Surat ul Momin

Surah: 40

Verse: 8

سورة مومن

رَبَّنَا وَ اَدۡخِلۡہُمۡ جَنّٰتِ عَدۡنِۣ الَّتِیۡ وَعَدۡتَّہُمۡ وَ مَنۡ صَلَحَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ۙ﴿۸﴾

Our Lord, and admit them to gardens of perpetual residence which You have promised them and whoever was righteous among their fathers, their spouses and their offspring. Indeed, it is You who is the Exalted in Might, the Wise.

اے ہمارے رب! تو انہیں ہمیشگی والی جنتوں میں لے جا جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اولاد میں سے ( بھی ) ان ( سب ) کو جو نیک عمل ہیں یقیناً تو تُو غالب و باحکمت ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدتَّهُم وَمَن صَلَحَ مِنْ ابَايِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ... Our Lord! And make them enter the `Adn (Eternal) Gardens which you have promised them -- and to the righteous among their fathers, their wives, and their offspring! meaning, `bring them together so that they may find delight in one another in neighboring dwellings.' This is like the Ayah: وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَـنٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَأ أَلَتْنَـهُمْ مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَىْءٍ And those who believe and whose offspring follow them in faith, -- to them shall We join their offspring, and We shall not decrease the reward of their deeds in anything. (52:21) This means, `that all of them will be made equal in status. In this way they may delight in one another's company; the one who is in the higher status will not lose anything. On the contrary We will raise the one whose deeds are of a lower status so that they will become equal, as a favor and a blessing from Us.' Sa`id bin Jubayr said that; when the believer enters Paradise, he will ask where his father, son and brother are. It will be said to him, `they did not reach the same level of good deeds as you did'. He will say, `but I did it for my sake and for theirs.' Then they will be brought to join him in that higher degree. Then Sa`id bin Jubayr recited this Ayah: رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدتَّهُم وَمَن صَلَحَ مِنْ ابَايِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ Our Lord! And make them enter the `Adn (Eternal) Gardens which you have promised them -- and to the righteous among their fathers, their wives, and their offspring! Verily, You are the Almighty, the All-Wise. Mutarrif bin Abdullah bin Ash-Shikhkhir said, "The most sincere of the servants of Allah towards the believers are the angels." Then he recited this Ayah: رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدتَّهُم (Our Lord! And make them enter the `Adn (Eternal) Paradises which you have promised them...) He then said, "The most treacherous of the servants of Allah towards the believers are the Shayatin." ... إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ You are the Almighty, the All-Wise. means, `the One Whom none can resist or overwhelm; what You will happens and what You do not will does not happen; You are Wise in all that You say and do, in all that You legislate and decree.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 یعنی ان سب کو جنت میں جمع فرما دے تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ٰ ہوں اس مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا ہے۔ ' وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہی کی پیروی ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ کی۔ ملا دیا ہم نے ان کے ساتھ ان کی اولاد کو اور ہم نے ان کے عملوں میں سے کچھ کم نہیں کیا ' یعنی سب کو جنت میں اس طرح یکساں مرتبہ دے دیا کہ ادنیٰ کو بھی اعلٰی مقام عطا کردیا۔ یہ نہیں کیا کہ اعلٰی مقام میں کمی کر کے انہیں ادنیٰ مقام پر لے آئے، بلکہ اد نیٰ کو اٹھا کر اعلیٰ کردیا اور اس کے عمل کی کمی کو اپنے فضل و کرم سے پورا کردیا (الطور۔ 21)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] جہنم کے عذاب سے بچ جانا بھی بڑی کامیابی ہے :۔ اگرچہ دوزخ کے عذاب سے بچ جانا بھی بہت بڑی کامیابی ہے اور یہ خالصتاً اللہ کی مہربانی اور اس کے فضل سے ہوگا۔ تاہم اگر اللہ تعالیٰ دوزخ سے بچا کر اپنی جنت میں بھی داخل کردے تو یہ اللہ تعالیٰ کا دوسرا بڑا انعام اور اس کی مہربانی ہوگی۔ واضح رہے کہ دوزخ کے عذاب سے بچ جانے کا یہ لازمی نتیجہ نہیں کہ اسے جنت میں داخلہ بھی مل جائے۔ اصحاب اعراف دوزخ کے عذاب سے تو بچا لئے جائیں گے۔ لیکن وہ جنت اور دوزخ کے ایک درمیانی مقام اعراف میں ہوں گے اور وہ اس بات کے منتظر بیٹھے ہوں گے کہ کب ان پر اللہ کی مہربانی ہوتی ہے اور انہیں جنت میں داخلہ کی اجازت ملتی ہے۔ [١٠] کم درجہ والی اولاد کو بھی اللہ والدین سے ملادے گا :۔ آخرت میں ہر شخص کو بس اپنی ہی فکر لاحق ہوگی نہ باپ بیٹے کی طرف توجہ دے سکے گا نہ بیٹا باپ کی طرف۔ کوئی رشتہ دار کسی دوسرے کے کام نہ آسکے گا۔ پھر جب فیصلہ کے بعد نیک لوگوں کو جنت میں داخل کردیا جائے گا اور ان کے بھی کئی درجات ہوں گے۔ تو اس وقت بعض لوگوں کو اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کی یاد آنے لگے گی۔ ان کی بیویاں اور بیٹے بھی اگرچہ اہل جنت میں سے ہی ہوں گے لیکن ان کے درجات نچلے ہوں گے یعنی وہ اپنے والدین کے درجہ کے برابر صالح نہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنی خاص مہربانی سے یا ان فرشتوں کی دعا کی وجہ سے جو اس نے خود ہی فرشتوں کو سکھائی ہوگی، ان کم درجہ والی اولاد کو اونچا درجہ عطا کرکے ان کے والدین سے ملا دے گا۔ اسی طرح بیویوں کو بھی ان کے شوہروں سے ملا دے گا اور سارا کنبہ ایک جگہ اکٹھا ہوجائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ربنا و ادخلھم جنت عدن التی وعدتھم : یعنی گناہوں کی مغفرت اور جہنم سے نجات ہی کافی نہیں، بلکہ انہیں دائمی اقامت والی جنتوں میں داخل فرما، جن کا تونے ان سے وعدہ کیا ہے۔ مزید دیکھیے سورة آل عمران (١٩٤) ۔ (٢) ومن صلح من ابآئھم وزواجھم وذریتھم : اس آیت میں مذکور وعدے کی تفصیل کیلئے دیکھیے سورة رعد (٢٣) اور سورة طور (٢١) (٣) انک انت العزیز الحکیم : یقینا تو ہی سب پر غالب ہے، جسے تو بخشنا چاہے بخش سکتا ہے، کوئی بھی تیرا ہاتھ پکڑ نہیں سکتا اور تو کمال حکمت والا ہے، اپنی حکمت کے تحت ہی تو نے ایمان والوں کو معاف کرنے اور ان کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ان کے والدین اور بیوی بچوں کو جنت میں داخل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَبَّنَا وَاَدْخِلْہُمْ جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدْتَّہُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕـہِمْ وَاَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّيّٰــتِہِمْ۝ ٠ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝ ٨ۙ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ عدن قال تعالی: جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل/ 31] ، أي : استقرار وثبات، وعَدَنَ بمکان کذا : استقرّ ، ومنه المَعْدِنُ : لمستقرّ الجواهر، وقال عليه الصلاة والسلام : «المَعْدِنُ جُبَارٌ» «2» . ( ع د ن ) عدن ( ن ض ) کے معنی کسی جگہ قرار پکڑنے اور ٹہر نے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ عدن بمکان کذا یعنی اس نے فلاں جگہ قیام کیا قرآن میں ہے : ۔ جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل/ 31] یعنی ہمیشہ رہنے کے باغات ۔ اسی سے المعدن ( کان ) ہے کیونکہ کا ن بھی جواہرات کے ٹھہر نے اور پائے جانے کی جگہ ہوتی ہے حدیث میں ہے ۔ المعدن جبار کہ اگر کوئی شخص کان میں گر کر مرجائیں تو کان کن پر اس کی دیت نہیں ہے ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ صلح والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] ( ص ل ح ) الصلاح اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة . ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة/ 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔ ذر الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] ( ذ ر ر) الذریۃ ۔ نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] اور میری اولاد میں سے بھی عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور آپ ان کو انبیاء کرام اور صالحین کے گروہ میں داخل فرمایے جس کا آپ نے ان سے کتاب میں وعدہ فرمایا اور ان کے ماں باپ میں سے جو موحد ہوں بیشک آپ اپنی سلطنت و بادشاہت میں غالب اور اپنے حکم و فیصلہ میں حکمت والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ { رَبَّنَا وَاَدْخِلْہُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدْتَّہُمْ } ” پروردگار ! اور انہیں داخل فرما ناان رہنے والے باغات میں جن کا ُ تو نے ان سے وعدہ کیا ہے “ { وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِ ہِمْ وَاَزْوَاجِہِمْ وَذُرِّیّٰتِہِمْط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } ” اور (ان کو بھی) جو نیک ہوں ان کے آباء و اَجداد ‘ ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے۔ تو ُ یقینا زبردست ہے ‘ کمالِ حکمت والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10 Here again there is the same state of solicitude as referred to in E.N. H above. Obviously. forgiving and saving from Hell by itself amounts to admitting to Paradise. And then soliciting Allah for granting the believers the same Paradise which He Himself has promised theta, seems to be unnecessary, but the angels are so earnest in their desire of well-being for the believers that they go on repeating their good wishes for them although they know that Allah will certainly bless them with these favours in the Hereafter. 11 That is. "Join with them their parents and their wives and children for the comfort of their eyes." This same thing Allah Himself has stated as among the blessings which the believers will be granted in Paradise. For this see Ar-Ra'd: 23 and At-Tur: 21. In the verse of Surah Tur, there is also the explanation that if a person. will deserve a higher rank in Paradise, which his parents will not deserve, he will not be lowered in rank to be joined with them but Allah will raise them to join him in the higher station.

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :10 اس میں بھی وہی الحاح کی کیفیت پائی جاتی ہے جس کی طرف اوپر حاشیہ نمبر 8 میں ہم نے اشارہ کیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ معاف کرنا اور دوزخ سے بچا لینا آپ سے آپ جنت میں داخل کرنے کو مستلزم ہے ، اور پھر جس جنت کا اللہ نے خود مومنین سے وعدہ کیا ہے ، بظاہر اسی کے لیے مومنین کے حق میں دعا کرنا غیر ضروری معلوم ہوتا ہے ، لیکن اہل ایمان کے لیے فرشتوں کے دل میں جذبۂ خیر خواہی کا اتنا جوش ہے کہ وہ اپنی طرف سے ان کے حق میں کلمہ خیر کہتے ہی چلے جاتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ سب مہربانیاں ان کے ساتھ کرنے والا ہے ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :11 یعنی ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ان کے ماں باپ اور بیویوں اور اولاد کو بھی ان کے ساتھ جمع کر دے ۔ یہ وہی بات ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود بھی ان نعمتوں کے سلسلے میں بیان فرمائی ہے جو جنت میں اہل ایمان کو دی جائیں گی ۔ ملاحظہ ہو سورہ رعد آیت 23 ۔ اور سورہ طور آیت 21 ۔ سورہ طور والی آیت میں یہ تصریح بھی ہے کہ اگر ایک شخص جنت میں بلند درجے کا مستحق ہو اور اس کے والدین اور بال بچے اس مرتبے کے مستحق نہ ہوں تو اس کو نیچے لا کر ان کے ساتھ ملانے کے بجائے اللہ تعالیٰ ان کو اٹھا کر اس کے درجے میں لے جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(40:8) وادخلہم : ادخل فعل امر حاضر واحد مذکر۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر تو ان کو داخل کر۔ ادخال (افعال) مصدر۔ جنت عدن بالتی وعدتھم۔ اگر عدن علم ہے جیسا کہ بعض علماء کا خیال ہے (اور وہ اس آیۃ کو دلیل میں پیش کرتے ہیں کیونکہ یہاں معرفہ کو اس کی صفت لایا گیا ہے) اس صورت میں جنت عدن ترکیب اضافی ہے بمعنی عدن کے باغات۔ اور اگر عدن کو عدن یعدن (باب ضرب) یا عدن یعدن (باب نصر) کا مصدر لیا جاوے تو ترکیب توصیفی ہے جنت موصوف اور عدن صفت یعنی ایسے باغات جہاں مستقل طور پر رہنا اور بسنا ہو۔ ترجمہ ہوگا :۔ (اے پروردگار ان کو) جنت عدن (میں داخل فرما) جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ ومن صلح۔ واؤ عاطفہ ہے۔ من موصولہ۔ اس کا عطف ادخلہم کی ضمیر ہم پر ہے۔ ای وادخل معہم ھؤلاء اور ان کے ساتھ ان کو بھی داخل فرما۔ صلح ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب صلاح صلوح مصدر (باب نصر، فتح) نیک ہونا ، نیکی کرنا۔ صلاح کا مقابلہ قرآن مجید میں کہیں فساد سے کیا گیا ہے۔ مثلا ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا (7:56) اور ملک میں اس کی اصلاح کے بعد خرابی مت مچاؤ۔ اور کہیں اس کا مقابلہ سیئۃ سے ہے مثلا خلطوا عملا صالحا واخر سیئا (9:102) انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جلا (خلط ملط) کردیا۔ یہاں من صلح سے مراد وہ اشخاص ہیں جو (جنت میں داخل ہونے کی) صلاحیت رکھتے ہوں یعنی جو ایمان رکھنے والے ہوں خواہ ان سے گناہ کا ارتکاب ہوا ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” اگرچہ بہشت ہر کسی کو ملتی ہے۔ اپنے عمل سے جو رو، بیٹا اور ماں باپ کام نہیں آتا لیکن تیری حکمتیں ایسی بھی ہیں کہ ایک کے سبب سے کتنوں کو درجہ پر پہنچا دے۔ اپنے عمل سے زیادہ اور شاید بدلہ ہو اپنے ہی عمل کا وہ عمل یہ کہ آرزو رکھتے ہوں کہ ہم بھی اس کی چال چلیں۔ یہ نیت قبول پڑجاوے۔ ( موضح) سعید بن جبیر (رح) کہتے ہیں کہ اہل جنت جب جنت میں چلے جائیں گے تو اپنے عزیزوں کو یاد کرینگے۔ ان سے کہا جائے گا کہ ان کے اعمال تمہاری طرح کے نہ تھے ( اس لئے انہیں کم درجہ میں رکھا گیا ہے۔ ) وہ کہیں گے کہ ہم نے اپنے لئے اور ان کے لئے عمل کئے تھے تب انکے عزیزوں کو بھی انکے ساتھ کردیا جائے گا۔ ( ابن کثیر) مگر اس کی شرط یہ ہے کہ وہ عزیز ایمان اور عمل صالح کی صفات سے متصف ہوں۔ جیسا کہ آیت ” واتبعتھم ذریتھم بایمان الحقنا بھم ذریتھم وما التنا ھم من عملھم من شی) سے واضح ہوتا ہے ( دیکھئے سورة طور آیت 21)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی آپ مغفرت پر قادر ہیں اور ہر ایک کے مناسب اس کو درجہ عطا فرماتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ ” ربنا وادخلہم الخ “ ربنا کا اعادہ بعد عہد کی وجہ سے ہے۔ اے ہمارے پروردگار، ان کو ان جنات عدن میں داخل فرما جن کا تو نے ایمان اور عمل صالح پر ان سے وعدہ فرما رکھا ہے اور ان کے ساتھ ان کے ماں باپ، ان کی بیویوں اور ان کی آل اولاد کو بھی جنت میں داخل فرما جنہوں نے ضد نہیں کی اور ان کی پیروی میں ایمان قبول کیا اور نیک عمل بجا لائے۔ بیشک تو غالب ہے جو چاہے کرسکتا ہے، حکمت والا ہے، کسی کو متبوع اور کسی کو تابع بنا کر جنت میں داخل کرسکتا ہے۔ ” ومن صلح الخ “ بیٹا ایمان لے آیا، ماں باپ نے ضد نہ کی اور بالتبع بیٹے کی وجہ سے ایمان لے آئے۔ کا وند کی تبعیت میں بیوی یا ماں باپ کی تبعیت میں اولاد ایمان لے آئی۔ جب انہوں نے ضد نہ کی اور بالتبع ایمان لے آئے تو ان کا یہ ایمان قبول ہوگا اور وہ بالتبع جنت میں داخل ہوں گے۔ قالہ الشیخ قدس سرہ والظاھر العطف علی الاول والدعاء بالادخال فیہ صریح وفی الثانی ضمنی والظاہر ان المراد بالصلاح الصلاح لمصحح لدخول الجنۃ وان کان دون صلاح لمتبوعین (روح ج 24 ص 48) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) اے ہمارے پروردگار آپ ان کو ان دائمی باغوں میں داخل کردیجئے جن کا آپ نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے ماں باپ اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے بھی جو لوگ جنت کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کو بھی ان کے ساتھ جنت میں داخل کردیجئے بلاشبہ آپ کمال قوت اور کمال حکمت کے مالک ہیں۔