Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 34

سورة حم السجدہ

وَ لَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ ؕ اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَ بَیۡنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ ﴿۳۴﴾

And not equal are the good deed and the bad. Repel [evil] by that [deed] which is better; and thereupon the one whom between you and him is enmity [will become] as though he was a devoted friend.

نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلاَ تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلاَ السَّيِّيَةُ ... The good deed and the evil deed cannot be equal. means, there is a huge difference between them. ... ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ... Repel (the evil) with one which is better, means, `when someone does you wrong, repel him by treating him well,' as Umar, may Allah be pleased with him, said, "There is no better punishment for one who has disobeyed Allah with regard to you, than your obeying Allah with regard to him." ... فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ then verily he, between whom and you there was enmity, (will become) as though he was a close friend. means, `if you treat well those who treat you badly, this good deed will lead to reconciliation, love and empathy, and it will be as if he is a close friend to you and he will feel pity for you and be kind to you.' Then Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 بلکہ ان میں عظیم فرق ہے۔ 24۔ 2 یہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے کہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالو یعنی برائی کا بدلہ احسان کے ساتھ، زیادتی کا بدلہ عفو کے ساتھ غضب کا صبر کے ساتھ بےہودگیوں کا جواب چشم پوشی کے ساتھ اور مکروہات کا جواب برداشت اور حلم کے ساتھ دیا جائے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن دوست بن جائے گا دور دور رہنے والا قریب ہوجائے گا اور خون کا پیاسا تمہارا گرویدہ اور جانثار ہو جا‏ئے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٢] بدی کا جواب بدی سے دینے سے دعوت کو نقصان پہنچتا ہے اور بھلائی سے دینے سے دشمن بھی دوست بن جاتا ہے۔ اس آیت میں دعوت الیٰ اللہ کا ایک زریں اصول بیان کیا گیا ہے۔ پہلے تو یہ بتایا گیا ہے کہ نیکی اور بدی کبھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ اور یہ اس لیے بتایا گیا ہے کہ کفار مکہ دعوت اسلام کو کچلنے کے لیے بدترین ہتھکنڈوں پر اتر آئے تھے۔ مسلمانوں کو یہ سمجھایا جارہا ہے کہ بدی کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوسکتا۔ بدی بالآخر بدی کرنے والے کا ہی بھٹہ بٹھا دیتی ہے۔ لہذا داعی الیٰ اللہ کو بدی کا جواب کبھی بدی سے نہ دینا چاہئے۔ بلکہ اسے برداشت کرنا چاہئے اسے کوئی فوری جواب نہ دینا چاہئے اور اس سے اگلا اقدام یہ ہونا چاہئے کہ اس کی بدی کا جواب بھلائی سے دیا جائے۔ اس طرح دشمن خود نگوسار اور شرمندہ ہوگا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ میں نے کیا سلوک کیا تھا۔ اور فریق مخالف کا میرے حق میں سلوک کیا ہے ؟ وہ آپ کے خلوص اور آپ کی خیرخواہی اور راست بازی کا معتقد ہوجائے گا حتیٰ کہ آپ کی مخالفت چھوڑ کر آپ کے ساتھ آملے گا اور آپ کا جگری دوست بن جائے گا۔ اور اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کی دعوت الی اللہ کی منزل کھوٹی نہیں ہوگی۔ بلکہ اس میں مزید پیش رفت ہوجائے گی۔ اور اگر آپ برائی کا جواب برائی سے دیں گے تو پھر ادھر سے مزید برائی اٹھے گی اس طرح ایک تو مخالفت پہلے سے بھی بڑھ جائے گی۔ دوسرے تمہارا اصل مقصد فوت ہوجائے گا اور دعوت الی اللہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ولا تستوی الحسنۃ …: اس آیت میں دعوت کے مخاطب لوگوں کی زیادتی اور برائی کا جواب دینے کا طریقہ سکھایا گیا ہے۔ عام طور پر ” ولا السیئۃ “ کے ” لا “ کو زائد کہہ کر ترجمہ کیا جاتا ہے کہ ” نیکی اور برائی برابر نہیں۔ “ بعض حضرات اسے زائد برائے تاکید کہہ دیتے ہیں، حالانکہ قرآن مجید کے کسی لفظ بلکہ حرف کو زائد کہنے کے بجائے وہ فائدہ سمجھنے کی کوشش ضروری ہے جس کے لئے وہ لفظ لایا گیا ہے، جو بظاہر زائد ہے۔ کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ بہت بلند ہے اس بات سے کہ بلا ضرورت کوئی لفظ لائے۔ اصل میں یہاں بات بیان ہو رہی ہے کہ نیکی برابر نہیں، نہ اپنی جنس کے افراد کے لحاظ سے، کیونکہ نیکیوں کے بیشمار درجے ہیں، کوئی کمتر درجے کی نیکی، کوئی اس سے برتر اور کوئی سب سے سے برتر ، جیسا کہ حدیث میں ہے : فاذا ناھا اماطۃ الاذی عن الطریق وارفععھا قول لا الہ الا اللہ) (ترمذی، الایمان، باب فی استکمال الایمان…2613)” سب سے کمتر نیکی راستے سے تکلیف وہ چیز ہٹانا اور سب سے اونچی لا الہ الا اللہ کہتا ہے ۔” اور نہ ہی ایک نیکی اپنے درجات کے اعتبار سے برابر ہے، مثلاً کسی کے ساتھ حسن سلوک کے کئی درجے ہیں۔ اسی طرح ایک ہی نیکی اپنے کرنے والوں کے مختلف ہونے کے لحاظ سے بھی برابر نہیں، کوئی اسے خلاص نیت سے کرتا ہے اور کوئی ریا سے ، کوئی پوری کوشش سے کرتا ہے، کوئی درمیانی کوشش سے اور کوئی بےدلی سے۔ غرض کوئی بھی نیکی نہ دوسری نیکیوں کے ساتھ برابر ہے، نہ اپنی ذات میں برابر ہے اور نہ کرنے والوں کے لحاظ سے برابر ہے۔ (٢) ولا السینۃ : برائی کا بھی یہی حال ہے کہ وہ برابر نہیں۔ زبانی دشمنی اور تیر تلوار کے ساتھ دشمنی میں فرق ہے، ابو طالب اور ابوجہل کے کفر میں فرق ہے۔ اس لئے آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ” اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ “ شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین دونوں کے ترجمہ میں یہ بات محلوظ رکھی گئی ہے۔ (٣) اذفح بالتیھی احسن …: یعنی برائی کا جواب صرف یہ نہیں کہ نیکی کے ساتھ دو ، بلکہ اس طریقے سے دو جو سب سے اچھا ہے اور نیکی کا سب سے اونچا درجہ ہے۔ یہ سب سے اچھا طریقہ بعض اوقات اچھی بات اور اچھا لہجہ ہوتا ہے، جیسا کہ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا قول نقل فرمایا ہے :(امر اللہ المومنین بالصبر عند العضب والحلم والعفو عند الاساء ۃ ، فاذا فعلوا ذلک عصمھم اللہ من الشیطان، وخضع لھم عدوھم، کانہ ولی خمیم) (طبری، 30893 السنن الکبیری للبیہقی :30/8، ح : 13680” اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو غصے کے وقت صبر کا اور بدسلوکی کے وقت حلم اور عفو کا حکم دیا، تو جب وہ ایسا کریں گے اللہ تعالیٰ انہیں شیطان سے بچائے گا اور ان کا دشمن ان کے لئے زیر ہوجائے گا، گویا کہ وہ دلی دوست ہے۔ “ اور بعض اوقات سب سے اچھا طریقہ خوش اخلاقی اور بہترین بات کے ساتھ ساتھ جہاد بالید ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو سب سے بہتر امت قرار دیا (دیکھیے آل عمران، 110) اور جس کی وجہ سے بڑے بڑے دشمن دلی دوست بن جاتے ہیں، جیسے ثمامہ بن اثال، ابوسفیان، صفوان بن امیہ، حارث بن ہشام (رض) اور بیشمار کفار جو جہاد کی برکت سے جگری دوست بن گئے۔ آج بھی جب تک کافر ملکوں کے فرماں رواؤں کی گردنوں کے سریے کاٹ کر انہیں ثمامہ بن اثال (رض) کی طرح مسجد نبوی کے ستون سے باندھ کر اسلام کی تعلیمات کا آنکھوں سے مشاہدہ نہ کروایا جائے ان کا مسلمان ہونا یا دلی دوست بننا مشکل ہے۔ (مزید دیکھیے رعد : ٢٢) مومن نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو ہوتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ (And good and evil are not equal - 34). The special instructions for those who are engaged in calling others towards Allah commence from here. The gist of these instructions is not to repay evil with evil, but to be patient and to be obliging ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (Repel (evil) with what is best, - 34) means that the habit of those people who are engaged in calling others towards Allah should be to reply to the evil behavior of the addressees in the best possible manner. No doubt, it is good not to repay evil with evil and to forgive, but it is much better to do some good to the evil-doer after forgiving him. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has said that the instruction in this verse is to be patient with the one who is expressing his anger with you, to be tolerant and forbearing with the one who is being ignorant with you and to forgive the one who has made you suffer. (Mazhari) Some narrations have it that someone either abused or reviled Sayyidna Abu Bakr (رض) who said to him, ` If what you are saying is true that I am at fault and am bad, then I pray Allah Ta’ ala to forgive me, and if you have told a lie then may Allah Forgive you. (Qurtubi)

(آیت) وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ، یہاں سے دعوت الیٰ اللہ کی خدمت انجام دینے والوں کو خاص ہدایات دی گئی ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیں بلکہ صبر اور احسان سے کام لیں اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ یعنی داعیان حق کی خصلت یہ ہونی چاہئے کہ وہ لوگوں کو برائی کو طریق احسن سے دفع کریں۔ وہ یہ کہ برائی کا بدلہ برائی سے نہ لینا اور معاف کردینا تو عمل حسن ہے اور۔ احسن یہ ہے کہ جس نے تمہارے ساتھ برا سلوک کیا، تم اس کو معاف بھی کردو اور اس کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرو۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس آیت میں حکم یہ ہے کہ جو شخص تم پر غصہ کا اظہار کرے، تم اس کے مقابلہ میں صبر سے کام لو۔ جو تمہارے ساتھ جہالت سے پیش آوے تم اس کے ساتھ حلم و بردباری کا معاملہ کرو اور جس نے تمہیں ستایا اس کو معاف کردو۔ (مظہری) بعض روایات میں ہے کہ صدیق اکبر کو کسی شخص نے گالی دی یا برا کہا تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر تم اپنے کلام میں سچے ہو کہ میں مجرم وخطا وار اور برا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرما دے، اور اگر تم نے جھوٹ بولا ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرما دے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَـنَۃُ وَلَا السَّيِّئَۃُ۝ ٠ ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَہٗ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ۝ ٣٤ استوا أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] ( س و ی ) المسا واۃ کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے حسنة والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، ( ح س ن ) الحسن الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔ اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے دفع الدَّفْعُ إذا عدّي بإلى اقتضی معنی الإنالة، نحو قوله تعالی: فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 6] ، وإذا عدّي بعن اقتضی معنی الحماية، نحو : إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا [ الحج/ 38] ، وقال : وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج/ 40] ، وقوله : لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج/ 2- 3] ، أي : حام، والمُدَفَّع : الذي يدفعه كلّ أحد «3» ، والدُّفْعَة من المطر، والدُّفَّاع من السّيل . ( د ف ع ) الدفع ( دفع کرنا ، ہٹا دینا ) جب اس کا تعدیہ بذریعہ الیٰ ہو تو اس کے معنی دے دینے اور حوالے کردینا ہوتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 6] تو ان کا مال ان کے حوالے کردو ۔ اور جب بذریعہ عن متعدی ہو تو اس کے معنی مدافعت اور حمایت کرنا ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا[ الحج/ 38] خدا تو مومنوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹا تا تا رہتا ہے ہے ۔ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج/ 40] اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے ( پر چڑھائی اور حملہ کرنے ) سے ہٹاتا نہ رہتا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج/ 2- 3] کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا ۔ اور وہ ) خدائے صاحب درجات کی طرف سے ( نازل ہوگا ) میں دافع کے معنی حامی اور محافظ کے ہیں ۔ المدقع ۔ ہر جگہ سے دھتکار ہوا ۔ ذلیل ار سوار ۔ الدفعۃ ۔ بارش کی بوچھاڑ ۔ الدفاع سیلاب کا زور ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ حم الحمیم : الماء الشدید الحرارة، قال تعالی: وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ، إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] ، وقال تعالی: وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام/ 70] ، وقال عزّ وجل : يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19] ، ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات/ 67] ، هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص/ 57] ، وقیل للماء الحارّ في خروجه من منبعه : حَمَّة، وروي : «العالم کالحمّة يأتيها البعداء ويزهد فيها القرباء» «6» ، وسمي العَرَق حمیما علی التشبيه، واستحمّ الفرس : عرق، وسمي الحمّام حمّاما، إمّا لأنه يعرّق، وإمّا لما فيه من الماء الحارّ ، واستحمّ فلان : دخل الحمّام، وقوله عزّ وجل : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء/ 100- 101] ، وقوله تعالی: وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج/ 10] ، فهو القریب المشفق، فكأنّه الذي يحتدّ حماية لذويه، وقیل لخاصة الرّجل : حامّته، فقیل : الحامّة والعامّة، وذلک لما قلنا، ويدلّ علی ذلك أنه قيل للمشفقین من أقارب الإنسان حزانته أي : الذین يحزنون له، واحتمّ فلان لفلان : احتدّ وذلک أبلغ من اهتمّ لما فيه من معنی الاحتمام، وأحمّ الشّحم : أذابه، وصار کالحمیم، وقوله عزّ وجل : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة/ 43] ، للحمیم، فهو يفعول من ذلك، وقیل : أصله الدخان الشدید السّواد ، وتسمیته إمّا لما فيه من فرط الحرارة، كما فسّره في قوله : لا بارِدٍ وَلا كَرِيمٍ [ الواقعة/ 44] ، أو لما تصوّر فيه من لفظ الحممة فقد قيل للأسود يحموم، وهو من لفظ الحممة، وإليه أشير بقوله : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر/ 16] ، وعبّر عن الموت بالحمام، کقولهم : حُمَّ كذا، أي : قدّر، والحُمَّى سمّيت بذلک إمّا لما فيها من الحرارة المفرطة، وعلی ذلک قوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الحمّى من فيح جهنّم» «4» ، وإمّا لما يعرض فيها من الحمیم، أي : العرق، وإمّا لکونها من أمارات الحِمَام، لقولهم : «الحمّى برید الموت» «5» ، وقیل : «باب الموت» ، وسمّي حمّى البعیر حُمَاماً «6» بضمة الحاء، فجعل لفظه من لفظ الحمام لما قيل : إنه قلّما يبرأ البعیر من الحمّى. وقیل : حَمَّمَ الفرخ «7» : إذا اسودّ جلده من الریش، وحمّم ( ح م م ) الحمیم کے معنی سخت گرم پانی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا ۔ إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ/ 25] مگر گرم پانی اور یہی پیپ ۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [ الأنعام/ 70] اور جو کافر ہیں ان کے پینے کو نہایت گرم پانی ۔ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَمِيمُ [ الحج/ 19]( اور ) ان کے سروں پر جلتا ہوا پانی دالا جائیگا ۔ ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْها لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ [ الصافات/ 67] پھر اس ( کھانے ) کے ساتھ ان کو گرم پانی ملا کردیا جائے گا ۔ هذا فَلْيَذُوقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَّاقٌ [ ص/ 57] یہ گرم کھولتا ہوا پانی اور پیپ ( ہے ) اب اس کے مزے چکھیں ۔ اور گرم پانی کے چشمہ کو حمتہ کہا جاتا ہے ایک روایت میں ہے ۔ کہ عالم کی مثال گرم پانی کے چشمہ کی سی ہے جس ( میں نہانے ) کے لئے دور دور سے لوگ آتے ہیں ( اور شفایاب ہوکر لوٹتے ہیں ) اور قرب و جوار کے لوگ اس سے بےرغبتی کرتے ہیں ( اس لئے اس کے فیض سے محروم رہتے ہیں ) اور تشبیہ کے طور پر پسینہ کو بھی حمیم کہا جاتا ہے اسی سے استحم الفرس کا محاورہ ہے جس کے معنی گھوڑے کے پسینہ پسینہ ہونے کے ہیں اور حمام کو حمام یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ پسینہ آور ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ اس میں گرم پانی موجود رہتا ہے ۔ استحم فلان ۔ حمام میں داخل ہونا ۔ پھر مجازا قریبی رشتہ دار کو بھی حمیم کہا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ انسان اپنے رشتہ داروں کی حمایت میں بھٹرک اٹھتا ہے اور کسی شخص کے اپنے خاص لوگوں کو حامتہ خاص وعام کا محاورہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فَما لَنا مِنْ شافِعِينَ وَلا صَدِيقٍ حَمِيمٍ [ الشعراء/ 100- 101] تو ( آج ) نہ کوئی ہمارا سفارش کرنے والا ہے اور نہ گرم جوش دوست نیز فرمایا ۔ وَلا يَسْئَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً [ المعارج/ 10] اور کوئی دوست کسیز دوست کا پر سان نہ ہوگا ۔ اور اس کی دلیل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان کے قریبی مہر بانوں کو حزانتہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ احتم فلان لفلان فلاں اس کے لئے غمگین ہوا یا اس کی حمایت کے لئے جوش میں آگیا ۔ اس میں باعتبار معنی اھم سے زیادہ زور پایا جاتا ہے کیونکہ اس میں غم زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ جوش اور گرمی کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ۔ احم الشحم چربی پگھلا ۔ یہاں تک کہ وہ گرم پانی کی طرح ہوجائے اور آیت کریمہ : وَظِلٍّ مِنْ يَحْمُومٍ [ الواقعة/ 43] اور سیاہ دھوئیں کے سایے میں ۔ میں یحموم حمیم سے یفعول کے وزن پر ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی سخت سیاہ دھوآں کے ہیں اور اسے یحموم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں شیت حرارت پائی جاتی ہے جیسا کہ بعد میں سے اس کی تفسیر کی ہے اور یا اس میں حممتہ یعنی کوئلے کی سی سیاہی کا تصور موجود ہے ۔ چناچہ سیاہ کو یحموم کہا جاتا ہے اور یہ حممتہ ( کوئلہ ) کے لفظ سے مشتق ہے چناچہ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ [ الزمر/ 16] ان کے اوپر تو اگ کے سائبان ہوں گے اور نیچے ( ان ) کے فرش پونگے اور حمام بمعنی موت بھی آجاتا ہے جیسا کہ کسی امر کے مقدر ہونے پر حم کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور بخار کو الحمی کہنا یا تو اس لئے ہے کہ اس میں حرارت تیز ہوجاتی ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا : کہ بخار جہنم کی شدت ست ہے اور یا بخار کو حمی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں پسینہ اترتا ہے اور یا اس لئے کہ یہ موت کی علامات میں سے ایک علامت ہے ۔ جیسا کہ عرب لوگ کہتے ہیں الحمی بریدالموت ( کہ بخار موت کا پیغام پر ہے ) اور بعض اسے باب الموت یعنی موت کا دروازہ بھی کہتے ہیں اور اونٹوں کے بخار کو حمام کہا جاتا ہے یہ بھی حمام ( موت ) سے مشتق ہے کیونکہ اونٹ کو بخار ہوجائے تو وہ شازو نادر ہی شفایاب ہوتا ہے ۔ حمم الفرخ پرندے کے بچہ نے بال وپر نکال لئے کیونکہ اس سے اس کی جلد سیاہ ہوجاتی ہے ۔ حمم وجھہ اس کے چہرہ پر سبزہ نکل آیا یہ دونوں محاورے حممتہ سے موخوز ہیں ۔ اور حمحمت الفرس جس کے معنی گھوڑے کے ہنہنانے کے ہیں یہ اس باب سے نہیں ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

ترک تعلق بھی بطریق احسن ہو قول باری ہے (ادفع بالتیھی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عدوۃ کانہ ولی حمیم۔ آپ نیکی سے بدی کو ٹال دیا کیجئے تو پھر یہ ہوگا کہ جس شخص میں اور آپ میں عداوت ہے وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کوئی دلی دست ہوتا ہے) بعض اہل علم کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دشمن کا ذکر کیا اور پھر اس کے متعلق ایک تدبیر بتائی کہ اس پر عمل کیا جائے یہاں تک کہ اس کی دشمنی زائل ہوجائے اور وہ ایسا بن جائے جیسا کوئی دلی دوست ہوتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوا (ادفع بالتیھی احسن) تا آخر آیت۔ انہوں نے مزید کہا کہ بعض دفعہ تمہارا سامانا کسی ایسے شخص سے ہوجائے جو اپنے دل میں تمہارے خلاف دشمنی اور کینہ چھپائے ہوئے ہو تم اسے سلام کرنے میں پہل کرو یا اس کے سامنے اپنے چہرے پر مسکراہٹ طاری کردو تو اس کا دل نرم پڑجائے گا اور اس کا سینہ تمہاری دشمنی سے پاک ہوجائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حاسد کا ذکر کیا ہے اسے یہ معلوم تھا کہ اس کی دوستی حاصل کرنے، اس کے غصے پر قابو پانے اور اس کا کینہ دور کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی تدبیر اور حیلہ نہیں ہے۔ چناچہ ارشا ہوا (قل اعوذ برب الفلق) تا قول باری (ومن شر حاسد اذا حسد) اس لئے اس نے حاسد سے اس کی پناہ میں آنے کا حکم دیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ حاسد کو راضی کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی تدبیر نہیں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے محمد آپ کلمہ لا الہ الا اللہ کے ذریعے ابو جہل کے شرک کو ٹال دیا کیجیئے یا یہ کہ آپ ابوجہل کی برائی کو اپنے اوپر نیک برتاؤ اور حسن خوبی و نرمی کلامی سے ٹال دیا کیجیے۔ جب آپ اس طریقے پر عمل کریں گے تو مثلا ابو جہل جس کو آپ سے دینی دشمنی تھی وہ ایسا ہوجائے گا جیسا کوئی قریبی رشتہ دار ہوتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤{ وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ } ” اور (دیکھو ! ) اچھائی اور برائی برابر نہیں ہوتے۔ “ اب کون کہے گا کہ یہ دونوں برابر ہیں۔ چناچہ بات اس نکتے سے شروع کی جا رہی ہے جو سب کے ہاں متفق علیہ اور مسلم ّہے ۔ { اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ } ” تم مدافعت کرو بہترین طریقے سے “ لوگ بیشک آپ کو گالیاں دیں ‘ مگر آپ انہیں دعائیں دو ‘ اگر کوئی آپ کو پتھر مارے تو آپ جواب میں اسے پھول پیش کرو۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جو کبھی ناکام نہیں ہوتی۔ اس طرز عمل کے سامنے بڑے سے بڑا کٹھور دل انسان بھی نرم پڑجاتا ہے۔ یہاں اس مضمون کے حوالے سے یہ نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اگلی سورت یعنی سورة الشوریٰ میں اس تصویر کا دوسرا رخ بھی نظر آئے گا۔ لیکن یاد رہے کہ سورة الشوریٰ میں سختی کا جواب سختی سے دینے کی بات اقامت دین کے حوالے سے ہوئی ہے جبکہ یہاں دعوت دین کے مرحلے کی حکمت عملی بتائی جا رہی ہے۔ دونوں مرحلوں پر پالیسی کے اس فرق کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بہر حال ” دعوت “ کے مرحلے کی پالیسی یہی ہے کہ جب تم دعوت کو لے کر چلو تو ایسے بےضرر انسان بن جائو کہ بدھ مت کے بھکشو نظر آئو۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اسی حکمت عملی کے بارے میں فرمایا تھا کہ تم سانپ کی مانند چوکنے اور فاختہ کی طرح بےضرر بنو ! یعنی ایک داعی کو ایسا احمق اور بدھو نہیں ہونا چاہیے کہ دوسرے اسے ضرر پہنچا جائیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ خود اس کی ذات سے کسی دوسرے کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اس حوالے سے رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت ہمارے سامنے ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گالیاں دینے والوں کو ہمیشہ دعائیں دیں ‘ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو ابوجہل جیسے دشمنوں کی ہدایت کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں ؎ سلام اس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں سلام اس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں ! زیر مطالعہ موضوع یعنی ” دعوت توحید “ کی اہمیت کو اقامت دین کی جدوجہد کے حوالے سے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ توحید عملی کے تدریجی مراحل کو اپنے ذہن میں ایک مرتبہ پھر سے تازہ کرلیں۔ اب تک ہم انفرادی سطح پر توحید عملی کے دو پہلوئوں کا مطالعہ کرچکے ہیں۔ سورة الزمر میں توحید کا خارجی یا ظاہری پہلو بیان ہوا ہے کہ عبادت صرف اللہ کی کرو اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ اس کے بعد سورة المومن میں توحید کے داخلی پہلو کا ذکر آیا تھا کہ دعا صرف اللہ سے کرو ‘ اور وہ بھی اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ اب سورة حٰمٓ السجدہ میں توحید کو انفرادی سطح سے اجتماعیت کی طرف بڑھانے کی بات ہو رہی ہے۔ گویا ” توحید “ ایک فرد سے نکل کر دوسرے افراد تک پہنچنا شروع ہوگی اور دعوت کے ذریعے ” متعدی “ صورت اختیارکر کے معاشرے میں پھیلتی چلی جائے گی۔ سورة آل عمران میں اس بنیاد پر باقاعدہ ایک جماعت قائم کرنے کی ضرورت اور اہمیت ان الفاظ میں بیان فرمائی گئی ہے : { وَلْتَکُنْ مِّنکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ } ” اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دے ‘ نیکی کا حکم دیتی رہے اور بدی سے روکتی رہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔ “ بہر حال زیر مطالعہ آیات کا موضوع دعوت توحید ہے اور اس حوالے سے داعیانِ حق کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ تم برائی کا جواب ہمیشہ نیکی اور خوش اخلاقی سے دو ۔ اگر تم یہ روش اختیار کرو گے : { فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ } ” تو (تم دیکھو گے کہ) وہی شخص جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے وہ گویا گرم جوش دوست بن جائے گا۔ “ انسان آخر انسان ہے۔ اگر کوئی شخص ہر وقت آپ کی مخالفت پر ہی کمر بستہ ہے اور آپ ہیں کہ ہمیشہ اس کی بھلائی کے لیے کوشاں ہیں تو آخر وہ کب تک اپنے منفی طرزعمل پر کاربند رہے گا۔ بالآخر اسے آپ کے اخلاق کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہی پڑیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37 To understand the full significance of these words also, one should keep in view the conditions in which the Holy Prophet and, through him, his followers were given this instruction. The conditions were that the invitation to the Truth was being resisted and opposed with extreme stubbornness and severe antagonism, in which All bounds of morality, humanity and decency were being transgressed. Every sort of lie was being uttered against the Holy Prophet and his Companions; every kind of evil device was being employed to defame him and to create suspicions against him in the minds of the people; every kind of accusation was being levelled against him and a host of the propagandists were busy creating doubts against him in the hearts; in short, he and his Companions were being persecuted in every possible way because of which a substantial number of the Muslims had been compelled to emigrate from the country. Then the programme that had been prepared to stop him from preaching was that a hand of the mischievous people was set behind him, who would raise such a hue and cry that no one should be able to hear anything as soon as he opened his mouth to preach his message. In such discouraging conditions when apparently every way of extending invitation to Islam seemed to be blocked, the Holy Prophet was taught this recipe for breaking the opposition. First, it was said that goodness and evil are not equal, as if to say: "Although apparently your opponents might have raised a dreadful storm of mischief and evil, as against which goodness might seem absolutely helpless and powerless, yet evil in itself has a weakness which ultimately causes its own destruction. For as long as man is man, his nature cannot help hating evil. Not only the companions of evil, even its own upholders know in their hearts that they arc liars and wicked people and arc being stubborn for selfish motives. Not to speak of creating dignity and honour for them in the hearts of others, it lowers them in their own esteem, and causes their morale to be weakened and destroyed in the event of every conflict. As against this evil, the good which appears to be utterly helpless and powerless, goes on operating and working and it becomes dominant in the long run. For, in the first place, the good has a power of its own which wins the hearts and no man however perverted and corrupted, can help esteeming it in his own heart. Then, when the good and evil are engaged in a face to face conflict and their nature and merits become apparent and known, after a long drawn out struggle, not many people would be Ieft, who would not start hating the evil and admiring the good. Second, it was said that evil should be resisted not by the mere good but' by a superior good, as if to say: "If a person treats you unjustly and you forgive him, it is the mere good. The superior good is that you treat the one who iII-treats you wich kindness and lout. " The result would be that "your worst enemy would become your closest friend," for that is human nature itself. If you remain quiet in response to an abuse, it will be mere goodness but it will not silence the abuser. But if you express good wishes for him in response to his abuses, even the most shameless opponent will feel ashamed, and then would hardly ever be able to employ invectives against you. If a person doesn't miss any opportunity to harm you, and you go on tolerating his excesses, it may well make him even bolder in his mischiefs. But if on an occasion he gets into trouble and you come to his rescue, he will fall down at your feet, for no mischief can hold out against goodness. However, it would be wrong to take this general principle in the meaning that every enemy will necessarily become a close friend when you have treated him with the superior good. There are such wicked people also in the world, whose inimical nature will never change for the better no matter how tolerantly you may overlook their excesses and how benevolently you may react and respond to every evil committed by them. But such devil-incarnates are as few in the world as the embodiments of goodness are.

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :37 اس ارشاد کی پوری معنویت سمجھنے کے لیے بھی وہ حالات نگاہ میں رہنے چاہییں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ، اور آپ کے واسطے سے آپ کے پیروؤں کو ، یہ ہدایت دی گئی تھی ۔ صورت حال یہ تھی کہ دعوت حق کا مقابلہ انتہائی ہٹ دھرمی اور سخت جارحانہ مخالفت سے کیا جا رہا تھا ، جس میں اخلاق انسانیت اور شرافت کی ساری حدیں توڑ ڈالی گئی تھیں ۔ ہر جھوٹ حضور اور آپ کے ساتھیوں کے خلاف بولا جا رہا تھا ۔ ہر طرح کے ہتھکنڈے آپ کو بدنام کرنے اور آپ کی طرف سے لوگوں کو بدگمان کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے تھے ۔ طرح طرح کے الزامات آپ پر چسپاں کیے جا رہے تھے اور مخالفانہ پروپیگنڈا کرنے والوں کی ایک فوج کی فوج آپ کے خلاف دلوں میں وسوسے ڈالتی پھر رہی تھی ۔ ہر قسم کی اذیتیں آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں جن سے تنگ آ کر مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ملک چھوڑ کر نکل جانے پر مجبور ہو گئی تھی ۔ پھر آپ کی تبلیغ کو روک دینے کے لیے پروگرام یہ بنایا گیا تھا کہ ہلڑ مچانے والوں کا ایک گروہ ہر وقت آپ کی تاک میں لگا رہے اور جب آپ دعوت حق کے لیے زبان کھولیں ، اتنا شور برپا کر دیا جائے کہ کوئی آپ کی بات نہ سن سکے ۔ یہ ایسے ہمت شکن حالات تھے جن میں بظاہر دعوت کے تمام راستے مسدود نظر آتے تھے ۔ اس وقت مخالفتوں کے توڑنے کا یہ نسخہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا ۔ پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں ۔ یعنی بظاہر تمہارے مخالفین بدی کا کیسا ہی خوفناک طوفان اٹھا لائے ہوں جس کے مقابلے میں نیکی بالکل عاجز اور بے بس محسوس ہوتی ہو ، لیکن بدی بجائے خود اپنے اندر وہ کمزوری رکھتی ہے جو آخر کار اس کا بَھٹّہ بٹھا دیتی ہے ۔ کیونکہ انسان جب تک انسان ہے اس کی فطرت بدی سے نفرت کیے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ بدی کے ساتھی ہی نہیں ، خود اس کے علمبردار تک اپنے دلوں میں یہ جانتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں ، ظالم ہیں ، اور اپنی اغراض کے لیے ہٹ دھرمی کر رہے ہیں ۔ یہ چیز دوسروں کے دلوں میں ان کا وقار پیدا کرنا تو درکنار انہیں خود اپنی نظروں سے گرا دیتی ہے اور ان کے اپنے دلوں میں ایک چور بیٹھ جاتا ہے جو ہر مخالفانہ اقدام کے وقت ان کے عزم و ہمت پر اندر سے چھاپا مارتا رہتا ہے ۔ اس بدی کے مقابلے میں اگر وہی نیکی جو بالکل عاجز و بے بس نظر آتی ہے ، مسلسل کام کرتی چلی جائے ، تو آخر کار وہ غالب آ کر رہتی ہے ۔ کیونکہ اول تو نیکی میں بجائے خود دلوں کو مسخر کرتی ہے ، اور آدمی خواہ کتنا ہی بگڑا ہوا ہو ، اپنے دل میں اس کی قدر محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ پھر جب نیکی اور بدی آمنے سامنے مصروف پیکار ہوں اور کھل کر دونوں کے جوہر پوری طرح نمایاں ہو جائیں ، ایسی حالت میں تو ایک مدت کی کشمکش کے بعد کم ہی لوگ ایسے باقی رہ سکتے ہیں جو بدی سے متنفر اور نیکی کے گرویدہ نہ ہو جائیں ۔ دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ بدی کا مقابلہ نیکی سے نہیں بلکہ اس نیکی سے کرو جو بہت اعلیٰ درجے کی ہو یعنی کوئی شخص تمہارے ساتھ برائی کرے اور تم اس کو معاف کر دو تو یہ محض نیکی ہے ۔ اعلیٰ درجے کی نیکی یہ ہے کہ جو تم سے برا سلوک کرے تم موقع آنے پر اس کے ساتھ احسان کرو ۔ اس کا نتیجہ یہ بتایا گیا ہے کہ بد ترین دشمن بھی آخر کار جگری دوست بن جائے گا ۔ اس لیے کہ یہی انسانی فطرت ہے ۔ گالی کے جواب میں آپ خاموش رہ جائیں تو بے شک یہ ایک نیکی ہو گی ، مگر گالی دینے والے کی زبان بند نہ کر سکے گی ۔ لیکن اگر آپ گالی کے جواب میں دعائے خیر کریں تو بڑے سے بڑا بے حیا مخالف بھی شرمندہ ہو کر رہ جائے گا اور پھر مشکل ہی سے کبھی اس کی زبان آپ کے خلاف بد کلامی کے لیے کھل سکے گی ۔ کوئی شخص آپ کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا ہو اور آپ اس کی زیادتیاں برداشت کرتے چلے جائیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی شرارتوں پر اور زیادہ دلیر ہو جائے ۔ لیکن اگر کسی موقع پر اسے نقصان پہنچ رہا ہو اور آپ اسے بچا لیں تو وہ آپ کے قدموں میں آ رہے گا ، کیونکہ کوئی شرارت مشکل ہی سے اس نیکی کے مقابلے میں کھڑی رہ سکتی ہے ۔ تاہم اس قاعدہ کلیہ کو اس معنی میں لینا درست نہیں ہے کہ اس اعلیٰ درجے کی نیکی سے لازماً ہر دشمن جگری دوست ہی بن جائے گا ۔ دنیا میں ایسے خبیث النفس لوگ بھی ہوتے ہیں کہ آپ ان کی زیادتیوں سے در گزر کرنے اور ان کی برائی کا جواب احسان اور بھلائی سے دینے میں خواہ کتنا ہی کمال کر دکھائیں ، ان کے نیش عقرب کا زہریلا پن ذرہ برابر بھی کم نہیں ہوتا ۔ لیکن اس طرح کے شر مجسم انسان قریب قریب اتنے ہی کم پائے جاتے ہیں جتنے خیر مجسم انسان کمیاب ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14:۔ یعن جو شخص تمہارے ساتھ برا سلوک کر رہا ہو، اگرچہ تمہارے لیے یہ بھی جائز ہے کہ اس سے برابر کا بدلہ لے لو، لیکن بہتر یہ ہے کہ اس کی برائی کا بدلہ اچھائی سے دو۔ ایسا کرو گے تو تمہارا دشمن بھی دوست بن جائے گا، اور تم نے اس کی برائی پر جو صبر کیا اس کا بہترین ثواب آخرت میں تمہیں ملے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٤۔ ٣٦۔ اوپر وعظ و نصیحت کا ذکر تھا اور وعظ و نصیحت میں مخالف لوگ بدگوئی اور بدی سے پیش آنے لگتے ہیں اس واسطے ان آیتوں میں فرمایا کہ ایسے موقع پر بدگوئی کے بدلہ میں بدگوئی کا کرنا تو برابر کا مقابلہ ہے ہاں ایسے موقع پر اگر بدی کے مقابلہ میں صبر سے کام لے جا کر بدی کرنے والے سے نیکی کی جائے گی تو نیکی اور بدی برابر کا مقابلہ نہیں ہے بلکہ نیکی سے دشمن رشتہ داروں کی سی الفت کا برتاؤ کرنے لگتا ہے مگر بدی کے مقابلہ میں نیکی سے پیش آنا ہر شخص کا کام نہیں ہے جن کو اللہ ایسی برداشت دیتا ہے وہی ایسی ہمت کرتے ہیں پھر فرمایا کبھی ایسے موقع پر شیطانی وسوسے سے بےاختیار غصہ آجائے تو اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے کہ اللہ انسان کی ہر التجا کو سنتا اور انسان کے دل کی ہر حالت کو خوب جانتا ہے وہ پناہ الٰہی کی التجا کو سن کر فوراً دل کے اس جوش کو رفع فرمائے گا۔ صحیح بخاری ٢ ؎ و مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایماندار آدمی کی نشانی یہ ہے کہ وہ یا تو منہ سے نیک بات نکالے یا چپکا رہے۔ صحیح بخاری ٣ ؎ اور مسلم میں سلیمان بن صرد سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو غصہ میں بھر ہوا دیکھ کر یہ فرمایا کہ یہ شخص اگر اعوذ باللہ من الشیطن الرحیم کہے تو ابھی اس کا غصہ جاتا رہے بدگوئی کے مقابلہ میں نیک بات منہ سے نکالنے اور غصہ کے وقت اللہ سے پناہ مانگنے کا ذکر جو آیتوں میں ہے یہ حدیثیں گویا اس کی تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ بدگوئی کے مقابلہ میں یا تو آدمی نیک بات منہ سے نکالے نہیں تو بدگوئی کا مقابلہ بدگوئی سے نہ کرے بلکہ چپکا ہوجائے اور غصے کے وقت اللہ سے پناہ مانگے کہ اس سے فوراً غصہ جاتا رہتا ہے جس سلیمان بن صرد بن الجون کی روایت اوپر گزری یہ خزاعہ قبیلہ کے صحابہ میں ہیں یہ کوفہ میں بہت رہے ہیں۔ (٢ ؎ صحیح بخاری باب من کان یومن باللہ و الیوم الرخر فلا بوذ جارہ ص ٨٨٩ ج ٢) (٣ ؎ صحیح بخاری باب الحذرمن الغضب ص ٩٠٣ ج ٢)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:34) لاتستوی مضارع منفی واحد مؤنث غائب۔ برابر نہیں ہوگی۔ برابر نہیں ہے۔ استواء (افتعال) مصدر۔ ولا السیئۃ میں لا نفی تاکید کے لیے آیا ہے۔ یہ لام زائدہ ہے محض نفی کی تاکید کے لئے آیا ہے مثلا اور جگہ قرآن مجید میں ہے وما یستوی الاعمی والبصیر ۔ ولا الظلمت ولا النور ۔ ولا الظل ولا الحرور ۔ (35:1920) اور برابر نہیں اندھا اور آنکھ والا۔ اور نہ اندھیرا اور روشنی اور نہ سایہ اور دھوپ۔ ادفع۔ فعل امر واحد مذکر حاضر۔ تو دفاع کر، تو تدارک کر۔ تو دور کر۔ احسن یہاں احسن (صیغہ اسم تفضیل) سے حسن اضافی یعنی بدی سے زیادہ اچھا ہونا مراد نہیں کیونکہ بدی بہرحال جدی ہے اس میں اچھائی ہوتی ہی نہیں نہ کم نہ زیادہ ۔ بلکہ احسن سے فی نفسہ زیادہ خوبی والی خصلت مراد ہے۔ علامہ پانی پتی اس آیت کی یوں تشریح فرماتے ہیں :۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا :۔ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی غصہ کرے تو اس کے مقابلہ میں صبر کیا جائے اور کوئی جہالت کرے تو تحمل کیا جائے۔ اور کوئی بدسلوکی کرے تو معاف کیا جائے۔ بعض علماء نے آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ بدیاں سب ایک درجہ کی نہیں ہوتیں اسی طرح نیکیوں کے مراتب بھی مختلف ہوتے ہیں اب اگر کوئی دشمن کوئی بدی کرے تو اس کے مقابلہ میں بہترین اعلیٰ درجہ کی نیکی سے کام لیا جائے ۔ مثلا اگر کسی نے تمہارے ساتھ بدسلوکی کی ہو تو درگزر کرنا چاہیے۔ (یہ ایک درجہ کی نیکی ہے) لیکن اگر بدی کے عوض دشمن سے بہترین سلوک کیا جائے تو یہ احسن ہے۔ فاذ الذی ۔۔ حمیم : یہ نتیجہ ہے اس دفاع کا جس کا اوپر حکم ہوا ہے یعنی اگر تم بدی کا تدارک نیکی سے کرو گے تو تمہارا دشمن تمہارا درست بن جائے گا۔ فاء ترتیب کے لئے ہے اذا مفاجاتیہ ہے۔ فاذا۔ تولو۔ پس جونہی تم بدی کا بدلہ نیکی سے دو گے تمہارا دشمن تمہارے گہرے دوست کی طرح بن جائے گا۔ الذی بینک وبینہ عداوۃ وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت تھی۔ اس سارے جملہ کی بجائے عدوک (تمہارا دشمن) بھی استعمال ہوسکتا تھا لیکن یہ زیادہ بلیغ ہے لہٰذا باوجود عدوک کے اختصار کے اسے اختیار کیا گیا۔ کانہ : کان حرف مشبہ بالفعل ہے ہ ضمیر واحد مذکر غائب۔ گویا وہ۔ ولی حمیم : گہرا دوست۔ جگری دوست۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی کوئی بد خلقی سے پیش آئے تو اس سے خوش اخلاقی سے پیش آئو، کوئی گالی دے تو اسے دعا دو ، کوئی غصہ اور خفگی کا اظہار کرے تو اس پر صبر کرو، کوئی ظلم کرے تو اس سے انصاف کرو، الغرض ہر برائی کا مقابلہ اچھائی سے کرو۔ ( نیز دیکھئے، القصص : 54، رعد : 22)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : داعئ حق کے لیے بنیادی ہدایت۔ ایک داعی کو اپنی دعوت کے دوران اس بات کو ہمیشہ مدِّ نظر رکھنا چاہیے کہ اچھائی اور برائی، نیکی اور بدی کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ برائی پر چلنے اور اس کا پرچار کرنیوالے لوگ ہمیشہ جلد باز اور جذباتی ہوتے ہیں بالخصوص مشرک کی فطرت ہے کہ وہ شرک اور غیر اللہ کی محبت میں بڑا غالی اور جذباتی ہوتا ہے۔ جونہی اس کے سامنے اللہ وحدہٗ لاشریک کی بات کی جائے تو وہ سیخ پا ہوجاتا ہے اور توحید بیان کرنے والے کو بزرگوں کا گستاخ اور بےادب کہتا ہے۔ اس کے لیے وہابی کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ جس طرح نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں صحابہ کرام (رض) کو مکہ کے کافرصابی کہتے تھے ہر دور میں مشرک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس میں داعی کے لیے بات کرنا مشکل ہوجاتی ہے۔ داعی کی دانش اور حکمت یہ ہونا چاہیے کہ وہ اشتعال انگیز ماحول بنانے سے اجتناب کرے۔ ظاہر بات ہے کہ اس کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ اور بڑے حوصلے کی ضرورت ہے یہ حوصلہ پیدا کرنے کے لیے داعی کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات پختہ رہنی چاہیے کہ اچھائی اور برائی برا بر نہیں ہوتے۔ اچھائی کی اشاعت کے لیے تین باتیں ضروری ہوتی ہیں۔ 1 الدّاعی کا اخلاق اور کردار اچھا ہونا چاہیے۔ 2 الدّاعی کو اپنا حوصلہ بڑا رکھنا چاہیے۔ 3 الدّاعی کو اچھے ماحول میں بہتر سے بہتر سلیقہ کے ساتھ بات کرنے کا ڈھنگ اپنانا چاہیے۔ اس کے باوجود اگر کوئی اچھائی کا جواب برائی سے دیتا ہے تو پھر بھی برائی کا جواب برائی سے نہیں دینا چاہیے۔ بُرائی کا جواب برائی کے ساتھ دینے سے ماحول میں تلخی بڑھتی ہے اور جس قدر ماحول میں تلخی بڑھے گی اسی قدر ہی داعی کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا۔ اس لیے داعی کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ وہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالنے کی کوشش کرے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر زیادتی کرنے والے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ جس کا بالآخر یہ نتیجہ نکلے گا کہ وہ اور اس کے ساتھی یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ جو شخص تعصّب اور کسی مفاد کے بغیر ہماری خیر خواہی کر رہا ہے اور ہماری زیادتی کا جواب حسن سلوک سے دیتا ہے یقیناً وہ ہماری بھلائی چاہتا ہے۔ داعی جن لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے مخاطب کررہا ہے۔ اگر وہ طبقہ نرم نہیں ہوتا تو بالآخر ان میں سے کچھ لوگ ضرور متوجہ ہوں گے جو اس کے ہمسفر ہوجائیں گے۔ اس کی ہر دور میں بیشمار مثالیں پائی جاتی ہیں۔ دور نہ جائیں آج سے تقریباً ساٹھ سال پہلے کسی مسجد میں توحیدوسنت کی بات کی جاتی تو بات کرنے والے کو مسجد سے اٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا تھا اور لوگوں میں نفرت پیدا کرنے کے لیے مسجد کو دھویا جاتا تھا۔ لیکن آج لوگ قرآن و سنت کی بات کو ترجیح دیتے ہیں۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینا، زیادتی کے مقابلے میں خیر خواہی کرنا ہر کسی کا کام نہیں۔ یہ وہی مبلّغ اور کارکن کرسکتا ہے جسے اپنا مشن عزیز اور اپنے رب کی رضا مطلوب ہوتی ہے۔ ورنہ دوسرا شخص مخالف کی بات کو اپنی انا کا مسئلہ اور اپنے دھڑے کے لیے ذلّت سمجھتا ہے۔ بعض اَن پڑھ مبلّغ اور جذباتی کارکن کسی ایک صحابی کے ذاتی اور انفرادی واقعہ کو دلیل بنا کر اسے تبلیغ پر چسپاں کرتے ہیں۔ حالانکہ تبلیغ کے میدان میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کسی صحابی نے گالی کا جواب گالی سے نہیں دیا۔ یہاں تک کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذاتی معاملات میں بھی کسی صحابی کی طرف سے گالی کا جواب گالی سے دینا پسند نہیں فرمایا۔ حالانکہ اس کی ایک حد تک گنجائش بھی پائی جاتی ہے۔ مسائل ١۔ نیکی اور برائی برابر نہیں ہوتے۔ ٣۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینا مخالف کو اپنا گرویدہ بنانا ہے۔ ٢۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینا چاہیے۔ ٤۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینے والا بڑے حوصلے کا مالک اور خوش نصیب ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن مبلّغ کے لیے ہدایات : ١۔ اللہ کے دین کی طرف لوگوں کو حکمت اور اچھے طریقے سے بلائیں۔ (النحل : ١٢٥) ٢۔ فرما دیجیے یہ میرا راستہ ہے میں اس کی طرف بصیرت کے ساتھ بلاتا ہوں۔ (یوسف : ١٠٨) ٣۔ آپ انہیں دین حق کی طرف بلائیں اور اللہ کے حکم پر قائم رہیں۔ (الشوریٰ : ١٥) ٤۔ حضرت ابراہیم نے دعا کی کہ اے رب ان میں نبی بھیج جو ان کو علم اور عقل کی باتیں سکھلائے۔ ( البقرۃ : ١٢٩) ٥۔ داعی اور قائد کو ہمدرد ہونا چاہیے۔ (التوبۃ : ١٢٨) ٦۔ قائد میں عفو و درگزر کا جذبہ ہونا چاہیے۔ (المائدۃ : ١٣) نوٹ : مزید ہدایات سورة مزمل اور مدثر کی ابتدائی آیات میں ملاحظہ فرمائیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولا تستوی الحسنۃ ولا السیئۃ (٤١ : ٣٤) ” اے نبی ، نیکی اور بدی یکساں نہیں “۔ اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ برائی کا جواب برائی سے دے۔ نیکی اور بدی کا اثر یکساں نہیں ہوتا۔ نہ دونوں کی قدرو قیمت یکساں ہے۔ داعی کو چاہئے کہ شر کا مقابلہ شر سے کرنے کی دلی رغبت کو ترک کر دے اور برائی کو صبر ، معافی اور سنجیدگی کے ساتھ رد کرے۔ کرخت نفوس کو اعتماد اور نرمی پر آمادہ کرے۔ چناچہ دشمن دوستی سے بدل جائے اور سختی نرمی میں بدل جائے۔ ادفع بالتی ھی ۔۔۔۔۔ ولی حمیم (٤١ : ٣٤) ” تم بدی کو نیکی سے دفع کرو ، جو بہترین ہو ، تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے “۔ اسلام کا یہ اصول بسا اوقات نہایت ہی اچھے نتائج دیتا ہے۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ سخت دشمنی دوستی میں بدل جاتی ہے اور غضب اور کینہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ تکبر ، شرم و حیاء میں بدل جاتا ہے ، بشرطیکہ کوئی اچھی بات کرنا جانتا ہو ، اور سنجیدگی سے بات کرسکتا ہو ، اور ایک نہایت ہی ہیجانی کیفیت کے سامنے مسکراہٹ سے بات کرسکتا ہو۔ ایک ایسے شخص کے سامنے نہایت ہی ٹھنڈے مزاج کا مظاہرہ کرسکتا ہو ، جو آپے سے باہر ہوگیا ہو۔ اگر کسی ایسے شخص کا مقابلہ ایسے ہی انداز میں کیا گیا جس طرح اس کا ہے تو پھر کیا ہوگا۔ وہ مزید آپے سے باہر ہوگا ، کبر کرے گا اور سرکشی پر آمادہ ہوگا ، حیا و شرم کا جامہ اتار پھینکے گا اور آپے سے باہر ہو کر آمادۂ جنگ ہوگا۔ لیکن اس میں ایک شرط ہے ، وہ یہ کہ اس طرح کی شرافت کا مظاہرہ کرنے والا ایک بڑے دل اور بڑے مقام کا مالک ہو ، وہ اس پوزیشن میں ہو کہ اگر اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہے تو دے سکے۔ برائی کا جواب دینے کی اگر قدرت ہو تو پھر شرافت کا اثر ہوگا۔ ورنہ ” گداگر تواضع گند خوئے اوست “۔ یہ نہ ہو کہ اچھا رویہ اختیار کرنے کو کمزوری سمجھا جائے ۔ اگر مخالف نے یہ سمجھ لیا کہ یہ کمزور ہے تو پھر وہ ہرگز احترام نہ کرے گا اور پھر اچھائی کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ پھر یہ بات بھی نوٹ کرلینا چاہئے کہ اس شرافت کا مظاہرہ شخصی دست درازی کے مواقع پر ہونا چاہئے۔ اگر کوئی اسلام اور اللہ کے اصولوں پر دست درازی کرتا ہے ، یا کوئی اہل ایمان پر مظالم ڈھاتا ہے۔ لوگوں کو دین سے روکتا ہے ، تو اس صورت میں ہر قسم کے ہتھیاروں سے مقابلہ ضروری ہے یا پھر اگر مقابلے کی صورت نہ ہو تو صبر کیا جاسکتا ہے۔ یہ نہ ہو کہ ایک تو اسلام کی بیخ کنی کر رہا ہو اور دوسرا برائی کا بدلہ نیکی سے دے رہا ہو۔ یہ مقام ، کہ برائی کو نیکی کے ساتھ دفع کرنا ، اور غیض و غضب کے مقام پر رواداری اور برداشت کرنا اور یہ فیصلہ کر سکنا کہ کہاں رواداری اور برداشت کرنا ہے اور کہاں برائی کو نیکی کے ساتھ دفع کرنا ہے۔ یہ ایک عظیم مرتبہ ہے۔ یہ مرتبہ و مقام ہر انسان کو نہیں مل سکتا۔ اس مقام پر وہی شخص فائز ہوسکتا ہے جسے صبر کی بڑی مقدار دی گئی ہو۔ یہ وہ مقام ہے جس پر اللہ کے خاص بندے اور صبر کرنے والے ہی فائز ہو سکتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

33:” ولا تستوی الحدسنۃ “ مدارات اور درشتی، حسن اخلاق اور بدخلقی برابر نہیں ہیں۔ الحسنۃ المداراۃ والسیئۃ الغلظۃ (قرطبی ج 15 ص 361) ۔ جو شخص درشتی، کج خوئی اور بدکلامی سے پیش آتا ہے، اس سے نرمی، خوشکلامی، حلم اور بردباری کا سلوک کریں تو خواہ وہ کتنا ہی بڑا دشمن ہوگا۔ اس کا دل نرم ہوجائے گا اور وہ گہرا اور مخلص دوست بن جائے گا۔ اذا فعلت ذلک صار عدوک المشاق مثل الولی الشفیق (بیضاوی) ۔ لیکن یہ خصلت و خو صرف انہی لوگوں کے نصیب میں ہوتی ہے۔ جو حوصلہ مند اور حلیم الطبع ہوں اور تزکیہ نفس کی عظیم دولت سے وافر حصہ پا چکے ہوں

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(34) اور اے پیغمبر نیکی اور بدی برابر نہیں ہوا کرتی آپ برائی کو ایسے برتائو سے دفع کیا کیجئے جو بہت اچھا ہو اور برائی کو اس خصلت کے ساتھ دفع کیجئے جو بہت بہتر اور اچھی ہو بس اس بہترین برتائو کا یہ اثر ہوگا کہ جس شخص کے اور آپ کے درمیان دشمنی ہے وہ یکایک ایسا ہوجائے گا کہ کوئی ہمدردی کرنے والا دوست ہے۔ یعنی برائی اور بدی کے مکافات اور بدلا برائی اور بدی سے ہوگا تو مخالفت اور دشمنی زیادہ ہوگی اور اگر برائی کا بدلا بھلائی سے ہوگا تو دشمن بھی دوست بن جائے گا گو دل سے دوست نہ ہو مگر برتائو میں ڈھیلا ہوجائیگا بشرطیکہ اس کے مزاج میں کچھ صلاحیت اور سلامت ردی ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں برابر نہیں نیکی برائی کے نہ برائی نیکی کے سخت کلام کرے یا برا معاملہ کرے تو اس کے مقابل کو جو اس سے بہتر ہو کرنے سے دشمن ہوجاتے جیسے دوست اگرچہ دل میں نہ ہو۔