Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 35

سورة الشورى

وَّ یَعۡلَمَ الَّذِیۡنَ یُجَادِلُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا ؕ مَا لَہُمۡ مِّنۡ مَّحِیۡصٍ ﴿۳۵﴾

And [that is so] those who dispute concerning Our signs may know that for them there is no place of escape.

اور تاکہ جو لوگ ہماری نشانیوں میں جھگڑتے ہیں وہ معلوم کرلیں کہ ان کے لئے کوئی چھٹکارا نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And those who dispute as regards Our Ayat may know that there is no place of refuge for them. means, they have no means of escape from Our torment and vengeance, for they are subdued by Our power.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 یعنی اللہ کے عذاب سے وہ کہیں بھاگ کر چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] یعنی اللہ کی آیات میں جھگڑا کرنے والے منکرین کو اس دنیا میں بھی ایسا حادثہ پیش آسکتا ہے کہ کوئی جائے پناہ کہیں نہ مل سکے جیسے مثلاً سمندری سفر میں۔ آخرت میں تو یہ لوگ اور بھی زیادہ بےبس اور لاچار ہوں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ویعلم الذین یجادلون فی ایتنا …: یہاں سوال ہے کہ ” یعلم “ پر نصب کیوں ہے اور ” واؤ “ کے ساتھ عطف کس پر ڈالا گیا ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اس جملے کا عطف ایک محذوف جملے پر ہے، جس میں اس بات کی علت بیان کی گئی ہے کہ ہوائیں جہازوں کے لئے کبھی موافق، کبھی شدید ترین مخالف اور کبھی ساکن کیوں ہوتی ہیں اور ” یعلم “ پر نصب ” لام کی “ کی وجہ سے آیا ہے جس کے بعد ” ان “ ناصبہ مقدر ہوتا ہے۔ گویا پوری عبارت اس طرح ہے :” اللہ فعل ذلک لیعتبر المومنون و لیعلم الذین یجادلون فی آیاتنا “ یعنی اللہ تعالیٰ نے کشتیوں اور ہواؤں کا یہ معاملہ اس لئے ذکر فرمایا ہے تاکہ مومن اس سے عبرت حاصل کریں اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلانے کے لئے جھگڑا کرتے ہیں وہ جان لیں کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بھاگ کر جانے کی کوئی جگہ نہیں۔ ہوسکتا ہے یہ جاننے کے بعد وہ اللہ کی آیات پر ایمان لے آئیں۔ بعض مفسرین نے محذوف جملے کے لئے اس سے مختلف الفاظ بھی ذکر فرمائے ہیں، مقصد سب کا یہی ہے کہ ” ویعلم الذین یجادلون فی ایتنا “ میں گزشتہ چیزوں کی علت بیان ہوئی ہے۔ لعت والے جملے کے حذف کی قرآن مجید میں کئی مثالیں ملتی ہیں، جیسے فرمایا :(ولنجعلہ ایۃ للناس) (مریم : ٢١)” اور تاکہ ہم اسے لوگوں کے لئے بہت بڑی نشانی بنائیں۔ ” اور جیسے فرمایا :(وخلق اللہ السموت والارض بالحق و لتجری کل نفس بما کسبت) (الجائبۃ : ٢٢)” اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور تاکہ ہر شخص کو اس کا بدلا دیا جائے جو اس نے کمایا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّيَعْلَمَ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا۝ ٠ ۭ مَا لَہُمْ مِّنْ مَّحِيْصٍ۝ ٣٥ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا جدل الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] ( ج د ل ) الجدال ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ حاص قال تعالی: هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق/ 36] ، وقوله تعالی: ما لَنا مِنْ مَحِيصٍ [إبراهيم/ 21] ، أصله من حَيْص بيص أي : شدّة، وحَاصَ عن الحقّ يَحِيصُ ، أي : حاد عنه إلى شدّة ومکروه . وأمّا الحوص فخیاطة الجلد ومنه حصت عين الصّقر . ( ح ی ص ) حاص ( ض ) عن الحق کے معنی حق سے بھاگ کر شدت ومکروہ کی طرف جانے کے میں قرآن میں ہے : ۔ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق/ 36] کہ کہیں بھاگنے کی جگہ ہی : ما لَنا مِنْ مَحِيصٍ [إبراهيم/21] کوئی جگہ گریز اور رہائی ہمارے لئے نہیں ہے ۔ یہ اصل میں حیص وبیص سے ہے جس کے شدت اور سختی کے ہیں مگر الحوص ( وادی ) ہو تو اس کے معنی چمڑا سلنا ہوتے ہیں اور اسی سے حصت عین الصقر کا محاورہ ہے جس کے معنی صقرۃ کی آنکھیں سی دینے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تاکہ ان لوگوں کو معلوم ہوجائے جو کہ رسول اکرم کی تکذیب کرتے ہیں کہ عذاب خداوندی کے مقابلہ میں کہیں جائے پناہ نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٥ { وَّیَعْلَمَ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا مَا لَہُمْ مِّنْ مَّحِیْصٍ } ” اور تاکہ جان لیں وہ لوگ جو ہماری آیات میں کٹ حجتی کر رہے ہیں کہ ان کے لیے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

54. The Quraish, in connection with their business and trade, had also to visit Habash and the coastal lands of Africa, and in these journeys they used sailing ships and boats for crossing the Red Sea, which is a very dangerous sea. It is generally stormy and abounds in submerged rocks which are a serious hazard for navigation especially during the storms. Therefore, the state that has been depicted here by Allah could be fully realized by the people of the Quraish in the light of their personal experiences.

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :54 قریش کے لوگوں کو اپنے تجارتی کاروبار کے سلسلے میں حبش اور افریقہ کے ساحلی علاقوں کی طرف بھی جانا ہوتا تھا ، اور ان سفروں میں وہ باد بانی جہازوں اور کشتیوں پر بحر احمر سے گزرتے تھے جو ایک بڑا خطرناک سمندر ہے ۔ اس میں اکثر طوفان اٹھتے رہتے ہیں اور زیر آب چٹانیں کثرت سے ہیں جن سے طوفان کی حالت میں ٹکرا جانے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ اس لیے جس کیفیت کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے یہاں کھینچا ہے اسے قریش کے لوگ اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں پوری طرح محسوس کر سکتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:35) یعلم۔ مضارع منصوب واحد مذکر غائب تعلیل محذوف پر عطف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ تقدیر کلام ہے لینتقم منھم ویعلم : اس کا فاعل الذین یجادلون فی ایتنا ہے۔ یعنی اگر وہ چاہے تو ان کے کرتوتوں کے سبب ان سے انتقام لینے کے لئے ان کو ہلاک کر دے اور وہ جو اللہ تعالیٰ کی آیات میں جھگڑا کرتے ہیں جان لیں کہ ۔۔ الذین اسم موصول یجادلون فی ایتنا اس کا صلہ۔ دونوں مل کر فاعل یعلم فعل ۔ مالہم من محیس مفعول ۔ یجادلون مضارع جمع مذکر غائب۔ مجادلۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ وہ جھگڑا کرتے ہیں۔ محیص اسم ظرف مکان۔ پناہ لینے کی جگہ۔ لوٹنے کی جگہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : ” جو لوگ ہر چیز اپنی تدبیر سے سمجھتے ہیں اس وقت ( سمندر میں ڈوبتے وقت) عاجز رہ جائیں گے۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَّ يَعْلَمَ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْۤ اٰيٰتِنَا ١ؕ مَا لَهُمْ مِّنْ مَّحِيْصٍ ٠٠٣٥﴾ (اور جب کشتی والوں کی ہلاکت ہونے لگے تو وہ لوگ جان لیں جو ہماری آیتوں میں جھگڑے کرتے ہیں کہ ان کے لیے بچاؤ کی کوئی جگہ نہیں ہے جو لوگ قرآن کو اللہ کی کتاب نہیں مانتے مشرک ہیں بتوں کی دہائی دیتے ہیں ان کے سامنے جب کشتیوں اور کشتیوں میں سوار ہونے والوں کی تباہی کا منظر سامنے آجائے تو وہ سمجھ لیں کہ اللہ کے عذاب سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں اور غیر اللہ کو پکارنے کا کوئی نفع نہیں۔ قال البغوی فی معالم التنزیل ﴿وَ يَعْلَمَ﴾ قرأ اھل المدینة والشام ﴿وَیَعْلَمُ﴾ برفع المیم علی الاستئناف کقولہ عزوجل فی سورة برأة ﴿وَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ ﴾ وَقرَأ الاٰخرون بالنصب علی الصرف والجزم اذا صرف عنہ معطوفہ نصب، وھو کقولہ تعالیٰ ﴿وَ يَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ﴾ صرف من حال اجزم الی النصب استخفافًا وکراھیة لتوالی الجزم۔ (علامہ بغوی (رض) نے معالم التنزیل میں کہا ہے ﴿وَ يَعْلَمَ﴾ کو مدینہ اور شام کے قراء نے ﴿وَیَعْلَمُ﴾ میم کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اس لیے یہ نیا جملہ ہے جیسا کہ سورة براءۃ میں ہے ﴿وَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ ﴾ اور دوسروں نے نصب کے ساتھ پڑھا ہے صرف کی بنیاد پر کیونکہ جب جزم سے اس کا معطوف پھیرا جاتا ہے تو نصب دی جاتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَ يَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ﴾ ہے۔ جزم سے نصب کی طرف اس لیے پھیرا گیا ہے تاکہ تخفیف بھی ہوجائے اور مسلسل دو جز میں بھی نہ آئیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(35) اور وہ لوگ جو ہماری نشانیوں میں جھگڑتے اور خواہ مخواہ کے جھگڑے نکالا کرتے ہیں ان کو یہ بات معلوم ہوجائے کہ ان کے لئے کہیں بھاگنے اور بچ نکلنے کی جگہ نہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ بات کہ پانی اور لکڑی کا ایسا جوڑ لگا دیا کہ لکڑی پانی پر تیرتی ہے اور پانی اس کو ڈبوتا نہیں جس کی وجہ سے بڑے بڑے جہاز بنا کر لوگ پانی میں سفر کرتے ہیں اور جہاز بھی ایسے بڑے بڑے بناتے ہیں جیسے پہاڑ۔ جب یہ جہاز پانی میں چلتے ہیں تو ہوائیں چلتی ہیں تاکہ ہوائیں ان جہازوں کو جلدی سے جائیں یا آج کل اسٹیم سے چلتے ہیں جس کو بھاپ کہتے ہیں۔ بہرحال اگر وہ چاہے تو ہوا کو روک دے اور اسٹیم کی طاقت کو سلب کرلے اور بھاپ کو بیکار کردے پھر یہ جہاز بجائے چلنے کے سطح سمندر پر کھڑے رہ جائیں اس میں ہر صابر اور ہر شاکر کے لئے نشانیاں ہیں اور توحید الٰہی کے دلائل ہیں صابر اور شاکر سے مومن مراد ہیں کیونکہ یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے سبق حاصل کرتے ہیں یا یہ کہ ان جہازوں کو بالکل تباہ کردے اور بیٹھنے والے اپنے گناہوں کی وجہ سے غرق کردیئے جائیں اور بہتوں کو معاف فرمادے اور اس وقت غرق نہ کرے ان کو پھر کسی اور سفر میں غرق کرے یا آخرت میں عذاب کرے یا خشکی میں کسی اور عذاب سے ہلاک کردے جیسا کہ بنی اسرائیل میں گزر چکا ہے اور ہماری نشانیوں اور ہماری قدرتوں میں بلاوجہ جھگڑنے والوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ان کو کہیں بچ کر نکلنے کی شکل نہیں ہے اور کہیں بھاگنے کا موقعہ نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جو لوگ ہر چیز کو اپنی تدبیر سمجھتے ہیں اس وقت عاجز ہوجائیں گے۔ خلاصہ : یہ کہ جن لوگوں کو اپنی تدبیر پر ناز ہے وہ عاجز ہوجائیں اور ان کی کوئی تدبیر کار گرنہ ہو جیسا کہ ہم اس ترقی یافتہ دور میں بھی روزمرہ دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں۔