Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 14

سورة الشورى

وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۴﴾

And they did not become divided until after knowledge had come to them - out of jealous animosity between themselves. And if not for a word that preceded from your Lord [postponing the penalty] until a specified time, it would have been concluded between them. And indeed, those who were granted inheritance of the Scripture after them are, concerning it, in disquieting doubt.

ان لوگوں نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد ہی اختلاف کیا اور وہ بھی باہمی ضد بحث سے اور اگر آپ کے رب کی بات ایک وقت مقرر تک کے لئے پہلے ہی سے قرار پا گئی نہ ہوئی ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ ہو چکا ہوتا اور جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب دی گئی ہے وہ بھی اس کی طرف سے الجھن والے شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا تَفَرَّقُوا إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاءهُمُ الْعِلْمُ ... And they divided not till after knowledge had come to them, means, their opposition to the truth arose after it had come to them and proof had been established against them. Nothing made them resist in this manner except their transgression and stubbornness. ... بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَلَوْلاَ كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى ... And had it not been for a Word that went forth before from your Lord for an appointed term, means, were it not for the fact that Allah had already decreed that He would delay the reckoning of His servants until the Day of Resurrection, the punishment would have been hastened for them in this world. ... لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ ... the matter would have been settled between them. ... وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِن بَعْدِهِمْ ... And verily, those who were made to inherit the Scripture after them, means, the later generation which came after the earlier generation which had rejected the truth. ... لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ are in grave doubt concerning it. means, they do not have any firm conviction in matters of religion; they merely imitate their forefathers, without any evidence or proof. So they are very confused and doubtful.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یعنی اگر ان کی بابت عقوبیت میں تاخیر کا فیصلہ پہلے سے نہ ہوتا تو فوراً عذاب بھیج کر ان کو ہلاک کردیا جاتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] فرقہ بازی کے اسباب :۔ لوگوں میں اختلاف اور تفرقہ بازی اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ اللہ کی کتاب میں کوئی بات مبہم اور مختلف فیہ ہوتی ہے۔ جس کی لوگوں کو پوری طرح سمجھ نہیں آتی بلکہ اس کی اصل وجہ اپنا اپنا جھنڈا بلند کرنے کی خواہش، باہمی ضد، اپنی نرالی اپچ دکھانے کی خواہش، ایک دوسرے کو زک دینے کی کوشش یا مال و جاہ کی طلب ہوتی ہے۔ یہی وہ اسباب تھے جو نئے نئے عقائد اور فلسفے، نئے نئے طرز عبادت اور مذہبی مراسم اور نئے نئے نظام حیات ایجاد کرنے کا محرک بنے اور خلق خدا کے ایک بڑے حصے کو دین کی سیدھی اور کشادہ راہ سے ہٹا کر مختلف راہوں میں پراگندہ کردیا اور امت کے ٹکڑے کر ڈالے۔ [١٩] پہلے سے طے شدہ بات یہ ہے کہ انسان کو اختیار دے کر اس دنیا میں اس کا امتحان کیا جائے۔ اور اگر ایسی کرتوتوں کے بدلہ میں ان پر فوراً عذاب نازل کردیا جائے تو امتحان کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ لہذا انہیں مہلت دی جاتی ہے۔ اور اس امتحان کا آخری وقت ان کی موت ہے۔ [٢٠] پہلی الہامی کتابیں مشکوک کیسے ہوئیں ؟ ان وارثوں کے اپنی الہامی کتابوں کے بارے میں شک میں پڑنے کی کئی وجوہ تھیں جن میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں کی اصل زبان اور اصل عبارت کو محفوظ رکھ کر آنے والی نسلوں تک نہ پہنچایا گیا۔ اور صرف تراجم سے کام لیا جانے لگا۔ اور ان تراجم کو ہی الہامی کتاب سمجھا جانے لگا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ بزرگوں کے اقوال اور الحاقی مضامین ان میں شامل کردیئے گئے۔ حتیٰ کہ ان دونوں قسم کی عبارتوں میں تمیز کرنا مشکل ہوگیا اور تیسری وجہ یہ تھی کہ ان کی تاریخی سند بھی ضائع کردی گئی۔ ان سب باتوں کا اثر یہ ہوا کہ بعد میں آنے والے علماء خود اس کتاب سے شک میں پڑگئے کہ اس کا کون سا حصہ درست اور الہامی ہے اور کون سی عبارت بزرگوں کے اقوال وغیرہ ہیں۔ اور کسی بات کا صحیح فیصلہ کرنے میں یہی شک و شبہ انہیں اضطراب میں ڈالے رکھتا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وما تفرقوا الامن بعد ماجآء ھم العلم : یعنی ان کے فرقوں میں بٹ جانے کا باعث یہ نہیں تھا کہ انھیں اللہ اور اس کے رسول کے احکام کا علم نہیں تھا اور لاعلمی کی وجہ سے انہوں نے اپنے اپنے الگ مذاہب اور مکاتب فکر بنا لئے۔ بلکہ یہ تفرقہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم آجانے کے بعد پیدا ہوا۔ (٢) بعیابینھم یعنی الگ الگ گروہ اور فرقے بنانے کا باعث ان کا باہمی حسد، ضد اور عناد تھا، جس کی وجہ سے اللہ کے حکم کے سامنے سر جھکانے کے بجائے انہوں نے اپنے اپنے قیاس و آراء کی بنیاد پر الگ الگ فرقے بنائے اور تکاب اللہ میں تحریف تک سے گریز نہ کیا، حتیٰ کہ نوبت باہمی اختلاف سے بڑھ کر ایک دوسرے کی مخالفت اور پھر جنگ وجدل تک پہنچ گئی۔ مزید دیکھیے سورة بقرہ (٢١٣) کی تفسیر۔ (٣) ولو لا کلمۃ سبقت من ربک …: اس کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة حم سجدہ (٤٥) کی تفسیر۔ (٤) وان الذین اور ثوا الکتب من بعدھم …: یعنی شروع میں فرقے بنانے والوں نے علم ہونے کے باوجود حق سے انحراف کیا اور اللہ کی کتاب میں ایسی لفظی و معنوی تحریفیں کیں کہ بعد میں آنے والے لوگ، جو اس کتاب کے وارث بننے کے قابل تو نہ تھے مگر انھیں اس کا وارث بنادیا گیا، وہ اس کتاب میں کی گئی لفظی اور معنوی تحریفات کی وجہ سے اس کی حقانیت کے متعلق ایسے شک میں مبتلا ہوگئے جو انھیں شدید مضطرب اور بےچین رکھتا تھا۔ انھیں اپنی کتابوں کے الہامی ہونے کا یقین باقی نہ رہا، بلکہ وہ کسی دلیل وبرہان کے بغیر محض آنکھیں بند کر کے آباد اکابر کی تقلید کرتے چلے گئے۔ (٥) مفسر عبدالرحمٰن کیلانی لکھتے ہیں :” ان وارثوں کے اپنی الہامی کتابوں کے بارے میں شک میں پڑنے کی کئی وجوہ تھیں، جن میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں کی اصل زبان اور اصل عبارت کو محفوظ رکھ کر آنے والی نسلوں تک نہ پہنچایا گیا، صرف تراجم سے کام لیا جانے لگا اور ان تراجم کو ہی الہامی کتاب سمجھا جانے لگا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ بزرگوں کے اقوال اور الحاقی مضامین ان میں شامل کردیئے گئے، حتیٰ کہ ان دونوں قسم کی عبارتوں میں تمیز کرنا مشکل ہوگیا اور تیسری وجہ یہ تھی کہ ان کی تاریخی سند بھی ضائع کردی گئی (بلکہ سند رکھی ہی نہیں گئی) ۔ ان سب باتوں کا اثر یہ ہوا کہ بعد میں آنے والے علماء خود اس کتاب سے شک میں پڑگئے کہ کون سا حصہ درست اور الہامی ہے اور کون سی عبارت بزرگوں کے اقوال وغیرہ ہیں اور کسی بات کا فیصلہ کرنے میں یہی شک و شبہ انھیں اضطراب میں ڈالے رکھتا تھا۔ “ (تیسیرالقرآن)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَمَا تَفَرَّ‌قُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ (And they were not divided, in jealousy with each other, but after knowledge had come to them - 42:14). Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has explained that the pronoun ` they& in this sentence refers to the Quraysh of Makkah, and thus he has taken the verse to mean that the aversion of the infidels of Quraysh to the straight path was in itself a matter of utter ignorance, but on top of it they did so even after knowledge had been imparted by Allah. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has held the coming of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who was the source of all Divine knowledge, to be the imparting of knowledge by Allah. Some scholars, however, have referred the pronoun ` they& towards the past ummahs, and held the meaning to be that the people of the bygone ummahs created dissension in the true faith of their respective prophets, and adopted separate ways despite their having received the knowledge of the straight path from then prophets (علیہم السلام) . Be that as it may, the pagans of Makkah and the infidels of the early ages, both demanded that their prophets should also follow the misguidance they themselves had adopted. Therefore the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been addressed in the following verse as follows:

(آیت) وَمَا تَفَرَّقُوْٓا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَهُمُ الْعِلْمُ ۔ ما تفرقوا کی ضمیر حضرت ابن عباس نے قریش مکہ کی طرف راجع فرمائی اور مطلب یہ قرار دیا کہ کفار قریش نے جو دین حق اور صراط مستقیم سے علیحدگی اور بیزاری اختیار کی، یہ فی نفسہ بھی سخت نادانی تھی، اس پر مزید یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے علم آجانے کے بعد بھی انہوں نے ایسا کیا۔ علم آجانے سے مراد حضرت ابن عباس کے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آجانا ہے جو سارے علوم الٰہیہ کے سرچشمہ تھے۔ اور بعض حضرات نے ماتفرقوا کی ضمیر پچھلی امتوں کے لوگوں کی طرف پھیری اور معنی یہ قرار دیئے کہ پچھلی امتوں کے لوگوں نے اپنے اپنے انبیاء کے دین سے تفرق اور علیحدگی اختیار کی، باوجودیکہ ان کے پاس انبیاء کے ذریعہ صراط مستقیم کا صحیح علم آ چکا تھا۔ امم سابقہ مخاطب ہوں یا امت محمدیہ کے کفار۔ دونوں کا تقاضا یہ تھا کہ خود تو گمراہی میں پڑے ہی اپنے رسولوں کو بھی اپنے راستہ پر چلانے کے خواہش مند تھے اس لئے اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا تَفَرَّقُوْٓا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَہُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَہُمْ۝ ٠ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّي لَّقُضِيَ بَيْنَہُمْ۝ ٠ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اُوْرِثُوا الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِہِمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْہُ مُرِيْبٍ۝ ١٤ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ تَّفْرِيقُ ( فرقان) أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو : يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ طه/ 94] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة/ 285] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة/ 136] ، إنما جاز أن يجعل التّفریق منسوبا إلى (أحد) من حيث إنّ لفظ (أحد) يفيد في النّفي، وقال : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام/ 159] ، وقرئ : فَارَقُوا «1» والفِراقُ والْمُفَارَقَةُ تکون بالأبدان أكثر . قال : هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف/ 78] ، وقوله : وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة/ 28] ، أي : غلب علی قلبه أنه حين مفارقته الدّنيا بالموت، وقوله : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء/ 150] ، أي : يظهرون الإيمان بالله ويکفرون بالرّسل خلاف ما أمرهم اللہ به . وقوله : وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء/ 152] ، أي : آمنوا برسل اللہ جمیعا، والفُرْقَانُ أبلغ من الفرق، لأنه يستعمل في الفرق بين الحقّ والباطل، وتقدیره کتقدیر : رجل قنعان : يقنع به في الحکم، وهو اسم لا مصدر فيما قيل، والفرق يستعمل في ذلک وفي غيره، وقوله : يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال/ 41] ، أي : الیوم الذي يفرق فيه بين الحقّ والباطل، والحجّة والشّبهة، وقوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال/ 29] ، أي : نورا وتوفیقا علی قلوبکم يفرق به بين الحق والباطل «1» ، فکان الفرقان هاهنا کالسّكينة والرّوح في غيره، وقوله : وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال/ 41] ، قيل : أريد به يوم بدر «2» ، فإنّه أوّل يوم فُرِقَ فيه بين الحقّ والباطل، والفُرْقَانُ : کلام اللہ تعالی، لفرقه بين الحقّ والباطل في الاعتقاد، والصّدق والکذب في المقال، والصالح والطّالح في الأعمال، وذلک في القرآن والتوراة والإنجیل، قال : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة/ 53] ، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء/ 48] ، تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان/ 1] ، شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة/ 185] . والفَرَقُ : تَفَرُّقُ القلب من الخوف، واستعمال الفرق فيه کاستعمال الصّدع والشّقّ فيه . قال تعالی: وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة/ 56] ، ويقال : رجل فَرُوقٌ وفَرُوقَةٌ ، وامرأة كذلك، ومنه قيل للناقة التي تذهب في الأرض نادّة من وجع المخاض : فَارِقٌ وفَارِقَةٌ «3» ، وبها شبّه السّحابة المنفردة فقیل : فَارِقٌ ، والْأَفْرَقُ من الدّيك : ما عُرْفُهُ مَفْرُوقٌ ، ومن الخیل : ما أحد وركيه أرفع من الآخر، والفَرِيقَةُ : تمر يطبخ بحلبة، والفَرُوقَةُ : شحم الکليتين . التفریق اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ طه/ 94] کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا ۔ اور آیت کریمہ : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة/ 285] ۔ اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے ۔ نیز آیت : ۔ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة/ 136] ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے میں احد کا لفظ چونکہ حرف نفی کے تحت واقع ہونے کی وجہ سے جمع کے معنی میں ہے لہذا تفریق کی نسبت اس کی طرف جائز ہے اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام/ 159] جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے رستے نکالے ۔ میں ایک قرات فارقوا ہے اور فرق ومفارقۃ کا لفظ عام طور پر اجسام کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف/ 78] اب مجھ میں اور تجھ میں علیحد گی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة/ 28] اس ( جان بلب ) نے سمجھا کہ اب سب سے جدائی ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ بس اب دنیا سے مفارقت کا وقت قریب آپہنچا ہے اور آیت کریمہ : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء/ 150] اور خدا اور اس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں مگر حکم الہی کی مخالفت کر کے اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء/ 152] اور ان میں کسی میں فرق نہ کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ الفرقان یہ فرق سے ابلغ ہے کیونکہ یہ حق اور باطل کو الگ الگ کردینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ رجل وقنعان ( یعنی وہ آدمی جس کے حکم پر قناعت کی جائے ) کی طرح اسم صفت ہے مصدر نہیں ہے اور فرق کا لفظ عام ہے جو حق کو باطل سے الگ کرنے کے لئے بھی آتا ہے اور دوسری چیزوں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال/ 29] مومنوں اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امر فارق پیدا کر دیگا ( یعنی تم کو ممتاز کر دے گا ۔ میں فر قان سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہارے دلوں کے اندر نور اور توفیق پیدا کر دیگا جس کے ذریعہ تم حق و باطل میں امتیاز کرسکو گے تو گویا یہاں فرقان کا لفظ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ سکینۃ اور روح کے الفاظ ہیں اور قرآن نے یوم الفرقان اس دن کو کہا ہے جس روز کہ حق و باطل اور صحیح وغلط کے مابین فرق اور امتیاز ظاہر ہوا چناچہ آیت : ۔ وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال/ 41] اور اس ( نصرت ) پر ایمان رکھتے ہو جو ( حق و باطل میں ) فرق کرنے کے دن نازل فرمائی ۔ میں یوم الفرقان سے جنگ بدر کا دن مراد ہے کیونکہ وہ ( تاریخ اسلام میں ) پہلا دن ہے جس میں حق و باطل میں کھلا کھلا امتیاز ہوگیا تھا ۔ اور کلام الہی ( وحی ) بھی فرقان ہوتی ہے کیونکہ وہ حق اور باطل عقائد میں فرق کردیتی ہے سچی اور جھوٹی باتوں اور اچھے برے اعمال کو بالکل الگ الگ بیان کردیتی ہے اس لئے قرآن کریم تورات اور انجیل کو فرقان سے تعبیر فرما گیا ہے چناچہ توراۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء/ 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون هْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة/ 185] (علیہ السلام) کو ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی ۔ ،۔۔ عطا کی ۔ تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان/ 1] وہ خدائے عزوجل بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء/ 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو معجزے دیئے روزوں کا مہینہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( اول اول ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور حق و باطل کو ) الگ الگ کرنے والا ہے الفرق کے معنی خوف کی وجہ سے دل کے پرا گندہ ہوجانے کے ہیں اور دل کے متعلق اس کا استعمال ایسے ہی ہے جس طرح کہ صدع وشق کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة/ 56] اصل یہ ہے کہ یہ ڈر پوک لوگ ہے ۔ اور فروق وفروقۃ کے معنی ڈرپوک مرد یا عورت کے ہیں اور اسی سے اس اونٹنی کو جو درندہ کی وجہ سے بدک کر دور بھاگ جائے ۔ فارق یا فارقۃ کہا جاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر اس بدلی کو بھی فارق کہا جاتا ہے جو دوسری بد لیوں سے علیحد ہ ہو ۔ وہ مرغ جس کی کلفی شاخ در شاخ ہو ( 2 ) وہ گھوڑا جس کا ایک سرین دوسرے سے اونچا ہو ۔ الفریقۃ دودھ میں پکائی ہوئی کھجور ۔ الفریقہ گردوں کی چربی ۔ «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ { هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ } ( سورة آل عمران 119) دیکھو ! تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا بغي البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، والبَغْيُ علی ضربین : - أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع . - والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری/ 42] ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ بغی دو قسم پر ہے ۔ ( ١) محمود یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔ ( 2 ) مذموم ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شبہات میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ { السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ } ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ سبق أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] ، ( س ب ق) السبق اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں أجل الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر/ 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص/ 28] . ( ا ج ل ) الاجل ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ { وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى } [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔ قضی الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی: وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] أي : أمر بذلک، ( ق ض ی ) القضاء کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ ورث الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي : أصله وبقيّته، قال الشاعر : 461- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً : قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون/ 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ [ مریم/ 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة ( ور ث ) الوارثۃ ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔ وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو شكك الشَّكُّ : اعتدال النّقيضين عند الإنسان وتساويهما، والشَّكُّ : ضرب من الجهل، وهو أخصّ منه، لأنّ الجهل قد يكون عدم العلم بالنّقيضين رأسا، فكلّ شَكٍّ جهل، ولیس کلّ جهل شكّا، قال اللہ تعالی: وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود/ 110] ( ش ک ک ) الشک کے معنی دونقیضوں کے ذہن میں برابر اور مساوی ہونے کے ہیں ۔ الشک : شک جہالت ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس سے اخص ہے کیونکہ جہل میں کبھی سرے سے نقیضیں کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ پس ہر شک جھل ہے مگر ہر جہل شک نہیں ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ [هود/ 110] وہ تو اس سے قوی شبہ میں پڑے ہوئے ہیں ۔ ريب فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج/ 5] ، ( ر ی ب ) اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة/ 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور یہود و نصاری نے قرآن کریم اور رسول اکرم اوردین اسلام کے بارے میں جو اختلاف اور رسول اکرم اور قرآن کریم کا انکار کیا اس کے باوجود کہ ان کی کتابوں میں آپ کی نعت و صفت آچکی تھی یہ حسد اور باہمی ضد کی وجہ سے کیا ہے۔ اور اس امت سے ایک معین وقت تک عذاب کے موخر ہونے کی بات پہلے سے قرار نہ پاچکتی تو ابھی تک یہود و نصاری کا فیصلہ ہوچکا ہوتا اور جن لوگوں کو رسولوں یا یہ کہ پچھلی امتوں کے بعد توریت دی گئی وہ اس توریت یا یہ کہ قرآن کریم کی طرف سے بالکل شک میں پڑے ہوئے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ { وَمَا تَفَرَّقُوْٓا اِلَّا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ ہُمُ الْعِلْمُ بَغْیًام بَیْنَہُمْ } ” اور انہوں نے تفرقہ نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آچکا تھا ‘ آپس میں ضدم ّضدا کے باعث۔ “ عرب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت ِاقامت ِدین کے مخاطبین بنیادی طور پر دو گروہ تھے ‘ یعنی مشرکین اور اہل کتاب۔ ان میں مشرکین کا تو اس دعوت کو ماننا بہت مشکل تھا اور یہ تلخ حقیقت پچھلی آیت میں واضح بھی کردی گئی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دعوت مشرکین پر بہت شاق گزر رہی ہے۔ البتہ اہل کتاب کا اس دعوت پر ایمان لے آنا نسبتاً زیادہ قرین قیاس تھا ‘ کیونکہ وہ تورات و انجیل جیسی الہامی کتابوں سے واقف تھے اور وحی ‘ ملائکہ اور آخرت پر بھی ایمان رکھتے تھے۔ لیکن زیر مطالعہ آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل کتاب سے بھی مثبت رد عمل کی توقع نہ رکھیں۔ کیونکہ ان دونوں گروہوں کی طرف سے اب تک کی مخالفت کسی لاعلمی کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کا اصل پیغام تو ان تک پہنچ چکا ہے ‘ بات پوری طرح واضح ہو کر ان کے دلوں میں اترچکی ہے۔ اس صورت حال میں ان کا انکار اور ان کی مخالفت محض باہمی تعصب اور ضد بازی کی بنا پر ہے ‘ کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیروکار بن کر انہیں خود سے بڑا کیونکر تسلیم کرلیں اور اپنے آپ کو ان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے چھوٹا کیسے بنا لیں ؟ اہل کتاب خود آپس میں بھی ایک دوسرے کی مخالفت اسی تعصب کی بنیاد پر کرتے ہیں ‘ جس کا ذکر سورة البقرۃ میں اس طرح آیا ہے : { وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیْئٍص وَّقَالَتِ النَّصٰرٰی لَیْسَتِ الْیَہُوْدُ عَلٰی شَیْئٍ لا وَّہُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ } (آیت ١٣٣) ” یہودی کہتے ہیں کہ نصاریٰ کسی بنیاد پر نہیں ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودی کسی بنیاد پر نہیں ہیں ‘ حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھ رہے ہیں۔ “ عہدنامہ قدیم (Old Testament) یہودیوں اور عیسائیوں میں مشترک ہے۔ اس کے باوجود ان کی باہمی مخاصمت کا یہ عالم َہے کہ وہ ایک دوسرے کے قبلہ کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یروشلم کی ” سمت “ پر اگرچہ دونوں گروہوں کا اتفاق ہے ‘ لیکن باہمی عناد کی بنا پر ایک گروہ شرقی حصے کو قبلہ مانتا ہے جبکہ دوسرا غربی حصے کو۔ اس صورت حال میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ تعصب کے مرض میں مبتلا ہیں ‘ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے کسی گروہ سے کسی مثبت رویے کی توقع نہ رکھیں ‘ ورنہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مایوسی ہوگی۔ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی طرف سے انتہائی سخت اور منفی ردعمل کے لیے خود کو تیار کھیں۔ اس میں دراصل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بین السطور یہ پیغام بھی ہے کہ اقامت دین کی جدوجہد ایک طویل اور جاں گداز عمل ہے۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موافق حالات اور جلد کامیابی کی توقع نہ رکھیں۔ { وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیْنَہُمْ } ” اور اگر ایک بات آپ کے رب کی طرف سے پہلے سے ایک وقت معین کے لیے طے نہ پا چکی ہوتی تو ان کے مابین (اختلافات کا) فیصلہ چکا دیا جاتا۔ “ { وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْرِثُوا الْکِتٰبَ مِنْ بَعْدِہِمْ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مُرِیْبٍ } ” اور جو لوگ کتاب کے وارث بنائے گئے ان کے بعد وہ اس کے متعلق ایک خلجان آمیز شک میں مبتلا ہیں۔ “ یہ نکتہ خاص طور پر بہت اہم اور لائق توجہ ہے کہ ” وارثانِ کتاب “ کے اذہان وقلوب میں الجھن میں ڈالنے والے شکوک و شبہات کیوں ڈیرے جما لیتے ہیں ؟ دراصل ہوتا یوں ہے کہ شروع شروع میں سب معاملات بالکل ٹھیک چلتے رہتے ہیں ‘ مگر چوتھی پانچویں نسل تک آتے آتے معاملات اس وقت بگڑنے لگتے ہیں جب نوجوان اپنے علماء کو باہم دست و گریباں ہوتے دیکھتے ہیں اور ان کے دامن حیات کو متاع عمل سے خالی پاتے ہیں۔ ایسی صورت حال سے بیزار ہو کر علماء کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ” کتاب “ سے بھی بدظن ہونے لگتے ہیں۔ یہ نوجوان خود تو کتاب کے علوم و معارف تک رسائی حاصل کرنے کی زحمت نہیں اٹھاتے لیکن اس مفروضے کو اپنے دلوں میں ضرور بٹھا لیتے ہیں کہ جب کتاب کے ” علماء “ کے کردار و عمل میں روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی کوئی روشنی اس کتاب کے اندر سرے سے موجود ہی نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22 That is, "The divisions were created not because Allah had fAlled to send the Prophets and the Books, and therefore, the people could not know the Right Way and so invented their own separate religions, sects, schools of thought and systems of life, but divisions appeared after knowledge had come to them from Allah. Therefore, Allah is not responsible for it, but the people who abandoned the clear principles of religion and commands of the Shari'ah and created their own creeds and religions arc themselves responsible for it." 23 That is, "The motive for creating the divisions was not good, but they resulted from the desire for ostentation, love of an independent entity, mutual rivalry and stubbornness, the urge to humiliate and defeat one another, and greed for worldly wealth and position. When the clever and ambitious saw that if the godly people followed the true religion honestly, there would only be One God before whom the people would bow, there would be one Messenger whom they would acknowledge as. their guide and leader, there would be one Book which they would turn to and there would be a clearly defined creed and code of life which they would be following. In such a system there could be no place of distinction for themselves, on the strength of which they could have their own leadership flourish so that the people should rally round them, and bow to them and also make rich offerings to them. This was the real cause which became the motive of the invention of new creeds and philosophies, new ways and rites of worship and new systems of life, and diverted a large part of humanity from the highway of Divine Religion and misled them into blind alleys. Then the mutual disputes of the factions and their religious, economic and political conflicts gave rise to intense bitterness, which in turn led to bloodshed and violence among humanity. " 24 That is, all such people who were guilty of inventing false systems and followed them would have been annihilated in the world itself by a torment, and only the righteous ones allowed to survive, which should have indicated as to who was a follower of the Truth and who of falsehood in the sight of Allah. But Allah has deferred this plain decisions till Resurrection, for after such a decision in the world, the trial of mankind becomes meaningless. 25 It means: After the passage of the time of every Prophet and his closest followers when the Divine Book reached the later generations, they did not receive it with faith and conviction but were involved in doubts and suspicions and confusions about it. There were many causes for this state of affairs, which can be easily understood by a study of the case of the Torah and the Gospel. The earlier generations have not conveyed both these Books to the later generations well preserved in their original state and in their original words and language. They mixed up the Divine Word in them with the human word in the form of their commentary, history, verbal traditions and juristic hair-splitting. They made their translations prevail until the original was lost and only the translations remained. Their historical authenticity also was ruined; so much so that nobody now can say with certainty that the Book in his hand is the same that the world had once received through the Prophet Moses or the Prophet Jesus. Then their elders in the different periods of history initiated such discussions on religion, divinity, philosophy, law, physics, psychology and sociology and invented such systems of thought that the people were lost in them and it became impossible for them to decide as to which was the straight highway of the Truth among the countless crooked ways. And since the Divine Book did not exist in its original, reliable state. they could neither turn to any authority that could help them to distinguish the truth from falshood.

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :22 یعنی تفرقے کا سبب یہ نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء نہیں بھیجے تھے اور کتابیں نازل نہیں کی تھیں اس وجہ سے لوگ راہ راست نہ جاننے کے باعث اپنے اپنے الگ مذاہب اور مدارس فکر اور نظام زندگی خود ایجاد کر بیٹھے ، بلکہ یہ تفرہ ان میں اللہ کی طرف سے علم آ جانے کے بعد رونما ہوا ۔ اس لیے اللہ اس کے ذمہ دار نہیں ہے بلکہ وہ لوگ خود اس کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے دین کے صاف صاف اصول اور شریعت کے واضح احکام سے ہٹ کر نئے نئے مذاہب و مسالک بنائے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :23 یعنی اس تفرقہ پردازی کا محرک کوئی نیک جذبہ نہیں تھا ، بلکہ یہ اپنی نرالی اپج دکھانے کی خواہش ، اپنا الگ جھنڈا بلند کرنے کی فکر ، آپس کی ضدم ضدا ، ایک دوسرے کو زک دینے کی کوشش ، اور مال و جاہ کی طلب کا نتیجہ تھی ۔ ہوشیار اور حوصلہ مند لوگوں نے دیکھا کہ بندگان خدا اگر سیدھے سیدھے خدا کے دین پر چلتے رہیں تو بس ایک خدا ہو گا جس کے آگے لوگ جھکیں گے ۔ ایک رسول ہو گا جس کو لوگ پیشوا اور رہنما مانیں گے ، ایک کتاب ہوگی جس کی طرف لوگ رجوع کریں گے ، اور ایک صاف عقیدہ اور بے لاگ ضابطہ ہوگا جس کی پیروی وہ کرتے رہیں گے ۔ اس نظام میں ان کی اپنی ذات کے لیے کوئی مقام امتیاز نہیں ہو سکتا جس کی وجہ سے ان کی مشیخت چلے ، اور لوگ ان کے گرد جمع ہوں ، اور ان کے آگے اور سر بھی جھکائیں اور جیبیں بھی خالی کریں ۔ یہی وہ اصل سبب تھا جو نئے نئے عقائد اور فلسفے ، نئے نئے طرز عبادت اور مذہبی مراسم اور نئے نئے نظام حیات ایجاد کرنے کا محرک بنا اور اسی نے خلق خدا کے ایک بڑے حصے کو دین کی صاف شاہراہ سے ہٹا کر مختلف راہوں میں پراگندہ کر دیا ۔ پھر یہ پراگندگی ان گروہوں کی باہمی بحث و جدال اور مذہبی و معاشی اور سیاسی کشمکش کی بدولت شدید تلخیوں میں تبدیل ہوتی چلی گئی ، یہاں تک کہ نوبت ان خونریزیوں تک پہنچی جن کے چھینٹوں سے تاریخ سرخ ہو رہی ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :24 یعنی دنیا ہی میں عذاب دے کر ان سب لوگوں کا خاتمہ کر دیا جاتا جو گمراہیاں نکالنے اور جان بوجھ کر ان کی پیروی کرنے کے مجرم تھے ، اور صرف راہ راست پر چلنے والے باقی رکھے جاتے ، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی کہ خدا کے نزدیک حق پر کون ہیں اور باطل پر کون ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ دو ٹوک فیصلہ قیامت تک کے لیے ملتوی کر رکھا ہے ، کیونکہ دنیا میں یہ فیصلہ کر دینے کے بعد بنی نوع انسان کی آزمائش بے معنی ہو جاتی ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :25 مطلب یہ ہے کہ ہر نبی اور اس کے قریبی تابعین کا دور گزر جانے کے بعد جب پچھلی نسلوں تک کتاب اللہ پہنچی تو انہوں نے اسے یقین و اعتماد کے ساتھ نہیں لیا بلکہ وہ اس کے متعلق سخت شکوک اور ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہو گئیں ۔ اس حالت میں ان کے مبتلا ہو جانے کے بہت سے وجوہ تھے جنہیں ہم اس صورت حال کا مطالعہ کر کے بآسانی سمجھ سکتے ہیں جو تورات و انجیل کے معاملہ میں پیش آئی ہے ۔ ان دونوں کتابوں کو اگلی نسلوں نے ان کی اصلی حالت پر ان کی اصل عبارت اور زبان میں محفوظ رکھ کر پچھلی نسلوں تک نہیں پہنچایا ۔ ان میں خدا کے کلام کے ساتھ تفسیر و تاریخ اور سماعی روایات اور فقہاء کے نکالے ہوئے جزئیات کی صورت میں انسانی کلام گڈمڈ کر دیا ۔ ان کے ترجموں کو اتنا رواج دیا کہ اصل غائب ہو گئی اور صرف ترجمے باقی رہ گئے ۔ ان کی تاریخی سند بھی اس طرح ضائع کر دی کہ اب کوئی شخص بھی پورے یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ جو کتاب اس کے ہاتھ میں ہے وہ وہی ہے جو حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ کے ذریعہ سے دنیا والوں کو ملی تھی ۔ پھر ان کے اکابر نے وقتاً فوقتاً مذہب ، الہٰیات ، فلسفہ ، قانون ، طبعیات ، نفسیات اور اجتماعیات کی ایسی بحثیں چھیڑیں اور ایسے نظام فکر بنا ڈالے جن کی بھول بھلیوں میں پھنس کر لوگوں کے لیے یہ طے کرنا محال ہو گیا کہ ان پیچیدہ راستوں کے درمیان حق کی سیدھی شاہراہ کونسی ہے ۔ اور چونکہ کتاب اللہ اپنی اصل حالت اور قابل اعتماد صورت میں موجود نہ تھی ، اس لیے لوگ کسی ایسی سند کی طرف رجوع بھی نہ کر سکتے تھے جو حق کو باطل سے تمیز کرنے میں مدد کرتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: پہلے سے طے شدہ بات یہ تھی کہ ان لوگوں کو ایک دم کسی عذاب سے ہلاک نہیں کیا جائے گا، بلکہ مہلت دی جائے گی جس میں اگر یہ چاہیں تو ایمان لا سکیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:14) بغیا : اسم تمیز۔ ضد۔ زیادتی۔ بغیا بینھم : باہمی ضد (کی بناء پر) ماتفرقوا : ما نافیہ ہے تفرقوا ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ تفرق (تفعیل) مصدر سے وہ فرقوں میں بہ بٹ گئے۔ لولا۔ اگر نہ ہوتا۔ کیوں نہ۔ لو شرطیہ اور لا نافیہ سے مرکب ہے۔ یہ حرود تحضیض والعرض میں سے ہے (الا، ھلا، لولا، لوما) نیز ملاحظہ ہو 6:43 ۔ کلمۃ۔ حکم ازلی۔ کلمہ کا صحیح ترجمہ بات ہے۔ بات قول کو بھی کہتے ہیں۔ جیسے میری بات سنو۔ اور فعل کو بھی۔ یہ بات کرو۔ قرآن مجید میں مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ۔ مثلا وعدہ قیامت۔ یعنی قیامت کے دن فیصلہ ہونے کا حکم ازلی (10:19) بمعنی کلام یا جملہ (23:100) ۔ سبقت : ماضی واحد مؤنث غائب۔ سبق باب نصر ، ضرب) مصدر۔ وہ پہلے سے ہوچکی۔ وہ پہلے سے ٹھہرچ کی۔ اجل مسمی۔ موصوف و صفت۔ وقت مقرر۔ میعاد مقرر۔ جملہ کا ترجمہ ہوگا :۔ اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے ایک بات ایک وقت معین تک کیلئے طے نہ ہوچکی ہوتی (یہ جملہ شرط ہے) لقضی بینھم لام جواب شرط کے لئے۔ قضی ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ قضاء (باب ضرب) فیصلہ کیا گیا۔ تو ان کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ یعنی اسی دنیا میں ان کا عملا اور عیانا بدلہ مل گیا ہوتا۔ اور ثوا الکتاب : اور ثوا۔ ماضی مجہول جمع مذکر غائب۔ ایراث (افعال) مصدر۔ (ورث مادہ) الکتب مفعول ۔ بمعنی تورات۔ انجیل۔ (جن کو) کتاب یعنی تورات و انجیل کا وارث بنایا گیا۔ ان سے مراد وہ یہود و نصاری ہیں جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمعصر تھے۔ ای اہل الکتاب کانوا فی عھد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الاکثرون ھم الیہود والنصاری۔ من بعدھم : میں ہم ضمیر جمع مذکر غائب منکرین سابقین اہل کتاب کی جانب راجع ہے ای من بعد انبیاء ہم۔ لفی۔ میں لام تاکید کے لئے ہے۔ شک مریب۔ موصوف و صفت۔ مریب اسم فاعل واحد مذکر ارابۃ (افعال) مصدر۔ (ریب مادہ) بےچین کردینے والا۔ متردد کردینے والا۔ قلق انگیز۔ منہ : ہ ضمیر واحد مذکر غائب الکتب کی طرف راجع ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ منکرین سابقین جن کے پاس صحیح علم آیا اور وہ باہمی حسد کے باعث مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ انکے بعد جو اہل کتاب (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں) کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اپنے ہی دین اور اپنی ہی کتابوں کی حقیقت کی طرف سے متردد و متذبذب ہیں اور اس پر اس طرح ایمان نہیں رکھتے جو ایمان کا حق ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 15 یعنی یہ فرقہ بندی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم یعنی واضح ہدایت آجانے کے بعد کی یا اس کا علم ہوجانے کے باوجود کہ فرقہ بندی گمراہی ہے انہوں نے دین میں تفرقہ پیدا کیا۔ ( فتح) 1 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے یہود و نصاریٰ ۔ 2 اور اسی لئے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لا رہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کا دین ایک ہی تھا مگر ان کے بعد ان کے نا خلف وارثوں نے باہمی حسد وبغض کی وجہ سے اس میں اختلافات پیدا کردیئے۔ دین کی بنیاد توحید و رسالت پر ہے۔ توحید کا معنٰی ہے کہ ایک اللہ کا حکم مانا جائے اور صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ رسالت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے جو فرمایا اور کرکے دکھلایا اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ ان دونوں چیزوں سے جو شخص جتنا آگے پیچھے ہوگا اتنا ہی وہ اتحاد امت سے دور ہوگا اور عملاً اختلافات کا باعث بنے گا۔ اگر اس اختلاف میں حسد وبغض شامل ہوجائے تو دین اور ملت تفرّقہ بازی کا شکار ہوجائیں گے پہلی امتوں میں یہی کچھ ہوا۔ قرآن مجید بتلا رہا ہے کہ یہ تفرقہ بندی بےعلمی کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی کہ انہیں علم نہ تھا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ؟ جھوٹ کیا ہے اور سچ کیا ہے ؟ پہلی امتوں کے علماء اور زعماء کو سب کچھ بتلادیا گیا تھا مگر ذاتی مفاد اور باہمی عناد کی وجہ سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، ذاتی اور جماعتی مفادات کی خاطر تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگئے۔ جس کا نتیجہ نکلا کہ آنے والی نسلوں کا دین سے اعتماد اٹھ گیا۔ اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بات طے نہ ہوتی کہ لوگوں کو فکروعمل کی آزادی دی جائے اور ان کے اختلافات کا فیصلہ قیامت کے دن کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی ان کا فیصلہ چکا دیتا۔ امت مسلمہ کو اس صورت حال سے بچانے کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں راہنمائی فرمائی ہے۔ ( عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی أُمَّتِی مَا أَتَی عَلٰی بَنِی إِسْرَاءِیلَ حَذْوَ النَّعْلِ بالنَّعْلِ حَتّٰی إِنْ کَانَ مِنْہُمْ مَنْ أَتٰی أُمَّہُ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ وَإِنَّ بَنِی إِسْرَاءِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلٰی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّۃً وَاحِدَۃً قَالُوْا وَمَنْ ہِیَ یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذ ہ لامۃ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت میں ایسا وقت ضرور آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ بالکل اس طرح مل جائے گی جس طرح جو تا ایک دوسرے کے ساتھ ملا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا ضرور ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئی۔ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے استفسار کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون سا گروہ ہے ؟ آپ نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کرام (رض) کے طریقے پر عمل کرنے والا ہوگا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیثِ ، وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَکُونُوا عِبَاد اللَّہِ إِخْوَانًا ) [ رواہ البخاری : باب مَا یُنْہَی عَنِ التَّحَاسُدِ وَالتَّدَابُرِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا تم بد گمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت بڑا جھوٹ ہے۔ تم کسی کی عیب جوئی، جاسوسی اور حسد نہ کرو، نہ کسی کی غیر حاضری میں باتیں کرو ‘ نہ ہی دشمنی کرو۔ اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن جاؤ۔ “ مسائل ١۔ پہلی امتوں کے علماء اور زعماء نے باہمی حسد کی وجہ سے دین اور امت کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ قیامت پر چھوڑ رکھاہے ٣۔ دین میں اختلافات پیدا کرنے سے لوگوں کا دین پر اعتماداٹھ جاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن دین اور امت میں اختلافات سے بچنے کا حکم : ١۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو ! تفر قہ بازی میں نہ پڑو ! (آل عمران : ١٠٣) ٢۔ اتحاد واتفاق اللہ تعالیٰ کی توفیق کا نتیجہ ہے۔ (الانفال : ٦٣) ٣۔ اتحاد اللہ کی عظیم نعمت ہے۔ (آل عمران : ١٠٣) ٤۔ کتاب اللہ کا رشتہ نہ ٹوٹنے والا ہے۔ (البقرۃ : ٢٥٦) ٥۔ باہمی اختلاف اللہ کا عذاب ہوتا ہے۔ (الانعام : ٦٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

علم آنے کے بعد لوگ متفرق ہوئے ﴿وَ مَا تَفَرَّقُوْۤا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ ﴾ اور لوگ ضدا ضدی کے باعث اس کے بعد متفرق ہوئے جبکہ ان کے پاس علم آچکا تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ یہ قریش مکہ کے بارے میں فرمایا ہے یہ لوگ آرزو کرتے تھے کہ ان کی طرف کوئی نبی بھیجا جائے اور قسمیں کھاتے تھے کہ ہمارے پاس کوئی نبی آگیا تو ہم پرانی امتوں سے بڑھ کر ہدایت والے ہوں گے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوگئی تو منکر ہوگئے آپس کی ضدا ضدی نے ان کے فرقے بنا دئیے کچھ لوگوں نے ایمان قبول کیا اور کچھ لوگ کفر و شرک پر جمے رہے اور حضرت ابن عباس (رض) کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے اہل کتاب مراد ہیں یہودیوں کو حسد کھا گیا اور جانتے بوجھتے ایمان نہ لائے اور نصاریٰ بھی انہیں کی راہ پر چل پڑے ان لوگوں کا متفرق ہونا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اختلاف کرنا اس وجہ سے نہیں تھا کہ آپ کے بیان میں اور اظہار حجت میں کوئی کمی تھی حب ّدنیا اور مال و جاہ کی طلب نے انہیں ایمان سے روکا۔ ھذا ما ذکرہ القرطبی ص ١٢ ج ٢٢ وذکر قولا ثالثا قال قیل امم الانبیاء المتقدمین فانھم فی بینھم اختلفوا لما طال بھم المدی فامن قوم فکفر قوم۔ اھ (یہ وہ ہے جو علامہ قرطبی نے ذکر کیا ہے اور تیسرا قول بھی ذکر کیا ہے کہ بعض نے کہا ہے سابقہ انبیاء کی امتوں میں اختلاف ہوا جب لمبا عرصہ گزرا تو ایک گروہ ایمان والا رہا اور ایک کافر ہوگیا۔ ) ﴿وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ ١ؕ﴾ اور اگر آپ کے رب کی طرف سے پہلے بات طے نہ کی جاتی (یعنی یہ فیصلہ نہ ہوگیا ہوتا کہ انہیں قیامت کے دن عذاب دینا ہے دنیا) میں عذاب نہیں دینا تو اب تک فیصلہ ہوچکا ہوتا یعنی عذاب آچکا ہوتا اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اَجَلٍ مُّسَمًّى سے دنیا میں عذاب بھی آگیا کما کان فی بدر ﴿ وَ اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْرِثُوا الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيْبٍ ٠٠١٤﴾ (اور بلاشبہ جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب دی گئی وہ شک میں پڑے ہوئے ہیں جو تردد میں ڈالنے والا ہے۔ ) علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ اس سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں جنہیں ان لوگوں کے بعد کتاب دی گئی جو حق میں ان سے پہلے اختلاف کرچکے تھے اور ایک قول یہ ہے کہ ﴿ اُوْرِثُوا الْكِتٰبَ ﴾ سے قریش مراد ہیں جن کے پاس قرآن مجید آیا اور ﴿ مِنْۢ بَعْدِهِمْ﴾ سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں اور ” منہ “ کی ضمیر قرآن کریم کی طرف یا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” وما تفرقوا “ یہ ایک شبہہ کا جواب ہے کہ جب تمام انبیاء (علیہم السلام) کا دین ایک ہی تھا اور مسئلہ توحید سب کا اجماعی دین تھا، تو جو کتابیں اور صحیفے ان پر نازل ہوئے، ان میں مسئلہ توحید کے خلاف مضامین کیوں پائے جاتے ہیں ؟ اس کا جواب دیا گیا کہ بیشک تمام انبیاء (علیہم السلام) مسئلہ توحید پر متفق تھے اور یہی مسئلہ توحید کے خلاف مضامین کیوں پائے جاتے ہیں ؟ اس کا جواب دیا گیا کہ بیشک تمام انبیاء (علیہم السلام) مسئلہ توحید پر متفق تھے اور یہی مسئلہ ان کی طرف وحی کیا گیا، لیکن بعد میں دنیا پرست، باغی اور گمراہ کن علماء اور پیشواؤں نے حق کو سمجھنے کے بعد جان بوجھ کر کتب سابقہ میں تحریف کر ڈالی اور ان میں توحید کے خلاف عبارتیں اپنی طرف درج کردیں اور یہ سب کچھ انہوں نے محض ضد وعناد کی وجہ سے کیا ہے۔ اس سے تین باتیں معلوم ہوئی۔ اول یہ کہ توحید میں اختلاف کس نے ڈالا ؟ مشرک پیشواؤں اور گمراہ کن زر پرست علماء نے۔ دوم، اختلاف کب ڈالا ؟ جب ان کے پاس علم آگیا اور ان کو حق معلوم ہوگیا، گویا یہ اختلاف انہوں نے جان بوجھ کر ڈالا ہے، کسی غلط فہمی کی بنا پر نہیں ڈالا۔ سوم، اختلاف کیوں ڈالا ؟ محض ضد وعناد اور سرکشی کی وجہ سے۔ ” ولولا کلمۃ سبقت “ یہ اس شبہہ کا جواب ہے کہ پھر ان معاندین پر فورًا عذاب کیوں نہ آیا ؟ فرمایا، عذاب کے لیے ایک وقت مقرر تھا (قیامت کا دن یا اواخرحیات) ۔ اگر وقت معین نہ ہوتا تو اسی وقت ہی ان کا قصہ تمام کردیا جاتا۔ اجل مسمی ھو یوم القیامۃ او اخر اعماھم المقدرۃ (بیضاوی) وان الذین اور ثوا الکتاب الخ “۔ ان محرف اور گمراہ کن پیشواؤں سے وہ کتابیں جب بعد میں آنے والے لوگوں کو ملیں، تو وہ بھی ان محرف اور تبدیل شدہ کتابوں کو پڑھ کر مسئلہ توحید کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہوگئے۔ آگے چار امور مذکور ہیں جو ماقبل پر متفرع ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) اور وہ امم سابقہ یعنی اہل کتاب بعد اس کے کہ ان کو صحیح علم پہنچ چکا تھا آپس کی ضد بحث اور حسد سے الگ الگ ہوگئے اور اے پیغمبر اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے ایک وقت معین کی بات پہلے سے طے شدہ نہ ہوتی تو ان کے درمیان کبھی کا فیصلہ کردیا گیا ہوتا اور وہ لوگ جو ان کے بعد کتاب دی گئی وہ تو اس کتاب کی طرف سے ایک سخت تردد انگیز شک میں مبتلا ہوگئے۔ مطلب یہ ہے کہ باوجود ان اقیم والدین ولا تتفرقوافیہ کا صاف حکم دینے اور ان کے پاس صحیح علم پہنچ جانے کے بعد وہ لوگ تفرقہ اندازی کے مرتکب ہوئے اور یہ تفرقہ بھی محض ضد اور حسد کی وجہ سے ڈالا اور کتب سماویہ میں تحریف اور تغیر بالمعنی کرکے فرقے فرقے ہوگئے اور اس تفرقہ انگیز حرکت کے باعث ان کا فیصلہ دنیا ہی میں کردیا جاتا مگر چونکہ ازل میں مہلت اور وقت معین تک عدم گرفت کا قول ہوچکا ہے اور اجل مسمی والی بات نکل چکی ہے اس لئے وہ مانع ہوئی اور جو لوگ پیچھے آئے اور کتاب ان کے ہاتھ لگی تواب وہ سخت تردد اور خلجان میں پڑگئے کہ کس کی بات مانیں اور کون سے معنی اختیار کریں اور کون سے نہ کریں۔ چنانچہ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی پہلے لوگ تو ضد سے اپنی بات ثابت کرنے کو معنی بدل گئے اور پیچھے والے مختلف باتیں دیکھتے ہیں حیران ہوتے ہیں کہ معنی اس طرح یا اس طرح یہ اختلاف برا ہے جن معنوں میں خلاف نکلتا ہو اور کسی طرح معنی کئے ہیں جس میں خلاف نہیں نکلتا اس کا منع نہیں۔ بعض حضرات نے وان الذین او ثوا الکتاب سے عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشرکین مراد لئے ہیں کہ امم سابقہ کے بعد جب اس امت کو کتاب دی گئی تو یہ اس کی جانب سے شک اور تردد میں پڑگئے۔ بہرحال یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں ہم نے حضرت شاہ صاحب (رح) کے معنی کو تیسیر میں پیش نظر رکھا ہے۔ (واللہ اعلم)