Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 43

سورة الشورى

وَ لَمَنۡ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿۴۳﴾٪  5

And whoever is patient and forgives - indeed, that is of the matters [requiring] determination.

اور جو شخص صبر کرلے اور معاف کر دے یقیناً یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ( ایک کام ) ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ ... And verily, whosoever shows patience and forgives, meaning, whoever bears the insult with patience and conceals the evil action, ... إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الاُْمُورِ that would truly be from the things recommended by Allah. Sa`id bin Jubayr said, "This means, one of the things enjoined by Allah," i.e., good actions for which there will be a great reward and much praise.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦١] یعنی زیادتی کو برداشت کر جانا بذات خود بڑی ہمت اور حوصلہ کا کام ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ پہلوان وہ نہیں جو کشتی میں دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو کنٹرول اور ضبط میں رکھے۔ پھر اگر وہ صرف برداشت ہی نہ کرے بلکہ زیادتی کرنے والے کو معاف بھی کردے تو پھر اس کے کیا ہی کہنے ہیں ؟ مگر یہ بڑے ہی دل گردہ کا کام ہے اور صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جنہیں اللہ کی توفیق حاصل ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ولمن صبرو غفر ان ذلک لمن عزم الامور :” عزم “ کا معنی ہے کسی کام کا پختہ ارادہ کرلینا، اسے اپنے آپ پر واجب کرلینا کہ میں یہ کام ضرور کروں گا۔” عزم “ مصدر بمعنی اسم مفعول ہے جو اپنے موصوف کی طرف مضاف ہے : ای الامور المعزومہ “ یعنی یہ کام ان امور میں سے ہے جن کا بڑی ہمت سے عزم کیا جاتا ہے۔ یقینا جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے، جب کہ معاف کرنے میں ظلم اور سرکشی کی حوصلہ افزائی نہ ہو تو یہ بڑی اہمت کا کام ہے جو ہر عقل مند کو اپنے آپ پر واجب کرلینا چاہیے۔ مزید دیکھیے سورة لقمان (١٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۝ ٤٣ ۧ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ عزم العَزْمُ والعَزِيمَةُ : عقد القلب علی إمضاء الأمر، يقال : عَزَمْتُ الأمرَ ، وعَزَمْتُ عليه، واعْتَزَمْتُ. قال : فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ [ آل عمران/ 159] ، وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة/ 235] ، وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ [ البقرة/ 227] ، إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [ الشوری/ 43] ، وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ، أي : محافظة علی ما أمر به وعَزِيمَةً علی القیام . والعَزِيمَةُ : تعویذ، كأنّه تصوّر أنّك قد عقدت بها علی الشّيطان أن يمضي إرادته فيك . وجمعها : العَزَائِمُ. ( ع ز م ) العزم والعزیمۃ کسی کام کو قطعی اور حتمی طور پر کرنے کا ارادہ کرنا عزمت الامر وعزمت علیہ واعتزمت میں نے اس کام کو قطعی طور پر کرنے کا ارادہ کرلیا / قرآن میں ہے : ۔ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ [ آل عمران/ 159] جب کسی کام کا عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسہ رکھو ۔ وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة/ 235] اور نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا ۔ وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ [ البقرة/ 227] اور اگر طلاق کا ارادہ کرلیں إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [ الشوری/ 43] بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں ۔ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ پایا ۔ یعنی جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا اسکی حفاظت کرنے اور اسے بجا لانے میں ثابت قدم نہ پایا ۔ العزیمۃ ایک قسم کا گنڈہ اور تعویز جس میں اس خیال سے گر ہیں لگائی جاتی تھیں کہ گویا شیطان کو ایزا رسانی سے روک دیا گیا ہے عزیمۃ کی جمع عذایم آتی ہے ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جو شخص دوسرے کے ظلم پر صبر کرے اور معاف کردے اور اس سے کسی قسم کا بدلہ نہ لے تو یہ صبر اور معاف کردیتا بہترین کاموں میں سے ہے یا یہ کہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ والذین یجتنبون الفواحش سے لمن عزم الامور۔ تک یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق اور ان کے ساتھی عمرو بن غزیہ انصاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے دونوں کے درمیان کچھ تیز کلامی اور جھگڑا ہوا تھا تو انصاری نے حضرت ابوبکر صدیق کی شان میں گستاخی کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ { وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ } ” اور ہاں جو کوئی صبر کرے اور معاف کر دے تو یہ واقعتابڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ “ بدلہ لینا اگرچہ مظلوم کا حق ہے ‘ لیکن کسی خاص صورت حال میں اگر وہ صبر سے کام لیتے ہوئے اپنا یہ حق معاف کرنا چاہے تو بیشک یہ عزیمت کے اوصاف میں سے ہے۔ یہاں پر سیرت و کردار سے متعلق خصوصی اوصاف کا ذکر ختم ہوا۔ اس کے بعد کی آیات میں مکی سورتوں کے عمومی مضامین آ رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

68. One should note that the qualities of the believers that have been mentioned in these verses, practically existed in the lives of the Prophet (peace be upon him) and his companions, and the disbelievers of Makkah were their eye-witnesses. Thus, Allah has, in fact, told the disbelievers: The real wealth is not the provisions that you have received for passing the transitory life of the world, and are bursting with pride of it, but the real wealth are the morals and characteristics which the believers from your own society have developed by accepting the guidance given by the Quran.

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :68 واضح رہے کہ ان آیات میں اہل ایمان کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ اس وقت عملاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی زندگیوں میں موجود تھیں ، اور کفار مکہ اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ رہے تھے ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے دراصل کفار کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی بسر کرنے کا جو سر و سامان پاکر تم آپے سے باہر ہوئے جاتے ہو ، اصل دولت وہ نہیں ہے بلکہ اصل دولت یہ اخلاق اور اوصاف ہیں جو قرآن کی رہنمائی قبول کر کے تمہارے ہی معاشرے کے ان مومنوں نے اپنے اندر پیدا کیے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:43) ولمن صبر وغفر : من شرطیہ ہے جملہ شرط ہے اور اگلا جملہ ان ذلک لمن عزم الامور جواب شرط ہے۔ غفر ماضی واحد مذکر غائب غفران (باب ضرب) مصدر اس نے بخشا۔ اس نے معاف کیا ۔ ذلک : ای الصبر والغفران صبر کرنا اور معاف کردینا۔ من تبعیضیہ ہے۔ عزم الامور۔ مضاف مضاف الیہ۔ العزم والعزیمۃ کسی کام کا قطعی اور حتمی طور پر کرنے کا ارادہ کرنا۔ عزمت الامر میں نے اس کام کو قطعی طور پر کرنے کا ارادہ کرلیا۔ میں نے اس کام کو کر گزرنے پر دل کو پکا کرلیا۔ یہ عزم یعزم کا مصدر ہے اور اسی کا فعل باب ضرب سے آتا ہے۔ یہاں مصدر بمعنی مفعول ہے۔ یعنی عزم بمعنی معزوم ہے۔ اور اس سے مراد ہے وہ عمل جس کو اس کی خوبی بڑائی اور عزت کی بنا پر ہر ایک کو کرنے کا پختہ ارادہ کرلینا چاہیے۔ مطلب یہ کہ ظلم پر صبر کرنا اور ظالم کو معاف کردینا ان امور میں سے ہے جن کے کرنے کا پختہ ارادہ کرلینا چاہیے۔ علامہ اسماعیل حقی لکھتے ہیں کہ صبر اور مغفرت ان امور میں سے ہے جنہیں بندہ کو اپنے نفس کے اوپر واجب کرنا چاہیے کیونکہ یہ امور اللہ تعالیٰ کے نزدیک محمود اور پسندیدہ ہیں۔ (ضیاء القرآن)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 14 جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت پسندیدہ ہیں اور ان کا اس کے ہاں بڑا اجر ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی ایسا کرنا بہتر ہے اور اولوا العزمی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(43) اور بلاشبہ جو شخص صبر کرے اور معاف کردے اور سخش دے تو یقین جانو یہ کام بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہیں۔ یعنی باوجود اس کے کہ قانون میں انتقام بالمثل کی اجازت ہے پھر بھی کوئی ظلم پر صبر کرلے اور ظالم کو معاف کردے تو یہ بڑی ہمت والوں کا کام ہے …یعنی بدلے کی رخصت ہے اور صبر اور بخشش عزیمت ہے۔