Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 19

سورة حم السجدہ

وَ یَوۡمَ یُحۡشَرُ اَعۡدَآءُ اللّٰہِ اِلَی النَّارِ فَہُمۡ یُوۡزَعُوۡنَ ﴿۱۹﴾

And [mention, O Muhammad], the Day when the enemies of Allah will be gathered to the Fire while they are [driven] assembled in rows,

اور جس دن اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف لائے جائیں گے اور ان ( سب ) کو جمع کر دیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

On the Day of Judgement, the Sinners' Limbs will testify against Them Allah says, وَيَوْمَ يُحْشَرُ أَعْدَاء اللَّهِ إِلَى النَّارِ فَهُمْ يُوزَعُونَ And (remember) the Day that the enemies of Allah will be gathered to the Fire, then they will be driven. means, remind these idolators of the Day when they will be gathered to the Fire and they will be driven, i.e., the keepers of Hell will gather the first of them with the last of them, as Allah says elsewhere: وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْداً And We shall drive the criminals to Hell, in a thirsty state. (19:86)

انسان اپنا دشمن آپ ہے ۔ یعنی ان مشرکوں سے کہو کہ قیامت کے دن ان کا حشر جہنم کی طرف ہو گا اور داروغہ جہنم ان سب کو جمع کریں گے جیسے فرمان ہے ( وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِيْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًا 86؀ۘ ) 19-مريم:86 ) یعنی گنہگاروں کو سخت پیاس کی حالت میں جہنم کی طرف ہانک لے جائیں گے ۔ انہیں جہنم کے کنارے کھڑا کر دیا جائے گا ۔ اور ان کے اعضاء بدن اور کان اور آنکھیں اور پوست ان کے اعمال کی گواہیاں دیں گی ۔ تمام اگلے پچھلے عیوب کھل جائیں گے ہر عضو بدن پکار اٹھے گا کہ مجھ سے اس نے یہ یہ گناہ کیا ، اس وقت یہ اپنے اعضا کی طرف متوجہ ہو کر انہیں ملامت کریں گے ۔ کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ کی حکم بجا آوری کے ماتحت اس نے ہمیں بولنے کی طاقت دی اور ہم نے سچ سچ کہہ سنایا ۔ وہی تو تمہارا ابتداء پیدا کرنے والا ہے اسی نے ہر چیز کو زبان عطا فرمائی ہے ۔ خالق کی مخالفت اور اس کے حکم کی خلاف ورزی کون کر سکتا ہے؟ بزار میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مسکرائے یا ہنس دیئے پھر فرمایا تم میری ہنسی کی وجہ دریافت نہیں کرتے؟ صحابہ نے کہا فرمایئے کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا قیامت کے دن بندہ اپنے رب سے جھگڑے گا ۔ کہے گا کہ اے اللہ کیا تیرا وعدہ نہیں کہ تو ظلم نہ کرے گا ؟ اللہ تعالیٰ اقرار کرے گا تو بندہ کہے گا کہ میں تو اپنی بد اعمالیوں پر کسی کی شہادت قبول نہیں کرتا ۔ اللہ فرمائے گا کیا میری اور میرے بزرگ فرشتوں کی شہادت ناکافی ہے؟ لیکن پھر بھی وہ بار بار اپنی ہی کہتا چلا جائے گا ۔ پس اتمام حجت کیلئے اس کی زبان بند کر دی جائے گی اور اس کے اعضاء بدن سے کہا جائے گا کہ اس نے جو جو کیا تھا اس کی گواہی تم دو ۔ جب وہ صاف صاف اور سچی گواہی دے دیں گے تو یہ انہیں ملامت کرے گا اور کہے گا کہ میں تو تمہارے ہی بچاؤ کیلئے لڑ جھگڑ رہا تھا ۔ ( مسلم نسائی وغیرہ ) حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کافر و منافق کو حساب کیلئے بلایا جائے گا اس کے اعمال اس کے سامنے پیش ہوں گے تو قسمیں کھا کھا کر انکار کرے گا اور کہے گا اے اللہ تیرے فرشتوں نے وہ لکھ لیا ہے جو میں نے ہرگز نہیں کیا فرشتے کہیں گے فلاں دن فلاں جگہ تو نے فلاں عمل نہیں کیا ؟ یہ کہے گا اے اللہ تیری عزت کی قسم میں نے ہرگز نہیں کیا ۔ اب منہ پر مہر مار دی جائے گی اور اعضا بدن گواہی دیں گے سب سے پہلے اس کی داہنی ران بولے گی ، ( ابن ابی حاتم ) ابو یعلی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن کافر کے سامنے اس کی بداعمالیاں لائی جائیں گی تو وہ انکار کرے گا اور جھگڑنے لگے گا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ ہیں تیرے پڑوسی جو شاہد ہیں ۔ یہ کہے گا سب جھوٹے ہیں ۔ فرمائے گا یہ ہیں تیرے کنبے قبیلے والے جو گواہ ہیں کہے گا یہ بھی سب جھوٹے ہیں ۔ اللہ ان سے قسم دلوائے گا ، وہ قسم کھائیں گے لیکن یہ انکار ہی کرے گا ۔ سب کو اللہ چپ کرا دے گا اور خود ان کی زبانیں ان کے خلاف گواہی دیں گی پھر انہیں جہنم واصل کر دیا جائے گا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں قیامت کے دن ایک وقت تو وہ ہوگا کہ نہ کسی کو بولنے کی اجازت ہوگی نہ عذر معذرت کرنے کی ۔ پھر جب اجازت دی جائے گی تو بولنے لگیں گے اور جھگڑے کریں گے اور انکار کریں گے اور جھوٹی قسمیں کھائیں گے ۔ پھر گواہوں کو لایا جائے گا آخر زبانیں بند ہو جائیں گی اور خود اعضاء بدن ہاتھ پاؤں وغیرہ گواہی دیں گے ۔ پھر زبانیں کھول دی جائیں گی تو اپنے اعضاء بدن کو ملامت کریں گے وہ جواب دیں گے کہ ہمیں اللہ نے قوت گویائی دی اور ہم نے صحیح صحیح کہا پس زبانی اقرار بھی ہو جائے گا ۔ ابن ابی حاتم میں رافع ابو الحسن سے مروی ہے کہ اپنے کرتوت کے انکار پر زبان اتنی موٹی ہو جائے گی کہ بولا نہ جائے گا ۔ پھر جسم کے اعضاء کو حکم ہوگا تم بولو تو ہر ایک اپنا اپنا عمل بتا دے گا کان ، آنکھ ، کھال ، شرم گاہ ، ہاتھ ، پاؤں وغیرہ ۔ اور بھی اسی طرح کی بہت سی روایتیں سورہ یٰسین کی آیت ( اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 65؀ ) 36-يس:65 ) ، کی تفسیر میں گزر چکی ہے ۔ جنہیں دوبارہ وارد کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں جب ہم سمندر کی ہجرت سے واپس آئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہم سے پوچھا تم نے حبشہ کی سرزمین پر کوئی تعجب خیز بات دیکھی ہو تو سناؤ ۔ اس پر ایک نوجوان نے کہا ایک مرتبہ ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان کے علماء کی ایک بڑھیا عورت ایک پانی کا گھڑا سر پر لئے ہوئے آ رہی تھی انہی میں سے ایک جوان نے اسے دھکا دیا جس سے وہ گر پڑی اور گھڑا ٹوٹ گیا ۔ وہ اٹھی اور اس شخص کی طرف دیکھ کر کہنے لگی مکار تجھے اس کا حال اس وقت معلوم ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی کرسی سجائے گا اور سب اگلے پچھلوں کو جمع کرے گا اور ہاتھ پاؤں گواہیاں دیں گے ۔ اور ایک ایک عمل کھل جائے گا اس وقت تیرا اور میرا فیصلہ بھی ہو جائے گا ۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اس نے سچ کہا اس نے سچ کہا اس قوم کو اللہ تعالیٰ کس طرح پاک کرے جس میں زور آور سے کمزور کا بدلہ نہ لیا جائے؟ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے ۔ ابن ابی الدنیا میں یہی روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے ، جب یہ اپنے اعضا کو ملامت کریں گے تو اعضاء جواب دیتے ہوئے یہ بھی کہیں گے کہ تمہارے اعمال دراصل کچھ پوشیدہ نہ تھے اللہ کے دیکھتے ہوئے اس کے سامنے تم کفر و معاصی میں مستغرق رہتے تھے اور کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے ۔ کیونکہ تم سمجھے ہوئے تھے کہ ہمارے بہت سے اعمال اس سے مخفی ہیں ، اسی فاسد خیال نے تمہیں تلف اور برباد کر دیا اور آج کے دن تم برباد ہوگئے ۔ مسلم ترمذی وغیرہ میں حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ میں کعبتہ اللہ کے پردے میں چھپا ہوا تھا جو تین شخص آئے بڑے پیٹ اور کم عقل والے ایک نے کہا کیوں جی ہم جو بولتے چالتے ہیں اسے اللہ سنتا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا اگر اونچی آواز سے بولیں تو تو سنتا ہے اور آہستہ آواز سے باتیں کریں تو نہیں سنتا ۔ دوسرے نے کہا اگر کچھ سنتا ہے تو سب سنتا ہوگا میں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا اس پر آیت ( وَمَا كُنْتُمْ تَسْـتَتِرُوْنَ اَنْ يَّشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَآ اَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُوْدُكُمْ وَلٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ 22؀ ) 41- فصلت:22 ) ، نازل ہوئی ۔ عبد الرزق میں ہے منہ بند ہونے کے بعد سب سے پہلے پاؤں اور ہاتھ بولیں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جناب باری عزاسمہ کا ارشاد ہے کہ میرے ساتھ میرا بندہ جو گمان کرتا ہے میں اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں اور جب وہ مجھے پکارتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ۔ حضرت حسن اتنا فرما کر کچھ تامل کرکے فرمانے لگے جس کا جیسا گمان اللہ کے ساتھ ہوتا نیک ظن ہوتا ہے وہ اعمال بھی اچھے کرتا ہے اور کافر و منافق چونکہ اللہ کے ساتھ بدظن ہوتے ہیں وہ اعمال بھی بد کرتے ہیں ۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے تم میں سے کوئی شخص نہ مرے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ کے ساتھ نیک ظن ہو ۔ جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ برے خیالات رکھے اللہ نے انہیں تہ و بالا کر دیا ۔ پھر یہی آیت آپ نے پڑھی ، آگ جہنم میں صبر سے پڑے رہنا اور بےصبری کرنا ان کیلئے یکساں ہے ۔ نہ ان کی عذر معذرت مقبول نہ ان کے گناہ معاف ۔ یہ دنیا کی طرف اگر لوٹنا چاہیں تو وہ راہ بھی بند جیسے اور جگہ ہے جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم پر ہماری بد بختی چھا گئی ۔ یقینا ہم بےراہ تھے ۔ اے اللہ اب تو یہاں سے نجات دے ۔ اگر ایسا کریں تو پھر ہمیں ہمارے ظلم کی سزا دینا ۔ لیکن جناب باری کی طرف سے جواب آئے گا کہ اب یہ منصوبے بےسود ہیں ۔ دھتکارے ہوئے یہیں پڑے رہو خبردار جو مجھ سے بات کی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یہاں اذکر محذوف ہے وہ وقت یاد کرو جب اللہ کے دشمنوں کو جہنم کے فرشتے جمع کریں گے یعنی اول سے آخر تک کے دشمنوں کا اجتماع ہوگا۔ 19۔ 1 ای یحبس اولھم علی آخرھم لیلا حقوا (فتح القدیر) یعنی ان کو روک روک کر اول وآخر کو باہم جمع کیا جائے گا اس لفظ کی مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورة النمل آیت نمبر 17 (وَحُشِرَ لِسُلَيْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ ) کا حاشیہ

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] روکنے کی دو صورتیں یا وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ مجرموں کی الگ الگ جرائم کے مطابق گروہ بندی کی جائے۔ دوسری یہ کہ پہلی نسل کو بعد میں آنے والی نسلوں کے آنے تک روک دیا جائے۔ تاکہ پہلی نسلوں نے جو شرکیہ عقائد اور رسوم چھوڑے اور انہیں بعد والی نسلوں نے تقلید آباء کے طور پر قبول کیا۔ تو ان بعد والی نسلوں کے گناہوں کی سزا کا کچھ حصہ ان پہلی نسلوں پر بھی ڈالا جائے گا۔ جنہوں نے ان شرکیہ عقائد و رسوم کو رواج دیا تھا یا کسی دوسرے برے کام کی طرح ڈالی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ویوم یحشر اعدآء اللہ الی النار : لفظ ” یوم “ ” اذکر “ کا مفعول ہے جو یہاں مقدر ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ واؤ کا عطف کس پر ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اس سے پہلے انبیاء کو جھٹلانے والے منکرین پر دنیا میں آنے والے عذابوں کا ذکر فرمایا تھا، اب آخرت میں ان کے ہونے والے حال کا ذکر فرمایا۔ چناچہ آخرت کا حال یاد دلانے والے اس جملے کا عطف اس مقدر جملے پر ہے جس میں ان پر دنیا میں آن والے عذاب یاد دلائے گئے ہیں۔ گویا اصل عبارت یہ تھی ” اذکر ایام اعداء اللہ فی الدنیا فی انزال العذاب لھم واذکر یوم یحشرون الی النار۔ “ یعنی ” انہیں اللہ کے دشمنوں پر دنیا میں آنے والے عذابوں کی یاد دہانی کرو اور انہیں وہ دن یاد دلا جب وہ آگ کی طرف اکٹھے کئے جائیں گے۔ “ آیات کی ابتداء میں آنے والی واؤ عاطفہ کی مناسبت ہر جگہ ” نظم الدرر فی تناسب الآیات والسور “ کے مصنف نے نہایت عمدہ بیان فرمائی ہے۔ میں نے اختصار کے پیش نظر صرف چند ایک مقامات پر اس کا ذکر کیا ہے، اصحاب ذوق اصل کتاب سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ (٢) فھم یوزعون :” وزع یزع “ کا اصل معنی روکنا، ترتیب دینا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے دشمنوں کو آگ کی طرف اکٹھا کر کے لے جایا جائے گا اور انہیں اس طرح اکٹھا کیا جائے گا کہ آگے والوں کو آگے جانے سے اور پیچھے والوں کو پیچھے جانے سے روک کر اکٹھا کرلیا جائے گا، پھر ان کی الگ الگ ترتیب لگائی جائے گی، ان کے جرائم کے مطابق ان کی ٹولیاں بنائی جائیں گی اور انہیں دھکیل کر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ یکھیے سورة حم السجدہ (١٩) اور سورة صافات (٢٢ تا ٢٦) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَهُمْ يُوزَعُونَ (So they will be kept under control…...41:19) The original word used in the text is ` Yuza’ un& which is derived from waz& which means ` to stop&, ` to prevent&. Most of the learned exegetes have explained it in the sense that when people of Hell, who will be numerous, will be taken forward to the field of hashr and the place of reckoning, the people in the front will be halted for a while, so that the people in the rear also catch up with them. This will be done to avoid indiscipline. (It is this interpretation of the verse on the basis of which it is translated as ` kept under control& ) And some exegetes have translated ` Yuza’ un& as ` pushed& which means that they would be driven towards the place of reckoning by being pushed. (Qurtubi)

(آیت) فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ ۔ یہ وزع سے مشتق ہے جس کے معنی روکنے اور منع کرنے کے آتے ہیں، اسی کے مطابق خلاصہ تفسیر مذکور میں اس کا ترجمہ روکنے سے کیا گیا ہے۔ اور اکثر حضرات مفسرین نے یہی معنی لئے ہیں کہ اہل جہنم جو بڑی تعداد میں ہوں گے ان کو میدان حشر اور موقف حساب کی طرف جانے کے وقت انتشار سے بچانے کے لئے اگلے حصہ کو کچھ روک دیا جائے گا، تاکہ پچھلے لوگ بھی آ ملیں۔ اور بعض حضرات مفسرین نے یوزعون کا ترجمہ یساقون و یدفعون سے کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کو موقف حساب کی طرف ہانک کر دھکے دے کر لایا جائے گا۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ يُحْشَرُ اَعْدَاۗءُ اللہِ اِلَى النَّارِ فَہُمْ يُوْزَعُوْنَ۝ ١٩ حشر ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ وزع يقال : وَزَعْتُهُ عن کذا : کففته عنه . قال تعالی: وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ النمل/ 17] فقوله : يُوزَعُونَ [ النمل/ 17] إشارةٌ إلى أنهم مع کثرتهم وتفاوتهم لم يکونوا مهملین ومبعدین، كما يكون الجیش الکثير المتأذّى بمعرّتهم بل کانوا مسوسین ومقموعین . وقیل في قوله : يُوزَعُونَ أي : حبس أولهم علی آخرهم، وقوله : وَيَوْمَ يُحْشَرُ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ فصلت/ 19] فهذا وَزْعٌ علی سبیل العقوبة، کقوله : وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج/ 21] وقیل : لا بدّ للسّلطان من وَزَعَةٍ وقیل : الوُزُوعُ الولوعُ بالشیء . يقال : أَوْزَعَ اللهُ فلاناً : إذا ألهمه الشّكر، وقیل : هو من أُوْزِعَ بالشیء : إذا أُولِعَ به، كأن اللہ تعالیٰ يُوزِعُهُ بشكره، ورجلٌ وَزُوعٌ ، وقوله : رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ [ النمل/ 19] قيل : معناه : ألهمني وتحقیقه : أولعني ذلك، واجعلني بحیث أَزِعُ نفسي عن الکفران . ( و ز ع ) وزعتہ عن کذا کے معنی کسی آدمی کو کسی کام سے روک دینا کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ النمل/ 17] اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جنون اور انسانوں کے لشکر جمع کئے گئے اور وہ قسم دار کئے گئے تھے ۔ تو یوزعون میں نے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ عسا کر باوجود کثیر التعداد اور متفاوت ہونے کے غیر مرتب اور منتشر نہیں تھے جیسا کہ عام طور پر کثیر التعداد افواج کا حال ہوتا ہے بلکہ وہ نظم وضبط میں تھے کہ کبھی سر کشی اختیار نہیں کرتے تھے اور بعض نے یو زعون کے یہ معنی کئے ہیں کہ لشکر کا اگلا حصہ پچھلے کی خاطر رکا رہتا تھا ۔ اور آیت : ۔ وَيَوْمَ يُحْشَرُ إلى قوله : فَهُمْ يُوزَعُونَ [ فصلت/ 19] جس دن خدا کے دشمن دو زخ کی طرف چلائے جائیں گے تو ترتیب وار کر لئے جائیں گے ۔ میں یوزعون سے انہیں عقوبت کے طور پر روک لینا مراد ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَهُمْ مَقامِعُ مِنْ حَدِيدٍ [ الحج/ 21] اور ان کے مارنے ٹھوکنے ) کے لئے لوہے کے ہتھوڑے ہو نگے محاورہ ہے کہ سلطان کے لئے محافظ دستہ یا کار ندوں کا ہونا ضروری ہے ۔ جو لوگوں کو بےقانون ہونے سے روکیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ وزوع کے معنی کسی چیز پر فریضۃ ہونے کے ہیں اور محاورہ ہے : ۔ اوزع اللہ فلانا اللہ تعالیٰ نے فلاں کو شکر گزرای کا الہام کیا بعض نے کہا کہ یہ بھی اوزع باالشئی سے ماخوز ہے جس کے معنی کسی چیز کا شیدائی بننے کے ہیں تو اوزع اللہ فلانا سے مراد یہ ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی شکر گزاری کا شیدائی بنادیا اور رجل وزوع کے معنی کسی چیز پر فریضۃ ہونے والا کے ہیں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ [ النمل/ 19] اے پروردگار مجھے توفیق عنایت کر کہ جو احسان تونے مجھے کئے ہیں ان کا شکر کروں ۔ میں بعض نے اوزعنی کے معنی الھمنی کئے ہیں یعنی مجھے شکر گزاری کا الہام کر مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ مجھے شکر گزاری کا الہام کر مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ مجھے شکر گزاری کا اس قدر شیفۃ بنا کہ میں اپنے نفس کو تیر ی ناشکری سے روک لوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

قیامت کے دن جبکہ صفوان بن امیہ اور اس کے دونوں داماد ربیعہ بن عمرو اور تمام کفار کو دوزخ کی طرف لایا جائے گا اور پھر ترتیب وار روکے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ { وَیَوْمَ یُحْشَرُ اَعْدَآئُ اللّٰہِ اِلَی النَّارِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ } ” اور جس دن اللہ کے یہ دشمن جمع کیے جائیں گے آگ کی طرف تو ان کی درجہ بندی کی جائے گی۔ “ ظاہر ہے کردار و اعمال کے حوالے سے اہل جہنم سب برابر نہیں ہوں گے۔ ہر مجرم کا عذاب اس کے جرم کے مطابق ہوگا۔ چناچہ وہاں جرائم اور سزائوں کی اقسام کے مطابق اہل جہنم کو الگ الگ جماعتوں اور گروہوں میں تقسیم کیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23 What is meant to be said have is: "When they will be rounded up to be presented in the Court of Allah," though the words used are to the effect: "When they will be gathered to be driven to Hell," for Hell in any case will be their final destination. 24 That is, All the former and latter generations and races will be gathered together at a time and called to account together, For whatever a person does in his lifetime, whether good yr evil, its influence and impact dces not end with his life; but continues to operate even after his death for long periods of time, for which he is totally responsible. Likewise, whatever a generation does in its own time, its influence continues to affect the later generations for. centuries, and it is responsible for its heritage. It is inevitable to examine All these influences and their results and to collect their evidences. For that very reason, generation after generation of the people will go on arriving and will be withheld. The Court will start its work when All the former and latter generations will have assembled together in the Plain of Resurrection. (For further explanation, see AI-A'raf: 3839 and E.N. 30 on it).

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :23 اصل مدعا یہ کہنا ہے کہ جب وہ اللہ کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے گھیر لائے جائیں گے ۔ لیکن اس مضمون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ دوزخ کی طرف جانے کے لیے گھیر لائے جائیں گے ۔ کیونکہ ان کا انجام آخر کار دوزخ ہی میں جانا ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :24 یعنی ایسا نہیں ہو گا کہ ایک ایک نسل اور ایک ایک پشت کا حساب کر کے اس کا فیصلہ یکے بعد دیگرے کیا جاتا رہے ، بلکہ تمام اگلی پچھلی نسلیں بیک وقت جمع کی جائیں گی اور ان سب کا اکٹھا حساب کیا جائے گا ۔ اس لیے کہ ایک شخص اپنی زندگی میں جو کچھ بھی اچھے اور برے اعمال کرتا ہے اس کے اثرات اس کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتے بلکہ اس کے مرنے کے بعد بھی مدت ہائے دراز تک چلتے رہتے ہیں اور وہ ان اثرات کے لیے ذمہ دار ہوتا ہے ۔ اسی طرح ایک نسل اپنے دور میں جو کچھ بھی کرتی ہے اس کے اثرات بعد کی نسلوں میں صدیوں جاری رہتے ہیں اور اپنے اس ورثے کے لیے وہ ذمہ دار ہوتی ہے ۔ محاسبے اور انصاف کے لیے ان سارے ہی آثار و نتائج کا جائزہ لینا اور ان کی شہادتیں فراہم کرنا ناگزیر ہے ۔ اسی وجہ سے قیامت کے روز نسل پر نسل آتی جائے گی اور ٹھہرائی جاتی رہے گی ۔ عدالت کا کام اس وقت شروع ہو گا جب اگلے پچھلے سب جمع ہو جائیں گے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ ۳ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:19) ویوم : واؤ عاطفہ ہے اور اس کا عطف قل انذرتکم صعقۃ آیت 13 متذکرہ بالا۔ پر ہے۔ یوم منصوب بوجہ فعل مقدرہ کے مفعول ہونے کے ہے۔ ای اذکر یوم : اور (ان کو) یاد دلائیے وہ دن کہ ۔۔ یا یہ یحشر کا مفعول فیہ (ظرف زمان) ہے۔ یحشر ۔۔ الی : مضارع مجہول واحد مذکر غائب ۔ جمع کرکے لے جائے جائیں گے۔ فہم یوزعون فاء تفصیلیہ ہے (یعنی فاء ترتیب ذکری جو مفصل کو مجمل پر عطف کرنے کو کہتے ہیں ۔ اس کی مثال : ونادی نوح ربہ فقال رب ۔۔ الآیۃ (11:45) الاتقان جلد اول نوع چالیسویں الفائ۔ یوزعون : مضارع مجہول واحد مذکر غائب وزع مصدر (باب فتح) ان کو جمع کیا جائے گا۔ وزع کے اصل معنی ہیں روک دینا۔ اور وزع الجیش (غیر ترتیبی اور انتشار سے روک کر) فوج کو ترتیب وار صفوں میں رکھنا ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے وحشر لسلمین جنودہ من الجن والانس والطیر فہم یوزعون (27:17) اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے اور وہ قسم وار کئے گئے تھے۔ بعض نے یوزعون کے یہ معنی کئے ہیں کہ لشکر کا اگلا حصہ پچھلے کی خاطر رکا رہتا تھا۔ آیت ہذا میں بھی دونوں معنی ہوسکتے ہیں۔ جس دن خدا کے دشمن دوزخ کی طرف (لیجائے جانے کے لئے) جمع کئے جائیں گے پھر روکے جائیں گے (تاکہ باقی لوگ بھی آجائیں) اور ترتیب وار کر لئے جائیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی اے کفار قریش ! ذرا اس دن کا تصور کرو جب۔۔۔۔۔۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 19 تا 25 : یحشر ( اکٹھے کئے جائیں گے) یوزعون (گروہوں میں تقسیم ہوں گے) شھد (اس نے گواہی دی) جلود (جلد) ( کھالیں ، گوشت پوست ، چمڑے) لم شھدتم (تم نے گواہی کیوں دی) انطقنا (ہمیں بولنے کی طاقت دی) مرۃ (مرتبہ ، باربار) تستترون ( تم پردہ کرتے ہو ، چھپاتے ہو) اردی ( اردائ) (ہلاک کیا ، تباہ کیا) یستعتبوا (راضی کریں گے) قیضنا (ہم نے مقرر کردیا) تشریح : آیت نمبر 19 تا 25 : انسان راز داری کے ہزاروں پردوں کے اندر چھپ کر کوئی کام کرے یا اعلانیہ کھلم کھلا ۔ اللہ کو اس کی ایک ایک ایک حرکت کا علم ہوتا ہے۔ جس بات کو دنیا کا کوئی آدمی نہیں جانتا اور ہر ایک سے پوشیدہ ہے اللہ کو اس کا بھی علم ہے لیکن جس طرح شتر مرغ ریت میں منہ چھپا کر یہ سمجھتا ہے کہ وہ دنیا کی نظروں سے چھپ گیا ہے اسی طرح گناہ گار اور خطا کار آدمی بھی یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ہر حرکت دوسروں سے پوشیدہ ہے حالانکہ اللہ اس کو جنتا ہے اور اسکے پاس ہر بات کا ریکارڈ موجود ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار مکہ میں سے اکثر لوگوں کا یہ گمان تھا کہ اگر کوئی کام چھپ کر کیا جائے تو اس کا علم کسی کو نہیں ہوتا یہاں تک کہ ( نعوذ باللہ) اللہ کو بھی اس کے متعلق کچھ علم نہیں ہوتا ۔ اس غلط اور بےبنیاد گمان نے ان کو تباہی کے کنارے تک پہنچا دیا تھا۔ اگر انہیں اس بات کا ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ وہ زندگی بھر جن اعضاء کے بنانے سنوارنے اور خدمت کرنے میں لگے رہتے تھے وہی ہاتھ ، پاؤں ، زبان ، گوشت ، پوست ، ہڈیاں اور کھالیں ان کے خلاف گواہی دینے کھڑے ہوجائیں گے تو ان کا انداز فکر اور طرز عمل بڑا مختلف ہونا ، چناچہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود (رض) ایک دن بیت اللہ شریف کے پردے سے چمٹے ہوئے دعا کر رہے تھے کہ آپ نے دو آدمیوں کی گفتگو سنی جو آپس میں باتیں کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ جو بات کھلم کھلا اعلانیہ کی جائے اللہ کو صرف اسی کا علم ہوتا ہے یعنی جو بات پوشیدہ ہوتی ہے اس کا علم اللہ کو نہیں ہوتا ۔ اس کے متعلق حضرت عبد اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں تین باتوں کو بتایا گیا ہے ۔ پہلی بات تو یہ کہ قیامت کے دن جب اللہ کے دشمنوں یعنی کفار و مشرکین کو اللہ کے فرشتے جہنم کی طرف ہنکار کرلے جا رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو مختلف گروہوں میں تقسیم فرما دیں گے جو ایک ایک کر کے جہنم کے قریب جمع ہوتے جائیں گے ۔ سب لوگوں کے جمع ہونے کے بعد حساب کتاب شروع ہوگا ۔ جب کفار و مشرکین کے سامنے ان کے گناہوں اور خطاؤں کی فہرست رکھی جائے گی تو وہ ان گناہوں کا صاف انکار کردیں گے اور کہیں گے کہ ہمیں تو یاد نہیں ہے کہ ہم نے کبھی اس طرح کے گناہ کئے ہوں گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ ان جیسے لوگوں کے منہ پر مہریں لگا دیں گے اور ان کے تمام اعضاء کو بولنے کی طاقت عطاء کردی جائے گی اور انسان کے تمام اعضاء اس کے تمام اعمال کو بیان کرنا شروع کردیں گے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ان لوگوں کے منہ پر مہریں لگا دی جائیں گی اور سب سے پہلے اس کی ران سے سوال کیا جائے گا کہ تو یہ بتا کہ اس نے کیا کیا حرکتیں کی تھیں۔ اس پر اس کی ران، گوشت پوست، ہڈیاں اور کھالیں تک اس کے اعمال کی گواہی دیں گی ( مسلم) اس پر انسان اپنے اعضاء سے شکوہ کرے گا کہ تمہارا ستیا ناس ہوجائے میں نے تو زندگی بھر تمہیں آرام و سکون پہنچایا اور تمہاری خدمت کرتا رہا آج تم میرے ہی خلاف گواہی دینے کھڑے ہوگئے ہو ؟ یہ بولنے کی طاقت تمہارے اندر کہاں سے آگئی ؟ وہ جواب دیں گے کہ وہ وہی اللہ جس نے ہر ایک کو بولنے کی طاقت دی ہے اسی نے ہمیں بولنے کی زبان اور ہمت دی ہے۔ انسان کی کھالیں بھی گواہی دیں گی کہ اس آدمی نے فلاں فلاں گناہ کئے تھے۔ ( مسلم) ۔ کھالوں کی گواہی پر بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں اور زبان کی گواہی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن کھالیں گواہی دیں گی یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ موجودہ دور جو علم و تحقیق کا دور ہے اس میں سائنس نے اس مسئلہ کو سمجھنا آسان کردیا ہے اور (Skin Speech) کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آدمی جو بھی گفتگو یا عمل کرتا ہے تو وہ اس کی کھال پر ریکارڈ ہوتا چلا جاتا ہے جس کو دوبارہ اسی طرح سنا سکتا ہے جس طرح ایک ٹیپ ریکارڈر میں ریکارڈ کی گئی آواز کو دوبارہ سنا جاسکتا ہے۔ ان آیات میں دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ اللہ نے کفار و مشرکین کو اس دنیا کی زندگی میں بہت زیادہ مہلت عطاء کی تھی جس سے انہوں نے فائدہ نہیں اٹھایا تھا اور وہ زندگی بھر بےعملی کا شکار رہے تھے۔ قیامت کے دن جب وہ عذاب کو اپنے سامنے دیکھیں گے تو وہ گڑ گڑا کر معافی مانگنے لگیں گے۔ اس وقت اللہ کی طرف سے اعلان ہوگا کہ اب معافی مانگنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ معافی کی قبولیت کا وقت گزر چکا اور اس طرح کفار و مشرکین اور ان کے راستوں پر چلنے والوں کو سخت سزا دی جائے گی۔ ان آیات میں تیسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ جب انسان کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور ہر اصلاح کی بات کو قبول کرنے کی صلاحیت کو وہ کھوبیٹھتا ہے تو اس کو ایسے ساتھی مل جاتے ہیں یا اللہ ان پر عذاب کے طور پر ایسے ساتھیوں کو مسلط کردیتا ہے جو اس کو ہرے ہرے باغ دکھاتے ہیں اور گمراہی کی باتوں کو خوبصورت بنا کر دکھاتے ہیں اور یہی چیز آدمی کو جہنم کے کناروں تک پہنچا دیتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کے لئے بری صحبت صرف بد ترین عادت ہی نہیں بلکہ عذاب الٰہی بھی ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ جب آدمی کا مزاج برے راستوں کی طرف مائل ہوجاتا ہے تو اس کو ایسے دوست ملنا شروع ہوجاتے ہیں جو اسی کی طرح بگڑے ہوئے مزاج کے لوگ ہوتے ہیں ۔ مشہور بات ہے کہ اگر کسی کی عادتوں ، مزاج اور خصلتوں کو جانچنا اور پرکھنا ہو تو اس کے آس پاس اٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینے اور ساتھ رہنے والوں کو دیکھا جائے ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے ہی لوگ جنہوں نے اپنا مزاج ضد ، ہٹ دھرمی اور منافقت والا بنا لیا ہو تو اس کو دنیا اور آخرت میں سخت سزا دی جائے گی اور اس کی دنیا اور آخرت برباد ہو کر رہ جائے گی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد اور ثمود دنیا میں ذلّت کی موت مرے اور آخرت میں انہیں جہنّم میں داخل کیا جائے گا۔ اس سے پہلے قوم عاد اور ثمود کی تباہی کا ذکر ہوا جس میں یہ بتایا گیا کہ ہم نے صالح کردار ایمانداروں کو عذاب سے بچا لیا۔ تفصیل بیان نہیں کی گئی کہ صاحب ایمان اور صالح کردار کو کس طرح بچایا گیا تاہم یہ بات حقیقت ہے کہ جس نبی کی موجودگی میں اس کی قوم پر عذاب نازل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور اس کے ساتھیوں کو وہاں سے ہجرت کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ لوگ عذاب سے محفوظ ہوجائیں۔ اب مجرموں کے اخروی انجام کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جس کی ابتدا یوں ہوگی کہ جب محشر کے میدان میں تمام لوگ اکٹھے ہوں گے تو ایماندار اور صالح کردار حضرات کو ہلکے پھلکے حساب کے بعد جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے گی۔ ان کے مقابلے میں کفر و شرک کا عقیدہ رکھنے اور برے اعمال کرنے والوں سے کڑا حساب لیا جائے گا۔ ان میں ایسے مجرم بھی ہوں گے جو اپنے اعمال نامے کا انکار کردیں گے اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کی شہادت کو یہ کہہ کر مسترد کردیں گے کہ ہمارے پاس تو کوئی نبی آیا ہی نہیں اور ہمیں کسی سمجھانے والے نے سمجھایا ہی نہیں تھا۔ ایسے مجرموں کے خلاف زمین گواہی دے گی اور ان کے اعضاء اور جسم شہادت دیں گے کہ ان کے مجرم ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ حساب و کتاب کے وقت جنت اور جہنم کا قریب ہونا : (وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ ۔ وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغَاوِینَ ۔ وَقِیْلَ لَہُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ ) [ الشعراء : ٩٠ تا ٩٢] ” اس دن جنت پرہیزگاروں کے قریب لائی جائے گی۔ اور دوزخ گمراہ لوگوں کے سامنے کھڑی کی جائے گی۔ اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے ؟ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن ” اللہ “ کے دشمنوں کو جہنّم کے قریب لاکھڑا کیا جائے۔ ٢۔ مجرموں کے اعضاء اور ان کے وجود ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کو بولنے کی صلاحیت عطا فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن شہادتیں : ١۔ قیامت کے دن ہر کسی اس کا اعمال نامہ دے کر کہا جائے گا اسے پڑھ۔ (بنی اسرائیل : ١٤) ٢۔ اعمال نامہ پڑھ کر مجرم کہیں گے کہ اس کتاب نے تو کوئی بات نہیں چھوڑی۔ ( الکہف : ٤٩) ٣۔ قیامت کے دن مجرموں کے خلاف گواہ پیش کیے جائیں گے۔ (ہود : ١٨) ٤۔ قیامت کے دن مجرم کے ہاتھ، پاؤں اور زبان اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ (النور : ٢٤) ٥۔ قیامت کے دن مجرموں کے منہ پر مہر لگادی جائے گی پھر اس کے ہاتھ اور پاؤں اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ (یٰس : ٦٥) ٦۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے بارے میں گواہی دیں گے۔ (البقرۃ : ١٤٣) ٧۔ تمام انبیاء ( علیہ السلام) اپنی اپنی امت کے بارے میں گواہی دیں گے۔ (النساء : ٤١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب جبکہ فطرت کائنات کے اندر اللہ کی قوتوں کا مطالعہ کرلیا گیا۔ انسانی تاریخ میں اللہ کے فیصلوں کو ہم نے دیکھ لیا کہ کتنی کتنی طاقتور تہذیبوں کو نیست و نابود کیا گیا۔ اب اللہ ان کو بتاتا ہے کہ خود نفس انسانی پر اللہ کی بادشاہت کس طرح قائم ہے کہ خود اپنی ذات کی کسی چیز کے بھی وہ مالک نہیں ہیں۔ اور اللہ کے اقتدار سے وہ اپنی ذات کی کوئی چیز بھی بچا کر نہیں رکھ سکتے۔ یہاں تک کہ ان کے کان ، ان کی آنکھیں ، ان کا گوشت و پوست بھی اللہ کے مطیع فرمان ہیں اور جب قیامت کا دن آئے گا تو یہ سب خود انسان پر گواہ ہوں گے۔ اس وقت انسان کی حیرانگی کا عالم کیا ہوگا ! ملاحظہ کیجئے :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کے دشمنوں کا دوزخ کی طرف جمع کیا جانا ان کے اعضاء کا ان کے خلاف گواہی دینا اور عذاب سے کبھی چھٹکارا نہ ہونا ان آیات میں اللہ کے دشمنوں یعنی کافروں کی مصیبت بیان فرمائی کہ قیامت کے دن انہیں دوزخ کی طرف جمع کیا جائے گا جماعتیں جماعتیں بن کر اس کے قریب پہنچیں گے ایک جماعت آئے گی وہ روک لی جائے گی پھر دوسری جماعت آئے گی وہ بھی روک لی جائے گی جب یہ جماعتیں جمع ہوجائیں گی اور دوزخ کے قریب پہنچ جائیں گے تو ان کے خلاف ان کے کان اور آنکھیں اور کھالیں گا ہی دیں گی دنیا میں جو جو حرکتیں کی تھیں یہ اعضاء سب بتادیں گے کہ اس شخص نے ہمیں ایسے ایسے کاموں میں استعمال کیا آنکھیں اور کان تو اعضاء ہیں اس دن کھالیں یعنی چمڑے بھی گواہی دیں گے کہ یہ لوگ ایسے ایسے اعمال کرتے تھے۔ چمڑا تو پورے بدن کو گھیرے ہوئے ہے اور وہ ہر گناہ میں استعمال ہوتا ہے سورة النور اور سورة یٰسین میں ہاتھوں اور پاؤں کی گواہی کا بھی ذکر ہے جب کافروں کے اعضاء ہی ان کے خلاف گواہی دے دیں گے جن کے بارے میں انہیں وہم و گمان بھی نہ تھا تو وہ کہیں گے کہ (لِمَ شَہِدْتُمْ عَلَیْنَا) کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی اس گواہی کا نتیجہ یہ ہے کہ تمہیں بھی عذاب ہوگا اور ہمیں بھی، کیونکہ ہمارے جسم کے اجزاء میں تم بھی شامل ہو ہمارے برے اعمال سے منکر ہونا تمہارے بچانے کے لیے ہی تو تھا اگر گواہی دے کر تم عذاب سے بچ جاتے تو تمہیں گواہی دینے کا کچھ فائدہ پہنچ جاتا۔ اعضاء کہیں گے کہ ہماری کیا مجال تھی کہ نہ بولتے اور خاموش رہ کر گواہی کو چھپالیتے ؟ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں زبان دے دی اور حکم دے کر کہلوایا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم گواہی نہ دیتے تمہارا جو خیال تھا کہ ہم بول نہیں سکتے یہ خیال غلط تھا اللہ جسے چاہے بولنے کی قوت دے سکتا ہے جس نے ہر ہر بولنے والی چیز کو بولنے والا بنایا اسی نے ہمیں بھی قوت گویائی عطا فرما دی۔ صحیح مسلم میں حضرت انس (رض) سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے آپ کو ہنسی آگئی آپ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو میں کس بات سے ہنس رہا ہوں ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں آپ نے فرمایا (قیامت کے دن) بندہ جو اپنے رب سے مخاطب ہوگا اس کی وجہ سے مجھے ہنسی آگئی بندہ کہے گا اے رب کیا آپ نے مجھے اس بات کا وعدہ نہیں دے دیا کہ مجھ پر ظلم نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا ہاں تجھ سے یہ وعدہ ہے اس پر وہ کہے گا کہ بس تو میں اپنے خلاف کسی کی گواہی کو تسلیم نہیں کرتا سوائے ایسے گواہ کے جو مجھ ہی میں سے ہو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہوگا کہ آج تیرا نفس ہی تیرے خلاف گواہی دینے کو کافی ہے، اور کراماً کاتبین بھی تیرے خلاف گواہی دینے کو کافی ہیں، اس کے بعد اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضاء سے کہا جائے گا کہ بولو لہٰذا اس کے اعضاء اس کے اعمال کی گواہی دیں گے پھر اسے بولنے کی قوت دے دی جائے گی۔ لہٰذا وہ اپنے اعضاء سے کہے گا کہ دور ہو تمہارے لیے ہلاکت ہے تمہاری ہی طرف سے تو میں جھگڑا کر رہا تھا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٨٥) یعنی میں نے جو یہ کہا تھا کہ اپنے نفس کے خلاف کسی کی گواہی قبول نہیں کروں گا الایہ کہ میرے اندر کی کوئی چیز ہو اس کا مقصد ہی تو یہ تھا کہ تم عذاب سے بچ جاؤ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ منافق قیامت کے دن یوں کہے گا کہ اے رب میں آپ پر ایمان لایا اور آپ کی کتاب اور آپ کے رسولوں پر ایمان لایا اور میں نے نمازیں پڑھیں، روزے رکھے اور صدقات دئیے اور جہاں تک ممکن ہوگا اپنی تعریف کرے گا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا یہاں ابھی پتہ چل جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوگا کہ ہم ابھی گواہ پیش کرتے ہیں اس پر وہ اپنے نفس میں سوچے گا کہ کون ہے جو میرے خلاف گواہی دے گا پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران سے اور گوشت اور ہڈیوں سے کہا جائے گا کہ بولو ! لہٰذا اس کی ران اور اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال پر گواہی دیں گی یہ گفتگو اس لیے کرائی جائے گی کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی اعتراض نہ رہے یہ جو کچھ مذکور ہوا منافق سے متعلق ہے اس سے اللہ تعالیٰ کو ناراضگی ہوگی۔ (صحیح مسلم ص ٤٠٩) یہاں جو سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورة النور میں فرمایا کہ مجرمین کی زبانیں بھی گواہی دیں گی اور سورة یٰسین میں اور مسلم شریف کی حدیث میں فرمایا کہ منہ پر مہریں لگا دی جائیں گی اس میں بظاہر تعارض ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مختلف احوال کے اعتبار سے ہے بعض احوال میں زبانیں گواہی دیں گی اور بعض مواقع میں ان پر مہر لگا دی جائے گی۔ (وَّھُوَ خَلَقَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّاِِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ (اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہلی بار دنیا میں پیدا فرمایا پھر مرجاؤ گے اور اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے) اسی نے دنیا میں زبان کو بولنا سکھایا آخرت میں دوسرے اعضاء کو بھی بولنے کی طاقت دیدے گا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ ” ویوم یحشر “ تا ” فما ھم من المعتبین “ تخویف دنیوی کے بعد تخویف اخروی کا بیان ہے۔ قیامت کے دن جب دشمنانِ خدا (کفار و مشرکین) کو دوزخ کی طرف ہانک کرلے جایا جائے گا۔ تو جہنم کے کنارے پر انہیں روک دیا جائے گا۔ تاکہ سب جمع ہوجائیں۔ قال قتادۃ والسدی یحبس اولہم علی اخرھم حتی یجتمعوا (قرطبی ج 15 ص 350) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) اور وہ دن قابل ذکر ہے جس دن اللہ تعالیٰ کے دشمن آگ کی طرف جمع کیے جائیں گے پھر ان کو اکٹھا کرنے کے لئے روکاجائیگا۔ یعنی پچھلے آنے والے پہلوں سے آملیں جیسا کہ سورة نمل میں ہم حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لشکروں کے بارے میں کہہ آئے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا دوزخ کے پاس لاکر اس میں دھکیلے جائیں گے اور بعض نے کہا ہنکائے جائیں گے۔