Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 56

سورة مومن

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُجَادِلُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِ اللّٰہِ بِغَیۡرِ سُلۡطٰنٍ اَتٰہُمۡ ۙ اِنۡ فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ اِلَّا کِبۡرٌ مَّا ہُمۡ بِبَالِغِیۡہِ ۚ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۵۶﴾

Indeed, those who dispute concerning the signs of Allah without [any] authority having come to them - there is not within their breasts except pride, [the extent of] which they cannot reach. So seek refuge in Allah . Indeed, it is He who is the Hearing, the Seeing.

جو لوگ باوجود اپنے پاس کسی سند کے نہ ہونے کے آیات الٰہی میں جھگڑا کرتے ہیں ان کے دلوں میں بجز نری بڑائی کے اور کچھ نہیں وہ اس تک پہنچنے والے ہی نہیں سو تو اللہ کی پناہ مانگتا رہ بیشک وہ پورا سننے والا اور سب سے زیادہ دیکھنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي ايَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ... Verily, those who dispute about the Ayat of Allah, without any authority having come to them, means, they try to refute the truth with falsehood, and to refute sound evidence with dubious arguments, having no proof or evidence from Allah. ... إِن فِي صُدُورِهِمْ إِلاَّ كِبْرٌ مَّا هُم بِبَالِغِيهِ ... there is nothing else in their breasts except pride. They will never have it. means, they are too proud to follow the truth and submit to the one who has brought it. But their attempts to suppress the truth and elevate falsehood will fail; the truth will prevail and their words and aspirations will be defeated. ... فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ... So seek refuge in Allah. means, from being like these people, or seek refuge with Him from being like these people who dispute about the Ayat of Allah without any authority having come to them. ... إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ Verily, it is He Who is the All-Hearer, the All-Seer.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 یعنی وہ لوگ جو بغیر آسمانی دلیل کے بحث و حجت کرتے ہیں، یہ محض تکبر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں، تاہم اس سے جو ان کا مقصد ہے کہ حق کمزور اور باطل مضبوط ہو وہ ان کو حاصل نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٣] اللہ کی آیات سے مراد :۔ آیات الٰہی سے مرادیہاں دلائل توحید اور دلائل بعث بعد الموت ہیں۔ کیونکہ انہی دو باتوں میں کفار مکہ زیادہ تر تکرار کرتے تھے اور فضول قسم کی بحث اور استہزاء کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے پاس کوئی عقلی دلیل تو ہے نہیں جس کی بنیاد پر وہ مدلل بحث کرسکیں بلکہ ان کے جھگڑا کی اصل وجہ ان کا تکبر ہے۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم نے رسول کی بات مان لی تو پھر ہمیں اس کا مطیع بن کر رہنا پڑے گا۔ اور یہی پندار نفس ان کے ایمان لانے میں آڑے آرہا ہے۔ مگر جس بڑا بنے رہنے کی انہیں فکر دامنگیر ہے وہ بڑائی ان کے پاس رہ نہیں سکتی۔ کیونکہ عزت اور ذلت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والا کبھی عزت نہیں پاسکتا۔ جس بلند مقام پر وہ آپنے آپ کو کھڑا سمجھ رہے ہیں لازماً انہیں اس مقام سے نیچے اترنا اور ذلیل ہونا پڑے گا۔ [٧٤] یعنی ان جھگڑا کرنے والے متکبرین کے شر سے بچنے کے لئے اللہ سے پناہ مانگتے رہیے۔ جو ان کی ہر ایک سازش اور ہر ایک شرارت کو دیکھ بھی رہا ہے اور ان کی باتوں کو سن بھی رہا ہے۔ پھر انہیں سزا دینے اور ان کے شر سے آپ کو بچانے کی پوری قدرت بھی رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ان الذین یجادلون فی ایت اللہ …: اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو ٹھکرانے کے لئے جھگڑتے اور کج بحثی کرتے ہیں اس کا سبب یہ نہیں کہ ان آیات کو سمجھنا کچھ مشکل ہے، یا ان کے مضامین (توحید، قیامت اور رسالت وغیرہ) کے لئے بیان کردہ دلائلکم یا کمزور ہیں، بلکہ اس کا باعث ان لوگوں کا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور اپنے مقام سے بہت اونچا بننے کی خواہش و کوشش ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی رسول پر ایمان لا کر اس کے تابع فرمان ہونا انہیں گوارا ہے۔ چناچہ وہ اپنی جھوٹی بڑائی برقرار رکھنے کے لئے رسول کو جھٹلاتے ہیں، حق کا انکار کرتے ہیں، مسلمانوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور انہیں نیچا دکھانے کے لئے ہر ذلیل سے ذلیل حربہ اختیار کرتے ہیں۔ (٢) ماھم ببالغیہ :” بائ “ کے ساتھ ” ما “ نافیہ کی تاکید ہو رہی ہے، اس لئے ترجمہ کیا گیا ہے ” جس تک وہ ہرگز پہنچنے والے نہیں۔ “ یعنی ان جھوٹے اور حقیر لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں اپنے لئے جو بڑائی سوچ رکھی ہے وہ انہیں ہرگز میسر نہیں ہو سکے گی اور نہ ہی وہ کسی صورت اس مقام تک پہنچنے والے ہیں۔ (٣) فاستعذ باللہ : یعنی جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کی طرف سے قتل کی دھمکی پر ہر متکبر سے رب تعالیٰ کی پناہ مانگی، جو یوم حساب پر ایمان نہ رکھتا ہو، اسی طرح آپ بھی ایسے تمام متکبروں اور ان کی ظاہری مخالفت اور پوشیدہ سازشوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں۔ (٤) ان ھو السمیع البصیر : وہی ہے جو ہر بلند اور آہستہ آہستہ بات کو سنتا اور ہر ظاہر اور پوشیدہ کو دیکھتا ہے۔ وہی آپ کو ہرق سم کے نقصان سے بچا سکتا ہے اور بچائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 56, it was said: إِن فِي صُدُورِ‌هِمْ إِلَّا كِبْرٌ‌ مَّا هُم بِبَالِغِيهِ (there is nothing in their hearts but pride of greatness that they are not [ able ] to reach). It means that people who quarrel in the matter of the verses of Allah without having any valid argument really look forward to rejecting this faith simply because their hearts are filled with pride and arrogance. They would like to stay ahead in the game and are so dim-witted that they have taken for granted that they have this position of strength as a result of their staunch adherence to their faith, and if they were to surrender this stance by becoming Muslims, they will be left without any power and territory of their own. The Qur&an said: مَّا هُم بِبَالِغِيهِ (they are not [ able ] to reach), that is, these people will never reach the goals of their assumed pride, greatness and state power without embracing Islam. However, had they embraced Islam, honor and greatness would have followed in their footsteps. (Qurtubi)

(آیت) اِنْ فِيْ صُدُوْرِهِمْ اِلَّا كِبْرٌ مَّا هُمْ بِبَالِغِيْهِ ۔ یعنی یہ لوگ جو اللہ کی آیات میں بغیر کسی حجت و دلیل کے جدال کرتے ہیں، اور مقصد دراصل اس دین سے انکار کرنا ہے جس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان کے دلوں میں تکبر ہے۔ یہ اپنی بڑائی چاہتے ہیں اور اپنی بےوقوفی سے یوں سمجھے ہوئے ہیں کہ یہ بڑائی ہمیں اپنے مذہب پر قائم رہنے سے حاصل ہے، اس کو چھوڑ کر مسلمان ہوجائیں گے تو ہماری یہ ریاست و اقتدا نہ رہے گا۔ قرآن کریم نے فرما دیا کہ مّا هُمْ بِبَالِغِيْهِ یعنی وہ اپنی مزعومہ بڑائی عظمت اور ریاست کو اسلام لائے بغیر نہ پاسکیں گے۔ البتہ اسلام لے آئے تو عزت و عظمت ان کے ساتھ ہوتی۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِ اللہِ بِغَيْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىہُمْ۝ ٠ ۙ اِنْ فِيْ صُدُوْرِہِمْ اِلَّا كِبْرٌ مَّا ہُمْ بِبَالِغِيْہِ۝ ٠ ۚ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۝ ٥٦ جدل الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] ( ج د ل ) الجدال ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ: يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه . ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔ كَبِيرَةُ ، گناه، مشكل والْكَبِيرَةُ متعارفة في كلّ ذنب تعظم عقوبته، والجمع : الْكَبَائِرُ. قال : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] ، وقال : إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] قيل : أريد به الشّرک لقوله : إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] . وقیل : هي الشّرک وسائر المعاصي الموبقة، کالزّنا وقتل النّفس المحرّمة، ولذلک قال : إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] ، وقال : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219] . وتستعمل الکبيرة فيما يشقّ ويصعب نحو : وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة/45] ، وقال : كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری/ 13] ، وقال : وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام/ 35] ، وقوله : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف/ 5] ففيه تنبيه علی عظم ذلک من بين الذّنوب وعظم عقوبته . ولذلک قال : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف/ 3] ، وقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] إشارة إلى من أوقع حدیث الإفك . وتنبيها أنّ كلّ من سنّ سنّة قبیحة يصير مقتدی به فذنبه أكبر . وقوله : إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر/ 56] ، أي تكبّر . وقیل : أمر كَبِيرٌ من السّنّ ، کقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] الکبیرۃ ۔ عرف میں اس گناہ کو کہتے ہیں جس کی سزا بڑی سخت ہو ۔ اس کی جمع الکبائر آتی ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ اور آیت ؛ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے ۔ اجتناب رکھو ۔ میں بعض نے کہا ہے ۔ کہ کبائر سے مراد شرک ہے ۔ کیونکہ دوسری آیت ۔ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ؛میں شرک کو ظلم عظیم کہا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہ ے کہ کبائر کا لفظ ۔ شر ک اور تمام مہلک گناہوں کو شامل ہے ۔ جیسے زنا اور کسی جان کا ناحق قتل کرنا جیسا کہ فرمایا :إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے ۔ قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة/ 219] کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں ۔ مگر ان کے نقصان فاہدوں سے زیادہ ہیں ۔ اور کبیرۃ اس عمل کو بھی کہتے ہیں جس میں مشقت اور صعوبت ہو ۔ چناچہ فرمایا : وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة/بے شک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جو عجز کرنے والے ہیں ۔ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری/ 13] جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ ان کو دشوار گزرتی ہے ۔ وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام/ 35] اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے اور آیت کریمہ : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف/ 5]( یہ ) بڑی بات ہے ۔ میں اس گناہ کے دوسرے گناہوں سے بڑا اور اس کی سزا کے سخت ہونے پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ جیسے فرمایا : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف/ 3] خدا اس بات سے سخت بیزار ہے ۔ اور آیت : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ۔ میں تولی کبرہ سے مراد وہ شخص ہے جس نے افک کا شاخسانہ کھڑا کیا تھا اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص کسی برے طریقے کی بنیاد ڈالے اور لوگ اس پر عمل کریں تو وہ سب سے بڑھ کر گنہگار ہوگا ۔ اور آیت :إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر/ 56]( ارادہ ) عظمت ہے اور اس کو پہنچنے والے نہیں ۔ میں بکر کے معنی بھی تکبر ہی کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے ہر بڑا امر مراد ہے ۔ اور یہ کبر بمعنی پیرا نہ سالی سے ماخوذ ہے جیسا کہ آیت ۔: وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور/ 11] بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ عوذ العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ع و ذ) العوذ ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ بصیر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة : بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔ اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جو لوگ بلا کسی سند کے جو اللہ کی جانب سے ان کے پاس موجود ہو یعنی یہودی رسول اکرم اور قرآن کریم کے بارے میں جھگڑے نکالا کرتے ہیں۔ اور یہ لوگ رسول اکرم سے دجال کی صفت اور اس بات پر کہ میں خروج دجال کے وقت پھر ان لوگوں کو سلطنت دوں گا اس میں بھی مباحثہ کیا کرتے تھے ان کے دلوں میں صرف اللہ سے برائی ہی برائی ہے اور وہ اس بڑائی تک کبھی نہیں پہنچ سکتے کہ خروج دجال کے وقت پھر ان کو بادشاہت ملے تو آپ دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگتے رہیں۔ وہ ان یہودیوں کی باتوں کو سننے والا اور ان کو اور ان کے اعمال کو اور خروج دجال اور اس کے فتنہ کو جاننے والا ہے۔ شان نزول : اِنَّ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ (الخ) ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے کہ یہودی رسول اکرم کی خدمت میں آئے اور دجال کا ذکر کیا اور کہنے لگے وہ آخری زمانہ میں ہوگا اور اس کی حالت کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا اور کہنے لگے کہ وہ ایسا ایسا کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دجال کے فتنہ سے پناہ مانگنے کا حکم دیا اور فرمایا آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا دجال کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے اور کعب احبار سے اس آیت مبارکہ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ آیات خداوندی سے جھگڑنے والے یہ یہودی ہیں یہ دجال کے نکلنے کے منتظر تھے اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ { اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰٹہُمْ } ” یقینا وہ لوگ جو اللہ کی آیات میں جھگڑے ڈالتے ہیں بغیر کسی سند کے جو ان کے پاس آئی ہو “ { اِنْ فِیْ صُدُوْرِہِمْ اِلَّا کِبْرٌ مَّا ہُمْ بِبَالِغِیْہِ } ” نہیں ہے ان کے دلوں میں کچھ ‘ مگر تکبر جس تک وہ پہنچنے والے نہیں ہیں۔ “ ان کے دلوں میں صرف بڑائی کی خواہش ہے ‘ جو کبھی پوری نہیں ہوگی۔ { فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِط اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ } ” پس آپ اللہ کی پناہ طلب کیجیے ‘ یقینا وہ سب کچھ سننے والا ‘ ہرچیز کو دیکھنے والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

75 That is, `The real cause for their opposition without any argument and Their irrational, crooked argumentation is not that they do not understand the myths and the themes of goodness and reform being presented before there in the form of the Revelations of Allah; therefore, they dispute about them in good faith in order to understand them; but the actual reason for their wrong attitude is that Their self-conceit dces not permit them tolerate that while they are living in Arabia the guidance and leadership of Muhammad (upon whom be Allah's peace) be accepted and acknowledged and ultimately one day they themselves should have to accept the leadership of the person as against whom they think they have a greater right to be the chiefs and leaders. That is why they are straining every nerve not to let Muhammad (upon whom be Allah's peace) have his way, and they do not hesitate to use any mean device whatever for the purpose. 76 In other words it means: `He whom Allah has made great, will remain great, and the efforts of the small people who are trying to establish their superiority, will ultimately end in failure." 77 That is, `Just as Moses had become free from fear and anxiety after invoking Allah Almighty's help and refuge against Pharaoh's threats, so should you also seek His help and refuge against the threats and conspiracies of the chiefs of the Quraish, and then should busy yourself in raising His word being free from every anxiety."

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :75 یعنی ان لوگوں کی بے دلیل مخالفت اور ان کی غیر معقول کج بحثیوں کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ کی آیات میں جو سچائیاں اور خیر و صلاح کی باتیں ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہیں وہ ان کی سمجھ میں نہیں آتیں اس لیے یہ نیک نیتی کے ساتھ ان کو سمجھنے کی خاطر بحثیں کرتے ہیں ، بلکہ ان کے اس رویہ کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کا غرور نفس یہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ان کے ہوتے عرب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشوائی و رہنمائی تسلیم کر لی جائے اور بالآخر ایک روز انہیں خود بھی اس شخص کی قیادت ماننی پڑے جس کے مقابلے میں یہ اپنے آپ کو سرداری کا زیادہ حقدار سمجھتے ہیں ۔ اسی وجہ سے یہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کسی طرح نہ چلنے پائے ، اور اس مقصد کے لیے انہیں کوئی ذلیل سے ذلیل حربہ استعمال کرنے میں بھی کوئی تامل نہیں ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :76 دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ جس کو اللہ نے بڑا بنایا ہے وہی بڑا بن کر رہے گا ، اور یہ چھوٹے لوگ اپنی بڑائی قائم رکھنے کی جو کوششیں کر رہے ہیں وہ سب آخر کار ناکام ہو جائیں گی ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :77 یعنی جس طرح فرعون کی دھمکیوں کے مقابلے میں اللہ واحد قہار کی پناہ مانگ کر موسیٰ بے فکر ہو گئے تھے ، اسی طرح سرداران قریش کی دھمکیوں اور سازشوں کے مقابلے میں تم بھی اس کی پناہ لے لو اور پھر بے فکر ہو کر اس کا کلمہ بلند کرنے میں لگ جاؤ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16 یعنی ان کو اپنے بارے میں جو گھمنڈ ہے کہ ہم کوئی بہت اونچے درجے پر فائز ہیں، یہ سراسر غلط ہے، نہ وہ اس وقت کسی بڑے مرتبے پر ہیں، اور نہ کبھی ایسے کسی مرتبے پر پہنچ پائیں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:56) ان الذین ۔۔ اتھم : ملاحظہ ہو 40:35 متذکرہ الصدر۔ ان فی صدورھم میں ان نافیہ ہے۔ کبر۔ اسم مصدر۔ غرور، باوجود بڑا نہ ہونے کے اپنے کو بڑا سمجھنا۔ ما ہم ببالغیہ : ما نافیہ ہے ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع الذین یجادلون ہے۔ بالغی اسم فاعل واحد مذکر کا صیغہ ہے۔ بلغ یبلغ (باب نصر) بلوغ مصدر سے۔ مضاف ہ ضمیر واحد مذکر غائب مضاف الیہ۔ اس کا مرجع کبر ہے۔ بوجہ اضافت نون حذف ہوگیا۔ جس تک وہ کبھی پہنچنے والے ہی نہیں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں میں تکبر ہے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غالب آنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن وہ بڑائی تک کبھی بھی پہنچ نہیں سکیں گے۔ فاستعذ باللّٰہ : پس آپ (ان کی شرارتوں سے) اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے۔ العوذ : (باب نصر) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا۔ العوذۃ اصل میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ سے کسی چیز سے بچاؤ حاصل کیا جائے۔ اسی سے تعویذ (باب تفعیل) ہے۔ استعذ اصل میں استعوذ تھا۔ واؤ کا کسرہ ما قبل کو دیا اور واؤ حذف کردی۔ استعذ ہوگیا۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ استعاذۃ مصدر جس کے معنی پناہ مانگنا کے ہیں۔ تو پناہ مانگ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی وہ جو یہ چاہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اونچے ہو کر رہیں اور انہیں اپنے سامنے جھکا لیں، اس میں وہ ہرگز کامیاب نہ ہو سکیں گے۔ ( کذافی الموضح)7 یعنی ان کی شرارتوں اور دھمکیوں کے مقابلے میں اللہ واحد وقہار کی پناہ مانگئے۔ جیسا کہ فرعون کی دھمکی کے مقابلے میں موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی پناہ مانگی تھی اور پھر بالکل بےفکر ہوگئے تھے۔ ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ وہ اپنی صفات کمال سے اپنی پناہ میں آئے ہوئے کو محفوظ رکھے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح راہنمائی آجانے کے باوجود جو لوگ اس کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں۔ درحقیقت ان لوگوں کے دلوں میں کبر ہوتا ہے۔ جو لگ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں۔ ان کے پاس جھگڑا کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ سوائے اس کے کہ ان کے دلوں میں یہ خواہش اور کوشش ہے کہ حق پر غالب آجائیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑا بن جائیں۔ مگر ان کی خواہش کبھی پوری نہ ہو پائے گی۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” آپ “ ہر قسم کے کبر، فخر سے پناہ مانگیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ اس فرمان میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے ساتھ جھگڑا کرنے والوں کے پاس تکبر کے سوا کوئی معقول وجہ نہیں ہوتی۔ کِبر کی بنیاد عام طور پر دو باتوں پر ہوتی ہے۔ پہلی وجہ ہے کہ آدمی دوسرے کو اپنے آپ سے نیچ سمجھے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تکبر کرنے والا اپنے نظریات کو سچی بات پر مقدم جانتا ہے۔ اہل مکہ میں دونوں گناہ پائے جاتے تھے ان کا کہنا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے واقعی ہی کسی شخص کو نبی بنانا ہوتا تو وہ عمرو بن ہشام (ابوجہل) یا پھر طائف کے سردار اس لائق تھے کہ ان میں سے کسی کو نبی بنایا جاتا۔ مکہ والوں میں یہ کبر بھی پایا جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کیا ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہنے پر اپنے آباء اجداد کا دین چھوڑ دیں۔ اس کبر کی وجہ سے مکہ کے کئی سردار ہدایت سے محروم رہے۔ اللہ تعالیٰ کو کبر پسند نہیں۔ اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آپ اللہ کے حضور کبر سے پناہ مانگا کریں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ کون کس نیت کے ساتھ بات کرتا ہے اور حق کی مخالفت کرتا ہے اور حق کی مخالفت کرنے والے دل میں کیا جذبات چھپے ہوئے ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ (رض) عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَکُونَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَنَعْلُہٗ حَسَنَۃً قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ )[ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ایک آدمی نے عرض کی کہا بلاشبہ ہر آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَتَعَوَّذُ بِہَؤُلاَءِ الْکَلِمَاتِ کَانَ یَقُول اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْہَرَمِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَسُوءِ الْکِبَرِ وَفِتْنَۃِ الدَّجَّالِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ )[ رواہ النسائی : باب الاستعاذۃ من شر الکبر ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کلمات کے ساتھ پناہ مانگا کرتے تھے ” اے اللہ ! میں سستی، بڑھاپے، بزدلی، بخیلی، تکبر کی برائی، دجّال کے فتنہ اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانا یا ان کا انکار کرنا آیات کے ساتھ جھگڑا کرنے کے مترادف ہے۔ ٢۔ تکبر انسان کو حق بات قبول کرنے نہیں دیتا۔ ٣۔ تکبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن کِبر کا گناہ اور اس کے نقصانات : ١۔ اللہ تعالیٰ فخر و غرور کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ٣٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے جو تمہیں دیا ہے اس پر نہ اتراؤ اللہ فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید : ٢٣) ٣۔ زمین میں اکڑ اکڑ کر نہ چل تو زمین کو پھاڑ نہیں سکتا۔ (بنی اسرائیل : ٣٧) ٤۔ زمین میں اکڑاکڑکر نہ چل اللہ تعالیٰ اترانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (لقمان : ١٨) ٥۔ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جو دنیا میں تکبر اور فساد نہیں کرتے۔ (القصص : ٨٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 225 ایک نظر میں یہ سبق اپنے موضوع اور مضمون کے اعتبار سے پوری طرح سابق سبق سے بالکل مربوط اور یکساں ہے۔ اس سبق میں وہی مضمون آگے چلتا ہے جو پہلے سبق کے آخر میں چھوڑا گیا تھا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی جاتی ہے کہ لوگ دعوت اسلامی کی جو ناحق تکذیب کرتے ہیں۔ آپ اس پر صبر کریں۔ آپ اس پر صبر کریں۔ وہ آپ کو ایذا دیتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو اسلام کی طرف آنے سے روکتے ہیں ، یہ سب کچھ وہ اپنے جھوٹے فخرو غرور کی وجہ سے کررہے ہیں۔ اس کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ لوگ بغیر دلیل وبرہان کے اللہ کی آیات میں کیوں جھگڑتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ ہیں تو بہت چھوٹے اور بونے مگر اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں اور یہ کبران کے دلوں میں بیٹھا ہے اور حق کو تسلیم کرنے سے مانع ہورہا ہے۔ چناچہ ان کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ تم بڑے ہو یا اللہ کی بنائی ہوئی یہ کائنات بڑی ہے۔ ذرا آسمانوں کی دوریوں پر غور کرو اور اس زمین پر غور کروم تمہیں نظر آجائے گا کہ تم کتنے بڑے ہو۔ یہ سبق آگے بڑھتا اور اس کائنات کی بعض نشانیوں کو بیان کرتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ دیکھو ان عظیم نشانیوں کو اس چھوٹے اور کمزور انسان کے لیے مسخر کردیا گیا ہے۔ پھر یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انسانی ذات پر اللہ نے جو فضل وکرم کیے ہیں۔ ذرا ان پر غور کرو ، کیا یہ سب چیزیں اللہ وحدہ کے دجود اور اس کی بادشاہت اور وحدانیت پر مکمل دلیل نہیں ہیں۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جاتا ہے کہ آپ کلمہ توحید بلند کریں اور ان الہوں سے منہ پھیرلیں جن کی پرستش یہ لوگ کرتے ہیں۔ اس سبق کا خاتمہ ایک ایسے خوفناک منظر کے ساتھ ہوتا ہے جو قیامت کے مناظر میں سے ہے۔ ان کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے وہاں ان سے پوچھا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ تمہارے الہہ۔ اور اس کا خاتمہ بھی درس سابق کے خاتمہ کی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس تلقین پر ہوتا ہے کہ آپ صبر فرمائیں۔ چاہے اللہ آپ کو اسلامی انقلاب کا کچھ دکھاوے ، یا آپ کو اٹھالے۔ قبل اس کے کہ نصرت آئے۔ یہ معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور سب نے اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ درس نمبر 225 تشریح آیات آیت نمبر 56 تا 60 یہ انسان بسا اوقات اپنے آپ کو بھول جاتا ہے ، یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اس کائنات کی ایک چھوٹی اور ضعیف مخلوق ہے۔ یہ بذات خود قوت کا سرچشمہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی قوت دراصل قوت کے اصلی سرچشمے سے اخذ کرتا ہے ، یعنی اللہ سے۔ جب اللہ سے اس کا رابطہ کٹ جا ات ہے تو پھر وہ پھولنا سوجنا شروع ہوجاتا ہے ، اونچا ہونا اور سرکش ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اور اس کے دل میں یہ بیٹھنا شروع ہوجاتی ہے کہ وہ کوئی بہت بڑی چیز ہے اور اس کی یہ سوچ شیطان سے اخذ ہوتی ہے جو اس کبر ہی کے وجہ سے زاندۂ درگاہ ہوا اور پھر اللہ نے اسے انسان پر مسلط کردیا ، جس پر وہ ہر طرف سے حملہ آور ہوتا ہے۔ یہ انسان پھر اللہ کی نشانیوں کے بارے میں جھگڑتا رہتا ہے اور ہٹ دھرمی کرتا ہے۔ یہ ہٹ دھرمی ایک ایسی صفت ہے جس سے انسان کی فطرت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ اس قسم کا انسان خود اپنے آپ کو اور لوگوں کو یہ یقین دلاتا ہے کہ وہ حق کے لیے تحقیق وتفتیش کررہا ہے اور بحث اس لیے کررہا ہے کہ اسے تسلی نہیں ہوئی۔ اور اسے پوراپورا یقین نہیں ہے لیکن اللہ تو اپنے بندوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ سمیع وبصیر ہے اور دل کے رازوں کا جاننے والا ہے ، یہ اللہ فیصلہ فرماتا ہے کہ یہ کبر کی وجہ سے ہے صرف اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ یہ کبر دل میں جاگزیں ہوتا ہے اور یہ کسی شخص کو ایسے مسئلے میں جھگڑے پر آمادہ کردیتا ہے جو جھگڑے کا ہوتا نہیں ہے۔ یہ کبر ہی ہے جو انسان کو ایسے کاموں میں ہاتھ ڈالنے پر آمادہ کرتا ہے جو انسان کی حقیقت سے زیادہ اونچے ہوتے ہیں ، انسان ایسے مقام تک پہنچنے کی سعی کرتا ہے جو اس سے بلند ہوتا ہے اور انسانی حقیقت سے بالاتر ہوتا ہے۔ انسان کے پاس اس کے لیے نہ دلیل ہوتی ہے اور نہ وجہ جواز۔ صرف اس کبر کی وجہ سے وہ اس طرح کی اونچی پرواز شروع کردیتا ہے ، ایسے ہی لوگ ہیں۔ ان الذین۔۔۔۔ ھم ببالغیه (40: 56) ” حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ کسی سند اور حجت کے بغیر جو ان کے پاس آئی ہو ، اللہ کی آیات میں جھگڑا رہے ہیں ، ان کے دلوں میں کبر بھرا ہے ، مگر وہ اس بڑائی کو پہنچنے والے نہیں ہیں جن کا وہ گھمنڈ رکھتے ہیں “۔ اگر انسان اس کائنات کو اچھی طرح سمجھ لے اور اپنی ذات کی معرفت حاصل کرلے اور اس کائنات میں اپنی حیثیت کا ادراک کرے رو وہ مطمئن ہوجائے اور اپنی حیثیت اور منصب سے آگے نہ بڑھے۔ اگر وہ یہ معلوم کرے کہ وہ ان لاتعداد موجودات میں سے ایک ہے اور جس طرح یہ پوری کائنات امرربی کی پابند ہے ، اس طرح وہ بھی ہے اور وہ بھی اللہ کے نظام قضا وقدر کے مطابق چل رہا ہے جسے صرف اللہ جانتا ہے اور یہ کہ کائنات میں اس کا کردار ایک متعین کردار ہے ، اگر انسان ان حقائق کا ادراک کرے تو وہ مطمئن اور آرام سے بیٹھ جائے اور اس کا سر قدرے جھک جانے اور اس کے اندر تواضع پیدا ہوجانے اور وہ اپنے آپ کے ساتھ ، اس کائنات کے ساتھ اور اپنے ماحول کے ساتھ نہایت امن وسلامتی کے ساتھ رہے۔ فاستعذباللہ انه ھو السمیع البصیر (40: 56) ” پس اللہ کی پناہ مانگ لو وہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے “۔ کبر کے مقابلے میں اللہ کی پناہ مانگنے کا مشورہ دینا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ بہت ہی قبیح اور قابل نفرت خصلت ہے۔ کیونکہ اللہ کی پناہ نہایت ہی قبیح اور ناپسندیدہ چیز سے مانگی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں شروفساد اور اذیت ملتی ہے۔ اور کبر میں یہ سب چیزیں موجود ہیں۔ کبر خود صاحب کبر کے لیے مصیبت ہے اور اس کے ماحول کے لیے بھی مصیبت ہے۔ جس دل میں کبر ہو ، اس کے لیے بھی اذیت ہے اور دوسروں کے دلوں کو بھی دکھانے والی عادت ہے۔ لہٰذا کبر ایک ایسا شر اور فساد ہے جس سے اللہ کی پناہ مانگنا ضروری ہے۔ انه ھو السمیع البصیر (40: 56) ” وہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے “۔ کبر انسان کو ایسی حرکات پر آمادہ کرتا ہے جو دیکھی جاسکتی ہیں اور انسان سے ایسی باتیں کرواتا ہے جو سنی جاسکتی ہیں اس سے بچنے کیلیے اپنے آپ کو سننے اور دیکھنے والے کی ولایت میں دے دو ۔ اس کے بعد انسان کو بتایا جاتا ہے کہ اس عظیم کائنات میں اس کا حقیقی مقام کیا ہے ، اور اللہ کی بعض مخلوقات جسے انسان دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں وہ کس قدر چھوٹا اور کمزور ہے۔ اور یہ چیزیں جن کا یہاں ذکر ہورہا ہے۔ سدیکھتے ہی انسان ان کی ضخامت کا قائل ہوجاتا ہے۔ اور جب ان کی پوری حقیقت ان کی سمجھ میں آجائے تو ان کا شعور اور پختہ ہوجاتا ہے۔ لخلق السمٰوٰت۔۔۔۔ یعلمون (40: 57) ” آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے مقابلے میں یقیناً زیادہ بڑا کام ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں “۔ آسمان اور زمین انسان کے سامنے بچھے ہوئے ہیں اور انسان ان کو دیکھتا ہے۔ اور انسان کی طاقت میں ہے یہ بات کہ وہ ان کے حوالے سے اپنی قدر و قیمت معلوم کرے۔ جب انسان کو اس زمین و آسمان کے حوالے سے اپنی نسبت ، آسمانوں کی دوریاں اور افلاک سماوی کے حجم کا علم ہوتا ہے تو اس کا سرجھک سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اپنی کم مائیگی کے شعور کی وجہ سے وہ پگھل کر رہ جائے الایہ کہ وہ انسان کے اس شرف کو یاد کرے جو اللہ نے اس کے اندر رکھا ہے اور جس کی وجہ سے انسان کو مکرم بنایا گیا ہے۔ وہ واحد صفت ہے جس کی وجہ سے انسان اس کائنات کی عظمت کے سامنے کھڑا ہوسکتا ہے کیونکہ کائنات بہت ہی عظیم اور ہولناک ہے اور وہ بہت ہی چھوٹا ہے۔ اس عظیم کائنات کے اور اوپر ایک لمحہ غور کرنا انسان کو یہ سب کچھ معلوم کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ زمین جس کے اوپر ہم رہتے ہیں۔ یہ سورج کے تابع ستاروں میں سے ایک چھوٹا ساستارہ ہے۔ اس سورج کے تابع ستاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور یہ زمین سورج سے دس لاکھ چھوٹی ہے۔ پھر یہ سورج اس قسم کے سوملین سورجوں میں سے ایک ہے ، جو ہمارے قریب ترین کہکشاں میں ہیں۔ اور ہم بھی اسی کہکشاں میں ہیں ، اور انسانوں نے آج تک سو ملین کہکشاں دریافت کرلیے ہیں جو اس عظیم فضا میں تیر رہے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ یہ اس فضا کا نہایت ہی چھوٹاحصہ ہوں۔ جہاں تک انسانی معلومات کا تعلق ہے تو انسان نے ابھی تک کائنات کے ایک مختصر اور قابل ذکر حصے کی دریافت کی ہے اور یہ چھوٹا ساحصہ بھی اس قدر بڑا ہے کہ صرف اس کے تصور ہی سے انسان کا سر چکراتا ہے۔ ہم اپنے سورج سے تقریباً 93 ملین میل دور ہیں اور یہ سورج ہماری اس چھوٹی سی زمین کے کنبے کا سرخیل ہے۔ اور یہ زمین بھی اپنی اس ماں کی جھولی سے یعنی سورج سے 93 ملین دور ہے۔ یہ زمین سورج ہی سے جدا ہوئی ہے۔ وہ کہکشاں جس کے تابع یہ سورج ہے ، اس کا قطر تقریباً ایک لاکھ ملین نوری سال ہے۔ اور نوری سال چھ سو ملین میل ہوتا ہے کیونکہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ ہوتی ہے۔ اور ہماری کہکشاں سے فریب ترین کہکشاں ایک لاکھ سات سو پچاس ہزار نوری سال دور ہے۔ ہمیں یہاں یہ بات پیش نظر چاہئے کہ یہ دوریاں اور حجم وہ ہیں جو اس حقیر انسان نے دریافت کرلیے ہیں اور اس کے ساتھ انسان نے یہ بھی دریافت کرلیا ہے وہ حقیقت کا نہایت ہی چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لخلق السمٰوٰت۔۔۔۔ یعلمون (40: 57) ” آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسان کو پیدا کرنے کی یہ نسبت یقیناً زیادہ بڑا کام ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں “۔ اللہ کی قدرت کوئی بات نہ بڑی ہے اور نہ چھوٹی ، نہ مشکل ہے اور نہ آسان۔ وہ تو ہر چیز کی تخلیق ایک کلمہ سے کرتا ہے۔ یہ صفات تو اشیاء کی ہیں۔ لوگ انہیں کم دیکھتے ہیں یا زیادہ ، آسان دیکھتے یا مشکل ۔ پھر انسان اور اس ہولناک سرچکر دینے والی کائنات کی باہم کیا نسبت ہے ؟ اس کم مائیگی کے باوجود پھر انسان کا یہ کبر ! وما یستوی۔۔۔۔ المسیئ (40: 58) ” اور یہ نہیں ہوسکتا کہ اندھا اور بینا یکساں ہوجائیں اور ایماندار اور صالح اور بدکار برابر ٹھہریں “۔ صاحب بصارت تو دیکھتا ہے اور اسے علم ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی قدروقیمت بھی جانتا ہے۔ حد سے نہیں گزرتا ، پھولتا نہیں اور نہ تکبر کرتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے ، اندھا نہ دیکھتا ہے اور نہ خود اپنی قدروقیمت جانتا ہے ، نہ اپنی پوزیشن جانتا ہے اور نہ اپنے ماحول کے ساتھ اپنی نسبت کو جانتا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے وہ اپنے بارے میں غلط اندازہ کرتا ہے۔ پھر اپنے ماحول کے بارے میں غلط فیصلہ کرتا ہے۔ اور ان اندازوں کی وجہ سے پھر وہ راہ بھول جاتا ہے۔ اس طرح مومن و صالح اور بدکار برابر نہیں ہوسکتے۔ مومن دیکھنے والے اور جاننے والے ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنا اور اپنے ماحول کا صحیح اندازہ کرتے ہیں ، جبکہ کافر اور بدکار جاہل ہوتے ہیں۔ وہ ہر چیز کو برباد کردیتے ہیں ۔ اپنے آپ کو ، اپنے ماحول کو ، لوگوں کو ، اور سب سے پہلے وہ اپنے عمل اور فہم کو برباد کردیتے ہیں۔ وہ اپنے ماحول کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوسکتے ۔ اندھے ہوتے ہیں ، دلوں کے اندھے۔ قلیلا ماتتذکرون (40: 58) ” مگر تم لوگ کم ہی سمجھتے ہو “۔ اگر ہم سمجھتے تو ہمیں حقیقت معلوم ہوتی۔ بات واضح ہے۔ صرف یاد دہانی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم آخرت پر پختہ یقین رکھتے اور اسے یاد کرتے اور مقامات قیامت کو ذہین میں رکھتے اور وہاں کی حاضری ہمارے ذہین میں ہوتی تو ہم پختہ مومن ہوتے۔ ان الساعة ۔۔۔۔ یومنون (40: 59) ” یقیناً قیامت آنے والی ہے۔ اس کے آنے میں کوئی شک نہیں مگر اکثر لوگ نہیں مانتے “۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ کی آیات میں مجادلہ کرتے ہیں اور کبر کرتے ہیں۔ ورنہ اگر مانتے اور یقین کرتے تو وہ حق کو پہنچانتے۔ وہ جانتے کہ حق کے حوالے سے ان کا کیا مقام ہے۔ اس لیے تجاوز نہ کرتے۔ صرف اللہ کی طرف متوجہ ہونا اور بندگی کرنا ، اور نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ کو پکارنا ، انسام کو اس کبر سے بچاتا ہے ، جس کی وجہ سے انسان پھول جاتا ہے اور بغیر حجت کے اللہ کی آیات میں جھگڑا کرنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے اپنے دروازے کھولتا ہے تاکہ ہم اس کی طرف متوجہ ہوں اور اس کو پکاریں اور اعلان فرماتا ہے کہ میں ہر پکارنے والے کی پکارکو قبول کرنا اپنے اوپر لکھ دیا ہے۔ اور ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو اللہ کی پکار کے مقابلے میں تکبر کرتے ہیں کہ وہ آگ میں ذلیل و خوار ہوں گے۔ وقال ربکم۔۔۔۔۔ دخرین (40: 60) ” تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو ، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ، ضرور وہ ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے “۔ یہ یاد رہے کہ دعا کے بھی آداب ہیں اور ان کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ قلب کو اللہ کے لیے خالص ہونا چاہئے ، کوئی صورت متعین کیے بغیر مانگنا چاہئے اور اس یقین کے ساتھ مانگنا چاہئے کہ اللہ ضرور قبول فرماتا ہے۔ قبولیت کے ظروف واحوال اور زمان ومکاں متعین نہ کرنا چاہئے کیونکہ یہ آداب دعا کے سراسر خلاف ہے۔ اور یہ یقین کرنا چاہئے کہ دعاء کی توفیق صرف اللہ ہی دیتا ہے۔ یہ بھی ایک انعام ہے ، قبول ہونا دوسرا انعام ہے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں ” میں استجابت دعا کی پریشانی اٹھا کر نہیں پھرتا ، میری ذمہ داری توبہ ہے کہ دعا کروں۔ جو مجھے یہ توفیق دے دی گئی اور یہ الہام کردیا گیا کہ دعا کرو تو قبولیت ساتھ ہوتی ہے “۔ دعاء تو عارف کے دل کی بات ہوتی ہے ، عارف اس بات کو جانتا ہے کہ جس خدا نے دعا کو مقدر کیا وہی قبولیت کا فیصلہ بھی کرتا ہے۔ جب اللہ توفیق دے تو دعاء اور قبولیت دونوں باہم موافق اور مطابق اور ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ جو لوگ اللہ کی طرف متوجہ ہونے سے کبر کرتے ہیں تو ان کی سزا یہ ہے کہ جہنم میں خوار اور ذلیل کرکے پھینکے جائیں اور کبر کی سزا اللہ کے ہاں یہی ہے جس کی وجہ سے انسان پھولتا ہے۔ ایک چھوٹا سا انسان ، اس چھوٹی سی زمین پر اور اس چھوٹی سی زندگی میں ۔ اور یہ شخص اللہ کی عظیم تخلیق کو بھول جاتا ہے ، اللہ کی عظمت کو بھول جاتا ہے اور آخرت کو بھول جاتا ہے جبکہ یہ آنے والی ہے ، اور وہاں پھرا سے ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں گرنا ہوگا۔ جب ان لوگوں کا ذکر ہوا جو اللہ کی بندگی کرنے اور اسے پکارنے سے کبر کرتے ہیں تو اس حوالے سے اللہ کی بعض نعمتوں کا ذکر کردیا گیا۔ وہ نعمتیں جو اللہ کی عظمت کی گواہ ہیں اور اس قسم کے متکبر ان پر اللہ کا شکر نہیں بجالاتے بلکہ اللہ کی عبادت کرنے ، اسے پکارنے اور اس کی طرف متوجہ ہونے سے کبر کرتے ہیں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کی آیات میں جھگڑا کرنے والوں کے سینے میں کبر ہے پھر فرمایا کہ جو لوگ اللہ کی آیات میں بغیر کسی دلیل کے جھگڑا کرتے ہیں قرآن کو نہیں مانتے اور آپ کی تکذیب کرتے ہیں ان کے سینوں میں بس تکبر گھسا ہوا ہے وہ اپنے تکبر کی وجہ سے خیال کرتے ہیں کہ ہم غالب ہوجائیں گے حالانکہ وہ غالب ہونے والے نہیں ہیں آپ اللہ کی پناہ لیجیے بلاشبہ وہ سمیع اور بصیر ہے۔ معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہمارا مسیح یعنی دجال آخر زمانے میں نکلے گا اس کے ذریعہ ہمارا ملک واپس مل جائے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی کہ ان کے سینوں میں تکبر نے جگہ پکڑ رکھی ہے اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم غالب ہوجائیں گے حالانکہ وہ غالب نہیں ہوسکتے ان کے لیے تو یہ فرمایا کہ وہ جس چیز کا لالچ کر رہے ہیں اس تک نہیں پہنچ سکتے اور آپ کو حکم دیا کہ آپ اللہ کی پناہ لیں اس میں دجال سے پناہ لینا بھی داخل ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

58:۔ ” ان الذین یجادلون “ یہ مجالدہ اور کٹ حجتی کرنے والوں پر زجر ہے۔ جو لوگ اللہ کی آیتوں میں دلیل و حجت کے بغیر جھگڑتے ہیں، وہ محض جدی اور معاند ہیں۔ اصل میں ان کے دلوں میں کبر و غرور ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر وہ پیغمبر (علیہ السلام) کو مان لیں تو انہیں متبع اور فرمانبردار بننا پڑے گا اور اس طرح ان کی سرداری اور بڑائی جاتی رہے گی۔ لیکن اگر پیغمبر (علیہ السلام) کو نہ مانیں تو ان کی عظمت و ریاست قائم رہے گی۔ فرمایا ان کا یہ خیال خام ہے پیغمبر (علیہ السلام) کی مخالفت وعداوت سے وہ اپنی بڑائی اور عظمت کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ ہم ان کی اس آرزو کو خاک میں ملا دیں گے اور دنیا میں ان کو ذلیل ورسوا کردیں گے۔ ھؤلاء قوم راو انہم ان اتبعوا النبی صلی اللہ علی ہو سلم قل ارتفاعہم ونقضت احوالہم وانہم یرتفعون اذا لم یکونوا تبعا، فاعلم اللہ عز وجل انہم لا یبلغون الارتفاع الذی املوہ بالتکذیب (قرطبی ج 15 س 324) ۔ 59:۔ ” فاستعذ باللہ “ آپ ان معاندین کی شرارتوں اور کج بحثیوں پر برافروختہ نہ ہوں، بلکہ صبر و تحمل سے کام لیں، اگر کسی وقت بتقاضائے بشریت طبیعت میں تیزی آجائے تو آپ اس سے اللہ کی پناہ مانگیں قالہ الشیخ (رح) تعالیٰ ۔ یا مطلب یہ ہے کہ ان حساد اور معاندین کے مکر و فریب سے اللہ کی پناہ مانگیں کیونکہ وہی سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ وہ معاندین کے جدال و خصام سے بھی باخبر ہے اور آپ کے حال سے بھی۔ ہر ایک کو اس کے حال کے مطابق جزاء وسزا دے گا۔ انہ ھو السمیع البصیر، یہ ماقبل کے لیے علت ہے یعنی اسی سے پناہ اس لیے مانگیں کہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا وہی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(56) بلا شبہ وہ لوگ جو بغیر کسی سند اور دلیل کے جو ان کو پہنچی جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں جھگڑے نکالا کرتے ہیں ان لوگوں کے دلوں میں کچھ نہیں مگر بڑا بننے کی ایک ایسی خواہش ہے کہ جس خواہش کے پورا ہونے تک یہ کبھی پہنچنے والے نہیں۔ اے پیغمبر آپ ان کے شر سے پناہ مانگتے رہیے بلا شبہ وہی سننے والا دیکھنے والا ہے۔ اہل تفسیر کا قول ہے کہ یہ آیت یہود کے بارے میں ہے وہ سرداری اور حکومت چاہتے تھے بعض نے کہا کفار مکہ مراد ہیں کیونکہ ہی روز روز جھگڑے نکالا کرتے تھے۔ بہرحال ! بغیر سند اور بغیر دلیل عقل نقلی کے جھگڑا کرتے ہیں اور آیات الٰہی میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں تو ان لوگوں کے دلوں میں صرف غرور اور بڑا بننے کی خواہش ہے حالانکہ یہ خواہش ان کی پوری ہونے والی نہیں چونکہ ان کی خواہشات کا مبنی غلط ہے تو ان کی شرارتیں بھی ناقابل اعتبار ہیں آپ اللہ سے پناہ مانگا کیجئے وہ نہایت سننیے ووالا دیکھنے والا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں غرور یہ کہ اس پیغمبر سے ہم اوپر رہیں یہ ہونا نہیں۔ خلاصہ : یہ کہ جھگڑا اس لئے پیدا کرتے ہیں کہ ہم کس طرح اس پیغمبر کی بات کو نیچا کردیں اور ہم سر بلند ہوجائیں یہ ہونا نہیں یعنی اس خواہش کے پورا ہونے تک پہنچنے والی نہیں پس آپ ان کی شرارتوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کیجئے وہی تمہارے اقوال کو سنتا اور تمہارے افعال کو دیکھتا ہے۔