Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 24

سورة حم السجدہ

فَاِنۡ یَّصۡبِرُوۡا فَالنَّارُ مَثۡوًی لَّہُمۡ ۚ وَ اِنۡ یَّسۡتَعۡتِبُوۡا فَمَا ہُمۡ مِّنَ الۡمُعۡتَبِیۡنَ ﴿۲۴﴾

So [even] if they are patient, the Fire is a residence for them; and if they ask to appease [ Allah ], they will not be of those who are allowed to appease.

اب اگر یہ صبر کریں تو بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہی ہے ۔ اور اگر یہ ( عذر و ) معافی کے خواستگار ہوں تو بھی( معذور و ) معاف نہیں رکھے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then, if they bear the torment patiently, then the Fire is the home for them, and if they seek to please Allah, yet they are not of those who will ever be allowed to please Allah. means, whether they bear it patiently or not, they are in the Fire and they will have no escape or way out from it, and even if they try to please Allah and offer excuses, nothing of that will be accepted from them. Ibn Jarir said, "The meaning of the Ayah, وَإِن يَسْتَعْتِبُوا (and if they seek to please Allah), is: They will ask to go back to this world, but this plea will not be answered. This is like the Ayah: قَالُواْ رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْماً ضَألِّينَ رَبَّنَأ أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَـلِمُونَ قَالَ اخْسَيُواْ فِيهَا وَلاَ تُكَلِّمُونِ They will say: "Our Lord! Our wretchedness overcame us, and we were (an) erring people. Our Lord! Bring us out of this. If ever we return (to evil), then indeed we shall be wrongdoers." He will say: "Remain you in it with ignominy! And speak you not to Me!" (23:106-108)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ اگر وہ منانا چاہیں گے تاکہ وہ جنت میں چلے جائیں تو یہ چیز ان کو کبھی حاصل نہ ہوگی (ایسر التفاسیر و فتح القدیر) بعض نے اس کا مفہرم یہ بیان کیا ہے کہ وہ دنیا میں دوبارہ بھیجے جانے کی آرزو کریں گے جو منظور نہیں ہوگی ابن جریر طبری نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ ان کا ابدی ٹھکانا جہنم ہے اس پر صبر کریں تب بھی رحم نہیں کیا جائے گا جیسا کہ دنیا میں بعض دفعہ صبر کرنے والوں پر ترس آجاتا ہے یا کسی اور طریقے سے وہاں سے نکلنے کی سعی کریں مگر اس میں بھی انہیں ناکامی ہی ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] یعنی دنیا میں صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے۔ لیکن وہاں صبر کا بھی کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ وہ صبر کریں یا نہ کریں عذاب سے نجات نہ مل سکے گی۔ [٣٠] استعتب کے مختلف مفہوم :۔ (یَسْتَعْتِبُوْا) کا مادہ عتب ہے اور عتب کے یا عتاب کے معنی ناراضگی دور کرنے کے لیے میٹھے انداز میں خفگی کا اظہار کرنا ہے یعنی ایسی میٹھی میٹھی سرزنش اور ملامت جس کا مقصد بالآخر رضامند ہونا اور مان جانا ہو اور إسْتَعْتَبَکے معنی کسی روٹھے ہوئے کو منا لینا اور اعتب کے معنی سبب ناراضگی کو دور کرنا ہے۔ اس لحاظ سے اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں ان میں سے ایک تو وہی ہے جو ترجمہ سے ظاہر ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر وہ دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش کریں تو ان کی یہ خواہش تسلیم نہیں کی جائے گی اور تیسرا یہ کہ اگر وہ خوشامد یا منت سماجت کرکے منانا چاہیں جیسا کہ دنیا میں اس طرح بھی کام چل جاتا ہے تو ان کی اس خوشامد یا منت سماجت کا بھی کچھ اثر نہ ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فان یصبروا فالنار مثوی لھم …: یعنی دنیا میں کئی مصیبتیں صبر کرنے سے ٹل جاتی ہیں یا آسان ہو منتیں جتنی چاہیں کریں کوئی قبول نہیں ہوگی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ يَّصْبِرُوْا فَالنَّارُ مَثْوًى لَّہُمْ۝ ٠ ۚ وَاِنْ يَّسْـتَعْتِبُوْا فَمَا ہُمْ مِّنَ الْمُعْتَـبِيْنَ۝ ٢٤ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں ثوی الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم، ( ث و ی ) الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔ عتب العَتَبُ : كلّ مکان نابٍ بنازله، ومنه قيل للمرقاة ولأُسْكُفَّةِ البابِ : عَتَبَةٌ ، وكنّي بها عن المرأة فيما روي : «أنّ إبراهيم عليه السلام قال لامرأة إسماعیل : قولي لزوجک غيّر عَتَبَةَ بَابِكَ» «4» واستعیر العَتْبُ والمَعْتَبَةُ لغِلْظَةٍ يجدها الإنسان في نفسه علی غيره، وأصله من العتبِ ، وبحسبه قيل : خَشُنْتُ بصدر فلان، ووجدت في صدره غلظة، ومنه قيل : حمل فلان علی عَتَبَةٍ صعبةٍ «5» ، أي : حالة شاقّة کقول الشاعر : 308- وحملناهم علی صعبة زو ... راءَ يعلونها بغیر وطاء «1» وقولهم أَعْتَبْتُ فلاناً ، أي : أبرزت له الغلظة التي وُجِدَتْ له في الصّدر، وأَعْتَبْتُ فلاناً : حملته علی العَتْبِ. ويقال : أَعْتَبْتُهُ ، أي : أزلت عَتْبَهُ عنه، نحو : أشكيته . قال تعالی: فَما هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ [ فصلت/ 24] ، والاسْتِعْتَابُ : أن يطلب من الإنسان أن يذكر عَتْبَهُ لِيُعْتَبَ ، يقال : اسْتَعْتَبَ فلانٌ. قال تعالی: وَلا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ [ النحل/ 84] ، يقال : «لک العُتْبَى» «2» ، وهو إزالة ما لأجله يُعْتَبُ ، وبینهم أُعْتُوبَةٌ ، أي : ما يَتَعَاتَبُونَ به، ويقال : عَتبَ عَتْباً : إذا مشی علی رجل مشي المرتقي في درجة . ( ع ت ب ) العتب ۔ ہر اس جگہ کو کہتے ہیں جو وہاں اترنے والے کے لئے ساز گار نہ ہو نیز دروازہ کی چوکھٹ اور سیڑھی کو بھی عتبہ کہا جاتا ہے ۔ اور حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی بیوی سے جو فرمایا تھا قولی زوجک غیر عتبتہ بابک اپنے خاوند سے کہنا کہ اپنے دروازہ کی چو کھٹ تبدیل کرلے تو یہاں عتبتہ کے معنی بطور کنایہ عورت کے ہیں اور استعارہ کے طور پر عتب ومعتب کے معنی اس نارضگی یا سختی کے بھی آجاتے ہیں جو انسان کے دل میں دوسرے کے متعلق پیدا ہوجاتی ہے یہ بھی اصل میں العتب ہی سے اسی کے مطابق خشنت بصدر فلان ووجدت فی صدرہ غلظتہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اسی سے کہا گیا ہے ۔ حمل فلان علٰی عتبتہ صبعبتہ فلان کو ناگورا ھالت پر مجبور کیا گیا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) ( 300 ) وحملنا ھم علٰی صعبتہ رایعلونھا بغیر وطاء ہم نے انہیں نہایت ٹیڑھی حالت پر سوار کیا چناچہ وہ بغیر نمدہ کے اس پر سوار ہیں ۔ اعتبت فلان ( 1 ) ناراضگی ظاہر کرنا ( 2 ) ناراضگی پر ابھارنا ( 3 ) میں نے اس کی ناراضگی دو ۔ کردو یعنی راضی کرلیا جیسا کہ اشکیتہ کے معنی ہیں میں نے اس کی شکایت دور کردی ( یعنی سلب ماخذ کے معنی پائے جاتے ہیں ) قرآن میں ہے : ۔ فَما هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ [ فصلت/ 24] ان سے عتاب دور نہیں کیا جائے گا ۔ الاستعتاب ( رضامندی چاہنا ) کسی سے یہ خواہش کرنا کہ وہ اپنے عتاب کو دور کردے تاکہ راضی ہوجائے کہا جاتا ہے استعتب فلان کسی سے عتاب کو دور کرنے کی کو اہش کی ۔ قرآن میں ہے ولا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ [ النحل/ 84] اور نہ ان کی معذرت قبول کر کے ان سے عتاب دور کیا جائیگا ۔ لک العتبی تیرے لئے رضا مندی ہے ۔ بینھم اعتوبتہ وہ باہم کشادہ ہیں ۔ عتب عتبا آدمی کا ایک پاؤں پر کود کر چلنا جیسے اوپر چڑھنے والا سیڑھی پر قدم رکھتا چلا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ { فَاِنْ یَّصْبِرُوْا فَالنَّارُ مَثْوًی لَّہُمْ } ” تو اب اگر یہ لوگ صبر کریں (یا نہ کریں) پس ان کا ٹھکانہ آگ ہی ہے۔ “ { وَاِنْ یَّسْتَعْتِبُوْا فَمَا ہُمْ مِّنَ الْمُعْتَبِیْنَ } ” اور اگر وہ معافی مانگیں تو اب انہیں معاف نہیں کیا جائے گا۔ “ قیامت کے دن وہ چاہیں گے کہ انہیں معافی مانگنے پر چھوڑ دیا جائے مگر اس وقت یہ ممکن نہیں ہوگا۔ معافی مانگنے اور استغفار کرنے کا موقع تو دنیا میں ہے۔ انفرادی طور پر ہر آدمی کی موت کے وقت تک اور اجتماعی طور پر قیامت کے آثار نمایاں ہونے تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے ‘ لیکن اس کے بعد عالم برزخ یا عالم آخرت میں توبہ کا کوئی سوال نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28 It can also mean this: "If they would want to return to the world, they would not be able to return," and this: "If they would want to come out from Hell, they would not be able to come out of it," and this: "If they would want to offer an excuse or repentance, it would not be accepted."

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :28 اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا کی طرف پلٹنا چاہیں گے تو پلٹ نہ سکیں گے ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوزخ سے نکلنا چاہیں گے تو نہ نکل سکیں گے ، اور یہ بھی کہ توبہ اور معذرت کرنا چاہیں گے تو اسے قبول نہ کیا جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:24) فان یصبروا فالنار مثوی لہم : ان شرطیہ ہے اور فالنار میں فاء جواب شرط کے لئے ہے یصبروا کے بعد اولا تصبروا کلام مقدرہ ہے یعنی وہ صبر کریں یا نہ کریں آگ ہی ان کا ٹھکانا ہے۔ ان یستعتبوا : ان شرطیہ ہے۔ یستعتبوا مضارع مجزوم کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے ۔ استعتاب (استفعال) مصدر بمعنی طلب اعتاب ، یعنی ناراضگی کو دور کرنے کی طلب ای طلب العتبی۔ یعنی اگر وہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے کوئی عذر پیش کریں گے (تو ان کی معذرت قبول نہ ہوگی) نیز ملاحظہ ہو 16:84 المعتبین : اسم مفعول جمع مذکر المعتب واحد عتب ومعتبۃ اسم ومصدر ناراضگی۔ ناراض ہونا۔ اعتاب (افعال) مصدر سے ہے ناراضگی کا اظہار کرنا۔ یا (باعتبار سلب مادہ) ناراضگی کو دور کرنا۔ منانا۔ رضا مندی حاصل کرنا۔ جن سے ناراضغی کو دور کیا گیا ہو۔ یعنی جن کی معذرت قبول کرکے ناراضگی دور کردی گئی ہو۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور اگر وہ اس وقت (یعنی روز قیامت) اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کی خاطر کوئی عذر پیش کریں گے تو ان کی معذرت قبول ہوکر ناراضگی دور نہیں کی جائے گی یعنی وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 مطلب یہ ہے کہ اگر وہ منت سماجت کریں گے تو بھی ان کی شنوائی نہ ہوگی۔ دوسرا مطلب امام ابن جریر (رح) نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر وہ یہ چاہیں کہ انہیں دنیا کی طرف لوٹا دیا جائے تو انہیں لوٹا یا نہ جائے گا۔ ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یہ نہیں کہ ان کی صبر و خموشی موجب رحم ہوجاوے، جیسا احیانا دنیا میں ایسا ہوجاتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فان یصبروا فالنار مثوی لھم (٤١ : ٢٤) ” اس حالت میں اگر وہ صبر کریں تو آگ ہی ان کا ٹھکانا ہے “۔ کیا سنجیدہ مزاح ہے۔ صبر اب آگ جہنم پر ہے۔ یہ وہ صبر نہیں ہے جس کے نتیجے میں انسان کو خوشی ، اور حسن جزاء نصیب ہوتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس پر جزاء نار جہنم ہے کیونکہ اب تو قرار دیا جا چکا ہے کہ یہی ان کا ٹھکانا ہے۔ وان یستعتبوا فماھم من المعتبین (٤١ : ٢٤) ” اگر رجوع کا موقعہ چاہیں گے تو کوئی موقعہ انہیں نہ دیا جائے گا “ ۔ نہ وہاں رضا مندی ہے اور نہ وہاں توبہ کی گنجائش ہے۔ کیونکہ جو شخص معافی مانگتا ہے تو معافی تب ہوتی ہے جب ظلم و زیادتی کو زائل کر کے معافی طلب کی جائے۔ آج تو معافی اور ازالے کا دروازہ ہی بند ہوچکا ہے۔ اور اس لئے ان کے پاس کوئی موقعہ نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(فَاِِنْ یَصْبِرُوْا فَالنَّارُ مَثْوًی لَہُمْ ) سو یہ لوگ جو دوزخ میں داخل کرنے کے لیے جمع کردئیے گئے ہیں ان کو دوزخ میں داخل ہونا ہی ہے اور انہیں اس میں رہنا ہی ہے اور ہمیشہ رہنا ہے صبر کریں یا نہ کریں دوزخ ہی ان کا ٹھکانہ ہے یہ نہ سمجھیں کہ دنیا میں تکلیف پر صبر کرلیتے تھے تو بعد میں اچھی حالت آجاتی تھی وہاں صبر کرنا کوئی کام نہیں دے گا (وَاِنْ یَسْتَعْتِبُوْا فَمَا ھُمْ مِنَ الْمُعْتَبِیْنَ ) (اور اگر وہ چاہیں کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرلیں اور اس کے لیے درخواست کریں تو ان کی یہ درخواست منظور نہیں کی جائے گی) راضی کرنے کا موقع موت سے پہلے تھا، ایمان لاتے اعمال صالحہ کرتے نافرمانیوں سے بچتے تو آج عذاب کا منہ نہ دیکھنا پڑتا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(24) پھر اگر اب یہ توگ صبرکریں تب بھی ان کا ٹھکانا دوزخ ہی ہے اور اگر وہ کوئی عذر کریں اور خدا کو راضی کرنا چاہیں تو بھی ان کا کوئی عذر قبول نہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل نہ ہوگی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں دنیا میں بعضی بلا صبر سے آسان ہوتی ہے وہاں صبرکریں یا نہ کریں دوزخ گھر ہوچکا اور بعضی بلاٹلتی ہے منت کرنے سے وہاں بہترا چاہیں کہ منت کریں کوئی قبول نہیں کرتا۔ خلاصہ : یہ کہ صبر کرنا یا نہ کرنا نہ تو آگ سے بچا سکتا ہے نہ اللہ تعالیٰ کو منت اور سماجت سے منانے اور راضی کرنے کی کوشش کامیاب ہوسکتی ہے۔