Surat us Shooraa

Surah: 42

Verse: 7

سورة الشورى

وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا وَ تُنۡذِرَ یَوۡمَ الۡجَمۡعِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ ؕ فَرِیۡقٌ فِی الۡجَنَّۃِ وَ فَرِیۡقٌ فِی السَّعِیۡرِ ﴿۷﴾

And thus We have revealed to you an Arabic Qur'an that you may warn the Mother of Cities [Makkah] and those around it and warn of the Day of Assembly, about which there is no doubt. A party will be in Paradise and a party in the Blaze.

اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے تاکہ آپ مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو خبردار کر دیں اور جمع ہونے کے دن جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ڈرا دیں ۔ ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Qur'an was revealed to serve as a Warning Allah says, `just as We sent revelation to the Prophets before you,' وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْانًا عَرَبِيًّا ... and thus We have revealed to you a Qur'an in Arabic, meaning, plain, clear, and manifest ... لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى ... that you may warn the Mother of the Towns, i.e., Makkah, ... وَمَنْ حَوْلَهَا ... and all around it, means, all the lands, east and west. Makkah is called Umm Al-Qura (the Mother of the Towns) because it is nobler than all other lands, as indicated by much evidence that has been discussed elsewhere. Among the most concise and clear proofs of that is the report recorded by Imam Ahmad from Abdullah bin `Adi bin Al-Hamra' Az-Zuhri, who heard the Messenger of Allah say, as he was standing in the market place of Makkah; وَاللهِ إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللهِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللهِ إِلَى اللهِ وَلَوْلاَا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْت By Allah, you are the best land of Allah, the most beloved land to Allah; were it not for the fact that I was driven out from you, I would never have left you. This was also recorded by At-Tirmidhi, An-Nasa'i and Ibn Majah; At-Tirmidhi said, "Hasan Sahih. " ... وَتُنذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ ... and warn (them) of the Day of Assembling, i.e., the Day of Resurrection, when Allah will assemble the first and the last in one plain. ... لاَا رَيْبَ فِيهِ ... of which there is no doubt, means, there is no doubt that it will happen and will most certainly come to pass. ... فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ a party will be in Paradise and a party in the blazing Fire. This is like the Ayah: يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذَلِكَ يَوْمُ التَّغَابُن (And remember) the Day when He will gather you (all) on the Day of Gathering, --- that will be the Day of mutual loss and gain, (64:9) which means that the people of Paradise and the people of Hell will gain and lose, respectively. And it is like the Ayah: إِنَّ فِى ذلِكَ لايَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الاٌّخِرَةِ ذلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّهُ النَّاسُ وَذَلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُودٌ وَمَا نُوَخِّرُهُ إِلاَّ لاًّجَلٍ مَّعْدُودٍ يَوْمَ يَأْتِ لاَ تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلاَّ بِإِذْنِهِ فَمِنْهُمْ شَقِىٌّ وَسَعِيدٌ Indeed in that (there) is a sure lesson for those who fear the torment of the Hereafter. That is a Day whereon will be gathered together, and that is a Day when all (the dwellers of the heavens and the earth) will be present. And We delay it only for a term fixed. On the Day when it comes, no person shall speak except by His leave. Some among them will be wretched and (others) blessed. (11:103-105) Imam Ahmad recorded that Abdullah bin `Amr, may Allah be pleased with him, said, "The Messenger of Allah came out to us, holding two books in his hand. He said, أَتَدْرُونَ مَا هذَانِ الْكِتَابَانِ Do you know what these two books are? We said, "We do not know unless you tell us, O Messenger of Allah." Concerning the book in his right hand, He said: هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ بِأَسْمَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَسْمَاءِ ابَايِهِمْ وَقَبَايِلِهِمْ ثُمَّ أُجْمِلَ عَلى اخِرِهِمْ لاَ يُزَادُ فِيهِمْ وَلاَ يُنْقَصُ مِنْهُمْ أبدًا This is a book from the Lord of the worlds, containing the names of the people of Paradise and of their fathers and tribes; all of them are detailed, down to the last one of them, and nothing will be added or taken away from it. Then concerning the book in his left hand, he said: هَذَا كِتَابُ أَهْلِ النَّارِ بِأَسْمَايِهِمْ وَأَسْمَاءِ ابَايِهِمْ وَقَبَايِلِهِمْ ثُمَّ أُجْمِلَ عَلى اخِرِهِمْ لاَ يُزَادُ فِيهِمْ وَلاَ يُنْقَصُ مِنْهُمْ أَبَدًا This is the book of the people of Hell, containing their names and the names of their fathers and tribes, all of them are detailed down to the last one of them, and nothing will be added or taken away from it. The Companions of the Messenger of Allah said, "Why should we strive if it is something that is already cut and dried" The Messenger of Allah said: سَدِّدُوا وَقَارِبُوا فَإِنَّ صَاحِبَ الْجَنَّةِ يُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ عَمِلَ أَيَّ عَمَلٍ وَإِنَّ صَاحِبَ النَّارِ يُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ وَإِنْ عَمِلَ أَيَّ عَمَل Strive with your deeds as hard as you can for middle course or close to it, for the person who is destined for Paradise will die doing the deeds of the people of Paradise, regardless of what he did before, and the person who is destined for Hell will die doing the deeds of the people of Hell, regardless of what he did before. Then he made a gesture with his fist and said, فَرَغَ رَبُّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْعِبَاد Your Lord has settled the matter of His servants. and he opened his right hand as if throwing something; فَرِيقٌ فِي الْجَنَّة A party in Paradise. and he made a similar gesture with his left hand; فَرِيقٌ فِي السَّعِير And a party in the blazing Fire." This was also recorded by At-Tirmidhi, and An-Nasa'i; At-Tirmidhi said, "Hasan Sahih Gharib." Imam Ahmad recorded that Abu Nadrah said, "One of the Companions of the Prophet , whose name was Abu Abdullah, was visited by some of his friends, and they found him weeping. They asked him, `What has caused you to weep Didn't the Messenger of Allah say to you, خُذْ مِنْ شَارِبِكَ ثُمَّ أَقِرَّهُ حَتَّى تَلْقَانِي Trim your moustache and adhere to that practice until you meet me.' He said, `Yes, but I heard the Messenger of Allah say; إِنَّ اللهَ تَعَالَى قَبَضَ بِيَمِينِهِ قَبْضَةً وَأُخْرَى بِالْيَدِ الاُْخْرَى قَالَ هذِهِ لِهذِهِ وَهذِهِ لِهذِهِ وَلاَ أُبَالِي Allah picked up a handful in His Right Hand and another in His other Hand, and said, "This is for this and this is for this, and I do not care." `And I do not know in which of the two handfuls I am."' There are several Hadiths about Al-Qadr (the Divine Decree) in the books of Sahih, Sunan and Musnad. Including those narrated by Ali, Ibn Mas`ud, A'ishah and a large number of Companions, may Allah be pleased with them all.

قیامت کا آنا یقینی ہے یعنی جس طرح اے نبی آخر الزماں تم سے پہلے انبیاء پر وحی الٰہی آتی رہی تم پر بھی یہ قرآن وحی کے ذریعہ نازل کیا گیا ہے ۔ یہ عربی میں بہت واضح بالکل کھلا ہوا اور سلجھے ہوئے بیان والا ہے تاکہ تو شہر مکہ کے رہنے والوں کو احکام الٰہی اور اللہ کے عذاب سے آگاہ کر دے نیز تمام اطراف عالم کو ۔ آس پاس سے مراد مشرق و مغرب کی ہر سمت ہے مکہ شریف کو ام القرٰی اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ تمام شہروں سے افضل و بہتر ہے اس کے دلائل بہت سے ہیں جو اپنی اپنی جگہ مذکور ہیں ہاں ! یہاں پر ایک دلیل جو مختصر بھی ہے اور صاف بھی ہے سن لیجئے ۔ ترمذی نسائی ، ابن ماجہ ، مسند احمد وغیرہ میں ہے حضرت عبداللہ بن عدی فرماتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا آپ مکہ شریف کے بازار خزروع میں کھڑے ہوئے فرما رہے تھے کہ اے مکہ قسم ہے اللہ کی ساری زمین سے اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب اور زیادہ افضل ہے اگر میں تجھ میں سے نہ نکالا جاتا تو قسم ہے اللہ کی ہرگز تجھے نہ چھوڑتا ۔ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو حسن صحیح فرماتے ہیں اور اس لئے کہ تو قیامت کے دن سے سب کو ڈرا دے جس دن تمام اول و آخر زمانے کے لوگ ایک میدان میں جمع ہوں گے ۔ جس دن کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں جس دن کچھ لوگ جنتی ہوں گے اور کچھ جہنمی یہ وہ دن ہوگا کہ جنتی نفع میں رہیں گے اور جہنمی گھاٹے میں دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے آیت ( ذٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ ۙ لَّهُ النَّاسُ وَذٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ ١٠٣؁ ) 11-ھود:103 ) یعنی ان واقعات میں اس شخص کے لئے بڑی عبرت ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو آخرت کا وہ دن ہے جس میں تمام لوگ جمع کئے جائیں گے اور وہ سب کی حاضری کا دن ہے ۔ ہم تو اسے تھوڑی سی مدت معلوم کے لئے مؤخر کئے ہوئے ہیں ۔ اس دن کوئی شخص بغیر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بات تک نہ کر سکے گا ان میں سے بعض تو بدقسمت ہوں گے اور بعض خوش نصیب ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس ایک مرتبہ دو کتابیں اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر آئے اور ہم سے پوچھا جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ ہم نے کہا ہمیں تو خبر نہیں آپ فرمائیے ۔ آپ نے اپنی داہنے ہاتھ کی کتاب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ رب العالمین کی کتاب ہے جس میں جنتیوں کے نام ہیں مع ان کے والد اور ان کے قبیلہ کے نام کے اور آخر میں حساب کر کے میزان لگا دی گئی ہے اب ان میں نہ ایک بڑھے نہ ایک گھٹے ۔ پھر اپنے بائیں ہاتھ کی کتاب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ جہنمیوں کے ناموں کا رجسٹر ہے انکے نام ان کی ولدیت اور ان کی قوم سب اس میں لکھی ہوئی ہے پھر آخر میں میزان لگا دی گئی ہے ان میں بھی کمی بیشی ناممکن ہے ۔ صحابہ نے پوچھا پھر ہمیں عمل کی کیا ضرورت ؟ جب کہ سب لکھا جا چکا ہے آپ نے فرمایا ٹھیک ٹھاک رہو بھلائی کی نزدیکی لئے رہو ۔ اہل جنت کا خاتمہ نیکیوں اور بھلے اعمال پر ہی ہو گا گو وہ کیسے ہی اعمال کرتا ہو اور نار کا خاتمہ جہنمی اعمال پر ہی ہو گا گو وہ کیسے ہی کاموں کا مرتکب رہا ہو ۔ پھر آپ نے اپنی دونوں مٹھیاں بند کرلیں اور فرمایا تمہارا رب عزوجل بندوں کے فیصلوں سے فراغت حاصل کر چکا ہے ایک فرقہ جنت میں ہے اور ایک جہنم میں اس کے ساتھ ہی آپ نے اپنے دائیں بائیں ہاتھوں سے اشارہ کیا گویا کوئی چیز پھینک رہے ہیں ۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ۔ یہی حدیث اور کتابوں میں بھی ہے کسی میں یہ بھی ہے کہ یہ تمام عدل ہی عدل ہے حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کی تمام اولاد ان میں سے نکالی اور چیونٹیوں کی طرح وہ میدان میں پھیل گئی تو اسے اپنی دونوں مٹھیوں میں لے لیا اور فرمایا ایک حصہ نیکوں کا دوسرا بدوں کا ۔ پھر انہیں پھیلا دیا دوبارہ انہیں سمیٹ لیا اور اسی طرح اپنی مٹھیوں میں لے کر فرمایا ایک حصہ جنتی اور دوسرا جہنمی یہ روایت موقوف ہی ٹھیک ہے واللہ اعلم ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابو عبداللہ نامی صحابی بیمار تھے ہم لوگ ان کی بیمار پرسی کے لئے گئے ۔ دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں تو کہا کہ آپ کیوں روتے ہیں آپ سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے کہ اپنی مونچھیں کم رکھا کرو یہاں تک کہ مجھ سے ملو اس پر صحابی نے فرمایا یہ تو ٹھیک ہے لیکن مجھے تو یہ حدیث رلا رہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اللہ تعالیٰ اپنی دائیں مٹھی میں مخلوق لی اور اسی طرح دوسرے ہاتھ کی مٹھی میں بھی اور فرمایا یہ لوگ اس کے لئے ہیں یعنی جنت کے لئے اور یہ اس کے لئے ہیں یعنی جہنم کے لئے اور مجھے کچھ پرواہ نہیں ۔ پس مجھے خبر نہیں کہ اللہ کی کس مٹھی میں میں تھا ؟ اس طرح کی اثبات تقدیر کی اور بہت سی حدیثیں ہیں پھر فرماتا ہے اگر اللہ کو منظور ہوتا تو سب کو ایک ہی طریقے پر کر دیتا یعنی یا تو ہدایت پر یا گمراہی پر لیکن رب نے ان میں تفاوت رکھا بعض کو حق کی ہدایت کی اور بعض کو اس سے بھلا دیا اپنی حکمت کو وہی جانتا ہے وہ جسے چاہے اپنی رحمت تلے کھڑا کر لے ظالموں کا حمایتی اور مددگار کوئی نہیں ۔ ابن جریر میں ہے اللہ تعالیٰ سے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے عرض کی کہ اے میرے رب تو نے اپنی مخلوق کو پیدا کیا پھر ان میں سے کچھ کو تو جنت میں لے جائے گا اور کچھ اوروں کو جہنم میں ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سب ہی جنت میں جاتے جناب باری نے ارشاد فرمایا موسیٰ اپنا پیرہن اونچا کرو آپ نے اونچا کیا پھر فرمایا اور اونچا کرو آپ نے اور اونچا کیا فرمایا اور اوپر اٹھاؤ جواب دیا اے اللہ اب تو سارے جسم سے اونچا کر لیا سوائے اس جگہ کے جس کے اوپر سے ہٹانے میں خیر نہیں فرمایا بس موسیٰ اسی طرح میں بھی اپنی تمام مخلوق کو جنت میں داخل کروں گا سوائے ان کے جو بالکل ہی خیر سے خالی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی جس طرح ہم نے ہر رسول اس کی قوم کی زبان میں بھیجا، اسی طرح ہم نے آپ پر عربی زبان میں قرآن نازل کیا ہے، کیونکہ آپ کی قوم یہی زبان بولتی اور سمجھتی ہے۔ 7۔ 2 قیامت والے دن کو جمع ہونے والا دن اس لئے کہا کہ اس میں اگلے پچھلے تمام انسان جمع ہونگیں علاوہ ازیں ظالم مظلوم اور مومن و کافر سب جمع ہونگے اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق جزا و سزا سے بہرہ ور ہونگے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] قرآن ساری دنیا کی ہدایت کے لئے :۔ اُمُّ الْقُرَیٰ سے مراد مرکزی بستی یا بڑا شہر اور اس سے مراد مکہ معظمہ ہے۔ جہاں اللہ کا گھر موجود ہے۔ اور تمام دنیا کے لوگوں کے جمع ہونے کے لیے مرکز بنادیا گیا ہے۔ اور اس کے گرد سے مراد صرف آس پاس کے علاقے یا ملک نہیں بلکہ پوری روئے زمین ہی مراد ہے۔ کیونکہ یہ پوری روئے زمین کا مرکز بنایا گیا ہے۔ گویا اس آیت میں چند بنیادی باتوں کا نہایت اختصار کے ساتھ ذکر کردیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ قرآن اہل عرب کی اپنی ہی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ تاکہ اس کے سمجھنے سمجھانے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے اور لوگ مخصوص قسم کے علماء کے محتاج ہو کر نہ رہ جائیں بلکہ تمام اہل عرب اس سے براہ راست استفادہ کرسکیں، دوسری یہ کہ آپ کی دعوت صرف اہل مکہ کے لیے نہیں بلکہ تمام دنیا کے لیے ہے اور تیسری یہ کہ آپ کی بعثت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ آپ دنیا بھر کے لوگوں کو قیامت کے دن واقع ہونے والے واقعات اور ان کے اعمال کی جزا وسزا سے پوری طرح خبردار کردیں۔ [٦] یعنی جتنے بھی انسان اور جنّ پیدا ہوئے ہیں ان سب کو اس دن اکٹھا کرلیا جائے گا۔ دنیا میں تو کئی مذاہب ہیں پھر ہر مذہب کے بیسیوں فرقے ہیں۔ مگر اس دن ساری مخلوق صرف دو گروہوں میں تقسیم ہوگی۔ ایک اہل جنت، دوسرے اہل دوزخ۔ ایک تیسرے فریق اعراف والوں کا ذکر بھی سورة اعراف میں آیا ہے لیکن وہ فریق کوئی مستقل فریق نہ ہوگا بلکہ جلد یا بدیر اہل جنت سے مل جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وکذلک اوحینا الیک قرانا عربیناً : قرآن عربی زبان میں نازل کرنے کی چند حکمتوں کیے جاننے کے لئے دیکھیں سورة یوسف کی آیت (٢) کی تفسیر۔ (٢) لتنذر ام القریٰ ومن حولھا :” ام القریٓ“ کا معنی بستیوں کی ماں یا بستیوں کی جڑ یا اصل ہے، یعنی بستیوں کا مرکز۔ مراد مکہ معظمہ ہے، کیونکہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے سب سے پہلا گھر یہیں تعمیر ہوا، جسے تمام دنیا کی ہدایت کا مرکز قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ فرمایا :(ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبرکا وھدی للعلمین) (آل عمران : ٩٦)” بیشک پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا، یقیناً وہی ہے جو مکہ میں ہے، بہت بابرکت اور جہانوں کے لئے ہدایت ہے۔ “ تمام دنیا کے لوگوں کے لئے اس شہر میں موجود بیت اللہ کا حج صاحب استطاعت لوگوں پر فرض کیا یا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے تمام روئے زمین سے بہتر قرار دیا۔ عبداللہ بن عدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” حزورۃ “ (شہر مکہ کی ایک جگہ) پر کھڑے دیکھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(واللہ ! انک الخیر ارض اللہ واحب ارض اللہ الی اللہ ولولا انی اخرجت منک ما خرجت) (ترمذی، المناقب، باب فی فضل مکۃ : 3925 وقال الالبانی صحیح )” اللہ کی قسم چ یقیناً تو اللہ کی زمین میں سب سے بہتر اور اللہ کی زمین میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اور اگر مجھے اس سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کی ابتدا یہاں سے ہوئی اور آپ کی دعوت کا آغاز یہیں سے ہوا۔ (٣) یہاں ایک سوال ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو کل عالم اور تمام روئے زمین کے لئے ڈرانے والے تھے، پھر یہاں آپ کے بھیجنے کا مقصد صرف مکہ اور اس کے اردگرد کو کیوں بتایا گیا ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اول تو ” من حولھا “ میں پوری زمین شامل ہے، مکہ پوری زمین کا مرکز ہے، سب اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں اور اس کے حج کے لیء جاتے ہیں۔ اگر ” من حولھا “ سیق ریب قریب اردگرد کی بستیاں مراد کی جائیں تب بھی آپ کو مکہ اور اس کے اردگرد ڈرانے کیلئے بھیجنے کی بات کا مقصد یہ نہیں کہ آپ دوسری اقوام کی طرف مبعوث نہیں، جیسا کہ فرمایا :(وانذر عشیرتک الاقربین) (الشعرائ :213)” اور اپنے سب سے قریب رشتہ داروں کو ڈرا۔ “ سب جانتے اور مانتے ہیں کہ اس کا مقصد یہ نہیں کہ آپ صرف قریبی رشتہ داروں کے لئے مبعوث ہوئے تھے ، ورنہ اہل مکہ و مدینہ کو دعوت دینے کی کیا ضرورت تھی ؟ ا سی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ام القریٰ اور اس کے اردگرد کے لوگوں کو ڈرانے کے لئے بھیجنے کا مقصد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو یہاں تک محدود کرنا نہیں ۔ اس بات کا ذکر کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تمام جن و انس کے لئے اور قیامت تک کیلئے ہے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے۔ دیکھیے سورة انعام (١٩) ، اعراف (١٥٨) ، فرقان (١) ، احقاف (٢٩ تا ٣٢) اور سورة سبا (٢٨) ۔ (٤) وتنذر یوم الجمع :” انذر ینذر “ (ڈرانا) کے دو مفعول ہوتے ہیں، کیونکہ ڈرانے میں دو چیزیں محلوظ ہوتیہیں، ایک یہ کہ کسے ڈرایا جا رہا ہے اور دوسری یہ کہ اسے کس چیز سے ڈرایا جا رہا ہے۔ اس آیت میں ” لتنر ام القریٰ ومن حولھا “ اور ” وتنذر یوم الجمع “ دو جملے ہیں، دونوں میں ” تنذر “ کے دو دو معفول ہیں۔ پہلے جملے میں پہلا مضمون ذکر فرمایا اور دوسرا حذف کردیا، جو آیت کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے :” ای لتذر ام القریٰ ومن حولھا العذاب “” یعنی تاکہ قوم القریٰ اور اس کے اردگرد کے لوگوں کو عذاب سے ڈرا دے۔ “ دوسرے جملہ میں پہلا مفعول حذف کردیا اور دوسرا ذکر فرمایا۔” ای لتنذر ام القری ومن حولھا یوم الجمع “” یعنی تاکہ تو ام القریٰ اور اس کے اردگرد کی بستیوں کو یوم الجمع سے ڈرا دے۔ “ مطلب یہ ہے کہ اسی طرح ہم نے تیری طرف عربی قرآن وحی کیا ، تاکہ تو بستیوں کے مرکز اور اس کے اردگرد کے لوگوں کو گزشتہ اقوام پر آنے والے عذاب سے ڈرائے اور تاکہ تو ام القریٰ اور اس کے اردگرد کی بستیوں کو گزشتہ اقوام جیسے عذاب کے ساتھ ساتھ یوم الجمع سے بھی ڈرائے۔ اتنی لمبی بات کو ان مختصر الفاظ میں سمیٹ دیا :(لتنذر ام القریٰ ومن حولھا وتنذر یوم الجمع) اسے احتباک کہتے ہیں اور اس سے کلام میں اختصار، جامعیت اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ (٥) ” یوم الجمع “ قیامت کے دن کو کہتے ہیں، کیونکہ اس دن سب پہلے پچھلے جمع ہوں گے، جیسا کہ فرمایا :(یوم یجمعکم لیوم الجمع ذلک یوم التغابن) (التغابن : ٩)” جس دن وہ تمہیں جمع کرنے کے دن کے لئے جمع کرے گا، وہی ہار جیت کا دن ہے۔ “ (٦) لاریب فیہ :” جس میں کوئی شک نہیں “ کیونکہ یہ بات فطرت میں رکھ دی گئی ہے کہ مالک اپنے غلاموں کو کسی کام پر مقرر کر، پھر وہ ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کریں تو ضروری ہے کہ وہ کسی دن انھیں اکٹھا کر کے مظلوم کو ظالم سے انصاف دلائے، اگر ایسا نہیں کرے گا تو بےانصاف شمار ہوگا۔ تو احکم الحاکمین کے سب کو جمع کرنے کے دن میں کیا شک ہوسکتا ہے ؟ رہی یہ بات کہ کچھ لوگ اس میں شک کرتے ہیں، تو ان کے شک کو کالعدم قرار دیا کہ اس کا کچھ اعتبار نہیں۔ (٧) فریق فی الجنۃ و فریق فی السعیر : یہ ” یوم الجمع “ کا انجام ہے کہ ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک گروہ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لِّتُنذِرَ‌ أُمَّ الْقُرَ‌ىٰ (So that you may warn the town that is the mother of all towns) - Umm-ul- Qura (mother of all the towns) means the origin and foundation of all habitations and cities which is Makkah. This title has been given to this city because, to Allah Almighty, it is more distinguished and more excellent than all other cities, habitations and the whole earth. Imam Ahmad has narrated in Musnad, with the authority of Sayyidna ` Adiyy Ibn Hamra& Az-zuhri (رض) that he heard the Messenger of Allah at a market of Makkah when he (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was migrating from the city. He (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was addressing Makkah in the following words: انک لخیر ارض اللہ و احبّ ارض اللہ اَلَیَّ ولو لا اِنّی اُخرجت منک لما خرجت |"To me, you are better and dearer than the whole of Allah&s earth; if I had not been expelled from your vicinity, I would never have left it of my own accord.|" (At-tirmidhi, An-Nasa&i, Ibn Majah - rated as ` hasan ahib& by Tirmidhi) وَمَنْ حَوْلَهَا - means the suburbs in the neighborhood of Makkah Mukarramah; it could mean the neighboring Arab countries as well as the whole of the earth from east to west.

(آیت) لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى۔ ام القریٰ کے معنی میں ساری بستیوں اور شہروں کی اصل اور بنیاد، مراد مکہ مکرمہ ہے۔ اس کا نام ام القریٰ اس لئے رکھا گیا کہ یہ شہر ساری دنیا کے شہروں اور بستیوں سے اور ساری زمین سے اللہ کے نزدیک اشرف و افضل ہے۔ جیسا کہ امام احمد نے مسند میں حضرت عدی بن حمرا زہری سے روایت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس وقت سنا جبکہ آپ (مکہ مکرمہ سے ہجرت کر رہے تھے اور) بازار مکہ کے مقام حزورہ پر تھے کہ آپ نے مکہ مکرمہ کو خطاب کر کے فرمایا :۔ تو میرے نزدیک اللہ کی ساری زمین سے بہتر ہے اور ساری زمین سے زیادہ محبوب ہے، اگر مجھے اس زمین سے نکالا نہ جاتا تو میں اپنی مرضی سے کبھی اس زمین کو نہ چھوڑتا۔ وَمَنْ حَوْلَهَا۔ یعنی مکہ مکرمہ کے آس پاس اس سے مراد آس پاس کے عرب ممالک بھی ہو سکتے ہیں اور پوری زمین کی مشرق و مغرب بھی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَمَنْ حَوْلَہَا وَتُنْذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيْہِ۝ ٠ ۭ فَرِيْقٌ فِي الْجَنَّۃِ وَفَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ۝ ٧ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ عَرَبيُّ : الفصیح البيّن من الکلام، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف/ 2] ، وقوله : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، العربی واضح اور فصیح کلام کو کہتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف/ 2] واضح اور فصیح قرآن ( نازل کیا ) بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ أمّ الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته . ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا «1» ، قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف/ 4] «2» أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) «3» ، وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام/ 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة «4» . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک «5» وقیل : أم الأضياف وأم المساکين «6» ، کقولهم : أبو الأضياف «7» ، ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم «8» وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید/ 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه/ 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه «1» ، وکذا : هوت أمّه «2» والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة «3» . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان . ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ } ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ { لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا } ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ } ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق { وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ } ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ { وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ { يَا ابْنَ أُمَّ } ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں حول أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] ( ح ول ) & الحوال ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ ريب فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج/ 5] ، ( ر ی ب ) اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة/ 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ فریق والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین، قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ( ف ر ق ) الفریق اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ سعر السِّعْرُ : التهاب النار، وقد سَعَرْتُهَا، وسَعَّرْتُهَا، وأَسْعَرْتُهَا، والْمِسْعَرُ : الخشب الذي يُسْعَرُ به، واسْتَعَرَ الحرب، واللّصوص، نحو : اشتعل، وناقة مَسْعُورَةٌ ، نحو : موقدة، ومهيّجة . السُّعَارُ : حرّ النار، وسَعُرَ الرّجل : أصابه حرّ ، قال تعالی: وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] ، وقال تعالی: وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] ، وقرئ بالتخفیف «2» ، وقوله : عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] ، أي : حمیم، فهو فعیل في معنی مفعول، وقال تعالی: إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] ، والسِّعْرُ في السّوق، تشبيها بِاسْتِعَارِ النار . ( س ع ر ) السعر کے معنی آگ بھڑکنے کے ہیں ۔ اور سعرت النار وسعر تھا کے معنی آگ بھڑکانے کے ۔ مجازا لڑائی وغیرہ بھڑکانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے : ۔ استعر الحرب لڑائی بھڑک اٹھی ۔ استعر اللصوص ڈاکو بھڑک اٹھے ۔ یہ اشتعل کے ہم معنی ہے اور ناقۃ مسعورۃ کے معنی دیوانی اونٹنی کے ہیں جیسے : ۔ موقدۃ ومھیجۃ کا لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے ۔ المسعر ۔ آگ بھڑکانے کی لکڑی ( کہرنی ) لڑائی بھڑکانے والا ۔ السعار آگ کی تپش کو کہتے ہیں اور سعر الرجل کے معنی آگ یا گرم ہوا سے جھلس جانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] اور جب دوزخ ( کی آگ ) بھڑکائی جائے گی ۔ عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ تو یہاں سعیر بمعنی مسعور ہے ۔ نیز قران میں ہے : ۔ إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] بیشک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں ( مبتلا ہیں ) السعر کے معنی مروجہ نرخ کے ہیں اور یہ استعار ہ النار ( آگ کا بھڑکنا ) کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں کہ ان کے بجائے آپ کی پکڑ کی جائے اور اسی طرح ہم نے بذریعہ جبریل امین آپ پر قرآن عربی نازل کیا ہے تاکہ آپ قرآن کریم کے ذریعے سے سب سے پہلے مکہ والوں اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والوں کو ڈرائیں اور جمع ہونے کے دن کی آفتوں سے بھی ڈرائیں جس میں تمام آسمان و زمین والے جمع ہوں گے جس دن میں کوئی شک نہیں ان جمع ہونے والوں میں سے مسلمانوں کا گروہ جنت میں اور ایک گروہ کافروں کا دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ { وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا } ” اور اسی طرح ہم نے وحی کیا ہے آپ کی طرف یہ قرآن عربی “ آیت ٣ کی طرح یہاں پر بھی وحی کے ذکر کے ساتھ لفظ کَذٰلِکَ آیا ہے۔ اس کی وضاحت قبل ازیں کی جاچکی ہے۔ { لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا } ” تاکہ آپ خبردار کردیں بستیوں کے مرکز اور اس کے ارد گرد رہنے والوں کو “ بالکل یہی الفاظ سورة الانعام کی آیت ٩٢ میں بھی آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی قوم پر اتمامِ حجت کرنے کا یہ وہی طریقہ اور اصول ہے جس کا ذکر سورة القصص کی آیت ٥٩ میں اس طرح ہوا ہے : { وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّہَا رَسُوْلًا } ” اور نہیں ہے آپ کا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا ‘ جب تک کہ وہ ان کی مرکزی بستی میں کوئی رسول نہیں بھیجتا “۔ جزیرہ نمائے عرب کی ” اُمّ القری “ یعنی مرکزی بستی چونکہ مکہ ہے اس لیے مذکورہ اصول کے تحت اس مرکزی بستی میں نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا گیا۔ بلکہ ایک اعتبار سے تو مکہ پوری دنیا کا ” اُمّ القریٰ “ ہے۔ اس لیے کہ حَوْلَ کے معنی اردگرد کے ہیں اور ” اردگرد “ کی حدود کسی خاص نقطے تک محدود نہیں کی جا سکتیں۔ چناچہ ایک مرکزی مقام کے ارد گرد کے دائرے کو اگر بڑھاتے جائیں تو یہ دائرہ پوری دنیا تک پھیل جائے گا۔ اس نکتے کی وضاحت اس سے پہلے سورة الانعام کی آیت ٩٢ کے تحت بھی گزر چکی ہے۔ { وَتُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیْہِ } ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خبردار کردیں اس جمع ہونے والے دن سے جس میں کوئی شک نہیں۔ “ { فَرِیْقٌ فِی الْْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ } ” (اُس دن) ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک گروہ جہنم میں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8 The same thing which had been said in the beginning of the discourse has been said again with greater emphasis, and by making mention of the "Arabic Qur'an", the listeners have been warned to the effect: "The Qur'an is not in any foreign language but in your own language: you can understand it yourself directly; study its themes and see for yourself that the pure and selfless guidance that is being given in it can be from none other than the Lord of the Universe." 9 That is, "Arouse them from slumber and warn them that there is nothing but destruction in store for them in consequence of the errors of morality and conduct in which they are involved and of the perverse principle on which they have ordered their individual and collective lives." 10 That is, "Tell them also that this destruction is not confined only to this world but the Day has to come when Allah will gather together alI mankind and subject them to accountability. Even if a person escaped the evil consequences of his deviation and wickedness in the world, there will be no chance of his escape on that Day, and highly unfortunate is he, who is doomed to a tragic fate both in this world and in the Hereafter."

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :8 وہی بات پھر دہرا کر زیادہ زور دیتے ہوئے کہی گئی ہے جو آغاز کلام میں کہی گئی تھی ۔ اور قرآن عربی کہہ کر سامعین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ یہ کسی غیر زبان میں نہیں ہے ، تمہاری اپنی زبان میں ہے ۔ تم براہ راست اسے خود سمجھ سکتے ہو ، اس کے مضامین پر غور کر کے دیکھو کہ یہ پاک صاف اور بے غرض رہنمائی کیا خداوند عالم کے سوا کسی اور کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :9 یعنی انہیں غفلت سے چونکا دو اور متنبہ کر دو کہ افکار و عقائد کی جن گمراہیوں اور اخلاق و کردار کی جن خرابیوں میں تم لوگ مبتلا ہو ، اور تمہاری انفرادی اور قومی زندگی جن فاسد اصولوں پر چل رہی ہے ان کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :10 یعنی انہیں یہ بھی بتا دو کہ یہ تباہی و بربادی صرف دنیا ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ آگے وہ دن بھی آنا ہے جب اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو جمع کر کے ان کا حساب لے گا ۔ دنیا میں اگر کوئی شخص اپنی گمراہی و بد عملی کے برے نتائج سے بچ بھی نکلا تو اس دن بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہے ۔ اور بڑا ہی بد قسمت ہے وہ جو یہاں بھی خراب ہو اور وہاں بھی اس کی شامت آئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧۔ حشر کے دن کو اکھٹے کرنے کا دن اس لئے فرمایا کہ اس دن حضرت آدم سے لے کر قیامت تک جو انسان روئے زمین پر ہیں وہ سب حساب و کتاب کے لئے شام کے ملک کے میدان میں ایک جگہ اکھٹے کئے جائیں گے چناچہ سورة ہود میں فرمایا ذلک یوم مجموع لہ الناس اور بیہقی کی اسماء بنت ٢ ؎ یزید کی روایت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن سب لوگ ایک میدان میں جمع ہوں گے حضرت عبد اللہ (رض) بن عباس اور صحابہ کی روایتوں میں یہ بھی صراحت آئی ہے کہ وہ میدان شام کے ملک میں ہوگا اس آیت میں تو اللہ تعالیٰ نے مختصر طور پر اتنا ہی فرمایا ہے کہ یہ سب لوگ اکھٹے ہوں گے اور ان میں سے ایک گروہ بہشت میں جائے گا اور ایک دوزخ میں سورة ہود میں اس کی تفصیل فرمائی ہے کہ جو لوگ علم الٰہی میں بد ٹھہر چکے ہیں اور دنیا میں آ کر انہوں نے کام بھی برے کئے وہ دوزخ میں جائیں گے اور جو لوگ علم الٰہی میں نیک ٹھہر چکے ہیں اور دنیا میں آ کر انہوں نے کام بھی نیک کئے وہ جنت میں جائیں گے اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں جو لوگ نیک اور بد قرار پائے تھے اس کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی بتلا دی تھی چناچہ ترمذی ١ ؎ نسائی مسند امام احمد وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت مشہور ہے جس کو ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے حاصل اس روایت کا یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک روز مسجد نبوی میں حجرہ سے باہر تشریف لائے تو آپ کے ہاتھ میں دو کتابیں تھیں آپ نے صحابہ سے پوچھا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ میرے ہاتھوں میں کیا ہے صحابہ نے عرض کیا نہیں ہم کو تو معلوم نہیں آپ نے فرمایا میرے دائیں ہاتھ میں جو کتاب ہے اس میں سب جنتی لوگوں کے نام ہیں اور بائیں ہاتھ میں جو کتاب ہے اس میں سب دوزخی لوگوں کے نام ہیں صحابہ نے عرض کیا کہ حضرت جب جنتی اور دوزخی پہلے ہی سے ٹھہر چکے ہیں تو پھر عمل کی کیا ضرورت ہے آپ نے فرمایا تم عمل کئے جائو جو جنتی ہے اس کا خاتمہ خود ہی اچھی حالت پر ہوگا یہ فرما کر وہ دونوں کتابیں پھینک دیں اور یہی آیت پڑھی فریق فی الجنۃ وفریق فی السعیر۔ یہاں تو وہ ذکر ہے کہ حشر کے میدان سے ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک دوزخ میں اور آیتوں اور حدیثوں سے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ پھر دوزخ میں جانے کے بعد فقط اہل شرک ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا اس طرح کے سب گناہ گار پھر دوزخ سے نجات پائیں گے اور جنت میں داخل ہوں گے چناچہ اس باب میں صحیح بخاری ٢ ؎ اور مسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ جن لوگوں کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ لوگ دوزخ سے نکل کر آخر کو جنت میں جائیں گے۔ (٢ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ شریف باب فی الحساب والقصاص والمیزان الفصل الثالث ص ٤٨٧۔ ) (١ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء ان اللہ کتب کتابالا ھل الجنۃ واھل النار۔ ص ٤٥ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب اثبات الشفاعۃ واخراج الموحدین من النار ص ١٠٤ ج ١۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(42:7) وکذلک : واؤ عاطفہ ہے ک حرف تشبیہ ہے ذلک اسم اشارہ واحد مذکر۔ مشار الیہ۔ ای معنی الایۃ التی قبلہا۔ ماقبل آیت کے معنی میں جو کلام آپ پر بذریعہ وحی نازل کیا گیا ہے یا آپ سے قبل دیگر رسولوں پر نازل کیا گیا تھا ۔ اسی طرح ہم یہ عربی زبان میں قرآن وحی کر رہے ہیں۔ (ملاحظہ ہو 42:3) متذکرۃ الصدر) وکذلک اوحینا الیک، ای ومثل ذلک الایحاء الیک والی من قبلک۔ اوحینا ماضی جمع متکلم۔ ہم نے وحی کی۔ قرانا عربیا موصوف و صفت مل کر اوحینا کا مفعول۔ لتنذر۔ لام تعلیل کی ہے۔ تنذر مضارع معروف منصوب (بوجہ عمل لام) صیغہ واحد مذکر حاضر۔ انذار (افعال) مصدر (تاکہ) تو ڈرائے۔ ام القری۔ مضاف مضاف الیہ۔ القری جمع ہے القریۃ کی۔ قریۃ بمعنی بستی یا بستی کے رہنے والے۔ قریۃ کی جمع قری قیاسی نہیں سماعی ہے کیونکہ فعلۃ کی قیاسی جمع فعلۃ کے وزن پر آتی ہے جیسے ظبیۃ کی جمع ظباء ہے یا ذھبۃ کی جمع ذھاب ہے) بستیوں کی ماں۔ آبادیوں کا مرکز۔ یہاں اس سے مراد شہر مکہ ہے وہی مکۃ سمیت بھذہ الاسم اجلالا لہا۔ (تفسیر کبیر) ام القری مفعول اول ہے تنذر کا۔ ومن حولہا : اور جو اس کے اردگرد رہتے ہیں اس سے مراد صرف مکہ کے آس پاس کی بستیاں یا وہاں کے رہنے والے ہی مراد نہیں ہیں بلکہ سارا عالم مراد ہے ۔ مرکز سے قطر نزدیک ہو یا دور بہرحال اس مرکز ہی سے اس کا تعلق قائم رہیگا۔ ای ارض کلہا۔ (ابن جریر) ۔ یہ مفعول ثانی ہے تنذر کا۔ یوم الجمع۔ مضاف مضاف الیہ جمع ہونے کا دن۔ یوم القیامۃ۔ جب کہ اگلے پچھلے لوگ سب جمع ہوں گے۔ یہ بھی تنذر کا مفعول ہے۔ لاریب فیہ : جس میں ذرا شک نہیں۔ یہ یوم الجمع کی صفت ہے۔ فریق فی الجنۃ وفریق فی السعیر : فریق خبر مبتدا محذوف کی۔ ای بعضھم فریق فی الجنۃ (حقانی) فریق مبتدا فی الجنۃ اس کی صفت خبر محذوف ۔ وکذا فریق فی السعیر : ای منھم فریق کائن فی السعیر : ومنھم فریق کائن فی الجنۃ وضمیر منھم للمجموعین لدلدلۃ الجمع علیہ (روح المعانی) (اس روز) ایک گروہ اپنے ایمان وتقوی، او امر کی تعمیل اور نواہی سے بچنے کی وجہ سے جنت میں ہوگا یا جائے گا ۔ اور ایک گروہ اپنے شرک و کفر عدم تقویٰ اور احکام کی عدم تعمیل اور نواہی کے عدم ترک کی وجہ سے بھڑکتے ہوئے جہنم میں ہوگا (یا جائے گا) ۔ فریق فی الجنۃ بایمانہ وتقواہ اللّٰہ بفعل اوامرہ وترک نواہیہ وفریق فی السعیر بشر کہ وکفرہ باللّٰہ وعدم تقواہ فلا امتثل امرا ولا اجتنب نھیا (ابی بکر جابر) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 ام القری کے لفظی معنی ہیں بستیوں کی ماں یا جڑ اور گرد سے مراد ساری دنیا ہے۔ مکہ کو ام القری اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ روئے زمین کے تمام شہروں ( قریٰ ) سے افضل و اشرف ہے۔ جیسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کے بازار میں کھڑے ہو کر فرمایا : واللہ انک لخیر ارض اللہ واحب ارض اللہ الی کہ اللہ کی قسم ! تو اللہ کی سب سے بہتر اور میری سب سے محبوب زمین ہے۔ ( ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں ” بڑا گائوں پر فرمایا مکہ کو کہ سارے عرب کا مجمع وہاں ہوتا ہے اور ساری دنیا میں گھر انند کا وہاں ہے آس پاس اسکے اول عرب پھر ساری دنیا۔ 13 یعنی قیامت کے دن ( یوم الجمع) نتائج اعمال کے اعتبار سے ایک گروہ جنتی ہوگا اور دوسرا دوزخی یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں جنتی اور دوزخی لکھے جا چکے ہیں۔ ( ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مراد اس سے قیامت کا دن ہے کہ اس میں اولین و آخرین سب جمع ہوجائیں گے۔ 2۔ پس آپ کا کام محض ایسے دن سے ڈرا دینا ہے اور باقی ان کے ایمان و عدم ایمان سے آپ کو کیا بحث، وہ مشیت الہی پر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرکین نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اپنا خیرخواہ اور کارساز بنا لیا ہے۔ اِ ن کو ان کے برے عقیدے کے انجام سے ڈرانے کے لیے آپ کی طرف قرآن وحی کیا گیا ہے کہ آپ انہیں ان کے برے انجام سے متنبہ فرمائیں جس کا آغاز مکہ اور گردونواح سے ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل کیا جو عربی زبان میں ہے۔ عربی زبان میں نازل کرنے کی بنیادی طور پر تین وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اگر قرآن مجید غیر عربی میں ہوتا تو نہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخاطبین کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ملکہ آپ کو بھی قرآن سمجھنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا۔ عربی زبان میں قرآن نازل فرماکر اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس دقت سے بچالیا۔ دوسری وجہ عربی میں قرآن نازل کرنے کی یہ ہے کہ اس زمانے میں صرف عربی زبان ہی ایسی زبان تھی جس کی جامعیت کا اہل علم اعتراف کرتے تھے اور آج بھی یہ زبان پوری دنیا کی زبانوں میں الفاظ اور قواعد کے اعتبار سے زیادہ جامع ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ آخر کسی نہ کسی زبان میں قرآن مجید نازل ہونا تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان تمام اوصاف سے متصف فرمایا تھا جو آخر الزماں پیغمبر میں ہونا چاہیے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عربی تھے اس لیے قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امّ القریٰ اور اس کے گرد و پیش میں رہنے والے لوگوں کو آخرت کے ثواب اور احتساب سے آگاہ فرمائیں جس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ اس دن ذات پات اور ہر قسم کی اونچ نیچ کے سوا صرف لوگ دو حصوں میں تقسیم ہوں گے۔ صحیح عقیدہ اور صالح اعمال رکھنے والے لوگ جنت میں جائیں گے اور بدبخت لوگوں کو جہنّم میں جھونکا جائے گا۔ قرآن مجید نے سورة الاعراف میں ایک تیسرے گروہ کا ذکر بھی کیا ہے جہنیں قیامت کے دن اصحاب الاعراف کے نام سے پکارا جائے گا۔ یہ بالآخر جنت میں جائیں گے۔ لیکن کچھ بنیادی کوتاہیوں کی وجہ سے انہیں ایک عرصہ کے لیے جنّت اور جہنّم کے درمیان روک لیا جائے گا۔ ان کا ذکر یہاں اس لیے نہیں کیا گیا۔ کیونکہ بالآخر وہ جنت کے مہمان ہوں گے۔ اس لیے انہیں جنتیوں میں ہی شمار کیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے مکہ معظّمہ کو امّ القریٰ قرار دیا ہے۔ جس کا معنٰی ہے بستیوں کی ماں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب زمین و آسمان بنانے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے بیت اللہ کے مقام پر زمین کا آغاز ہوا۔ (آل عمران : ٩٦) دوسری وجہ یہ ہے کہ مکہ معظّمہ بیت اللہ کی وجہ سے ابتداء ہی سے مرجع خلائق رہا ہے۔ امّ القریٰ کے آس پاس سے مراد مکہ کے گرد و نواح کی بستیاں ہیں۔ اس آیت میں تبلیغ کا نیٹ ورک بتلایا گیا ہے کہ کام کا آغاز اپنے قریب سے کرنا چاہیے۔ جس کے لیے حکم ہے کہ اپنے آپ اور اپنے عزیز و اقربا کو جہنم کی ہولناکیوں سے بچاؤ۔ ( الشعراء : ٢١٤) اکثر اہل علم نے امّ القریٰ سے پوری دنیا مراد لی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کا ارشاد اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ میں کالے اور گورے، عربی اور عجمی کے لیے رسول بنایا گیا ہوں اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک اسلام کا پیغام دنیا کے ہر گھر تک نہ پہنچ جائے۔[ رواہ احمد : مسند ابی ذر ] (قُلْ یٰٓا أَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا) [ الاعراف : ١٥٨] ” اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیجئے ! اے لوگو میں تم تمام کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل کیا ہے۔ ٢۔ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ ٣۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مکہ اور پوری دنیا کو قیامت کے حساب و کتاب سے متنبّہ کرنے کے لیے مبعوث کیے گئے۔ ٤۔ قیامت کے دن حساب و کتاب کے بعد لوگ دو اقسام میں تقسیم کیے جائیں گے۔ ٥۔ ایک فریق جنتی ہوگا اور دوسرا فریق دوزخ میں جھونکا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن جنت اور جہنم کا ایک منظر : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جنت کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٥۔ جہنم سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ (البقرۃ : ١٦٧) ٦۔ جہنم سے چھٹکارا پانا مشکل ہے۔ (الزخرف : ٧٧) ٧۔ جہنم میں موت وحیات نہیں ہوگی۔ (طٰہٰ : ٧٤) ٨۔ دنیا میں لوٹ آنے کی خواہش پوری نہیں ہوگی۔ (الانعام : ٢٧) ٩۔ جہنم کی سزا میں وقفہ نہیں ہوگا۔ (فاطر : ٣٦) ١٠۔ جہنم کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔ (الفرقان : ٦٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 7 تا 9 وکذلک اوحینا الیک قرانا عربیاً ( ٤٢ : ٧) “ ہاں ، اسی طرح اے نبی یہ قرآن عربی ہم نے تمہاری طرف وحی کیا ہے ”۔ تا کہ تم بستیوں کے مرکزی شہر مکہ کے لوگوں کو ڈراؤ ۔ یہ فقرہ معطوف ہے ، اس فقرے پر جس سے سورت کا آغاز ہوا۔ یعنی کذلک یوحی پر۔ سورت کے آغاز میں آنے والے اس کذلک سے مراد حروف مقطعات تھے۔ یہاں معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان مناسبت حروف مقطعات اور قرآن عربی کی ہے۔ یہ مناسبت ظاہر ہے ۔ یعنی یہ حروف عربی ہیں اور یہ قرآن عربی ہے۔ وحی نے ان حروف سے یہ قرآن بنایا ہے تا کہ وہ اپنا مقصد پورا کرے اور غرض وغایت کیا ہے۔ لتنذر ام القری ومن حولھا (٤٢ : ٧) “ تا کہ تم بستیوں کے مرکز (شہر مکہ) اور اس کے گردو پیش رہنے والوں کو خبردار کردو ”۔ ام القریٰ سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ اس میں بیت اللہ ، اللہ کا پرانا گھر تھا۔ اللہ نے یہ پسند فرمایا کہ خانہ کعبہ اس آخری رسالت کا مرکز ہو اور اللہ نے اپنی آخری کتاب کے لئے عربی زبان کو منتخب کیا۔ یہ اس کی مصلحت تھی اور وہی اس کو جانتا ہے کہ کیوں۔ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ “ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے ”۔ آج جب ہم تاریخی واقعات کا جائز لیتے ہیں اور پوری تاریخ کو چھانتے ہیں ، اس وقت کے حالات اور تقاضوں کو دیکھتے ہیں۔ پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ دعوت کس طرح پھیلی اور کن خطوط پر آگے بڑھی اور اس نے کیا کیا نتائج پیدا کئے اور دنیا پر کیا کیا اثرات چھوڑے۔ آج جب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ نے اس سر زمین کو اس مقصد کے لئے کیوں منتخب کیا تھا۔ اور تاریخ کے ایک خاص موڑ پر اس آخری رسالت کے لئے کیوں مکہ مکرمہ کو مرکز ٹھہرایا۔ جبکہ یہ آخری رسالت تھی بھی عالمی رسالت ، تمام انسانوں کے لئے تھی۔ اور جس کے عالمی خدو خال اس کے ابتدائی دنوں ہی سے عیاں تھے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور کے دور میں پورے کرۂ ارض کے آباد علاقوں کو چار شہنشاہوں نے باہم تقسیم کر رکھا تھا۔ روی سلطنت جو پورے ایشیا کے ایک حصے ، اور افریقہ پر حکمران تھی۔ کسرائے فارس کی مملکت جس کا اقتدار ایشیا کے ایک بڑے حصے ، افریقہ کے ایک حصے پر قائم تھا ، مملکت ہند اور مملکت چین۔ یہ آخر الذکر دونوں شہنشاہتیں اپنے خول میں بند تھیں ، ان کے اپنے عقائد تھے اور صرف چین و ہند کے باہم سیاسی روابط تھے ، چونکہ چین وہند کی مملکتیں اپنے ہی خول میں بند تھیں۔ اس لیے دنیا کے معاشروں پر حقیقی اثر قیصر روم اور کسرائے فارس ہی کی حکومتوں کو حاصل تھا۔ اس دور میں دنیا میں دو مشہور سماوی دین تھے۔ یہودیت اور نصرانیت ۔ یہ دونوں مذاہب اس پوزیشن تک پہنچ گئے تھے کہ یہ کسی نہ کسی حکومت اور مملکت کے زیر اثر ہوگئے تھے۔ ان ادیان پر حکومت کا اثر قائم ہوگیا تھا۔ کسی مملکت پر دین کا اثر نہ تھا بلکہ مملکت دین پر غالب تھی۔ یہ اس لیے کہ ان ادیان کے اندر تحریف و تغیر واقع ہوگیا تھا اور اہل دین بد عمل ہوگئے تھے۔ یہودیوں پر تو کبھی رومی ظلم کرتے اور کبھی اہل فارس ان پر مظالم ڈھاتے۔ ان کی تو اس علاقے میں کوئی قابل ذکر پوزیشن نہ تھی۔ حالات نے یہودیت کو مجبور کردیا تھا کہ وہ صرف یہودیوں ، یعنی بنی اسرائیل کا دین بن جائے اور خود اپنے اندر سکڑ جائے۔ ان کو نہ اس بات کی ضرورت تھی اور نہ خواہش تھی کہ وہ دوسری اقوام کو دین یہودیت میں لائیں۔ جہاں تک موجودہ عیسائیت کا تعلق ہے ، یہ مملکت روما کی پیدا کردہ ہے۔ جس وقت عیسائیت وجود میں آئی تو مملکت روما ، فلسطین ، مصر ، شام اور ان باقی حصوں پر برسر اقتدار تھی جن میں مسیحیت خفیہ طور پر پھیل گئی تھی اور مملکت روما اس پر تشدد کر رہی تھی۔ اس دین کو ماننے والوں کا پیچھا کیا جاتا تھا۔ اور ان پر سختیاں کی جاتی تھیں۔ یہ تشدد اس قدر سخت تھا کہ ہزارہا لوگوں کو ظالمانہ طریقے پر ذبح کیا گیا ۔ جب اس تشدد کا دور ختم ہوا اور قیصر روم خود دین مسیحیت میں داخل ہوگیا تو وہ اپنے ساتھ بت پرستانہ افسانے بھی لایا۔ چناچہ یونان کے مذہبی دیو مالائی فلسفے عیسائیت میں داخل ہوگئے اور عیسائیت کی سادہ شکل ہی کو بدل کر رکھ دیا گیا۔ لہٰذا اب سرکار کے سائے میں جو عیسائیت وجود میں آئی ، وہ اس دین سے بالکل مختلف تھی جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اتارا تھا بلکہ یہ ایک نئی چیز وجود میں آگئی۔ ہوا یوں کہ مملکت روم نے کلمہ تو پڑھ لیا مگر وہ مسیحیت سے متاثر نہ ہوئی۔ ادھر مسیحیت تشدد سے تو کنٹرول میں نہ آئی تھی ، اب مکمل طور پر کنٹرول میں آگئی۔ اس سرکاری کنٹرول کی وجہ سے یہ دین مزید ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور اس طرح تشدد کا ایک دوسرا دور شروع ہوا ، سرکاری مسیحیت نے دوسرے فرقوں کو کچلنا شروع کردیا۔ کینسہ تقسیم ہوگیا اور یہ خطرہ بھی پیدا ہوگیا کہ اس کے نتیجے میں مملکت روما منقسم ہوجائے۔ یوں ایک سرکاری فرقے نے دوسرے فرقوں کو کچلا اور دونوں کی حالت یہ ہوگئی کہ کوئی بھی حضرت عیسیٰ کے دین پر نہ رہا۔ یہ وقت تھا جب اسلام نمودار ہوا۔ اسلام کا مقصد یہ تھا کہ انسانیت جس انحراف ، فساد ، ظلم اور جاہلیت میں گرفتار ہے ، اسے ان تاریکیوں سے نکالا جائے۔ اسلام نے چاہا کہ پوری انسانی زندگی کو اپنے کنٹرول میں لے ، اور نہایت ہی روشنی اور صحیح راستے پر اس کی راہنمائی کرے۔ یہ ضروری تھا کہ اسلام پوری انسانیت کے اوپر اپنا اقتدار اعلیٰ قائم کرے تا کہ انسانی زندگی میں وہ عظیم انقلاب لایا جاسکے ۔ جو اسلام کے پیش نظر تھا۔ لہٰذا یہ ضروری تھا کہ اسلام کا آغاز کسی ایسے مقام سے کیا جائے جو آزادانہ ہو اور وہاں دنیا کی بڑی شہنشاہیتوں میں سے کوئی بھی برسر اقتدار نہ ہو۔ اور اسلام کی ترقی اور نشوونما ایسے حالات میں ہو کہ اس پر کوئی ایسی مملکت مسلط نہ ہو ، جو اس کے مزاج کے متضاد ہو۔ بلکہ اس علاقے پر اسلام خود ہی برسر اقتدار ہو۔ ان مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر سوچا جائے تو مکہ مکرمہ ، اس وقت کے حالات کے مطابق آغاز اسلام کے لئے ایک بہترین مقام تھا ، جہاں سے اسلام نے اپنا عالمی سفر شروع کیا کیونکہ ایک عالمی انقلاب اول روز سے اسلام کے پیش نظر تھا۔ جزیرۃ العرب میں ان دنوں کوئی منظم حکومت نہ تھی جس کے اپنے قوانین ہوں ، جس کی فوجیں ہوں ، جس کی پولیس ہو ، اور وہ پورے جزیرۃ العرب پر اقتدار رکھتی ہو۔ اور جو اپنے منظم ڈھانچے کے بل بوتے پر جدید نظریہ حیات کا مقابلہ کرسکتی ہو۔ اور جمہور عوام پوری طرح اس کے کنٹرول میں ہوں جیسا کہ اس وقت دنیا کی چار شہنشاہیتوں میں ایسا انتظام تھا۔ پھر جزیرۃ العرب میں ایسا واضح دین بھی نہ تھا ، جس طرح یہودیت ، عیسائیت تھی یا بکھری ہوئی بت پرستی تھی۔ تمام قبائل کے معتقدات اور ان کے طریقہ ہائے حیات مختلف تھے۔ پھر ان کے الہہ بھی مختلف تھے۔ ملائکہ سے ، جنوں سے ، سیاروں اور ستاروں سے ، اور بتوں سے ، لیکن ان حالات کے باوجود خانہ کعبہ اور قریش کی دینی قیادت و سیادت ، پورے جزیرۃ العرب میں مسلم تھی۔ اگرچہ یہ قیادت باقاعدہ اقتدار اعلیٰ کی نہ تھی ، نہ مکہ پر اور نہ بیرون مکہ پر۔ اس وجہ سے دین جدید کی مزاحمت حکومتی سطح پر نہ تھی۔ قریش نے دین جدید کا ایک حد تک مقابلہ ضرور کیا لیکن اگر اقتصادی وجوہات نہ ہوتیں ، اور قریش کے سرداروں کے خاص مفادات کا مسئلہ نہ ہوتا تو اسلام کی جو مخالفت ام القریٰ میں ہوئی وہ بھی نہ ہوتی۔ جہاں تک عقائد ونظریات کا تعلق ہے ، وہ جانتے تھے کہ ان کے عقائد پوچ ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جزیرۃ العرب میں کسی سیاسی نظام کا نہ ہونا ، یا کسی منظم دینی نظام کا نہ ہونا ، اسلام کے مفاد میں تھا ، ابتدائی ادوار میں اسلام کے اوپر کوئی خاص دباؤ نہ تھا۔ اگر کوئی ایسا نظام ہوتا تو وہ لازماً اسلام کے مزاج کے خلاف ہوتا اور وہ اسلام کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا۔ بلکہ کسی اجتماعی حکومتی اور دینی نظام کی عدم موجودگی میں ، ایک طرح اسلام کی حمایت کا پہلو نکل آیا۔ اجتماعی نظام حکومت کی جگہ جزیرۃ العرب میں قبائلی نظام تھا اور اس قبائلی نظام میں خاندان کو اہمیت حاصل ہوتی۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت اسلامی لے کر اٹھے تو بنی ہاشم کی تلواریں آپ کے ساتھ تھیں اور جو قبائلی توازن قائم تھا وہ آپ کے حق میں تھا ۔ کیونکہ بنو ہاشم باوجود اس کے کہ آپ کے دین کو قبول نہ کرتے تھے لیکن آپ کے حامی ضرور تھے۔ بلکہ آغاز اسلام میں جن جن لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا اور ان کا تعلق اہم قبائل سے تھا ، ان پر لوگ کسی قسم کے تشدد سے ڈرتے تھے۔ ان کی اصلاح اور تادیبی کاروائی کا کام قبائل کے سپرد تھا۔ اسی طرح جن غلاموں پر تشدد ہوا ان پر بھی ان کے مالکان نے تشدد کیا ، یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر ایسے غلاموں کو خریدتے اور آزاد کردیتے۔ اس طرح ان پر سختی ختم ہوجاتی اور وہ حضرت ابوبکر کے موالی ہوجاتے۔ اب لوگ ان کے دین کے بارے میں زیادہ نہ چھیڑتے ۔ اس صورت حال نے دین جدید کو ایک امتیازی شان دے دی ۔ تمام غرباء اور غلام اس کی طرف لپکے۔ پھر عربوں کے اندر بہادری ، ذاتی وقار ، جوانمردی اور بھلائی پر خوشی سے آمادہ ہوجانے کی صفات بھی تھیں۔ یہ وہ صفات ہیں جو جدید دین کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے ضروری تھیں۔ ان باتوں کے علاوہ جزیرۃ العرب میں اس وقت وہ تمام صلاحیتیں موجود تھیں جو کسی تہذیب و ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہیں اور ساکنان جزیرہ ان پر فخر کرتے تھے۔ جزیرۃ العرب میں قوت ، قابلیت ، شخصیات کے کافی ذخائر موجود تھے جو بےتاب تھے کہ ان کو کام میں لایا جائے۔ غیب کے قلب میں یہ سب کچھ موجود تھا۔ پھر اہل قریش پوری دنیا میں گرویدہ اور گرم و سروچشیدہ تھے۔ وہ ایک طرف قیصر روم کی مملکت میں سفر کرتے تھے دوسری جانب وہ کسری فارس کے علاقوں میں سفر کرتے تھے اور انہوں نے اس وقت کی تہذیب و تمدن کے تمام تجربات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے تھے۔ اہل قریش کے سفر موسم گرما اور سفر موسم سرما کو قرآن کریم نے ہمیشہ کے لئے ریکارڈ بھی کردیا ہے۔ لایلف قریش (١٠٦ : ١) الفھم رحلۃ الشتاء والصیف (١٠٦ : ٢) فلیعبدوا رب ھذا البیت (١٠٦ : ٣) الذی اطعمھم من جوع وامنھم من خوف (١٠٦ : ٤) “ چونکہ قریش مانوس ہوتے ہیں ، جاڑے اور گرمی کے سفروں سے ، لہٰذا ان کو چاہئے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک سے بچا کر کھانے کو دیا اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا ”۔ پھر تجربات کا ایک بڑا ذخیرہ ان کے ہاں مختلف اسباب کے تحت جمع ہوگیا ، تا کہ جزیرۃ العرب اسلامی انقلاب کی مہم کے لئے تیار ہوجائے۔ جب اسلام آیا تو اس نے ان تمام ذخائر اور صلاحیتوں کو اسلام کے حق میں استعمال کیا۔ عربوں کی طاقت اور جنگی صلاحیت جو صدیوں سے جمع ہوچکی تھی ، وہ صلاحیت کھل گئی۔ اسلام کی کنجی سے یہ خزانے رو بعمل ہوگئے۔ یہ تمام صلاحیتیں اسلام کا سرمایہ بن گئیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آغاز اسلام ہی سے اسلام کو ایسی عظیم شخصیات مل گئی جن کا ملنا کسی تحریک کے لئے بڑی خوش نصیبی ہوتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام اس زاویہ نظر سے بہت بڑا مقام رکھتے ہیں ، مثلاً حضرت ابوبکر ‏ (رض) ‌ (رض) ، حضرت عمر (رض) ، حضرت عثمان (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت حمزہ (رض) ، حضرت عباس (رض) ، حضرت ابو عبیدہ (رض) ، حضرت سعد (رض) ، حضرت معاذ (رض) ، حضرت ابو ایوب انصاری وغیرھم۔ ساتھیوں کا یہ باصلاحیت گروپ جنہوں نے ابتداء ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا ، ان کے دل اللہ نے اسلام کے لئے کھول دئیے ، انہوں نے اس دعوت کو اٹھایا۔ اس دعوت کے ذریعہ یہ باصلاحیت لوگ مزید بڑے لوگ بن گئے اور ان کی صلاحیتیں اور نکھر گئیں۔ لیکن ان کے اندر بنیادی قابلیت اسلام سے پہلے بھی موجود تھی۔ یہاں ہم تفصیلی اسباب نہیں لکھ سکتے کہ جزیرۃ العرب کو کیوں دعوت اسلامی کے لئے منتخب کیا گیا۔ کیوں اس دعوت کو آغاز میں بچا کر جزیرۃ العرب ہی میں اس کی نشوونما کی گئی ، اور کیوں ام القریٰ اور ماحول کو برتری دی گئی کہ بڑی مملکتیں اس کی طرف متوجہ ہی نہ ہوئیں ، تو یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جزیرۃ العرب کو جدید رسالت کے لئے ایک پرورش گاہ بنانا چاہتا تھا ۔ جس نے پوری انسانیت کو روشنی دینی تھی۔ اور پھر ام القریٰ کو منتخب کیا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے اٹھیں۔ بہرحال یہ بہت ہی طویل بحث ہوگی اور اس کے لئے ایک مستقل کتاب کے صفحات درکار ہیں۔ یہاں یہی اشارات کافی ہیں اور جن سے آگے بڑھ کر مزید اسباب بھی معلوم کئے جاسکتے ہیں ، یہ تو ان اسباب کا ایک حصہ ہیں۔ جس طرح ہم کائنات میں سنن الٰہیہ کے سلسلے میں نئے اسباب معلوم کر رہے ہیں۔ اسی طرح ام القریٰ کے بارے میں مزید وجوہات غوروفکر کے بعد سامنے لائی جاسکتی ہیں۔ غرض یوں یہ قرآن ام القریٰ میں نازل ہوا ، اس نے اس کے اردگرد کام شروع کیا اور جب پورا جزیرۃ العرب جاہلیت سے نکل کر اسلام میں داخل ہوگیا۔ اور عرب پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوگئے تو انہوں نے اسلام کے جھنڈے بلند کر دئیے اور وہ اسلام کو لے کر شرق و غرب میں داخل ہوگئے اور انہوں نے جدید رسالت اور اس کے ذریعہ آیا ہوا نظام اسلام اور نظام شریعت انسانوں کے سامنے پیش کیا۔ جس طرح اسلام کا مزاج تھا۔ جن لوگوں نے یہ جھنڈے بلند کئے وہ اس مقصد کے لئے صالح ترین لوگ تھے۔ جنہوں نے اسے اٹھایا اور پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ جب وہ اسے لے کر اٹھے تو اسلام کی تولید وتشکیل ایک بہترین ماحول میں ہوچکی تھی۔ یہ بات کوئی اتفاقی بات نہیں ہے کہ اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پورے جزیرۃ العرب میں اسلام کے مکمل غلبے تک زندہ رکھا اور پورے جزیرۃ العرب کو مشرکین اور شرک کے آثار سے بھی پاک کردیا گیا۔ پھر اس دعوت کے لئے عربی زبان کو بھی محض اتفاق سے نہ چنا تھا بلکہ دنیا کی زبانوں میں یہ اس دعوت کے پھیلانے کے لئے نہایت ہی موزوں زبان تھی۔ یہ ایک مکمل اور پختہ زبان تھی۔ اس کے اندر وسعت کی بےپناہ صلاحیت تھی اور اس دعوت کے مقاصد کے لئے اس وقت اس سے زیادہ بہتر اور کوئی زبان نہ تھی۔ اگر یہ کوئی اور زبان ہوتی یا اس زبان کی تشکیل اور مقاصد کے لئے اس وقت اس سے زیادہ بہتر اور کوئی زبان نہ تھی۔ اگر یہ کوئی اور زبان ہوتی یا اس زبان کی تشکیل اور ساخت میں کوئی جھول ہوتی تو اس کے لئے ممکن نہ ہوتا ہے کہ یہ زبان دعوت اسلامی کے مقاصڈ کو پورا کرسکتی اور نہ یہ زبان اس دعوت کو جزیرۃ العرب کے باہر پھیلا سکتی۔ غرض جس طرح رجال عرب اس دعوت کا بوجھ اٹھانے کے لئے موزوں تھے اسی طرح ان کی زبان بھی موزوں تھی ، (یہ زبان پھر قرب و جوار کے ملکوں کی زبان بن گئی ) ۔ غرض یہ وہ قدرتی سازگاریاں تھیں جو اس رسالت کے جزیرۃ العرب سے آغاز میں مضمر تھیں۔ لیکن تمام وجوہات کے مقابلے میں اصل وجہ یہی ہے جو خود قرآن نے بتائی ہے۔ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ “ اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھتا ہے ”۔ بہرحال غورو تدبر سے حکمت الٰہیہ کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔ لتنذر ام القری ۔۔۔۔ فی السعیر (٤٢ : ٧) “ تا کہ تم بستیوں کے مرکز اور اس کے گردو پیش رہنے والوں کو خبردار کر دو ، اور جمع ہونے کے دن سے ڈراؤ جس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ ایک گروہ کو جنت میں جانا ہے اور دوسرے گروہ کو دوزخ میں ”۔ قرآن کریم میں ڈراوے کا ذکر بہت آتا ہے۔ بار بار مختلف طریقوں سے لفظ انذار آتا ہے۔ اس سے مراد یوم قیامت سے ڈرانا ہے۔ پوری دنیا کی تاریخ میں جس زمان ومکان میں انسان پیدا ہوئے اور فوت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ایک دن سب کو جمع کرے گا اور پھر ان کی گروہ بندی ہوگی ، فریق فی الجنۃ وفریق فی السعیر (٤٢ : ٧) “ ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک جہنم میں ”۔ جس طرح انہوں نے اس دنیا میں عمل کیا ، جو دارالعمل ہے اور جو رویہ انہوں نے اپنی اس مختصر زندگی میں اختیار کیا۔ ولو شاء اللہ لجعلھم ۔۔۔۔۔۔ ولا نصیر (٤٢ : ٨) “ اگر اللہ چاہتا ہے تو ان سب کو ایک ہی امت بنا دیتا مگر وہ جسے چاہتا ہے ، اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کا نہ کوئی ولی ہے اور نہ مددگار ”۔ اگر اللہ چاہتا تو انسانوں کی تخلیق ہی دوسرے انداز سے کرتا جس میں ان کا رویہ ایک جیسا ہوتا۔ ان کا انجام بھی ایک ہی ہوتا ، یا سب جنتی ہوتے یا سب جہنمی ہوتے لیکن اللہ نے اس انسان کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ وہ اس کرۂ ارض پر اللہ کا خلیفہ ہے۔ اور اس خلافت کا تقاضا یہ تھا کہ انسان ایسا ہو جیسا کہ وہ ہے۔ انسان کو خصوصی استعداد دی جائے ، اس استعداد کے ذریعہ وہ فرشتوں سے بھی ممتاز ہو اور شیاطین سے بھی ممتاز ہو۔ جن کی تخلیق کسی محدود مقصد کے لئے ہے اور ان کا ایک ہی رویہ ہے۔ اس استعداد کے ذریعہ بعض انسان ہدایت اور نور کی طرف آجائیں ، عمل صالح کریں ، اور بعض لوگ گمراہی اور تاریکی کی طرف چلیں اور برے کام کریں۔ ہر انسان ان اجتمالات میں سے ایک طرف جھک جائے جو اس کی طبیعت میں رکھے ہوئے ہیں اور پھر اس احتمال کے لئے جو انجام مقرر ہے اس سے دوچار ہو ، یعنی ایک فریق جنت میں جائے اور دوسرا دوزخ میں۔ اور اس طرح یہ بات حق بن جائے کہ ۔ یدخل من یشاء فی رحمتہ والظالمون ما لھم من ولی ولا نصیر (٤٢ : ٨) “ اور ظالموں کا نہ کوئی ولی ہے اور نہ مددگار ” ۔ اور اللہ کی مشیت نے اپنا کام اپنے سابق علم کی وجہ سے کیا۔ انسان اس کی ہدایت کی وجہ سے اس کی رحمت مستحق ہوا اور ضلالت کی وجہ سے وہ گمراہی و عذاب کا مستحق ہوگیا۔ اس سے قبل یہ بات گزر گئی کہ بعض لوگوں نے اللہ کے سوا اور سرپرست بنا رکھے تھے۔ یہاں یہ فیصلہ دے دیا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا تو کوئی ولی و مدد گار نہ ہوگا ۔ لہٰذا جن کو وہ ولی و مدد گار پکڑتے ہیں تو ، یہ ایک فضول حرکت ہے ان کی جانب سے کیونکہ ان کا تو وجود ہی نہیں ہے۔ پھر پوچھا جاتا ہے : ام اتخذوا من دونہ اولیاء ( ٤٢ : ٩) “ کہا ، انہوں نے اللہ کے سوا اور ولی و مددگار پکڑ رکھے ہیں ؟” یہ سوال استنکاری اس لیے ہے کہ ان کو متوجہ کر کے یہ فیصلہ دے دیا جائے کہ اللہ وحدہ ولی و مددگار ہے۔ وہ قادر مطلق ہے۔ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور اس سے اس کی قدرت واضح ہوتی ہے۔ مردے کو حیات دینا یہ بہت بڑی قدرت ہے۔ فاللہ ھو الولی وھو یحی الموتی (٤٢ : ٩) “ اللہ ہی ولی و مددگار ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے ” اس کے بعد اس خصوصی قدرت کے مظہر یعنی احیائے موتیٰ کے بعد عام قدرت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ وھو علی کل شیء قدیر (٤٢ : ٩) “ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ”۔ اس کی قدرت صرف احیائے موتیٰ تک محدود نہیں ۔ ٭٭٭ پھر روئے سخن اس سورت کے موضوع اول کی طرف مڑتا ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں اپنے تمام اختلافات کس معیار پر رفع کئے جائیں گے۔ یہ وحی واحد معیار حق ہے جو اللہ کی طرف سے آئی ہے ، یہ صراط مستقیم ہے اور مکمل اسلامی نظام زندگی آنے کے بعد تم نے تمام اختلافات اس کے مطابق ختم کرنے ہیں۔ اب یہ نہ ہوگا کہ ہر شخص ہوائے نفس کے مطابق چلے

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا کہ ہم نے آپ کو یہ قرآن وحی کے ذریعہ دیا جو عربی میں ہے تاکہ آپ ام القریٰ یعنی مکہ والوں کو ڈرائیں (جو آپ کے اولین مخاطب ہیں) اور ان لوگوں کو بھی ڈرائیں جو مکہ کے چاروں طرف رہتے ہیں یعنی دیگر اہل عرب ان سب کو کفر کی سزا سے ڈرائیں اور بتادیں کہ اگر ایمان نہ لائیں تو اس کی سخت سزا ہے، اور آپ ان سب کو جمع ہونے کے دن سے بھی ڈرائیں اس سے قیامت کا دن مراد ہے جس کے واقع ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، اس دن بندوں کے درمیان فیصلے کیے جائیں گے اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائے گا اس کے فیصلے کو کوئی رد کرنے والا نہیں، پہلے سے اس کا فیصلہ ہے ﴿ فَرِيْقٌ فِي الْجَنَّةِ وَ فَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ ٠٠٧﴾ (ایک فریق جنت میں ہوگا اور ایک فریق دوزخ میں ہوگا) یہ اجمالی فیصلہ دنیا میں سنا دیا ہے اور قیامت کے دن ہر فریق کو الگ الگ کردیا جائے گا اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر دوزخ میں چلے جائیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ ” و کذلک اوحینا۔ الایۃ “ کاف بیان کمال کے لیے ہے یعنی ہم نے یوں اس قدر واضح کر کے یہ مضمون (توحید) عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ مکہ اور اس کے گرد و نواح کے لوگوں کو اس کے احکام سے خبردار کریں اور ان کو قیامت کے دن سے ڈرائیں جس میں سب لوگوں کو اکٹھا کیا جائیگا اور جس کی آمد میں کوئی شک نہیں۔ اس دن تمام انسان دو جماعتوں میں تقسیم ہوں گے ایک ایمان والوں کی جماعت یہ جنت میں جائیگی اور دوسری کفار و مشرکین کی جماعت یہ جہنم کا ایندھن ہوگی۔ یہ مشرکین اگر ایسا واضح قرآن بھی نہیں مانتے، تو جہنم کے لیے تیار رہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) اور ہم نے اسی طرح اس قرآن عربی کو آپ پر نازل کیا ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں اور یہ قرآن عربی زبان میں اس لئے آپ پر نازل کیا ہے تاکہ آپ اہل مکہ کو اور مکہ کے چاروں طرف رہنے والوں کو خبردار کردیں اور اس دن سے ڈرادیں جو سب کے جمع ہونے کا دن ہے اس دن کے آنے میں ذرا شک نہیں ہے اس دن ایک فریق جنت میں داخل ہوگا اور ایک فریق جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ وکذلک کی تشبیہ کا دو طرح ترجمہ کیا گیا ہے ہم تم دونوں کو ترجمہ اور تیسیر میں ظاہر کردیا ہے یعنی مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہر پیغمبر کو اس کی قومی زبان میں وحی بھیجی گئی ہے اس طرح آپ کو عربی زبان کا قرآن دیا گیا ہے یا یہ کہ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ہم نے اس قرآن عربی کو آپ کی طرف اس لئے نازل کیا ہے کہ آپ ام القریٰ یعنی مکہ جو چھوٹے چھوٹے گائوں اور قصبات کی اصل ہے اور بڑا شہر ہے اس کے بسنے والوں کو ڈرا دیں اور خبر دار کردیں اور اس کے چاروں طرف کے رہنے والوں کو ڈرادیں اور جمع ہونے کے دن سے یعنی قیامت سے ڈرادیں جس کے آنے اور واقع ہونے میں کوئی گنجائش شک کرنے کی نہیں کیونکہ دلائل عقلی اور نقلی سے قیامت کا وقوع ثابت ہوچکا ہے۔ اس دن کا خلاصہ یہ ہے کہ اس دن ایک فریق یعنی مومن کنت میں ہوں گے اور ایک فریق یعنی منکر جہنم میں داخل کئے جائیں گے۔ ومن حولھا چونکہ مکہ دنیا کے وسط میں واقع ہے اس لئے ومن حولھا کا مطلب یہ ہے کہ تمام عالم کے لئے آپ ڈرانے والے ہیں اور اگر ومن حولھا سے عموم مراد نہ لیا جائے بلکہ مکہ معظمہ کے اس پاس کی بستیاں مراد لی جائیں تو پھر یہ مطلب ہوگا کہ ابتداء میں اول ان لوگوں کو ڈرایا جائے اوپر فرمایا تھا کہ ان پر وکیل اور مختار کار نہیں ہیں اب اس کو اور واضح فرماتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ گائوں فرمایا مکہ کو سارے عرب کا مجمع وہی ہوتا ہے اور ساری دنیا میں گھر اللہ کا وہیں آس پاس اول عرب بعد اس کے ساری دنیا۔