Commentary لَا تَسْمَعُوا لِهَـٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ (Do not listen to this Qur&an, and make noiseduring its recitation, - 41:26) When all the efforts of the disbelievers failed in confronting the Holy Qur&an, they started doing such mischievous acts as mentioned in this verse. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has stated that Abu Jahl got his people primed up and ready to make noises whenever Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) recited the Qur&an, so that people might not find out what he is saying. Some have said that preparations were made to stop people from listening to the Qur&an by whistling, clapping and by making all sorts of noises during the recitation. It is Wajib (necessary) to listen quietly while Qur’ an is being recited; It is infidel&s way not to remain quiet. It is learnt from the above verse that making noises with the intention of creating disturbance in the recitation of the Qur&an is a sign of disbelief. It is also known that to listen quietly to the recitation of the Qur&an is wajib (necessary) and a sign of faith. It has become a usual practice in our days that people put their radios (and cassette players) on where the Holy Qur&an is recited with loud voice, which can be heard in about every restaurant and place of gathering, while people go about their business never paying any attention to the Holy Qur&an. This practice presents a picture that was a sign of infidels. May Allah Almighty guide Muslims. They should either avoid the recitation of the Holy Qur&an at such places and on such occasions where people are unable to listen to it, or if they wish to benefit from the blessing of the recitation, they must listen to it quietly and attentively.
خلاصہ تفسیر اور یہ کافر (باہم) یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو سنو ہی مت اور (اگر پیغمبر سنانے بھی لگیں تو) اس کے بیچ میں غل مچا دیا کرو شاید (اس تدبیر سے) تم ہی غالب رہو (اور پیغمبر ہار کر خاموش ہوجاویں) تو (ان کے اس ناپاک ارادے اور عزم کے بدلہ میں) ہم ان کافروں کو سخت عذاب کا مزہ چکھا دیں گے اور ان کو ان کے برے برے کاموں کی سزا دیں گے، یہی سزا ہے اللہ کے دشمنوں کی یعنی دوزخ ان کے لئے وہاں ہمیشہ رہنے کا مقام ہوگا۔ اس بات کے بدلہ میں کہ وہ ہماری آیتوں میں انکار کیا کرتے تھے (اور جب عذاب میں مبتلا ہوں گے تو) وہ کفار کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم کو وہ دونوں شیطان اور انسان دکھلا دیجئے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا ہم ان کو اپنے پیروں تلے روند ڈالیں تاکہ وہ خوب ذلیل ہوں۔ (یعنی ان کو اس وقت ان لوگوں پر غصہ آوے گا جنہوں نے ان کو دنیا میں بہکایا تھا۔ آدمی بھی اور شیطان بھی خواہ ایک ایک ہوں یا متعدد ہوں۔ اور یوں تو یہ گمراہ کرنے والے بھی سب جہنم میں ہی ہوں گے۔ مگر اس گفتگو کے وقت وہ ان کے سامنے نہیں ہوں گے اس لئے سامنے کی درخواست کی۔ کسی آیت میں یا روایت میں یہ مذکور نہیں دیکھا کہ ان کی یہ درخواست منظور ہوگی یا نہیں۔ واللہ اعلم) معارف ومسائل (آیت) لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ ۔ کفار جب قرآن کے مقابلہ سے عاجز آگئے اور اس کے خلاف ان کی ساری تدبیریں ناکام ہوگئیں تو اس وقت انہوں نے یہ حرکت شروع کی۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ابوجہل نے لوگوں کو اس پر آمادہ کیا کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن پڑھا کریں تو تم ان کے سامنے جا کر چیخ و پکار اور شور وغل کرنے لگا کرو تاکہ لوگوں کو پتہ ہی نہ چلے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ بعض نے کہا کہ سیٹیاں اور تالیاں بجا کر اور بیچ میں طرح طرح کی آوازیں نکال کر قرآن سننے سے لوگوں کو روکنے کی تیاری کرو۔ (قرطبی) تلاوت قرآن کے وقت خاموش ہو کر سننا واجب ہے خاموش نہ رہنا کفار کی عادت ہے : آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ تلاوت قرآن میں خلل ڈالنے کی نیت سے شوروغل کرنا تو کفر کی علامت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خاموش ہو کر سننا واجب اور ایمان کی علامت ہے۔ آج کل ریڈیو پر تلاوت قرآن نے ایسی صورت اختیار کرلی ہے کہ ہر ہوٹل اور مجمع کے مواقع میں ریڈیو کھولا جاتا ہے جس میں قرآن کی تلاوت ہو رہی ہو اور ہوٹل والے خود اپنے دھندوں میں لگے رہتے ہیں اور کھانے پینے میں اپنے شغل میں۔ اس کی صورت وہ بن جاتی ہے جو کفار کی علامت تھی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت فرما دیں کہ یا تو ایسے مواقع میں تلاوت قرآن کیلئے نہ کھولیں اگر کھولنا ہے اور برکت حاصل کرنا ہے تو چند منٹ سب کام بند کر کے خود بھی اس طرف متوجہ ہو کر سنیں دوسروں کو بھی اس کا موقع دیں۔