Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 32

سورة الشورى

وَ مِنۡ اٰیٰتِہِ الۡجَوَارِ فِی الۡبَحۡرِ کَالۡاَعۡلَامِ ﴿ؕ۳۲﴾

And of His signs are the ships in the sea, like mountains.

اور دریا میں چلنے والی پہاڑوں جیسی کشتیاں اس کی نشانیوں میں سے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ships are also among the Signs of Allah Allah tells, وَمِنْ ايَاتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالاَْعْلَمِ And among His signs are the ships in the sea like mountains. Allah tells us that another sign of His great power and dominion is the fact that He has subjugated the sea so that ships may sail in it by His command, so they sail in the sea like mountains. This was the view of Mujahid, Al-Hasan, As-Suddi and Ad-Dahhak. In other words, these ships on the sea are like mountains on land.

سمندروں کی تسخیر قدرت الہی کی نشانی اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی قدرت کے نشان اپنی مخلوق کے سامنے رکھتا ہے کہ اس نے سمندروں کو مسخر کر رکھا ہے تاکہ کشتیاں ان میں برابر آئیں جائیں ۔ بڑی بڑی کشتیاں سمندروں میں ایسی ہی معلوم ہوتی ہیں جیسے زمین میں اونچے پہاڑ ۔ ان کشتیوں کو ادھر سے ادھر لے جانے والی ہوائیں اس کے قبضے میں ہیں اگر وہی چاہے تو ان ہواؤں کو روک لے پھر تو بادبان بیکار ہو جائیں اور کشتی رک کر کھڑی ہو جائے ہر وہ شخص جو سختیوں میں صبر کا اور آسانیوں میں شکر کا عادی ہو اس کے لئے تو بڑی عبرت کی جا ہے وہ رب کی عظیم الشان قدرت اور اس کی بےپایاں سلطنت کو ان نشانوں سے سمجھ سکتا ہے اور جس طرح ہوائیں بند کر کے کشتیوں کو کھڑا کر لینا اور روک لینا اس کے بس میں ہے اسی طرح ان پہاڑوں جیسی کشتیوں کو دم بھر میں ڈبو دینا بھی اس کے ہاتھ ہے اگر وہ چاہے تو اہل کشتی کے گناہوں کے باعث انہیں غرق کر دے ۔ ابھی تو وہ بہت سے گناہوں سے درگذر فرما لیتا ہے اور اگر سب گناہوں پر پکڑے تو جو بھی کشتی میں بیٹھے سیدھا سمندر میں ڈوبے لیکن اس کی بےپایاں رحمت ان کو اس پار سے اس پار کر دیتی ہے ۔ علماء تفسیر نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اسی ہوا کو ناموافق کر دے ۔ تیز و تند آندھی چلا دے جو کشتی کو سیدھی راہ چلنے ہی نہ دے ادھر سے ادھر کر دے سنبھالے نہ سنبھل سکے جہاں جانا ہے اس طرف جا ہی نہ سکے اور یونہی سرگشتہ و حیران ہو ہو کر اہل کشتی تباہ ہو جائیں ۔ الغرض اگر بند کر دے تو کھڑے کھڑے ناکام رہیں اگر تیز کر دے تو ناکامی ۔ لیکن یہ اس کا لطف و کرم ہے کہ خوشگوار موافق ہوائیں چلاتا ہے اور لمبے لمبے سفر ان کشتیوں کے ذریعہ بنی آدم طے کرتا ہے اور اپنے مقصد کو پالیتا ہے یہی حال پانی کا ہے کہ اگر بالکل نہ برسائے خشک سالی رہے دنیا تباہ ہو جائے ۔ اگر بہت ہی برسا دے تو تر سالی کوئی چیز پیدا نہ ہونے دے اور دنیا ہلاک ہو جائے ۔ ساتھ ہی مینہ کی کثرت طغیانی کا مکانوں کے گرنے کا اور پوری بربادی کا سبب بن جائے یہاں تک کہ رب کی مہربانی سے جن شہروں میں اور جن زمینوں میں زیادہ بارش کی ضرورت ہے وہاں کثرت سے مینہ برستا ہے اور جہاں کم کی ضرورت ہے وہاں کمی سے پھر فرماتا ہے کہ ہماری نشانیوں سے جھگڑنے والے ایسے موقعوں پر تو مان لیتے ہیں کہ ہماری قدرت سے باہر نہیں ۔ ہم اگر انتقام لینا چاہیں ہم اگر عذاب کرنا چاہیں تو وہ چھوٹ نہیں سکتے سب ہماری قدرت اور مشیت تلے ہیں ( فسبحانہ ما اعظم شانہ )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 سمندروں میں پہاڑوں جیسی کشتیاں اور جہاز اس کے حکم سے چلتے ہیں، ورنہ اگر وہ حکم دے تو سمندروں میں ہی کھڑے رہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ومن ایتہ الجوار فی البحر کالا غلام :” الجوار “” جاریۃ “ (چلنے والی) کی جمع ہے، یعنی کشتی یا بحری جہاز، جیسا کہ فرمایا :(انا لما طغا المآء حملنکم فی الجاریۃ) (الحاقۃ : ١١)” بیشک ہم نے ہی جب پانی حد سے تجاوز کر گیا تمہیں کشتی میں سوار کیا۔ “ (الاغلام “ ” علم “ کی جمع ہے، پہاڑ۔ اصل میں کوئی نشان جس سے کسی چیز کا علم ہو، مثلاً جھنڈا وغیرہ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے سمندر میں چلنے والے بحری جہاز بھی ہیں جو پہاڑوں کی طرح بلند ہیں اور دور سے نظر آتے ہیں۔ پانی میں مخصوص حجم اور وزن والی چیز کو اٹھائے رکھنے کی خاصیت اللہ واحد کی پیدا کردہ ہے، جس کی وجہ سے وہ ہز اورں لاکھوں ٹن کے بحری جہازوں کو اپنے سینے پر اٹھائے رکھتا ہے، جن سے تم بیشمار منافع حاصل کرتے ہو۔ یہاں جہازوں کے لئے ” الفلک “ کے بجائے ” الجوار “ کے لفظ کے ساتھ اس نعمت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ ان جہازوں کو پانی میں ڈوبنے سے بچائے رکھنے کے ساتھ انھیں پانی میں چلانے کی نعمت پر بھی غور کرو، اگر یہ نعمت نہ ہوتی تو جس طرح خشک زمین پر کھڑی عمارتیں اگرچہ زمین میں نہیں دھنستیں، مگر جتنی بھی تیز ہوا آجائے ایک انچ بھی ادھر سے ادھر نہیں ہوتیں، اسی طرح یہ جہاز بھی پانی پر کھڑی رہتے۔ تو کوئی اور ہے تو لاؤ جو کہے کہ میں نے سمندر کو پیدا کیا ، یا پانی میں یہ تاثیر رکھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید و قدرت کی اس نشانی اور عظیم نعمت کا متعدد مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة یٰسین پانی میں یہ تاثیر رکھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید و قدرت کی اس نشانی اور عظیم نعمت کا متعدد مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة یٰسین (٤١ تا ٤ ر) ، بقرہ (١٦٤) ، نحل (١٤) اور سورة فاطر (١٢)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنْ اٰيٰتِہِ الْجَـــوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِ۝ ٣٢ ۭ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة «2» ، إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] . ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔ بحر أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر : 39- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره . ( ب ح ر) البحر ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ عَلَمُ : الأثر الذي يُعْلَمُ به الشیء کعلم الطّريق وعلم الجیش، وسمّي الجبل علما لذلک، وجمعه أَعْلَامٌ ، وقرئ : ( وإنّه لَعَلَمٌ للسّاعة) «1» وقال : وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] ، وفي أخری: وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الرحمن/ 24] . والشّقّ في الشّفة العلیا عَلَمٌ ، وعلم الثّوب، ويقال : فلان عَلَمٌ ، أي : مشهور يشبّه بعلم الجیش . وأَعْلَمْتُ كذا : جعلت له علما، ومَعَالِمُ الطّريق والدّين، الواحد مَعْلَمٌ ، وفلان معلم للخیر، والعُلَّامُ : الحنّاء وهو منه، العلم ۔ ایسا نشان جس سے کوئی نشے پہچانی جاسکے جیسے علم الطریق اس نشان کو کہتے ہیں جو راستہ کی پہچان کے لئے اس میں کھڑا کردیا جاتا ہے اور فوج کی پہچان ہوجاتی ہے ۔ چناچہ ایک قرءات ( میں عیسٰی (علیہ السلام) کو ) وإنّه لَعَلَمٌ للسّاعة) کہا گیا ہے یعنی وہ قیامت کی نشانی ہیں ۔ اور اسی معنی کے اعتبار سے پہاڑ کو بھی علم کہا جاتا ہے اس کی جمع اعلام ہے قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] اور اس کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں جو گویا پہاڑ ہیں ۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا : ۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الرحمن/ 24] اور جہاز بھی اسی کے ہیں جو دریا میں پہاڑوں کی طرح اونچے کھڑے ہوتے ہیں نیز اوپر کے ہونٹ کے شگاف اور کپڑے کے نقش ونگار کو بھی علم کہا جاتا ہے اور محاورہ ہے : فلان علم فلان مشہور ومصروف ہے جھنڈے کے ساتھ تشبیہ کے اعتبار سے یہ معنی مراد ہوتا ہے ۔ اعلمت کذا کے معنی کسی چیز پر نشان لگا نا کے ہیں اور معالم الطریق اولدین میں معالم کا وحد معلم ہے اور معلم اس نشان کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کی پہچان ہو ہو سکے محاورہ ۔ فلان معلم للخیر فلان خیروبرکت کا نشان ہے ۔ العلام مہندی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٢۔ ٣٣) اور منجملہ اس کی وحدانیت اور قدرت کی نشانیوں میں سے پہاڑوں کی طرح اونچے جہاز ہیں اگر وہ چاہے تو اس ہوا کو ٹھہرا دے جس سے وہ جہاز چلتے ہیں تو پھر وہ سمندر کی سطح پر کھڑے ہی رہ جائیں۔ ان مذکورہ باتوں میں اطاعت خداوندی پر ثابت قدم رہنے والے اور نعمت خداوندی کا شکر کرنے والے کے لیے نشانیاں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ { وَمِنْ اٰیٰتِہِ الْجَوَارِ فِی الْْبَحْرِکَالْاَعْلَامِ } ” اور اس کی نشانیوں میں سے سمندروں میں (چلنے والے) پہاڑوں کے مانند جہا زبھی ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:32) الجوار : جاریۃ کی جمع اصل میں جاریۃ کی جمع جواری یاء کو بطور زائد حزف کیا گیا ہے ۔ کشتیاں ۔ جہاز۔ جاریۃ اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث ہے۔ جری (باب ضرب) مصدر سے۔ چلنے والی۔ جاری ۔ بہنے والی۔ چونکہ کشتی پانی کی سطح پر ثلتی ہے۔ اس لئے جاریۃ کہلاتی ہے۔ کالاعلام : علم کی جمع۔ پہاڑ۔ علم اصل میں اس علامت کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ سے کسی شے کا علم ہوسکے۔ جیسے نشان راہ کے پتھر۔ اور فوج کا علم اس اعتبار سے پہاڑوں کا نام بھی علم ہوگیا۔ ایک آیت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو علم کہا گیا ہے وانہ لعلم للساعۃ (43:61) بیشک وہ (یعنی حضرت عیسی) قیامت کی نشانی ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس اللہ کو کوئی عاجز اور بےبس نہیں کرسکتا۔ اسی کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ سمندر میں پہاڑوں کی طرح لمبے، چوڑے اور بلندو بالاجہاز دوڑے پھر رہے ہیں۔ قرآن مجید نے متعدد آیات میں سمندر میں چلنے والی کشتیوں کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ قرار دیا ہے اور کشتیوں میں سفر کرنے والوں کو اس بات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے۔ غور کرو ! کہ جو پانی ایک سوئی کا بوجھ برداشت نہیں کرتا وہی پانی ہزاروں ٹن کا بوجھ اٹھائے ہوئے بحری جہازوں اور کشتیوں کو سمندر کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچاتا ہے۔ نزول قرآن کے زمانے میں بادبانی کشتیاں ہوتی تھیں جن کی چوٹیاں دور سے پہاڑوں کی طرح دکھائی دیتی تھیں۔ ان کشتیوں کا دارومدار باد موافق پر تھا۔ اگر کسی وقت ہوا کا رخ مخالف ہوجاتا تو کئی کئی دن تک کشتیاں سمندر کے سینے پر ٹھہری رہتی تھیں۔ بسا اوقات باد مخالف اس قدر تیز اور زور آور ہوتی کہ کشتی کے ملّاح اور اس کے ساتھیوں کو پتوار کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا۔ کشتی میں سفر کرنے والے لوگوں کو اپنی جان کے لالے پڑجاتے اور وہ سب کچھ بھول کر صرف ایک الٰہ کو پکارنے پر مجبور ہوتے تھے۔ اس صورت حال کے بارے میں بتلایا جارہا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کشتیوں کو سمندر کے پانی پر جامد کردے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جو کشتی کو ساحل سمندر تک پہنچا سکے۔ اگر وہ چاہے تو لوگوں کے باطل نظریات اور برے اعمال کی وجہ سے کشتی کو غرق کردے۔ لیکن یہ اس کا کرم اور حوصلہ ہے کہ لوگوں کی بغاوت کے باوجود ان کی اکثر خطاؤں سے در گزر کرتا ہے۔ کشتیوں کی آمد روفت میں صابر اور شکرگزار لوگوں کے لیے بہت ساسامان عبرت ہے۔ صابر اور شکرگزار لوگوں کی طرف اشارہ فرماکریہ حقیقت واضح کی ہے کہ عبرت وہی شخص حاصل کرسکتا ہے جو مشکل کے وقت صبر کرتا ہے اور آسانی کے وقت اپنے رب کا شکرگزار ہوتا ہے۔ جہاں تک موجودہ ٹیکنالوجی اور جہادرانی کا معاملہ ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ ہزاروں (HORSE POWER) رکھنے والے بحری جہاز ہزاروں ٹن بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے یہ اس طرح ہی بےبس ہیں جس طرح بادبانی کشتیاں بےبس ہوجایا کرتی تھیں۔ سمندر میں طغیانی اور طوفان ہو تو آج بھی بحری جہاز کئی کئی دن تک سمندر میں جامد اور ساکت کھڑے رہتے ہیں۔ کپتان اور اس کا عملہ اسی طرح بےبس ہوجاتا ہے جس طرح پرانے زمانے کے ملّاح بےبس ہوجایا کرتے تھے۔ آج بھی جہاز پانی میں غرقاب ہوجاتے ہیں اور آبدوزیں سمندر کی تہہ میں ڈوب جاتی ہیں۔ انہیں کوئی بھی بچانے والا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اکثراوقات ان کا ملبہ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ بڑی بڑی ترقی یافتہ حکومتیں بھی بےبس دکھائی دیتی ہیں۔ اسی بنا پر فرمایا ہے کہ جو لوگ ” اللہ “ کی آیات کے ساتھ جھگڑتے اور ان کا انکار کرتے ہیں وہ جان لیں کہ جس طرح وہ دنیا میں بےبس ہوجاتے ہیں اس سے ہزار گناہ زیادہ قیامت کے دن بےبس ہونگے اور جہنم کے عذاب سے چھٹکارا نہیں پائیں گے۔ مسائل ١۔ سمندروں میں بحری جہاز اور کشتیوں کا چلنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ چاہے توجہازوں اور کشتیوں کو سمندر میں جامد اور ساکت کردے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی بہت سی غلطیوں سے درگزر فرما دیتا ہے۔ ٤۔ اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑنے والے لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ وہ اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ تفسیر بالقرآن قرآن میں کشتیوں کا تذکرہ : ١۔ کشتیوں کا غرق ہونے سے بچنا اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ (یٰسٓ: ٤٣، ٤٤) ٢۔ سمندر میں کشتیوں کا چلنا ” اللہ “ کی قدرت کی نشانی ہے۔ (البقرۃ : ١٦٤) ٣۔ کشتیاں دریاؤں میں ” اللہ “ کے حکم سے چلتی ہیں۔ (الحج : ٦٥) ٤۔ اللہ نے کشتیوں، نہروں، چاند، سورج، دن اور رات کو تمہارے لیے مسخر کردیا ہے۔ (ابراہیم : ٣٢۔ ٣٣) ٥۔ جب وہ کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں۔ (العنکبوت : ٦٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٣٢ تا ٣٥ پہاڑوں کی طرح دریاؤں میں چلنے پھرنے والے بحری جہاز اللہ کی نشانیوں میں سے مزید نشانیاں ہیں۔ یہ نشانی بھی حاضر و مشہود ہے۔ یہ نشانی ایسی ہے جو اللہ کی بنائی ہوئی نشانیوں میں سے کئی نشانیوں پر قائم ہے اور اس میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ یہ سمندر ، اللہ کے سوا کون ہے جس نے اسے بنایا ؟ انسانوں نے اسے بنایا اور نام نہاد الہٰوں نے ۔ کون ہے جس نے اسے یہ گہرائی ، یہ کثافت اور یہ وسعت دی کہ وہ بڑی بڑی کشتیوں اور جہازوں کے اٹھانے کے قابل ہوگیا۔ پھر جس مواد سے کشتیاں بنتی ہیں ، اس مواد میں ایسی خصوصیت کس نے رکھی کہ وہ سطح سمندر پر تیرتا پھرے اور پھر یہ ہوا جو اس وقت ان بحری جہازوں کو چلاتی تھی اور اس وقت کے مخاطب جانتے تھے اور ہمارے دور میں وہ تمام قوتیں جن کو اللہ نے انسانوں کے لئے مسخر کیا ہے اور وہ انہیں عظیم الجثہ جہازوں کے چلانے کے لئے کام میں لاتے ہیں۔ یہ قوتیں کس نے پیدا کیں جو جدید دے جدید پہاڑوں جیسے جہازوں کو چلاتی ہیں۔ ان یشا یسکن الریح فیظللن رواکد علی ظھرہ (٤٢ : ٣٣) “ اللہ جب چاہے ، ہوا کو ساکن کر دے اور یہ سمندر کی پیٹھ پر کھڑے کے کھڑے رہ جائیں ”۔ اور بعض اوقات یہ جہاز اس طرح کھڑے رہ جاتے تھے جسے ان کے اندر کوئی زندگی نہیں ہے۔ ان فی ذلک لایت لکل صبار شکور (٤٢ : ٣٣) “ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لئے جو کمال درجے صبر و شکر کرنے والا ہو ”۔ یعنی ان جہازوں کے چلانے میں اور ان کے کھڑے کرنے میں نشانیاں ہیں۔ قرآن کریم میں بسا اوقات صبر اور شکر ساتھ ساتھ آتے ہیں۔ صبر ابتلا پر ہوتا ہے اور شکر نعمتوں پر ہوتا ہے ، خوشی اور غم اور صبر اور شکر دونوں انسانی نفسیات میں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ او یوبقھن بما کسبوا (٤٢ : ٣٤) “ یا ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں ڈبو دے ”۔ ان کشتیوں کو پاش پاش کر دے یا ان کو غرق کر دے ، اس وجہ سے کہ لوگوں نے گناہوں اور معاصی کا ارتکاب کیا۔ انہوں نے ایمان کی مخالفت کی حالانکہ اللہ کی تمام مخلوقات مومن ہے انسانوں میں سے بعض لوگ انکار کرتے ہیں۔ ویعف عن کثیر (٤٢ : ٣٤) “ اور اللہ بہت سے گناہوں سے در گزر کرتا ہے ”۔ اس لیے وہ لوگوں کو قدم قدم پر ان کے ہر گناہ پر نہیں پکڑتا بلکہ در گزر فرماتا ہے اور معاف کردیتا ہے۔ ویعلم الذین یجادلون فی ایتنا مالھم من محیص (٤٢ : ٣٥) “ اور اس وقت ہماری آیات میں جھگڑا کرنے والوں کو پتہ چل جائے کہ ان کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے ”۔ اور اگر اللہ چاہتا تو ان کو اپنے عذاب کے سامنے لا کھڑا کرتا ، ان کی کشتیاں غرق کردیتا اور نہ نجات نہ پا سکتے۔۔۔۔۔ یوں ان کو یہ بات سمجھائی جاتی ہے کہ وہ اس دنیا کے جس سازو سامان اور کاروبار کے مالک ہیں ، وہ بھی اللہ کی ہلاکت کی زد میں ہیں۔ لہٰذا دنیا میں کسی چیز کے لئے قرار و ثبات نہیں ، ماسوائے تعلق باللہ کے۔ ٭٭٭ اس کے بعد ان کو ذرا اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ اس دنیا میں ان کو جو سازوسامان دیا گیا ہے ، ذرا اس پر نگاہ ڈالیں کہ یہ کس قدر مختصر وقت کے لئے ہے۔ اور اصل باقی رہنے والی چیز اور دولت وہی ہے جو اللہ کے ہاں ذخیرہ کی گئی ہے۔ اور یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو ایمان لاتے ہیں اور رب تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں ۔ یہ بیان آگے جاتا ہے اور اہل ایمان کی صفات گنواتا ہے جو ان کو ایک امت بنا دیتی ہیں ، جس کے الگ خدو خال ہوتے ہیں اور وہ امت تمام امتوں سے ممتاز ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

30:۔ ” ومن ایتہ الجوار “ یہ بظاہر تو اللہ کی قدرت کاملہ اور اس کی وحدانیت کے دلائل ہیں، لیکن اس میں تخویف دنیوی کا پہلو بھی نمایاں ہے۔ پہاڑوں کی مانند بلند بحری جہاز اور بادبانی کشتیاں جو سمندروں اور دریاؤں میں چلتی ہیں، اللہ کی قدرت کاملہ کی واضح دلیل ہے۔ ” ان یشا یسکن الریح “ اگر وہ چاہے تو ہوا کو ساکن کردے اور کشتیاں دریا کی سطح پر کھڑی رہیں۔ ہر و شخص جو مصائب پر صابر ہو اور خوشحالی میں شکر گذار ہو، اس کیلئے اس میں اللہ کی قدرت و عظمت کے واضح دلائل ہیں۔ ان المؤمنین لایخلو من ان یکون فی السراء والضراء، فان کان فی الضراء کان من الصابرین وان کان فی السراء کان من الشاکرین (کبیر) ۔” او یوبقہن الخ ‘ یہ یسکن پر معطوف ہے (روح) اور بوجہ جزم واؤ ساقط ہے یا یوبق کا معطوف علیہ محذوف ہے۔ یعصہن یا یر سلہا عاصفۃ (روح) اس طرح یہ علفتہا تبنا و ماء باردا کے قبیل سے ہوگا لیکن یظلن پر معطوف نہیں ہوسکتا۔ ، کیونکہ ہلاکت کا تعلق سکون ریح سے نہیں ہوسکتا۔ ” و یعلم الخ “ یہ معطوف علیہ مقدر پر معطوف ہے۔ ای لینتقم منہم یا لیظھر عظیم قدرتہ (روح) تاکہ وہ مجرموں سے انتقام لے یا اپنی قدرت کاملہ کو ظاہر کرے اور ہماری آیتوں میں جدال کرنے والوں اور توحید میں اختلاف ڈالنے والوں کو یعنی ان باغیوں کو جنہوں نے توحید کے خلاف لکھا ہے اور ان کو جنہوں نے باغیوں کی تحریروں کو پڑھ کر غیر اللہ کو پکارنا شروع کردیا یقین ہوجائے کہ عذاب الٰہی سے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ ” فما اوتیتم الخ “ تخویف دنیوی کے بعد فرمایا کہ تم اس دنیا کی چند روزہ زندگی پر مغرور نہ رہو یہ آخرت کے مقابلے میں ہیچ ہے آؤ ایمان قبول کرو اللہ کے حکمنامے کو مان لو تاکہ آخرت کے عذاب سے بچ جاؤ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(32) اور اسی کے نشانہائے قدرت میں سے چلنے والے ووہ جہاز جو ایسے ہیں جیسے پہاڑ۔