Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 28

سورة الشورى

وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ الۡغَیۡثَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا قَنَطُوۡا وَ یَنۡشُرُ رَحۡمَتَہٗ ؕ وَ ہُوَ الۡوَلِیُّ الۡحَمِیۡدُ ﴿۲۸﴾

And it is He who sends down the rain after they had despaired and spreads His mercy. And He is the Protector, the Praiseworthy.

اور وہی ہے جو لوگوں کے نا امید ہو جانے کے بعد بارش برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے وہی ہے کارساز اور قابل حمد و ثنا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوا ... And He it is Who sends down the rain after they have despaired, means, after the people have given up hope that rain will fall, He sends it down upon them at their time of need. This is like the Ayah: وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلِ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِّن قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ And verily, before that (rain) -- just before it was sent down upon them -- they were in despair! (30:49) ... وَيَنشُرُ رَحْمَتَهُ ... and spreads His mercy. means, He bestows it upon all the people who live in that region. Qatadah said, "We were told that a man said to Umar bin Al-Khattab, may Allah be pleased with him, `O Commander of the faithful, no rain has come and the people are in despair.' Umar, may Allah be pleased with him, said, `Rain will be sent upon you,' and he recited: وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَيَنشُرُ رَحْمَتَهُ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ And He it is Who sends down the rain after they have despaired, and spreads His mercy. And He is the Protector, Worthy of all praise." Meaning He is the One Who is in control of His creation, taking care of what will benefit them in this world and the Hereafter, and the consequences of all His decrees and actions are good, for which He is worthy of all praise.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 کار ساز ہے، اپنے نیک بندوں کی چارہ سازی فرماتا ہے، انہیں منافع سے نوازتا ہے اور شرور اور مہلکات سے ان کی حفاطت فرماتا ہے۔ اپنے ان انعامات بےپایاں اور احسنات فراواں پر قابل حمد و ثنا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٢] بارش اور مصنوعی آبپاشی کا تقابل :۔ زمین کو سیراب کرنے کا کام اگرچہ مصنوعی طریقوں سے یعنی کنوئیں، چشمے، نہر یا ٹیوب ویل کے پانی سے بھی چلا لیا جاتا ہے مگر ایک تو اس پر محنت اور خرچ بہت اٹھتا ہے دوسرے اس کے خوشگوار اثرات بارش کی نسبت بہت کمتر ہوتے ہیں۔ مصنوعی طریق آبپاشی کو اللہ کی رحمت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اللہ کی رحمت بارش ہے اور یہ ایک نہیں بیشمار نعمتوں جیسی نعمت ہے۔ پہلے راحت بخش اور ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں۔ جو انسان کو فطری سرور بخشتی ہیں اور اس کی مایوسی کو دور کرتی ہیں۔ بارش ہوتی ہے تو اس سے موسم میں خوشگوار تغیر آجاتا ہے۔ درختوں پر سے گردوغبار دھل جاتا ہے۔ مصنوعی آبپاشی کی طرح بارش کسی مخصوص قطعہ زمین میں نہیں ہوتی بلکہ وسیع رقبہ میں ہوتی ہے۔ جس سے صرف انسان ہی نہیں اللہ کی ساری مخلوق فیض یاب ہوتی ہے۔ پھر اس پر نہ کچھ لاگت آتی ہے نہ محنت صرف ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں مصنوعی آبپاشی کی صورت میں بھی پانی کے سب ذخیرے بارش ہی کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ لہذا دراصل بارش ہی وہ اصل نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کی حاجات پوری کرتا ہے۔ اور ولی کا لفظ یہاں یہی معنی دے رہا ہے۔ اور حمید اس لحاظ سے کہ تمام مخلوق اس کی رحمت سے فیض یاب ہو کر اس کے گن گانے لگتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وھو الذی ینزل الغیث من بعد ما قنطوا :” الغیث “ وہ بارش جو خشک سالی کے بعد آئے کیونکہ اس کے ذریعے سے لاچار اور بےبس انسانوں اور جانوروں کی مدد ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا :(ثم یاتی من بعد ذلک عامر فیہ یغاث الناس) (یوسف : ٧٩)” پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں لوگوں پر بارش ہوگی۔ “ یہ بیان کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کی ضرورت سے زیادہ نہیں دیتا، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ان کے تقاضے کے مطابق رزق میں اضافہ ان کی سرکشیا ور نظام عالم کی خرابی کا باعث ہے، یہ ذکر فرمایا کہ اگر انہیں بارش کی ضرورت ہو، جس پر تمام جان داروں کی زندگی کا دار و مدار ہے، خواہ انسان ہوں یا حیوان، چرند پرند ہوں یا درندے یا حشرات الارض ہوں تو وہ انہیں اپنی رحمت سے ضرور نوازتا ہے۔ چناچہ فرمایا ، اور وہی ہے جو بارش برساتا ہے۔ (٢) من بعد ما قنطوا :” قنوط “ کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة حم السجدہ کی آیت (٤٩) کی تفسیر۔ اس کے بعد کہ وہ ناامید ہوچکے ہوتے ہیں اور اس نا امیدی کے آثار ان کے چہروں پر ظاہر ہوچکے ہوتے ہیں، یعنی وہ ایک مدت کی قحط سالی کی وجہ سے بارش برسنے سے ناامید ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس آیت میں ماہ پرستوں کا رد بھی ہے جن کا کہنا ہے کہ دنیا میں اسباب کے مطابق سب کچھ خود بخود ہو رہا ہے، نہ اس کائنات کا کوئی پیدا کرنے والا ہے اور نہ کوئی اسے اپنی مرضی کے مطابق چلانے والا ہے۔ رد اس طرح ہے کہ ان لوگوں کے کہنے کے مطابق طبعی طور پر سورج کی تپش کے ساتھ سمندر سے بخارات اٹھتے ہیں جو بادلوں کی صورت اختیار کرتے اور زمین پر برستے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر ایک زمین، ایک سمندر، ایک سورج اور تمام اسباب یکساں ہونے کے باوجود ہر جگہ ایک جیسی بارش کیوں نہیں ہوتی ؟ یقینا یہ سب کچھ ان تمام چیزوں کے مالک کے اختیار میں ہے وہ جہاں چاہتا ہے سالہا سال تک قحط اور خشک سالی مسلط کردیتا ہے، پھر جب چاہتا ہے دوبارہ بارش کا سلسلہ شروع فرما دیتا ہے۔ (٣) ویشر رحمتہ : یعنی بارش کی صورت میں اپنی رحمت میدانوں، پہاڑوں، جنگلوں اور سمندروں میں ہر جگہ پھیلا دیتا ہے، ہوا کے کاندھے پر سوار اتنے وزنی بادلوں سے زمین کو بھر دینے والی بارش برساتا ہے، جنہیں پوری مخلوق بھی اٹھانا چاہے تو نہ اٹھا سکے اور سب مل کر اس زمین پر چھڑکاؤ ہی کرنا چاہیں تو نہ کرسکیں۔ پھر ہر طرف ندی نالے، تالاب، سبزہ، پودے، درخت، کھیت، مینڈک، جھینگر، حشرات الارض اور دوسرے جاندارپ ھیل جاتے ہیں۔ اس بارش کے ساتھ اتنی سخت زمین سے، جو کدالوں کے ساتھ کھودنی مشکل ہوتی ہے، ریشم سے نرم کونپلیں نکال دیتا ہے اور اس بارش کے ساتھ درختوں کے سخت تنوں سے ، جنہیں تراشنے والے اوزار مشکل سے تراش سکیں، پرندوں کی زبانوں سے بھی نازک شگوفے نکال دیتا ہے، پھر سک قدر جاہل اور فریب خوردہ ہیں وہ لوگ جو مردوں کے قبروں سے زندہ ہونے کو نہیں مانتے۔ (بقاعی) (٤) وھو الولی الحمید : یعنی کائنات کے تمام معاملات کا متولی اور ذمہ دار وہی ہے اور ہر خوبی کا مالک بھی وہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوا (And He is the One who sends down rain after they have lost hope - 42:28) |". It is usual for Allah Almighty to send down rain whenever the earth is in severe need of water. But by saying |"after they have lost hope|", attention is being drawn towards the fact that sometimes Allah Almighty, in deviation from His usual norm, delays sending down rain so much that people begin losing hope. Apart from trial, such a happening is to warn that rain and famine are all in the power of Allah Ta’ ala; whenever He wants, He stops rain because of people&s misdeeds, etc., so that people turn their attention towards His kindness, and display their humility and dependence. If rains had been subject to a strict time-table without any deviation, people would have considered rains to be purely subject to apparent causes, and would have become inattentive to Allah&s Almighty&s power. Here losing hope means losing hope in their contrivances because disappointment with Allah&s kindness is kufr (infidelity).

(آیت) وَهُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا۔ اور وہ ایسا ہے جو لوگوں کے ناامید ہوجانے کے بعد مینہ برساتا ہے) یوں تو اللہ تعالیٰ کی عام عادت ہے کہ جب زمین کو پانی کی شدید ضرورت ہوتی ہے، بارش برسا دیتے ہیں۔ لیکن یہاں ” نا امید ہوجانے کے بعد “ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ کبھی کبھی باری تعالیٰ مینہ برسانے میں عام عادت کے خلاف اتنی تاخیر کردیتے ہیں جس سے لوگ ناامید ہونے لگیں۔ اس سے آزمائش کے علاوہ اس بات پر تنبیہ مقصود ہوتی ہے کہ بارش اور قحط سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے، وہ جب چاہتا ہے لوگوں کی بداعمالیوں وغیرہ کی بنا پر بارش روک لیتا ہے تاکہ لوگ اس کی رحمت کی طرف متوجہ ہو کر اس کے سامنے عجز و نیاز کا مظاہرہ کریں۔ ورنہ اگر بارش کا بھی کوئی لگا بندھا وقت ہوتا جس سے کبھی سرمو انحراف نہ ہو تو لوگ اسے خالصتاً ظاہری اسباب کے تابع سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بےتوجہ ہوجاتے اور یہاں ” نا امید “ ہونے سے مراد اپنی تدبیروں سے ناامید ہونا ہے، ورنہ اللہ کی رحمت سے مایوسی تو کفر ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ۝ ٠ ۭ وَہُوَالْوَلِيُّ الْحَمِيْدُ۝ ٢٨ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا غوث ( بارش) الغَوْثُ يقال في النّصرة، والغَيْثُ في المطر، واسْتَغَثْتُهُ : طلبت الغوث أو الغیث، والغيْثُ : المطر في قوله : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید/ 20] ( غ و ث ( غ ی ث ) الغوث کے معنی مدد اور الغیث کے معنی بارش کے ہیں اور غیث ( پانی مانگنا ) سے بھی اسی طرح یغاثوا ( فعل مجہول ) کے بھی دونوں معنی ہوسکتے ہیں آیت کریمہ : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید/ 20] جیسے بارش کہ اس سے کھیتی اگتی اور کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے ۔ میں غیث کے معنی بارش ہیں قنط القُنُوطُ : اليأس من الخیر . يقال : قَنَطَ يَقْنِطُ قُنُوطاً ، وقَنِطَ يَقْنَطُ «3» . قال تعالی: فَلا تَكُنْ مِنَ الْقانِطِينَ [ الحجر/ 55] ، قال : وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ [ الحجر/ 56] ، وقال : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ [ الزمر/ 53] ، وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَؤُسٌ قَنُوطٌ [ فصلت/ 49] ، إِذا هُمْ يَقْنَطُونَ [ الروم/ 36] . ( ق ن ط ) القنوط ( مصدر ) کے معنی بھلائی سے مایوس ہونے کے ہیں اور یہ قنط ( ض ) وقنط ( س ) قناطا یعنی ہر دو ابواب سے استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَلا تَكُنْ مِنَ الْقانِطِينَ [ الحجر/ 55] آپ مایوس نہ ہوجئے ۔ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ [ الحجر/ 56] خدا کی رحمت سے ( میں مایوس کیوں ہونے لگا ۔ اس سے ) مایوس ہونا گمراہوں کا کام ہے ۔ يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ [ الزمر/ 53] اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَؤُسٌ قَنُوطٌ [ فصلت/ 49] اور اگر تکلیف پہنچتی ہے تو ناامید ہوجاتا ہے اور آس توڑ بیٹھتا ہے اور کبھی قنط کا لفظ طرٖد کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِذا هُمْ يَقْنَطُونَ [ الروم/ 36] تو ناامید ہوکر رہ جاتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) ولي والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے حمید إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، ( ح م د ) حمید اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور وہ ایسا ہے جو بارش سے ناامید ہوجانے کے بعد بارش برساتا ہے اور بارش کے ذریعے اپنی رحمت نازل کرتا ہے اور وہ کارساز ہے کہ ہر سال بارش برساتا ہے اور سب کاموں میں قابل تعریف ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ { وَہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْم بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ } ” اور وہی ہے جو بارش برساتا ہے اس کے بعد کہ لوگ مایوس ہوچکے ہوتے ہیں اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے۔ “ خشک سالی میں فصلوں کی آبیاری کا وقت ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر جب کسانوں کے دلوں میں مایوسی کے سائے گہرے ہونے لگتے ہیں تو اچانک اللہ کی رحمت کا ظہور ہوتا ہے اور بادل بارش کی نوید لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ { وَہُوَ الْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ } ” اور وہی ہے جو (اپنے بندوں کا) مددگار ہے اور وہ اپنی ذات میں آپ ستودہ صفات ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

49 Here, the word wali implies the Being who is the Governor of the affairs of all His creations, Who has taken the responsibility of fulfilling all the needs and requirements of His servants.

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :49 یہاں ولی سے مراد وہ ہستی ہے جو اپنی پیدا کردہ ساری مخلوق کے معاملات کی متولی ہے ، جس نے بندوں کی حاجات و ضروریات پوری کرنے کا ذمہ لے رکھا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:28) ینزل ملاحظہ ہو آیت سابقہ۔ الغیث : بارش۔ غاث یغیث غیث (باب ضرب) مصدر۔ اجوف یائی ہے۔ یہ فعل متعدی ہے۔ کہا جاتا ہے غاثنی : اس نے مجھ پر بارش کی۔ اس کے مشابہ لفظ غوث ہے جو اجوف دادی ہے۔ غوث سے اغاث یغیث (باب افعال) ماضی و مضارع آتا ہے۔ باب استفعال میں پہنچ کر دونوں کی شکل ظاہری ایک ہوجاتی ہے یعنی استغاث یستغیث مدد طلب کرنا۔ یا بارش طلب کرنا۔ قرآن مجید کی آیت وان یستغیثوا یغاثوا بماء کالمہل (18:29) میں دونوں معنی کا احتمال ہے یعنی جب دوزخی مدد طلب کریں یا پانی مانگیں گے تو پگھلے ہوئے تانبے کا پانی ان کو دیا جائے گا۔ یا پگھلے ہوئے تابنے کا پانی دے کر ان کی فریاد رسی کی جائے گی۔ یغاثوا فعل مجہول جمع مذکر غائب میں دونوں معنی ہوسکتے ہیں۔ مدد طلب کرنے کی صورت میں یہ اغاث (باب افعال) سے ہوگا اور دوسری صورت میں غاث یغیث (ضرب) سے۔ قنطوا ماضی جمع مذکر غائب قنوط اگرچہ جملہ ابواب اس سے مستعمل ہیں لیکن اعلیٰ یہی ہے کہ اس کو باب ضرب سے قرار دیا جائے کیونکہ من بعد ما قنطوا (آیت ہذا) میں ماضی فتح عین سے اور من یقنط (15:56) زیر سے ہے یا زبر سے (لیکن عام نسخہ جات میں یہ عین کلمہ کے زیر سے ہے اس صورت میں ماضی اور مضارع کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ باب فتح سے ہوگا) ۔ قنطوا وہ ناامید ہوگئے۔ ینشر : مضارع واحد مذکر غائب نشر (باب نصر) مصدر۔ وہ پھیلاتا ہے۔ پھیلائے گا۔ الولی ولایۃ (باب ضرب) سے مصدر فعیل کے وزن پر صفت مشبہ کا صیغہ ہے کارساز۔ دوست۔ مددگار۔ الحمید۔ ستودہ۔ صفات کیا گیا۔ سراہا ہوا۔ حمد باب سمع مصدر سے بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے بمعنی محمود سے اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی سے ہے کیونکہ وہی حقیقی طور پر مستحق حمد ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی مینہ برستا ہے اور زمین آباد ہوجاتی ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ لوگ سمجھ لیں کہ مینہ برسانا بھی صرف اللہ کے اختیار میں ہے اور پھر مایوسی کے بعد بارش کی خوشی بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ گویا بندوں کو شکر کی دعوت ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مراد آثار سے نباتات اور ثمرات ہیں۔ 2۔ پس اوپر کی تین صفتوں کے ساتھ تین صفتیں اور ثابت ہوئیں، رحیم، ولی، حمید۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو ” اللہ “ لوگوں کا رزق مقرر کرتا اور انہیں عطا کرتا ہے وہی آسمان سے بارش برساتا ہے۔ صرف ایک ” اللہ “ ہے جو لوگوں کے مایوس ہونے کے وقت آسمان سے بارش نازل کرتا ہے اور اس کے ذریعے اپنی رحمت بکھیر دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی لوگوں کا والی اور خیرخواہ ہے جو ہر تعر یف کے لائق ہے۔ اس کے سوا کوئی بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں برسا سکتا۔ بارش سراسر ” اللہ “ کی رحمت ہے۔ بالخصوص جب لوگ اس کے برسنے سے ناامید ہوجاتے ہی۔ تو پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں اور اس کے بعد موسلادھار بارش برستی ہے جس کے بارے میں ” یَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ “ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ” یَنْشُرُ “ کے لفظ پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہواؤں کے ذریعے کس طرح بخارات کو اٹھاتا اور ان کو بادلوں میں تبدیل کرتا ہے۔ پھر اس کے حکم سے بادل اس طرح ٹپکتے اور برستے ہیں کہ ہر چیز گرد غبار سے دھل جاتی ہے آج تک کبھی نہیں ہوا کہ بادل کسی آبشار یا پرنالے کی طرح ایک ہی جگہ پر پانی انڈیل دیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بادل اس طرح برستے ہیں جس طرح کسی فوارے سے پانی نکلتا ہے۔ اگر بادل ایک ہی دفعہ پانی انڈیل دیں تو کوئی بستی اور شہر باقی نہ رہے۔ بارش کے برسنے کا انداز اور اس کا پانی سراسر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کرشمہ ہے۔ بارش کا پانی ندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعے ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل ہوتا ہے۔ بارش اس قدر اپنے وجود میں اللہ تعالیٰ کی رحمت لیے ہوئے ہوتی ہے جس کے فوائد کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ البتہ چند فوائد ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ ہم بارش کی افادیت کو کسی حد تک سمجھ سکیں۔ 1 بارش سے پوری فضاصاف اور جراثیم سے پاک ہوجاتی ہے۔ 2 بارش سے موسم کی تلخی ختم ہوجاتی ہے اور فضا خوشگوار بن جاتی ہے۔ 3 بارش سے درختوں کا پتاپتا دھل جاتا ہے اور پھلوں میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے۔ 4 بارش سے نہ صرف دریاؤں اور جھیلوں میں پانی کی مقدار بڑھتی ہے بلکہ زمین کے اندر کا پانی بھی اوپر آجاتا ہے۔ 5 بارش سے انسان ہی نہیں بلکہ ہر جاندار چیز مستفید ہوتی ہے۔ 6 بروقت بارش سے فصلیں دوگنی ہونے کے ساتھ بجلی کی بچت ہوتی ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٢٨ یہ ایک دوسرا انداز ہے جو ان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ اس دنیا میں بندوں پر اللہ کے فضل وکرم کے کئی رنگ ہیں۔ بعض اوقات سخت خشک سالی ہوجاتی ہے ، بارشیں بند ہوجاتی ہیں اور وہ زندگی کی پہلی ضرورت کی فراہمی سے بھی عاجز آجاتے ہیں ، زندگی کی پہلی ضرورت پانی ہے۔ حال یہاں تک آپہنچتی ہے کہ یہ مایوس ہونے لگتے ہیں ، اس کے بعد اللہ بارشیں برسا دیتا ہے۔ ان کی حاجت پوری ہوتی ہے۔ اللہ کی رحمت پھیل جاتی ہے ، زمین زندہ اور سر سبز و شاداب ہوجاتی ہے۔ بیج پھوٹنے لگتے ہیں ، نباتات اٹھنے لگتے ہیں۔ فضا لطیف ہوجاتی ہے۔ اور ہر طرف زندگی حرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ چہرے کھل جاتے ہیں ، دل کھل جاتے ہیں ، امیدیں بڑھ جاتی ہیں اور امنگیں پوری ہوتی ہیں۔ یاد رہے کہ مایوسی اور امیدو رحمت کے درمیان پس چند لمحے ہوتے ہیں۔ چند لمحوں میں اللہ کی رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ آسمانوں کے دروازے پانی کھول دیتے ہیں۔ وھو الولی الحمید (٤٢ : ٢٨) ” اور وہی قابل تعریف ولی ہے “۔ وہ مددگار ، کفیل ہے اور اپنی ذات وصفات میں محمود ہے۔ یہاں قرآن مجید نے بارش کے لئے غیث کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس میں امداد اور داد رسی کا مفہوم شامل ہے۔ اس وقت امداد دینا جب لوگوں پر تنگی اور مصیبت ہو ، غیث ہے۔ اسی طرح اس مدد کے نتائج کو رحمت کا نام دیا۔ وینشر رحمتہ (٤٢ : ٢٨) ” اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے ، اس سے ترو تازگی ، سرسبزی ، امید اور خوشی کے معانی نکلتے ہیں۔ جو نباتا کے پھوٹنے سے ، اور پھلوں کے نکلنے سے ظاہری طور پر رحمت کے پھیلاؤ کی شکل میں نظر آتے ہیں جب بھی طویل خشک سالی کے بعد باران رحمت کا نزول ہوتا ہے تو لوگوں کی خوشی ، جسم اور اعصاب کی ترو تازگی اور قلب و شعور کا سرور قابل دید ہوتا ہے۔ ایسی خشک سالی کے بعد جب زمین نباتات سے سبز سبز ہوجاتی ہے تو انسانی دلوں سے تمام پریشانیاں دور ہوجاتی ہے۔ زمین مرونی کے بعد زندہ ہوجاتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

28:۔ ” وھو الذی ینزل “ یہ آیت پہلے دعوے سے متعلق ہے اور توحید پر پہلی عقلی دلیل ہے جب لوگ بارش سے نامید ہوجاتے ہیں اور انہیں خشک سالی کا اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے، اس وقت اللہ تعالیٰ ہی باران رحمت نازل فرما کر اپنی رحمت کو عام کردیتا ہے۔ وہی تمام صفات الوہیت کا مالک اور وہی سب کا کارساز ہے۔ ” ومن ایاتہ الخ “ اس کی وحدانیت اور قدرت کاملہ کے دلائل میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا اور زمین دی اور جب چاہے سب کو اکٹھا بھی کرسکتا ہے اور جس طرح اس نے سب کو پہلی بار پیدا کرلیا اسی طرح وہ موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ ” فیھما “ ان دونوں میں حالانکہ جس جاندار مخلوق پر لفظ دابہ صادق آتا ہے وہ صرف زمین پر ہے۔ جو چیز دونوں میں سے ایک پر ہو اس پر یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ چیز ان میں سے ایک پر ہو اس پر یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ چیز ان میں ہے جیسا کہ فرمایا یخرج منہما اللؤلؤ والمرجان، حالانکہ موتی اور مونگا دونوں سے نہیں نکلتے بلکہ صرف سمندر شور سے نکلتا ہے۔ اور اس کی تائید سورة بقرہ (رکوع 20) کی آیت سے ہوتی ہے اس میں ہے وبث فیہا من کل دابۃ وما فی احد الشیئین یصدق انہ فیہما فی الجملۃ، فالایۃ علی اسلوب (یخرج منہما اللؤلؤ والمرجان) وذلک لقولہ تعالیٰ فی البقرۃ (وبث فیہا من کل دابۃ) (روح ج 25 ص 39) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(28) اور وہی ہے جو لوگوں کے ناامید ہوئے پیچھے مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت عام طور پر پھیلاتا ہے اور وہی کارساز اور سزاوار حمدوثنا اور سب خوبیوں سراہا ہے۔ یعنی بسا اوقات لوگ بارش سے ناامید ہوجاتے ہیں تو وہ منہ برساتا ہے اور بارش کردیتا ہے اور اپنی رحمت کے نشانات عام طور سے پھیلاتا ہے یعنی نباتات کی بہتات ہوتی ہے پھول اور پھل بکثرت پیدا ہوتے ہیں یہی اس کی رحمت کے آثار اور نشانات ہیں بھی، ولی، کارساز حمید محمود بالصفات الکاملہ سب خوبیوں سے متصف اور سزاوار حمدوثنا ہے۔