Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 10

سورة حم السجدہ

وَ جَعَلَ فِیۡہَا رَوَاسِیَ مِنۡ فَوۡقِہَا وَ بٰرَکَ فِیۡہَا وَ قَدَّرَ فِیۡہَاۤ اَقۡوَاتَہَا فِیۡۤ اَرۡبَعَۃِ اَیَّامٍ ؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِیۡنَ ﴿۱۰﴾

And He placed on the earth firmly set mountains over its surface, and He blessed it and determined therein its [creatures'] sustenance in four days without distinction - for [the information] of those who ask.

اور اس نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیئے اور اس میں برکت رکھ دی اور اس میں ( رہنے والوں ) کی غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کر دی ( صرف ) چار دن میں ضرورت مندوں کے لئے یکساں طور پر ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا ... He placed therein firm mountains from above it, and He blessed it, means, He blessed it and gave it the potential to be planted with seeds and bring forth produce. ... وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا ... And measured therein its sustenance, means, what its people need of provision and places in which to plant things and grow crops. This was on Tuesday and Wednesday, which together with the two previous days add up to four days. ... فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاء لِّلسَّايِلِينَ in four Days equal for all those who ask. meaning, for those who want to ask about that, so that they might know. Ikrimah and Mujahid said concerning the Ayah: وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا (and measured therein its sustenance): "He placed in every land that which is not suited for any other land." Ibn Abbas, Qatadah and As-Suddi said, concerning the Ayah, سَوَاء لِّلسَّايِلِينَ (equal for all those who ask): this means, "For whoever wants to ask about that." Ibn Zayd said: وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاء لِّلسَّايِلِينَ (and measured therein its sustenance in four Days equal for all those who ask). "According to whatever a person who is need of provision wants, Allah measures out for him what he needs." This is like what they said concerning the Ayah: وَاتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ And He gave you of all that you asked for, (14:34) And Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 یعنی پہاڑوں کو زمین میں سے ہی پیدا کر کے ان کو اس کے اوپر گاڑ دیا تاکہ زمین ادھر یا ادھر نہ ڈولے۔ 10۔ 2 یہ اشارہ ہے پانی کی کثرت، انواع و اقسام کے رزق، معدنیات اور دیگر اسی قسم کی اشیاء کی طرف یہ زمین کی برکت ہے، کثرت خیر کا نام ہی برکت ہے 10۔ 3 اقوات، قوت غذا، خوراک کی جمع ہے یعنی زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات کی خوارک اس میں مقدر کردی ہے یا بندوبست کردیا ہے اور رب کی اس تقدیر یا بندوبست کا سلسلہ اتنا وسیع ہے کہ کوئی زبان اسے بیان نہیں کرسکتی کوئی قلم اسے رقم نہیں کرسکتا اور کوئی کیلکولیٹر اسے گن نہیں سکتا بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ہر زمین کے دوسرے حصوں میں پیدا نہیں ہوسکتیں تاکہ ہر علاقے کی یہ مخصوص پیداوار ان ان علاقوں کی تجارت و معیشت کی بنیادیں بن جائیں چناچہ یہ مفہوم بھی اپنی جگہ صحیح اور بالکل حقیقت ہے۔ 10۔ 4 یعنی تخلیق کے پہلے دو دن اور وحی کے دو دن سارے دن ملا کر یہ کل چار دن ہوئے، جن میں یہ سارا عمل تکمیل کو پہنچا۔ 10۔ 5 سوآء کا مطلب ہے۔ ٹھیک چار دن میں ہوا۔ یعنی پوچھنے والوں کو بتلا دو کہ یہ عمل ٹھیک چار دن میں ہوا۔ یا پورا یا برابر جواب ہے سائلین کے لئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] زمین کی اشیاء سے انتفاع کا یکساں حق اور حق ملکیت :۔ بعض علماء نے (سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ 10۝) 41 ۔ فصلت :10) کا یہ ترجمہ کیا ہے && برابر ہے واسطے پوچھنے والوں کے && (شاہ رفیع الدین) && ٹھیک جواب پوچھنے والوں کو && (احمد رضا خان) انسانی تاریخ کا ایک بنیادی اور اہم سوال یہ بھی رہا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق کیونکر ہوئی ؟ ان آیات میں اسی بنیادی سوال کا جواب دے کر فرمایا کہ ایسا سوال کرنے والوں کے اطمینان کے لیے اتنا جواب کافی ہے۔ اور اس جملہ کا دوسرا ترجمہ جو اوپر درج کیا گیا ہے، بہت سے علماء اور مفسرین اس ترجمہ کے بھی موّید ہیں۔ اور اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زمین کی پیداوار سے انتفاع کا حق سب ضرورت مندوں کے لیے یکساں ہے۔ خواہ یہ ضرورت مند انسان ہوں یا حیوانات ہوں یا چرند پرند ہوں۔ اور انتفاع کے حق کی یکسانی کی مثال یوں سمجھئے۔ جیسے جنگل میں ایندھن پڑا ہو۔ اب جو شخص اسے اٹھا کر اپنے قبضہ میں کرلے گا۔ تو اب اس ایندھن پر اس کا حق ثابت ہوگیا۔ اور جب تک وہ جنگل میں پڑا تھا اسے وہاں سے اٹھانے کا ہر شخص یکساں حق رکھتا تھا۔ اس کی دوسری مثال چشمہ کا یا دریا کا پانی ہے۔ ہر شخص وہاں سے پانی لانے کا یکساں حق رکھتا ہے۔ لیکن جب کوئی شخص وہاں سے پانی لے کر اس پر اپنا قبضہ کرلے گا تو اب یہ پانی اسی کا ہوگیا۔ اس میں دوسروں کا حق نہ رہا۔ اسی طرح بنجر زمین آباد کرنے کا حق اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق سب کے لیے یکساں ہے مگر جب کوئی شخص محنت کرکے اس کو آباد کرلے تو اس کا حق ثابت اور دوسروں کا حق ختم ہوگیا یہ ہے حق ملکیت کا اسلامی اصول اور اسی لحاظ سے ہم نے یہ ترجمہ اختیار کیا ہے۔ مگر جب سے روس میں اشتراکی نظام قائم ہوا ہے (جو کہ اب ناکام بھی ہوچکا ہے) اور اس نے دوسرے ملکوں میں اس نظام کے بپا کرنے کے لیے فضا کو سازگار بنانے کے لیے اپنے ایجنٹ بھی چھوڑ رکھے ہیں اور چونکہ یہ نظام زمین اور اسی طرح دوسری اشیاء پر انفرادی حق ملکیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ لہذا ان لوگوں نے قرآن سے حق ملکیت زمین کے عدم جواز کا کھوج لگانا شروع کردیا۔ حالانکہ یہ مسئلہ انسان کی معاش سے تعلق رکھتا اور بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو زمین کی ذاتی ملکیت کو ناجائز یا حرام قرار دینا مقصود ہوتا تو قرآن میں ایسے واضح احکام نازل کیے جاتے جن سے سابقہ مروجہ حق ملکیت کی تردید کی جاتی۔ لیکن قرآن میں کوئی ایسا حکم موجود نہیں۔ چند دوسری متشابہ آیات کی طرح اس آیت سے بھی ان لوگوں نے اپنا یہ نظریہ کشید کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ اور ہم نے وہی ترجمہ درج کیا ہے جو ان حضرات کا پسندیدہ ہے۔ وہ اس آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ زمین کی پیداوار پر سب انسانوں کا ایک جیسا اور برابر کا حق ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ حکومت زمین کو اپنی تحویل میں لے لے پھر اس کی پیداوار لوگوں میں تقسیم کرے۔ خ حق ملکیت کے متعلق اشتراکیوں کی دلیل اور اس کا جواب :۔ ان لوگوں کی اس تاویل پر پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ ضرورتمند، طلبگار یا حاجتمند صرف انسان ہی نہیں بلکہ حیوانات، چرند پرند، کیڑے مکوڑے سب ہی خوراک کے محتاج ہیں اور سب کے لیے یہ خوراک زمین ہی سے حاصل ہوتی ہے تو کیا یہ ساری مخلوق زمین یا زمین کی پیداوار میں برابر کی حصہ دار ہوگی ؟ اگر زمین کو انفرادی ملکیت سے نکال کر اس کی پیداوار کو صرف انسانوں میں برابر تقسیم کیا جائے تو دوسری مخلوق کو (سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ 10۝) 41 ۔ فصلت :10) کے زمرہ سے نکالنے کی کیا دلیل ہے ؟ اور دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا زمین سب مخلوقات میں برابر برابر تقسیم ہوگی یا اس کی پیداوار ؟ اور تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا عملاً ایسا ممکن بھی ہے ؟ اگر حکومت زمین کو انفرادی ملکیت سے نکال کر اپنی تحویل میں لے لے تو یہ (سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ 10۝) 41 ۔ فصلت :10) کیسے ہوئی۔ اور اگر حکومت زمین کی پیداوار کو اپنی مرضی سے افراد کو دیتی یا ان میں تقسیم کرتی ہے تو بھی عملی طور پر (سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ 10۝) 41 ۔ فصلت :10) کے تقاضے پورا کرنا ناممکن ہے۔ لہذا ان حضرات کی یہ تاویل باطل ہی نہیں ناممکن العمل بھی ہے۔ اور اس کا اصل مطلب یہی ہے کہ زمین کی پیداوار سے اللہ کی ساری مخلوق کو انتفاع کا حق ایک جیسا ہے۔ جیسا کہ پہلے ایک دو مثالوں سے واضح کیا جاچکا ہے۔ اور انسانوں کے علاوہ دوسری جاندار مخلوق بھی زمین کی اشیاء سے فیض یاب ہو رہی ہے اور اس بات کا حق بھی رکھتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وجعل فیھا واسی :” رواسی “ کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة حجر (١٩) اور سورة انبیائ (٣١) (٢) من فوقھا : اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پورے کے پورے زمین کے اندر گاڑ دینے کے بجائے ان کا ایک حصہ زمین کے اوپر رکھا۔ اس میں بیشمار حکمتیں اور آدمی کے لئے فائدے ہیں، کیونکہ اگر پہاڑ پورے ہی زمین کے اندر ہوتے تو آدمی برف کے ان ذخیروں سے فیض یاب نہ ہو ستکا جو پہاڑ محفوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی جنگلوں اور دریاؤں کے یہ سلسلے ہوتے۔ اس کے علاوہ بیشمار سونے، چاندی اور دوسری دھاتوں، گیسوں اور ہیرے جواہرات سے محروم رہتا جو وہ پہاڑوں کے زمین سے اوپر ہونے کی وجہ سے نکلتا ہے۔ (٣) وبرک فیھا : یعنی اس میں خیر کی بیشمار اشیاء کے خزانے رکھ دیئے، جن میں درخت اور پودے بھی شامل ہیں۔ مٹی، پتھر، دھاتیں، گیسیں اور دوسرے وہ بیشمار عناصر بھی جو زمین میں موجود ہیں۔ چرند پرند، درندے اور آبی جانور بھی، پوری زمین کو گ ھیرے ہوئے ہوا بھی اور اس کے تقریباً ستر (٧٠) فیصد حصے پر مشتمل پانی بھی، جن پر زندگی کا دار و مدار ہے اور جن پر ہز اورں لاکھوں سال گزرنے کے باوجود کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ ہر دن نئی سے نئی برکت کا ظہور ہوتا ہے۔ بتاؤ، اللہ کے سوا کون ہے جس نے ان میں سے ایک چیز ہی پیدا کی ہو، جس کی وجہ سے تم نے اسے اپنا حاجت روا اور خدا بنا لیا ؟ (٤) وقدر فیھا اقواتھا : ” اقوات “ ” قوت “ کی جمع ہے، غذا، خوراک اور روزی، زمین کی غذاؤں سے مراد اس میں رہنے والی تمام مخلوقات کی غذائیں ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے لئے اس کے حسب حال اس کی ضرورت کے مطابق پورے اندازے کے ساتھ رکھ دیں، کسی مخلوق کی غذا کی کمی کا سوال ہی پیدذا نہیں ہوتا۔ دیکھیے سورة حجر (١٩ تا ٢١) ۔ (٥) فی اربعۃ ایام : یہاں ایک سوال ہے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مذکور ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش چھ دنوں میں ہوئی ہے۔ (دیکھیے اعراف : ٥٤۔ یونس : ٣۔ ہود : ٧۔ فرقان : ٥٩۔ سجدہ : ٤۔ ق : ٣٨ ۔ حدید : ٤) جب کہ ان آیات سے ان کی پیدائش آٹھ دنوں میں ظاہر ہو رہی ہے، اس لئے کہ پہلے زمین کو دو دنوں میں پیدا کرنے کا ذکر فرمایا، پھر چار دنوں میں اس کے اوپر پہاڑ گاڑنے اور اس میں غذائیں رکھنے کا ذکر فرمایا، اس کے بعد والی آیات میں دو دنوں میں آسمانوں کو پورا کرنے کا ذکر فرمایا، تو یہ کل آٹھ دن بنتے ہیں۔ جواب اس کا یہ ہے کہ زیر تفسیر آیت میں مذکور ” اربعۃ ایام “ (چار دند) میں پہلے دو دن بھی شامل ہیں، یعنی زمین کی پیدائش اور اس میں پہاڑ گاڑنے اور غذائیں رکھنے کا کام کل چار دن میں ہوا۔ اس کے بعد دو دونوں میں آسمانوں کی پیدائش کا کام پورا ہوا، یہ کل چھ دن بنتے ہیں۔ مفسر شنقیطی نے فرمایا :” اس آیت کی یہ تفسیر جو ہم نے کی ہے اس کے علاوہ کوئی تفسیر کسی طرح بھی درست نہیں۔ “ (٦) سوآء للسآئلین : یعنی اللہ تعالیٰ نے روزی کا سوال کرنے والوں کے لئے، خواہ وہ زبان حال سے مانگیں یا زبان قال سے ان کی خوراکیں پورے اندازے کے ساتھ زمین میں رکھ دی ہیں اور اس کا اندازہ کبھی غلط نہیں ہوسکتا۔ مزید دیکھیے سورة ابراہیم کی آیت (٣٤) :(واتکم من کل ماسا لتموہ) کی تفسیر۔ زمین و آسمان کی تمام مخلوق اپنی ہر ضرورت کا سوال اللہ تعالیٰ سے کر رہی ہے اور وہ ہر لمحے اسے پورا کر رہا ہے، جیسا کہ فرمایا :(یسئلہ من فی السموت والارض کل یوم ھو فی شان) (الرحمٰن : ٢٩)” اسی سے مانگتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

it is stated separately: وَجَعَلَ فِيهَا رَ‌وَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَ‌كَ فِيهَا وَقَدَّرَ‌ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْ‌بَعَةِ (He has placed firm mountains in it [ the earth ] towering above it, and put blessings in it, and proportioned its foods therein, in four days - 10). It should be remembered that the four days mentioned in this verse are inclusive of the first two days mentioned in verse 9, according to the consensus of the exegetes. The first two days and the later four days are not separate, otherwise the total period of creation would become eight days which is against the explicit statement of the Qur&an. It appears that it would have been more proper at this point if, after mentioning the creation of earth in two days, the creation of mountains etc. were also mentioned in two days, and thus it would have been known that the total number of days taken for the creation of earth was four. But by choosing to state that the number of days including the remainder of the earth&s creations totals four, Qur&an has probably indicated that the four days were not continuous, but in two parts - two days before the creation of the skies, and two days after it. The creation of mountains etc. mentioned in the verse 10, relates to the period after the creation of the skies. And Allah knows best. وَجَعَلَ فِيهَا رَ‌وَاسِيَ مِن فَوْقِهَا (He has placed firm mountains in it (the earth) towering above it,...41:10) The mountains have been created to maintain the earth&s balance as has been clarified in many verses of Qur&an. It was not necessary for this purpose to raise them above the earth&s surface and to make them so high - they could have been placed inside the earth also. But in raising them above and making them so high as to keep them away from the reach of human beings and animals, generally, there were thousands, rather innumerable, benefits for the inhabitants of the earth. Hence the words, |"towering above it|" in this verse point out to this special blessing. وَقَدَّرَ‌ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْ‌بَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ (and proportioned its foods therein, in four days, equal for those who ask…… 41:10) (Aqwat) is plural of Qut قُوت which means food, sustenance, including common necessities of human life. (Abu ` Ubaid - Zad-ul-Masir by Ibn-ul- Jauzi) Hasan (رض) and Suddi have said in its explanation that Allah Almighty has predetermined the sustenance and maintenance for the inhabitants of every region according to their need and expedience in the sense that He issued directions that such and such items be produced in such and such qualities in this region of the earth. This predetermination has caused every region of the earth to have characteristics of its own, and different kinds of minerals, different kinds of vegetation, trees and animals have been created according to the needs, nature and preferences of that zone. This arrangement results in every region having different products and different dresses - Asb in Yemen, Saburi in Sabur, Tayalisah in Ray, wheat in some region, rice and other grains in other regions, cotton in some areas, jute in some others, apples and grapes in some areas, mangos in others; these differences in items accord with the differences in the nature of the different regions. ` Ikrimah and Dahhak state that these differences in the products in different regions have opened ways for international trade and for mutual cooperation between different regions and countries of the world. No region is independent of other regions for the fulfillment of its needs; mutual wants are the only firm basis for mutual cooperation. ` Ikrimah has stated that in some areas salt is sold for an equal weight of gold. In fact, Allah Almighty has made this earth, so to say, such a great store of all necessities such as food, shelter, clothes, etc. of all its inhabitant, including billions and billions of humans and innumerable animals that are to come in this world up to Doomsday. These necessities have been kept inside it, and they will keep on growing and being supplied as needed until the Last Day of this world. All a man has to do is to take the necessities out of the earth according to his need and use them. Further on, the text states: سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ (equal for those who ask -10). Most of the commentators (mufassirin) have related this sentence to the four days. It means that all these great creations took place in exactly four days. Generally ` four& does not always mean exactly four - it may be slightly more or slightly less, but the fractions are disregarded in such cases, and it is still called ` four&. The addition of the word ` equal& here in the verse has eliminated this possibility, and clarified that the creation of the earth and the skies and what is placed in them took place in exactly four days. And the word ` for those who ask& means those people who asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) regarding the creation of the earth and the skies, as the Jews did according to Tafsir Ibn Jarir and Ad-Durr-ul-Manthur. They have been told that all this creation took place in exactly four days. (Ibn Kathir, Qurtubi, Ruh) And some exegetes Ibn Zayd, etc., have linked the words ` for those who ask& with the foregoing sentence ` proportioned its foods therein|" and held ` those who ask& to mean the needy people who ask for food. The meaning in this case would be that Allah Almighty has created all these different kinds and species of foods and necessities for the benefit of those who need and seek them, and since needy people usually ask for food, they have been called ` those who ask&. (A1-Bahr-ul-Muhit) Ibn Kathir has quoted this explanation and said that it is like the statement of the Qur&an وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ (And He gave you whatever you asked for. - 14:34) ` you asked for& in this verse means ` you were in need of& even though it has not been asked literally, because Allah Almighty has bestowed those things even to those who did not ask for them.

پھر الگ کر کے فرمایا (آیت) (وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبٰرَكَ فِيْهَا وَقَدَّرَ فِيْهَآ اَقْوَاتَهَا فِيْٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ ) اس میں اس پر تو سبھی مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ اربعة ایام ان پہلے دو دنوں کو شامل کر کے ہیں۔ اس سے الگ چار دن نہیں۔ ورنہ مجموعہ آٹھ دن ہوجائے گا جو تصریح قرآنی کے خلاف ہے۔ اب یہاں غور کرنے سے بظاہر مقتضیٰ مقام کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ فرمانے کے بعد پہاڑوں وغیرہ کی تخلیق کو بھی فی یومین کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا تھا تو اس کا مجموعہ چار دن ہونا خود بخود معلوم ہوجاتا مگر قرآن کریم نے عنوان تعبیر اس کے بجائے یہ رکھا کہ زمین کی تخلیقات میں سے باقی ماندہ کو ذکر کر کے فرمایا کہ یہ کل چار دن ہوئے۔ اس سے بظاہر اشارہ اس طرف نکلتا ہے کہ یہ چار دن متواتر اور مسلسل نہیں تھے بلکہ دو حصوں میں منقسم تھے۔ دو دن تخلیق سماوات سے پہلے دو دن اس کے بعد اور آیت مذکورہ میں جو (آیت) وجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا الخ کا ذکر ہے یہ آسمانوں کی تخلیق کے بعد کا بیان ہے۔ واللہ سبحانہ، وتعالیٰ اعلم۔ (آیت) وجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا۔ زمین میں پہاڑ اس کے توازن کو درست رکھنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں جیسا کہ متعدد آیات قرآن میں اس کی تصریح آئی ہے۔ اس کے لئے یہ ضروری نہیں تھا کہ ان پہاڑوں کو زمین کی سطح کے اوپر بلند وبالا کر کے رکھا جائے، زمین کے اندر بھی رکھے جاسکتے تھے۔ مگر اوپر رکھنے اور ان کی بلندی کو عام انسانوں، جانوروں کی رسائی سے دور رکھنے میں زمین کے بسنے والوں کے لئے ہزاروں بلکہ بیشمار فوائد تھے۔ اس لئے اس آیت میں من فوقھا کے لفظ سے اس خاص نعمت کی طرف اشارہ کردیا گیا۔ (آیت) وَبٰرَكَ فِيْهَا وَقَدَّرَ فِيْهَآ اَقْوَاتَهَا فِيْٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ ۔ اقوات قوت کی جمع ہے جس کے معنی ہیں رزق اور روزی جس میں عام ضروریات انسانی داخل ہیں۔ کما قال ابوعبید (زاد المسیر لابن جوزی) اور حضرت حسن اور سدی نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کے ہر حصہ میں اس کے بسنے رہنے والوں کی مصالح کے مناسب رزق اور روزی مقدر فرما دی۔ مقدر فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم جاری کردیا کہ اس حصہ زمین میں فلاں فلاں چیزیں اتنی اتنی مقدار سے پیدا ہوجائیں۔ اسی تقدیر الٰہی سے ہر حصہ زمین کی کچھ خصوصیات ہوگئیں، ہر جگہ مختلف قسم کی معدنیات اور مختلف اقسام کی نباتات اور درخت اور جانور اس خطہ کی ضروریات ان کے مزاج و مرغوبات کے مطابق پیدا فرما دیئے۔ اسی سے ہر خطہ کی مصنوعات و ملبوسات مختلف ہوتی ہیں۔ یمن میں عصب، سابور میں سابوری، رئے میں طیالسہ۔ کسی خطہ میں گندم، کسی میں چاول اور دوسرے غلات، کسی جگہ میں روئی، کسی میں جوٹ، کسی میں سیب انگور اور کسی میں آم۔ اس اختلاف اشیاء میں ہر خطہ کے مزاجوں کی مناسبت بھی ہے اور عکرمہ اور ضحاک کے قول کے مطابق یہ فائدہ بھی ہے کہ دنیا کے سب خطوں اور ملکوں میں باہمی تجارت اور تعاون کی راہیں کھلیں۔ کوئی خطہ دوسرے خطہ سے مستغنی نہ ہو۔ باہمی احتیاج ہی پر باہمی تعاون کی مضبوط تعمیر ہو سکتی ہے۔ عکرمہ نے فرمایا کہ بعض خطوں میں نمک کو سونے کے برابر تول کر فروخت کیا جاتا ہے۔ گویا زمین کو حق تعالیٰ نے اس پر بسنے والے انسانوں اور جانوروں کی تمام ضروریات، غذا، مسکن اور لباس وغیرہ کا ایک ایسا عظیم الشان گدام بنادیا ہے، جس میں قیامت تک آنے اور بسنے والے اربوں اور کھربوں انسانوں اور لاتعداد جانوروں کی سب ضروریات رکھ دی ہیں۔ وہ زمین کے پیٹ میں بڑھتی اور حسب ضرورت قیامت تک نکلتی رہیں گی۔ انسان کا کام صرف یہ رہے گا کہ اپنی ضروریات کو زمین سے نکال کر اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرے۔ آگے آیت میں فرمایا سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ ۔ اس جملہ کا تعلق اکثر حضرات مفسرین نے اربعہ ایام کے ساتھ قرار دیا ہے۔ معنی یہ ہیں یہ سب تخلیقات عظیمہ ٹھیک چار دن میں ہوئی ہیں۔ اور چونکہ عرف میں جس کو چار کہہ دیا جاتا ہے۔ وہ کبھی چار سے کچھ کم کبھی زیادہ بھی ہوتا ہے، مگر کسر کو حذف کر کے اس کو چار ہی کہہ دیتے ہیں۔ آیت میں اس جگہ لفظ سوائً بڑھا کر اس احتمال کو قطع کر کے یہ بتلا دیا کہ یہ کام پورے چار دن میں ٹھیک ہوا ہے۔ اور للسائلین فرمانے کے معنے یہ ہیں کہ جو لوگ آسمان زمین کی تخلیق کے متعلق آپ سے سوالات کر رہے ہیں جیسا کہ یہود کا سوال کرنا تفسیر ابن جریر اور درمنثور میں منقول ہے۔ ان سوالات کرنے والوں کو یہ بتلا دیا گیا ہے کہ یہ سب تخلیق ٹھیک چار دن میں ہوئی ہے۔ (ابن کثیر، قرطبی، روح) اور بعض مفسرین ابن زید وغیرہ نے للسائلین کا تعلق جملہ وَقَدَّرَ فِيْهَآ اَقْوَاتَهَا کے ساتھ قرار دیا ہے۔ اور سائلین کے معنی طالبین و محتاجین کے لئے ہیں۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ زمین میں اللہ تعالیٰ نے جو مختلف اجناس و اقسام کی اقوات و ضروریات پیدا فرمائی ہیں یہ ان لوگوں کے فائدے کے لئے ہیں جو ان کے طالب اور حاجت مند ہیں اور چونکہ طالب و محتاج عادتاً سوال کیا کرتا ہے اس لئے اس کو سائلین کے لفظ سے تعبیر کردیا۔ (بحرمحیط) اور ابن کثیر نے اس تفسیر کو نقل کر کے فرمایا کہ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا (آیت) اتکم من کل ما سالتموہ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے وہ سب چیزیں عطا فرمائیں، جو تم نے مانگیں کیونکہ یہاں بھی مانگنے سے مراد ان کا حاجت مند ہونا ہے۔ سوال کرنا شرط نہیں، کیونکہ حق تعالیٰ نے چیزیں نہ مانگنے والوں کو بھی عطا فرمائی ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلَ فِيْہَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِہَا وَبٰرَكَ فِيْہَا وَقَدَّرَ فِيْہَآ اَقْوَاتَہَا فِيْٓ اَرْبَعَۃِ اَيَّامٍ۝ ٠ ۭ سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ۝ ١٠ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ رسا يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] ، وقال : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات/ 27] ، أي : جبالا ثابتات، وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات/ 32] ، ( ر س و ) رسا الشئی ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات/ 27] اور انچے انچے پہاڑ یہاں پہاڑوں کو بوجہ ان کے ثبات اور استواری کے رواسی کہا گیا ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات/ 32] اور پہاڑوں کو ( اس میں گاڑ کر ) پلادیا ۔ فوق فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة، وذلک أضرب : الأول : باعتبار العلوّ. نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] الثاني : باعتبار الصّعود والحدور . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] . الثالث : يقال في العدد . نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] . الرابع : في الکبر والصّغر مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] . الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة . نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] . السادس : باعتبار القهر والغلبة . نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] ( ف و ق ) فوق یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر/ 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت/ 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب/ 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء/ 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔ 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف/ 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة/ 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران/ 55] کافروں پر فائق ۔ 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام/ 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف/ 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ برك أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء . قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ( ب رک ) البرک اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔ قَدْرُ والتَّقْدِيرُ والقَدْرُ والتَّقْدِيرُ : تبيين كمّيّة الشیء . يقال : قَدَرْتُهُ وقَدَّرْتُهُ ، وقَدَّرَهُ بالتّشدید : أعطاه الْقُدْرَةَ. يقال : قَدَّرَنِي اللہ علی كذا وقوّاني عليه، فَتَقْدِيرُ اللہ الأشياء علی وجهين : أحدهما : بإعطاء القدرة . والثاني : بأن يجعلها علی مقدار مخصوص ووجه مخصوص حسبما اقتضت الحکمة، وذلک أنّ فعل اللہ تعالیٰ ضربان : ضرب أوجده بالفعل، ومعنی إيجاده بالفعل أن أبدعه کاملا دفعة لا تعتريه الزّيادة والنّقصان إلى إن يشاء أن يفنيه، أو يبدّله کالسماوات وما فيها . ومنها ما جعل أصوله موجودة بالفعل وأجزاء ه بالقوّة، وقدّره علی وجه لا يتأتّى منه غير ما قدّره فيه، کتقدیره في النّواة أن ينبت منها النّخل دون التّفّاح والزّيتون، وتقدیر منيّ الإنسان أن يكون منه الإنسان دون سائر الحیوانات . فَتَقْدِيرُ اللہ علی وجهين : أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] . والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله : فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، أو يكون من قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] ، وقرئ : فَقَدَرْنا «1» بالتّشدید، وذلک منه، أو من إعطاء القدرة، وقوله : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ، فإنه تنبيه أنّ ذلک حكمة من حيث إنه هو الْمُقَدِّرُ ، وتنبيه أنّ ذلک ليس كما زعم المجوس أنّ اللہ يخلق وإبلیس يقتل، وقوله : إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ، إلى آخرها . أي : ليلة قيّضها لأمور مخصوصة . وقوله : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ، وقوله : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] ، إشارة إلى ما أجري من تكوير اللیل علی النهار، وتكوير النهار علی اللیل، وأن ليس أحد يمكنه معرفة ساعاتهما وتوفية حقّ العبادة منهما في وقت معلوم، وقوله : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] ، فإشارة إلى ما أوجده فيه بالقوّة، فيظهر حالا فحالا إلى الوجود بالصّورة، وقوله : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] ، فَقَدَرٌ إشارة إلى ما سبق به القضاء، والکتابة في اللّوح المحفوظ والمشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : «فرغ ربّكم من الخلق والخلق والأجل والرّزق» «1» ، والْمَقْدُورُ إشارة إلى ما يحدث عنه حالا فحالا ممّا قدّر، وهو المشار إليه بقوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] ، وعلی ذلک قوله : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] ، قال أبو الحسن : خذه بقدر کذا وبقدر کذا، وفلان يخاصم بقدر وقدر، وقوله : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] ، أي : ما يليق بحاله مقدّرا عليه، وقوله : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى [ الأعلی/ 3] ، أي : أعطی كلّ شيء ما فيه مصلحته، وهداه لما فيه خلاصه، إمّا بالتّسخیر، وإمّا بالتّعلیم کما قال : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] ، والتَّقْدِيرُ من الإنسان علی وجهين : أحدهما : التّفكّر في الأمر بحسب نظر العقل، وبناء الأمر عليه، وذلک محمود، والثاني : أن يكون بحسب التّمنّي والشّهوة، وذلک مذموم کقوله : فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] ، وتستعار الْقُدْرَةُ والْمَقْدُورُ للحال، والسّعة في المال، القدر ( والتقدیر کے معنی کسی چیز کی کمیت کو بیان کرنے کے ہیں۔ کہاجاتا ہے ۔ قدرتہ وقدرتہ اور قدرہ ( تفعیل ) کے معنی کسی کو قدرت عطا کرنا بھی آتے ہیں محاور ہ ہے ۔ قدرنی اللہ علی کذا وتوانی علیہ اللہ نے مجھے اس پر قدرت عطافرمائی پس ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔ اور یہ آیت : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کررکھا ہے ۔ کے ہم معنی ہے اور اس میں ایک قراءت ققدر نا ( تشدیددال ) کے ساتھ بھی ہے اور اس کے معنی یا تو حکم کرنے کے ہیں اور یا اعطاء قدرت کے اور آیت کریمہ : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ہم نے تم میں مرنا ٹھہراد یا ۔ میں اس امر تنبیہ ہے کہ موت مقدر کرنے والا چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئ یہ بھی عین حکمت کے مطابق ہے اور مجوس کا یہ علم غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور ابلیس مارتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس ( قرآن ) گوشب قدر میں نازل کرنا شروع کیا ۔ میں لیلۃ القدر سے خاص رات مراد ہے جسے اور مخصوصہ کی انجام دہی لے لئے اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ۔ نیز فرمایا :إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] اور خدا تو رات اور دن ، کا اندازہ رکھتا ہے اس نے معلوم کیا کہ تم اس کی نباہ نہ سکوگے ۔ میں سلسلہ لیل ونہار کے اجرء کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ ان کے اوقات کی معرفت حاصل کرنا اور پھر اوقات معینہ ، میں حق عبادات ادا کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور آیت کریمہ : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] نطفے سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا ۔ میں ان قویٰ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نطفہ میں بالقوۃ ودیعت کر رکھے ہیں اور وہ قتا فوقتا صورت کا لباس بہن کر ظہور پذیر ہوتے ہیں آیت کریمہ : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] اور خدا کا حکم ٹھہرچکا ہے ۔ میں قدر کے لفظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہے جن کا فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ لوح محفوظ میں لکھے جا چکے ہیں جن کی طرف کہ آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فرغ ربکم من الخلق والاجل والرزق کہ اللہ تبارک وتعالیٰ خلق ۔ عمر اور رزق سے فارغ ہوچکا ہے اور مقدور کے لفظ سے ان امور کیطرف اشارہ ہے جو وقتا فوقتا ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ جن کی طرف آیت : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وہ ہر روز کام میں مصروف ر ہتا ہے ۔ میں اشارہ فرمایا ہے اسی معنی میں فرمایا : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] اور ہم ان کو بمقدار مناسب اتارتے رہتے ہیں ۔ ابوالحسن نے کہا ہے کہ یہ قدر وقدر ( بفتح الدال وسکونہا ) دونوں طرح بولا جاتا ہے چناچہ محاورہ خذ بقدر کذا ) وقدر کذا ( کہ اتنی مقدار میں لے لو ) وفلان یخاصم بقدر وقدر اور آیت کریمہ : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] یعنی ) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپی حیثیت کے مطابق ۔ میں قدر کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص اپنی مقدور کے مطابق اخراجات ادا کرے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى[ الأعلی/ 3] اور جس نے ( اس کا ) اناازہ ٹھہرادیا ( پھر اس کو ) رستہ بتایا : کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو وہ سمجھ عطا فرمادیا جس میں اس کی مصلحت ہے اور اسے تعلیمی یا تسخیری طور پر ان چیزوں کی طرف ہدایت کردی ہے جن میں اس کی نجات مضمرہ جیسے فرمایا : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی ۔ جب ، ، تقدیر ، ، کا فاعل انسان ہو تو اس کے دومعنی ہوتے ہیں ایک تقدیر محمود یعنی عقل وفکر کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی امر بچہ غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی کام کو سرا نجام دینا ۔ دوم تقدیر مذموم کہ انسان اپنی تمنا اور خواہش کے پیمانہ کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرے اور عقل وفکر سے کام نہ لے جیسے فرمایا فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] اس نے فکر کیا اور تجویز کی یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی ۔ اور استعارہ کے طورپر قدرۃ اور مقدور کے معنی حالت اور وسعت مالی کے بھی آتے ہیں اور قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لئے مقرر ہوچکا ہو چناچہ فرمایا : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات/ 22] ایک معین وقت تک ۔ نیز فرمایا : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد/ 17] پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ یعنی نالے اپنے ( ظرف کے مطابق بہ نکلتے ہیں ایک قرات میں بقدر ھا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ ۔۔۔ کے ہے اور آیت کریمہ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم/ 25]( اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپہنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کر رکھا تھا ۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جا پہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ : فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر/ 12] تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا میں مراد ہیں ۔ اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق/ 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم/ 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء/ 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام/ 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں جب کہ اس کی شان یہ ہے کہوالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین آں کی مٹھی میں ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ [ سبأ/ 11] کو کشادہ زر ہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑ دو ۔ میں قدرفی السرد کے معنی یہ ہیں کہ مضبوطی اور محکم زر ہیں بناؤ ۔ اور مقدارالشئی اس وقت یاز مانہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے لئے مقرر کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ [ المعارج/ 4] اور اس روز ( نازل ہوگا ) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ [ الحدید/ 29]( یہ باتیں ) اسلئے ( بیان کی گئی ہیں ) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل کے ساتھ مختص ہے ( یعنی اس میں تاویل سے چارہ نہیں ہے ) القدر ( دیگ) برتن جس میں گوشت پکایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی ہیں ۔ اور قدرت اللحم کے معنی ہانڈی میں گوشت پکانے کے ہیں اور ہینڈیاں پکائے ہوئے گوشت کو قدیر کہاجاتا ہے ۔ القدار ( قصاب ) وہ شخص جو اونٹ کو نحر ( ذبح ) کرکے دیگ میں اس کا گوشت پکاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل) (351) ضرب القدار نقیعۃ القدام جیسا کہ قصاب سفر سے آنے والے کی خوشی میں دعوت کے لئے گوشت کاٹتا ہے ۔ قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ سواء ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال : فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] ، ( س و ی ) المسا واۃ مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠۔ ١١) اور اس نے زمین کے اوپر مضبوط پہاڑ بنا دیے جو اس کے لیے میخیں ہیں اور زمین میں پانی درخت سبزیاں اور پھل پیدا کیے اور اس نے زمین میں معیشت اور غذا کی چیزیں پیدا کردیں جو اس زمین کے علاوہ اور مقام پر نہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے روحوں کو جسموں سے دنیاوی سالوں کے اعتبار سے چار ہزار سال پہلے پیدا کیا جسموں سے چار ہزار سال پہلے ان کی روزیاں مقرر کردیں۔ یہ تمام چیزیں پوری ہیں خواہ کوئی پوچھے یا نہ پوچھے یا یہ کہ سوال کرنے والوں کے لیے جنہوں نے ان چیزوں کے پیدا ہونے کے بارے میں سوال کیا تھا یہ جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح پیدا کیا۔ پھر آسمان کے بنانے کی طرف متوجہ ہوا وہ پانی کے بخارات کی طرح تھا پھر آسمان زمین کے بنانے سے فارغ ہونے کے بعد ان دونوں سے فرمایا کہ تم دونوں جو تمہارے اندر پانی اور سبزیاں رکھی ہیں خواہ خوشی سے لے کر آؤ یا زبردستی سے لے آؤ وہ دونوں کہنے لگے ہم بخوشی لارہے ہیں مخلوق کو ہم تکلیف پہنچانا ناگوارا نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ { وَجَعَلَ فِیْہَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِہَا } ” اور اس میں اس نے بنائے پہاڑوں کے لنگر اس کے اوپر سے “ { وَبٰرَکَ فِیْہَا وَقَدَّرَ فِیْہَآ اَقْوَاتَہَا فِیْٓ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ } ” اور اس میں برکات پیدا کیں اور اس میں اندازے مقررکیے اس کی غذائوں کے ‘ چار دنوں میں۔ “ یعنی دو دنوں میں زمین کو پیدا کیا جو بذات خود ایک بہت بڑی تخلیق ہے ‘ پھر مزید دو دنوں میں اس کے اوپر سے اس پر پہاڑ جما دیے اور زمین کی مٹی کو روئیدگی کے قابل بنایا۔ زمین ابتدا میں تو آگ کے ایک ُ کرے ّکی شکل میں تھی۔ آہستہ آہستہ یہ ٹھنڈی ہوئی۔ پہلے پہل اس کی مٹی میں صرف inorganic compounds پائے جاتے تھے۔ ہوتے ہوتے organic compounds پیدا ہوئے۔ اس کے بعداس میں وہ صلاحیت اور اہلیت پیدا ہوئی کہ یہ زندگی کا گہوارہ بن سکے۔ یہ سارا عمل چار دنوں میں مکمل ہوا۔ یہ آیت تا حال آیات متشابہات میں سے ہے ‘ ابھی تک ہم ان چار دنوں کی حقیقت اور تفصیل کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ { سَوَآئً لِّلسَّآئِلِیْنَ } ” تمام سائلین کے لیے برابر۔ “ زمین کی مختلف صلاحیتوں ‘ اس کی پیداوار اور اس کے غذائی ذخائر پر ان سب کا حق برابر ہے جنہیں ان کی ضرورت ہے۔ اس میں کسی کے لیے کوئی خاص حصہ نہیں رکھا گیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 "Blessings of the earth" imply those measureless and countless things which have been continuously coming out of it since millions and millions of years, and are fulfilling the ever increasing needs and requirements of all the creatures from the microscopic germs to the highly civilized man. Among these the principal blessings are the air and the water by which alone vegetable, animal and then human life became possible on the earth. 12 This sentence has been interpreted by the commentators in different ways: Some of them interpret it to mean: "The provisions of the earth were placed in it precisely according to the needs and requirements of those who ask, in exactly four days." That is, it took exactly four days, neither more nor less. Ibn `Abbas, Qatadah and Suddi interpret it to mean: "The provisions of the earth were placed in it in four days. The answer to those who ask is completed. " That is, whoever asks as to how long it took, his complete answer is that it took four days. According to Ibn Zaid it means: "The provisions of the earth were placed in it for those who ask within four days, precisely in accordance with the demand and need of everyone. " As far as the rules of the language are concerned, the words of the verse admit of all these three meanings, but in our opinion the first two meanings have no merit. In view of the context, it is immaterial whether the work was completed in exactly four days and not in more or less four days. There is no need whatever for such an addition to make up for any deficiency in supporting the description of Allah's perfect power, perfect providence and perfect wisdom. Likewise, the commentary: "The answer to those who ask is completed," is a very weak commentary. There is no indication in the theme preceding the verse and following it, to show that at that time somebody had asked the question as to how long it had taken for those works to be completed, and this verse was sent down as an answer to it. That is why we have adopted the third meaning in our translation. In our opinion the correct meaning of the verse is this: "Allah placed within the earth the full provisions of food precisely and exactly in accordance with the demands andneeds of every kind of creature that AIIah had to create in the earth from the beginning of the creation till Resurrection. There are countless kinds of vegetation found on land and in water and the food requirements of each kind are different from those of other kinds. Allah has created countless species of living creatures in the air and on land and in water, and every species demands a different kind of food. Then unique among all these is the species of man, who requires different kinds of food not only for the development and nourishment of his body but also for the satisfaction of his taste. Who beside Allah could know how many members of the different kinds of creatures would be born on this globe, from the beginning of life till its end, and when and where they would be born and how much and what kind of food would be required for their nourishment? Just as He had made the plan of creating those creatures who stood in need of food in His scheme of creation, so He made full arrangements of food also to meet their requirements and demands. In the modern age, the people who have brought out the Islamic edition of the Marxist conception of Socialism in the name of "the Qur'anic order of providence", translate the words sawa-al-lis-sa'-ilin as `equal for all those who ask", and raise the edifice of reasoning on it, saying that Allah has kept equal provisions for All the people in the earth; therefore, in order to fulfil the intention of the verse a system of the state is needed which may provide equal rations of food to everybody. For in the system of individual ownership the equality which the °Qur'anic law" demands cannot be established. But these people, in their enthusiasm to press the Qur'an in the service of their theories, forget that °those who ask", who have been mentioned in this verse, are not only human beings but All those different species of animals and plants who need food for survival. Has Allah really established equality among all of them, or even among all the members of each different species of the creatures, in the matter of the provision of food? Do you find anywhere in this entire system of nature the arrangement of the distribution of equal rations of food? If that is not the case, it means that in the vegetable and animal kingdom, where the distribution of the provisions is dicectly being arranged by the State of Allah, and not by the human state, Allah Himself is violating His own this "Qur'anic law", rather, God forbid, is practicing injustice! Then, they also forgo that "those who ask" also include those animals which man domesticates and arranging provisions for which is also his responsibility, e.g. sheep, goats, cows, buffaloes, horses, asses, mules, camels, etc: If the Qur'anic law is that equal food be given to all those who ask, and to enforce the same law a state is needed, which may administer the order of providence, will that state establish economic equality between men and animals also? 13 Here, the commentators generally have been confronted with this question: If it is admitted that the creation of the earth took two days and the setting up of the mountains and placing of the provisions and blessings in it took four days, and the creation of the heavens, as mentioned below, took another two days, the total number of the days would be eight, whereas at several places in the Qur'an Allah has said that the creation of the earth and heavens took six days in all. (For example, see AI-A `raf: 54, Yunus: 3, Hud: 7, AI-Furqan: 59). On this very basis, almost all the commentators agree that these four days include the two days of the creation of the earth. That is, two days were taken for the creation of the earth and two days for the creation of the rest of the things within the earth, as mentioned below. Thus, the earth along with its provisions became complete in four days in all. But this not only is against the apparent words of the Qur'an, but the difficulty also is, in fact, an imaginary difficulty, to avoid which need for this interpretation has been felt. The two days of the creation of the earth arc, in fact, not separate from the two days in which this universe as a whole was created. If we consider the following verses, we see that in them the creation of both the earth and the heavens has been mentioned together, and then it has been stated that Allah made the seven heavens in two days. These seven heavens imply the whole universe, one part of which is also our earth. Then, when like the other countless stars and planets of the universe this earth also took the shape of a unique globe within two days, Allah began to prepare it for animate creatures, and in four days created in it all those provisions which have been mentioned in the above verse. What development works were carried out in the other stars and planets in these four days have not been mentioned by Allah, for not to speak of the man of the period of the revelation of the Qur'an, even the man of the present age does not have the capability to digest and assimilate this information.

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :11 زمین کی برکتوں سے مراد وہ بے حد و حساب سر و سامان ہے جو کروڑہا کروڑ سال سے مسلسل اس کے پیٹ سے نکلتا چلا آ رہا ہے اور خورد بینی کیڑوں سے لے کر انسان کے بلند ترین تمدن تک کی روز افزوں ضروریات پوری کیے چلا جا رہا ہے ۔ ان برکتوں میں سب سے بڑی برکتیں ہوا اور پانی ہیں جن کی بدولت ہی زمین پر نباتی ، حیوانی اور پھر انسانی زندگی ممکن ہوئی ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :12 اصل الفاظ ہیں : قَدَّرَ فِیْھَآ اَقْوَاتَھَا فِیْ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ سَوَآءً لِلسَّآئِلِیْنَ ۔ اس فقرے کی تفسیر میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں : بعض مفسرین اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ زمین میں اس کے ارزاق مانگنے والوں کے لیے ٹھیک حساب سے رکھ دیے پورے چار دنوں میں ۔ یعنی کم یا زیادہ نہیں بلکہ پورے چار دنوں میں ۔ ابن عباس ، قَتَادہ اور سُدّی اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ زمین میں اس کے ارزاق چار دنوں میں رکھ دیے ۔ پوچھنے والوں کا جواب پورا ہوا ۔ یعنی جو کوئی یہ پوچھے کہ یہ کام کتنے دنوں میں ہوا ، اس کا مکمل جواب یہ ہے کہ چار دنوں میں ہو گیا ۔ ابن زید اس کے معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ زمین میں اس کے ارزاق مانگنے والوں کے لیے چار دنوں کے اندر رکھ دیے ٹھیک اندازے سے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ۔ جہاں تک قواعد زبان کا تعلق ہے ، آیت کے الفاظ میں یہ تینوں معنی لینے کی گنجائش ہے ۔ لیکن ہمارے نزدیک پہلے دو معنوں میں کوئی خوبی نہیں ہے ۔ موقع و محل کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات آخر کیا اہمیت رکھتی ہے کہ یہ کام ایک گھنٹہ کم چار دن یا ایک گھنٹہ زیادہ چار دن میں نہیں بلکہ پورے چار دنوں میں ہوا ۔ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور کمال ربوبیت اور کمال حکمت کے بیان میں کون سی کسر رہ جاتی ہے جسے پورا کرنے کے لیے اس تصریح کی حاجت ہو؟ اسی طرح یہ تفسیر بھی بڑی کمزور تفسیر ہے کہ پوچھنے والوں کا جواب پورا ہوا ۔ آیت سے پہلے اور بعد کے مضمون میں کسی جگہ بھی کوئی قرینہ یہ نہیں بتاتا کہ اس وقت کسی سائل نے یہ دریافت کیا تھا کہ یہ سارے کام کتنے دنوں میں ہوئے ، اور یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی ۔ انہی وجوہ سے ہم نے ترجمے میں تیسرے معنی کو اختیار کیا ہے ۔ ہمارے نزدیک آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ زمین میں ابتدائے آفرینش سے لے کر قیامت تک جس جس قسم کی جتنی مخلوق بھی اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والا تھا ، ہر ایک کی مانگ اور حاجت کے ٹھیک مطابق غذا کا پورا سامان حساب لگا کر اس نے زمین کے اندر رکھ دیا ۔ نباتات کی بے شمار اقسام خشکی اور تری میں پائی جاتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی غذائی ضروریات دوسری اقسام سے مختلف ہیں ۔ جاندار مخلوقات کی بے شمار انواع ہوا اور خشکی اور تری میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں اور ہر نوع ایک الگ قسم کی غذا مانگتی ہے ۔ پھر ان سب سے جدا ، ایک اور مخلوق انسان ہے جس کو محض جسم کی پرورش ہی کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذوق کی تسکین کے لیے بھی طرح طرح کی خوراکیں درکار ہیں ۔ اللہ کے سوا کون جان سکتا تھا کہ اس کرہ خاکی پر زندگی کا آغاز ہونے سے لے کر اس کے اختتام تک کس کس قسم کی مخلوقات کے کتنے افراد کہاں کہاں اور کب کب وجود میں آئیں گے اور ان کو پالنے کے لیے کیسی اور کتنی غذا درکار ہو گی ۔ اپنی تخلیقی اسکیم میں جس طرح اس نے غذا طلب کرنے والی ان مخلوقات کو پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اسی طرح اس نے ان کی طلب کو پورا کرنے کے لیے خوراک کا بھی مکمل انتظام کر دیا ۔ موجودہ زمانے میں جن لوگوں نے مارکسی تصور اشتراکیت کا اسلامی ایڈیشن قرآنی نظام ربوبیت کے نام سے نکالا ہے وہ سواءً للسّائِلین کا ترجمہ سب مانگنے والوں کے لیے برابر کرتے ہیں ، اور اس پر استدلال کی عمارت یوں اٹھاتے ہیں کہ اللہ نے زمین میں سب لوگوں کے لیے برابر خوراک رکھی ہے ، لہٰذا آیت کے منشا کو پورا کرنے کے لیے ریاست کا ایک ایسا نظام درکار ہے جو سب کو غذا کا مساوی راشن دے ، کیونکہ انفرادی ملکیت کے نظام میں وہ مساوات قائم نہیں ہو سکتی جس کا یہ قرآنی قانون تقاضا کر رہا ہے ۔ لیکن یہ حضرات قرآن سے اپنے نظریات کی خدمت لینے کے جوش میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سائلین ، جن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے ، صرف انسان ہی نہیں ہیں بلکہ مختلف اقسام کی وہ سب مخلوقات ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے غذا کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کیا واقعی ان سب کے درمیان ، یا ایک ایک قسم کی مخلوقات کے تمام افراد کے درمیان خدا نے سامان پرورش میں مساوات رکھی ہے؟ کیا فطرت کے اس پورے نظام میں کہیں آپ کو غذا کے مساوی راشن کی تقسیم کا انتظام نظر آتا ہے؟ اگر واقعہ یہ نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نباتات اور حیوانات کی دنیا میں ، جہاں انسانی ریاست نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ریاست براہ راست تقسیم رزق کا انتظام کر رہی ہے ، اللہ میاں خود اپنے اس قرآنی قانون کی خلاف ورزی .................... بلکہ معاذ اللہ ، بے انصافی............... فرما رہے ہیں ! پھر وہ یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ سائلین میں وہ حیوانات بھی شامل ہیں جنہیں انسان پالتا ہے ، اور جن کی خوراک کا انتظام انسان ہی کے ذمہ ہے ۔ مثلاً بھیڑ ، بکری ، گائے ، بھینس ، گھوڑے ، گدھے ، خچر ، اور اونٹ وغیرہ ۔ اگر قرآنی قانون یہی ہے کہ سب سائلین کو برابر خوراک دی جائے ، اور اسی قانون کو نافذ کرنے کے لیے نظام ربوبیت چلانے والی ایک ریاست مطلوب ہے ، تو کیا وہ ریاست انسان اور ان حیوانات کے درمیان معاشی مساوات قائم کرے گی؟ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :13 اس مقام کی تفسیر میں مفسرین کو بالعموم یہ زحمت پیش آئی ہے کہ اگر زمین کی تخلیق کے دو دن ، اور اس میں پہاڑ جمانے اور برکتیں رکھنے اور سامان خوراک پیدا کرنے کے چار دن تسلیم کیے جائیں ، تو آگے آسمانوں کی پیدائش دو دنوں میں ہونے کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کے لحاظ سے مزید دو دن ملا کر آٹھ دن بن جاتے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر قرآن مجید میں تصریح فرمائی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق جملہ چھ دنوں میں ہوئی ہے ( مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، ص 36 ۔ 261 ۔ 324 ۔ جلد دوم ص 460 ) ۔ اسی بنا پر قریب قریب تمام مفسرین یہ کہتے ہیں کہ یہ چار دن زمین کی تخلیق کے دو دن سمیت ہیں ، یعنی دو دن تخلیق زمین کے اور دو دن زمین کے اندر ان باقی چیزوں کی پیدائش کے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ، اس طرح جملہ چار دنوں میں زمین اپنے سرو سامان سمیت مکمل ہو گئی ۔ لیکن یہ بات قرآن مجید کے ظاہر الفاظ کے بھی خلاف ہے ، اور در حقیقت وہ زحمت بھی محض خیالی زحمت ہے جس سے بچنے کے لیے اس تاویل کی ضرورت محسوس کی گئی ہے ۔ زمین کی تخلیق کے دو دن دراصل ان دو دنوں سے الگ نہیں ہیں جن میں بحیثیت مجموعی پوری کائنات بنی ہے ۔ آگے کی آیات پر غور کیجیے ۔ ان میں زمین اور آسمان دونوں کی تخلیق کا یکجا ذکر کیا گیا ہے اور پھر یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ نے دو دنوں میں سات آسمان بنا دیے ۔ ان سات آسمانوں سے پوری کائنات مراد ہے جس کا ایک جز ہماری یہ زمین بھی ہے ۔ پھر جب کائنات کے دوسرے بے شمار تاروں اور سیاروں کی طرح یہ زمین بھی ان دو دنوں کے اندر مجرد ایک کرے کی شکل اختیار کر چکی تو اللہ تعالیٰ نے اسکو ذی حیات مخلوقات کے لیے تیار کرنا شروع کیا اور چار دنوں کے اندر اس میں وہ سب کچھ سرو سامان پیدا کر دیا جس کا اوپر کی آیت میں ذکر کیا گیا ہے ۔ دوسرے تاروں اور سیاروں میں ان چار دنوں کے اندر کیا کچھ ترقیاتی کام کیے گئے ، ان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے ، کیونکہ نزول قرآن کے دور کا انسان تو در کنار ، اس زمانے کا آدمی بھی ان معلومات کو ہضم کرنے کی استعداد نہیں رکھتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: زمین میں برکت ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں مخلوقات کے فائدے کی چیزیں پیدا فرمائیں، اور ایسا نظام بنا دیا کہ وہ زمین سے ضرورت کے مطابق مناسب مقدار میں نکلتی رہیں۔ 3: ان چار دنوں میں زمین کی تخلیق بھی شامل ہے جس کے بارے میں پیچھے فرمایا گیا تھا کہ وہ دو دن میں مکمل فرمائی، لہذا دو دن میں زمین پیدا کی گئی اور دو دن میں اس زمین پر پہاڑ اور دوسری انسانی ضروریات کی چیزیں اور خوارک وغیرہ پیدا کرنے کا انتظام فرمایا گیا، اس طرح زمین اور اس کے اوپر کی اشیاء پیدا کرنے میں کل چار دن استعمال فرمائے گئے۔ اور دو دن میں ساتوں آسمان پیدا فرمائے گئے۔ اس طرح کائنات کی تخلیق کل چھ دن میں مکمل ہوئی، جیسا کہ سورۃ اعراف : 54، سورۃ یونس : 3، سورۃ ہود : 7 سورۃ فرقان : 59 سورۃ الم السجدہ : 4 اور سورۃ حدید : 4 میں مذکور ہے۔ سورۃ اعراف میں ہم یہ عرض کرچکے ہیں کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب دنوں کا حساب سورج کے طلوع و غروب کے بجائے کسی اور معیار پر ہوتا تھا جس کا ٹھیک ٹھیک علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، اور اگرچہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں یہ بھی تھا کہ وہ ایک ہی لمحے میں سب کچھ پیدا فرما دیتے، لیکن اس عمل کے ذریعے انسان کو بھی جلد بازی کے بجائے اطمینان اور وقار کے ساتھ کام کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، نیز اس میں اور بھی نہ جانے کیا کیا مصلحتیں ہوں گی جن کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ 4: اس جملے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ جو لوگ بھی زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے میں سوال کریں، ان سب کے لیے یہ یکساں جواب ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ’’ سوال کرنے والوں‘‘ سے مراد وہ ساری مخلوقات ہیں جو زمین سے غذائیں حاصل کرنا چاہیں، چاہے وہ انسان ہوں، یا جنات، یا جانور۔ ان سب کو اللہ تعالیٰ نے یہ موقع عطا فرمایا ہے کہ وہ زمین سے اپنی اپنی عذا حاصل کرسکیں۔ مختلف مفسرین نے اس جملے کی یہ دونوں تفسیریں کی ہیں، چنانچہ ترجمے میں بھی دونوں کی گنجائش ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:10) رواسی : راسیۃ کی جمع ہے بمعنی بوجھ۔ پہاڑ۔ رواسی کا استعمال ٹھہرے ہوئے پہاڑوں کے لئے آتا ہے۔ رسو (باب نصر) سے اسم فاعل واحد مؤنث راسیۃ اس بڑی دیگ کو کہتے ہیں جو ثقیل ہونے کی وجہ سے ایک ہی جگہ پڑی رہے۔ چناچہ قرآن مجید میں ہے وقد ور راسیت (34:13) اور بھاری دیگیں جو چولہوں پر جمی رہتیں ۔ لہٰذا رواسی سے وہ پہاڑ مراد ہیں جو ایک ہی جگہ بوجہ بوجھ وحبثہ جمے رہیں۔ بارک : ماضی واحد مذکر غائب مبارکۃ (باب مفاعلۃ) مصدر۔ اس نے برکت دی۔ مطلب یہ کہ اس نے اس میں بڑی برکتیں (برکت والی چیزیں) رکھ دیں مثلا : آگ، پانی، ہوا۔ قدر۔ ماضی واحد مذکر غائب تقدیر (تفعیل) مصدر۔ مقدر کردیا۔ اندازے کے مطابق مقرر کردیا۔ تجویز کردیں۔ اقواتھا : اقوات کی ہے قوت کی جسکے معنی خوراک کے ہیں آیت ہذا میں ضمیر ھا واحد مؤنث غائب ہر جگہ الارض کیلئے ہے۔ اقواتھا سے مراد اقوات اہلہا ہے (زمین پر رہنے والوں کی غذائیں) لہٰذا اقوات مضاف ہے اور اہلہا مضاف مضاف الیہ اقوات کا مفعول الیہ۔ فی اربعۃ ایام چار دن میں۔ یعنی یہ سب کچھ مزید دونوں میں کیا جو پہلے دو دنوں سے متصل ہیں۔ اس طرح تخلیق ارض کے دو آیام اور اس میں برکات واقوات مہیا کردینے کے دو ایام مل کر کل چار ایام ہوگئے۔ محاورہ میں کہا جاتا ہے میں بصرہ سے بغدار تک دو دن میں پہنچا اور کوفہ تک تین دن میں یعنی دو دن پہلے اور ایک دن مزید۔ سواء للسائلین : جملہ ماقبل فی اربعۃ ایام میں ایام پر وقف مطلق ہے۔ لہٰذا سواء للسائلین الگ جملہ ہے لیکن یہاں پہلا مضمون ختم نہیں ہوا۔ اور بات کہنے والا ابھی کچھ اور کہنا چاہتا ہے ۔ لا محالہ بات اسی موضوع کے متعلق ہی ہوگی جو پیچھے سے چلا آرہا ہے۔ بات برکات اور اقوات کی ہو رہی تھی لہٰذا اس جملہ کا مطلب اسی روشنی میں لیا جائے گا ۔ گومفسرین کے اس فقرہ کے متعلق اقوال ہیں لیکن اولیٰ یہی ہے کہ زمین میں ابتدائے آفرنیش سے لے کر قیامت تک جس جس قسم کی جتنی مخلوق بھی اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والا تھا۔ ہر ایک کی مانگ اور حاجت کے مطابق غذا کا ٹھیک پورا سامان حساب لگا کر زمین کے اندر رکھ دیا ۔ یہاں سائلین سے مراد صرف انسان ہی نہیں بلکہ مختلف قسم کی وہ سب مخلوقات ہیں جنہوں زندہ رہنے کے لئے غذا کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اس آیت سوشلسٹ نظام کی تائید کا استدلال بےمحل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 زمین کی برکت سے مراد درخت اور پودے بھی ہیں پانی بھی اور وہ بےحد و حساب معدنیات بھی جو کھول برس سے اس کے بطن سے نکلتی چلی آرہی ہیں اور تا قیامت نکلتی رہیں گی۔9” جن سے وہ زندہ رہیں “ خوراک کے مفہوم میں انسانی زندگی کی ضروریات اور کسب معاش کے جملہ وسائل شامل ہیں۔10 وہ دن زمین کی پیدائش کے اور دو دن اس میں پہاڑوں اور اسباب زیست کی پیدائش کے۔11 یعنی یہ وضاحت ان لوگوں کے لئے ہے جو پیدائش کے متعلق سوال کرتے ہیں یا ” سائلین “ کے معنی ہیں ” مانگنے والوں کے لئے “ یعنی ضرورت مندوں کے لئے زمین میں خوراک کا سامان مہیا کردیا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ چناچہ مشاہد ہے کہ ہر حصہ ارض کے رہنے والوں کے مناسب الگ الگ غذائیں ہیں، یعنی زمین میں ہر قسم کے غلے میوے پیدا کردیئے، کہیں کچھ کہیں کچھ، جن کا سلسلہ اب تک چلا آتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرک اور کافر جس حقیقی الٰہ کے ساتھ شرک اور کفر کرتے ہیں صرف اسی ایک ذات نے زمین و آسمانوں اور پہاڑوں کو بنایا ہے۔ کیا کوئی ہستی ہے ؟ جس نے یہ کام کیے ہوں ؟ قرآن مجید نے یہ بات بھی بار ہا دفعہ بتلائی ہے کہ رمینوں آسمانوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے نہیں بنایا اور نہ ہی ان کے بنانے میں کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک تھا۔ اس لیے یہاں کفار سے استفسار کیا گیا ہے کہ کیا تم اس ذات کبریا کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو یوم میں پیدا فرمایا۔ تم بتوں، بزرگوں اور دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو۔ حالانکہ تمام جہانوں کا پیدا کرنے والا ایک ” اللہ “ ہی عبادت کے لائق ہے۔ اسی نے زمین پر پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت پیدا فرمائی اور اس میں ہر قسم کا معیشت کا سامان رکھا۔ جو ضرورت مندوں کے لیے برابر ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنہوں نے آپ سے سوال کیا ہے ان کا یہ جواب ہے۔ یہودیوں کا ایک وفد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر زمین و آسمانوں کے بارے میں سوال کرتا ہے جس کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ زمین اتوار اور پیر کے دن، پہاڑ اور جو کچھ ان میں معدنیات ہیں انہیں منگل کے دن، درخت، دریا، سمندر اور صحراء وغیرہ بدھ کے دن بنائے گئے اس طرح یہ نظام چار دن میں اپنی تکمیل کو پہنچا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان بنانے کا ارادہ فرمایا جو دھویں کی شکل میں تھا۔ زمین اور آسمان کو حکم صادر فرمایا کہ خوشی یا نا خوشی سے میرے پاس حاضر ہوجاؤ۔ زمینوں اور آسمانوں نے عرض کی کہ ہم بڑی خوشی کے ساتھ آپ کے حضور حاضر ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دو دن میں آسمان بنائے اور ہر آسمان میں جو کچھ پیدا فرمایا اسے حکم دیا کہ تو نے یہ یہ کام سرانجام دینے ہیں۔ پھر آسمان دنیا کو ستاروں سے مزیّن فرمایا اور شیطانوں سے اس کی حفاظت کا بندوبست کیا۔ اس نظام کو صرف ” اللہ “ غالب جاننے والے نے ہی اپنی مرضی سے بنایا اور پوری طرح مربوط کیا ہے۔ پہلی آیت میں یہ ذکر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان بنانے کا ارادہ فرمایا تو زمین اور آسمان کو حکم دیا کہ خوشی یا نا خوشی شے میرے پاس حاضر ہوجاؤ۔ گویا کہ یہ شاہی فرمان تھا کہ تم چاہو یا نہ چاہو بہرحال تمہیں یہ کام کرنا ہوگا۔ ان الفاظ میں بین السطور اللہ تعالیٰ کی رفعت و جلالت کا پتہ چلتا ہے۔ زمین و آسمان سے مراد ان کا میٹریل ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے پہلے حکم پر معرض وجود میں آچکا تھا۔ جس کی موجودہ زمانے کے کچھ سائنسدان بھی تائید کرتے ہیں۔ اس کا دوسرا معنٰی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہر چیز کا ذخیرہ فرمادیا تاکہ زمین میں رہنے والی مخلوق قیامت تک اپنی ضرورت پوری کرتی رہے گی۔ اس میں پہاڑ، سمندر، صحراء اور ہر چیز شامل ہے اس میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا۔ کہ کسی ایک علاقے کی بجائے مختلف چیزوں کو زمین کے مختلف طبقات میں رکھا جائے تاکہ تمام لوگ ایک دوسرے کے محتاج ہوں اور آپس میں رابطہ رکھنے کی ضرورت محسوس کرتے رہیں۔ اس لیے سائلین کا معنٰی حاجت مند بھی کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین، سمندر اور پہاڑوں میں اس طرح خزانے چھپادئیے ہیں کہ ہر دور کے انسان اپنی کوشش اور صلاحیت کے مطابق نکالتے رہیں گے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو دنوں میں تخلیق فرمایا۔ ٢۔ اللہ نے زمین کی تخلیق کے بعد اس میں پہاڑ جما دیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کو دو دنوں میں پیدا کیا۔ ٤۔ زمین و آسمانوں میں اللہ کا ہی حکم چلتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے انسان اور ہر جاندار کے لیے زمین، پہاڑ اور سمندر میں رزق رکھ کر اس میں برکت پیدا کردی ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور اس سے آسمان کی حفاظت کا بندوبست بھی فرمایا ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے : ١۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم : ٢٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٣۔ اللہ ہی نے انسان کو بڑی اچھی شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : ٤) ٤۔ اللہ نے ایک ہی جان سے سب انسانوں کو پیدا کیا۔ (الاعراف : ١٨٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ (البقرۃ : ٢٢) ٦۔ اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے اور اس کا ہی حکم چلنا چاہیے۔ (الاعراف : ٥٤) ٧۔ لوگو اس رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ (النساء : ١) ٨۔ اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٩۔ اللہ ہی رزق فراخ کرتا اور کم کرتا ہے۔ (ا لسباء : ٣٩) ١٠۔ اللہ تعالیٰ لوگوں سے رزق طلب نہیں مانگتا بلکہ وہ لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ (طٰہٰ : ١٣٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فِیْ اَرْبَعَۃِ اَیَّامٍ ) یہ مذکورہ کام چار دن میں ہوئے یعنی دو دن میں زمین پیدا فرمائی اور دو دن میں پہاڑوں کی پیدائش فرمائی اور برکت کا رکھ دینا اور روزیوں کا مقرر فرمانا ہوا چونکہ دیگر آیات میں آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان چیزوں کی تخلیق چھ دن بتائی ہے اس لیے مفسرین کرام نے مذکورہ بالا تفسیر اختیار کی ہے دو دن زمین کے پیدا فرمانے کے اور دو دن دوسری چیزوں کے (جو مذکور ہوئیں) اور دو دن آسمانوں کی تخلیق کے جن کا ذکر ابھی آتا ہے۔ انشاء اللہ۔ (سَوَاءً لِّلَسَّاءِلِیْنَ ) یہ پورے چار دن ہیں پوچھنے والوں کے لیے۔ تفسیر درمنثور میں بحوالہ حاکم اور بیہقی حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ یہودی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بارے میں سوال کیا آپ نے انہیں جواب دیا پھر اللہ تعالیٰ نے آیت بالا نازل فرمائی اور اس کے آخر میں فرمایا (سَوَاءً لِلَسَّاءِلِیْنَ ) کہ یہ چار دن ہیں پورے ان لوگوں کے جواب میں جو سوال کرنے والے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” وجعل فیہا رواسی “ زمین پر پہاڑ رکھ دئیے تاکہ وہ اپنی جگہ قائم رہے ” وبارک فیہا “ اور اس میں انسانوں کے لیے برکات و منافع ودیعت فرمادئیے اور ساری مخلوق کے لیے پورے اندازے کے ساتھ روزی اور معاش کا سامان اس میں رکھ دیا۔ زمین کو ساری مخلوق (انسان، جن، چوپائے، پرندے، حشرات الارض وغیرہ وغیرہ ) ۔ کی تمام ضروریات زندگی کا مخزن بنادیا جس سے مخلوق خدا حسب ضرورت قیامت تک استفادہ کرتی رہے گی اور زمین کے خزانوں سے ان کی تمام ضروریات زندگی پوری ہوتی رہیں گی۔ کوئی چیز ایک علاقے میں وافر پیدا کردی اور کوئی چیز دوسرے علاقہ میں۔ تاکہ لوگ مل جل کر اور امداد باہمی کے ساتھ زندگی بسر کریں اور ہر علاقہ کے لوگوں کو ضروریات زندگی میسر ہوں۔ قال عکرمۃ والضحاک معنی (قدر فیہا اقواتھا) ای ارزاق اھلہا وما یصلح لمعاشہم من التجارات والاشجار والمنافع فی کل بلدۃ مالم یجعلہ فی الاخری لعیش بعضہم من بعض بالتجارۃ والاسفار من بلد الی بلد (قرطبی ج 15 ص 342، خازن و معالم ج 6 ص 105، مدارک ج 4 ص 68) ۔ اگر آبادی میں اضافہ ہوجائے تو روتی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی (پیدائش کو روکنے کا منصوبہ) کی ضرورت نہیں اور نہ یہ منصوبہ اس مسئلہ کا صحیح حل ہے۔ بلکہ اس مسئلہ کا صحیح حل یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنی تمام جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں اور مالی وسائل کو بروئے کار لانے کا موقع دیا جائے تاکہ ہر انسان زمین میں پوشیدہ خدائی خزانوں سے اپنی روزی حاصل کرسکے۔ ” فی اربعۃ ایام “ یعنی دو دن میں زمین پیدا کی اور دو دن میں برکات و منافع اور ارزاق و اقوات مقدر کیے گئے۔ اس طرح یہ سارا کام چار دنوں میں مکمل ہوا اور مراد چار دنوں کی مدت کا اندازہ ہے، کیونکہ اس وقت دن رات کا وجود نہیں تھا۔ 9:۔ ” سواء للسائلین “ ” سواء “ میں تینوں قراءتیں ہیں۔ اول مجرور، اس صورت میں یہ ایام کی صفت ہوگی۔ دوم مرفوع۔ اس صورت میں یہ مبتدا محذوف کی خبر ہوگی اور جملہ ایام کی صفت ہوگا۔ سوم منصوب، اس صورت میں سواء، اربعۃ ایام سے حال ہوگا۔ تینوں صورتوں میں وقت سواء پر ہوگا اور مطلب یہ وگا کہ پورے چار دنوں کے اندازے میں یہ سب کام مکمل ہوا۔ اس میں ایک منٹ کا بھی فرق نہ تھا اور ہر حال میں للسائلین، قدر سے متعلق ہوگا۔ اور سائلین بمعنی محتاجین ہوگا۔ یعنی محتاجوں کے لیے زمین میں رزق کے خزانے رکھ دئیے یا سواء فعل متعدی سوی کا فعل مطلق ہے اور للسائلین، سوی سے متعلق ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جن لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا کہ یہ کام کتنی مدت میں مکمل ہوا۔ تو جواب میں فرمایا یہ تعداد سائلین کے علم کے موافق اور مطابق ہے۔ کیونکہ ان سائلین کو کتب آسمانی تورات و انجیل کے پڑھنے سے یا علماء اہل کتاب سے سننے کی وجہ سے اس کا علم تھا۔ قالہ الشیخ قدس سرہ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) اور اس نے زمین میں اس زمین کے اوپر بھاری بھاری پہاڑ قائم کردیئے اور اسی نے اس زمین میں برکت رکھی اور زمین پر رہنے والوں کی غذائیں اور روزی بھی اسی زمین میں مقرر کردیں یہ سب کچھ کامل چار دن میں ہوا دریافت کرنے والوں کے لئے یہ واضح بیان اور پورا جواب ہے۔ شاید یہود نے دریافت کیا تاکہ آپ کے جواب کو تورات سے ملا کر دیکھیں۔ اس کا یہ جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو ہی دن کے وقت کی مقدار میں یہ کام کیا کہ زمین پر پہاڑوں کو جمایا اور بھاری بھاری پہاڑ رکھے زمین میں برکت رکھی کہ برابر ہر چیز پیدا کرتی ہے اور برسہا برس سے زمین کی برکتوں سے مخلوق اس کی پیداوار سے مالا مال ہورہی ہے اسی کو فرمایا وقد فیھا اقوا تھا یعنی زمین کو روزیوں کا خزانہ بنایا جس مقام پر جس مذاق کی مخلوق بستی ہے وہاں اسی کے ذوق کے موافق رزق موجود ہے یہ سب کام یعنی زمین کو پیدا کرنا اور اس میں ہر قسم کی ضرورت کا رکھنا اور اس پر پہاڑ قائم کرنا اس کام کو چار دن میں کیا یعنی تدریجی طور سے اس کام میں چار دن کے برابر اور چار دن کی مقدار کے موافق وقت خرچ ہوا ورنہ یہ کام فوری بھی ہوسکتا تھا مگر مخلوق کی تعلیم کے لئے تاخیر سے کیا گیا تاکہ کام کرنے والے غور کریں اور کسی کام میں تعجیل کرنے کی بجائے سوچ سمجھ کر کام کیا کریں ان دنوں سے مراد دنیوی دن ہیں یا آخرت کے دن اس میں مفسرین کے دونوں قول ہیں۔ بہرحال ! آخر میں فرمایا کہ سوال کرنے والوں اور پوچھنے والوں کے لئے یہ پورا جواب ہے۔