Surat Ha meem Assajdah

Surah: 41

Verse: 46

سورة حم السجدہ

مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفۡسِہٖ وَ مَنۡ اَسَآءَ فَعَلَیۡہَا ؕ وَ مَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ ﴿۴۶﴾

Whoever does righteousness - it is for his [own] soul; and whoever does evil [does so] against it. And your Lord is not ever unjust to [His] servants.

جو شخص نیک کام کرے گا وہ اپنے نفع کے لئے اور جو برا کام کرے گا اس کا وبال بھی اسی پر ہے ۔ اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Everyone will be requited according to His Deeds Allah says, مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ... Whosoever does righteous good deed, it is for himself; means, the benefit of which will come to him. ... وَمَنْ أَسَاء فَعَلَيْهَا ... and whosoever does evil, it is against himself. means, the consequences of that will come back on him. ... وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّمٍ لِّلْعَبِيدِ And your Lord is not at all unjust to (His) servants. means, He only punishes people for their sins, and He does not punish anyone except after establishing proof against him and sending a Messenger to him. Knowledge of the Hour is with Allah Alone Then Allah says:

ناکردہ گناہ سزا نہیں پاتا ۔ اس آیت کا مطلب بہت صاف ہے بھلائی کرنے والے کے اعمال کا نفع اسی کو ہوتا ہے اور برائی کرنے والے کی برائی کا وبال بھی اسی کی طرف لوٹتا ہے ۔ پروردگار کی ذات ظلم سے پاک ہے ۔ ایک کے گناہ پر دوسرے کو وہ نہیں پکڑتا ۔ ناکردہ گناہ کو وہ سزا نہیں دیتا ۔ پہلے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھیجتا ہے ۔ اپنی کتاب اتارتا ہے ، اپنی حجت تمام کرتا ہے ، اپنی باتیں پہنچا دیتا ہے ، اب بھی جو نہ مانے وہ مستحق عذاب و سزا قرار دے دیا جاتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 اس لئے کہ وہ عذاب صرف اسی کو دیتا ہے جو گناہ گار ہوتا ہے، نہ کہ جس کو چاہے، یوں ہی عذاب میں مبتلا کر دے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٠] یعنی آپ کے پروردگار کو اپنے بندوں کو خواہ مخواہ سزا دینے کا کوئی شوق نہیں۔ نہ وہ یہ ظلم کرسکتا ہے کہ نیکی کرنے والوں کو کچھ بدلہ نہ دے اور نہ یہ کہ بدی کرنے والوں کو ان کی بدی کی کوئی سزا نہ دے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) من عمل صالحا فلنفسہ ’: اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کے لئے تسلی ہے کہ اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ پر اس کا کوئی وبال نہیں۔ جو صالح عمل کرے گا اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو برائی کرے گا اس کا وبال اسی پر ہے۔ (٢) وما ربک بظلام للعید : اور اللہ بندوں پر کچھ بھی ظلم کرنے والا نہیں کہ کسی کو اس کی نیکی کا بدلا نہ دے، یا ایک کی بدی دوسرے پر ڈال دے۔ (٣) یہاں لفظ ” بظلام “ پر ایک مشہور سوال ہے، اس سوال اور اس کے جواب کے لئے دیکھیے سورة آل عمران (182) انفال (٥١) اور سورة حج (١٠) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَنْ عَمِلَ صَالِحًــا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَيْہَا۝ ٠ ۭ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ۝ ٤٦ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جو شخص خلوص کے ساتھ نیک اعمال کرتا ہے اس کا ثواب اسی کو ملے گا اور جو شرک کرے گا اس کی سزا اسی کو بھگتنی پڑے گی اور آپ کا رب تو بغیر کسی جرم کے بندوں کی گرفت فرمانے والا نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦{ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَآئَ فَعَلَیْہَا } ” جو کوئی نیک عمل کرتا ہے تو اپنے ہی لیے کرتا ہے ‘ اور جو کوئی برا کام کرتا ہے تو اس کا وبال اسی پر آئے گا۔ “ { وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ ۔ } ” اور آپ کا رب کچھ بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے اپنے بندوں کے حق میں ۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

59 That is, "Your Lord can never be so unjust as to Iet go to waste the good deeds of a good man and fail to punish the evil-doers for their evil."

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :59 یعنی تیرا رب کبھی یہ ظلم نہیں کر سکتا کہ نیک انسان کی نیکی ضائع کر دے اور بدی کرنے والوں کو ان کی بدی کا بدلہ نہ دے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(41:46) عمل صالحا : ای عمل عملا صالحا نیک عمل کیا۔ فلنفسہ : ای فلنفسہ نفعہ لا لغیرہ اس کا اجر بھی اسی کے لئے ہے غیر کے لئے نہیں ہے۔ اسائ۔ ماضی واحد مذکر غائب اس نے برا کیا۔ اس نے برائی کی۔ اساء ۃ مصدر (افعال) سے جس کے معنی کسی برے کام کو انجام دینے کے ہیں۔ علیہا۔ اسی پر ۔ یعنی اس کی برائی کی سزا بھی اسی پر ہے۔ غیر پر نہیں ہے۔ ما۔ نافیہ ہے۔ ظلام۔ ظلم کرنے والا۔ ظلم سے مبالغہ کا صیغہ ہے یہ لفظ حق تعالیٰ شانہ کی نسبت سے قرآن مجید میں مندرجہ ذیل مقامات پر آیا ہے (1) ذلک بما قدمت ایدیکم وان اللّٰہ لیس بظلام للعبید (8:51) (2) ذلک بما قدمت ایدیکم وان اللّٰہ لیس بظلام للعبید (22:10) (3) ذلک بما قدمت یداک وان اللّٰہ لیس بظلام للعبید (22:10) (4) من عمل صالحا فلنفسہ ومن اساء فعلیہا وما ربک بظلام للعبید (41:46) (5) ما یبدل القول لدی وما انا بظلام للعبید (50:29) (1) ان آیات مبارکہ مذکورہ بالا میں خداوند تعالیٰ کی ذات عالی سے نفی ظلم کے سلسلہ میں مبالغہ کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور ظلام کا لفظ لایا گیا ہے ظلام میں مبالغہ کمیت، مقدار کے اعتبار سے ہے کیفیت (اس کے تھوڑے یا بہت ہونے کی صورت) کے لحاظ سے نہیں ہے۔ اول الذکر کی نفی کی صورت میں مطلب ہوگا کہ وہ ذرا سا بھی ظلم نہیں کرتا۔ ثانی الذکر کی صورت میں مطلب ہوگا کہ زیادہ ظلم نہیں کرتا تھوڑا کرتا ہے۔ جیسا کہ آپ کہیں زید لیس بقتال للرجل لاینفی ھذا الامبالغۃ فی قتلہم فلاینافی انہ ربما قتل بعض الرجال : زید آدمیوں کا قتال (بہت قتل کرنے والا) نہیں ہے اس سے صرف اس کے قتل کے فعل میں مبالغہ کی نفی ہے۔ اس امر کی نفی نہیں کہ بسا اوقات اس نے آدمیوں کو قتل کیا جیسا کہ اوپر مذکور ہے کہ یہاں نفی ظلم کمیت کے لحاظ سے نہ کہ کیفیت کے لحاظ سے لہٰذا مطلب یہ ہوا کہ تیرا پروردگار بندوں پر ذرا بھر بھی ظلم نہیں کرتا۔ (2) نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ یہاں نفی نسبت کی نفی ہے یعنی ظلم کی اللہ کی طرف نسبت کی نفی۔ یعنی وہ ظلم والا ہے ہی نہیں۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ یہاں نفی سے مراد نفی نسبۃ الظلم الی اللّٰہ تعالیٰ (اللہ تعالیٰ کی طرف ظلم کی نسبت کی نفی) ہے اور فعال صیغہ بمراد نسبت استعمال ہوتا ہے بدوں یاء نسبتی کے۔ مثلا الخلاصۃ میں ہے۔ ومع فاعل وفعال فعل فی نسب اغنی عن الیاء فقبل مطلب یہ ہے کہ یہ تینوں صیغے (فاعل جیسے ظالم ۔ فعال جیسے ظلام اور فعل جیسے فرح) یاء نسبت سے مستغنی بمراد نسبت استعمال ہوتے ہیں۔ فعال کے استعمال کے متعلق امری القیس کا شعر ہے ؎ ولیس بذی رمح فیطعننی بہ ولیس بذی سیف ولیس بنبال لیس بنبال بمعنی ذی نبل ہے جیسا کہ بذی رمح اور لیس بذی سیف سے ظاہر ہے۔ اسی بناء پر محققین نے کہا ہے کہ وما ربک بظلام للعبید سے مراد ہے کہ وما ربک بذی ظلم علی عبادہ اور تیرا پروردگار اپنے بندوں پر ذرہ بھر ظلم نہیں کرتا۔ (3) نسبت کے اعتبار سے ظلام کی مثال عطار ہے جس طرح عطر کی نسبت سے عطار بولتے ہیں۔ اسی طرح ظلم کی نسبت سے ظلام (ذوظلم) نہیں ہے۔ (4) یہ کہ اللہ تعالیٰ ذرہ بھر ظلم نہیں کرنا۔ مندرجہ ذیل آیات کو ملحوظ رکھیں :۔ (1) ان اللّٰہ لا یظلم مثقال ذرۃ (4:40) خدا ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا۔ یعنی کسی کی حق تلفی نہیں کرتا۔ (2) ان اللّٰہ لا یظلم الناس شیئا (40:44) بیشک خدا لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا۔ (3) ولا یظلم ربک احدا (18:49) اور تیرا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کریگا۔ وغیرہ وغیرہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 کہ ان کی نیکیاں برباد کر دے یا ان پر ناکردہ گناہوں کا بوجھ لاد دے۔ مقصد کلیۃً ظلم کی نفی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا ( ان اللہ لا یظلم الناس شیئا) کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا۔ (قرطبی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی ایسا نہیں کہ کوئی نیکی جو بشرطہا عمل میں لائی گئی ہو اس کو شمار نہ کرے یا کسی بدی کو زائد شمار کرلے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

رسالت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان کردیا کہ انسانیت اب بالغ ہوچکی ہے اور اس کے کاندھوں پر آزادی کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ اور ہر شخص کو اپنی کئے کا ذاتی طور پر ذمہ دار قرار دے دیا گیا ہے۔ اب جو شخص جو راستہ چاہے اختیار کرے۔ وما ربک بظلام للعبید (٤١ : ٤٦) “ اور تیرا رب اپنے بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہے ”۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

45:۔ ” من عمل۔ الایۃ “ یہ بشارت و تخویف ہے۔ جو شخص نیک عمل کرے گا اس کا فائدہ اسی کو ملے گا۔ اور جو برے کام کرے گا ان کا وبال بھی اسی پر پڑے گا۔ نیک لوگوں کو نیکیوں کی جزا ملے گی۔ اور برے لوگوں کو ان کی برائیوں کی سزا۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم اور زیادتی نہیں فرماتا اور نہ کسی کی ھق تلفی کرتا ہے۔ کسی شخص کی کوئی نیکی ضائع نہیں کی جائے گی اور کسی کی ناکردہ گناہ کی سزا نہیں ملے گی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(46) جوشخص نیک عمل کرتا ہے تو وہ اپنے ہی نفع کے لئے کرتا ہے اور جو برا کرتا ہے تو اس کی برائی کا وبال اسی پر پڑتا ہے اور آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ یعنی بھلے کام کرنے والوں کو بھلائی کا نفع پہنچے گا اور برائی کرنے والوں کو برائی کا نقصان اور ضرر پہنچے گا کیونکہ آپ کے پروردگار کے ہاں ظلم نہیں ہے جیسا کوئی کرے گا ویسا بھرے گا آگے قیامت کا ذکر فرمایا۔