Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 41

سورة مومن

وَ یٰقَوۡمِ مَا لِیۡۤ اَدۡعُوۡکُمۡ اِلَی النَّجٰوۃِ وَ تَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَی النَّارِ ﴿ؕ۴۱﴾ النصف

And O my people, how is it that I invite you to salvation while you invite me to the Fire?

اے میری قوم! یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلا رہا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی طرف بلا رہے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Conclusion of the Believer's Words, and the ultimate Destiny of both Parties Allah informs that the believer said: وَيَا قَوْمِ مَا لِي أَدْعُوكُمْ إِلَى النَّجَاةِ ... "And O my people! How is it that I call you to salvation, That believer said: `Why do I call you to salvation, which is the worship of Allah alone with no partner or associate, and belief in His Messenger, whom He has sent,' ... وَتَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِ

عالم برزخ میں عذاب پر دلیل ۔ قوم فرعون کا مومن مرد اپنا وعظ جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں توحید کی طرف یعنی اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی طرف بلا رہا ہوں ۔ میں تمہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے کی دعوت دے رہا ہوں ۔ اور تم مجھے کفر و شرک کی طرف بلا رہے ہو؟ تم چاہتے ہو کہ میں جاہل بن جاؤں اور بےدلیل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کروں؟ غور کرو کہ تمہاری اور میری دعوت میں کس قدر فرق ہے؟ میں تمہیں اس اللہ کی طرف لے جانا چاہتا ہوں جو بڑی عزت اور کبریائی والا ہے ۔ باوجود اس کے وہ ہر اس شخص کی توبہ قبول کرتا ہے جو اس کی طرف جھکے اور استغفار کرے ، لاجرم کے معنی حق و صداقت کے ہیں ، یعنی یہ یقینی سچ اور حق ہے کہ جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو یعنی بتوں اور سوائے اللہ کے دوسروں کی عبادت کی طرف یہ تو وہ ہیں جنہیں دین و دنیا کا کوئی اختیار نہیں ۔ جنہیں نفع نقصان پر کوئی قابو نہیں جو اپنے پکارنے والے کی پکار کو سن سکیں تو قبول کر سکیں نہ یہاں نہ وہاں ۔ جیسے فرمان اللہ ہے ( وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ Ĉ۝ ) 46- الأحقاف:5 ) ، یعنی اس سے بڑھ کر کوئی گمراہ نہیں جو اللہ کے سوا اوروں کو پکارتا ہے ۔ جو اس کی پکار کو قیامت تک سن نہیں سکتے ۔ جنہیں مطلق خبر نہیں کہ کون ہمیں پکار رہا ہے؟ جو قیامت کے دن اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادت سے بالکل انکار کر جائیں گے ۔ گو تم انہیں پکارا کرو لیکن وہ نہیں سنتے ۔ اور بالفرض اگر سن بھی لیں تو قبول نہیں کر سکتے ۔ مومن آل فرعون کہتا ہے ۔ کہ ہم سب کو لوٹ کر اللہ ہی کے پاس جانا ہے ۔ وہاں ہر ایک کو اپنے اعمال کا بدلہ بھگتنا ہے ۔ وہاں حد سے گزر جانے والے اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے والے ہمیشہ کیلئے جہنم و اصل کر دیئے جائیں گے ، گو تم اس وقت میری باتوں کی قدر نہ کرو ۔ لیکن ابھی ابھی تمہیں معلوم ہو جائے گا میری باتوں کی صداقت و حقانیت تم پر واضح ہو جائے گی ۔ اس وقت ندامت حسرت اور افسوس کرو گے لیکن وہ محض بےسود ہوگا ۔ میں تو اپنا کام اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔ میرا توکل اسی کی ذات پر ہے ۔ میں تو اپنے ہر کام میں اسی سے مدد طلب کرتا ہوں ۔ مجھے تم سے کوئی واسطہ نہیں میں تم سے الگ ہوں اور تمہارے کاموں سے نفرت کرتا ہوں ۔ میرا تمہارا کوئی تعلق نہیں ۔ اللہ اپنے بندوں کے تمام حالات سے دانا بینا ہے ۔ مستحق ہدایت جو ہیں ان کی وہ رہنمائی کرے گا اور مستحقین ضلالت اس رہنمائی سے محروم رہیں گے ، اس کا ہر کام حکمت والا اور اس کی ہر تدبیر اچھائی والی ہے اس مومن کو اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں کے مکر سے بچا لیا ۔ دنیا میں بھی وہ محفوظ رہا یعنی موسیٰ کے ساتھ اس نے نجات پائی اور آخرت کے عذاب سے بھی محفوظ رہا ۔ باقی تمام فرعونی بدترین عذاب کا شکار ہوئے ۔ سب دریا میں ڈبو دیئے گئے ، پھر وہاں سے جہنم واصل کر دیئے گئے ۔ ہر صبح شام ان کی روحیں جہنم کے سامنے لائی جاتی ہیں ، قیامت تک یہ عذاب انہیں ہوتا رہے گا ۔ اور قیامت کے دن ان کی روحیں جسم سمیت جہنم میں ڈال دی جائیں گی ۔ اور اس دن ان سے کہا جائے گا کہ اے آل فرعون سخت درد ناک اور بہت زیادہ تکلیف دہ عذاب میں چلے جاؤ ۔ یہ آیت اہل سنت کے اس مذہب کی کہ عالم برزخ میں یعنی قبروں میں عذاب ہوتا ہے بہت بڑی دلیل ہے ، ہاں یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے ۔ کہ بعض احادیث میں کچھ ایسے مضامین وارد ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب برزخ کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے شریف کی ہجرت کے بعد ہوا اور یہ آیت مکہ شریف میں نازل ہوئی ہے ۔ تو جواب اس کا یہ ہے کہ آیت سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ مشرکوں کی روحیں صبح شام جہنم کے سامنے پیش کی جاتی ہیں ۔ باقی رہی بات کہ یہ عذاب ہر وقت جاری اور باقی رہتا ہے یا نہیں؟ اور یہ بھی کہ آیا یہ عذاب صرف روح کو ہی ہوتا ہے یا جسم کو بھی اس کا علم اللہ کی طرف سے آپ کو مدینے شریف میں کرایا گیا ۔ اور آپ نے اسے بیان فرما دیا ۔ پس حدیث و قرآن ملا کر مسئلہ یہ ہوا کہ عذاب و ثواب قبر ، روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے اور یہی حق ہے ۔ اب ان احادیث کو ملاحظہ فرمائیے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودیہ عورت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت گزار تھی ۔ حضرت عائشہ جب کبھی اس کے ساتھ کچھ سلوک کرتی تو وہ دعا دیتی اور کہتی اللہ تجھے جہنم کے عذاب سے بچائے ۔ ایک روز حضرت صدیقہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا قیامت سے پہلے قبر میں بھی عذاب ہوتا ہے؟ اور وہ تو اس سے زیادہ جھوٹ اللہ پر باندھا کرتے ہیں ۔ قیامت سے پہلے کوئی عذاب نہیں ۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک مرتبہ ظہر کے وقت کپڑا لپیٹے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور باآواز بلند فرما رہے تھے قبر مانند سیاہ رات کی اندھیریوں کے ٹکڑوں کے ہے ۔ لوگو اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو بہت زیادہ روتے اور بہت کم ہنستے ، لوگو! قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو ، یقین مانو کہ عذاب قبر حق ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ ایک یہودیہ عورت نے حضرت عائشہ سے کچھ مانگا جو آپ نے دیا اور اس نے وہ دعا دی اس کے آخر میں ہے کہ کچھ دنوں بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے وحی کی گئی ہے کہ تمہاری آزمائش قبروں میں کی جاتی ہے ۔ پس ان احادیث اور آیت میں ایک تطبیق تو وہ ہے جو اوپر بیان ہوئی ۔ دوسری تطبیق یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آیت یعرضون سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ کفار کو عالم برزخ میں عذاب ہوتا ہے ۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مومن کو یہاں کے بعض گناہوں کی وجہ سے اس کی قبر میں عذاب ہوتا ہے ۔ یہ صرف حدیث شریف سے ثابت ہوا ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اس وقت ایک یہودیہ عورت مائی صاحبہ کے پاس بیٹھی تھی اور کہہ رہی تھی کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ تم لوگ اپنی قبروں میں آزمائے جاؤ گے؟ اسے سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کانپ گئے اور فرمایا یہود ہی آزمائے جاتے ہیں ۔ پھر چند دنوں بعد آپ نے فرمایا لوگو تم سب قبروں کے فتنہ میں ڈالے جاؤ گے ۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم فتنہ قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آیت سے صرف روح کے عذاب کا ثبوت ملتا تھا ۔ اس سے جسم تک اس عذاب کے پہنچنے کا ثبوت نہیں تھا ۔ بعد میں بذریعہ وحی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم کرایا گیا کہ عذاب قبر جسم و روح کو ہوتا ہے ۔ چنانچہ آپ نے پھر اس سے بچاؤ کی دعا شروع کی ، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ کے پاس ایک یہودیہ عورت آئی اور اس نے کہا عذاب قبر سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اس پر صدیقہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں عذاب قبر برحق ہے فرماتی ہے اس کے بعد میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔ اس حدیث سے تو ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اسے سنتے ہی یہودیہ عورت کی تصدیق کی ۔ اور اوپر والی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے تکذیب کی تھی ۔ دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ یہ دو واقعے ہیں پہلے واقعے کے وقت چونکہ وحی سے آپ کو معلوم نہیں ہوا تھا آپ نے انکار فرما دیا ۔ پھر معلوم ہو گیا تو آپ نے اقرار کیا ، واللہ سبحان و تعالیٰ اعلم ۔ قبر کے عذاب کا ذکر بہت سی صحیح احادیث میں آ چکا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں رہتی دنیا تک ہر صبح شام آل فرعون کی روحیں جہنم کے سامنے لائی جاتی ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے کہ بدکارو تمہاری اصلی جگہ یہی ہے تاکہ ان کے رنج و غم بڑھیں ان کی ذلت و توہین ہو ۔ پس آج بھی وہ عذاب میں ہی ہیں ۔ اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے ۔ ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا قول ہے کہ شہیدوں کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہیں وہ جنت میں جہاں کہیں چاہیں چلتی پھرتی ہیں ۔ اور مومنوں کے بچوں کی روحیں چڑیوں کے قالب میں ہیں اور جہاں وہ چاہیں جنت میں چلتی رہتی ہیں ۔ اور عرش تلے کی قندیلوں میں آرام حاصل کرتی ہیں ۔ اور آل فرعون کی روحیں سیاہ رنگ پرندوں کے قالب میں ہیں ۔ صبح بھی جہنم کے پاس جاتی ہیں ۔ اور شام کو بھی یہی ان کا پیش ہونا ہے ۔ معراج والی لمبی روایت میں ہے کہ پھر مجھے ایک بہت بڑی مخلوق کی طرف لے چلے جن میں سے ہر ایک کا پیٹ مثل بہت بڑے گھر کے تھا ۔ جو آل فرعون کے پاس قید تھے ۔ اور آل فرعون صبح شام آگ پر لائے جاتے ہیں ۔ اور جس دن قیامت قائم ہوگی اللہ تعالیٰ فرمائے گا ۔ ان فرعونیوں کو سخت تر عذابوں میں لے جاؤ اور یہ فرعونی لوگ نکیل والے اونٹوں کی طرح منہ نیچے کئے پتھر اور درخت پر چڑھ رہے ہیں اور بالکل بےعقل و شعور ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو احسان کرے خواہ مسلم ہو خواہ کافر اللہ تعالیٰ اسے ضرور بدلہ دیتا ہے ہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافر کو کیا بدلہ ملتا ہے؟ فرمایا اگر اس نے صلہ رحمی کی ہے یا صدقہ دیا ہے اور کوئی اچھا کام کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ اس کے مال میں اس کی اولاد میں اس کی صحت میں اور ایسی ہی اور چیزوں میں عطا فرماتا ہے ۔ ہم نے پھر پوچھا اور آخرت میں کیا ملتا ہے؟ فرمایا بڑے درجے سے کم درجے کا عذاب پھر آپ نے ( اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ 46؀ ) 40-غافر:46 ) ، پڑھی ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضرت اوزاعی سے ایک شخص نے پوچھا کہ ذرا ہمیں یہ بتاؤ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے مفید پرندوں کا غول کا غول سمندر سے نکلتا ہے اور اس کے مغربی کنارے اڑتا ہوا ، صبح کے وقت جاتا ہے ۔ اس قدر زیادتی کے ساتھ کہ ان کی تعداد کوئی گن نہیں سکتا ۔ شام کے وقت ایسا ہی جھنڈ کا جھنڈ واپس آتا ہے لیکن اس وقت ان کے رنگ بالکل سیاہ ہوتے ہیں آپ نے فرمایا تم نے اسے خوب معلوم کر لیا ۔ ان پرندوں کے قالب میں آل فرعون کی روحیں ہیں ۔ جو صبح شام آگ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں پھر اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹ جاتی ہیں ان کے پر جل گئے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ سیاہ ہو جاتے ہیں ۔ پھر رات کو وہ اگ جاتے ہیں اور سیاہ جھڑ جاتے ہیں ۔ پھر وہ اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں یہی حالت ان کی دنیا میں ہے اور قیامت کے دن ان سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس آل فرعون کو سخت عذابوں میں داخل کر دو کہتے ہیں کہ ان کی تعداد چھ لاکھ کی ہے جو فرعونی فوج تھی ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کبھی کوئی مرتا ہے ہر صبح شام اس کی جگہ اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے اگر وہ جنتی ہے تو جنت ۔ اور اگر وہ جہنمی ہے تو جہنم اور کہا جاتا ہے کہ تیری اصل جگہ یہ ہے جہاں تجھے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بھیجے گا ۔ یہ حدیث صحیح بخاری مسلم میں بھی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 اور وہ یہ کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اس کے رسول کی تصدیق کرو، جو اس نے تمہاری ہدایت اور راہنمائی کے لئے بھیجا ہے 41۔ 2 یعنی توحید کی بجائے شرک کی دعوت دے رہے ہو جو انسان کو جہنم میں لے جانے والا ہے جیسا کہ اگلی آیت میں وضاحت ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٤] مرد مومن کی تقریر :۔ یہ ہے تمہاری بھلائی، خیر خواہی اور نجات کا راستہ کہ اللہ کے رسول پر ایمان لے آؤ اور نیک اعمال بجا لاؤ وہ بھلائی کی راہ نہیں کہ رسول کی دعوت کا نہ صرف یہ کہ انکار ہی کردیا جائے بلکہ اسے قتل کرنے کے ارادے کئے جانے لگیں۔ یہ بھلائی کی راہ نہیں یہ تو جہنم کی راہ ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ویقوم : یہاں زمخشری نے ایک سوال اور اس کا جواب ذکر کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس نے بار بار ” یقوم “ کیوں کہا اور کیا وجہ ہے کہ اس نے تیسری دفعہ ” واؤ “ کے اضافے کے ساتھ ” ویقوم “ کہا، جب کہ دوسری دفعہ ” واؤ “ کے بغیر ”’ یقوم “ کہا ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ بار بار ” یقوم “ کہنے کا مقصد ایک تو انہیں خبر دار اور خواب غفلت سے بیدار کرنا ہے، دوسرا اس بات کا اظہار ہے کہ تم میری قوم اور میرا خاندان ہو، اس لئے مجھ پر واجب ہے کہ میں تمہاری خیر خواہی کروں۔ چناچہ وہ ان سے نہایت نرمی اور محبت کے ساتھ بات کرتا ہے، ان کے بارے میں اپنے غم کا اظہار کرتا ہے۔ تاکہ وہ اس کی نیت پر شک نہ کریں، کیونکہ ان کی خوشی اس کی خوشی اور ان کا غم اس کا غم ہے، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کو نصیحت کرتے ہوئے ہر جملے کی ابتدا ” یابت “ (اے میرے باپ ! ) سے کی۔ (دیکھیے مریم : ٤١ تا ٤٥) اور تیسری دفعہ ” واؤ “ لانے اور دوسری دفعہ ” واؤ “ نہ لانے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے دوسری دفعہ ” یقوم “ والے جملے کے ساتھ اس سے پہلے جملے ہی کی وضاحت کی ہے، جب کہ تیسری دفعہ اس نے ایک نئی بات کی ہے۔ (٢) مالی ادعوکم الی النجوۃ …قوم سے یہ سوال اظہار تعجب کے لئے ہے، یعنی یہ تمہاری کس قسم کی قوم پر دی اور حق شناسی ہے کہ میں تو تمہیں اللہ کی توحید اور اس کے رسول پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہوں، جس کا نتیجہ آگ سے نجات ہے اور تم مجھے اللہ کے ساتھ شرک اور رسول کی تکذیب پر قائم رہنے کے لئے اصرار کرتے ہوئے آگ کی دعوت دے رہے ہو۔ (٣) قرآن مجید کے رسم الخط میں ” نجاہ “ کے الف کو واؤ کی شکل میں ” النجوۃ “ لکھا گیا ہے، اس کی وجہ اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ یہ الف واؤ سے بدلا ہوا ہے ، جیسا کہ ” صلاۃ “ اور ” زکاۃ “ کو ” صلوۃ “ اور ” زکوۃ “ لکھا جاتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيٰقَوْمِ مَا لِيْٓ اَدْعُوْكُمْ اِلَى النَّجٰوۃِ وَتَدْعُوْنَنِيْٓ اِلَى النَّارِ۝ ٤١ۭ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور حزقیل نے کہا بھائیو یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں طریق نجات یعنی توحید کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھ کو دوزخیوں کے کام یعنی شرک کی طرف بلاتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ { وَیٰــقَوْمِ مَا لِیْٓ اَدْعُوْکُمْ اِلَی النَّجٰوۃِ وَتَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَی النَّارِ } ” اور اے میری قوم کے لوگو ! مجھے کیا ہے کہ میں تمہیں پکار رہا ہوں نجات کی طرف اور تم مجھے دعوت دے رہے ہو آگ کی ! “ تم اللہ کے رسول (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہو اور مجھ سے چاہتے ہو کہ میں بھی اس گناہ میں تمہارے ساتھ شریک ہو کر جہنم کا مستحق بن جائوں ‘ جبکہ میں چاہتا ہوں کہ تم سب میرے ساتھ آئو ‘ میرا راستہ اپنائو ‘ اللہ کے حضور توبہ کرو اور جہنم سے نجات پا کر جنت میں چلے جائو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:41) مالی۔ (1) میرا بھی عجب حال ہے۔ (ضیاء القرآن، حقانی) (2) مجھے بتاؤ یہ کیا بات ہے۔ عقل و دانش کے خلاف تمہاری یہ عادت کیوں ہے ؟ (مظہری) (3) میرے لئے کتنا عجیب ہے۔ (عبد اللہ یوسف علی) (4) یہ کیا ماجرا ہے ؟ میں بھی عجیب ہوں۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے وقالوا مال ھذا الرسول یا کل الطعام ویمشی فی الاسواق (25:7) اور کہتے ہیں کہ یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ اور مال ھذا الکتب لایغادر صغیرۃ ولا کبیرۃ الا احصھا (18:49) یہ کیسی کتاب ہے کہ نہ جھوٹی بات کو چھوڑتی ہے اور نہ بڑی کو (کوئی بات بھی نہیں) مگر اسے لکھ رکھ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی میں تمہیں توحید کی دعت دے رہا ہوں جس کا نتیجہ نجات ہے اور تم مجھے کفر و شرک میں پھنسانا چاہتے ہو جس کا انجام دوزخ ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مرد حق کے خطاب کا آخری حصہ۔ مردِ حق نے اپنی قوم کو پہلی اقوام کی تباہی کے حوالے سے بھی سمجھایا اور پھر دنیا کی بےثباتی بتلانے کے ساتھ جنت کی نعمتوں کی ترغیب بھی دی۔ مگر قوم سمجھنے کی بجائے الٹا اس پر دباؤ بڑھاتی ہے کہ تجھے یہ دعوت چھوڑ کر اپنی قوم کا ساتھ دینا چاہیے۔ نہ معلوم فرعون اور اس کے ساتھیوں نے مرد مومن پر کتنا دباؤ ڈالا ہوگا۔ جس سے مجبور ہو کر اللہ کا بندہ پکار اٹھتا ہے کہ اے میری قوم ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی طرف بلا رہے ہو۔ تم مجھے اس بات کی طرف کھینچتے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراؤں۔ جس کے لیے میرے پاس کوئی علمی آؤڑ عقلی بنیاد نہیں۔ تم مانو یا نہ مانو میں پھر بھی تمہیں اس اللہ کی طرف بلاتا رہوں گا جو ہر اعتبار سے غالب اور اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس بات کی طرف تم مجھے بلاتے ہو اس کا دنیا اور آخرت میں کوئی ثبوت نہیں۔ یادرکھو ! ہم سب نے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے۔ یقین جانو ! کہ حد سے آگے نکلنے والے جہنّم کی آگ میں جھونکے جائیں گے جو نصیحت میں تمہیں کررہا ہوں۔ اگر تم نے اسے قبول نہ کیا تو وقت آنے پر تم پچھتاؤ گے اور اس نصیحت کو یاد کرو گے۔ بس میں اپنا کام اللہ کے حوالے کرتا ہوں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو پوری طرح دیکھنے والا ہے۔ مرد حق نے اپنے خطاب کے اختتام پر شرک کی بےحیثیتی کا ذکر کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ شرک کفر ہے اور اس کی بنیاد کسی دلیل پر نہیں اور نہ ہی دنیا اور آخرت میں اس کی قبولیت ہوگی۔ کفار اور مشرکین کو اللہ تعالیٰ جہنّم میں جھونک دے گا۔ بس میں نے اپنا فرض پورا کردیا ہے اب معاملہ ” اللہ “ کے حوالے کرتا ہوں جو اپنے بندوں کو ہر حال میں دیکھنے والا ہے۔ مسائل مردِ حق کے خطاب کا خلاصہ : ١۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں۔ ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے ٹھوس دلائل کے ساتھ سمجھایا ہے کہ میرا اور تمہارا رب صرف ” اللہ “ ہے۔ ٣۔ بالفرض موسیٰ (علیہ السلام) جھوٹے ہیں تو جھوٹ کا وبال انہیں پر ہوگا۔ اگر وہ سچے ہیں تو پھر ” اللہ “ کا عذاب تمہیں آلے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جھوٹے اور زیادتی کرنیوالے کو ہدایت نہیں دیتا۔ ٥۔ ” اللہ “ کا عذاب نازل ہوا تو ہمیں کوئی بچا نہیں سکے گا۔ ٦۔ میری قوم کے لوگو ! اگر تم کفر و شرک پر قائم رہے تو تمہیں قوم نوح (علیہ السلام) ، عاد اور ثمود جیسے حالات سے واسطہ پڑے گا۔ ٧۔ اے میری قوم ! قیامت کے دن تم ایک دوسرے کو مدد کے لیے بلاؤ گے لیکن اللہ تعالیٰ سے تمہیں کوئی چھڑا نہیں سکے گا۔ ٨۔ اے میری قوم ! تم اللہ تعالیٰ کے ارشادات کے بارے میں بلادلیل جھگڑتے ہو۔ ٩۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے ایماندار بندے کفر و شرک پر ناراض ہوتے ہیں ١٠۔ اللہ تعالیٰ متکبّر اور سرکش انسان کے دل پر گمراہی کی مہر لگا دیتا ہے۔ ١١۔ اے میری قوم ! میں تمہیں سیدھے راستے کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے جہنّم کی آگ کی دعوت دیتے ہو۔ ١٢۔ اے میری قوم ! یہ دنیا عارضی ہے اور آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ١٣۔ جو برا کام کرے گا وہ اس کے برابر سزا پائے گا۔ جو نیکی کرے گا وہ اس کی جزا پائے گا۔ ١٤۔ جس مردیا عورت نے ایمان کی حالت میں صالح اعمال کیے اسے جنّت میں بےحساب رزق دیا جائے گا۔ ١٥۔ اے میری قوم ! تم مجھے کفر و شرک کی طرف بلاتے ہو اور میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہوں جو گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ ١٦۔ اے میری قوم ! جس بات کی طرف تم مجھے دعوت دیتے ہو یہ دنیا اور آخرت میں منظور نہیں ہوگی۔ ١٧۔ اے میری قوم ! ہم سب نے اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اللہ تعالیٰ حد سے نکل جانے والوں کو آگ میں جھونک دے گا۔ ١٨۔ اے میری قوم ! وقت آنے پر تم میری دعوت اور نصیحت کو ضرور یاد کرو گے۔ ١٩۔ اے میری قوم ! میں اپنے کام کو ” اللہ “ کے حوالے کرتا ہوں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر حال میں اپنے بندوں کو دیکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن شرک کے حق میں کوئی دلیل نہیں : ١۔ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی غیر کو پکارتا ہے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ (المؤمنون : ١١٧) ٢۔ انہوں نے اللہ کے علاوہ کئی معبود بنالیے ہیں آپ فرمائیں اس کی دلیل لاؤ۔ (الانبیاء : ٢٤) ٣۔ ” اللہ “ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے اگر تم سچے ہو تو اس کی دلیل لاؤ۔ (النمل : ٦٤) ٤۔ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی گئی۔ (الحج : ٧١) ٥۔ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے نہیں ڈرتے جس کی اس نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ (الانعام : ٨١) ٦۔ اے لوگو ! تمہارے پاس رب کی توحید کی دلیل آچکی ہے۔ (النساء : ١٧٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

47:۔ ” و یا قوم مالی “ میرے بھائیو ! یہ کیا ہے کہ میں تو تمہیں نجات کے راستے کی طرف بلاتا ہوں، لیکن تم مجھے دوزخ کی طرف بلاتے ہو میں تمہیں توحید کی دعوت دے رہا ہوں، جو عذاب جہنم سے نجات پانے کا ذریعہ ہے اور تم مجھے کفر و شرک کی طرف بلاتے ہو جو عذاب دوزخ کا موجب ہے۔ ” تدعوننی لاکفر باللہ الخ “ یہ ماقبل کی تفسیر ہے ” واشرک “ میں واؤ تفسیریہ ہے۔ بہ ای بمعبودیتہ (جلالین) تم مجھے دعوت دے رہے ہو کہ میں اس کو خدا کا شریک بناؤں جس کے معبود ہونے کی میرے پاس (بلکہ تمہارے پاس بھی) کوئی دلیل نہیں، لیکن میں اس خدائے عزیز و غفار کی توحید کی طرف بلا رہا ہوں جو سرکشوں سے انتقام لینے پر قادر ہے اور یمان والوں پر نہایت مہربان ہے اور ان کی لغزشوں سے درگذر فرماتا فرماتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(41) اور اے میری قوم کے لوگو ! آخر یہ کیا بات ہے اور مجھ کو کیا ہوا کہ میں تم کو نجات اور بچائو کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھ کو جہنم کی طرف بلاتے ہو۔ یعنی میں تم کو جہنم سے بچانا چاہتا ہوں اور تم مجھ کو دوزخ میں دھکیلنا چاہتے ہو کیونکہ