Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 26

سورة حم السجدہ

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَا تَسۡمَعُوۡا لِہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ وَ الۡغَوۡا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَغۡلِبُوۡنَ ﴿۲۶﴾

And those who disbelieve say, "Do not listen to this Qur'an and speak noisily during [the recitation of] it that perhaps you will overcome."

اور کافروں نے کہا اس قرآن کو سنو ہی مت ( اس کے پڑھے جانے کے وقت ) اور بے ہودہ گوئی کرو کیا عجب کہ تم غالب آجاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لاَ تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْانِ ... And those who disbelieve say: "Listen not to this Qur'an..." means, they advised one another not to pay heed to the Qur'an or obey its commands. ... وَالْغَوْا فِيهِ ... and make noise in the midst of its, means, when it is recited, do not listen to it. This was the view of Mujahid. "And make noise in the midst of its (recitation)" means whistling and trying to make the Messenger of Allah confused when he recited Qur'an, which is what the Quraysh did. ... لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ that you may overcome. means, this is the practice of these ignorant disbelievers and those who follow in their footsteps, when they hear the Qur'an. Allah commanded us to be different from that, and said: وَإِذَا قُرِىءَ الْقُرْءَانُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ So, when the Qur'an is recited, listen to it, and be silent that you may receive mercy. (7:204) Then Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

26۔ 1 یہ انہوں نے باہم ایک دوسرے کو کہا۔ بعض نے لا تسمعوا کے معنی کیے ہیں اس کی اطاعت نہ کرو۔ 26۔ 2 یعنی شور کرو، تالیاں، سیٹیاں بجاؤ، چیخ چیخ کر باتیں کرو تاکہ حاضرین کے کانوں میں قرآن کی آواز نہ جائے اور ان کے دل قرآن کی بلاغت اور خوبیوں سے متا ثر نہ ہوں۔ 26۔ 3 یعنی ممکن ہے اس طرح شور کرنے کی وجہ سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کی تلاوت ہی نہ کرے جسے سن کر لوگ متاثر ہوتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] ابن دغنہ کا ابوبکر (رض) کو پناہ دینا بشرطیکہ قرآن بلند آواز سے نہ پڑھیں :۔ جو شخص بھی قرآن سنتا تھا تو قرآن کی بات اس کے دل میں اتر جاتی تھی اور یہی بلا کی تاثیر قرآن کا اعجاز تھا جس سے قریش مکہ سخت خائف رہتے تھے۔ اور قرآن سے متعلق انہوں نے تین طرح کے اقدام کئے تھے تاکہ اس کی آواز کو دبایا جاسکے۔ ان میں سے پہلا اقدام تو مسلمانوں پر پابندی تھی کہ وہ قرآن کو اونچی آواز سے نہ پڑھا کریں کیونکہ اس طرح ان کی عورتیں اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی جرم کی پاداش میں خود رسول اللہ پر کئی بار حملے ہوئے اور مسلمانوں کی بھی پٹائی ہوئی۔ اسی جرم کی پاداش میں سیدنا ابوبکر صدیق (رض) پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا اور آپ ہجرت کی غرض سے نکل کھڑے ہوئے۔ برک غماد کے مقام پر پہنچے تھے کہ قبیلہ قارہ کا سردار ابن دغنہ انہیں اپنی پناہ میں لے کر واپس مکہ لے آیا۔ سرداران قریش نے اس پناہ کو صرف اس شرط پر منظور کیا کہ آپ قرآن بلند آواز سے نہ پڑھا کریں گے۔ مگر سیدنا ابوبکر صدیق (رض) زیادہ دیر اس شرط پر قائم نہ رہ سکے تو قریشی سرداروں نے ابن دغنہ کے پاس جاکر شکایت کی۔ ابن دغنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے پاس آکر انہیں اپنا عہد یاد دلایا اور کہا کہ اگر تم برسرعام قرآن بلند آواز سے پڑھنا نہ چھوڑو گے تو میں تمہاری پناہ سے دستبردار ہوتا ہوں۔ اس کے جواب میں سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : && تم اپنی پناہ اپنے پاس رکھو اور میرا معاملہ اللہ کے سپرد ہے && (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب ہجرۃ النبی ) خ ابو جہل کا قرآن سے متاثر ہونا :۔ ان کا دوسرا اقدام یہ تھا کہ ان سرداروں نے آپس میں بھی پابندی لگا رکھی تھی کہ وہ عمداً قرآن نہیں سنا کریں گے۔ اور یہ ایسی پابندی تھی جسے یہ پابندی لگانے والے سردار خود بھی نباہ نہ سکے۔ کیونکہ ان کے کان اور ان کے دل قرآن کی بلا کی تاثیر سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہ رہتے تھے۔ چناچہ ایک دفعہ آپ رات کو کعبہ میں کھڑے ہو کر بلند آواز سے قرآن پڑھ رہے تھے اور تین قریشی سردار ایک دوسرے سے چھپتے چھپاتے آپ کا قرآن سن رہے تھے۔ بعد میں یہ راز فاش ہوگیا تو ان میں سے ایک سردار نے ابو جہل سے پوچھا کہ جو قرآن تم نے سنا ہے اس کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟ اس سوال کا صحیح جواب دینے کی بجائے ابو جہل نے بات کا رخ دوسری طرف موڑتے ہوئے کہا کہ ہم (یعنی بنو مخزوم) اور بنو عبدمناف سب باتوں میں ہمسر تھے۔ اب ہم ان کے نبی کو تسلیم کرکے ان کی برتری کیسے تسلیم کرسکتے ہیں ؟ گویا اس کا صحیح جواب کو گول کر جانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قرآن کی تاثیر سے متاثر ہوچکا تھا اور آپ کی نبوت تسلیم کرنے میں محض قبائلی رقابت اور تکبر اس کے آڑے آرہا تھا۔ خ قرآن کی آواز کو دبانے کا جدید طریقہ : لاؤڈ سپیکر :۔ اور ان کا تیسرا اقدام یہ تھا کہ جہاں قرآن پڑھا جارہا ہو وہاں خوب شور مچاؤ، تالیاں بجاء اور اتنا غل غپاڑہ کرو کہ قرآن کی آواز اس شور میں دب جائے اور کسی کے کان میں نہ پڑنے پائے۔ آج بھی جاہلوں کو ایسی ہی تدبیریں سوجھا کرتی ہیں۔ اور مکہ کے کافروں کو تو شور مچانے کی زحمت برداشت کرنا پڑتی تھی آج یہ زحمت بھی گوارا نہیں کرنا پڑتی۔ بس لاؤد سپیکر کے طاقتور اور زیادہ ہارن لگا دینے سے ہی یہ مقصد حاصل کرلیا جاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وقال الذین کفروا ولا تسمعوا …: کفار قرآن کی تاثیر سے واقف تھے کہ جو شخص عناد سے خالی ہو کر اسے سن لے وہ یقیناً اس سے متاثر ہوتا ہے۔ چناچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ نہ خود قرآن سنو، نہ کسی کو سننے دو ۔ یہ ان کا واضح اعتراف شکست تھا، وہ اس جیسی ایک سورت بھی بنا کر نہ لاسکے تو حق یہ تھا کہ اس پر ایمان لے آتے ، مگر وہ اس کی مخالفت پر ڈٹ گئے اور ہر طریقے سے لوگوں کو اس سے روکنے کی کوشش کرنے لگے۔ (٢) لھذا القرآن : یعنی پہلی کتابیں پڑھنے سننے پر کوئی پابندی نہیں، کیونکہ اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ قرآن جو محمد (ﷺ) لے کر آئے ہیں، یہ مت سنو، کیونکہ یہ دلوں کو کھینچتا ہے۔ (٣) والغوا فیہ :” الغوا “” لغی یلغی “ (س، ف) بغیر سوچے سمجھے بولنا، شور مچانا۔ یعنی اگر کبھی سننے کا اتفاق ہو تو اس میں شور ڈال دو ، تاکہ تم غالب رہو۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ مان رہے تھے کہ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا مسلمان قرآن سنانے میں کامیاب ہوگئے تو وہی غالب رہیں گے۔ عربی مقولہ ہے : ” والفضل ماشھدت بہ الاعداء “ ” اصل برتری وہ ہے جس کی شہادت دشمن دیں۔ “ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے کفار کی اس بات کے برعکس فرمایا :(واذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا لعلکم ترحمون) (الاعراف :203)” اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسیک ان لگاک ر سنو اور چپ رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ “ یعنی جعلی غلبے کے بجائے حقیقی رحمت کے طلب گار بنو۔ (٤) کفار کی یہ بدتمیزی صرف اس وقت نہیں تھی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں قرآن سنانے کی کوشش کرتے، بلکہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو قرآن سنا رہے ہوتے، یا انھیں نماز پڑھاتے ہوئے بلند آواز سے قرأت کرتے تو وہ اس وقت بھی بد زبانی اور گالی گلوچ شروع کردیتے، جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :(ولا تجھر بصلاتک و لاتخافت بھا وابتع بین ذلک سبیلاً ) (بنی اسرائیل : ١١٠)” اور اپنی نماز نہ بلند آواز سے پڑھ اور نہ اسے پست کر اور اس کے درمیان کوئی راستہ اختیار کر۔ “ تفصیل کیلئے دیکھیے سورة نبی اسرائیل کی اسی آیت کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary لَا تَسْمَعُوا لِهَـٰذَا الْقُرْ‌آنِ وَالْغَوْا فِيهِ (Do not listen to this Qur&an, and make noiseduring its recitation, - 41:26) When all the efforts of the disbelievers failed in confronting the Holy Qur&an, they started doing such mischievous acts as mentioned in this verse. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has stated that Abu Jahl got his people primed up and ready to make noises whenever Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) recited the Qur&an, so that people might not find out what he is saying. Some have said that preparations were made to stop people from listening to the Qur&an by whistling, clapping and by making all sorts of noises during the recitation. It is Wajib (necessary) to listen quietly while Qur’ an is being recited; It is infidel&s way not to remain quiet. It is learnt from the above verse that making noises with the intention of creating disturbance in the recitation of the Qur&an is a sign of disbelief. It is also known that to listen quietly to the recitation of the Qur&an is wajib (necessary) and a sign of faith. It has become a usual practice in our days that people put their radios (and cassette players) on where the Holy Qur&an is recited with loud voice, which can be heard in about every restaurant and place of gathering, while people go about their business never paying any attention to the Holy Qur&an. This practice presents a picture that was a sign of infidels. May Allah Almighty guide Muslims. They should either avoid the recitation of the Holy Qur&an at such places and on such occasions where people are unable to listen to it, or if they wish to benefit from the blessing of the recitation, they must listen to it quietly and attentively.

خلاصہ تفسیر اور یہ کافر (باہم) یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو سنو ہی مت اور (اگر پیغمبر سنانے بھی لگیں تو) اس کے بیچ میں غل مچا دیا کرو شاید (اس تدبیر سے) تم ہی غالب رہو (اور پیغمبر ہار کر خاموش ہوجاویں) تو (ان کے اس ناپاک ارادے اور عزم کے بدلہ میں) ہم ان کافروں کو سخت عذاب کا مزہ چکھا دیں گے اور ان کو ان کے برے برے کاموں کی سزا دیں گے، یہی سزا ہے اللہ کے دشمنوں کی یعنی دوزخ ان کے لئے وہاں ہمیشہ رہنے کا مقام ہوگا۔ اس بات کے بدلہ میں کہ وہ ہماری آیتوں میں انکار کیا کرتے تھے (اور جب عذاب میں مبتلا ہوں گے تو) وہ کفار کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم کو وہ دونوں شیطان اور انسان دکھلا دیجئے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا ہم ان کو اپنے پیروں تلے روند ڈالیں تاکہ وہ خوب ذلیل ہوں۔ (یعنی ان کو اس وقت ان لوگوں پر غصہ آوے گا جنہوں نے ان کو دنیا میں بہکایا تھا۔ آدمی بھی اور شیطان بھی خواہ ایک ایک ہوں یا متعدد ہوں۔ اور یوں تو یہ گمراہ کرنے والے بھی سب جہنم میں ہی ہوں گے۔ مگر اس گفتگو کے وقت وہ ان کے سامنے نہیں ہوں گے اس لئے سامنے کی درخواست کی۔ کسی آیت میں یا روایت میں یہ مذکور نہیں دیکھا کہ ان کی یہ درخواست منظور ہوگی یا نہیں۔ واللہ اعلم) معارف ومسائل (آیت) لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ ۔ کفار جب قرآن کے مقابلہ سے عاجز آگئے اور اس کے خلاف ان کی ساری تدبیریں ناکام ہوگئیں تو اس وقت انہوں نے یہ حرکت شروع کی۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ابوجہل نے لوگوں کو اس پر آمادہ کیا کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن پڑھا کریں تو تم ان کے سامنے جا کر چیخ و پکار اور شور وغل کرنے لگا کرو تاکہ لوگوں کو پتہ ہی نہ چلے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ بعض نے کہا کہ سیٹیاں اور تالیاں بجا کر اور بیچ میں طرح طرح کی آوازیں نکال کر قرآن سننے سے لوگوں کو روکنے کی تیاری کرو۔ (قرطبی) تلاوت قرآن کے وقت خاموش ہو کر سننا واجب ہے خاموش نہ رہنا کفار کی عادت ہے : آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ تلاوت قرآن میں خلل ڈالنے کی نیت سے شوروغل کرنا تو کفر کی علامت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خاموش ہو کر سننا واجب اور ایمان کی علامت ہے۔ آج کل ریڈیو پر تلاوت قرآن نے ایسی صورت اختیار کرلی ہے کہ ہر ہوٹل اور مجمع کے مواقع میں ریڈیو کھولا جاتا ہے جس میں قرآن کی تلاوت ہو رہی ہو اور ہوٹل والے خود اپنے دھندوں میں لگے رہتے ہیں اور کھانے پینے میں اپنے شغل میں۔ اس کی صورت وہ بن جاتی ہے جو کفار کی علامت تھی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت فرما دیں کہ یا تو ایسے مواقع میں تلاوت قرآن کیلئے نہ کھولیں اگر کھولنا ہے اور برکت حاصل کرنا ہے تو چند منٹ سب کام بند کر کے خود بھی اس طرف متوجہ ہو کر سنیں دوسروں کو بھی اس کا موقع دیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْہِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ۝ ٢٦ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ اسْتِمَاعُ والِاسْتِمَاعُ : الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب استماع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے ۔ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ لغو اللَّغْوُ من الکلام : ما لا يعتدّ به، وهو الذي يورد لا عن رويّة وفكر، فيجري مجری اللَّغَا، وهو صوت العصافیر ونحوها من الطّيور، قال أبو عبیدة : لَغْوٌ ولَغًا، نحو : عيب وعاب وأنشدهم : 407- عن اللّغا ورفث التّكلّم «5» يقال : لَغِيتُ تَلْغَى. نحو : لقیت تلقی، وقد يسمّى كلّ کلام قبیح لغوا . قال : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ/ 35] ، وقال : وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص/ 55] ، لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة/ 25] ، وقال : وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون/ 3] ، وقوله : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] ، أي : كنّوا عن القبیح لم يصرّحوا، وقیل : معناه : إذا صادفوا أهل اللّغو لم يخوضوا معهم . ويستعمل اللغو فيما لا يعتدّ به، ومنه اللَّغْوُ في الأيمان . أي : ما لا عقد عليه، وذلک ما يجري وصلا للکلام بضرب من العادة . قال : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] ومن هذا أخذ الشاعر فقال : 408- ولست بمأخوذ بلغو تقوله ... إذا لم تعمّد عاقدات العزائم «1» وقوله : لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية/ 11] أي : لغوا، فجعل اسم الفاعل وصفا للکلام نحو : کاذبة، وقیل لما لا يعتدّ به في الدّية من الإبل : لغو، وقال الشاعر : 409 ۔ كما أَلْغَيْتَ في الدّية الحوارا «2» ولَغِيَ بکذا . أي : لهج به لهج العصفور بِلَغَاه . أي : بصوته، ومنه قيل للکلام الذي يلهج به فرقة فرقة : لُغَةٌ. ( ل غ و ) اللغو ۔ ( ن ) کے معنی بےمعنی بات کے ہے جو کسی گنتی شمار میں نہ ہو یعنی جو سوچ سمجھ کر نہ کی جائے گویا وہ پرندوں کی آواز کی طرح منہ سے نکال دی جائے ابو عبیدہ کا قول ہے کہ اس میں ایک لغت لغا بھی ہے ۔ جیسے عیب وعاب شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 394) عن اللغ اور فث التکم جو بہیودہ اور فحش گفتگو سے خاموش ہیں ۔ اس کا فعل لغیث تلغیٰ یعنی سمع سے ہے ۔ اور کبھی ہر قبیح بات کو لغو کہہ دیا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ/ 35] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے نہ جھوٹ اور خرافات وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون/ 3] اور جو بہیودہ باتوں سے اعراض کرتے ہیں ۔ وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص/ 55] اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة/ 25] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ الزام تراشی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے باس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو شریفا نہ انداز سے گرزتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ فحش بات کبھی صراحت سے نہیں کہتے ۔ بلکہ ہمیشہ کنایہ سے کام لیتے ہیں ۔ اور بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ اگر کہیں اتفاق سے وہ ایسی مجلس میں چلے جاتے ہیں ۔ جہاں بیہودہ باتیں ہو رہی ہوتی ہیں تو اس سے دامن بچاکر نکل جاتے ہیں ۔ پس لغو ہر اس بات کا کہاجاتا ہے جو کسی شمار قطار میں نہ ہو ۔ اور اسی سے لغو فی الایمان ہے ۔ یعنی وہ قسم جو یونہی بلا ارادہ زبان سے نکل جائے چناچہ قرآن میں ہے : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا اور شاعر نے کہا ہے ( البسیط) (395) ولست بماخود بلغو تقولہ اذالم تعمد عاقدات العزائم لغو قسم کھانے پر تم سے مواخذہ نہیں ہوگا بشرطیکہ قصدا غرم قلب کے ساتھ قسم نہ کھائی جائے ۔ اور آیت کریمہ لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية/ 11] وہاں کسی طرح کی بکواس نہیں سنیں گے ۔ میں لاغیۃ بمعنی لغو کے ہے اور یہ ( اسم فاعل ) کلام کی صفت واقع ہوا ہے جیسا کہ کاذبۃ وغیرہ ۔ اور خونبہا میں لغو اونٹ کے ان بچوں کو کہا جاتا ہے جو گنتی میں شمار نہ کئے جائیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (396) کما الغیت فی الدابۃ الحوارجیسا کہ اونٹ کے چھوٹے بچے کو خونبہا میں ناقابل شمار سمجھا جاتا ہے لغی بکذا کے معنی چڑیا کے چہچہانے کی طرح کسی چیز کا بار بار تذکرہ کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور اسی سے ہر گز وہ کی زبان اور بولی جس کے ذریعے وہ بات کرتا ہ لغۃ کہلاتی ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ غلب الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] ( غ ل ب ) الغلبتہ کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ابو جہل اور اس کے ساتھی سب ملکر یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کریم کو مت سنو جو محمد تمہارے سامنے پڑھتے ہیں اور اس کے بیچ میں شور و غل مچا دیا کرو شاید تم ہی محمد پر غالب رہو اور آپ خاموش ہوجائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب اگلی آیت میں قرآن مجید کا ذکر بہت عظیم الشان انداز میں ہو رہا ہے : آیت ٢٦ { وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِہٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْا فِیْہِ } ” اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا کہ مت سنو اس قرآن کو اور اس (کی تلاوت کے دوران) میں شور مچایا کرو “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا آلہ اور ذریعہ چونکہ قرآن تھا اس لیے منکرین حق نے آپس میں ایک دوسرے کو یہ مشورہ دینا شروع کردیا کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن پڑھا کریں تو تم لوگ اسے مت سنا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے دلوں پر اس کا اثر ہوجائے اور اس کی وجہ سے تم اپنے آبائی دین سے برگشتہ ہو جائو۔ اس لیے جب بھی وہ تمہیں قرآن سنانے کی کوشش کریں تم شور مچانا (hooting) شروع کردیا کروتا کہ اس کی آواز کسی کے کان میں نہ پڑے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے قرآن مجید کی تلاوت چو ن کہ غیر معمولی تاثیر کی حامل تھی اور اس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا پیغام تیزی سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر رہا تھا ‘ اس لیے مشرکین ِمکہ ّاس عمل کو روکنے کے لیے اپنے زعم میں گویا ایک جامع منصوبہ بندی کے ساتھ خم ٹھونک کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں آگئے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بھی اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ قرآن کا پڑھنا پڑھانا ‘ سننا سنانا اور سیکھنا سکھانا چونکہ شیطان پر بہت بھاری ہے اس لیے جہاں کہیں بھی یہ کام موثر انداز میں ہو رہا ہوگا شیطانی قوتیں اسے روکنے کے لیے اپنی پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آجائیں گی۔ البتہ اگر کہیں قرآن کا کوئی پروگرام محض رسمی انداز میں ہورہا ہو ‘ یعنی اس میں علمی اور عقلی سطح پر کوئی موثر پیغام لوگوں تک نہ پہنچ رہا ہو تو ایسی تقریبات ‘ ٹیوی پروگرامز اور قرآنی سیمینارز پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ دورِ حاضر میں ٹیوی پروگرام ” الہدیٰ “ کی بندش اس کی زندہ مثال ہے۔ یہ پروگرام ” پی ٹیوی “ کا مقبول ترین ہفتہ وار دینی پروگرام تھا ‘ جو بہت اہتمام کے ساتھ پورے ملک میں ایک ہی وقت پر ٹیلی کا سٹ ہوتا تھا (اُس وقت ابھی کیبل نیٹ ورک کا آغاز نہیں ہوا تھا) ۔ اس میں مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب پیش کیا جاتا تھا۔ جب یہ پروگرام بہت موثر انداز میں چلنا شروع ہوا اور قرآن کا اصل پیغام ایک تدریج اور منطقی ترتیب کے ساتھ گھر گھر پہنچنے لگا تو شیطانی قوتیں ” لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ “ کا نعرہ لگا کر سامنے آ کھڑی ہوئیں اور انہوں نے اس پروگرام کو بند کرا کے ہی دم لیا۔ یہ پروگرام اس حد تک مقبول ہوا تھا کہ بھارت میں بھی بڑے ذوق و شوق سے دیکھا جاتا تھا ۔ - ۔ بلکہ پی ٹیوی پر اس پروگرام کی بندش کے بعد یہ بھارت میں کیبل نیٹ ورک پر دکھایا جانے لگا تھا ‘ بلکہ کبھی کبھی ” دور درشن “ پر بھی پیش کردیا جاتا تھا۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ” پی ٹیوی “ پر میرے پروگراموں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ { لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ } ” تاکہ تم غالب رہو۔ “ ان کا آپس میں ایک دوسرے کے لیے یہی مشورہ تھا کہ اگر تم اپنی ” سیادت “ کو برقرار رکھنا چاہتے ہو تو خود کو اور اپنے عوام کو اس قرآن سے دور رکھو۔ بالکل یہی انداز منافقین کے اس مشورے میں بھی نظر آتا ہے جو انہوں نے غزوئہ احزاب کے موقع پر مدینہ کے عام لوگوں کو دینا شروع کیا تھا۔ ان کا مشورہ تھا : { یٰٓــاَہْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمْ فَارْجِعُوْاج } ( الاحزاب : ١٣) کہ اے اہل یثرب ! تمہارے یہاں ٹھہرنے کی اب کوئی صورت نہیں ہے ‘ لہٰذا اب تم واپس پلٹ جائو۔ بہر حال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے قرآن کے پیغام کو گھر گھر پہنچتے دیکھ کر مشرکین نے بجا طور پر محسوس کیا کہ اگر اس دعوت کو بر وقت نہ روکا گیا تو پھر عرب کی سر زمین میں ان کے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں بچے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30 This was one of those plans of the disbelievers of Makkah with which they wanted to frustrate the Holy Prophet's mission of preaching his message. They knew fully well haw impressive was the Qur'an, how high was the character of the man presenting it, and how effective and inspiring the style of his preaching. They knew that anyone who heard such matchless discourses in such an attractive style from such a noble person could not help being hued and charmed. Therefore, they planned that they should neither hear it themselves nor Iet anyone else hear it; whenever Muhammad (upon whom be Allah's peace) should start reciting it, they should create noise, clap hands, pass taunting remarks and raise All sorts of objections and such a hue and cry as to drown his voice. By this plan they hoped they would be able to defeat the Prophet of Allah.

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :30 یہ کفار مکہ کے ان منصوبوں میں سے ایک تھا جس سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تبلیغ کو ناکام کرنا چاہتے تھے ۔ انہیں خوب معلوم تھا کہ قرآن اپنے اندر کس بلا کی تاثیر رکھتا ہے ، اور اس کو سنانے والا کس پائے کا انسان ہے ، اور اس شخصیت کے ساتھ اس کا طرز ادا کس درجہ مؤثر ہے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ ایسے عالی مرتبہ شخص کی زبان سے اس دل کش انداز میں اس بے نظیر کلام کو جو سنے گا وہ آخر کار گھائل ہو کر رہے گا ۔ اس لیے انہوں نے یہ پروگرام بنایا کہ اس کلام کو نہ خود سنو ، نہ کسی کو سننے دو ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی اسے سنانا شروع کریں ، شور مچاؤ ، تالی پیٹ دو ۔ آوازے کسو ، اعتراضات کی بوچھاڑ کر دو ۔ اور اتنی آواز بلند کرو کہ ان کی آواز اس کے مقابلے میں دب جائے ۔ اس تدبیر سے وہ امید رکھتے تھے کہ اللہ کے نبی کو شکست دے دیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٦۔ ٣٢۔ سورة انفال میں گزر چکا ہے کہ حضرت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں قرآن شریف پڑھتے تھے تو مشرک لوگ تالیاں اور سیٹیاں بجاتے تھے اور سورة لقمان میں گزر چکا ہے کہ نضر بن حارث ایک شخص نے رستم و اسفندیار وغیرہ کے قصوں کی کتابیں خرید رکھیں تھیں۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن شریف پڑھتے تھے تو نضر بن ١ ؎ حارث وہ قصے لوگوں کو سنا کر قرآن شریف کے سننے سے روکا کرتا تھا صحیحین ٢ ؎ وغیرہ میں حضرت مسعود کی حدیث مشہور ہے کہ ابوجہل وغیرہ مشرکوں نے مل کر اونٹ کی اوجھڑی نماز پڑھتے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیٹھ پر ڈال دی تھی غرض اسی طرح کی بہیودہ باتیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نماز اور قرآن شریف پڑھنے کے وقت مشرک لوگ اس غرض سے کرتے تھے کہ لوگ قرآن شریف سننے نہ پائیں اسی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں فرما کر فرمایا ہے کہ ان لوگوں کو سخت عذاب ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام سننے سے رکنا یا روکنا خدا کا دشمن بننے کی نشانی ہے اب بھی کسی ایسے کام میں لگنا یا کسی دوسرے کو لگانا جس سے قرآن شریف کے مشغلے میں حرج ہوا اس آیت کے حکم میں داخل ہے جن لوگوں کے بہکانے سے دوزخی لوگوں نے برے کام کئے ہیں دوزخ میں جانے کے بعد یہ لوگ کہیں گے یا اللہ ان بہکانے والوں کو ہمیں دکھا تاکہ ہم ان کو دوزخ کے نیچے کے درجہ میں دھکا دے کر ڈال دیں آگے اللہ تعالیٰ نے ان خدا کے دشمن لوگوں کے مقابلے میں ان لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جو خدا کو اپنا معبود جانتے ہیں اور پھر اس پر ثابت قدم رہتے ہیں صحیح ٣ ؎ مسلم ترمذی نسائی مسند امام احمد وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ حضرت مجھ کو اسلام کی کوئی ایسی بتا بتلا دیجئے کہ پھر مجھ کو پوچھنے کی ضرورت باقی نہ رہے آپ نے اس آیت کے لفظ فرمادیئے کہ اللہ کو اپنا معبود جان اور اس پر قائم رہ حضرت عبد اللہ (رض) بن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے دل سے اللہ کو معبود مان کر اور زبان سے اللہ کے معبود ہونے کا اقرار کرکے اس پر ثابت قدم رہنے کا یہ مطلب ہے کہ جو باتیں اللہ تعالیٰ نے فرض کیں ہیں ان کو آدمی ادا کرتا رہے۔ حضرت عبد اللہ (رض) بن عباس کی یہ تفسیر ان اہل سنت کے قول کے موافق ہے جو عمل نیک کو ایمان کے کامل ہونے کی شرط قرار دیتے ہیں مسند امام احمد ٤ ؎ اور ابودائود ٥ ؎ کے حوالہ سے براء بن عازب کی صحیح حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ نیک لوگوں کی قبض روح کے وقت رحمت کے فرشتے آتے ہیں اور نیک لوگوں کو اللہ کی رضا مندی کی اور مغفرت کی خوش خبری سناتے ہیں۔ مسند امام ٦ ؎ احمد میں حضرت عائشہ سے صحیح روایت ہے کہ قبر کے سوال و جواب کے بعد اللہ کے فرشتے نیک لوگوں کو ان کا جنت کا ٹھکانا دکھا کر یہ خوش خبری سنا دیتے ہیں کہ قیامت کے دن اسی ٹھکانے میں رہنے اور بسنے کے لئے تم کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا آیتوں میں نیک لوگوں کے پاس فرشتوں کے اترنے کا جو ذکر ہے یہ حدیثیں اس کی گویا تفسیر ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ قبض روح کے وقت اور قبر میں دفن کرنے کے بعد اللہ کے فرشتے نیک لوگوں کے پاس آتے ہیں اور ان کو طرح طرح کی خوش خبری سنا کر جنت کا ٹھکانا بھی ان کو دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں تمہاری زندگی میں بھی تمہارے نیک عمل لکھنے کے لئے اللہ کے فرشتے تمہارے رفیق تھے اور اب بھی تمہارے رفیق ہیں اور جنت کا ٹھکانہ تمہیں دکھاتے ہیں جس میں اللہ غفور الرحیم نے مہمانوں کی خاطر داری کی طرح تمہارے لئے سب کچھ تیار رکھا ہے۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ١٥٩ ج ٥) (٢ ؎ بخاری شریف باب ذکر مالقی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و اصحابہ من المشرکین ص ٥٤٣ ج ١۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم باب جامع اوصاف الاسلام ص ٤٨ ج ١۔ ) (٤ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ شریف باب فیمایقال عند من حضرہ الموت ص ١٤٢۔ ) (٥ ؎ ابودائود باب فی المسالۃ لی القبر و عذاب القبر۔ ص ٦ ج ٢) (٦ ؎ الترغیب والترہیب ص ٦٩٨ ج ٤

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:26) الذین کفروا سے مراد کفار مکہ اور مشرکین قریش ہیں۔ الغوا۔ فعل امر جمع مذکر حاضر۔ لغو (باب نصر، سمع، فتح) سے مصدر۔ تم لغو باتیں کرو، فضول بےمعنی شور مچاؤ۔ بےہودہ بکواس کرو لغوا۔ بےہودہ۔ بےمعنی بات جو کسی شمار میں نہ ہو۔ اور جو سوچ سمجھ کر نہ کی جائے۔ فیہ : فی حرف جار ہے یہاں ظرفیت کے معنی دیتا ہے۔ ہ ضمیر کا مرجع قرآۃ قرآن ہے۔ یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو تم اس وقت فضول بکواس اور شور و غوغا مچانا شروع کر دو ۔ یا فیہ بمعنی بہ ہے۔ تغلبون : مضارع جمع مذکر حاضر غلبۃ مصدر (باب ضرب) تم غالب آجاؤ، تم چھا جاؤ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو آپس میں ایک دو سے سے کہتے ہیں۔ 1 یعنی قرآن پڑھنے والے کی آواز کو دبا لو اور وہ گھبرا کر قرآن پڑھنا بند کر دے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٢٦ تا ٣٢۔ اسرار ومعارف۔ اور آج بھی جب کفار دلائل میں لاجواب ہوگئے تو کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن پڑھیں تو شوروغل کیا کرو تاکہ کوئی سن ہی نہ سکے اور قرآن کی برکات سے محروم رہے یوں تمہارا مقصد پورا ہو۔ تلاوت قرآن خاموشی سے سننا واجب ہے اور خاموش نہ رہنا کفار کی عادت اور مروجہ شبینہ ۔ معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن کا سننا واجب ہے اور آج کل ریڈیو پر تلاوت ہوتی ہے ہوٹلوں والے اپنے کام اور شوروغل میں لگے رہتے ہیں جو کفار کی عادت ہے چاہیے ریڈیو بند رکھیں یا تھوڑی دیر کے لیے کھولیں اور آرام سے سنیں اور دوسروں کو بھی سننے کا موقع دیں اس تناظر میں آج کل کے مروجہ شبیہ پہ نظر کی جائے کہ چند حفاظ کو جمع کرکے ساری رات لاؤڈ سپیکر پر تلاوت کرائی جاتی ہے تو اس کا جواز تو کیا ہو لوگوں کو ایسی حالت میں مبتلا کرنے کا موجب ہے جو ان کے بس میں نہیں لہذا ثواب تو کجا قرآن کریم کی بےادبی کا گناہ اہتمام کرنے والے اور پڑھنے والوں سب کے لیے وبال ہوگا ہاں اگر لاؤڈسپیکر ہٹادیاجائے سکون سے پڑھیں سننے والے آرام سے سنیں تو عام آدمی کو یامسجد اور گھر سے باہر آواز نہ جائے تو بہت مناسب ہے۔ اور ہم کافروں کو ان کی ایسی حرکتوں پر بہت سخت سزا دیں گے اور انہیں عذاب شدید بھگتنا ہوگا اور انہیں ہر ہربرائی کا بدلہ ضرور ملے گا دنیا میں بھی تباہی کا سامنا کریں گے اور آخرت میں یہ دشمنان الٰہی دوزخ کی آگ میں رہیں گے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہی ان کے انکار کی سزا ہے بلکہ دوزخ میں تو انہیں برے دوستوں سے نفرت بھڑک اٹھے گی اور دعا کریں گے کہ اے اللہ ہمیں وہ انسان اور جن و شیاطین دکھادے جو ہمارے یہاں پہنچنے کا باعث بنے کہ ہم انہیں پکڑ کر پاؤں کے نیچے دبائیں کہ وہ ہم سے زیادہ مصیبت پائیں ۔ ربوبیت باری عزا اسمہ۔ یادرکھو کامیاب لوگ وہ ہیں جنہوں نے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا یعنی اللہ کو صرف الٰہ ہی نہیں مانا اپنی ساری ضرورتوں کا کفیل بھی مانا اور پھر کسی بھی لالچ یارعب میں آکر کسی دوسرے سے کوئی امید وابستہ نہ کی بلکہ ہمیشہ اللہ کی اطاعت پہ جمے رہے ، ثم استقامو۔ استقامت۔ استقامت یہ ہے کہ اپنے اس عقیدے کو کہ اللہ ہی میرا رب ہے اپنے عمل سے ثابت کرنے والا ہو جو سیدنا فاروق اعظم کے ارشاد کے مطابق امر کی اطاعت نہی سے اجتناب کرنے اور لومڑی کی طرح گناہ کرنے کے بہانے نہ تراشے۔ تو ایسے لوگوں پہ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ حیات زندگی میں قوت عمل یا صبر وغیرہ کی توفیق ان کے سبب سے ارزاں ہوتی ہے عندالموت قبر سے اٹھنے کے وقت اور جنت میں بھی موت کے وقت بھی کہتے ہیں کہ ڈرنے یاگھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ تم تو خوش ہوجاؤ کہ دار دنیا سے جو مصیبتوں کا گھر ہے دار جنت کو جارہے ہو جہاں راحت ہی راحت ہے اور جس کا اللہ نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا تھا ہم تو دنیا میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھ ہوں گے اور جنت میں تو اللہ کی نعمتیں تمہاری منتظر ہیں کہ جو مانگو حاضر کیا جائے یا جس کا خیال تمہارے دل میں گزرے وہ نعمت فورا حاصل ہوجائے کہ آخرکو اللہ کی میزبانی ہے جو بہت معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 26 تا 32 : لا تسمعوا ( تم نہ سنو) الغوا (شور مچائو) تغلبون (تم غالب ہو جائو گے) نذیقن (ہم ضرور چکھائیں گے) اسوا ( بر کیا) دار الخلد (ہمیشہ کا گھر) استقاموا ( وہ جمے رہے) یلحدون ( الحاد) (ٹیڑھاچلتے ہیں) تشریح : آیت نمبر 26 تا 32 : ہمیشہ سے ایسے لوگوں کی اکثریت رہی ہے جو حق و صداقت ، نصیحت اور تنقید کو کھلے ذہن سے سننے کے بجائے اس سے منہ پھیر کر چلتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ جس چیز کو وہ حقیقت سمجھ رہے ہیں سارا حق اس کے مطابق ہو کر چلے وہ اپنے گھڑے ہوئے خیالات کی دنیا سے باہر آنا گوارہ ہی نہیں کرتے اور ہر تنقید اور نصیحت کو نہایت تلخ اور کڑوا سمجھتے ہیں ۔ وہ بغیر کسی ثبوت کے محض جذباتی انداز سے ہر اس کام میں عیب نکالنا شروع کردیتے ہیں جو ان کے خیالات سے مختلف ہوتا ہے۔ چناچہ مکہ کے کفار اور مشرکین جب قرآن کریم کی سچائی اور اس کے گہرے اثرات اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مقناطیسی شخصیت کے سامنے عاجز اور بےبس ہوگئے تو انہوں نے قرآن کی تاثیر اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت کو کم کرنے کے لئے انتہائی غیر سنجیدیہ حرکتیں کرنا شروع کردیں۔ انہوں نے کچھ لوگوں کو اس مقصد کے لئے تیار کرلیا کہ جب بھی قرآن کریم پڑھا جائے تو اس کو نہ تو خود سنیں اور نہ کسی دوسرے کو سننے دیں اس قدر شور و غل مچایا جائے ، دخل اندازی کی جائے اور عیب لگائے جائیں کہ جن لوگوں نے اسلام قبول کرلیا وہ پلٹ کر پھر سے ان کی طرف آجائیں اور اس طرح وہ غالب آجائے اور عیب لگائے جائیں کہ جن لوگوں نے اسلام قبول کرلیا وہ پلٹ کر پھر سے ان کی طرف آجائیں اور اس طرح وہ غالب آجائیں گے۔ چناچہ حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ابو جہل نے لوگوں سے کہا کہ یہ شخ ( حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب قرآن پڑھیں تو خوب شور مچائو ، تالیاں پیٹو ، سیٹیاں بجائو تا کہ تمہیں یہ پتہ نہ چلے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور سچ مچ میں طرح طرح کی آوازیں نکالو اور قرآن سننے سے لوگوں کو روکو۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو قرآن کریم کا یہ ادب سکھایا ہے کہ جب بھی قرآن پڑھا جائے تو خاموش رہ کر غور سے سنا جائے تا کہ اللہ اپنی رحمتوں کو نازل کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ ایسی گھٹیا، نیچ غیر سنجیدہ اور اوچھی حرکتیں کر رہے ہیں وہ اپنے بد ترین انجام سے بیخبر ہیں ورنہ وہ ایسی باتیں نہ کرتے ۔ جب قیامت کے دن ان کو ان کے برے اعمال کی سزا شدید ترین عذاب دیاجائے گا ۔ فرشتے ان کو جہنم کی آگ میں جھونکنے کے لئے گھسیٹتے ہوئے لائیں گے تو اس وقت وہ نہ صرف شرمندہ ہوں گے بلکہ اپنے کئے پر پچھتا کر ان لوگوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیں گے جنہوں نے ان کو گمراہ کیا تھا اور سبز باغ دکھائے تھے۔ وہ بارگاہ الٰہی میں درخواست پیش کریں گے کہ الٰہی ! انسانوں اور جنات میں ان لوگوں کو ہمارے سامنے لایئے جو ہمارے اس بگاڑ اور تباہی کا سبب بنے ہیں ، وہ اگر آج ہمارے سامنے آجائیں تو ہم ان کو پاؤں تلے روند ڈالیں گے اور رسوا اور ذلیل کر کے رکھ دیں گے۔ فرمایا کہ ایک طرف تو یہ کفار و مشرکین اپنی ذلت اور شرمندگی میں اپنی بوٹیاں نوچ رہے ہوں گے اور دوسری طرف وہ خوش نصیب صاحبان ایمان ہوں گے جنہوں نے حق و صداقت کی تعلیم کو پوری طرح مان کر یہ کہا ہوگا کہ ہمارا رب تو صرف اللہ ہے اور وہ اس پر ثابت قدم بھی رہے ہوں گے تو ان پر اللہ کے فرشتے اور اس کی رحمتیں نازل ہو رہی ہوں گی ۔ فرشتے کہیں گے کہ تم کسی طرح کا رنج و غم نہ کرو اور جنت کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آگیا ہے اس پر خوشیاں منائو۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہوگا کہ تمہیں آئندہ جو حالات پیش آئیں گے ان کا خوف نہ کرو اور جو چیزیں ( مال ، اولاد ، جائیداد وغیرہ) تم دنیا میں چھوڑ آئے ہو ان کا غم نہ کرو اور اللہ نے جس جنت کا وعدہ فرمایا تھا اس کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے اس پر تم خوش ہو جائو۔ وہ فرشتے یہ بھی کہیں گے کہ ہم جس طرح دنیا میں تمہارے ساتھ تھے اسی طرح یہاں بھی تمہارے ساتھی رہیں گے۔ وہ اس بات کی خوش خبری بھی دیں گے کہ اہل جنت کے لئے ان جنتوں میں ہر وہ چیز ہوگی جس کی وہ خواہش یا طلب کریں گے یہ در حقیقت نہایت بخشنے والے مہربان پروردگار کی طرف سے مہمان داری ہوگی جو اہل جنت کا ایک بڑا اعزاز ہوگا ۔ ان آیات میں فرمایا کہ ” ربنا اللہ ثم استقاموا “ یعنی جو لوگ یہ کہیں گے کہ ہمارا پروردگار صرف اللہ ہے اور پھر اسی پر وہ قائم بھی رہے ہوں گے یہ دین اسلام کی اصل بنیاد اور دین کی تعلیمات کا خلاصہ ہے چناچہ ایک مرتبہ حضرت سفیان ابن عبد اللہ ثقفی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے دین اسلام کی ایک ایسی جامع بات بتا دیجئے جس کے بعد مجھے کسی اور سے نہ پوچھنا پڑے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کہو ” امنت اللہ ثم استقیم “ (صحیح مسلم) یعنی تم کہو کہ میں اللہ پر ایمان لے آیا اور پھر اسی پر جمے رہو مراد یہ ہے کہ ایمان پر اس قدر مضبوطی سے ڈٹ جائو کہ ایمان کے ہر تقاضے اور مل صالح کو اختیار کرنا تمہارا مزاج بن جائے۔ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے لوگوں سے پوچھا کہ تم ” ثم استقیم “ کا کیا مطلب سمجھتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ توحید کا اقرار کرنے کے بعد کوئی گناہ نہ کرے۔ اس پر حضرت صدیق اکبر (رض) نے فرمایا کہ تم نے دین کو ایک مشکل بات بنا دیا ۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ ہی اس کا مطلب بتا دیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ توحید کا اقرار کرنے کے بعد پھر بت پرستی اور شرک کو اختیار نہ کرنا ۔ سیدنا عمر فاروق (رض) نے فرمایا کہ ” ثم استقم “ یہ ہے کہ توحید کے اقرار کے بعد منافقت نہ کی جائے۔ ایک مرتبہ فاروق اعظم (رض) نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کے تمام احکامات اور امرو نواہی پر سیدھے جمے رہو۔ ادھر ادھر لومڑیوں کی کی طرح بھاگنے کے راستے تلاش نہ کرو۔ حضرت عثمان غنی (رض) نے فرمایا کہ استقیامت کے معنی اخلاص عمل کے ہیں ، یعنی اپنے ہر عمل کو خالص اللہ کے لئے کرنا ۔ حضرت حسن بصری (رض) نے ” ثم استقم “ کا مطلب یہ بتایا ہے کہ اللہ کے حکم پر قائم رہ کر اسی کی اطاعت کرنا اور اس کی ہر طرح کی نافرمانی سے بچنا۔ ( تفسیر بصری) تفسیر کشاف میں ہے کہ انسان کا ربنا اللہ کہنا سب ہی درست ہو سکتا ہے جب وہ دل سے یقین کرے کہ میں ہر حال اور ہر قدم پر اللہ کی زیر نگرانی تربیت حاصل کر رہا ہوں ۔ جیسے ایک سانس بھی اس کی رحمت کے بغیر نہیں آسکتا ۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی عبادت و بندی کے طریقوں پر اس طرح استقامت کے ساتھ جما رہے کہ اس کا قلب اور قالب ( بدن) دونوں اس کی عبادت و بندگی سے بال برابر بھی ادھر ادھر نہ بھٹکیں۔ ان تمام ارشادات سے معلوم ہوا کہ اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ اور ایمان خالص جس میں شرک و کفر اور بدعات کی ملاوٹ نہ ہو ۔ اللہ کے احکامات پر پوری طرح عمل کرنا اور ہر سچائی پر ڈٹ جانا ۔ وہی کام کرنا جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہو۔ اللہ کے فرشتے اہل ایمان پر نازل ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ مرتے وقت ، قبروں میں قبروں سے دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنے میں یہ فرشتے اترتے ہیں ۔ ابو حیان نے بحر محیط میں فرمایا کہ میں تو کہتا ہوں کہ مومنوں پر فرشتے ہر روز نازل ہوتے ہیں جن کے آثار و برکات ان کے اعمال میں پائے جاتے ہیں۔ حضرت ثابت بنانی سے نعیم نے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ” حم السجدہ “ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی جب وہ ” تنزل علیھم “ پر پہنچے تو فرمایا کہ ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ مومن جس وقت قبر سے اٹھے گا تو وہ فرشتے جو دنیا میں اس کے ساتھ رہتے تھے وہ اس سے ملیں گے اور اس سے کہیں گے کہ تم خوف اور غم نہ کرو بلکہ جنت کی بشارت سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ۔ ان فرشتوں کا کلام سن کر اہل ایمان کو اطمینان و سکون مل جائے گا ۔ اسی آیت کا یہ ٹکڑا ” ولکم فیھا ما تشھی “ یعنی جو بھی تمہاری خواہش اور طلب ہوگی وہ جنت میں اہل جنت کو دی جائے گی ۔ اس کی وضاحت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمائی ہے کہ جب تم جنت میں کسی پرندے کو اڑاتے دیکھو گے اور تمہارے دل میں اس کے کھانے کی خواہش پیدا ہوگی تو وہ پرندہ اسی وقت بھنا بھنا یا تمہارے سامنے آ گرے گا ۔ یعنی روایات میں آتا ہے کہ وہ نہ تو آگ سے پکا ہوگا اور نہ دھوئیں سے بلکہ خود بخود پک کر تمہارے سامنے آجائے گا۔ ( بیہقی)

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح پہلے لوگ گمراہ ہوئے اسی طرح ہی اہل مکہ نے گمراہی اختیار کی۔ ابھی بیان ہوا ہے کہ جو لوگ اپنے لیے گمراہی کا راستہ پسند کرتے ہیں ان کے لیے ان کے اعمال خوبصورت بنا دیئے جاتے ہیں۔ جس کے لیے شیطان برے اعمال خوبصورت بنا دے پھر اسے سمجھ نہیں رہتی کہ میں کس قدر گمراہی میں آگے نکل چکا ہوں۔ یہی صورت حال اہل مکہ کی تھی۔ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں قرآن مجید اس لیے سناتے تھے تاکہ یہ لوگ گمراہی کے راستے کو چھوڑ کر صراط مستقیم پر آجائیں۔ آپ کی تلاوت سن کر لوگ بالخصوص نوجوان طبقہ آپ کی طرف متوجہ ہورہا تھا۔ یہاں تک کہ نبوت کے ابتدائی تین سالوں میں ابوجہل کے بھتیجے بھی مسلمان ہوچکے تھے۔” قرآن “ کے انقلاب کو روکنے کے لیے کفار نے یہ حربہ بھی استعمال کیا کہ اس کے مقابلے میں شورو غوغا کرو تاکہ تمہاری آواز قرآن کی دعوت پر غالب رہے۔ اندازہ لگائیں کہ اہل مکہ کس قدر گمراہ ہوچکے تھے کہ وہ قرآن مجید کے بارے میں ایک دوسرے کو کہتے کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کریں اسے تو خاموشی سے سننے کی بجائے جواب میں شورو غوغا کیا کرو تاکہ تمہاری آواز قرآن مجید کی تلاوت اور دعوت پر غالب رہے۔ اس کے جواب میں قرآن مجیدنے انہیں ایک بار پھر سمجھایا۔ ” کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ “ (الاعراف : ٢٠٤) لیکن اس کے باوجود کفار شوروغوغا کرنے سے باز نہ آئے۔ جس پر رب ذوالجلال نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اپنے کفر پر ڈٹے رہے تو ہم ان کو ان کے برے اعمال کے بدلے شدید ترین عذاب میں مبتلا کریں گے۔ یہ اللہ کے دشمن ہیں اس لیے انہیں جہنّم کی آگ میں جھونکا جائے گا جس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ سورة مبارکہ مکہ میں نازل ہوئی اور ان آیات کا سیاق وسباق بتلارہا ہے کہ اہل مکہ قرآن مجید کے جواب اور اس کی تاثیر کے مقابلے میں بےبس ہوچکے تھے جس بنا پر وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے۔ اس کے لیے انہیں سمجھایا گیا ہے کہ اللہ کے غضب کو چیلنج کرنے کی بجائے اس کا رحم مانگو ! جو قرآن مجید سننے اور اس پر عمل کرنے سے نصیب ہوگا۔ قرآن مجید کی تلاوت کے اثرات اور برکات : ” حضرت ابی اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا کہ ایک آدمی اپنے گھر میں سورة الکہف کی تلاوت کر رہا تھا۔ اس کے گھوڑے نے بدکنا شروع کردیا تو اس نے سلام پھیر کر آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اسے بادلوں کا ایک ٹکڑا نظر آیا جو اسے ڈھانپے ہوئے تھا۔ اس نے اس کا تذکرہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کیا آپ نے فرمایا کہ آپ کو تلاوت کرتے رہنا چاہیے تھا یہ تو سکینت تھی جو قرآن کے لیے نازل ہوئی تھی۔ “ [ رواہ البخاری : باب علاَمَات النُّبُوَّۃِ فِی الإِسْلاَمِ ] مسائل ١۔ کفار ایک دوسرے کو قرآن سننے سے منع کرتے تھے۔ ٣۔ قرآن مجید کا مقابلہ کرنے والوں کو سخت ترین عذاب ہوگا۔ ٢۔ کفار نے قرآن مجید پر غالب آنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ ٤۔ قرآن مجید کی مخالفت کرنے والے ” اللہ “ کے دشمن ہیں جنہیں جہنّم کی آگ میں جھونکا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے بارے میں منافقین اور کفار کا رویہ : ١۔ جب قرآن سنایا جاتا تو منافقین ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے تھے۔ (التوبۃ : ١٢٧) ٢۔ منافقین قرآن مجید کے نزول کا مذاق اڑاتے اور کہتے ہیں اس سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے ؟ (التوبۃ : ١٢٤) ٣۔ جب قرآن کا کوئی حصہ نازل ہوتا ہے تو یہ بہانے تراشنے لگتے ہیں۔ (التوبۃ : ٨٦) ٤۔ جب قرآن میں قتال کا تذکرہ ہوتا ہے تو منافق آپ کی طرف ایسے دیکھتے جیسے ان پر موت کی بیہوشی طاری ہوگئی ہو۔ ( سورة محمد : ٢٠) ٥۔ کفار کہتے کہ اس قرآن کو بدل دو ۔ ( یونس : ١٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ وہ بات ہے جو قریش کے کبراء اپنے آپ کو اور جمہور عوام کو کہتے تھے۔ یہ لوگ قرآن کریم کی حیرت انگیز اثر آفرینی سے عاجز آگئے تھے۔ یہ اثر ان پر بھی تھا اور عوام پر بھی تھا۔ لا تسمعوا لھذا القران (٤١ : ٢٦) ” اس قرآن کو ہرگز نہ سنو “۔ کیونکہ جس طرح وہ کہتے تھے یہ ان پر جادو کرتا ہے۔ ان کی سوچ پر غالب آجاتا ہے اور ان کی زندگی کو خراب کر رہا ہے۔ باپ اور بیٹے کے درمیان تفرقہ کردیتا ہے ، خاوند اور بیوی کے درمیان جدائی کردیتا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ قرآن ایسی جدائیاں کردیتا تھا لیکن اس لیے کہ خود اللہ نے ایمان اور کفر کے درمیان جدائی کردی ہے ، ہدایت اور ضلالت کے درمیان جدائی کردی ہے ، جو اسے مانتا تھا وہ خلوص سے مانتا تھا۔ اس لیے اس کے بعد وہ کسی اور تعلق کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔ چناچہ اس طرح جدائیاں ہوجاتی تھیں۔ والغوا فیہ لعلکم تغلبون (٤١ : ٢٦) ” اور اسی میں خلل ڈالو ، شاید کہ اس طرح تم غالب آجاؤ “۔ یہ پاگلوں کی باتیں ہیں۔ لیکن وہ اس کے سوا کہہ کیا سکتے ہیں وہ تو عاجز آچکے ہیں ، وہ دلیل وبرہان سے بات نہیں کرسکتے کہ انہیں کوئی دلیل و حجت دستیاب ہی نہیں ہے۔ اس لیے پاگل پنے پر اتر آئے ہیں اور جو شخص ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوتا وہ پھر اس پاگل پنے پر اتر آتا ہے۔ چناچہ انہوں نے رستم و اسفند یار کے قصوں کے ذریعہ قرآن میں خلل ڈالنے کی کوشش کی۔ ابن نصر خصوصاً یہ کام کرتا تھا۔ اس طرح شورو شغب اور سیٹیاں بجانے کے ذریعے قرآن میں خلل ڈالنے کی کوشش کی۔ ابن نصر خصوصاً یہ کام کرتا تھا۔ اس طرح شورو شغب اور سیٹیاں بجانے کے ذریعے بھی وہ یہ کام کرتے تھے اور اپنے سجع اور رجز کے اشعار کے ذریعے بھی کرتے تھے لیکن یہ سب تدبیریں ہوا ہوگئیں اور قرآن غالب رہا۔ کیونکہ اس کے اندر غلبے کا راز تھا۔ وہ حق پر مشتمل تھا۔ اور سچائی ہمیشہ غالب ہوا کرتی ہے۔ اگرچہ اہل باطل لاکھ جتن کریں ان کی اس مکروہ بات کی تردید میں ان کو سخت ڈراوا دیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کا قرآن سننے سے روکنا اور شور و شغب کرنے کا مشورہ دینا یہ سات آیات کا ترجمہ ہے اول کی چار آیتوں میں کافروں کی شرارت اور حماقت کا اور ان کے عذاب کا تذکرہ فرمایا ہے اور آپس میں جو وہاں بڑوں اور چھوٹوں میں دشمنی کا مظاہرہ ہوگا اس کو بیان کیا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب قرآن مجید تلاوت کرتے اور لوگوں کو سناتے تو مکہ کے مشرکین میں سے جو بڑے بڑے لوگ تھے وہ اپنے نیچے والوں کو حکم دیتے تھے کہ اس قرآن کو نہ تو خود سنو اور نہ دوسروں کو سننے دو جب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن پڑھیں تو تم لوگ اس میں شور و غل مچاؤ، لایعنی باتیں کرو، بےتکی آوازیں نکالو لہٰذا وہ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاوت کے وقت سیٹیاں بجاتے تھے اور تالیاں پیٹتے تھے اور شور کرتے تھے اور اونچی آواز سے اشعار بھی پڑھتے تھے رؤسا مشرکین جو اپنے نیچے کے لوگوں کو ان باتوں کو حکم دیتے تھے ان کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کی آواز دب جائے اور چیخ پکار کرنے والے غالب ہوجائیں تاکہ قرآن آگے نہ بڑھے اور اس کے ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27:۔ ” وقال الذین۔ الایۃ “ یہ دوسرا شکوی ہے اور پہلے سے علی سبیل الترقی ہے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ وہ خود اعراض کرتے ہیں اور سنتے نہیں۔ یہاں فرمایا کہ یہ منکرین دوسرے لوگوں کو بھی قرا ان سننے سے روکتے ہیں اور کہتے ہیں جب قرآن پڑھا جائے تو اسے مت سنو، بلکہ شور و غوغا بپا کردو۔ تاکہ تم پڑھنے والے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غالب آجاؤ۔ اور وہ خود بھی پریشان ہوجائے۔ اور کوئی دوسرا بھی نہ سن سکے۔ یا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا خرافات اور بےہودہ اعتراضات سے مقابلہ کرو تاکہ قرآن کی طرف لوگوں کے دل مائل نہ ہوسکیں اور تم غالب ہوجاؤ۔ عارضوہ بالخرافات او ارفعوا اصراتکم بھا تشوشوہ علی القارئ (بیضاوی) قال ابو العالیۃ وابن عباس ایضا قعوا فیہ ویبوہ لعلکم تغلبون محمدا علی قراءت ہ فلا یظھر ولا یستمیل القلوب (قرطبی ج 15 ص 356) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) اور یہ دین حق کے منکر آپس میں یوں کہتے ہیں کہ اس قرآن کو سنا ہی نہ کرو اور اس کے پڑھتے وقت بیچ میں غل مچایا کرو شاید تم غالب ہوجائو۔ یعنی آپس میں ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ جب قرآن پڑھا جائے اور یہ تم کو قرآن پڑھا جائے اور یہ تم کو قرآن سنانے لگیں تو خوب غل وشور کرو اور سنو نہیں شاید تم غلبہ پا جائو اور اس قرآن کا لوگوں پر اڑر نہ ہو۔ آگے تہدید اور تنبیہہ فرمائی ۔