Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 27

سورة الشورى

وَ لَوۡ بَسَطَ اللّٰہُ الرِّزۡقَ لِعِبَادِہٖ لَبَغَوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ لٰکِنۡ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ بِعِبَادِہٖ خَبِیۡرٌۢ بَصِیۡرٌ ﴿۲۷﴾

And if Allah had extended [excessively] provision for His servants, they would have committed tyranny throughout the earth. But He sends [it] down in an amount which He wills. Indeed He is, of His servants, Acquainted and Seeing.

اگر اللہ تعالٰی اپنے ( سب ) بندوں کی روزی فراخ کر دیتا تو وہ زمین میں فساد برپا کر دیتے لیکن وہ اندازے کے ساتھ جو کچھ چاہتا ہے نازل فرماتا ہے وہ اپنے بندوں سے پورا خبردار ہے اور خوب دیکھنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الاَْرْضِ ... And if Allah were to extend the provision for His servants, they would surely rebel in the earth, means, `if We gave them more provision than they need, this would make them rebel and transgress against one another in an arrogant and insolent manner.' ... وَلَكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاء إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ but He sends down by measure as He wills. Verily, He is, in respect of His servants, the Well-Aware, the All-Seer. means, but He gives them provision according to what is in their best interests, and He knows best about that. So He makes rich those who deserve to be rich, and He makes poor those who deserve to be poor.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 یعنی اللہ ہر شخص کی حاجت و ضرورت سے زیادہ یکساں طور پر وسائل رزق عطا فرما دیتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ کوئی کسی کی ماتحتی قبول نہ کرتا، ہر شخص شرو فساد اور دشمنی میں ایک سے بڑھ کر ایک ہوتا، جس سے زمین فساد سے بھر جاتی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤١] رزق کی کمی بیشی میں اللہ کی حکمتیں :۔ پنجابی زبان کی ایک مختصر سی مثال اس آیت کے مفہوم کو پوری طرح واضح کردیتی ہے۔ مثال یہ ہے && رج آؤن تے کد آؤن && یعنی ایک عام دنیادار انسان کی عادت یہ ہے کہ اگر اللہ اسے خوشحالی سے ہمکنار کرے تو وہ کسی کو بھی حتیٰ کہ اللہ کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور سرکشی کی راہ اختیار کرتا ہے۔ صورت حال سرداران قریش کی تھی جو دیہاتی قبائل عرب کی نسبت خوشحال تھے اور اسی خوشحالی نے ان کے دماغوں کو خراب کر رکھا تھا اور اس آیت میں بتایا یہ گیا ہے کہ اگر اللہ سارے ہی لوگوں کو وافر رزق عطا کردے تو اس سے اس کے خزانوں میں تو کچھ کمی نہ آئے گی۔ لیکن لوگ دولت کی مستی میں ہر جگہ اودھم مچا دیں گے۔ اور ایک دوسرے کا جینا بھی حرام کردیں گے۔ لہذا اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اپنے اندازے اور اپنی حکمت کے مطابق رزق مہیا کرتا ہے۔ تاکہ لوگ اپنے آپے سے باہر نہ ہوں اور دنیا کا نظام بھی ٹھیک طور پر چلتا رہے۔ امیر کام لینے کے لیے غریبوں کے محتاج رہیں اور غریب امیروں کے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ولوبسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض : یہ ایک سوال کا جواب ہے جو یہاں ذہن میں پیدا ہوسکتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ایمان اور عمل صالح والوں کی دعا بہت جلدی قبول فرماتا ہے تو یہ لوگ تو رزق کی فراخی کی دعا بھی کرتے ہیں، اس کے باوجود ان پر زق کی تنگی کیوں ہے ؟ ابتدائے اسلام میں ایمان والوں پر رزق کی بہت تنگی آئی ، خصوصاً جب کفار نے ان کے ساتھ میل جول اور خریدو فروخت، غرض تمام چیزوں کا بائیکاٹ کردیا۔ جواب یہ دیا گیا کہ ایسا نہیں ہے کہ وہ جتنا رزق مانگیں انھیں اتنا ہی دے دیا جائے، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کا رزق ان کی مصلحت کے مطابق ایک اندازے کے ساتھ جتنا چاہتا ہے نازل فرماتا ہے۔ اگر وہ ان کے تقاضے کے مطابق ان کے لئے رزق فراخ کردیتا تو یقینا وہ زمین میں سرکش ہوجاتے، کیونکہ عام طور پر آدمی جب غنی ہوتا ہے تو نص کو بھول جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(کلا ان الانسان لیطغی ان راہ استغنی) (العلق :806)” ہرگز نہیں، بیشک انسان یقیناً حد سے نکل جاتا ہے۔ اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے کہ غنی ہوگیا ہے۔” اور مال و دلوت کی کثرت اسے لوگوں پر یزادتی پر ابھارتی ہے۔ ق اورن اور فرعون کا حال دیکھ لو ! اگر ان کے پاس ، اتنی دلوت نہ ہوتی تو اس طرح برباد نہ ہوتے۔ اس لئے مومنوں کے حق میں خیر یہی ہے کہ ان کا رزق زیادہ فراخ نہ کیا جائے، اگر چہ اس کے خیر ہونے کا پورا ادراک انھیں دیر سے یعنی قیامت کے دن ہوگا۔ اس کے علاوہ مال کی کمی کا مومن کا ایک اورف ائدہ بھی ہے کہ اسے عمل صالح کے لئے فراغت حاصل رہتی ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ دنیا کمانے میں مشغول رہ کر آخرت کی تیاری سے غافل نہیں ہوتا، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ابو عبیدہ (رض) بحرین سے جزیے کا مال لے کر آئے تو انصار صبح کی نماز میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شامل ہوئے اور بعد میں آپ کے سامنے آبیٹھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا :(اظنکم قد سمعنم ان ابا عبیدہ قد جاء بشیء ؟ قالوا اجل یا رسول اللہ ! قال فابشروا واملوا ما بسرکم ، فو اللہ لا الفقر، اخشی علیکم ولکن اخشی علیکم ان تبسط علیکم الدنیا کما بست علی من کان قبلکم ، فتنافسوھا کما تنافسوھا وتھلککم کما اھلکتھم) (بخاری، الجزیۃ والموادعۃ، باب الجزیۃ والمودۃ مع اھل الذمۃ والحرب :3158)” میرا خیال ہے تم نے سنا ہے کہ ابو عبیدہ کچھ لے کر آئے ہیں ؟ “ انہوں نے کہا : ” جی ہاں : یا رسول اللہ ! “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تو خوش ہوجاؤ اور خوش کرنے والی چیزوں کی امید رکھو، پس اللہ کی قسم ! میں تم پر فقیری سے تو ڈرتا ہی نہیں، بلکہ تم پر اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا فراخ کردی جائے، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فراخ کردی گئی، تو تم ایک دوسرے سے زیادہ اس میں رغبت کرنے لگو، جیسا کہ انہوں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر اس میں رغبت کی اور وہ ت میں اسی طرح ہلاک کر دے جس طرح اس نے انھیں ہلاک کردیا۔ “ (٢) ” ولو بسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض “ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنا احسان بھی جتلایا ہے کہ اگر وہ چاہتا تو یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ لوگ زمین میں سرکشی کریں گے ان کا رزق فراخ کردیتا ، جیسا کہ اس نے فرعون کا رزق یہ جاننے کے باوجود فراخ کردیا۔ چناچہ اگر اسے ملک مصر نہ ملتا تو وہ کبھی خدائی کا دعویٰ نہ کرتا۔ لہٰذا رزق کی تنگی بھی اہل ایمان کے لئے ایک انعام ہے جس کا شکر ان پر واجب ہے۔ (٣) آیت کے الفاظ ” ولوبسط اللہ الرزق لعبادہ “ مومن و کافر دونوں کے لئے عام ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تکوینی تدبیر کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ دنیا میں نص نے مومن ہوں یا کافر سب کا رزق برابر نہیں رکھا، کسی کا زیادہ ہے کسی کا کم، تاکہ لوگ ایک دوسرے کے محتاج رہیں اور ایک دوسرے سے کام لے سکیں۔ (دیکھیے زخرف : ٣٢) اسی طرح اس نے کسی کو ایک حد سے زیادہ رزق نہیں دیا، ورنہ لوگ زیادہ روزی پا کر زمین میں سرکشی اور فساد کرتے ہیں ان کا فساد اس فساد کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتا جو وہ اپنی مرضی کے مطابق مال ملنے کی صورت میں برپا کرتے۔ اب اگر کوئی فساد فی الارض کرتا ہے تو وہ ایک حد سے نہیں بڑھ سکتا۔ کوئی کتنا بھی بڑا باغی ہو سب اپنی حد میں رہنے پر مجبور ہیں۔ (٤) ولکن ینزل بقدر ما یشآئ : اس کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة حجر (٢١) ، رعد (٨) اور سورة قمر (٤٩) کی تفسیر۔ (٥) انہ بعبادہ خبیر بصیر : اس کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة بنی اسرائیل کی آیت (٣٠) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Sequence and background of Revelation In these verses, Allah Almighty has given the proof of His Oneness by pointing out to the perfection of His Wisdom through which He has tied up the whole universe with a stable system, which is surely being supervised by a Being who is All-Wise and All-Aware. Allah Almighty has opened this subject by pointing towards the economic system which He, in His Wisdom, has established in this world. This subject bears a relationship with the previous verses wherein it had been stated that Allah Almighty accepts the worships of the believers which includes acceptance of their supplications as well. Here one could get perplexed by the frequent observation that a Muslim supplicates for some worldly need, but his objective is not met; this doubt has been removed in the first of the above verses. The gist of the clarification is that sometimes fulfillment of one&s all desires is neither in his own interest nor in the interest of his society. As such, if any supplication of anyone at any time has apparently not been accepted, it would be for the sake of greater well-being of the universe which nobody knows, except the All-knowing, All-wise Creator. If every human being of this world is given every kind of sustenance and every kind of blessings, this system of the world just cannot be managed wisely. (Tafsir Kabir) Some narrations also corroborate that this verse was revealed about those Muslims who used to wish that they also should get the same wealth and opulence as was available to the infidels. Imam Baghawi (رح) has reproduced the statement of Sayyidna Khabbab Ibn ` Aratt (رض) that when they saw the wealth and opulence of Banu Quraizah, Banu Nadir and Banu Qainuqa` (the Jewish tribes), the desire to have such affluence welled up in their hearts also, and thereafter this verse was revealed. And Sayyidna ` Amr Ibn Harith (رض) states that some of the companions of Suffah had expressed their desire to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that Allah Almighty may make them wealthy and this verse was revealed thereafter. (Ruh-ul-Ma&ani, etc.) General Abundance of Wealth in the World is cause of Tumult However, this verse states that had every kind of sustenance and every kind of blessing been provided abundantly to every individual of this world, the discord and dispute between one another would have crossed all limits, because due to abundance of wealth, nobody would be in need of another person, nor would one be subdued by another. On the other hand, one attribute of wealth is that greed and inordinate desire also increase with the increase in wealth. It would necessarily have resulted in the common use of force to get possession of another person&s property, hence disputes and fights, rebellion and other misdeeds would have crossed all limits. That is why Allah Ta’ ala, instead of providing everybody with every kind of sustenance and every kind of blessing, has distributed his blessings in such a way that somebody has abundance of riches and wealth, another person is healthier and stronger than others, yet another person is more comely and beautiful than others, and yet another has surpassed others in knowledge and wisdom. In short, everybody is dependent on others for one thing or another, and it is this inter-dependence which is the foundation of civilization. This is the meaning of وَلَـٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ‌ مَّا يَشَاءُ (but He sends down what He wills in (due) measure - 42:27) It means that Allah has bestowed His blessings upon the people of this world in a special way. And by stating further on ` a إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ‌ بَصِيرٌ‌ (Surely, with regard to His slaves, He is All-Aware, Ever-watchful - 42:27) it has been indicated that Allah Almighty knows very well what is good for a person and what is harmful. Accordingly, He has provided everybody with what is good for him, and if He has deprived somebody of anything, it is because of his and the whole world&s welfare. It is not at all necessary that we should understand the underlying wisdom and welfare behind the decision about every individual, because everyone thinks on the basis of his limited knowledge, whereas Allah Almighty is looking at the whole world. Therefore it is simply not possible to gauge all of His Wisdom. A perceivable parallel would be the case of an honest head of state who has passed certain orders which happen to affect some people adversely, and these people naturally face problems. Now a person who has been so affected adversely is quite likely to feel bad about those orders of the head of the state, because his thinking is limited to his own interest. But a person who is looking at the circumstances of the whole state and the whole nation and who appreciates that the whole state cannot be sacrificed for the sake of one individual&s interest, does not consider such a step to be bad. Then how is it possible to gauge the Wisdom of the Being who is managing the system of the whole universe? If this point is kept in mind, the confusion and perplexity generated by the sight of anyone surrounded by tribulation would disappear by itself. This verse also tells us that distribution of wealth and goods equally to all the people of the world is neither possible, nor desirable nor is it required for the existence of the system of the universe. This issue will be discussed in detail in explanation of the verse نحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ (43:32) of surah Zukhruf. The Difference between Paradise and the World Here a question may arise that all kinds of blessings will be provided in abundance to all human beings in Paradise, so why would it not cause mischief there? And the answer is that the cause of mischief in this world is the abundance of wealth and goods coupled with greed and inordinate desire to have more and more which keeps on increasing with wealth. But greed and inordinate desire would simply not be there in Paradise, although blessings and delights will keep on being showered. And that is why this mischief would not surface there. The question why could not greed and inordinate desire be removed and wealth and goods be provided in abundance in this world as well, is quite irrelevant. The very purpose of creating this world is to have co-existence of good and evil. It is simply not possible without it to arrange trial of human beings which is the real purpose of creation of the universe. Therefore, the real purpose of creating this universe would have failed, if greed and desire had been removed altogether from human beings. Paradise, on the other hand, would comprise goodness only therefore, such base emotions will simply not be there.

خلاصہ تفسیر اور (اللہ تعالیٰ کی صفت حکمت کے آثار میں سے یہ ہے کہ اس نے سب آدمیوں کو زیادہ مال نہیں دیا، کیونکہ) اگر اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں کے لئے (بحالات موجودہ جیسی ان کی طبیعتیں ہیں) روزی فراخ کردیتا تو وہ دنیا میں (بالعموم) شرارت کرنے لگتے (کیونکہ جب سارے انسان مالدار ہوتے اور کوئی کسی کا مطلق محتاج نہ ہوتا تو کوئی بھی کسی سے نہ دبتا) لیکن (یہ بھی نہیں کیا کہ بالکل ہی کسی کو کچھ نہ دیا ہو، بلکہ) جتنا رزق چاہتا ہے انداز (مناسب) سے (ہر ایک کے لئے) اتارتا ہے، (کیونکہ) وہ اپنے بندوں کے (مصالح) کو جاننے والا (اور ان کا حال) دیکھنے والا ہے اور وہ ایسا (رحیم) ہے جو (بسا اوقات) لوگوں کے ناامید ہوجانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت (کے آثار دنیا میں) پھیلاتا ہے (آثار سے مراد نباتات اور پھل پھول ہیں) اور وہ (سب کا) کار ساز (اور اس کار سازی پر) قابل حمد (وثنا) ہے اور منجملہ اس کی (قدرت کی) نشانیوں کے پیدا کرتا ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جانداروں کا جو اس نے زمین و آسمان میں پھیلا رکھے ہیں اور وہ (قیامت کے دن دوبارہ زندہ کر کے) ان (مخلوقات) کے جمع کرلینے پر بھی جب وہ (جمع کرنا) چاہے قادر ہے اور وہ انتقام لینے والا مگر ساتھ ہی معاف کرنے والا بھی ہے چنانچہ) تم کو (اے گناہگارو) جو کچھ مصیبت (حقیقتاً ) پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کئے گئے کاموں سے (پہنچتی ہے اور پھر بھی ہر گناہ پر نہیں، بلکہ بعض بعض گناہوں پر) اور بہت (سے گناہوں) سے درگزر ہی کردیتا ہے (خواہ دونوں جہاں میں یا صرف دنیا میں) اور (اگر وہ سب پر مواخذہ کرنے لگے تو) تم زمین (کے کسی حصہ) میں (پناہ لے کر اس کو) ہرا نہیں سکتے اور (ایسے وقت میں) خدا کے سوا تمہارا کوئی حامی مددگار نہیں (ہو سکتا) اور منجملہ اس کی (قدرت کی) نشانیوں کے جہاز میں سمندر میں (ایسے اونچے) جیسے پہاڑ (مراد یہ ہے کہ ان کا سمندر میں چلنا دلیل ہے حق تعالیٰ کی عجیب صناعی کی ورنہ) اگر وہ چاہے تو ہوا کو ٹھہرا دے تو وہ (جہاز) سمندر کی سطح پر کھڑے کے کھڑے رہ جائیں (یہ اسی کا کام ہے کہ ہوا کو چلاتا ہے اور اس سے وہ جہاز چلتے ہیں) بیشک اس میں (قدرت پر دلالت کرنے والی) نشانیاں ہیں ہر صابر و شاکر (یعنی مومن) کے لئے (اس کی تشریح سورة لقمان کے آخری رکوع میں اسی قسم کے جملہ کے تحت گزر چکی۔ غرض اگر وہ چاہے تو ہوا کو ساکن کر کے جہازوں کو کھڑا کر دے) یا (اگر وہ چاہے زور کی ہوا چلا کر) ان جہازوں (کے سواروں) کو ان کے اعمال (بد کفر وغیرہ) کے سبب تباہ کر دے اور (ان میں) بہت سے آدمیوں میں سے درگزر کر جاوے (یعنی اس وقت غرق نہ ہوں، گو آخرت میں سزا یاب ہوں) اور (اس تباہی کے وقت) ان لوگوں کو جو کہ ہماری آیتوں میں جھگڑے نکالتے ہیں معلوم ہوجاوے کہ (اب) ان کے لئے کہیں بچاؤ (کی صورت) نہیں (کیونکہ ایسے اوقات میں وہ بھی اپنے مزعومہ شرکاء کو عاجز سمجھتے تھے) ۔ معارف و مسائل ربط اور شان نزول : ان آیات میں باری تعالیٰ نے عقیدہ توحید کو ثابت کرنے کے لئے اپنی اس حکمت بالغہ کا تذکرہ فرمایا ہے۔ جس کے ذریعہ اس نے کائنات کو ایک مستحکم نظام میں جکڑا ہوا ہے، اور مقصد یہ ہے کہ کائنات کا یہ مستحکم نظام اس بات کی واضح دلیل ہے کہ کوئی حکیم وخبیر ذات اسے چلا رہی ہے۔ اس مضمون کی ابتدا باری تعالیٰ نے اپنے اس نظام معیشت کی طرف اشارہ فرما کر کی ہے جو اس نے اپنی حکمت سے دنیا میں جاری فرمایا ہے۔ اور یہ مضمون پچھلی آیات سے اس طرح مربوط ہے کہ گزشتہ آیتوں میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کی عبادت کو قبول فرماتا ہے جس میں ان کی دعاؤں کی قبولیت بھی داخل ہے۔ اب یہاں یہ اشکال ہوسکتا تھا کہ یہ بات بکثرت مشاہدہ میں آتی ہے کہ مسلمان اپنے کسی دنیوی مقصد کے لئے دعا کرتا ہے، لیکن وہ مقصد پورا نہیں ہوتا۔ اس اشکال کا جواب مذکورہ بالا آیات میں سب سے پہلی آیت میں دیا گیا ہے۔ اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی ہر خواہش کا پورا ہونا بعض اوقات خود انسان کی انفرادی یا اجتماعی مصلحت کے خلاف ہوتا ہے لہٰذا اگر کسی وقت کسی انسان کی کوئی دعا بظاہر قبول نہ ہو تو اس کے پیچھے کائنات کی وہ عظیم مصلحتیں ہوتی ہیں جنہیں اس کے علیم و حکیم خالق کے سوا کوئی نہیں جانتا، اگر دنیا کے ہر انسان کو ہر قسم کا رزق اور ہر قسم کی نعمتیں عطا کردی جائیں تو دنیا کا یہ نظام حکمت کے ساتھ چل ہی نہیں سکتا۔ (تفسیر کبیر) چنانچہ بعض روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ یہ آیت مومنین کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو کافروں کی مال و دولت دیکھ کر تمنا کیا کرتے تھے کہ یہ وسعت و فراخی ہمیں بھی حاصل ہوجائے۔ امام بغوی نے حضرت خباب بن ارت کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہم نے بنو قریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع کے مال و دولت کو دیکھا تو ہمارے دلوں میں بھی مالداری کی تمنا پیدا ہوئی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور حضرت عمرو بن حریث فرماتے ہیں کہ اصحاب صفہ میں سے بعض حضرات نے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مالدار بنا دے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (روح المعانی وغیرہ) دنیا میں دولت کی عام فراوانی فساد کا سبب ہے : بہر کیف آیت میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اگر دنیا کے ہر فرد پر ہر قسم کے رزق اور ہر قسم کی نعمت کی فراوانی کردی جاتی تو انسانوں کا ایک دوسرے کے خلاف بغی و فساد حد سے بڑھ جاتا۔ اس لئے کہ دولت کی فراوانی کی وجہ سے نہ کوئی کسی کا محتاج ہوتا اور نہ کوئی کسی سے دبتا، دوسری طرف دولت مندی کی ایک خاصیت یہ ہے کہ جتنی دولت بڑھتی ہے، اتنا ہی حرص و ہوس میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ ایک دوسرے کی املاک پر قبضہ جمانے کے لئے زور و زبردستی کا استعمال عام ہوجاتا، لڑائی جھگڑے، سرکشی اور دوسری بد اعمالیاں حد سے زیادہ بڑھ جاتیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہر فرد کو ہر قسم کا رزق اور ہر قسم کی نعمت دینے کے بجائے ان نعمتوں کو اپنے بندوں پر اس طرح تقسیم کیا ہے کہ کسی کے پاس مال و دولت زیادہ ہے، کوئی صحت و قوت میں دوسرے سے بڑھا ہوا ہے۔ کوئی حسن و جمال سے مالا مال ہے، کسی کے پاس علم و حکمت کی دولت دوسروں سے زیادہ ہے۔ غرض ہر شخص کسی نہ کسی چیز کے لئے دوسروں کا محتاج ہے، اور اسی باہمی احتیاج پر تمدن کی عمارت قائم ہے۔ (آیت) وَلٰكِنْ يُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاۗءُ ۭ کا مطلب یہی ہے کہ اللہ نے ہمیں اپنی نعمتیں ایک خاص اندازے سے دنیا کے لوگوں پر نازل کی ہیں اور آگے اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِيْرٌۢ بَصِيْرٌ۔ (بلاشبہ وہ اپنے بندوں کو جاننے والا دیکھنے والا ہے) فرما کر اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کس شخص کے لئے کون سی نعمت مناسب ہے اور کون سی نقصان دہ ؟ لہٰذا اس نے ہر شخص کو مناسب نعمتیں دی ہیں اور اگر کسی سے کوئی نعمت سلب فرمائی ہے تو وہ اس کی اور پورے عالم کی مصلحت ہی کی بنا پر سلب کی ہے۔ اور یہ بالکل ضروری نہیں ہے کہ ہر ہر فرد کے بارے میں یہ مصلحت ہماری سمجھ میں بھی آجائے، کیونکہ یہاں ہر انسان اپنی معلومات کے ایک محدود دائرے میں رہ کر سوچتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پوری کائنات کی مصلحتیں ہیں، اس لئے اس کی تمام حکمتوں تک رسائی ممکن ہی نہیں۔ اس کی ایک محسوس نظیر یہ ہے کہ ایک دیانتدار سربراہ مملکت بسا اوقات ایسے احکام جاری کرتا ہے جو بعض افراد کے خلاف پڑتے ہیں اور وہ ان کی وجہ سے مصائب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جو شخص اس طرح مصائب کا شکار ہوا ہے، وہ چونکہ صرف اپنے مفاد کے محدود دائرہ میں رہ کر سوچ رہا ہے، اس لئے ممکن ہے کہ اسے سربراہ مملکت کا یہ اقدام برا محسوس ہو، لیکن جس شخص کی نگاہ پورے ملک وقوم کے حالات پر ہے اور جو یہ سمجھتا ہے کہ کسی ایک شخص کے مفاد پر پورے ملک کو قربان نہیں کیا جاسکتا، وہ اس اقدام کو برا خیال نہیں کرتا، اب جو ذات پوری کائنات کا نظام چلا رہی ہے اس کی حکمتوں کا احاطہ کیسے کیا جاسکتا ہے ؟ اگر یہ نکتہ ذہن میں رہے تو وہ اوہام اور وسوسے خودبخود کافور ہو سکتے ہیں جو دنیا میں کسی شخص کو گرفتار مصائب دیکھ کر پیدا ہوتے ہیں۔ اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں کا مال و دولت میں مساوی ہونا ناممکن ہے، نہ مطلوب اور نہ نظام عالم کی تکوینی مصلحتیں اس کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس مسئلہ کی پوری تفصیل انشاء اللہ سورة زخرف کی (آیت) نحن قسمنا بینھم معیشھم الخ کے تحت آئے گی۔ جنت اور دنیا کا فرق : یہاں یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ جنت میں تو تمام انسانوں پر ہر قسم کی نعمتوں کی فراوانی کردی جائے گی، وہاں یہ چیز فساد کا سبب کیوں نہیں ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں فساد کا سبب مال و دولت کی فراوانی کے ساتھ حرص و ہوس کے وہ جذبات ہیں جو دولت مندی کے ساتھ ساتھ عموماً بڑھتے ہی رہتے ہیں۔ اس کے برخلاف جنت میں نعمتوں کی عام بارش تو ہوگی لیکن حرص و ہوس اور سرکشی کے یہ جذبات ختم کردیئے جائیں گے چناچہ وہاں یہ فساد رونما نہیں ہوگا۔ حکیم الامت حضرت تھانوی (رح) نے خلاصہ تفسیر میں ” بحالات موجودہ “ کے الفاظ اسی طرف اشارہ کرنے کے لئے بڑھائے ہیں (بیان القرآن) اب یہاں یہ اعتراض قطعی فضول ہے کہ دنیا میں بھی مال و دولت کی فراوانی کر کے حرص و ہوس کے جذبات کیوں نہ ختم کردیئے گئے ؟ کیونکہ دنیا کی تخلیق کا مقصد ہی ایک ایسا جہان پیدا کرنا ہے جو خیر و شر دونوں قوتوں سے مرکب ہو۔ اس کے بغیر انسانوں کی وہ آزمائش ممکن ہی نہیں ہے جو تخلیق عالم کا اصل منشا ہے۔ لہٰذا اگر یہاں انسانوں میں سے یہ جذبات ختم کردیئے جاتے تو دنیا کی پیدائش کا مقصد اصلی ہی فوت ہوجاتا۔ اس کے بر خلاف جنت خالص خیر پر مشتمل ہوگی، اس لئے وہاں یہ جذبات ختم کردیئے جائیں گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ بَسَطَ اللہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہٖ لَبَغَوْا فِي الْاَرْضِ وَلٰكِنْ يُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاۗءُ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ بِعِبَادِہٖ خَبِيْرٌۢ بَصِيْرٌ۝ ٢٧ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ بسط بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] ، ( ب س ط ) بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ بغي البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، والبَغْيُ علی ضربین : - أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع . - والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری/ 42] ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ بغی دو قسم پر ہے ۔ ( ١) محمود یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔ ( 2 ) مذموم ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شبہات میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ { السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ } ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا قدر تَقْدِيرُ اللہ علی وجهين : أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] . والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله : فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔ خبیر والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، ( خ ب ر ) الخبر کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔ بصیر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة : بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔ اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اگر اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں کو مال کی وسعت عطا کردیتا ہے تو وہ دنیا میں سرکشی کرنے لگتے لیکن جس پر چاہتا ہے فراخی کرتا ہے وہ اپنے بندوں کی مصلحتوں اور ان کے اعمال سے باخبر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ { وَلَوْ بَسَطَ اللّٰہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ } ” اور اگر اللہ کشادہ کردیتا رزق اپنے سب بندوں کے لیے تو وہ زمین میں سرکشی کرتے “ یقینا اللہ کے خزانے بہت وسیع ہیں ‘ لیکن اگر وہ ان خزانوں کو سب کے لیے کھول دیتا اور ہر کسی کو اس کی خواہش اور مرضی کے مطابق با فراغت اور با سہولت رزق ملنا شروع ہوجاتا تو انسانوں کی اکثریت اللہ سے سرکشی پر اتر آتی۔ کیونکہ اب جب کہ دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے دن رات مشقت میں جتے رہنے کے باوجود بھی ان میں سے اکثر اللہ کے نافرمان ہیں تو فکر معاش سے فراغت تو ان کو بالکل ہی باغی بنا دیتی۔ { وَلٰکِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَآئُ اِنَّہٗ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرٌ بَصِیْرٌ} ” لیکن اللہ نازل کرتا ہے ایک اندازے کے مطابق جو چاہتا ہے۔ یقینا وہ اپنے بندوں (کے حالات) سے باخبر ‘ ان کو دیکھنے والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

48 If the context in which this thing has been sAld is kept in view, it appears that AlIah here is alluding to the basic factor that was working in the rebellion of the disbelievers of Makkah. Although they were insignificant as agAlnst the mighty Roman and Iranian Empires and their position among the nations of the neighbouring countries was no more than of a commercial tribe of a backward people, the relative prosperity and glory that they enjoyed among the other Arabs had made them so proud and arrogant that they were not inclined even to listen to the Prophet of Allah, and their chiefs of the tribes regarded it below their dignity that Muhammad bin `Abdullah (upon whom be Allah's peace) should be their guide and they his followers. On this it is being sAld "If We had actually opened up the gates of provisions for these mean people, they would have burst with pride. But We are watching over them, and are providing for them only sparingly so as to keep them within limits. " According to this meaning this verse, in other words, is touching on the same subject which has already been treated in At-Taubah: 68-70, Al-Kahf: 32-42, Al-Qasas: 75-82, Ar-Rum: 9, Saba: 34-36 and Al-Mu'min: 82-85 above.

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :48 جس سلسلہ کلام میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اسے نظر میں رکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں دراصل اللہ تعالیٰ اس بنیادی سبب کی طرف اشارہ فرما رہا ہے جو کفار مکہ کی سرکشی میں کام کر رہا تھا ۔ اگرچہ روم و ایران کے مقابلہ میں ان کی کوئی ہستی نہ تھی اور گرد و پیش کی قوموں میں وہ ایک پس ماندہ قوم کے ایک تجارت پیشہ قبیلے ، یا بالفاظ دیگر ، بنجاروں سے زیادہ حیثیت نہ رکھتے تھے ، مگر اپنی اس ذرا سی دنیا میں ان کو دوسرے عربوں کی بہ نسبت جو خوشحالی اور بڑائی نصیب تھی اس نے ان کو اتنا مغرور و متکبر بنا دیا تھا کہ وہ اللہ کے نبی کی بات پر کان دھرنے کے لیے کسی طرح تیار نہ تھے ، اور ان کے سرداران قبائل اس کو اپنی کسر شان سمجھتے تھے کہ محمد بن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے پیشوا ہوں اور وہ ان کی پیروی کریں ۔ اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ اگر کہیں ہم ان چھوٹے ظرف کے لوگوں پر واقعی رزق کے دروازے کھول دیتے تو یہ بالکل ہی پھٹ پڑتے ، مگر ہم نے انہیں دیکھ کر ہی رکھا ہے ، اور ناپ تول کر ہم انہیں بس اتنا ہی دے رہے ہیں جو ان کو آپے سے باہر نہ ہونے دے ۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ آیت دوسرے الفاظ میں وہی مضمون ادا کر رہی ہے جو سورہ توبہ ، آیت 68 ۔ 70 ، الکہف ، آیات 32 ۔ 42 ۔ القصص ، آیات 75 ۔ 82 ۔ الروم ، آیت 9 ۔ سبا ، آیت 34 ۔ 36 ۔ اور المومن آیات 82 ۔ 85 میں بیان ہوا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:27) ولو بسط اللّٰہ الرزق لعبادہ۔ جملہ شرطیہ ہے لو حرف شرط ہے۔ بسط ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب بسط (باب نصر) مصدر۔ اس نے کشادہ کیا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی روزی فراخ کر دے۔ لبغوا فی الارض : جواب شرط۔ لام جواب شرط کا ہے۔ بغوا ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ بغی (باب ضرب) مصدر۔ اس نے بغاوت کی۔ اس نے سرکشی کی اس نے زیادتی کی۔ تو وہ زمین میں سرکشی کرنے لگیں گے۔ ینزل : مضارع واحد مذکر غائب۔ تنزیل (تفعیل) مصدر۔ وہ نازل کرتا ہے۔ وہ اتارتا ہے۔ قدر۔ اندازہ شدہ۔ مقدار۔ مقدار مقررہ۔ اللہ کا حکم جو وہ اپنے بندوں کے لئے مقدد کرچکا ہے۔ فعل بمعنی مفعول۔ خبیر ۔ خبر سے فعیل کے وزن پر صفت مشبہ کا صیغہ ہے، بمعنی خبردار۔ دانا اللہ تعالیٰ جل و علاشانہ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔ اور قرآن مجید میں یہ صرف ذات باری تعالیٰ عزاسمہ ہی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ بصیر : فعیل بمعنی فاعل۔ دیکھنے والا۔ جاننے والا۔ یہ بھی اللہ رب العزت کے اسماء حسنی میں سے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 کیونکہ اس وقت کوئی کسی کا محتاج نہ ہوتا۔ اس لئے من مانی کا رروائی کرتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے کہ اس نے دنیا میں بندے کو دوسرے کا محتاج بنایا اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ باہم تعاون سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ یا ” لبغوافی الارض “ کا مطلب یہ ہے کہ انسان مزید کی حرص کرتا اور بےصبری سے مال جمع کرتا ” لو کان لا بن ادم وادیان من ذھب لا تبغی ثالثا “ گو کسی کے پاس مال کی دو وادیاں بھری ہوں تو وہ تیسری کا خواہش مندہو۔ ( قرطبی) 3 اس لئے ہر شخص اپنی حد میں رہنے پر مجبور ہے۔ اب جو بعض بندے اپنی ضروریات سے زیادہ روزی پا کر زمین میں فساد برپا کرتے ہیں تو ان کا یہ فساد استثنائی قسم کا ہے عام فساد نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی صفت حکمت کے آثار میں سے یہ ہے کہ اس نے سب آدمیوں کو زیادہ مال نہیں دیا، اور ظاہر ہے کہ اگر غنا عام ہوجائے تو مال کی احتیاج تو کسی کو کسی سے باقی نہ رہے اور کام کسی کا کوئی کرے نہیں، تو جانبین سے احتیاج جاتی رہے، پھر کون کسی سے دبے۔ 7۔ اس کے علاوہ حکیم ہونے کے خبیر وبصیر دو صفتیں اور ثابت ہوئیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے فضل کی ایک صورت بارش بھی ہے اس لیے یہاں بارش کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر قسم کے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ” اللہ “ ہی اپنی پوری مخلوق کو رزق دینے والا ہے اور وہی اپنے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق اپنے بندوں کو رزق عطا کرتا ہے۔ اس کے رزق عطا کرنے کے اصولوں میں ایک اصول یہ ہے کہ وہ کسی کو ایک حد سے بڑھ کر رزق عطا نہیں کرتا۔ اگر وہ لامحدود طریقہ سے کسی کو رزق عطا کرے تو لوگ زمین میں بغاوت کرنے لگیں۔ وہ اپنے بندوں کو پوری طرح جانتا اور ہر وقت انہیں دیکھنے والا ہے۔ یہ بات تو اللہ ہی جانتا ہے کہ اس نے ہر انسان کے لیے اس کے رزق کی کیا حد مقرر کر رکھی ہے۔ لیکن یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ جب لوگوں کو رزق کی فروانی حاصل ہوتی ہے تو چند لوگوں کے سوا باقی لوگ اپنے رب کا شکر ادا کرنے کی بجائے اس کی بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ دنیا میں کتنے لوگ ہوئے اور ہیں جنہوں نے رزق کی بنیاد پر لوگوں میں بےحیائی پھیلائی، کسی نے وسائل کی بنیاد پر اپنی قوم کو غلام بنایا اور ان کے لیے فرعون بن بیٹھا۔ رزق کی فراوانی پر ہی بیشمار مالداروں نے غریبوں پر ظلم ڈھائے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے مقرر کردہ اصولوں سے بڑھ کر ان لوگوں کو رزق دیتا تو نامعلوم یہ لوگ کیا کیا ظلم کرتے ؟ رزق سے مرادصرف خوردونوش کا سامان ہی نہیں بلکہ رزق سے مراد ہر قسم کے وسائل ہیں جن میں سیاسی اقتدار بھی شامل ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ” خَبِیْرٌ“ اور ” بَصِیْرٌ“ کی صفات کا ذکر فرما کر باغی لوگوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ بات نہ بھولنا کہ تمہیں کوئی دیکھنے اور جاننے والا نہیں۔ یقین کرو کہ جو تمہیں رزق عطا کرتا ہے وہ ہر حال میں تمہیں دیکھنے والا اور تمہارے ہر قسم کے اعمال کی خبر رکھنے والا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27:۔ ” ولو بسط اللہ “ یہ سوال مقدر کا جواب ہے جب اللہ تعالیٰ اس قدر مہربان ہے کہ بندوں کی توبہ قبول فرما لیتا ہے اور ان کو روزی بھی دیتا ہے، لیکن سب کی روزی فراخ اور وسیع کیوں نہیں کرتا، فرمایا اگر وہ سب کو وسعت اور فراخی سے دولت دیدے تو سب ہی حدود بندگی کو پھاند کر اللہ کے باغی ہوجائیں اور کبر و غرور میں مست ہو کر شر و فساد پھیلا دیں، لیکن اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ سے ہر شخص کو جتنا چاہتا ہے دیتا ہے، وہ اپنے بندوں کو خوب جانتا ہے، اسے معلوم ہے کہ کون کس مقدار کا مستحق ہے۔ بقدر موصوف، ما یشاء صفت، اور صلہ میں ضمیر عائد محذوف ہے ای یشاءء ہ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(27) اور اگر اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں کے لئے روزی فراغ کردیتا ہے تو وہ ضرور عام طور سے دنیا میں شرارت کرنے لگتے لیکن وہ جس قدر چاہتا ہے ایک مناسب انداز سے رزق اتارتا ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حال کا دانا بینا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کی روزی فراخ ہوجائے گی تو احتیاج باہمی کا نظام ٹوٹ جائے اور ہر شخص دوسرے سے مستغنی ہوجائے تو نظام عالم گڑ بڑ ہوجائے اور ایک دسورے سے بغاوت کردے اور شرارت شروع ہوجائے۔ امن کی بجائے فسادات شروع ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ ایک انداز سے روزی نازل فرماتا ہے کیونکہ وہ اپنے بندوں کے تمام احوال سے باخبر اور ان کو دیکھنے والا ہے یعنی بندوں کی مصالح سے باخبر اور ان کی حالت کو دیکھنے والا ہے۔