Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 40

سورة الشورى

وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۴۰﴾

And the retribution for an evil act is an evil one like it, but whoever pardons and makes reconciliation - his reward is [due] from Allah . Indeed, He does not like wrongdoers.

اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کردے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے ، ( فی الواقع ) اللہ تعالٰی ظالموں سے محبت نہیں کرتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Forgiving or exacting Revenge on Wrongdoers Allah says, وَجَزَاء سَيِّيَةٍ سَيِّيَةٌ مِّثْلُهَا ... The recompense for an evil is an evil like thereof. This is like the Ayat: فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ Then whoever transgresses the prohibition against you, you transgress likewise against him. (2:194) and, وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ And if you punish, then punish them with the like of that with which you were afflicted. (16:126) Justice, has been prescribed, in the form of the prescribed laws of equality in punishment (Al-Qisas), but the better way, which means forgiving, is recommended, as Allah says: وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ and wounds equal for equal. But if anyone remits the retaliation by way of charity, it shall be for him expiation. (5:45) Allah says here: ... فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ... but whoever forgives and makes reconciliation, his reward is with Allah. means, that will not be wasted with Allah. As it is said in a Sahih Hadith: وَمَا زَادَ اللهُ تَعَالَى عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلاَّ عِزًّا Allah does not increase the person who forgives except in honor. ... إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّالِمِينَ Verily, He likes not the wrongdoers. means, the aggressors, i.e., those who initiate the evil actions. وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُوْلَيِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ

ارشاد ہوتا ہے کہ برائی کا بدلہ لینا جائز ہے ۔ جیسے فرمایا آیت ( فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ١٩٤؁ ) 2- البقرة:194 ) اور آیت میں ہے ( وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ ١٢٦؁ ) 16- النحل:126 ) یعنی خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے پھر اسے معاف کر دے تو وہ اس کے لئے کفارہ ہو جائے گا ۔ یہاں بھی فرمایا جو شخص معاف کر دے اور صلح و صفائی کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے ۔ حدیث میں ہے درگذر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت اور بڑھا دیتا ہے لیکن جو بدلے میں اصل جرم سے بڑھ جائے وہ اللہ کا دشمن ہے ۔ پھر برائی کی ابتدا اسی کی طرف سے سمجھی جائے گی پھر فرماتا ہے جس پر ظلم ہو اسے بدلہ لینے میں کوئی گناہ نہیں ۔ ابن عون فرماتے ہیں ، میں اس لفظ ( انتصر ) کی تفسیر کی طلب میں تھا تو مجھ سے علی بن زید بن جدعان نے بروایت اپنی والدہ ام محمد کے جو حضرت عائشہ کے پاس جایا کرتی تھیں بیان کیا کہ حضرت عائشہ کے ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم گئے اس وقت حضرت زینب وہاں موجود تھیں آپ کو معلوم نہ تھا صدیقہ کی طرف جب آپ نے ہاتھ بڑھایا تو صدیقہ نے اشارے سے بتایا اس وقت آپ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔ حضرت زینب نے صدیقہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت پر بھی خاموش نہ ہوئیں آپ نے حضرت عائشہ کو اجازت دی کہ جواب دیں ۔ اب جو جواب ہوا تو حضرت زینب عاجز آگئیں اور سیدھی حضرت علی کے پاس گئیں اور کہا عائشہ تمہیں یوں یوں کہتی ہیں اور ایسا ایسا کرتی ہیں یہ سن کر حضرت فاطمہ حاضر حضور ہوئیں آپ نے ان سے فرمایا قسم رب کعبہ کی !عائشہ سے میں محبت رکھتا ہوں یہ تو اسی وقت واپس چلی گئیں ۔ اور حضرت علی سے سارا واقعہ کہہ سنایا پھر حضرت علی آئے اور آپ سے باتیں کیں ۔ یہ روایت ابن جریر میں اسی طرح ہے لیکن اس کے راوی اپنی روایتوں میں عموما منکر حدیثیں لایا کرتے ہیں اور یہ روایت بھی منکر ہے نسائی اور ابن ماجہ میں اس طرح ہے کہ حضرت زینب غصہ میں بھری ہوئی بلا اطلاع حضرت عائشہ کے گھر چلی آئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت صدیقہ کی نسبت کچھ کہا پھر حضرت عائشہ سے لڑنے لگیں لیکن مائی صاحبہ نے خاموشی اختیار کی جب وہ بہت کہہ چکیں تو آپ نے عائشہ سے فرمایا تو اپنا بدلہ لے لے پھر جو صدیقہ نے جواب دینے شروع کئے تو حضرت زینب کا تھوک خشک ہو گیا ۔ کوئی جواب نہ دے سکیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے وہ صدمہ ہٹ گیا ۔ حاصل یہ ہے کہ مظلوم ظالم کو جواب دے اور اپنا بدلہ لے لے ۔ بزار میں ہے ظالم کے لئے جس نے بد دعا کی اس نے بدلہ لے لیا ۔ یہی حدیث ترمذی میں ہے لیکن اس کے ایک راوی میں کچھ کلام ہے پھر فرماتا ہے حرج و گناہ ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کریں اور زمین میں بلا وجہ شرو فساد کریں ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے دو برا کہنے والے جو کچھ کہیں سب کا بوجھ شروع کرنے والے پر ہے جب کہ مظلوم بدلے کی حد سے آگے نہ نکل جائے ایسے فسادی قیامت کے دن دردناک عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے حضرت محمد بن واسع فرماتے ہیں میں مکہ جانے لگا تو دیکھا کہ خندق پر پل بنا ہوا ہے میں ابھی وہیں تھا جو گرفتار کر لیا گیا اور امیر بصرہ مروان بن مہلب کے پاس پہنچا دیا گیا اس نے مجھ سے کہا ابو عبداللہ تم کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا یہی کہ اگر تم سے ہو سکے تو بنو عدی کے بھائی جیسے بن جاؤ پوچھا وہ کون ہے ؟ کہا علا بن زیاد کہ اپنے ایک دوست کو ایک مرتبہ کسی صیغہ پر عامل بنایا تو انہوں نے اسے لکھا کہ حمد و صلوۃ کے بعد اگر تجھ سے ہو سکے تو یہ کرنا کہ تیری کمر بوجھ سے خالی رہے تیرا پیٹ حرام سے بچ جائے تیرے ہاتھ مسلمانوں کے خون ومال سے آلودہ نہ ہوں تو جب یہ کرے گا تو تجھ پر کوئی گناہ کی راہ باقی نہ رہے گی یہ راہ تو ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کریں اور بےوجہ ناحق زمین میں فساد پھیلائیں ۔ مروان نے کہا اللہ جانتا ہے اس نے سچ کہا اور خیر خواہی کی بات کہی ۔ اچھا اب کیا آرزو ہے ؟ فرمایا یہی کہ تم مجھے میرے گھر پہنچا دو مروان نے کہا بہت اچھا ۔ ( ابن ابی حاتم ) پس ظلم و اہل ظلم کی مذمت بیان کر کے بدلے کی اجازت دے کر اب افضلیت کی طرف رغبت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ جو ایذاء برداشت کر لے اور برائی سے درگذر کر لے اس نے بڑی بہادری سے کام کیا جس پر وہ بڑے ثواب اور پورے بدلے کا مستحق ہے ۔ حضرت فضیل بن عیاض کا فرمان ہے کہ جب تم سے آکر کوئی شخص کسی اور کی شکایت کرے تو اسے تلقین کرو کہ بھائی معاف کر دو معافی میں ہی بہتری ہے اور یہی پرہیز گاری کا ثبوت ہے اگر وہ نہ مانے اور اپنے دل کی کمزوری کا اظہار کرے تو خیر کہدو کہ جاؤ بدلہ لے لو لیکن اس صورت میں کہ پھر کہیں تم بڑھ نہ جاؤ ورنہ ہم تو اب بھی یہی کہیں ورنہ ہم تو اب بھی یہی کہیں گے کہ معاف کر دو یہ دروازہ بہت وسعت والا ہے اور بدلے کی راہ بہت تنگ ہے سنو معاف کر دینے والا تو آرام سے میٹھی نیند سو جاتا ہے اور بدلے کی دھن والا دن رات متفکر رہتا ہے ۔ اور توڑ جوڑ سوچتا ہے ۔ مسند امام احمد میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابو بکر صدیق کو برا بھلا کہنا شروع کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں تشریف فرما تھے آپ تعجب کے ساتھ مسکرانے لگے حضرت صدیق خاموش تھے لیکن جب کہ اس نے بہت گالیاں دیں تو آپ نے بھی بعض کا جواب دیا ۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو کر وہاں سے چل دئیے ۔ حضرت ابو بکر سے رہا نہ گیا آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ مجھے برا بھلا کہتا رہا تو آپ بیٹھے سنتے رہے اور جب میں نے اس کی دو ایک باتوں کا جواب دیا تو آپ ناراض ہو کر اٹھ کے چلے ؟ آپ نے فرمایا سنو جب تک تم خاموش تھے فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دیتا تھا جب تم آپ بولے تو فرشتہ ہٹ گیا اور شیطان بیچ میں آگیا پھر بھلا میں شیطان کی موجودگی میں وہاں کیسے بیٹھا رہتا ؟ پھر فرمایا سنو ابو بکر تین چیزیں بالکل حق ہیں ( ١ ) جس پر کوئی ظلم کیا جائے اور وہ اس سے چشم پوشی کر لے تو ضرور اللہ اسے عزت دے گا اور اس کی مدد کرے گا ( ٢ ) جو شخص سلوک اور احسان کا دروازہ کھولے گا اور صلہ رحمی کے ارادے سے لوگوں کو دیتا رہے گا اللہ اسے برکت دے گا اور زیادتی عطا فرمائے گا ( ٣ ) اور جو شخص مال بڑھانے کے لئے سوال کا دروازہ کھول لے گا اور دوسروں سے مانگتا پھرے گا اللہ اس کے ہاں بےبرکتی کر دے گا اور کمی میں ہی وہ مبتلا رہے گا یہ روایت ابو داؤد میں بھی ہے اور مضمون کے اعتبار سے یہ بڑی پیاری حدیث ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

40۔ 1 یہ (قصاص (بدلہ لینے) کی اجازت ہے۔ برائی کا بدلہ اگرچہ برائی نہیں ہے لیکن مشکلات کی وجہ سے اسے بھی برائی ہی کہا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٨] یعنی اگر کوئی برائی اور زیادتی کا بدلہ لینا ہی چاہے تو اتنا ہی لے جتنی اس پر زیادتی ہوئی ہے۔ اور اگر اس کے معاف کردینے سے آپس میں صلح ہوسکتی ہو یا بگڑے ہوئے حالات سنور سکتے ہوں اور حالات کے بہتر ہوجانے کی بنا پر معاف کرے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہوگا۔ [٥٩] یعنی اگر وہ بدلہ لینے میں زیادتی کرے گا تو وہ مظلوم ہونے کے بجائے خود ظالم بن جائے گا اور اللہ ظالموں کو کبھی پسند نہیں کرتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وجزوا سیئۃ سیئۃ مثلھا : سرکشی کرنے والوں سے انتقام کا ذکر مدح کے انداز میں کرنے پر خطرہ تھا کہ انتقام میں حد سے تجاوز نہ ہوجائے اس لئے اس آیت میں کئی طرح سے زیادتی سے باز رکھنے کا اہتمام فرمایا، سب سے پہلے تو یہ کہہ کر ” جزوا سیئہ سیئۃ “ (برائی کا بدلا برائی ہے) حالانکہ بدلا تو برائی نہیں، مگر دونوں کی صورت ایک ہونے کی وجہ سے بدلے پر بھی ” سیئۃ “ کا لفظ بولا۔ پھر یہ پابندی لگائی کہ انتقام زیادتی کے عین برابر ہو، اس سے زیادہ نہ ہو ، جیسا کہ فرمایا :(فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل مااعتدی علیکم) (البقرۃ :193)” پس جو تم پر زیادتی کرے سو تم اس پر زیادتی کرو، اس کی مثل جو اس نے تم پر زیادتی کی ہے۔ “ اور فرمایا :(وان عاقبتم فعاقیوا بمثل ماعوقبتم بہ) (النحل :126)” اور اگر تم بدلا تو اتنا ہی بدلا لو جتنی تمہیں تکلیف دی گئی ہے۔ “ (٢) وجزوا سیئہ سیئۃ مثلھا “ سے جو احکام حاصل ہوتے ہیں ان میں سے چند کے لئے دیکھیے سورة نحل کی آیت (٢٦) کی تفسیر۔ (٣) فمن عطا و اصلح فاجرہ علی اللہ : ظاہر ہے انتقام لیتے ہوئے اس زیادتی سے ذرہ برابر اضافہ نہ ہونے دینا جو کی گئی ہے محال نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے، اسلئے آخر میں پھر عفو و اصلاح کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اس کا اجر اپنے ذمے لیا۔ فاجرہ علی اللہ (تو اس کا اجر اللہ پر ہے) اس جملے میں اجر کی جو عظمت بیان ہوئی ہے وہ کسی بھی تفصیل سے اس طرح بیان نہیں ہوسکتی۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ روسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ما نقصت صدقہ من مال وما زاد اللہ عندا بعفو الا عزا وما تواضع احد للہ الا رفعہ اللہ) (مسلم، البر وا لصلۃ باب استحباب العفو و التواضح :2588)” صدقہ کسی مال میں کمی نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ معاف کردینے کی وجہ سے بندے کی عزت ہی میں اضافہ کرتا ہے اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر نیچا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اونچا کردیتا ہے۔ “ حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ نے یہاں فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ کا بہت عمدہ کلام نقل فرمایا ہے، جس میں انہوں نے دو آیات کے حوالے سے اور طبعی و عقلی حوالے سے عفو کی فضیلت بیان کی ہے۔ انہوں نے فرمایا :” جب کوئی شخص تمہارے پاس کسی شخص کی شکایت لے کر آئے تو اسے کہو، میرے بھائی ! اسے معاف کر دو ، کیونکہ عفو تقویٰ کے زیادہ قریب ہے، جیسا کہ فرمایا :(وان تعفوا اقرب للتقویٰ ) (البقرۃ :238)” اور یہ (بات) کہ تم معاف کر دو تقویٰ کے زیادہق ریب ہے۔ “ اگر وہ کہے میرا دل معاف کرنے کو برداشت نہیں کرتا، میں تو انتقام لوں گا، جیسے مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو اسے کہو، اگر تم اچھے طریقے سے انتقام لے سکتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ عفو کی طرف پلٹ آؤ، یہ بہت وسعت والا دروازہ ہے، کیونکہ جو معاف کر دے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، فرمایا :(فمن عفا و اصلح فاجرہ علی اللہ) (الشوریٰ :30)” پھر جو معاف کر دے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ “ اور معاف کردینے والا رات سکون سے بستر پر سو جاتا ہے، جبکہ انتقام لینے والا مختلف معاملات کی وجہ سے پہلو بدلتا رہتا ہے۔ “ (ابن ابی حاتم :3280/10 ح 18388، قال المحقق سندہ صحیح) (٤) انہ لایحب الظلمین : سب سے پہلے تو ظالم وہ ہے جو ظلم کرنے میں پہل کرتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(المستبان ما قالا فعلی البادی مالم یعتد المظلوم) (مسلم، البروالصلۃ ، باب النھی عن السباب :2588)” گالی گلوچ کرنے والے جو کچھ بھی کہیں وہ پہل کرنے والے پر ہے، جب تک مظلوم زیادتی نہ کرے۔ “ پھر مظلوم اگر انتقام میں حد سے بڑھ جائے تو ظالم شمار ہوگا اور اللہ تعالیٰ سے محروم ہوگا۔ (٥) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بدلے کے تین مرتاب بیان فرمائے ہیں، عدل، فضل اور ظلم۔ عدل کا مرتبہ ” جزؤا سیئۃ سیئۃ مثلھا “ میں بیان ہوا ہے کہ بدلے میں نہ زیادتی ہو نہ کمی، جان کے بدلے جان، ہر عضو کے بدلے اس کے برابر عضو، اسی طرح مال پر زیادتی کا معاملہ ہے۔ فضل کا مرتبہ زیادتی کرنے والے سے عفو اور اس کی اصلاح ہے۔ ” فمن عفا و اصلح فاجرہ علی اللہ “ اس جملے میں عفو کی ترغیب ہے کہ جس طرح تم اللہ تعالیٰ سے معافی کے خواہشمند اور امید وار ہو اسی طرح تم بھی عفو و درگزر سے کام لو، فرمایا :(ولیغفوا ولیضفحوا الا تحبون ان یغفر اللہ لکم) (النور : ٢٢) ” اور لازم ہے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخشے۔ “ اگر عفو سے مجرم کی اصلاح نہیں ہوتی بلکہ اس کی سرکشی میں اضافہ ہوتا ہے تو مصلحت عفو نہیں انتقام ہے اور ظلم کا مرتبہ یہ ہے کہ اس پر جتنی زیادتی کی گئی تھی اس سے بڑھ کر زیادتی کرے۔ پہلے مظلوم تھا اب ظالم بن جائے گا اور اللہ کی محبت سے محروم ہوجائے گا۔ (سعدی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَزٰۗؤُا سَيِّئَۃٍ سَيِّئَۃٌ مِّثْلُہَا۝ ٠ ۚ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَي اللہِ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الظّٰلِـمِيْنَ۝ ٤٠ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ عفو العَفْوُ : القصد لتناول الشیء، يقال : عَفَاه واعتفاه، أي : قصده متناولا ما عنده، وعَفَتِ الرّيحُ الدّار : قصدتها متناولة آثارها، وبهذا النّظر قال الشاعر : 323- أخذ البلی أبلادها «1» وعَفَتِ الدّار : كأنها قصدت هي البلی، وعَفَا النبت والشجر : قصد تناول الزیادة، کقولک : أخذ النبت في الزّيادة، وعَفَوْتُ عنه : قصدت إزالة ذنبه صارفا عنه، فالمفعول في الحقیقة متروک، و «عن» متعلّق بمضمر، فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] ، وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] ، ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة/ 52] ، إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة/ 66] ، فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 159] ، وقوله : خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف/ 199] ، أي : ما يسهل قصده وتناوله، وقیل معناه : تعاط العفو عن الناس، وقوله : وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة/ 219] ، أي : ما يسهل إنفاقه . وقولهم : أعطی عفوا، فعفوا مصدر في موضع الحال، أي : أعطی وحاله حال العافي، أي : القاصد للتّناول إشارة إلى المعنی الذي عدّ بدیعا، وهو قول الشاعر : 324- كأنّك تعطيه الذي أنت سائله «2» وقولهم في الدّعاء : «أسألک العفو والعافية» «3» أي : ترک العقوبة والسّلامة، وقال في وصفه تعالی: إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء/ 43] ، وقوله : «وما أكلت العافية فصدقة» «4» أي : طلّاب الرّزق من طير ووحش وإنسان، وأعفیت کذا، أي : تركته يعفو ويكثر، ومنه قيل : «أعفوا اللّحى» «5» والعَفَاء : ما کثر من الوبر والرّيش، والعافي : ما يردّه مستعیر القدر من المرق في قدره . ( ع ف و ) العفو کے معنی کسی چیز کو لینے کا قصد کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ عفاہ واعتقادہ کسی کے پاس جو کچھ ہے وہ لینے کا قصد کیا عفت الریح الدرا ہوانے گھر کے نشانات مٹادیتے اسی معنی کے لحاظ سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( 315 ) اخز البلی ایا تھا پوسید گی نے اس کے نشانات مٹا ڈالے عفت الدار گھر کے نشانات مٹ گئے گویا ان اثارنے ازخود مٹ جانے کا قصد کیا عفا النبت والشجرنباتات اور درخت بڑھ گئے جیسا کہ آخذ النبت فی الذیادۃ کا محاورہ ہے یعنی پودے نے بڑھنا شروع کیا ۔ عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة/ 52] ، پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة/ 66] اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں ۔ فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 159] تو ان کی خطائیں معاف کردو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف/ 199]( اے محمد ) عفو اختیار کرو میں العفو ہر اس چیز کو کہا گیا جس کا قصد کرنا اور لینا آسان ہو ۔ اور بعض نے اس کے معنی کئے ہیں درگزر کیجئے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة/ 219] ( اے محمد ) لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کس طرح کا مال خرچ کریں کہہ دو جو مال خرچ کرو ۔ میں عفو سے ہر وہ چیز مراد ہے جو ضروریات سے زائد ہو اور اس کے خرچ سے تکلیف نہ ہو اور اعطی عفوا اس نے اسے بےمانگے دے دیا یہاں عفوا مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے اور حال واقع ہوا ہے یعنی بخشش کرتے وقت اس کی حالت یہ تھی کہ گویا خود لے رہا ہے اور اس میں اس عمدہ معنی کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے ( الطویل ) ( 316 ) کانک تعطیہ الذی انت سائلہ یعنی جب سائل اس کے پاس آتا ہے تو اس طرح خوش ہوتا ہے گویا جو چیز تم اس سے لے رہے ہو وہ اسے دے رہے ہو ۔ اور دعائے ماثورہ میں ہے ( 43 ) اسئلک العفو والعافیتہ یعنی اے اللہ تجھ سے عفو اور تندرستی طلب کرتا ہوں اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو عفو کہا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء/ 43] بیشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔ اور حدیث میں ہے ( 44 ) مااکلکت العافیتہ فھو صدقتہ یعنی کھیتی سے جو کچھ پرندہ چرندا اور ضرورت مند انسان کھا جائیں وہ وہ صدقہ ہے ،۔ اعفیت کذا یعنی میں نے اسے بڑھنے دیا اسی سے اعفوا الحیي ہے ( 45 ) یعنی ڈاڑھی کے بال بڑھنے دو ۔ العفاء اون یا پرند کے پر جو بڑھ جائیں اور کسی سے دیگ مستعار لینے والا جو شوربہ اس کی دیگ میں اسے بھیجتا ہے اس شوربہ کو المعافی کہا جاتا ہے ۔ صلح والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] ( ص ل ح ) الصلاح اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور برائی کا بدلہ برائی ہے ویسے ہی جو شخص ظالم کے ظلم کو معاف کردے اور اس کا بدلہ نہ لے تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے ابتدا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ { وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُہَا } ” اور کسی برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے “ یہاں تقابل کے لیے سورة حٰمٓ السجدۃ کا یہ حکم ایک مرتبہ پھر ملاحظہ ہو : { وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُط اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ } (آیت ٣٤) ” اور دیکھو ! اچھائی اور برائی برابر نہیں ہوتے ‘ لہٰذا تم مدافعت کرو اس طریقے سے جو بہترین ہو “۔ اب بظاہر تو ان دونوں احکام میں تضاد (contrast) نظر آتا ہے ‘ لیکن قرآن کے ایسے مقامات کا مطالعہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحریک کے مختلف ادوار کے زمینی حقائق کی روشنی میں کیا جائے اور اس حوالے سے مکی اور مدنی ادوار کے حالات کے فرق کو مد نظر رکھا جائے تو تمام اشکالات خود بخود دور ہوجاتے ہیں۔ مکہ میں رہتے ہوئے اگر { کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ } (النساء : ٧٧) کی حکمت عملی اپنانے کی ہدایت تھی تو یہ اس وقت کا تقاضا تھا۔ اور اگر مدینہ میں آکر { وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْہُمْ } کا حکم جاری ہوا ہے تو یہ اس مرحلے کی ضرورت ہے۔ چناچہ اپنے سیاق وسباق کے اعتبار سے آیت زیر مطالعہ کا مفہوم یہ ہے کہ جب دشمن کے ساتھ تمہارا دوبدو مقابلہ شروع ہوجائے تو جس قدر زیادتی تم پر مخالف فریق کرے اس قدر زیادتی ان پر تم بھی کرسکتے ہو۔ اگر وہ اشہر ِحرم ُ کی حرمت کو بٹہ ّلگاتے ہیں تو تم بھی اس ماہ کے تقدس کے احترام میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر مت بیٹھے رہو۔ { فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ } ” پس جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ “ یہ معاف کرنا اگر اس اعتبار سے ہو کہ اس میں متعلقہ شخص کی اصلاح کا امکان ہو تو اسی میں بہتری ہے۔ { اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ } ” یقینا اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ “ ظالموں کے لیے البتہ کوئی معافی نہیں ‘ ان سے تو بہر حال بدلہ ہی لیا جائے گا۔ اس حکمت عملی کے بارے میں ہم سورة البقرۃ میں بھی پڑھ چکے ہیں : { وَلَـکُمْ فِی الْْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰٓــاُولِی الْاَلْبَابِ } (آیت ١٧٩) ” اور اے ہوشمندو ! قصاص میں ہی تمہارے لیے زندگی ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

64. The passage from here to the end of (verse 43) is an explanation of verse 39. 65. This is the first fundamental principle which must be borne in mind in retaliation. The right limit of retaliation is that one should return the same sort of ill treatment that he has received; he has no right to return a greater ill treatment. 66. This is the second principle. It means: Although it is permissible to retaliate against the one who has committed a violence, wherever pardoning can be conducive to reconcilement, pardoning is better for the sake of reconcilement than retaliation. And since man pardons the other by suppressing his own feelings, Allah says that the reward of such a one is with Him, for he has suppressed his own self for the sake of reforming the evil-doers. 67. In this warning allusion has been made to a third principle about retaliation, and it is this: One should not become a wrongdoer himself in the process of avenging a wrong done by the other. It is not permissible to do a greater wrong in retaliation for the wrong done. For example, if a person gives another a slap, the other can return only one slap; he cannot shower blows and kicks. Likewise, it is not right to commit a sin in retaliation for a sin. For example, if a wicked man has killed the son of someone, it is not right to go and kill the son of the former. Or, if a mean person has violated the chastity of a person’s sister or daughter, it is not lawful for him to commit rape on the former’s sister or daughter.

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :64 یہاں سے آخر پیراگراف تک کی پوری عبارت آیت ما سبق کی تشریح کے طور پر ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :65 یہ پہلا اصولی قاعدہ ہے جسے بدلہ لینے میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ بدلے کی جائز حد یہ ہے کہ جتنی برائی کسی کے ساتھ کی گئی ہو ، اتنی ہی برائی وہ اس کے ساتھ کر لے ، اس سے زیادہ برائی کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :66 یہ دوسرا قاعدہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے سے بدلہ لے لینا اگرچہ جائز ہے ، لیکن جہاں معاف کر دینا اصلاح کا موجب ہو سکتا ہو وہاں اصلاح کی خاطر بدلہ لینے کے بجائے معاف کر دینا زیادہ بہتر ہے ۔ اور چونکہ یہ معافی انسان اپنے نفس پر جبر کر کے دیتا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا اجر ہمارے ذمہ ہے ، کیونکہ تم نے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ پیا ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :67 اس تنبیہ میں بدلہ لینے کے متعلق ایک تیسرے قاعدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص کو دوسرے کے ظلم کا انتقام لیتے لیتے خود ظالم نہیں بن جانا چاہیے ۔ ایک برائی کے بدلے میں اس سے بڑھ کر برائی کر گزرنا جائز نہیں ہے ۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی کو ایک تھپڑ مارے تو وہ اسے ایک تھپڑ مار سکتا ہے ۔ لات گھونسوں کی اس پر بارش نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح گناہ کا بدلہ گناہ کی صورت میں لینا درست نہیں ہے ۔ مثلاً کسی شخص کے بیٹے کو اگر کسی ظالم نے قتل کیا ہے تو اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جا کر اس کے بیٹے کو قتل کر دے ۔ یا کسی شخص کی بہن یا بیٹی کو اگر کسی کمینہ انسان نے خراب کیا ہے تو اس کے لیے حلال نہیں ہو جائے گا کہ وہ اس کی بیٹی یا بہن سے زنا کرے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: یعنی اگر کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی جائے تو مظلوم یہ حق حاصل ہے کہ وہ اتنی ہی تکلیف ظالم کو پہنچا دے جتنی اس نے پہنچائی تھی لیکن آگے اس بات کی بڑی فضیلت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ انسان بدلہ لینے کے بجائے صبر کر کے معاف کردے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:40) وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلہا : سیئۃ برائی ، برا کام ۔ گناہ، اس کی جمع سیئات ہے۔ س و ء مادہ۔ واؤ عاطفہ ہے جزاء سیئۃ مضاف مضاف الیہ دونوں مل کر مبتداء مثلہا مضاف مضاف الیہ مل کر سیئۃ کی صفت موصوف و صفت مل کر خبر اپنے مبتداء کی ۔ (مثلہا میں ضمیر ھا واحد مؤنث غائب کا مرجع سیئۃ ہے) اور برائی کا بدلہ برائی ہے (اسی طرح کی، اسی قدر) مقاتل نے کہا ہے کہ :۔ جزاء سیئۃ سے مراد قتل اور زخمی کرنے کا بدلہ۔ مجاہد اور سدی کے نزدیک گالی گلوچ یا برے الفاظ کا بدلہ مراد ہے۔ لیکن ساتھ ہی فرما دیا فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللّٰہ۔ لیکن جو شخص معاف کر دے اور صلح کرلے تو اس کا اجر اللہ پر ہے۔ عفا : ماضی واحد مذکر غائب عفو (باب نصر) مصدر اس نے معاف کیا۔ اصلح : ماضی واحد مذکر غائب اصلاح (افعال) مصدر اس نے صلح کرلی وہ سنور گیا۔ وہ نیک ہوگیا۔ اس نے اصلاح کی۔ اس نے صلح کرا دی۔ فمن عفا واصلح من شرطیہ جملہ شرط۔ فاجرہ علی اللّٰہ جواب شرط۔ من موصولہ متضمن لمعنی الشرط بھی ہوسکتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی بدلہ لینے میں اس قاعدہ کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ جس قدر زبانی ہوئی ہے اس سے بڑھ کر بدلہ نہ لے۔ 10 یعنی اللہ تعالیٰ اسے اجر عطا فرمائے گا۔ حدیث میں ہے کہ قیامت کے روز منادی ہوگی کہ وہ لوگ کھڑے ہوجائیں جن کا ثواب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ پھر وہی لوگ کھڑے ہونگے جنہوں نے دنیا میں لوگوں کے قصور معاف کئے تھے۔ ( شوکانی) 11 ظالم وہ ہے جو برائی کی ابتداء کرے یا برائی کا بدلہ لینے میں اس سے زیادہ برائی کا ارتکاب کرے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو دو شخص اہم گالم گلوچ کریں تو اس کا سارا وبال پہل کرنے والے پر ہے جب تک کہ دوسرا بدلہ لینے میں حد سے تجاوز نہ کرے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ بشرطیکہ وہ فعل فی نفسہ معصیت نہ ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

برائی کا بدلہ برائی کے برابر لے سکتے ہیں، معاف کرنے اور صلح کرنے کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے پہلے جو آیات مذکور ہوئیں ان میں سے آخری آیت میں نیک بندوں کی صفات میں یہ بتایا تھا کہ جب ان پر ظلم ہوتا ہے تو بدلہ لے لیتے ہیں اس میں چونکہ کمی و بیشی کا ذکر نہیں ہے اور یہ بھی ذکر نہیں ہے کہ معاف کردینا اور بدلہ نہ لینا افضل ہے اس لیے بطور استدراک ان آیات میں اولاً تو یہ بتایا کہ برائی کا بدلہ بس اسی قدر لینا جائز ہے جتنی زیادتی دوسرے فریق نے کی ہو، اگر کسی نے اس سے زیادہ بدلہ لے لیا جو اس پر زیادتی کی گئی تھی تو اب وہ اسی قدر ظلم کرنے والا ہوجائے گا۔ ثانیاً یہ فرمایا کہ بدلہ لینا جائز تو ہے لیکن افضل یہ ہے کہ بدلہ نہ لیا جائے معاف کردیا جائے، جو شخص معاف کردے گا اس کا یہ معاف کردینا ضائع نہ جائے گا اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے اس کا اجر عطا فرمائے گا معاف نہ کرے تو زیادتی بھی نہ کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔ ثالثاً یہ فرمایا کہ جس شخص پر کوئی ظلم کیا گیا اور اس نے اسی قدر بدلہ لے لیا جتنا اس پر ظلم ہوا تھا تو اب اس کا مواخذہ کرنا جائز نہیں کیونکہ اس نے اپنا حق لیا ہے ظالم یا ظالم کی مدد کرنے والا دوست احباب کنبہ و قبیلہ کے لوگ اب اگر اس سے بدلہ کا بدلہ لیں گے تو یہ لوگ ظالم ہوجائیں گے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ دنیا میں یا آخرت میں یا دونوں جگہ ان کی گرفت ہوگی یہ لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی کرتے ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ رابعاً ایک عام اعلان فرما دیا کہ صبر کرنا اور معاف کرنا بڑی ہمت اور صبر کے کاموں میں سے ہے، ہر شخص اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہوتا حالانکہ اس کا اجر وثواب بہت بڑا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا کہ اے میرے رب آپ کے بندوں میں آپ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص (بدلہ لینے کی) قدرت رکھتے ہوئے معاف کردے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ٤٣٤)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

33:۔ ” وجزاء سیئۃ “ اس میں قانون انتقام کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس شخص سے برائی کی جائے اگر وہ اس کا بدلہ لے تو جائز ہے لیکن زیادتی نہ کرے اور جو شخص دوسرے کے ظلم و زیادتی کو معاف کردے اور اس سے بدلہ نہ لے، بلکہ اس سے صلح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے پاس ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اس کا اجر عطا فرمائے گا اور اس کا یہ عفو و احسان ضائع نہ ہوگا ایسے لوگوں کو اللہ پسند فرماتا ہے لیکن لوگوں پر ظلم و زیادتی کرنے والوں کو اللہ پسند فرماتا ہے لیکن لوگوں پر ظلم و زیادتی کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔ من ترک القصاص واصلح بینہ وین الظالم بالعفو (اجفرہ علی اللہ) ای ان اللہ یاجرہ علی ذلک (قرطبی ج 16 ص 40) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(40) اوربرائی کی پاداش اسی برائی کی مثل ہے پھر جو شخص درگزر کرے اور باہم صلح و صفائی کرلے اور قفیے کو یہاں سے انتقام اور بدلے کا ایک ضابطہ بیان فرمایا کہ برائی کرنے والوں کو اتنی ہی برائی پہنچائو جتنی اس نے برائی کی ہے انتقام میں زیادتی نہ ہونے پائے اور سیئہ کے مقابلے میں انتقامی کاروائی کی گئی اس کو بھی سیئہ فرمایا حالانکہ پہلی سیئہ تو حقیقت میں سیئہ ہے لیکن جواباً جو عمل ہو وہ سیئہ نہیں بلکہ وہ تو آئندہ کی روک تھام کی غرض سے کیا گیا ہے تو اس کی وجہ شاید یہ ہو جیسا کہ علماء نے کہا ہے کہ چونکہ یہ سئیہ کا بدلا ہے اس لئے اس کو سیئہ فرمایا۔ یا اس لئے کہ یہ دوسرا فعل پہلے فعل کے مشابہ اور اس کی مثل ہے اس لئے اس کو سیئہ فرمایا یا اس لئے کہ بہرحال اس سے بددلی ہوتی ہے اگر اس سے پہلے سیئہ نہ ہوچکی ہوتی تو یقینی سیئہ تھی یا شاید اس لئے جوابی کاروائی کو سیئہ فرمایا کہ ہر حال میں معاف کردینا بہتر اور مستحب ہے۔ مقاتل نے کہا مراد اس سے قصاص لینا ہے زخم پہنچانے میں اور خون کرنے میں مجاہد اور رسدی کا قول ہے کہ اس سے مراد قبیح کا جواب قبیح سے دینا ہے یعنی جو تجھ کو برا کہے تو بھی اس کو برا کہہ سکتا ہے۔ ابن عینیہ کہتے ہیں میں نے سفیان ثوری سے اس کا مطلب دریافت کیا لیکن میں ان کے جواب سے مطمئن نہ ہوا تو میں نے ہشام بن حجرہ سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا یہ زخمی کرنے والوں کے حق میں ہے اگر کوئی تجھ کو زخم پہنچائے تو تو بھی اس کو زخم پہنچا سکتا ہے اور یہ مراد نہیں کہ کوئی تجھ کو براک ہے تو تو بھی اس کو براک ہے۔ خلاصہ : یہ کہ اگر وہ فعل فی نفسہ شرعاً حرام ہے تو اس کے جواب میں حرام کرنے کی اجازت ہیں آگے معافی کا ذکر فرمایا کہ باوجود اجازت انتقام کے بھی کوئی شخص معاف کردے اور آپس میں سنوار کرے اور اصلاح کرے تو ایسے شخص کا اجروثواب اللہ تعالیٰ پر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ابن زید نے کہا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں ایک وہ جو بالکل معاف کریدتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں دوسرے وہ جو انتقام لیتے ہیں اور برابر سرابر بدلا لیا کرتے ہیں پھر بھی معافی اور باہمی اصلاح کو ترجیح ہے۔