخشنے والا ہے کہ ہزار کفر کے باوجود اگر توبہ کرلو تو تمہیں معاف فرما دے گا اور یہ تو ظاہر ہے کہ تمہاری بات بلا دلیل ہے کہ کفر پر تو دنیا و آخرت میں کوئی دلیل نہیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ہم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور یہ بھی دلائل سے ثابت ہے کہ حد سے گزرنے والے یعنی کفار کا ٹھکانہ دوزخ میں ہوگا۔ تب میری باتیں تمہیں یاد آئیں گی اس پر وہ لوگ ان پر بگڑے تو انہوں نے کہا میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں جو اپنے بندوں کو ہر حال میں دیکھتا ہے چناچہ اللہ نے اسے ان کے مکر محفوظ رکھا اور وہ اس کا تو کچھ نہ بگاڑ سکے ہاں کود فرعون کی قوم بدترین عذاب کا شکار ہوگئی دنیا میں تو تباہ ہو ہی گئے برزخ میں بھی چین نہ پاسکے اور صبح و شام انہیں دوزخ کی آگ دکھائی جاتی ہے یہ آیت مبارک بھی عذاب قبر پر دلیل ہے مرنے والے فنا نہیں ہوجاتے بلکہ حدیث شریف کے مطابق قبر یا دوزخ کا گڑھا ہوتی ہے اور یا جنت کا باغ اور یہ قیامت قائم ہونے تک اس حال میں رہیں گے جب قیامت قائم ہوگی تو انہیں اس سے شدید عذاب یعنی دوزخ میں ڈال دیا جائے گا اور دوزخ کے اندر جھگڑ رہے ہوں گے کہ کمزور لوگ اقتدار والوں سے کہیں گے ہم تو تمہارے پیروکار تھے کیا اس غلامی کے صلے میں ہماری کچھ مدد کرسکوگے سب نہ سہی تو آگ کسی قدر کم ہی کردو۔ وہ متکبرین جواب دیں گے کہ ہم بھی تو تمہارے ساتھ عذاب بھگت رہے ہیں بھلا ہم کیا کرسکتے ہیں اور اب تو اللہ نے بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا ہے پھر جہنم کے فرشتوں سے درخواست کریں گے کہ ہم تو اس قابل نہیں کہ ہماری بات سنی جائے آپ ہمارے حق میں دعا کیجیے کہ کاش ہم سے جہنم کا ایک دن کا عذاب ہی اٹھا لیا جائے تو وہ سوال کریں گے کیا تمہارے پاس اللہ کے رسول دلائل لے کر مبعوث نہ ہوئے تھے تو کہیں گے یقیناً ہوئے تھے تو پھر تم خود اپنے لیے دعا کرو کہ ہم تو کافر کے لیے دعا نہیں کرسکتے مگر وہ خود بھی کیا کریں گے کہ آخرت میں تو کافر کی دعا کوئی اثر نہ رکھتی ہوگی کہ دعا کا موقع تو دنیا میں تھا جو کھوچکے اب تو محض ٹامک ٹوئیاں مارنے والی بات ہوگی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 38 تا 46 :۔ دارالقرار ( ہمیشہ رہنے والا ، سکون والا گھر) مالی ( تعجب کے لئے) مجھے کیا ہوا ؟ ) لا جرم ( شک نہیں) ( یقینا ) افوض ( میں سپرد کرتا ہوں) مکروا ( انہوں نے تدبیر کی) حاق ( چھا گیا) یعرضون (پیش کیا جاتا ہے) غدوا ( صبح) عشی ( شام ( رات) اشد ( سخت ، شدید) تشریح : آیت نمبر 38 تا 46 :۔ آل فرعون میں سے جو مرد مومن ایمان لا چکا تھا اس نے فرعون کے دربار میں فرعون اور درباریوں کے دبائو ، دھمکی اور لالچ دیئے جانے کے باوجود اپنی تقریر کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! تم میری باتوں کو غور سے سنو اور میں تمہیں جس راستے پر چلنے کی دعوت دے رہا ہوں اس پر چلو کیونکہ میں تمہیں سیدھا راستہ بتا رہا ہوں جس میں دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیوں کا راز پوشیدہ ہے۔ مرد مومن نے کہا کہ دنیا تو فانی ہے جو ایک وقت آنے پر ختم ہوجائے گی ۔ یہاں کا عیش و آرام یہ سب عارضی ، وقتی اور چندہ روزہ ہے۔ یہاں کے عیش و آرام کی وجہ سے اپنے آخرت کے حقیقی فائدے کا نقصان نہ کرو تم اس دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی ابدی راحتوں کی فکر کرو کیونکہ آخرت کی زندگی کو قرار ہے۔ اللہ کا دستور ہے کہ جو آدمی جیسا کرے گا اس کو ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا ۔ اگر کوئی شخص صاحب ایمان اور عمل صالح کا پیکر ہو خواہ وہ مرد ہو یا عورت تو اللہ ایسے لوگوں کو ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن میں بےحساب رزق عطاء کیا جائے گا ۔ اس تقریر کے بعد فرعون اور اس کے درباریوں نے اس مرد مومن کو نصیحت کی ہوگی کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی باتوں میں نہ آئے اور اپنے قدیم مذہب کی طرف لوٹ جائے ۔ اس پر اس مرد مومن نے کہا کتنے افسوس کا مقام ہے کہ میں تو تمہیں ہدایت اور نجات کا راستہ دکھا رہا ہوں اور تم مجھے اللہ کی نافرمانی پر اکسا رہے ہو اور تم چاہتے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کروں جو اپنی ذات میں واحد و یکتا ہے ۔ یہ شرک ایسی بد ترین چیز ہے جس کا فائدہ نہ تو دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں ۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے وہ لوگ جو حد سے گزر جائیں گے اور کفر و شرک سے توبہ نہ کریں گے وہ جہنمی ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اس مرد مومن نے کہا کہ ابھی تم لوگوں کو میری ان باتوں کی پرواہ نہیں ہے لیکن وہ وقت دور نہیں ہے جب تم میری ان باتوں کو یاد رکھو گے۔ اس مرد مومن نے کہا کہ میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں کیونکہ وہی اپنے بندوں کا نگہان اور محافظ ہے۔ فرعون اور اس کے درباریوں نے ایسی سچی باتوں پر اس مرد مومن کو ہر طرح سے دھمکایاہو گا مگر اس مرد مومن پر اس کی دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ اور اللہ نے اس مرد مومن کو آل فرعون کی سازشوں اور فریب سے محفوظ فرما دیا اور اللہ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں پر زبردست عذاب نازل فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہ صرف فرعون اور آل فرعون کو پانی میں غرق کردیا گیا اور اس طرح ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوگیا ۔ بلکہ اس سے بڑا عذاب یہ ہے کہ ان فرعونیوں پر قیامت کے دن تک ہر روز صبح و شام اسی عذاب کو پیش کیا جاتا رہے گا اور قیامت میں فرعون اور آل فرعون سے کہا جائے گا کہ وہ سخت ترین عذاب میں داخل ہوجائیں۔ ان آیات کے سلسلہ میں حضرت عبد اللہ ابن مسعود (رض) نے فرمایا ہے کہ آل فرعون کی روحیں سیاہ پرندوں کی شکل میں ہوں گی ۔ ہر روز صبح و شام دو مرتبہ جہنم ان کے سامنے لائی جاتی ہے اور جہنم دکھا کر کہا جاتا ہے کہ یہ ہے تمہارا ٹھکانہ ( ابن ابی حاتم) ۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ ابن عمر (رض) سے بھی ایک روایت نقل کی گئی ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرمی ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص مر جاتا ہے تو عالم برزخ میں صبح و شام اس کو وہ مقام دکھایا جاتا ہے جہاں قیامت کے دن حساب کتاب کے لئے پہنچتا ہے یہ مقام دکھا کر روزانہ کہا جاتا ہے کہ تجھے آخر کار اس جگہ پہنچنا ہے اگر یہ شخص اہل جنت میں سے ہے تو اس کو مقام جنت دکھایا جاتا ہے اور اگر وہ اہل جہنم میں سے ہے تو اس کو مقام جہنم دکھایا جاتا ہے۔ (معارف)

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی سبیل الرشاد میرا بتلایا ہوا راستہ ہے نہ فرعون کا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فرعون کے جواب میں مرد حق کا جواب۔ قرآن مجید کسی بات کو داستان گوئی کے انداز میں بیان نہیں کرتا۔ قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ قاری کی توجہ صرف ان نکات پر مرکوز رکھی جائے جو اس کی راہنمائی کے لیے مفید ہوں۔ اس لیے یہ نہیں بتلایا گیا کہ فرعون اور مرد مومن کی گفتگو کسی ایک اجتماع میں ہوئی یا مختلف مجالس میں ہونے والی گفتگو کا خلاصہ ہے۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ مرد مومن کے خطاب کے وقت فرعون کے ہاں اس کی قوم کے نمائندے ضرور موجود تھے۔ جس بنا پر مرد مومن فرعون کی بجائے باربار قوم کو مخاطب کرتے ہیں۔ اور فرعون کی بیہودہ باتوں کے جواب کا جواب دینے کی بجائے قوم کے نمائندوں کو مخاطب کرتے اور بار، بار فرماتے ہیں کہ اے میری قوم ! میری بات مانو ! میں تمہیں سیدھے راستے کی راہنمائی کررہا ہوں۔ باربار سمجھانے کے باوجود قوم دنیاوی مفادات کی خاطر مرد مومن کی طرف توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس پر انہیں احساس دلانے کی کوشش کی کہ جس دنیا کے عہدوں، محلات اور مفادات کی خاطر دعوت حق سے منہ موڑے ہوئے ہو یہ سب عارضی ہیں۔ آخرت کی زندگی اور اس کا گھر ہمیشہ کے لیے ہے۔ یاد رکھو ! جس نے برے کام کیے وہ اس کے مطابق اس کی سزا پائے گا اور جس نے صالح اعمال کیے وہ اس کی جزا پائے گا بیشک وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ ایمان دار ہو۔ وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ اس میں اسے بےحدوحساب رزق دیا جائے گا۔ مومن نے ایمان کی شرط سے ثابت کیا کہ صالح اعمال کی قبولیت اور جنت میں داخلے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ایمان میں خالص اور اپنے رب کی توحید پر پکا ہو۔ مسائل ١۔ فرعون کے لیے اس کے برے اعمال مزین کردیئے گئے۔ ٢۔ فرعون کی تدبیر ناکام ہوگئی۔ ٣۔ مرد مومن نے کہا اے میری قوم ! میری پیروی کرو ! میں تمہاری سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرتا ہوں۔ ٤۔ دنیا کی زندگی تھوڑا سا فائدہ ہے اس کے مقابلے میں آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیش رہے گی۔ ٥۔ نیکوکاروں اور بدکاروں کو ان کے کیے کی جزا وسزا دی جائے گی۔ ٦۔ جنتیوں کو بغیرحساب کے رزق دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن نیکی کی جزا اور برائی کی سزا : ١۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : ٧ تا ٨) ٢۔ برائیوں میں مرنے والے کے لیے جہنم ہے۔ (البقرۃ : ٧١) ٣۔ برائی کا بدلہ اس کی مثل ہی ہوگا۔ (القصص : ٨٤) ٤۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس نیکیوں کا بدلہ ملے گا جو برائی کرے گا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہوگی۔ (الانعا م : ١٦٠) ٥۔ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کا بدلہ جہنم ہے۔ (النازعات : ٣٧) ٦۔ نافرمانوں کو ہمیشہ کے عذاب کی سزادی جائے گی۔ (یونس : ٥٢) ٧۔ تکبر کرنے والوں کو ذلت آمیز سزا دی جائے گی۔ (احقاف : ٢٠) ٨۔ شیطان اور اس کے پیروکاروں کو جہنم کی سزا دی جائے گی۔ (بنی اسرائیل : ٦٣) ٩۔ صبر کرنے والوں کے لیے جنت کی جزا ہے۔ (الدھر : ١٢) ١٠۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف : ٨٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 38 تا 44 یہ وہ حقائق ہیں جن کے بارے میں اس سورت کے آغاز میں دوٹوک الفاظ میں بتادیا گیا تھا۔ یہاں رجل مومن اپنی تقریر میں فرعون کے سامنے ان کو دہرتا ہے۔ یہ فرعون کے سامنے کہتا ہے۔ یٰقوم اتبعون اھدکم سبیل الرشاد (40: 38) ” اے قوم ، میری بات مانو ، میں تمہیں صحیح راستہ بتاتا ہوں “۔ اس سے چند لمحہ پہلے فرعون نے یہ کہا تھا : وما اھدیکم الا سبیل الرشاد (40: 29) ” اور میں تو تمہیں سیدھے راستے کے سوا کوئی راستہ نہیں بتاتا “۔ رجل مومن کی طرف سے گویا فرعون کو اس بادشاہت اور جباری وقہاری کے باوجود صریح چیلنج ہے۔ یہ چیلنج اس وقت دیا جارہا ہے جبکہ اس کے پاس اس کے امراہامان اور قارون بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں فرعون کے وزیر تھے جیسا کہ روایات میں آتا ہے۔ رجل مومن ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی حقیقت یوں کھولتا ہے۔ انما ھٰذہ الحیوۃ الدنیا متاع (40: 39) ” یہ دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے “۔ ایک ایسا سازوسامان ہے جو زائل ہونے والا ہے اس کے لیے ثبات و دوام نہیں ہے۔ وان الاخرۃ ھی دار القرار (40: 39) ” اور دار آخرت ہی ہمشہ قیام کی جگہ ہے “۔ آخرت اصل ہے اور اسے زیادہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔ پھر وہ یہ بات دوٹوک الفاظ میں کہتا ہے کہ من عمل۔۔۔ حساب (40: 40) ” جو برائی کریگا اس کو اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی اس نے برائی کی ہوگی اور جو نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، بشرطیکہ ہو وہ مومن ، ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے ، جہاں ان کو بےحساب رزق دیا جائگا “۔ اللہ کے فضل وکرم کا تقاضا ہوا کہ نیکیوں کو بڑھایا جائے اور بغیر حساب معاوضہ ہو اور برائیوں کو نہ بڑھایا جائے ۔ یہ اللہ کی مہربانی ہے اپنے بندوں کی کمزوریوں کا اللہ نے خیال رکھا ہے اور خیر اور بھلائی کے کاموں کو پرکشش بنانے کے لیے اللہ نے ان کے اجر کو زیادہ رکھاتا کہ لوگ اس راہ پر ثابت قدمی سے کا مزن ہوں۔ اللہ نے نیکی کو سیئات اور برائیوں کا کفارہ بنادیا اور جب وہ اس نرم حساب و کتاب کے بعد جنت میں پہنچیں گے تو وہاں بغیر حساب و کتاب ان کو دیا جائے گا۔ یہ رجل مومن اپنی تقریر میں ان پت تنقید بھی کرتا ہے وہ تو ان کو راہ نجات کی طرف بلاتا ہے۔ جنتوں کی طرف بلاتا ہے ، اور وہ اسے آگ کی طرف بلا رہے ہیں۔ وہ سرزنش کے انداز میں کہتا ہے : ویٰقوم۔۔۔۔ الی النار (40: 41) ” اے قوم ، آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ میں تم کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی طرف دعوت دیتے ہو “۔ انہوں نے تو بظاہر اس کو آگ کی طرف نہیں بلایاشرک کی طرف بلایا۔ ظاہر ہے کہ شرک کی طرف بلانے اور آگ کی طرف بلانے میں کیا فرق ہے۔ یہ ایک ہی بات ہے اور اگلی آیت میں بات صاف کردیتا ہے۔ تدعوننی لاکفر۔۔۔۔ الغفار (40: 42) ” تم مجھے اس بات کی طرف دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ ان ہستیوں کو شریک ٹھہراؤں جنہیں میں نہیں جانتا حالانکہ میں تمہیں زبردست مغفرت کرنے والے خدا کی طرف بلاتا ہوں “۔ اور ان دونوں دعوتوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ میری دعوت تو بہت واضح اور صاف ہے۔ عزیز و غفار کی طرف سے یہ دعوت ۔ ایک ایسے اللہ وحدہ کی طرف دعوت ہے جس کی وحدانیت پر اس کائنات کے تمام آثارشاہد ہیں اور اس کی قدرت اور حکمت پر اس کائنات کی ہر چیز شاہد عادل ہے۔ وہ ان کو اس کی طرف بلاتا ہے جو مغفرت کرنے والا ہے تاکہ بخش دے۔ جو بہت بڑا بخشنے والا ہے۔ اور یہ لوگ اس رجل مومن کس طرف بلاتے ہیں ؟ کفر کرنے کے لیے ، شرک کرنے کے لیے ، جس کا اسے کوئی علم نہیں ہے۔ محض دعویٰ ہے ، اوہام ہیں اور افسانے ہیں جن پر ان کا عقیدہ ہے۔ وہ ان کو دوٹوک الفاظ میں کہتا ہے کہ جن ہستیوں کو تم نے خدا کا شریک بنارکھا ہے۔ ان کی تو نہ دنیا میں کوئی پوزیشن ہے اور نہ آخرت میں کوئی پوزیشن ہے۔ آخر کار تمام انسانوں کو تو صرف اللہ کے ہاں لوٹنا ہے۔ اور یہ تم لوگ جو اسراف کرتے ہو اور حدود کو یاد کرتے ہو تمہارے لیے تو جہنم کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لاجرم۔۔۔۔۔ اصحٰب النار (40: 43) ” حق یہ ہے اور اس کے خلاف نہیں ہوسکتا کہ جن کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو ، ان کے لیے نہ دنیا میں کوئی دعوت ہے ، نہ آخرت میں اور ہم سب کو پلٹنا اللہ ہی کی طرف ہے اور حد سے گزرنے والے آگ میں جانے والے ہیں “۔ عقائد کے حوالے سے یہ بنیادی باتیں دوٹوک انداز میں بیان کردینے کے بعد کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ یہ سب باتیں اس رجل مومن نے فرعون ، اس کے درباریوں اور وزراء کے سامنے کردیں ، بغیر کسی جھجک اور شف شف کے۔ پہلے تو وہ اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا لیکن تقریر کے آخر میں اسنے اس کا اظہار کردیا۔ اب صرف یہ بات رہتی ہے کہ حق تبلیغ ادا کرنے کے بعد وہ تمام امور کو اللہ پر چھوڑدے۔ اسنے بات کہہ دی ، اس کا ضمیر مطمئن ہوگیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ اے کاش ! عنقریب تم میری باتوں کو یاد کروگے لیکن اس وقت اس نصیحت کا تمہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ حقیقت میں معاملات کی باگ ڈور اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ فستذکرون۔۔۔۔ بالعباد (40: 44) ” آج جو کچھ میں کہہ رہا ہوں عنقریب وہ وقت آئے گا جب تم اسے یاد کروگے اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ وہ اپنے بندوں کا نگہنان ہے “۔ اب اس پر یہ تقریر اور مکاملہ ختم ہوتا ہے۔ رجل مومن نے کلمہ حق اس کائنات کے ضمیر میں ریکارڈکرادیا اور قرآن نے اسے لازوال دوام بخشا۔ یہاں سیاق کلام حضرت موسیٰ اور فرعون کی طویل کشمکش کی بعض کڑیوں کو مجمل کردیتا ہے۔ اب یہاں بنی اسرائیل کے فرار اور نجات اور فرعون کی غرقابی کی طرف اشارہ کردیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس پر تبصرے کیے جاتے ہیں۔ برزخی زندگی میں اس کا حال یہ ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مرد مومن کا فناء دنیا اور بقاء آخرت کی طرف متوجہ کرنا، اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا مرد مومن کا سلسلہ کلام جاری ہے درمیان میں فرعون کی اس بات کا تذکرہ فرمایا کہ اس نے اپنے وزیر ہامان کو ایک اونچی عمارت بنانے کا حکم دیا اور یوں کہا کہ میں اس عمارت پر چڑھ کر موسیٰ کے معبود کا پتہ چلاؤں گا، مرد مومن نے فرعون کی بات سنی اور قوم فرعون کو مزید نصیحت کی اول تو اس نے یہ کہا کہ تم لوگ میرا اتباع کرو میں تمہیں ہدایت کا راستہ بتاؤں گا جیسے میں موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لایا ایسے ہی تم بھی ایمان لاؤ اور یہ دنیا جس پر تم دل دئیے پڑے ہو اور اسی کو سب کچھ سمجھ رہے اور یہ سمجھتے ہو کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے ہماری دنیا جاتی رہے گی اس کے بارے میں تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا والی زندگی تھوڑی سی ہے چند روزہ ہے اس میں جو کچھ سامان ہے وہ بھی تھوڑا سا ہے اور تھوڑے دن کام آنے والا ہے اس ذرا سی دنیا کے لیے تم اپنی آخرت برباد نہ کرو، جو شخص کفر پر مرے گا اس کے لیے وہاں دائمی عذاب ہے وہاں کے عذاب کے لیے اپنی جان کو تیار کرنا ناسمجھی کی بات ہے۔ سب کو مرنا ہے میدان آخرت میں جانا ہے جو لوگ ایمان کے ساتھ پہنچیں گے وہ وہاں جنت میں جائیں گے اور جنت ایسی جگہ ہے جو دارالقرار ہے حقیقت میں وہی رہنے کی جگہ ہے۔ مرد مومن نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نیکیوں اور برائیوں کا بدلہ دے گا برائی کا بدلہ تو اتنا ہی ملے گا جس قدر برائی کی تھی اور نیک عمل کا بدلہ بہت زیادہ ملے گا کسی بھی مرد یا عورت نے بحالت ایمان کوئی بھی نیک عمل کرلیا تو اس کے لیے اللہ نے یہ صلہ رکھا ہے کہ ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے وہاں انہیں بےحساب رزق دیا جائے گا تم لوگ اسی جنت کے لیے فکر مند بنو اور ایمان قبول کرو۔ مرد مومن نے یوں بھی کہا کہ میں تمہیں ایسے کام کی طرف بلاتا ہوں جس میں آخرت کی نجات ہے اور تم مجھے اس چیز کی طرف بلاتے ہو جو دوزخ کے داخلے کا سبب ہے میں ایمان کی دعوت دیتا ہوں اور تم مجھے یہ دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک بناؤں جبکہ شرک کے جائز ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس میں (مَا لَیْسَ لِی بِہٖ عِلْمٌ) کہا اور انہیں یہ بتادیا کہ تمہارے پاس بھی شرک کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بات رکھی اپنے اوپر اور سمجھا دیا ان کی قوم کو خطاب کرتے ہوئے مزید کہا (وَاَنَا اَدْعُوْکُمْ اِِلَی الْعَزِیْزِ الْغَفَّارِ ) یعنی میں تمہیں اپنے معبود کی طرف بلاتا ہوں وہ عزیز ہے زبردست ہے بہت مغفرت کرنے والا ہے اگر کسی کو عذاب دینا چاہے تو اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے اور وہ غفار بھی ہے کوئی شخص کیسے ہی گناہ کرلے وہ معاف کرنا چاہے تو اسے کوئی بھی روکنے والا نہیں لہٰذا تم کفر سے توبہ کرلو اور بخشش کے دائرہ میں آجاؤ یہ نہ سوچو کہ ہم نے جواب تک کفر و شرک کیا ہے اور اعمال بد کا ارتکاب کیا ہے اس کی معافی کیسے ہوگی۔ مرد مومن نے یہ بھی کہا کہ تم لوگ جو مجھے کفر و شرک کی طرف بلاتے ہو یہ باطل چیز ہے اور اس میں بربادی ہے یہ جو تم شرک اور کفر کی دعوت دے رہے ہو یہ محض ایک جاہلانہ بات ہے تم نے جو بت تراش رکھے ہیں یہ تو ذرا بھی نہیں سنتے ہیں نہ ہاں کرتے ہیں نہ کسی نفع اور ضرر کے مالک ہیں یہ تو دنیا میں تمہاری دعوت کی حقیقت ہے اور آخرت میں اس کا کوئی نفع پہنچنے والا نہیں ہے۔ (قال صاحب الروح فالمعنی ان ما تدعوننی الیہ من الاصنام لیس لہ استجابۃ دعوۃ لمن یدعوہ اصلا اولیس لہ دعوۃ مستجابۃ ای لا یدعی دعا یستجیبہ لداعیہ فالکلام اما علی حذف المضاف او علی حذف الموصوف) ” تفسیر روح المعانی کے مصنف (رح) لکھتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جن بتوں کی طرف تم مجھے بلاتے ہو انہیں جو پکارے وہ اس کی پکار کا جواب ہرگز نہیں دے سکتے یا ان کو پکارنے والے کی کوئی دعاء مقبول نہیں ہے یعنی کوئی ایسی دعاء نہیں ہے جو مانگنے والے کے لیے قبول ہو، یہاں (لَیْسَ لَہٗ دَعْوَۃٌ) میں یا تو مضاف محذوف ہے یا موصوف محذوف ہے۔ (وَاَنَّ مَرَدَّنَا اِِلَی اللّٰہِ ) مرد مومن نے مزید کہا کہ ہم سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے (وَاَنَّ الْمُسْرِفِینَ ھُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ ) (اور بلاشبہ حد سے آگے بڑھ جانے والے ہی دوزخی ہوں گے) اس میں ترکیب سے یہ بتادیا کہ تم لوگ مسرف ہو حد سے آگے بڑھنے والے ہو ایمان قبول کرو تاکہ آگ کے عذاب سے بچ سکو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46:۔ ” وقال الذی اٰمن “ مرد مومن نے کہا : میرے بھائیو ! میری بات مان لو، میں تمہیں ٹھیک اور سیدھی راہ تبا رہا ہوں۔ ” یا قوم “ میری قوم ! یہ دنیا کی زندگی تو محض چند روزہ نفع کی چیز ہے اور دائمی گھر اور ہمیشہ رہنے کی جگہ تو دار آخرت ہے، اس لیے تم دنیا کے چند روزہ اور فانی منافع کی خاطر آخرت کی دائمی خوشحال زندگی کو قربان نہ کرو۔ آخرت کی دائمی زندگی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تم موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آؤ اور نیک کام کرو۔ ” من عمل سیئۃ “ جو شخص برے کام کرے گا۔ اس کو اس کے گناہوں سے زیادہ سزا نہیں ملے گی، لیکن جس مرد یا عورت نے ایمان لا کر نیک کام کیے۔ اللہ کی توحید کو اور تمام بنیادی عقائد کو مانا اور اس کے مطابق اعمال صالحہ بجا لائے تو وہ جنت میں داخل ہوں گے اور وہاں انہیں ہر نعمت محض اللہ کے فض (رح) سے بلا حساب اور ناپ تول کے بغیر ملے گی۔ جنت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو ہمارے اعمال سے کوئی نسبت نہ ہوگی، اعمال کے مقابلے میں نعیم جنت کئی گنا زیادہ ہوں گی۔ ای بغیر تقدیر و موازنۃ بالعمل بل اضعافا مضاعفۃ فضلا من الللہ عز و جل ورحمۃ (ابو السعود ج 7 ص 325) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(38) اور اس مومن مذکور نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! تم میرے کہنے پر اور میری راہ چلو میں تم کو بھلائی کا راستہ بتاتا ہوں۔ جب اس مرد مومن نے دیکھا کہ فرعون کوئی معقول بات اور معقول دلیل سنتا ہی نہیں تو اس نے پھر قوم سے خطاب کیا یعنی تم اس رستے چلو جو رستہ میں بتاتا ہوں میں تم کو دین اور دنیا کی بھلائی کا راستہ بتاتا ہوں۔ رشد اور رشاد کے معنی ہیں وہ راستہ اختیار کرنا جو دین اور دنیا دونوں کے لئے بھلا ہو رشاد غی اور ضلال کے مقابل ہے۔