Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 37

سورة الشورى

وَ الَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ وَ اِذَا مَا غَضِبُوۡا ہُمۡ یَغۡفِرُوۡنَ ﴿ۚ۳۷﴾

And those who avoid the major sins and immoralities, and when they are angry, they forgive,

اور کبیرہ گناہوں سے اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں اور غصے کے وقت ( بھی ) معاف کر دیتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَايِرَ الاْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ ... And those who shun the greater sins, and Al-Fawahish, We have already discussed sin and Al-Fawahish in Surah Al-A`raf. ... وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ and when they are angry, they forgive. means, their nature dictates that they should forgive people and be tolerant. Vengeance is not in their nature. It was reported in the Sahih that the Messenger of Allah never took revenge for his own sake, only when the sacred Laws of Allah were violated.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یعنی لوگوں سے عفو و درگزر کرنا ان کے مزاج و طبیعت کا حصہ ہے نہ کہ انتقام اور بدلہ لینا جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں آتا ہے ' نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ذات کے لئے کبھی بدلہ نہیں لیا، ہاں اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کا توڑا جانا آپ کے لئے ناقابل برداشت تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٣] بڑے بڑے گناہوں کی تفصیل کے لیے سورة نساء کی آیت نمبر ٣١ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے : [٥٤] فحاشی اور اس کا دائرہ :۔ فحاشی سے مراد ہر وہ کام ہے جو انسان کی قوت شہوانیہ سے تعلق رکھتا ہو۔ اسلام نے جنسی چھیڑ چھاڑ اور حاجت پوری کرنے کے لیے شرعی نکاح کی راہ کھول دی ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی طریقے ممکن ہیں ان سب پر پابندی لگا دی ہے۔ مثلاً زنا، اغلام، لواطت، مشت زنی، عورتوں کی عورتوں سے ہمبستری۔ جانوروں سے بدفعلی وغیرہ۔ سب حرام اور بدترین جرم ہیں۔ اور ان سب کو (فَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ 19؀) 4 ۔ النسآء :19) کہا جاتا ہے اور جو باتیں زنا سے قریب لے جانے والی ہیں وہ سب فواحش میں داخل ہیں۔ مثلاً بدنظری یا غیر محرم کی طرف دیکھنا، عورتوں کا اپنی زینت اور حسن کے مقامات کی کھلے بندوں نمائش کرنا۔ آزادانہ اختلاط مرد و زن، فحش گالی گلوچ، غیر مرد اور غیر عورت کی خلوت، یا عورتوں کا بغیر محرم کے سفر کرنا وغیرہ وغیرہ۔ علاوہ ازیں فحش قسم کی خبروں کو پھیلانا بھی فحاشی میں داخل ہے آج کل فحاشی کی اشاعت کی اور بھی بہت سی صورتیں پیدا ہوچکی ہیں۔ مثلاً تھیٹر، سنیما گھر، کلب ہاؤس، ہوٹل، ریڈیو پر زہد شکن گانے، ٹیوی پر شہوت انگیز پروگرام، فحاشی پھیلانے والا لٹریچر، ناول، افسانے اور ڈرامے وغیرہ۔ اخبارات و اشتہارات وغیرہ میں عورتوں کی عریاں تصاویر۔ غرضیکہ فحاشی کی اشاعت کا دائرہ آج کل بہت وسیع ہوچکا ہے۔ ایمانداروں کا کام یہ ہے کہ ایسے فحاشی کے سب کاموں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بچنے کی تلقین کریں۔ [٥٥] غصہ اور اس کا جائز استعمال :۔ اس جملہ میں قوت غضبیہ پر کنٹرول میں رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ غصہ میں عموماً آدمی کی عقل پر جذبات غالب آجاتے ہیں اور بعض دفعہ وہ ایسی غلط حرکتیں کر بیٹھتا ہے جن پر اسے بعد میں سخت ندامت ہوتی ہے۔ مومن کی سرشت انتقامی نہیں ہوتی وہ اپنی ذات سے متعلق انتقام کے معاملہ میں اللہ سے ڈر کر درگزر اور چشم پوشی سے کام لیتے ہیں اور اگر کسی بات پر غصہ آجائے تو اسے پی جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ غصہ اتنی بری چیز نہیں کہ انسان کو کسی وقت بھی نہ آئے بلکہ جہاں دین کی تضحیک ہو رہی ہو اللہ کی آیات کا مذاق اڑایا جارہا یا خلاف شرع کام ہو رہا ہو وہاں انسان کو غصہ آنا ہی چاہئے۔ غصہ اگر کلیتاً بری ہی چیز ہوتی تو اللہ اسے پیدا ہی نہ کرتا۔ اسے ہم دوسرے الفاظ میں دینی حمیت یا غیرت بھی کہہ سکتے ہیں اور ایسے مقام پر غصہ بعض دفعہ بڑے بڑے اٹھتے ہوئے فتنوں کو دبا دیتا ہے۔ اور رسول اللہ کا غصہ ایسا ہی تھا۔ چناچہ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ && اللہ کی قسم ! آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا جب وہ آپ کے سامنے لایا گیا۔ البتہ اگر کسی نے اللہ کی قابل احترام باتوں کی توہین کی تو آپ نے اللہ کے لیے اس سے بدلہ لیا && (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب اقامۃ الحدود والانتقام لحرمات اللہ) اور آپ کو جب غصہ آیا تو آپ کا چہرہ سرخ ہوجاتا جیسے کسی نے چہرہ پر انار نچوڑ دیا جو مثلاً فاطمہ مخزومی قریشی کی چوری کا مقدمہ پیش ہوا تو قریشیوں نے سیدنا اسامہ بن زید کو سفارش کے لیے کہا۔ سیدنا اسامہ نے سفارش کی تو آپ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا اور فرمایا :&& اسامہ ! تم اللہ کی حدود میں سفارش کرتے ہو ؟ && (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب کراھیۃ الشفاعۃ فی الحد۔۔ ) اسی طرح ایک دفعہ سیدنا معاذ بن جبلص نے عشا کی نماز میں سورة بقرہ شروع کردی ایک دیہاتی نے نماز توڑ کر اپنی الگ نماز پڑھ لی۔ پھر رسول اللہ کو جب یہ بات پہنچی تو آپ سیدنا معاذ پر سخت ناراض ہوئے اور تین بار فرمایا : && افتّان انت یا معاذ ؟ معاذ کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہو ؟ && (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب من لم یر اکفار من قال ذلک متاوّلا او جاھلا) اور ایسی اور بھی مثالیں بہت ہیں۔ خ غصہ کو ضبط کرنے کا حکم :۔ رہا ذاتی انتقام کا مسئلہ تو اس کے متعلق آپ نے فرمایا کہ && پہلوان وہ نہیں ہے جو کسی کو کشتی میں پچھاڑ دے بلکہ وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ کو ضبط میں رکھے && (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب الحذر من الغضب) نیز سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ : مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا : && غصہ مت کیا کر۔ اس نے دوبارہ، سہ بارہ یہی بات پوچھی تو آپ ہر بار یہی کہتے رہے کہ غصہ مت کیا کر && (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب الحذر من الغضب)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) والذین یجتبون کبیر الاثم والفواحش : ایمان و توکل کے بعد پہلے ان چیزوں کا ذکر فرمایا جن سے اجتناب ضروری ہے، وہ ہیں کبائر و فواحش اور غضب۔ ” کبائر “ کی تعریف کے لئے دیکھیے سورة نساء کی آیت (٣١) ۔ ” الفواحش “ (فاحشۃ “ کی جمع ہے، کوئی بھی قول یا فعل جس کی قباحت حد سے بڑھی ہوئی ہو، مثلاً زنا، قوم لوط کا عمل اور شدید بخل وغیرہ۔ (دیکھیے سورة بقر :268) آیت میں ” کبائر “ کا لفظ عام ہے، جس میں فواحش بھی آجاتے ہیں، مگر ” فواحش “ کا ذکر ان سے نفرت دلانے کے لئے خاص طور پر الگ بھی فرمایا۔ شیخ عبدالرحمان السعدی نے فرمایا کہ فواحش ان بڑے گناہوں کو کہتے ہیں جنکی رغبت انسانی طبیعت میں پائی جاتی ہو۔ مزید دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٣٢) ۔ (٢) واذا ما غضبوا ھم یغفرون : غصے کی حالت میں معاف کردینے کا ذکر خاص طور پر فرمایا، کیونکہ یہ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو نہایت مضبوط ارادے کے مالک ہوں، کیونکہ عموماً غصے میں آدمی عقل و ہوش سے عاری ہوجاتا ہے۔ اس حال میں اپنے آپ پر قابو رکھنا آدمی کی کمال عقل اور ضبط نفس کی دلیل ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، (لیس الشدید بالصرعۃ انما الشدید الذی یملک نفسہ عند الغضب) (بخاری، الادب، باب العذر من الغضب : ٦١١٣)” پہلوان وہ نہیں جو دوسروں کو پچھاڑ دے، پہلوان صرف وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔ “ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں عفو و درگزر کی خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ (دیکھیے آل عمران : ١٥٩) عائشہ (رض) فرماتی ہیں : (ما انتقم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لنفسہ فی شیء یوتی الیہ حتی ینتھک من حرمات اللہ فیتقم للہ) (بخاری، الحدود، باب کما لتغریر والادب ؟:6853)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ذات کیلئے کسی معاملے کا اتنقام نہیں لیا جو آپ سے کیا گیا۔ ہاں چ اللہ تعالیٰ کی حرمتوں میں سے کسی کو توڑا جاتا تو آپ اللہ کی خاطر انتقام لیتے۔ “ مزید دیکھیے سورة آل عمران (١٣٣، ١٣٤) خلفائے رشایدن میں بھی یہ وصف بدرجہ کمال موجود تھا، جیسا کہ ان کی سیرت سے ظاہر ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Second virtue: الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ‌ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ (those who abstain from the major sins and from shameless acts - 37). What are major sins? Details have already been stated in the commentary of Surah Nisa&; the author has also given a complete list of major and minor sins in his booklet in Urdu published under the little of |"Gunah-e- bay ladhdhat گناہ بےلذّت . The wisdom behind specially mentioning shameless acts, apart from all the other major sins, is that they are not only graver, but also infectious in that they influence others also. Shameless acts include adultery and the acts that precede it as preludes, and those bad deeds which are committed brazenly in public, because they corrupt the whole society and their liability is also very severe. Third virtue: وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُ‌ونَ (and when they get angry, they forgive - 37) This is a moral quality of the highest order, because when love and anger prevail upon someone, they make him blind and deaf, and he loses his ability to distinguish right from wrong, and true from false, rather, he cannot appreciate the results of his own actions. The one who is angry tries his utmost to vent his anger fully upon the one with whom he is angry. That is why Allah Ta’ ala has defined this quality of Mu&mins and virtuous persons that when they are angry, they not only maintain the limits of right and wrong, but also forgo their justified rights.

دوسری صفت، (آیت) وَالَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْـفَوَاحِشَ ۔ یعنی جو کبیرہ گناہوں سے خصوصاً بےحیائی کے کاموں سے پرہیز کرنے والے ہیں۔ کبیرہ گناہ کیا ہیں ؟ اس کی تفصیل سورة نساء وغیرہ میں پہلے بیان ہوچکی اور احقر نے ایک مختصر سے رسالہ میں کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کی پوری فہرست بھی لکھ دی ہے۔ جو گناہ بےلذت کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ کبیرہ گناہوں میں سبھی گناہ داخل تھے، ان میں سے فواحش کو الگ کر کے بیان فرمانے میں یہ حکمت ہے کہ فواحش کا گناہ عام کبیرہ گناہوں سے زیادہ سخت بھی ہے اور وہ ایک مرض متعدف ہوتے ہیں، جس سے دوسرے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں فواحش کا لفظ ان کاموں کے لئے بولا جاتا ہے جن میں بےحیائی ہو جیسے زنا اور اس کے مقدمات۔ نیز وہ اعمال بد جو ڈھٹائی کے ساتھ علانیہ کئے جاویں وہ بھی فواحش کہلاتے ہیں کہ ان کا وبال بھی نہایت شدید اور پورے انسانی معاشرہ کو خراب کرنے والا ہے۔ تیسری صفت : (آیت) وَاِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ يَغْفِرُوْنَ ۔ یعنی وہ جب غصہ میں آتے ہیں تو معاف کردیتے ہیں۔ یہ حسن اخلاق کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ کیونکہ کسی کی محبت یا کسی پر غصہ یہ دونوں چیزیں جب غالب آتی ہیں تو اچھے بھلے عاقل فاضل آدمی کو اندھا بہرا کردیتی ہیں۔ وہ جائز، ناجائز، حق و باطل اور اپنے کئے کے نتائج پر غور کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ جس پر غصہ آتا ہے اس کی کوشش یہ ہونے لگتی ہے کہ مقدور بھر اس پر غصہ اتارا جائے۔ مومنین و صالحین کی اللہ تعالیٰ نے یہ صفت بیان فرمائی کہ وہ صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے کہ غصے کے وقت حق و ناحق کی حدود پر قائم رہیں بلکہ اپنا حق ہوتے ہوئے بھی معاف کردیتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْـفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا ہُمْ يَغْفِرُوْنَ۝ ٣٧ ۚ اجتباء : الجمع علی طریق الاصطفاء . قال عزّ وجل : فَاجْتَباهُ رَبُّهُ [ القلم/ 50] ، وقال تعالی: وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف/ 203] ، أي : يقولون : هلّا جمعتها، تعریضا منهم بأنک تخترع هذه الآیات ولیست من اللہ . واجتباء اللہ العبد : تخصیصه إياه بفیض إلهيّ يتحصل له منه أنواع من النعم بلا سعي من العبد، وذلک للأنبیاء وبعض من يقاربهم من الصدیقین والشهداء، كما قال تعالی: وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف/ 6] ، فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم/ 50] ، وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام/ 87] ، وقوله تعالی: ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه/ 122] ، وقال عزّ وجل : يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری/ 13] ، وذلک نحو قوله تعالی: إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص/ 46] . الاجتباء ( افتعال ) کے معنی انتخاب کے طور پر کسی چیز کو جمع کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف/ 203] اور جب تم ان کے پاس ( کچھ دنوں تک ) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے ( اپنی طرف سے ) کیوں نہیں بنائی ہیں کے معنی یہ ہوں گے کہ تم خد ہی ان کو تالیف کیوں نہیں کرلیتے دراصل کفار یہ جملہ طنزا کہتے تھے کہ یہ آیات اللہ کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ تم کود ہی اپنے طور بنالیتے ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو جن لینا کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اسے اپنے فیض کے لئے برگزیدہ کرلیتا ہے جسے گونا گون نعمتیں جدو جہد کے بغیر حاصل ہوجاتی ہیں یہ انبیاء کے ساتھ خاص ہے اور صدیقوں اور شہدوں کے لئے جوان کئ قریب درجہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ یوسف کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف/ 6] اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ ( ممتاز ) کرے گا ۔ فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم/ 50] پھر پروردگار نے ان کو برگزیدہ کر کے نیکو کاروں میں کرلیا ۔ وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام/ 87] ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھا یا تھا ۔ ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه/ 122] پھر ان کے پروردگار نے ان کو نواز اتو ان پر مہر بانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی ۔ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری/ 13] جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کرلیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف رستہ دکھا دیتا ہے اس احتیاء کو دوسرے مقام پر اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے ۔ إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص/ 46] ہم نے ان کو ایک ( صفت ) خاص ( اخرت ) کے گھر کی یا سے ممتاز کیا تھا ۔ كبير الْكَبِيرُ والصّغير من الأسماء المتضایفة التي تقال عند اعتبار بعضها ببعض، فالشیء قد يكون صغیرا في جنب شيء، وكبيرا في جنب غيره، ويستعملان في الكمّيّة المتّصلة كالأجسام، وذلک کالکثير والقلیل، وفي الكمّيّة المنفصلة کالعدد، وربما يتعاقب الکثير والکبير علی شيء واحد بنظرین مختلفین نحو : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ [ البقرة/ 219] و : كثير «1» قرئ بهما . وأصل ذلک أن يستعمل في الأعيان، ثم استعیر للمعاني نحو قوله : لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصاها[ الكهف/ 49] ، وقوله : وَلا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْبَرَ [ سبأ/ 3] ، وقوله : يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ [ التوبة/ 3] إنما وصفه بالأكبر تنبيها أنّ العمرة هي الحجّة الصّغری كما قال صلّى اللہ عليه وسلم : «العمرة هي الحجّ الأصغر» فمن ذلک ما اعتبر فيه الزمان، ( ک ب ر ) کبیر اور صغیر اسمائے اضافیہ سے ہیں ۔ جن کے معانی ایک دوسرے کے لحاظ سے متعین ہوتے ہیں ۔ چناچہ ایک ہی چیز دوسری کے مقابلہ میں صغیر ہوتی ہے لیکن وہ شئے ایک اور کے مقابلہ میں کبیر کہلاتی ہے ۔ اور قلیل وکثٰیر کی طرح کبھی تو ان کا استعمال کمیت متصلہ یعنی اجسام میں ہوتا ہے ۔ اور کبھی کمیۃ منفصلہ یعنی عدد ہیں ۔ اور بعض اوقات کثیر اور کبیر دو مختلف جہتوں کے لحاظ سے ایک ہی چیز پر بولے جاتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ [ البقرة/ 219] کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں ۔ کہ اس میں ایک قرآت کثیر بھی ہے ۔ یہ اصل وضع کے لحاظ سے تو اعیان میں ہی استعمال ہوتے ہیں ۔ لیکن استعارہ کے طور پر معانی پر بھی بولے جاتے ہیں چناچہ فرمایا : لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصاها[ الكهف/ 49] کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے ۔ اور نہ بڑی کو ( کوئی بات بھی نہیں ) مگر اسے گن رکھا ہے ۔ وَلا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْبَرَ [ سبأ/ 3] اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی ہے یا بڑی ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ [ التوبة/ 3] اور حج اکبر کے دن ۔۔۔ میں حج کو اکبر کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ عمرۃ حج اصغر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے ؛العمرۃ ھہ الحج الاصغر ۔ کہ عمرہ حج اصغر ہے ۔ اور کبھی بڑائی بلحاظ زمانہ مراد ہوتی ہے چناچہ محاورہ ہے ۔ إثم الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب «5» ، وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير «6» وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة/ 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . وقد أَثِمَ إثماً وأثاماً فهو آثِمٌ وأَثِمٌ وأَثِيمٌ. وتأثَّم : خرج من إثمه، کقولهم : تحوّب وتحرّج : خرج من حوبه وحرجه، أي : ضيقه . وتسمية الکذب إثماً لکون الکذب من جملة الإثم، وذلک کتسمية الإنسان حيواناً لکونه من جملته . وقوله تعالی: أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة/ 206] أي : حملته عزته علی فعل ما يؤثمه، وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ يَلْقَ أَثاماً [ الفرقان/ 68] أي : عذاباً ، فسمّاه أثاماً لما کان منه، وذلک کتسمية النبات والشحم ندیً لما کانا منه في قول الشاعر : 7- تعلّى الندی في متنه وتحدّرا«7» وقیل : معنی: «يلق أثاماً» أي : يحمله ذلک علی ارتکاب آثام، وذلک لاستدعاء الأمور الصغیرة إلى الكبيرة، وعلی الوجهين حمل قوله تعالی: فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم/ 59] . والآثم : المتحمّل الإثم، قال تعالی: آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة/ 283] . وقوبل الإثم بالبرّ ، فقال صلّى اللہ عليه وسلم : «البرّ ما اطمأنّت إليه النفس، والإثم ما حاک في صدرک» «1» وهذا القول منه حکم البرّ والإثم لا تفسیر هما . وقوله تعالی: مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم/ 12] أي : آثم، وقوله : يُسارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ المائدة/ 62] . قيل : أشار بالإثم إلى نحو قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكافِرُونَ [ المائدة/ 44] ، وبالعدوان إلى قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة/ 45] ، فالإثم أعمّ من العدوان . ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ { فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ اثم ( ص) اثما واثاما فھو آثم و اثم واثیم ( گناہ کا ارتکاب کرنا ) اور تاثم ( تفعل ) کے معنی گناہ سے نکلنا ( یعنی رک جانا اور توبہ کرنا ) کے ہیں جیسے تحوب کے معنی حوب ( گناہ ) اور تحرج کے معنی حرج یعنی تنگی سے نکلنا کے آجاتے ہیں اور الکذب ( جھوٹ ) کو اثم کہنا اس وجہ سے ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا گناہ ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ انسان کو حیوان کا ایک فرد ہونے کی وجہ سے حیوان کہہ دیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : { أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ } [ البقرة : 206] کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عزت نفس ( اور ہٹ دھرمی ) اسے گناہ پر اکساتی ہے اور آیت : { وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا } [ الفرقان : 68] میں آثام سے ( مجازا ) عذاب مراد ہے اور عذاب کو اثام اس لئے کہا گیا ہے کہ ایسے گناہ ( یعنی قتل وزنا ) عذاب کا سبب بنتے ہیں جیسا کہ نبات اور شحم ( چربی ) کو ندی ( نمی ) کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ نمی سے نباتات اور ( اس سے ) چربی پیدا ہوتی ہے چناچہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (7) |" تعلی الندی فی متنہ وتحدار ، اس کی پیٹھ پر تہ برتہ چربی چڑھی ہوئی ہے اور نیچے تک پھیلی ہوئی ہے ۔ بعض نے آیت کریمہ : میں یلق آثاما کے یہ معنی بھی کئے ہیں مذکورہ افعال اسے دوسری گناہوں پر برانگیختہ کرینگے کیونکہ ( عموما) صغائر گناہ کبائر کے ارتکاب کا موجب بن جاتے ہیں اور آیت کریمہ : { فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا } [ مریم : 59] کی تفسیر بھی ان دو وجہ سے بیان کی گئی ہے ۔ لآثم ۔ گناہ کا ارتکاب کرنے والا ۔ قرآں میں ہے : { آثِمٌ قَلْبُهُ } [ البقرة : 283] وہ دل کا گنہگار ہے ۔ اور اثم کا لفظ بر ( نیکی ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا : (6) (6) البرما اطمانت الیہ النفس والاثم ما حاک فی صدرک کہ نیکی وہ ہے جس پر طبیعت مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جس کے متعلق دل میں تردد ہو ۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں آنحضرت نے البرو الاثم کی تفسیر نہیں بیان کی ہے بلکہ ان کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : { مُعْتَدٍ أَثِيمٍ } [ القلم : 12] میں اثیم بمعنی آثم ہے اور آیت : { يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ } [ المائدة : 62] ( کہ وہ گناہ اور ظلم میں جلدی کر رہے ہیں ) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ آثم سے آیت : { وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ } [ المائدة : 44] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ کفرا اور عدوان سے آیت کریمہ : { وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ } [ المائدة : 45] کے مفہوم کی طرف اشارہ ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ ظلم ) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ لفظ اثم عدوان سے عام ہے ۔ فحش الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] ( ف ح ش ) الفحش والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جو شرک اور زنا اور گناہوں سے بچتے ہیں اور جب ان کو ظلم اور زیادتی پر غصہ آتا ہے تو معاف کردیتے ہیں اور بدلہ نہیں لیتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ { وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ } ” اور وہ لوگ کہ جو اجتناب کرتے ہیں بڑے بڑے گناہوں سے اور بےحیائی کے کاموں سے “ ظاہر ہے اس مقدس فریضہ کو نبھانے کا حلف اٹھانے والے رضاکار اگر اپنے دامن ِکردار کو ایسی نجاستوں سے بچا کر نہیں رکھیں گے تو وہ اس میدان میں آگے کیسے بڑھ سکیں گے۔ یہی مضمون سورة النساء کے اندر ہم ان الفاظ میں پڑھ چکے ہیں : { اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُـکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلاً کَرِیْمًا ۔ } ” اگر تم اجتناب کرتے رہو گے ان بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تمہیں روکا جا رہا ہے تو ہم تمہاری چھوٹی برائیوں کو تم سے دور کردیں گے اور تمہیں داخل کریں گے بہت با عزت جگہ پر “۔ صغائر اور کبائر کے حوالے سے یہ نکتہ اچھی طرح سے ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک بندئہ مومن کو کبائر کے معاملے میں غیر معمولی طور پر حساس ہونا چاہیے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں عمومی روش یہ ہے کہ ہم صغائر کے بارے میں تو بہت زیادہ باریک بین بننے کی کوشش کرتے ہیں ‘ چھوٹے چھوٹے مسائل کے بارے میں وضاحتیں اور فتوے بھی طلب کرتے رہتے ہیں ‘ مگر کبائر سے متعلق لاپرواہی برتتے ہیں۔ حالانکہ صغائر تو { اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِط } (ھود : ١١٤) کے اصول کے تحت ساتھ ہی ساتھ معاف ہوتے رہتے ہیں اور سورة النساء کی متذکرہ بالا آیت میں بھی یہی بشارت دی جا رہی ہے کہ اگر تم لوگ کبائر سے بچتے رہو گے تو تمہارے صغائر ہم خود معاف کردیں گے۔ لیکن اس کے باوجود کبائر سے متعلق لاپرواہی اور صغائر کے بارے میں ” حساسیت “ کا عمومی رویہ ہمارے معاشرے میں ایک متعدی بیماری کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس حوالے سے ہماری مشابہت بنی اسرائیل کی اس کیفیت کے ساتھ ہوچکی ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح (علیہ السلام) نے انہیں فرمایا تھا کہ ” تم لوگ مچھر چھانتے ہو اور سموچے اونٹ نگل جاتے ہو “۔ بہر حال اللہ کے راستے میں نکلنے والے مجاہدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ تقویٰ کی روش پر کاربند رہیں اور کبائرو فواحش سے اپنا دامن بچا کر رکھیں۔ { وَاِذَامَا غَضِبُوْا ہُمْ یَغْفِرُوْنَ } ” اور جب انہیں غصہ آتا ہے تو معاف کردیتے ہیں۔ “ غَفَرَ کے معنی ڈھانپ دینے کے ہیں۔ اس معنی میں اس آہنی خود کو مِغْفَر کہا جاتا ہے جس سے دورانِ جنگ تلوار وغیرہ کے وار سے بچنے کے لیے سر کو ڈھانپا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے مغفرت سے مراد اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مہربانی ہے جو بندے کے گناہوں کو ڈھانپ لیتی ہے۔ لہٰذا مومنین ِصادقین کا یہاں جو وصف بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ غصے کا اظہار کرنے کے بجائے اسے پی جاتے ہیں۔ اشتعال کی حالت میں وہ کوئی اقدام نہیں کرتے بلکہ اپنے فیصلے ہمیشہ سوچ سمجھ کر کرتے ہیں اور انتقام لینے کے بجائے معاف کرنے کی حکمت عملی کو ترجیح دیتے ہیں۔ سورة آل عمران کی آیت ١٣٤ میں بھی متقین کی تعریف میں یہی صفت بیان کی گئی ہے : { وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِط } کہ وہ اپنے غصے کو پی جانے والے اور دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے والے لوگ ہیں۔ چونکہ غصہ اور غصے کی کیفیت میں انسان کا اشتعال شیطانی اثرات کی بنا پر ہوتا ہے اس لیے سورة حٰم السجدۃ کی آیت ٣٦ میں دی گئی یہ ہدایت غصے اور اس کے منفی اثرات سے بچنے کا بہترین نسخہ ہے : { وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِط } (آیت ٣٦) ” اور اگر کبھی تمہیں شیطان سے کوئی ُ چوک لگنے لگے تو اللہ کی پناہ طلب کرلیا کرو “ ۔ - ۔ - ۔ - ۔ - اب آگے چلیے اگلے وصف کی طرف :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

58. For explanation, see (Surah An-Nisa, Ayat 31); (Surah Al-Anaam, Ayat 151); (Surah An-Naml, Ayat 90); (Surah An- Najm, Ayat 32 and the E.Ns). 59. That is, they are not wrathful and crazy but are temperate and cool minded. They are not revengeful but forbearing and forgiving by nature. If ever they feel angry at something they control their rage. This characteristic is the best of man’s qualities, which has been highly commended in the Quran (Surah Aal-Imran, Ayat 134) and regarded as a major factor of the Prophet’s (peace be upon him) success (Surah Aal-Imran, Ayat 159). According to Aishah, the Messenger of Allah (peace be upon him) never avenged himself on anybody, however, when a thing enjoined to be held sacred by Allah was desecrated, he would award the punishment. (Bukhari, Muslim).

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :57 اللہ پر توکل کو یہاں ایمان لانے کا لازمی تقاضا ، اور آخرت کی کامیابی کے لیے ایک ضروری وصف قرار دیا گیا ہے ۔ توکل کے معنی یہ ہیں کہ : اولاً ، آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی پر کامل اعتماد ہو اور وہ یہ سمجھے کہ حقیقت کا جو علم ، اخلاق کے جو اصول ، حلال و حرام کے جو حدود ، اور دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جو قواعد و ضوابط اللہ نے دیے ہیں وہی بر حق ہیں اور انہی کی پیروی میں انسان کی خیر ہے ۔ ثانیاً ، آدمی کا بھروسہ اپنی طاقت ، قابلیت ، اپنے ذرائع و وسائل ، اپنی تدابیر ، اور اللہ کے سوا دوسروں کی امداد و اعانت پر نہ ہو ، بلکہ وہ پوری طرح یہ بات ذہن نشین رکھے کہ دنیا اور آخرت کے ہر معاملے میں اس کی کامیابی کا اصل انحصار اللہ کی توفیق و تائید پر ہے ، اور اللہ کی توفیق و تائید کا وہ اسی صورت میں مستحق ہو سکتا ہے جبکہ وہ اس کی رضا کو مقصود بنا کر ، اس کے مقرر کی ہوئے حدود کی پابندی کرتے ہوئے کام کرے ۔ ثالثاً ، آدمی کو ان وعدوں پر پورا بھروسہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے ایمان و عمل صالح کا رویہ اختیار کرنے والے اور باطل کے بجائے حق کے لیے کام کرنے والے بندوں سے کیے ہیں ، اور ان ہی وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے وہ ان تمام فوائد اور منافع اور لذائذ کو لات مار دے جو باطل کی راہ پر جانے کی صورت میں اسے حاصل ہوتے نظر آتے ہوں ، اور ان سارے نقصانات اور تکلیفوں اور محرومیوں کو انگیز کر جائے جو حق پر استقامت کی وجہ سے اس کے نصیب میں آئیں ۔ توکل کے معنی کی اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایمان کے ساتھ اس کا کتنا گہرا تعلق ہے ، اور اس کے بغیر جو ایمان محض خالی خولی اعتراف و اقرار کی حد تک ہو اس سے وہ شاندار نتائج کیوں نہیں حاصل ہو سکتے جن کا وعدہ ایمان لا کر توکل کرنے والوں سے کیا گیا ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :58 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، النساء ، حواشی ۵۳ ۔ ۵٤ ، الانعام ، حواشی ۱۳۰ ، ۱۲۱ ، جلدو دوم ، النحل ، حاشیہ ۸۹ ، نیز سورہ نجم ، آیت ۳۲ ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :59 یعنی وہ غصیل اور جھلے نہیں ہوتے ، بلکہ نرم خو اور دھیمے مزاج کے لوگ ہوتے ہیں ۔ ان کی سرشت انتقامی نہیں ہوتی بلکہ وہ بندگان خدا سے درگزر اور چشم پوشی کا معاملہ کرتے ہیں ، اور کسی بات پر غصہ آ بھی جاتا ہے تو اسے پی جاتے ہیں ۔ یہ وصف انسان کی بہترین صفات میں سے ہے جسے قرآن مجید میں نہایت قابل تعریف قرار دیا گیا ہے ( آل عمران ، آیت 134 ) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کے بڑے اسباب میں شمار کیا گیا ہے ۔ ( آل عمران ، 159 ) ۔ حدیث میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ : مآ انتقم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لنفسہ فی شئ قط الا ان تنتھک حرمَۃ اللہِ ( بخاری و مسلم ) ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لیا ۔ البتہ جب اللہ کی حرمتوں میں سے کسی حرمت کی ہتک کی جاتی تب آپ سزا دیتے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:37) والذین یجتنبون کبئر الاثم والفواحش : اس کا عطف بھی الذین امنوا پے ہے۔ یجتنبون مضارع جمع مذکر غائب۔ اجتناب (افتعال) مصدر وہ پرہیز رکھتے ہیں ۔ کبئر جمع کبیرۃ کی صفت مشبہ جمع مؤنث مضاف الاثم (گناہ) مضاف الیہ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول اول یجتنبون کا۔ الفواحش ، فاحشۃ کی جمع مفعول ثانی۔ اور جو لوگ بڑے بڑے گناہوں اور بدکاریوں بیحیائیوں سے بچے رہتے ہیں۔ اجتناب کرتے ہیں۔ فائدہ : حدیث شریف میں مندرجہ ذیل گناہ کبیرہ بیان ہوئے ہیں۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ کسی پر جادو کرنا۔ قتل ناجزئ۔ سود خوری۔ یتیم کا مال کھانا۔ جہاد سے بھاگنا۔ پاکدامنوں پر تہمت لگانا۔ (متفق علیہ) فواحش میں مندرجہ ذیل مندرج ہیں۔ زنا۔ لواطت۔ بےشرمی کی باتیں۔ اذا ما۔ جب ۔ جب کبھی۔ شرطیہ ہے۔ غضبوا۔ ماضی جمع مذکر غائب غضب (باب سمع) مصدر۔ وہ غضبناک ہوتے ہیں ۔ اذا ما غضبوا جملہ شرط ہے یہ بھی الذین امنوا پر معطوف ہے۔ ہم یغفرون : جملہ جواب شرط ہے۔ ہم مبتدا۔ یغفرون خبر۔ اذا ما ۔۔ کا عطف بھی الذی امنوا پر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی وہ اعلیٰ درجہ کا بھی ہے اور ہمیشہ رہنے والا بھی جبکہ دنیا کا مال و متاع اس کے مقابلے میں معمولی نوعیت کا بھی ہے اور عارضی بھی۔ 4 بڑے گناہوں کی تشریح کے لئے ( دیکھئے سورة نساء آیت 31) 5 غصہ کو پی کر لوگوں کی خطا معاف کردینا انسان کے بہترین اوصاف میں سے ہے۔ ( دیکھئے آل عمران :130، 133) صحیحین میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی اپنی ذات کیلئے انتقام نہیں لیا البتہ جب اللہ کی قائم کردہ حرمتوں میں سے کسی حرمت کو توڑا جاتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتقام لیتے تھے۔ ( ابن کثیر) اور در گزر کا وصف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلفائے راشدین (رض) میں بدرجہ اتم پایا جاتا تھا۔ ( قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(37) اور وہ کبیرہ گناہوں سے بےحیائی کے کاموں سے بچتے اور اجتناب کرتے ہیں اور جب ان کو غصہ آتا ہے تو قصور وار کو معاف کردیتے ہیں۔ کبائر الاثم سے حضرت ابن عباس نے شرک مراد لیا ہے اور جس میں برائی ہو وہ فاحشہ ہے جیسے زنا۔ اور مقاتل نے فرمایا بےحیائی اور فواحش وہ گناہ ہیں جن پر شریعت نے حد مقرر فرمائی ہے اور جب ان کو غصہ آئے تو غضب کی حالت میں معاف کردیا کرتے ہیں یعنی اپنے ذاتی معاملات میں اور دنیوی قصوں میں انتقام کی خواہش نہیں کرتے بلکہ عفو اور درگزر کردیا کرتے ہیں۔