Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 58

سورة مومن

وَ مَا یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ ۬ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ لَا الۡمُسِیۡٓءُ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَتَذَکَّرُوۡنَ ﴿۵۸﴾

And not equal are the blind and the seeing, nor are those who believe and do righteous deeds and the evildoer. Little do you remember.

اندھا اور بینا برابر نہیں نہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور بھلے کام کئے بدکاروں کے برابر ہیں تم ( بہت ) کم نصیحت حاصل کر رہے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And not equal are the blind and those who see; nor are those who believe, and do righteous good deeds, and those who do evil. Little do you remember! The blind man who cannot see anything is not the same as the sighted man who can see everything as far as his eyesight reaches -- there is a huge difference between them. By the same token, the righteous believers and the immoral disbelievers are not equal. قَلِيلً مَّا تَتَذَكَّرُونَ (Little do you remember!), means, most of the people remember little.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

58۔ 1 مطلب ہے جس طرح بینا اور نابینا برابر نہیں، اسی طرح مومن و کافر اور نیکوکار اور بدکار برابر نہیں بلکہ قیامت کے دن ان کے درمیان جو عظیم فرق ہوگا، وہ بالکل واضح ہو کر سامنے آئے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٦] ایک دنیا دار اور متقی کے کردار کا موازنہ :۔ یہ بعث بعد الموت پر دوسری دلیل ہے۔ یعنی ایک شخص اپنا تمام طرز زندگی وحی الٰہی کی روشنی میں استوار کرتا ہے۔ اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے ہر طرح کے مصائب برداشت کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ پھر اپنی زندگی اور اپنی خواہشات پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کرتا ہے جو حکم الٰہی کے مطابق ضروری تھیں۔ ہمیشہ راست بازی اور دیانتداری سے کام لیتا ہے۔ کسی کو نہ فریب دیتا ہے نہ کسی پر زیادتی کرتا ہے اور ایک شریف انسان کی طرح اللہ سے ڈرتے ہوئے محتاط زندگی گزار رہا ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کے پاس تقلید آباء اور جہالت کی تاریکیوں کے سوا کچھ نہیں۔ اپنے نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے وہ لوگوں کے حقوق پر ڈاکے ڈالتا ہے۔ اس کی زندگی کا اصول مفاد پرستی ہوتا ہے۔ جس کی خاطر وہ ہر طرح کی زیادتی کرنے پر ہر وقت آمادہ رہتا ہے۔ پھر اس کے سامنے اللہ کے حضور جواب دہی کا تصور ہوتا ہی نہیں۔ اس کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ جس طرح سے بھی اور جتنی بھی دنیا اکٹھی کرلی جائے اور عیش و عشرت کرلی جائے بس وہی غنیمت ہے۔ تو بتاؤ کہ کیا ان دونوں کا انجام ایک جیسا ہی ہونا چاہئے۔ کہ دونوں مر کر مٹی ہوجائیں۔ نہ نیک انسانوں کو ان کے اچھے اعمال کا صلہ ملے اور نہ بدکردار لوگوں کو ان کی کرتوتوں کی سزا ملے ؟ اور اگر تمہارے خیال میں یہ دونوں شخص ایک جیسے نہیں اور دونوں کا انجام ایک جیسا نہ ہونا چاہئے تو پھر ضروری ہے کہ انسان کو دوسری زندگی دی جائے جس میں اسے اس کے اعمال کا اچھا یا برا بدلہ دیا جاسکے۔ گویا اصل دلیل کا ماحصل یہ تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے اور دوسری دلیل کا ماحصل یہ ہے کہ ایسا ہونا چاہئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وما یستوی الاعی و البصیر…: یہ بھی قیامت کی دلیل ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اندھا اور بینا برابر نہیں، اسی طرح وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے صالح عمل کئے اور جنہوں نے کفر کیا اور برے عمل کئے، دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ تو اگر قیامت کا انکار کیا جائے اور اس دن پر ایمان نہ رکھا جائے جس میں سب لوگ دوبارہ زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے اور ہر نیک و بد کو اس کی جزا یا سزا ملے گی، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ بینا و نابینا ایک ہیں اور نیک و بد برابر ہیں۔ بلکہ ایک حساب سے برے اعمال کرنے والا زیادہ فائدہ میں ہے کہ وہ ساری عمر من مانی بھی کرتا رہا۔ دل میں آنے والی ہر بری خواشہ بھی پوری کرتا رہا، اس کے باوجود کسی نے نہ اسے پوچھا نہ پوچھے گا کہ تم نے یہ ظلم وتعدی کیوں اختیار کئے رکیھ۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہوسکتا عقل سلیم اس کا انکار کرتی ہے۔ اس لئے لازم ہے کہ قیامت قائم اور بینا و نابینا برابر نہ ہوں اور نہ ہی نیک و بد یکساں ہوں۔ (٢) یہاں ایک سوال ہے کہ ” والذین امنوا وعملوا الصلحت “ جمع ہے، جب کہ اس کا مقابل ” ولا المسٰٓنی “ واحد ہے اس میں کیا حکمت ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کے بیان کا حسن ہے کہ ایک لمبی بات کو مختصر الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے۔ اس کے لئے ایک جانب کے الفاظ کر کئے گئے ہیں اور ان کے مقابل حذف کر کردیئے گئے ہیں۔ اسے بلاغت کی اصطلاح میں احتباک کہتے ہیں۔ گویا پوری عبارت یہ تھی ” وما یستوی الذین امنوا و عملوا الصالحات والذین کفروا و عملوا الفتالح و لا المسی، والمحسن “ یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے صالح عمل کئے اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہو قبیع عمل کئے وہ برابر نہیں اور نہ ہی برائی کرنے والا اور نیکی کرن والا برابر ہے۔ (مہاتمی کچھ تصیل کے ساتھ) (٣) قلیلاً ماتذکرون : منکرین قیامت کو فرمایا تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو، حالانکہ قیامت کے دن بالکل واضح ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ۝ ٠ۥۙ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَلَا الْمُسِيْۗءُ۝ ٠ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَتَذَكَّرُوْنَ۝ ٥٨ استوا أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] ( س و ی ) المسا واۃ کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے عمی العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ( ع م ی ) العمی ٰ یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة/ 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ تَّذْكِرَةُ : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ التذکرۃ جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور کافر و مومن ثواب و اعزاز میں اور اسی طرح جو لوگ رسول اکرم اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور انہوں نے اعمال صالحہ کیے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والا دونوں برابر نہیں ہوسکتے تم لوگ بہت ہی کم باتوں سے نصیحت حاصل کرتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ { وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُ } ” اور برابر نہیں ہوسکتے اندھے اور آنکھوں والے “ { وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَلَا الْمُسِیْٓئُ } ” اور (نہ برابر ہوسکتے ہیں) وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور وہ جو بدکار ہیں۔ “ { قَلِیْلًا مَّا تَتَذَکَّرُوْنَ } ” بہت ہی کم ہے جو کہ تم سبق حاصل کرتے ہو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

80 This is an argument for the necessity of 'the Hereafter. In the preceding sentence it was said that the Hereafter can take place, and its .occurrence is not impossible; in this it is being said that the Hereafter should take place; it is the demand of both reason and justice that it should occur, and its nonoccurrence is against reason and justice, not its occurrence. After all, how can a reasonable man believe it to be right that those who live like the blind in the world and fill God's earth with mischief by their immoral and wicked deeds, should not see the evil end of their misdeeds and wrong conduct; likewise, those people who pass their lives in the world with open eyes, and believe and do good works, should be deprived of seeing a good result of their righteousness? If this is expressly against reason and justice, then the belief of denying the Hereafter also should be against reason and justice, for the non-occurrence of the Hereafter means that the good and the bad should both become dust after death and meet with one and the same end. For in this case, not only are reason and justice destroyed but morality also is proved to be meaningless and absurd. For if good and evil have one and the same end and destiny, then the evildoer would be highly wise, because he gratified all his desires before his death, and the good tnan highly foolish because he kept himself subjected to every sort of moral restoration without any reason.

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :80 یہ وجوب آخرت کی دلیل ہے ۔ اوپر کے فقرے میں بتایا گیا تھا کہ آخرت ہو سکتی ہے ، اس کا ہونا غیر ممکن نہیں ہے ۔ اور اس فقرے میں بتایا جا رہا ہے کہ آخرت ہونی چاہیے ، عقل اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہو ، اور اس کا ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا خلاف عقل و انصاف ہے ۔ آخر کوئی معقول آدمی اس بات کو کیسے درست مان سکتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں اندھوں کی طرح جیتے ہیں اور اپنے برے اخلاق و اعمال سے خدا کی زمین کو فساد سے بھر دیتے ہیں وہ اپنی اس غلط روش کا کوئی برا انجام نہ دیکھیں ، اور اسی طرح وہ لوگ بھی جو دنیا میں آنکھیں کھول کر چلتے ہیں اور ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں اپنی اس اچھی کار کردگی کا کوئی اچھا نتیجہ دیکھنے سے محروم رہ جائیں؟ یہ بات اگر صریحاً خلاف عقل و انصاف ہے تو پھر یقیناً انکار آخرت کا عقیدہ بھی عقل و انصاف کے خلاف ہی ہونا چاہیے ، کیونکہ آخرت نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ نیک و بد دونوں آخر کار مر کر مٹی ہو جائیں اور ایک ہی انجام سے دوچار ہوں ۔ اس صورت میں صرف عقل و انصاف ہی کا خون نہیں ہوتا بلکہ اخلاق کی بھی جڑ کٹ جاتی ہے ۔ اس لیے کہ اگر نیکی اور بدی کا انجام یکساں ہے تو پھر بد بڑا عقل مند ہے کہ مرنے سے پہلے اپنے دل کے سارے ارمان نکال گیا اور نیک سخت بے وقوف ہے کہ خواہ مخواہ اپنے اوپر طرح طرح کی اخلاقی پابندیاں عائد کیے رہا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٨۔ ٦٠۔ اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا کہ لوگوں کے دوسری بار پیدا کرنے سے آسمان اور زمین کا پیدا کرنا بغیر کسی نمونہ کے عقل کے نزدیک بہت بڑا ہے کیونکہ بڑی چیز کے بنانے میں چھوٹی چیز کے بنانے سے زیادہ قدرت درکار ہے مگر اللہ کے نزدیک چھوٹی بڑی چیز کے بنانے میں کچھ فرق نہیں حاصل یہ کہ جب تم اس کی ایسی ایسی بڑی چیزیں بنائی ہوئی رات دن دیکھ رہے ہو تو پھر کیوں دوسری بار پیدا ہونے کو دشوار جانتے ہو جو صاحب قدرت ایسی بڑی چیزوں کے پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے وہ انسان کے دوسری بار پیدا کرنے پر بطریق اولیٰ قادر ہے پھر کیوں اندھوں کی طرح قیامت سے انکار کرتے ہو اور جو لوگ اس بات کو جانتے ہیں وہ مانند آنکھوں والے شخص کے ہیں اسی واسطے فرمایا جس طرح اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں اسی طرح ایماندار نیک کردار اور کافر بدکار برابر نہیں کیونکہ ایماندار شخص آنکھوں والے شخص کی طرح اللہ کی قدرت کی نشانیوں کو دیکھ کر اللہ کو پہچانتا ہے اور کافر اندھے کی طرح قدرت کی نشانیوں کو نہیں دیکھتا پھر فرمایا یہ اہل مکہ کا اندھا پن اس لئے ہے کہ یہ اللہ کی دی ہوئی سمجھ سے کام نہیں لیتے اگر ذرا بھی سمجھ سے کام لیں تو بت پرستی حشر کے انکار اور ایسی اور نافرمانی کی باتوں کی برائی ان کی اچھی طرح سب کھل جائے پھر فرمایا کہ ان میں کے اکثر لوگ حشر کے منکر ہیں تو ہوں ان کے انکار سے انتظام الٰہی کچھ پلٹ نہیں سکتا بلکہ انتظام الٰہی کے موافق سزا و جزا کے لئے دوبارہ زندہ کرنے کی گھڑی ضرور آنے والی ہے کسی کے انکار سے سے اس کا آنا رک نہیں سکتا اس واسطے اللہ کا حکم سب بندوں کو یہی ہے کہ وہ خالص دل سے اللہ کی عبادت کریں جو کوئی اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا۔ تو اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے حضرت عبد اللہ بن عباس ١ ؎ کے صحیح قول کے موافق یہاں دعا کے معنی خالص دل کی عبادت کے ہیں آیت میں ایک جگہ ادعونی فرما کر پھر عبادتی جو فرمایا اس سے حضرت عبد اللہ بن عباس کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے صحیح سند سے ترمذی ٢ ؎ نسائی ابو دائود ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں نعمان (رض) بن بشیر سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کے معنی عبادت کے فرما کر پھر یہی آیت پڑھی اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد (رض) اللہ بن عباس کی تفسیر اللہ کے رسول کی تفسیر کے موافق ہے حاصل کلام یہ ہے کہ دعا کا لفظ اگرچہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کئی معنی میں فرمایا ہے لیکن جس طرح سورة یونس کی آیت ولاتدع من دون اللہ مالاینفعک ولایضرک میں دعا کے معنی عبادت کے ہیں وہی معنی یہاں ہیں ‘ دعا کے اصلی معنی طلب اور التجا کے ہیں اب ہر بدنی اور مالی عبادت میں آدمی کے دل میں یہ التجا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عبادت کو قبول اور اس کا ثواب عنایت فرمائے جس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی عبادت دعا سے خالی نہیں اسی واسطے اوپر کی نعمان (رض) بن بشیر کی حدیث میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الدعاء ھوا العبادۃ جس کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ کوئی عبادت دعا سے خالی نہیں ہے۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣٥٥ ج ٥۔ ) (٢ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة المومن ص ١٧٩۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:58) یستوی : مضارع واحد مذکر غائب ۔ استواء (افتعال) مصدر برابر ہونا۔ ما یستوی براب نہیں ہے۔ یکساں نہیں ہے۔ اعمی۔ اندھا۔ یعنی جاہل۔ بصیر بینا۔ دیکھنے والا۔ مراد ہے عالم ، دانا۔ الذین امنوا وعملوا الصلحت : وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے۔ المسیئ : اسم فاعل واحد مذکر اساء ۃ (افعال) مصدر۔ سوء مادہ : بدی کرنے والا۔ مراد کافر المسیء سے پہلے لام زائد ہے مطلب یہ کہ جس طرح ایک جاہل اور ایک عالم برابر نہیں ہیں اسی طرح مومن نیکوکار اور کافر بدکار بھی آپس میں برابر نہیں ہیں۔ قلیلا ما تتذکرون : قلیلا مصدر محذوف کی صفت ہے۔ ای تذکرا قلیلا۔ تتذکرون : اس صورت میں ما صلہ زائدہ ہے۔ تم کم نصیحت پکڑتے ہو۔ تم کم دھیان کرتے ہو۔ تم کم سمجھتے ہو۔ علامہ ثناء اللہ پانی پتی (رح) تحریر فرماتے ہیں :۔ قلیلا ما۔ یعنی تم بہت کم سمجھتے ہو۔ تتذکروں مضارع جمع مذکر حاضر۔ تذکر (تفعل) مصدر۔ تم نصیحت پکڑتے ہو۔ تم دھیان کرتے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی جس طرح آخرت پر ایمان رکھنے والے اور اس پر یقین نہ رکھنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ یہی معاملہ ان لوگوں کا بھی ہے جو ایمان لا کر نیک عمل کریں اور جو کفر و شرک کی راہ پر چلتے ہیں۔10 اگر سوچو تو یہ حقیقت بڑی آسانی سے تمہاری سمجھ میں آسکتی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

10۔ اور نہ اعمی اور مسی نہ رہتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بینا اور نابینا اور مومنین صالحین اور برے لوگ برابر نہیں ہوسکتے ان آیات میں قیامت کا آنا ثابت فرمایا ہے اور جو لوگ وقوع قیامت کو مستبعد سمجھتے تھے ان کا استبعاد دور فرمایا قیامت کا انکار کرنے والے یوں کہتے تھے کہ قبروں سے نکل کر دوبارہ کیسے زندہ ہوں گے یہ ان لوگوں کی ناسمجھی اور بیوقوفی کی بات تھی اللہ جل شانہٗ نے ارشاد فرمایا کہ دیکھو یہ آسمان اور یہ زمین اتنی بڑی بڑی چیزیں ہم نے پیدا کیں ایک سمجھ دار منصف آدمی غور کرے گا اس کی سمجھ میں یہی آئے گا کہ مردہ جسم میں جان ڈالنا خالق ارض و سماء کے لیے ذرا بھی بڑی بات نہیں ہے بات تو سیدھی سادی ہے لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ مردوں میں روح دوبارہ آسکتی ہے مزید فرمایا کہ نابینا اور دیکھنے والا برابر نہیں ہوسکتے اس کو تو سبھی سمجھتے ہیں اہل ایمان اور اعمال صالحہ والوں کے مقابلے میں بد کردار برابر نہیں ہوسکتے جب یہ بات سمجھتے ہو تو یہ بھی سمجھو کہ اچھوں کو اچھا بدلہ ملنا ہے اور بروں کو برا بدلہ ملنا ہے لہٰذا قیامت قائم ہونا ضروری ہے تاکہ ہر ایک اپنے اپنے کیے کا بدلہ پالے حقائق سامنے رکھ دئیے جاتے ہیں لیکن تم لوگ کم نصیحت حاصل کرتے ہو بلاشبہ قیامت ضرور قائم ہوگی اس کے آنے میں ذرا شک نہیں ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

61:۔ ” ان الساعۃ “ یہ ثبوت قیامت کا دعوے ہے۔ قیامت لامحالہ آنے والی ہے، اس کے آنے میں کوئی شک نہیں لیکن اس کے باوجود اکثر لوگ یعنی کفار ایسی یقنی اور قطعی چیز کا بھی انکار کرتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(58) اور اندھا اور دیکھتا دونوں برابر نہیں ہوتے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ اور بدکار دونوں برابر نہیں ہوسکتے تم لوگ بہت کم غور کرتے ہو۔ چونکہ دو نظریوں پر بحث ہورہی ہے بعض لوگ غور کرتے ہیں سوچتے ہیں اور حق بات کو مان لیتے ہیں اور بعض نہ غور کرتے ہیں نہ سوچنے کی عادی ہیں اور نہ مانتے ہیں اس لئے دو فرقے بن گئے ہیں دونوں کے عدم مساوات کا اعلان ہے غور کرنے سوچنے اور ایمان لانے والے کو آنکھوں والا اور سوجھا کا فرمایا ہے اور عدم تدبر والوں کو اندھا فرمایا۔ دوسری بات میں صراحتاً فرمایا کہ اہل ایمان جو ایمان لائے اور نیک اعمال کے پابند بھی رہے اور دوسرے بدکردار یعنی کفرو شرک میں مبتلا اور دین حق کے مخالف یہ دونوں برابر نہیں، آخر میں کم غور کرنے اور کم سوچ بچار کو تو بیخاًفرمایا کہ تم بہت کم غور کرتے ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی دوسری بار پیدا ہونا محال جانتے ہو۔