Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 43

سورة مومن

لَا جَرَمَ اَنَّمَا تَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَیۡہِ لَیۡسَ لَہٗ دَعۡوَۃٌ فِی الدُّنۡیَا وَ لَا فِی الۡاٰخِرَۃِ وَ اَنَّ مَرَدَّنَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ اَنَّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ ہُمۡ اَصۡحٰبُ النَّارِ ﴿۴۳﴾

Assuredly, that to which you invite me has no [response to a] supplication in this world or in the Hereafter; and indeed, our return is to Allah , and indeed, the transgressors will be companions of the Fire.

یہ یقینی امر ہے کہ تم مجھے جس کی طرف بلا رہے ہو وہ تو نہ دنیا میں پکارے جانے کے قابل ہے نہ آخرت میں اور یہ بھی ( یقینی بات ہے ) کہ ہم سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے اور حد سے گزر جانے والے ہی ( یقیناً ) اہل دوزخ ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لاَا جَرَمَ أَنَّمَا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ... La Jarama, you call me to one, They say it means, "Truly." As-Suddi and Ibn Jarir said that the meaning of His saying: لاَا جَرَمَ (La jarama) means "Truly." Ad-Dahhak said: لاَا جَرَمَ (La Jarama) means, "No lie." Ali bin Abi Talhah and Ibn Abbas said: لاَا جَرَمَ (La Jarama) means, "Indeed, the one that you call me to of idols and false gods ... لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا وَلاَ فِي الاْخِرَةِ ... that does not have a claim in this world or in the Hereafter." Mujahid said, "The idols that do not have anything." Qatadah said, "This means that idols possess no power either to benefit or to harm." As-Suddi said, "They do not respond to those who call upon them, either in this world or in the Hereafter." This is like the Ayah: وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لاَّ يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَـمَةِ وَهُمْ عَن دُعَأيِهِمْ غَـفِلُونَ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُواْ لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُواْ بِعِبَادَتِهِمْ كَـفِرِينَ And who is more astray than one who calls on besides Allah, such as will not answer him till the Day of Resurrection, and who are unaware of their calls to them And when the people are gathered, they will become their enemies and deny their worship. (46:5-6) إِن تَدْعُوهُمْ لاَ يَسْمَعُواْ دُعَأءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُواْ مَا اسْتَجَابُواْ لَكُمْ If you invoke them, they hear not your call; and if they were to hear, they could not grant it to you. (35:14) ... وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَى اللَّهِ ... And our return will be to Allah, means, in the Hereafter, where He will reward or punish each person according to his deeds. He says: ... وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ and the transgressors, they shall be the dwellers of the Fire! meaning, they will dwell therein forever, because of their great sin, which is associating others in worship with Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 لاجرَمَ یہ بات یقینی ہے، یا اس میں جھوٹ نہیں ہے۔ 43۔ 2 یعنی وہ کسی کی پکار سننے کی استعداد ہی نہیں رکھتے کہ کسی کو نفع پہنچا سکیں یا الوہیت کا استحقاق انہیں حاصل ہو اس کا تقربیا وہی مفہوم ہے جو اس آیت اور اس جیسی دیگر متعدد آیات میں بیان کیا گیا ہے (وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ ) 46 ۔ الاحقاف :5) (اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ ) 35 ۔ فاطر :14) اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر بالفرض سن لیں تو قبول نہیں کرسکتے۔ 43۔ 3 یعنی آخرت میں ہی وہ پکار سن کر کسی کو عذاب سے چھڑانے پر یا شفاعت ہی کرنے پر قادر ہوں ؟ یہ بھی ممکن نہیں ہے ایسی چیزیں بھلا اس لائق ہوسکتی ہیں کہ وہ معبود بنیں اور ان کی عبادت کی جائے ؟ 43۔ 4 جہاں ہر ایک کا حساب ہوگا اور عمل کے مطابق اچھی یا بری جزا دی جائے گی۔ 43۔ 5 یعنی کافر و مشرک جو اللہ کی نافرمانی میں ہر حد سے تجاوز کر جاتے ہیں اس طرح جو بہت زیادہ گناہ گار مسلمان ہوں گے جن کی نافرمانیاں اسراف کی حد تک پہنچی ہوئی ہوں گی انہیں بھی کچھ عرصہ جہنم کی سزا بھگتنی ہوگی تاہم بعد میں شفاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا اللہ کی مشیت سے ان کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٦] اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ پہلا تو وہی مطلب ہے جو ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کو نہ دنیا میں یہ حق پہنچتا ہے نہ آخرت میں کہ ان کی خدائی تسلیم کرنے کے لئے لوگوں کو دعوت دی جائے۔ تیسرا یہ کہ انہیں تو لوگوں نے زبردستی خدا بنا رکھا ہے ورنہ وہ خود نہ اس دنیا میں خدائی کے مدعی ہیں، نہ آخرت میں یہ دعویٰ لے کر اٹھیں گے کہ ہم بھی تو خدا تھے ہمیں کیوں نہ مانا گیا۔ [٥٧] اگرچہ ہر کام میں حد اعتدال سے آگے نکل جانے کو اسراف کہہ سکتے ہیں مگر یہاں مُسْرِفِیْنَ سے مرادوہ لوگ ہیں جو عاجز مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے اختیارات و تصرفات میں شریک بنا لیتے ہیں۔ ایسے مسرفین ہی وہ دوزخی ہیں جنہیں کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) لاجرم انما تدغوننی الیہ : یہاں ” الما “ کلمہ حصر نہیں، جو اکٹھا لکھا جاتا ہے، بلکہ ” ان “ الگ ہے اور ” ما “ موصولہ الگ ہے، معنی ” وہ جو۔ “ قرآن مجید کے اولین کا تبوں نے اسے یہاں اکٹھا لکھا، اس لئے اسے اکٹھا لکھا جاتا ہے۔ (٢) لیس لہ دعوۃ “ (اس کے لئے کوئی دعوت نہیں) کے کئی معانی ہوسکتے ہیں اور سب درست ہیں۔ ایک یہ کہ نہ دنیا میں اس کا حق ہے کہ اسے پکارا جائے نہ آخرت میں۔ دو سرا یہ کہ نہ دنیا میں اسے پکارنے کا کوئی فائدہ ہے نہ آخرت میں۔ تیسرا یہ کہ نہ وہ دنیا میں کسی کی دعا قبول کرسکتا ہے نہ آخرت میں۔ گویا یہ وہی بات ہے جو سورة احقاف میں فرمائی ہے۔ (ومن اضل ممن یدعوا من دون اللہ من لایستجیب لہ الی یوم القیمۃ وھم عن دعآئھم غفلون) (الاحقاف : ٥) ” اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہ جو اللہ کے سوا انہیں پکارتا ہے جو قیامت کے دن تک اس کی دعا قبول نہیں کریں گے اور وہ ان کے پکارنے سے بیخبر ہیں۔ “ مزید دیکھیے سورة فاطر (١٤) ۔ (٣) وان مردنا الی اللہ : یعنی آخر کار ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے پاس واپس جانا ہے جو ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا یا سزا دے گا۔ (٤) وان المسرفین ھم اصحب النار : یہاں ” المسرفین “ (حد سے بڑھنے والوں) سے مراد کافرو مشرک ہیں، کیونکہ ہمیشہ آگ میں رہنے والے وہی ہیں، فرمایا :(ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشآئ) (السمائ : ٣٨، ١١٦)” بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا جَرَمَ اَنَّمَا تَدْعُوْنَنِيْٓ اِلَيْہِ لَيْسَ لَہٗ دَعْوَۃٌ فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْاٰخِرَۃِ وَاَنَّ مَرَدَّنَآ اِلَى اللہِ وَاَنَّ الْمُسْرِفِيْنَ ہُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ۝ ٤٣ جرم ( لاجرم) وقیل : جَرَمَ وجَرِمَ بمعنی، لکن خصّ بهذا الموضع «جرم» كما خصّ عمر بالقسم، وإن کان عمر وعمر «7» بمعنی، ومعناه : ليس بجرم أنّ لهم النار، تنبيها أنهم اکتسبوها بما ارتکبوه إشارة إلى قوله تعالی: وَمَنْ أَساءَ فَعَلَيْها [ الجاثية/ 15] . وقد قيل في ذلك أقوال، أكثرها ليس بمرتضی عند التحقیق «1» . وعلی ذلک قوله عزّ وجل : فَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنْكِرَةٌ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ [ النحل/ 22] ، لا جَرَمَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يُسِرُّونَ وَما يُعْلِنُونَ [ النحل/ 23] ، وقال تعالی: لا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخاسِرُونَ [ النحل/ 109] ( ج ر م ) الجرم ( ض) لا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخاسِرُونَ [ النحل/ 109] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے لااصل میں محذوف پر داخل ہوا ہے جیسا کہ میں لا آتا ہے اور جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( بتقادب ) (89) لاوابیک ابنۃ العامری اور جرم فعل ماضی ہے جس کے معنی اکسبیا جنی ٰ کے ہیں اس کے بعد ان لھم النار ( جملہ ) موضع مفعول میں ہے اور معنی یہ ہیں کہ اس نے اپنے لئے ( دوزخ کی آگ ) حاصل کی ۔ بعض نے کہا ہے جرم اور جرم کے ایک ہی معنی ہیں لیکن لا کے ساتھ جرم آتا ہے جیسا کہ قسم کے ساتھ عمرو کا لفظ مختض ہے اگرچہ عمر و عمر کے معنی ایک ہی ہیں اور معنی یہ ہے کہ ان کے لئے آگ کا ہونا کسی کا جرم نہیں ہوگا بلکہ یہ ان کے عملوں کی سزا ہوگی اور انہوں نے خود ہی اسے اپنے لئے حاصل کیا ہوگا جیسا کہ آیت وَمَنْ أَساءَ فَعَلَيْها [ الجاثية/ 15] اور جو برے کام کرے گا ۔ تو ان کا ضرو اسی کو ہوگا ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اس کی تفسیر میں اور بھی بہت سے اقوال منقول ہیں ۔ لیکن ان میں سے اکثر تحقیق کی رو سے صحیح نہیں ہیں اور اسی معنی کے لحاظ سے فرمایا :۔ فَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنْكِرَةٌ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ [ النحل/ 22] لا جَرَمَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يُسِرُّونَ وَما يُعْلِنُونَ [ النحل/ 23] تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل انکار کررہے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں خدا ضرور اس کو جانتا ہے ۔ لا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخاسِرُونَ [ النحل/ 109] کچھ شک نہیں کہ یہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والے ہوں گے دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث . - وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع . وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔ مردنا : مضاف مضاف الیہ۔ مرد : ردیرد ( باب نصر) سے مصدر میمی ہے ۔ نا ضمیر جمع متکلم۔ ہمارا لوٹ جانا۔ پھرجانا۔ پھرنا۔ یعنی مرنے کے بعد ہم سب کا اللہ کے پاس لوٹ جانا ہے۔ سرف السَّرَفُ : تجاوز الحدّ في كلّ فعل يفعله الإنسان، وإن کان ذلک في الإنفاق أشهر . قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] ، وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] ، ويقال تارة اعتبارا بالقدر، وتارة بالکيفيّة، ولهذا قال سفیان : ( ما أنفقت في غير طاعة اللہ فهو سَرَفٌ ، وإن کان قلیلا) قال اللہ تعالی: وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] ، وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] ، أي : المتجاوزین الحدّ في أمورهم، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] ، وسمّي قوم لوط مسرفین من حيث إنهم تعدّوا في وضع البذر في الحرث المخصوص له المعنيّ بقوله : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] ، وقوله : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ، فتناول الإسراف في المال، وفي غيره . وقوله في القصاص : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] ، فسرفه أن يقتل غير قاتله، إمّا بالعدول عنه إلى من هو أشرف منه، أو بتجاوز قتل القاتل إلى غيره حسبما کانت الجاهلية تفعله، وقولهم : مررت بکم فَسَرِفْتُكُمْ أي : جهلتكم، من هذا، وذاک أنه تجاوز ما لم يكن حقّه أن يتجاوز فجهل، فلذلک فسّر به، والسُّرْفَةُ : دویبّة تأكل الورق، وسمّي بذلک لتصوّر معنی الإسراف منه، يقال : سُرِفَتِ الشجرةُ فهي مسروفة . ( س ر ف ) السرف کے معنی انسان کے کسی کام میں حد اعتدال سے تجاوز کر جانے کے ہیں مگر عام طور پر استعمال اتفاق یعنی خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرجانے پر ہوتا پے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیچا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں ۔ وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے ( یعنی بڑی ہو کہ تم سے اپنا کا مال واپس لے لیں گے ) اسے فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ اور یہ یعنی بےجا سرف کرنا مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے بولاجاتا ہے چناچہ حضرت سفیان ( ثوری ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں ایک حبہ بھی صرف کیا جائے تو وہ اسراف میں داخل ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] اور بےجانہ اڑان کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں ۔ یعنی جو اپنے امور میں احد اعتدال سے تجاوز کرتے ہیں إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جا حد سے نکل جانے والا ( اور ) جھوٹا ہے ۔ اور قوم لوط (علیہ السلام) کو بھی مسرفین ( حد سے تجاوز کرنے والے ) کیا گیا ۔ کیونکہ وہ بھی خلاف فطرف فعل کا ارتکاب کرکے جائز حدود سے تجاوز کرتے تھے اور عورت جسے آیت : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ میں حرث قرار دیا گیا ہے ۔ میں بیچ بونے کی بجائے اسے بےمحل ضائع کر ہے تھے اور آیت : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ( اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدد کہ ) اے میرے بندو جہنوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی میں اسرفوا کا لفظ مال وغیرہ ہر قسم کے اسراف کو شامل ہے اور قصاص کے متعلق آیت : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] تو اس کا چاہئے کہ قتل ( کے قصاص ) میں زیادتی نہ کرے ۔ میں اسراف فی القتل یہ ہے کہ غیر قاتل کو قتل کرے اس کی دو صورتیں ہی ۔ مقتول سے بڑھ کر باشرف آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کرے ۔ یا قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرے جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا ۔ عام محاورہ ہے ۔ کہ تمہارے پاس سے بیخبر ی میں گزر گیا ۔ تو یہاں سرفت بمعنی جھلت کے ہے یعنی اس نے بیخبر ی میں اس حد سے تجاوز کیا جس سے اسے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا اور یہی معنی جہالت کے ہیں ۔ السرفتہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو درخت کے پتے کھا جاتا ہے ۔ اس میں اسراف کو تصور کر کے اسے سرفتہ کہا جاتا ہے پھر اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سرفت الشجرۃ درخت کرم خور دہ ہوگیا ۔ اور ایسے درخت کو سرقتہ ( کرم خوردہ ) کہا جاتا ہے ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

لازمی بات ہے کہ تم مجھے جس چیز کی عبادت کی طرف بلاتے ہو وہ دنیا و آخرت میں کسی قسم کا فائدہ پہنچانے کے لائق نہیں اور ہم سب کو مرنے کے بعد اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور مشرکین سب دوزخی ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ { لَا جَرَمَ اَنَّمَا تَدْعُوْنَنِیْْٓ اِلَیْہِ لَیْسَ لَہٗ دَعْوَۃٌ فِی الدُّنْیَا وَلَا فِی الْاٰخِرَۃِ } ” بلاشبہ جن (معبودوں) کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو ‘ ان کے لیے کوئی دعوت نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں “ یہ سب تمہارے خود ساختہ معبود ہیں۔ نہ تو دنیا میں کہیں ان کی رسائی ہے اور نہ ہی آخرت میں انہیں کوئی اختیار ہے۔ { وَاَنَّ مَرَدَّنَآ اِلَی اللّٰہِ } ” اور یہ کہ ہم سب کو لوٹنا تو اللہ ہی کی طرف ہے “ یاد رکھو ! خواہی نخواہی ہمیں ایک دن حاضر تو اللہ ہی کے حضور ہونا ہے۔ { وَاَنَّ الْمُسْرِفِیْنَ ہُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ } ” اور جو حد سے گزرنے والے ہیں وہی جہنمی ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

58 This sentence can have several meanings: (1) That they neither possess here nor in the Hereafter any right that the people should be invited to .acknowledge their godhead; (2) that they have been made gods by the people themselves without any reason, for they have neither claimed godhead for themselves in this world nor will they put forward any such claim in the Hereafter that they also were gods and should have been acknowledged as such; and (3) that it is no use invoking them here nor in the Hereafter, for they are absolutely powerless and invoking them is of no avail at all. 59 A "transgressor" is every such person who recognizes the godhead of others than Allah, or assumes godhead for himself, or rebels against God and adopts an attitude of independence in the world, and then commits excesses against himself, against other creatures of God and against everything else with- which he has to deal. Such a person, in fact, transgresses all limits of reason and justice.

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :58 اس فقرے کے کئی معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ان کو نہ دنیا میں یہ حق پہنچتا ہے اور نہ آخرت میں کہ ان کی خدائی تسلیم کرنے کے لیے خلق خدا کو دعوت دی جائے ۔ دوسرے یہ کہ انہیں تو لوگوں نے زبردستی خدا بنایا ہے ورنہ وہ خود نہ اس دنیا میں خدائی کے مدعی ہیں ، نہ آخرت میں یہ دعویٰ لے کر اٹھیں گے کہ ہم بھی تو خدا تھے ، تم نے ہمیں کیوں نہ مانا ۔ تیسرے یہ کہ ان کو پکارنے کا کوئی فائدہ نہ اس دنیا میں ہے نہ آخرت میں ، کیونکہ وہ بالکل بے اختیار ہیں اور انہیں پکارنا قطعی لا حاصل ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :59 حد سے گزر جانے کا مطلب حق سے تجاوز کرنا ہے ۔ ہر وہ شخص جو اللہ کے سوا دوسروں کی خدائی مانتا ہے یا خود خدا بن بیٹھتا ہے ، یا خدا سے باغی ہو کر دنیا میں خود مختاری کا رویہ اختیار کرتا ہے ، اور پھر اپنی ذات پر ، خلق خدا پر اور دنیا کی ہر اس چیز پر جس سے اس کو سابقہ پیش آئے ، طرح طرح کی زیادتیاں کرتا ہے ، وہ حقیقت میں عقل اور انصاف کی تمام حدوں کو پھاند جانے والا انسان ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جن بتوں کو تم پوجتے ہو، خودان میں صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنے پوجنے کی دعوت دیں، اور یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ جن کو تم پوجنے کی ہمیں دعوت دے رہے ہو، وہ اس دعوت کے ہرگز لائق نہیں ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:43) لاجرم : بےشک۔ یقینا : حق و صحیح بات یہی ہے ۔ سچ بات تو یہ ہے ۔ لاجرم کی لغوی تحقیق میں کئی اقوال منقول ہیں۔ لیکن بقول امام راغب (رح) ان میں سے اکثر تحقیق کی رو سے صحیح نہیں ہیں۔ المنجد میں ہے لا جرم ولا جرم۔ یعنی ضروری، یقین ، ناگزیر، سبھی قسم کے معنی دیتا ہے۔ قرآن مجید میں تقریبا انہی معنوں میں مستعمل ہے :۔ مثلا (1) لاجرم انھم فی الاخرۃ ہم الاخسرون (11:22) بلاشبہ یہ لوگ آخرت میں سے سب زیادہ نقصان پانے والے ہیں۔ (2) لاجرم انھم فی الاخرۃ ہم الخسرون (16:109) کچھ شک نہیں کہ یہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والے ہوں گے۔ (3) لاجم انما تدعوننی الیہ لیس لہ دعوۃ فی الدنیا ولا فی الاخرۃ (40:43 آیت ہذا) سچی بات تو یہ ہے کہ (سچ تو یہ ہے کہ) جس کی (بندگی کی) طرف تو مجھے بلاتے ہو وہ پکارے جانے کے قابل نہ دنیا میں ہے نہ آخرت میں۔ (الخازن، بیضاوی، کشاف نے بھی لاجرم بمعنی حق ہی لیا ہے) ۔ مردنا : مضاف مضاف الیہ۔ مرد : ردیرد (باب نصر) سے مصدر میمی ہے ۔ نا ضمیر جمع متکلم۔ ہمارا لوٹ جانا۔ پھرجانا۔ پھرنا۔ یعنی مرنے کے بعد ہم سب کا اللہ کے پاس لوٹ جانا ہے۔ المسرفین : اسم فاعل جمع مذکر مسرف واحد۔ نیز ملاحظہ ہو 40:28 متذکرۃ الصدر۔ ح سے گذرنے والے۔ لاجرم ۔۔ اصحب النار : میں ان مرددنا اور ان المسرفین کا عطف انما تدعوننی پر ہے ۔ یعنی سچی بات تو یہ ہے کہ (1) جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو وہ پکارے جانے کے قابل نہ دنیا میں ہے نہ آخرت میں ۔ (2) اور یہ کہ ہم سب کو اللہ کی طرف ہی لوٹنا ہے۔ (3) اور یہ کہ مسرفین سب ہی دوزخی ہوں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی اور نہ آخرت میں کسی کی سفارش کرسکتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

48:۔ ” لاجرم “ یہ یقینی اور قطعی بات ہے کہ جن خود ساختہ معبودوں کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو وہ پکارے جانے کے قابل نہ دنیا میں ہیں نہ آخرت میں۔ وہ نہ تو دنیا میں کسی کی فریاد پکار سن سکتے ہیں اور نہ آخرت میں کسی کے کام آسکیں گے اور یقیناً ہم سب کو اللہ کی طرف لوٹنا ہے اور حد سے گذرنے والے (مشرکین) قطعاً جہنم کا ایندھن ہوں گے اس لیے میں تمہاری بات مان کر کیوں جہنم میں اپنا ٹھکانا بناؤں ؟ یعنی لیست لہ (استجابۃ دعوۃ لا حد فی الدنیا ولا فی الخرۃ (خازن ج 6 ص 80) ۔ ” المسرفین “ قال قتادۃ وابن سیرین یعنی المشرکین (قرطبی ج 15 ص 317) ۔ 49:۔ ” فستذکرون “ اس مرد مومن نے آخر میں انتہائی دلسوزی سے کہا : آج تو تم میری باتوں کی پرواہ نہیں کر رہے ہو، لیکن جب دنیا میں یا آخرت میں تم پر اللہ کا عذاب آئے گا تو تم اس وقت میری باتوں کو یاد کروگے اور کہو گے کہ واقعی ہمارا بھائی سچ کہتا تھا، اس نے جو کچھ کہا وہ بالکل ٹھیک اور درست تھا۔ اچھا خدا حافظ ! میں اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ اپنے بندوں کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(43) یہ یقینی بات ہے کہ تم مجھ کو اس کی طرف بلاتے ہو جو اپنی طرف بلانے اور دعوت دینے کی صلاحیت نہ دنیا میں رکھتا ہے اور نہ آخرت میں یعنی اس کا بلاوا کہیں نہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ ہم سب کی بازگشت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے اور کچھ شک نہیں کہ جو حد سے تجاوز کرنے والے اور زیادتی کرنے والے ہیں وہی اہل جہنم ہیں۔ لیس لہ دعوۃ کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ وہ نہ دنیا میں کسی ضرورت کے وقت پکارے جانے کے قابل ہیں اور نہ آخرت میں پکارے جانے کے لائق ہیں اور جب ہم سب کی بازگشت یقینی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف ہے تو ہم کو صرف ایسے معبود کی ضرورت ہے جو دنیا میں تو کام آتا ہی ہے وہ آخرت میں بھی کام آئے نہ دو کہ نہ یہاں کسی کی سنے اور نہ آخرت میں کسی کے سنے اور کسی پکارکر قبول کو قبول کرنے کے قابل ہی نہ ہو۔ غرض جب یہ بات صاف ہوگئی کہ جو لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں یعنی توحید کی حد سے گزر کر شرک کی حد میں داخل ہوجانے والے ہی لوگ اہل جنم میں سے ہیں۔ اب آگے اس نے پھر تہدید کے طور پر انجام سے ڈرایا۔