Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 15

سورة حم السجدہ

فَاَمَّا عَادٌ فَاسۡتَکۡبَرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ قَالُوۡا مَنۡ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً ؕ اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیۡ خَلَقَہُمۡ ہُوَ اَشَدُّ مِنۡہُمۡ قُوَّۃً ؕ وَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یَجۡحَدُوۡنَ ﴿۱۵﴾

As for 'Aad, they were arrogant upon the earth without right and said, "Who is greater than us in strength?" Did they not consider that Allah who created them was greater than them in strength? But they were rejecting Our signs.

اب قوم عاد نے تو بے وجہ زمین میں سرکشی شروع کردی اور کہنے لگے کہ ہم سے زور آور کون ہے؟ کیا انہیں یہ نظر نہ آیا کہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے ( بہت ہی ) زیادہ زور آور ہے وہ ( آخر تک ) ہماری آیتوں کا انکار ہی کرتے رہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الاْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ... As for `Ad, they were arrogant in the land without right. means, they were arrogant, stubborn and disobedient. ... وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ... and they said: "Who is mightier than us in strength." They boasted of their physical strength, and power; they thought that this would protect them from Allah's punishment. ... أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ... See they not that Allah Who created them was mightier in strength than them. means, do they not realize, when they are showing enmity, that He is the Almighty Who created all things and gave them whatever strength they have, and that His onslaught will be far greater. This is like the Ayah: وَالسَّمَأءَ بَنَيْنَـهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ With Hands did We construct the heaven. Verily, We are able to extend the vastness of space thereof. (51:47) ... وَكَانُوا بِأيَاتِنَا يَجْحَدُونَ And they used to deny Our Ayat! They openly opposed the Almighty and denied His signs and disobeyed His Messenger. Allah said:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 اس فقرے سے ان کا مقصود یہ تھا کہ وہ عذاب روک لینے پر قادر ہیں کیونکہ وہ دراز قد اور نہایت زور آور تھے یہ انہوں نے اس وقت کہا جب ان کے پیغمبر حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان کو انذار و تنبیہ کے لیے عذاب الہی سے ڈرایا۔ 15۔ 1 یعنی کیا وہ اللہ سے بھی زیادہ زور آور ہیں، جس نے انہیں پیدا کیا اور انہیں قوت و طاقت سے نوازا۔ کیا ان کے بنانے کے بعد اس کی اپنی قوت و طاقت ختم ہوگئی ہے ؟ یہ استفہام استنکار اور توبیخ کے لیے ہے۔ 15۔ 2 ان معجزات کا جو انبیاء کو ہم نے دیئے تھے یا ان دلائل کا جو پیغمبروں کے ساتھ نازل کیے تھے یا ان آیات تکوینیہ کا جو کائنات میں پھیلی اور بکھری ہوئی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] حق کو قبول کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تکبر ہی ہوا کرتا ہے۔ رسولوں کی بات مان لینے سے ان کی اپنی اپنی سرداریوں اور چودھراہٹوں پر زد پڑتی ہے۔ لہذا یہ چودھری ٹائپ لوگ سینہ تان کر رسولوں کی مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے حلقہ اثر کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں اور یہ قوم عاد تو تھے بھی بڑے قدوقامت والے اور بڑے زور آور گھمنڈ میں آگئے۔ اور رسولوں سے کہنے لگے کہ ہم تمہیں کیا سمجھتے ہیں ؟ اس وقت انہیں اتنا خیال نہ آیا کہ رسول تو ان سے طاقت میں کمزور ہوسکتا ہے لیکن جس ہستی نے انہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے وہ تو ان سے کمزور نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فاما عاد فاستکبروا فی الارض …: اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو ایسے لمبے قد، جسمانی قوت اور دنیوی ترقی کے اسباب عطا فرمائے تھے کہ اس کے فرمان کے مطابق اس جیسی کوئی قوم پیدا ہی نہیں کی گئی، فرمایا :(الم ترکیف فعل ربک بعاد ارم ذات العماد التی لم یخلق مثلھا فی البلاد ) (الفجر : ٦ تا ٨)” کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے عاد کے ساتھ کس طرح کیا۔ (وہ عاد) جو ارم (قبیلہ کے لوگ) تھے، ستونوں والے۔ وہ کہ ان جیسا کوئی شہروں میں پیدا کیا گیا۔ “ اور فرمایا :(اتنبنون بکل ریح ایۃ تعبثون وتتخدون مصانع لعلکم تخلدون واذا بطثثم بطثثم جبارین) (الشعراء :128 تا 130)” کیا تم ہر اونچی جگہ پر ایک یادگار بناتے ہو ؟ اس حال میں کہ لاحاصل کام کرتے ہو۔ اور بڑی بڑی عمارتیں بناتے ہو، شاید کہ تم ہمیشہ رہو گے۔ اور جب تم پکڑتے ہو تو بہت بےرحم ہو کر پکڑتے ہو۔ “ جب ہود (علیہ السلام) نے انہیں توحید کی دعوت دی تو انہوں نے یہ جان لینے کے باوجود کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں، محض اپنی بڑائی اور سرداری کے گمان میں انہیں جھٹلا دیا، کیونکہ انہیں رسول ماننے کی صورت میں ان کی اطاعت اختیار کرنا پڑتی تھی، جس کے لئے وہ تیار نہ تھے۔ (٢) وقالوا من اشذمنا قوۃ : جب ہود (علیہ السلام) نے انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو وہ کہنے لگے کہ ہم سے زیادہ قوت والا کون ہے جس سے ہم خوف کھائیں ؟ ہم آنے والا ہر عذاب ہٹا سکتے ہیں۔ آج کل بھی ملحد لوگ آسمانی آفات کے متعلق کہتے ہیں کہ ہم ان کا مقابلہ کریں گے۔ شاہ عبدالقاد ر لکھتے ہیں :” شاہ عبد القادر لکھتے ہیں :” ان کے جسم بڑے بڑے ہوتے تھے، بدن کی قوت پر غرور آیا، غرور کا دم بھرنا اللہ کے ہاں وبال لاتا ہے۔ “ (موضح) (٣) اولم یروا ان اللہ الذی خلقھم …:” او لم یروا “ کا معنی ” اولم یعلموا “ ہے، یہ رؤیت علمی ہے۔ یعنی کیا انھیں معلوم نہ تھا کہ وہ کتنی قوت والے سہی، اس اللہ سے زیادہ قوت والے نہیں ہوسکتے جس نے انہیں پیدا کیا ؟ یقینا انھیں یہ معلوم تھا، استفہام انکاری ہے۔ (٤) وکانوا بایتنا یجحدون :” جحو ”‘ کا معنی ” جاننے کے باوجود انکار کرنا “ ہے۔ یعنی دل میں ان کا حق ہونا سمجھتے تھے، مگر ضد اور عناد کی وجہ سے انکار کرتے چلے جاتے تھے ۔ آیات سے مراد انبیاء پر نازل ہونے والی آیات بھی ہیں، ان کے معجزات بھی اور کائنات میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرت کی پھیلی ہوئی بیشمار نشانیاں بھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَمَّا عَادٌ فَاسْـتَكْبَرُوْا فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً۝ ٠ ۭ اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللہَ الَّذِيْ خَلَقَہُمْ ہُوَاَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّۃً۝ ٠ ۭ وَكَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْــحَدُوْنَ۝ ١٥ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ س قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ جحد الجُحُود : نفي ما في القلب إثباته، وإثبات ما في القلب نفيه، يقال : جَحَدَ جُحُوداً وجَحْداً قال عزّ وجل : وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] ، وقال عزّ وجل : بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] . وتَجَحَّدَ تَخَصَّصَ بفعل ذلك، يقال : رجل جَحِدٌ: شحیح قلیل الخیر يظهر الفقر، وأرض جَحْدَة : قلیلة النبت، يقال : جَحَداً له ونَكَداً ، وأَجْحَدَ : صار ذا جحد . ( ج ح د ) حجد ( ف ) جحد وجحودا ( رجان بوجھ کر انکار کردینا ) معنی دل میں جس چیز کا اقرار ہو اس کا انکار اور جس کا انکار ہو اس کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَحَدُوا بِها وَاسْتَيْقَنَتْها أَنْفُسُهُمْ [ النمل/ 14] اور ان سے انکار کیا کہ انکے دل انکو مان چکے تھے بِآياتِنا يَجْحَدُونَ [ الأعراف/ 51] اور ہماری آیتوں سے منکر ہورہے تھے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ رجل جحد یعنی کنجوس اور قلیل الخیر آدمی جو فقر کو ظاہر کرے ۔ ارض جحدۃ خشک زمین جس میں روئید گی نہ ہو ۔ محاورہ ہے : ۔ اسے خبر حاصل نہ ہو ۔ اجحد ۔ ( افعال ، انکار کرنا ۔ منکر ہونا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ { فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ } ” عاد کا معاملہ یہ تھا کہ انہوں نے زمین میں بہت تکبر کیا بالکل ناحق “ { وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً } ” اور انہوں نے کہا کہ کون ہے ہم سے بڑھ کر قوت میں ؟ “ { اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَہُمْ ہُوَ اَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّۃً } ” کیا انہوں نے غور نہیں کیا تھا کہ وہ اللہ جس نے انہیں پیدا کیا وہ ان سے بہت بڑھ کر ہے قوت میں ! “ اگر انہیں اپنے مدمقابل کوئی اور قوم اس وقت دنیا میں نظر نہیں آرہی تھی تو کیا انہیں اللہ کی طاقت بھی نظر نہیں آرہی تھی ؟ ایک وہ طاقتور ہستی تو بہر حال موجود تھی جس نے انہیں پیدا کیا تھا۔ { وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ } ” اور وہ ہماری آیات کا انکار کرتے رہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:15) فاما : اما حرف شرط ہے اور اس کے حرف شرط ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد حرف فاء کا آنا لازم ہے۔ جیسا کہ آیت ہذا میں آیا ہے :۔ فاما عاد فاستکبروا۔ یہ اکثر تفصیل کے لئے آتا ہے جیسا کہ آیت ہذا میں ہے اور کبھی تاکید کے لئے بھی مستعمل ہوتا ہے جہاں تک عاد کی بات ہے سو۔ رہا عاد کا ذکر سو ۔۔ جیسا کہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ اما السفینۃ فکانت لمسکین (18:79) ۔ رہی کشتی کی بات سو وہ غریب لوگوں کی تھی کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے مثلا اما بعد فانہ کذا۔ فاستکبروا : ف جواب شرط کے لئے ہے۔ استکبروا ماضی جمع مذکر غائب استکبار (استفعال) مصدر۔ انہوں نے تکبر کیا۔ گھمنڈ کیا۔ غرور کیا۔ بغیر الحق : ناحق ۔ بغیر استحقاق کے۔ بندوں کے لئے استکبار تو ہمیشہ ہی ناجائز ہے۔ بغیر الحق کے اضافہ نے بتادیا کہ ان لوگوں کے پاس استکبار کی کوئی بنیاد ان کے معیار سے بھی نہ تھی۔ (الماجدی) من اشد مناقوۃ : من استفہامیہ ہے۔ کون ۔ اشد افعل التفضیل کا صیغہ ہے شدۃ مصدر سے۔ اسدمنا ہم سے زیادہ سخت ہم سے قوی تر۔ قوۃ تمیز ہے یعنی بلحاظ قوت کے۔ ازروئے قوت کے ۔ یہ جملہ استفہام انکاری ہے یعنی ہم سے زیادہ طاقت ور کوئی نہیں ہے اولم یروا۔ یعنی کیا انہوں نے نہیں جانا۔ یہ بھی استفہام انکاری ہے اور فعل محذوف پر عطف ہے یعنی کیا انہوں نے یہ بات کہی اور یہ نہ جانا کہ ۔۔ وکانوا بایتنا یجحدون۔ اس جملہ کا عطف فاستکبروا پر ہے۔ کانوا یجحدون : ماضی استمراری کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ وہ انکار کرتے رہے۔ جحد و جحود مصدر (باب فتح) انکار کرنا۔ الجحود : الانکار مع العلم جان بوجھ کر انکار کرنا۔ بایتنا ہماری آیات سے، ہمارے معجزات سے۔ مطلب یہ کہ وہ ناحق تکبر و گھمنڈ کرنے لگے اور ہماری آیات سے انکار کرتے رہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد کا کفر اور اس کا انجام۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کا تعلق عرب کے عاد قبیلے سے تھا جن کی رہائش موجودہ جغرافیے کے مطابق عمان اور یمن کے علاقے حضرموت کے درمیان تھی۔ یہ علاقہ سمندر کے کنارے پر واقع تھا یہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور بلندوبالا پہاڑ ہیں۔ قوم عاد کے لوگ جسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ انہوں نے پہاڑتراش، تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے انھیں قرآن مجید میں ” احقاف والے “ کہا گیا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ھود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام، کڑیل جوان اور بہترین صورت و سیرت کے حامل تھے۔ قوم عاد کی خصوصیات اور جرائم : ١۔ اللہ تعالیٰ نے عاد کو قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور اختیار بخشا۔ (الاعراف : ٦٩) ٢۔ قوم عاد اس قدر کڑیل اور قوی ہیکل جوان تھے کہ ان جیسا دنیا میں کوئی اور پیدا نہیں کیا گیا۔ (الفجر ٦ تا ٨ ) انھیں افرادی قوت اور مویشیوں سے نوازا گیا۔ (الشعراء : ١٣٣) ٣۔ یہ قوم بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔ کھیتی باڑی اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ (الشعراء ١٢٩ تا ١٣٤) ٤۔ انھوں نے خود ساختہ معبود بنا رکھے تھے۔ (الانعام : ١٠١) ٥۔ قوم ثمود آخرت کو جھٹلانے والے اور دنیا پر اترانے والے تھے۔ (المؤمنون : ٣٣) ٦۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس دنیا کے سوا اور کوئی جہاں برپا نہیں ہوگا۔ (المؤمنون : ٣٧) ٧۔ قوم عاد اپنی قوت پر اترانے والے تھے۔ (حآالسجدۃ : ١٥) قوم عاد کے کفر کو اللہ تعالیٰ نے تکبّر قرار دیا ہے۔ بیشک کفر کرنے والا بول چال اور معاملات میں کتنا ہی بااخلاق کیوں نہ ہو حقیقت میں وہ متکبر ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی بات کو ترجیح دینے کی بجائے اپنے مفاد اور نظریات کو مقدّم سمجھتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے کافر اور مشرک کو متکبّر قرار دیا ہے۔ قوم ثمود نے اس لیے تکبّر کیا تھا وہ سمجھتے تھے کہ جسمانی قوت اور دنیوی ترقی کے اعتبار سے ہم سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ حالانکہ انہیں غور کرنا چاہیے تھا کہ جس ” اللہ “ نے انہیں پیدا کیا ہے وہ کتنا قوت والا ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکام کا انکار کیا۔ جس بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے کچھ دن منحوس بنا دئیے ان میں زبردست آندھیاں چلائیں۔ مسلسل آندھی اور بادوباراں کے طوفان کے ذریعے دنیا میں ذلّت کی موت مری اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہوگا اور انہیں کسی طرف سے کوئی مدد نہیں مل سکے گی۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی دن اور چیز فی نفسہٖ منحوس پیدا نہیں کی۔ منحوس ایام سے مراد جن ایام میں قوم ثمود پر عذاب نازل کیا گیا۔ وہ دن قوم ثمود کے لیے منحوس ثابت ہوئے۔ (وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا عَدْوٰی وَلَا طِےْرَۃَ وَ لَا ھَامَۃَ وَلاَ صَفَرَ وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الْاَسَدِ ) [ رواہ بخاری : بَابُ الْجُذْامِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ کوئی بھی بیماری متعدی نہیں۔ بد شگونی کی بھی نہیں ہے۔ نہ الوبد روح ہے اور نہ صفر کا مہینہ نحوست والا ہے۔ اور کوڑھی شخص سے اس طرح بھاگوجس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔ “ قوم عاد پر ” اللہ “ کے عذاب کی مختلف صورتیں : ١۔ سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقۃ : ٧) (الشعراء : ٢٠) ٢۔ گرج چمک اور بادو باراں کا طوفان آیا۔ (الاحقاف : ٢٤) ٣۔ آندھیوں نے انھیں کھجور کے تنوں کی طرح پٹخ پٹخ کر دے مارا۔ (الحاقۃ : ٧) ٤۔ انھیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ (الذاریات : ٤١، ٤٢) ٥۔ قوم عاد کو نیست و نابود کردیا گیا۔ (الاعراف : ٧٢) مسائل ١۔ قوم عاد اپنی طاقت کی وجہ سے متکبّر ہوگئی۔ حالانکہ جس ذات نے انہیں پیدا کیا وہ زیادہ طاقت ور ہے۔ ٢۔ قوم عاد نے تکبّر کی بنیاد پر اپنے رب کی ذات اور اس کے ارشادات کا انکار کیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد پر شدید آندھیاں چلائیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عادکو دنیا میں ذلیل کیا اور آخرت میں شدید عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ ٥۔ قوم عاد کی کوئی بھی مدد نہ کرسکا۔ ٦۔ قیامت کے دن بھی قوم عاد کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ تفسیر بالقرآن قوم عاد کی تباہی کا ایک منظر : ١۔ قوم عاد کی تباہی کا سبب رسولوں کی نافرمانی تھی۔ (ھود : ٥٩) ٢۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقۃ : ٦) ٣۔ قوم عاد نے اپنے رسول کو جھٹلایا تو اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔ (الشعراء : ١٣٩) ٤۔ (الحاقۃ : ٧) (الشعراء : ٢٠) (الاعراف : ٧٢) (الذاریات : ٤١، ٤٢) (الحاقۃ : ٧) (الاحقاف : ٢٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ ” فاما عاد “۔ قوم عاد کو اپنی قوت و شوکت پر ناز تھا اس لیے کبر اور غرور پر اتر آئے اور کہنے لگے کون ہے جو قوت میں ہم سے فائق اور برتر ہے ؟ ” اولم یرو ان اللہ الخ “ یہ ادخال الٰہی ہے۔ فرمایا ان نادانوں نے یہ نہیں سوچا کہ جس اللہ نے ان کو پیدا کیا اور قوت عطا کی وہ ان سے بھی زیادہ قوی اور طاقت ور ہے لیکن انہیں یہ سمجھنے کی توفیق نہ ملی اور وہ ہماری آیتوں کا مسلسل انکار ہی کرتے رہے بلکہ غرور و استکبار کی وجہ سے ان کو سننا بھی گوارہ نہ کیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) پس وہ جو عاد تھے وہ دنیا میں ناحق تکبر اور غرور کرنے لگے اور جب ان کو ڈرایا گیا تو کہنے لگے وہ کون ہے جو قوت میں ہم سے زیادہ ہے کیا ان لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ جس اللہ تعالیٰ نے ان کو بنایا اور پیدا کیا ہے وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ ہے غرض ! وہ ہماری نشانیوں کا انکار ہی کرتے رہے۔ یہ عاد وثمود کے بعض حالات کی تفصیل ہے کہ عاد کے لوگ بڑے قدآور اور بڑے مضبوط تھے انہوں نے تکبر اور غرور اختیار کررکھا تھا اپنی طاقت اور زور کے آگے کسی کو سنتے ہی نہ تھے جب ان کو اللہ تعالیٰ کے غضب سے ڈرایا گیا تو انجان بن کر پوچھنے لگے وہ ہے کون جو ہم سے قوت اور زور میں زیادہ ہے تو ہم کو عذاب دے گا۔ حضرت حق تعالیٰ نے جواب دیا کیا ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں اور انہوں نے نہیں دیکھا کہ جس اللہ تعالیٰ نے ان کو بنایا ہے وہ ان سے زور اور طاقت میں کہیں زیادہ ہے اور یہ لوگ ہماری آیتوں کے ساتھ انکار کرنے کے خوگر ہوچکے تھے اب آگے عذاب کی تفصیل ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں رسول آئے آگے سے اور پیچھے سے یعنی ہر طرف سے شاید رسول بہت آئے ہوں گے مشہور یہی ہے دو رسول ہیں حضرت ہود (علیہ السلام) اور حضرت صالح (علیہ السلام) ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) اور فرماتے ہیں ان کے جسم بڑے بڑے ہوتے تھے بدن کی قوت پر غرور کا دم مارنا اللہ کے ہاں وبال لاتا ہے۔