Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 21

سورة الزخرف

اَمۡ اٰتَیۡنٰہُمۡ کِتٰبًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ فَہُمۡ بِہٖ مُسۡتَمۡسِکُوۡنَ ﴿۲۱﴾

Or have We given them a book before the Qur'an to which they are adhering?

کیا ہم نے انہیں اس سے پہلے کوئی ( اور ) کتاب دی ہے جسے یہ مضبوط تھامے ہوئے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Idolators have no Proof Allah condemns the idolators for worshipping others instead of Allah with no evidence or proof for doing so. أَمْ اتَيْنَاهُمْ كِتَابًا مِّن قَبْلِهِ ... Or have We given them any Book before this? means, before their idolatry. ... فَهُم بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ to which they are holding fast, means, with regard to what they are doing. This is not the case. This is like the Ayah: أَمْ أَنزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطَـناً فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُواْ بِهِ يُشْرِكُونَ Or have We revealed to them an authority (a Scripture), which speaks of that which they have been associating with Him? (30:35) meaning, that did not happen. Then Allah says: بَلْ قَالُوا إِنَّا وَجَدْنَا ابَاءنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى اثَارِهِم مُّهْتَدُونَ

جو لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے ہیں ان کا بےدلیل ہونا بیان فرمایا جارہا ہے کہ کیا ہم نے ان کے اس شرک سے پہلے انہیں کوئی کتاب دے رکھی ہے ؟ جس سے وہ سند لاتے ہوں یعنی حقیقت میں ایسا نہیں جیسے فرمایا ( اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطٰنًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوْا بِهٖ يُشْرِكُوْنَ 35؀ ) 30- الروم:35 ) یعنی کیا ہم نے ان پر ایسی دلیل اتاری ہے جو ان سے شرک کو کہے ؟ یعنی ایسا نہیں ہے پھر فرماتا ہے یہ تو نہیں بلکہ شرک کی سند ان کے پاس ایک اور صرف ایک ہے اور وہ اپنے باپ دادوں کی تقلید کہ وہ جس دین پر تھے ہم اسی پر ہیں اور رہیں گے امت سے مراد یہاں دین ہے اور آیت ( اِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ڮ وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ 92؀ ) 21- الأنبياء:92 ) ، میں بھی امت سے مراد دین ہی ہے ساتھ ہی کہا کہ ہم انہی کی راہوں پر چل رہے ہیں پس ان کے بےدلیل دعوے کو سنا کر اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہی روش ان سے اگلوں کی بھی رہی ۔ ان کا جواب بھی نبیوں کی تعلیم کے مقابلہ میں یہی تقلید کو پیش کرنا تھا ۔ اور جگہ ہے آیت ( كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ 52؀ۚ ) 51- الذاريات:52 ) یعنی ان سے اگلوں کے پاس بھی جو رسول آئے ان کی امتوں نے انہیں بھی جادوگر اور دیوانہ بتایا ۔ پس گویا کہ اگلے پچھلوں کے منہ میں یہ الفاظ بھر گئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ سرکشی میں یہ سب یکساں ہیں پھر ارشاد ہے کہ گویہ معلوم کرلیں اور جان لیں کہ نبیوں کی تعلیم باپ دادوں کی تقلید سے بدرجہا بہتر ہے تاہم ان کا برا قصد اور ضد اور ہٹ انہیں حق کی قبولیت کی طرف نہیں آنے دیتی پس ایسے اڑیل لوگوں سے ہم بھی ان کی باطل پرستی کا انتقام نہیں چھوڑتے مختلف صورتوں سے انہیں تہ و بالا کر دیا کرتے ہیں ان کا قصہ مذکور و مشہور ہے غور و تامل کے ساتھ دیکھ پڑھ لو اور سوچ سمجھ لو کہ کس طرح کفار برباد کئے جاتے ہیں اور کس طرح مومن نجات پاتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی قرآن سے پہلے کوئی کتاب، جس میں ان کو غیر اللہ کی عبادت کرنے کا اختیار دیا ہے جسے انہوں نے مضبوطی سے تھام رکھا ہے ؟ یعنی ایسا نہیں ہے بلکہ اپنے آباو اجداد کی پیروی کے سوا ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ام اتینھم کتباً من قبلہ …:” ام “ سے پہلے ہمزہ استفہام پر مشتمل کوئی جملہ ہوتا ہے جو بعض اوقات مذکور اور بعض اوقات محذوف ہوتا ہے۔ یہاں ذکر یہ ہو رہا ہے کہ مشرکین نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بٹیٹیاں قرار دے کر انھیں اللہ تعالیٰ کا شریک بنا لیا، اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بات کا رد فرمایا۔ ظاہر ہے فرشتوں کے مونث ہونے کا علم یا تو مشاہدے سے ہوسکتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے بتانے سے، جو اس کی نازل کردہ کسی کتاب میں موجود ہو۔” اشھدوا خلقھم “ (کیا وہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے) میں پہلی صورت کا رد اور ان کے مشاہدے کی نفی ہے، یعنی انھوں نے ان کی پیدائش کو نہیں دیکھا کہ وہ مذکر ہیں یا مونث اور ” ام اتینھم کتباً من قبلہ “ (یا کیا ہم نے انھیں اس سے پہلے کوئی کتاب دی ہے) میں دوسری صورت کا رد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس فرشتوں کے مونث ہونے کی اور ان کی پرستش کی کوئی نقلی دلیل بھی نہیں ہے۔ کسی آسمانی کتاب میں انھیں یہ لکھا ہوا نہیں ملے گا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں یا اس کی بادشاہت میں ان کا کوئی حصہ ہے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر دہرائی ہے۔ دیکھیے سورة روم (٣٥) ، فاطر (٤٠) ، صافات (١٥٦، ١٥٧، احقاف (٤) ، نمل (٦٤) ، حج (٨) اور انعام (٤٨) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ اٰتَيْنٰہُمْ كِتٰبًا مِّنْ قَبْلِہٖ فَہُمْ بِہٖ مُسْتَمْسِكُوْنَ۝ ٢١ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» . والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر : 5- أتيت المروءة من بابها «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو مسك إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] ، أي : يحفظها، واستمسَكْتُ بالشیء : إذا تحرّيت الإمساک . قال تعالی: فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف/ 43] ، وقال : أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف/ 21] ، ويقال : تمَسَّكْتُ به ومسکت به، قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة/ 10] . يقال : أَمْسَكْتُ عنه كذا، أي : منعته . قال : هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر/ 38] ، وكنّي عن البخل بالإمساک . والمُسْكَةُ من الطعام والشراب : ما يُمْسِكُ الرّمقَ ، والمَسَكُ : الذَّبْلُ المشدود علی المعصم، والمَسْكُ : الجِلْدُ الممسکُ للبدن . ( م س ک ) امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہستہ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے ۔ استمسکت اشئی کے معنی کسی چیز کو پکڑنے اور تھامنے کا ارداہ کرنا کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف/ 43] پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اسے مضبوط پکرے رہو ۔ أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف/ 21] یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے ( سند ) پکڑتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ کیس چیز کو پکڑنا اور تھام لینا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة/ 10] اور کافر عورتوں کی ناموس قبضے میں نہ رکھو ( یعنی کفار کو واپس دے دو ۔ امسکت عنہ کذا کسی سے کوئی چیز روک لینا قرآن میں ہے : ۔ هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر/ 38] تو وہ اس کی مہر بانی کو روک سکتے ہیں ۔ اور کنایہ کے طور پر امساک بمعنی بخل بھی آتا ہے اور مسلۃ من الطعام واشراب اس قدر کھانے یا پینے کو کہتے ہیں جس سے سد رہق ہوسکے ۔ المسک ( چوڑا ) ہاتھی دانت کا بنا ہوا زبور جو عورتیں کلائی میں پہنتی ہیں المسک کھال جو بدن کے دھا نچہ کو تھا مے رہتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١۔ ٢٢) کیا ہم نے ان کو قرآن حکیم سے پہلے کوئی کتاب دے رکھی ہے کہ یہ اپنے اس دعوے میں اس سے استدلال کر کے کہہ رہے ہیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں تو اس کے جواب میں وہ کہنے لگے کہ ایسا نہیں بلکہ وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو اسی طریقے پر پایا ہے اور ہم ان ہی کے طریقے پر اور ان کی باتوں پر عمل کر رہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ { اَمْ اٰتَیْنٰہُمْ کِتٰبًا مِّنْ قَبْلِہٖ فَہُمْ بِہٖ مُسْتَمْسِکُوْنَ } ” کیا ہم نے انہیں اس سے پہلے کوئی کتاب دی ہے جسے وہ مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں ؟ “ کیا ان لوگوں کے پاس ہماری نازل کردہ کوئی کتاب ہے جس سے یہ اپنی اس ملائکہ پرستی کے لیے دلیل پکڑتے ہوں ؟ یا ان کے معبودانِ باطل لات ‘ منات ‘ ُ عزیٰ ّاور ہبل میں سے کسی نے ان پر کوئی کتاب یا صحیفہ نازل کر رکھا ہے ؟ سورة ما قبل ( الشوریٰ ) کی آیت ٢١ میں بھی اس سے ملتا جلتا سوال کیا گیا ہے : { اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْم بِہِ اللّٰہُط } ” کیا ان کے ایسے شرکاء ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین میں کچھ ایسا طے کردیا ہو جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21 It means this: "These ignorant people think that whatever is happening in the world has the approval of Allah for it, because it is happening according to His will. This argument, however, is wrong. For it is not only shirk which is being committed in the world, but countless other crimes like stealing, robbery, murder, bribery, etc. also are taking place, which nobody likes. Then, can it be said by the same reasoning that all such acts are lawful and good only because Allah is letting them happen in His world, and when He allows them to happen, He must have approved of them also? The means of knowing what Allah likes and what He hates are not the events that are happening in the world, but the Book of Allah, which comes through His Messenger and in which Allah Himself states as to what beliefs, what deeds and what morals He likes and what He dislikes. If these people have a Book, which came before the Qur'an, and which tells that Allah has appointed the angels also as deities beside himself and that they should worship them also, they should cite it." (For further explanation, see Al-An'am: 107 112, 137, 148-149; AI-A'raf: 28; Yunus: 99; Hud: 118-119; Ar-Ra'd: 31; An-Nahl: 9, 35-36, 93; and E.N. 20 of Az-Zumar and E.N. 11 of Ash-Shura).

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :21 مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ چونکہ اللہ کی مشیت کے تحت ہو رہا ہے ، اس لیے ضرور اس کو اللہ کی رضا بھی حاصل ہے ۔ حالانکہ اگر یہ استدلال صحیح ہو تو دنیا میں صرف ایک شرک ہی تو نہیں ہو رہا ہے ۔ چوری ، ڈاکہ ، قتل ، زنا ، رشوت ، بد عہدی ، اور ایسے ہی دوسرے بے شمار جرائم بھی ہو رہے ہیں جنہیں کوئی شخص بھی نیکی اور بھلائی نہیں سمجھتا ۔ پھر کیا اسی طرز استدلال کی بنا پر یہ بھی کہا جائے گا کہ یہ تمام افعال حلال و طیب ہیں ، کیونکہ اللہ اپنی دنیا میں انہیں ہونے دے رہا ہے ، اور جب وہ انہیں ہونے دے رہا ہے ، تو ضرور وہ ان کو پسند بھی کرتا ہے ؟ اللہ کی پسند اور ناپسند معلوم ہونے کا ذریعہ وہ واقعات نہیں ہیں جو دنیا میں ہو رہے ہیں ، بلکہ اللہ کی کتاب ہے جو اس کے رسول کے ذریعہ سے آتی ہے اور جس میں للہ خود بتاتا ہے کہ اسے کونسے عقائد ، کون سے اعمال ، اور کون سے اخلاق پسند ہیں اور کون سے ناپسند ۔ پس اگر قرآن سے پہلے آئی ہوئی کوئی کتاب ان لوگوں کے پاس ایسی موجود ہو جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہو کہ فرشتے بھی میرے ساتھ تمہارے معبود ہیں اور تم کو ان کی عبادت بھی کرنی چاہیے ، تو یہ لوگ اس کا حوالہ دیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، الانعام ، حواشی ۷۱ ۔ ۷۹ ۔ ۸۰ ۔ ۱۱۰ ۔ ۱۲٤ ۔ ۱۲۵ ۔ جلد دوم ، الاعراف ، حاشی ۱٦ ، یونس ، حاشیہ ۱۰۱ ، ہود ، حاشیہ ۱۱٦ ، الرعد ، حاشیہ ٤۹ ، النحل ، حواشی ۱۰ ۔ ۳۱ ۔ ۹٤ ، جلد چہارم ، الزمر ، حاشیہ 20 ۔ الشوریٰ ، حاشیہ 11 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: اﷲ تعالیٰ کے بارے میں کوئی عقیدہ یا تو اُس وقت رکھا جاسکتا ہے جب وہ ہر عقل والے اِنسان کے لئے بالکل بدیہی طور پر واضح ہو، یا پھر خود اﷲ تعالیٰ نے کسی آسمانی کتاب کے ذریعے اُس کی وضاحت فرمائی ہو۔ مشرکین کے عقیدوں کی دونوں طرح کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اُن کا عقیدہ عقل کے بھی خلاف ہے، اور ان کے پاس اﷲ تعالیٰ کی کوئی کتاب بھی ایسی نہیں ہے جس میں ایسے عقائد بیان کئے گئے ہوں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:21) ام : یہاں ام منقطعہ۔ یعنی بطریق عقل ان کے پاس اپنے اس قول کی کوئی سند نہیں ہے اور نہ بطریق نقل ان کو اس سے قبل کوئی کتاب دی ہے جس پر یہ سختی سے پابند ہیں۔ یعنی مطلب یہ کہ ان کے پاس اسکی نہ کوئی عقلی دلیل ہے نہ کوئی نقلی (روح المعانی) من قبلہ ای من قبل القران : بہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع کتبا ہے۔ صاحب تفسیر مظہری فرماتے ہیں :۔ اس آیت کا ربط اشھدوا خلقھم سے ہے۔ مطلب یہ کہ کیا ان کی پیدائش کے وقت یہ لوگ موجود تھے یا قرآن سے پہلے ہم نے ان کو کوئی آسمانی کتاب دی تھی جس سے وہ استدلال کرتے ہیں ۔ اس صورت میں ام متصلہ ہے۔ مستمسکون۔ اسم فاعل جمع مذکر استمساک استفعال۔ چنگل سے پکڑنے والے مراد دلیل اور سند پکڑنے والے۔ مادہ مسک کے مفہوم میں رکنے یا روکنے کا معنی ضرور ہوتا ہے ممسک روکنے والا۔ بخیل۔ کنجوس ۔ مال کو روک رکھنے والا۔ استمساک سند پکڑنا۔ پنجہ میں مضبوط پکڑنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی بہتر ہونا اس طرح ثابت ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کیا اس کتاب سے اپنے پاس کوئی سند رکھتے ہیں کہ فرشتے ہماری بیٹیاں ہیں، اور ہم نے ان کی پرستش کی اجازت دی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دلیل عقلی ہے نہ دلیل نقلی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” ام اتینہم کتابا۔ الایۃ “ اس میں دلیل نقلی کی نفی کی گئی ہے اور استفہام انکاری ہے یعنی ان کے پاس کتب سابقہ میں بھی کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے تمسک کر کے وہ فرشتوں کو معبود ٹھہراتے ہوں۔ بان یعبدوا غیر اللہ تعالٰٰ و ینسبوا الیہ الولد (جامع البیان ص 420) ۔ ” بل قالو الخ “ دلیل عقلی اور نقلی کی نفی کے بعد دلیل وحی خود بخود منتفی ہوجاتی ہے، کیونکہ وحی ربانی بھی ان کے خلاف ہے۔ اس لیے ہر طرف سے لاجواب ہو کر وہ کہتے ہیں ہمارے پاس عقل و نقل اور وحی کی تو کوئی دلیل نہیں جس کا تم مطالبہ کرتے ہو، بلکہ ہم نے یہ عقیدہ اور عمل اپنے باپ دادا سے اخذ کیا ہے۔ ہم نے ان کو اسی دین اور طیرقہ پر پایا ہے وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے اور ان کی عبادت و تعظیم بجا لاتے تھے اور ان کو نائب خدا اور عند اللہ شفیع غالب سمجھتے تھے، اس لیے ہم بھی، آنکھیں بند کر کے ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) کیا ہم نے ان مشرکوں کو اس قرآن سے پہلے کوئی اور کتاب دی ہے کہ اس کتاب سے یہ استدلال کرتے ہیں۔ یعنی دلیل عقلی تو ان کو لغو اور مہمل ہے اب بتائو کہ ان کو کوئی آسمانی کتاب ملی ہے جس سے یہ نقلی دلیل پیش کرسکتے ہیں ، یہ بات بھی نہیں لہٰذا ان کے اس دعوے پر کہ لو شآء الرحمن ما عبدنھم پر دلیل عقل اور نقلی دونوں منتفی ہیں۔