Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 39

سورة الزخرف

وَ لَنۡ یَّنۡفَعَکُمُ الۡیَوۡمَ اِذۡ ظَّلَمۡتُمۡ اَنَّکُمۡ فِی الۡعَذَابِ مُشۡتَرِکُوۡنَ ﴿۳۹﴾

And never will it benefit you that Day, when you have wronged, that you are [all] sharing in the punishment.

اور جب کہ تم ظالم ٹھہر چکے تو تمہیں آج ہرگز تم سب کا عذاب میں شریک ہونا کوئی نفع نہ دے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

It will profit you not this Day as you did wrong, (and) that you will be sharers in the punishment. means, `your being together in the Fire will not help you in the slightest, and you will both partake of the painful punishment.' Allah says: أَفَأَنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ أَوْ تَهْدِي الْعُمْيَ وَمَن كَانَ فِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] یعنی آج اس برے ساتھی سے بیزار ہونے کا کیا فائدہ ؟ اس نے جو کام کرنا تھا وہ کرچکا اور تمہیں جہنم تک پہنچا چکا۔ آج تو جیسے وہ مجرم ہے ویسے ہی تم بھی مجرم ہو۔ نہ اس کے عذاب میں کچھ کمی کی جائے گی اور نہ تمہارے عذاب میں۔ اس عذاب میں دونوں برابر کے شریک ہو۔ دنیا میں تو قاعدہ ہے کہ جس مصیبت میں سب چھوٹے بڑے شریک ہوں وہ کچھ ہلکی معلوم ہونے لگتی ہے۔ مثل مشہور ہے۔ && مرگ انبوہ جتنے دارو && مگر دوزخ میں یہ صورت بھی نہ ہوگی اور سب کا عذاب میں شریک ہونا کسی کو کچھ فائدہ نہ دے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ولن ینفعکم الیوم…: دنیا میں اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں گرفتار ہو تو اسے اس بات سے کچھ تسلی ہوتی ہے کہ وہ اکیلا نہیں بلکہ اس کے ساتھ اور لوگ بھی اس مصیبت میں گرفتار ہیں۔ اس کے علاوہ دوستوں کی صحت کے احساس سے بھی تکلیف میں کچھ کمی ہوجاتی ہے، کیونکہ وہ مصیبت میں ایک دوسرے کی مدد کرتے اور حوصلہ دلاتے ہیں۔ عام مقولہ ہے : ” ہمہ یاراں دوزخ ، ہمہ یاراں بہشت “ کہ دوزخ میں گئے تو سب دوست اکٹھے جائیں گے اور بہشت میں گئے تو بھی اکٹھے جائیں گے۔ قرین کی مناسبت سے فرمایا کہ اگر تم اس بات سے کچھ تسلی حاصل کرنا چاہو کہ میں عذاب میں ہوں تو میرا قرین بھی تو عذاب میں ہے تو تمہارا یہ خیال غلط ہے، جب تم دنیا میں ظلم کرتے رہے تو آج تمہیں اس بات سے ہرگز کوئی فائدہ نہیں ہوگا کہ تم عذاب میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہو، کیونکہ وہ عذاب ہی اتنا سخت ہے کہ کسی کو کسی کا ہوش نہیں ہوگا، بلکہ محروم اپنے تمام خویش، و اقارب فدیے میں دے کر اس عذاب سے نجات پانے کی خواہش کرے گا۔ (دیکھیے معارج : ١١ تا ١٤) شاہ عبدالقدر لکھتے ہیں :” یعنی کافر کہیں گے خوب ہوا کہ انہوں نے ہمیں عذاب میں ڈلوایا، یہ بھی نہ بچے، لیکن اس کا کیا فائدہ اگر دوسرا پکڑا گیا۔ “ (موضح) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَلَن يَنفَعَكُمُ الْيَوْمَ (&Since you were wrongdoers, it will never benefit you today that you are sharing the punishment with each other.&...43:39) There can be two explanations of this verse. One is that since your &kufr& and &shirk& (disbelief and ascribing partners to Allah) has been proved, your longing in the Hereafter in the words, |"Will that this devil had been away from me,|" will be of no avail, because all of you will be sharing the same punishment. The other explanation could be that after getting in Hell, your sharing the punishment with the devil will not benefit you. In this world, indeed it happens that when a few people share the same misfortune, everyone&s burden of misery becomes somewhat lighter, but there in Hell, everybody will be so terrorized that nobody will be able to lighten another&s misery and hence sharing of the punishment will be of no benefit. (The translation given above is based on this interpretation.)

(آیت) وَلَنْ يَّنْفَعَكُمُ الْيَوْمَ الخ۔ اس آیت کی دو تفسیریں ہو سکتی ہیں، ایک یہ کہ جب تمہارا کفر و شرک ثابت ہوچکا ہے تو آخرت میں تمہاری یہ تمنا کچھ کام نہ آئے گی کہ کاش، یہ شیطان مجھ سے دور ہوتا کیونکہ اس وقت تم سب عذاب میں شریک ہو گے اس صورت میں اَنَّكُمْ فِي الْعَذَاب الخ لانکم کے معنی میں ہوگا اور ینفع کی ضمیر فاعل مقولہ یا لیت بینی الخ کی طرف راجع ہوگی۔ اور دوسری تفسیر یہ ممکن ہے کہ وہاں پہنچنے کے بعد تمہارا اور شیاطین کا عذاب میں مشترک ہونا تمہارے لئے چنداں فائدہ مند نہیں ہوگا۔ دنیا میں بیشک ایسا ہوتا ہے کہ ایک مصیبت میں چند آدمی شریک ہوجائیں تو ہر ایک کا غم ہلکا ہوجاتا ہے لیکن وہاں چونکہ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوگی اور کوئی کسی کا دکھ نہیں بٹا سکے گا اس لئے اس اشتراک سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اس صورت میں انکم الخ ینفع کا فاعل ہوگا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَنْ يَّنْفَعَكُمُ الْيَوْمَ اِذْ ظَّلَمْتُمْ اَنَّكُمْ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُوْنَ۝ ٣٩ نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا شرك ( شريك) الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی: وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] . ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملا دینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز مادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یا سیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکوا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکتہ فی کذا کے معنی شریک بنا لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی ٰجمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بدخو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرد کیا ہے ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] میرے شریک کہاں ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا جب تم دنیا میں کفر کرچکے ہو تو آج یہ باتیں بنانا تمہارے کام نہ آئے گا تم اور شیاطین سب عذاب میں شریک ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ { وَلَنْ یَّنْفَعَکُمُ الْیَوْمَ اِذْ ظَّلَمْتُمْ اَنَّکُمْ فِی الْْعَذَابِ مُشْتَرِکُوْنَ } ” اور جب کہ تم ظلم کرتے رہے ہو تو آج کے دن یہ بات تمہیں کچھ فائدہ نہیں دے گی کہ تم سب عذاب میں شریک ہو۔ “ اپنے ظلم کے نتیجے میں تم اور تمہارے شیطان ساتھی جہنم کا عذاب اکٹھے بھگتو گے ‘ مگر ان شیاطین کا عذاب میں تمہارے ساتھ شریک ہونا تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ اس سے تمہارے اپنے عذاب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35 That is, "In this there is no aspect of consolation for you that the one who misguided you is being punished, for you also are receiving the same punishment for accepting and following the deviation. "

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :35 یعنی اس امر میں تمہارے لیے تسلی کا کوئی پہلو نہیں ہے کہ تمہیں غلط راہ پر ڈالنے والے کو سزا مل رہی ہے ، کیونکہ وہی سزا گمراہی قبول کرنے کی پاداش میں تم بھی پا رہے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک ہی قسم کی تکلیف بہت سے آدمیوں کو ایک ساتھ ہورہی ہو تو اس سے ہر ایک کے دل میں تکلیف کا احساس کچھ کام ہوجاتا ہے کہ اس تکلیف میں میں تنہا نہیں ہوں، بلکہ دوسرے بھی میرے ساتھ شریک ہیں، لیکن دوزخ میں ایسا نہیں ہوگا، کیونکہ ہر ایک کی تکلیف اتنی زیادہ ہوگی کہ دوسروں کے اسی تکلیف میں مبتلا ہونے کے احساس سے بھی اس میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:39) لن ینفعکم الیوم : ای قیل لہم لن ینفعکم الیوم لن ینفع مضارع نفی تاکید بلن نفع باب فتح مصدر بمعنی نفع پہنچانا کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ الیوم (آج کے دن) مفعول فیہ۔ آج کے دن یا آج (یہ بات ہرگز تم کو نفع نہیں پہنچائے گی : اس جملہ سے پہلے سیقال لہم (ان سے کہا جائے گا) مقدرہ ہے۔ اذ ظلمۃ جب ظلم کرچکے تم (دنیا میں) ظلم کے معنی یہاں شرک کرنا۔ کفر کرنا کے ہیں۔ انکم فی العذاب مشترکون : مشترکون اسم فاعل جمع مذکر۔ اشتراک (افتعال) مصدر سے۔ شریک ہونے والے۔ شریک یہ جملہ فاعل ہے۔ لن ینفعکم کا۔ ای ولن ینفعکم اشتراککم فی العذاب او کو نکم مشترکین فی العذاب۔ یعنی آج تمہارا عذاب میں (اپنے شیاطین کے ساتھ) شریک ہونا ہرگز تم کو فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ یعنی اس بات سے تمہیں ذرا بھی تسکین نہ ہوگی کہ تمہارے ساتھ تمہارے دنیا کے ساتھی مشرکین و کفار بھی دوزخ میں پڑے ہوئے ہیں۔ مرگ انبوہ جشنے دارد کا قانون وہاں نہ چل سکے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ :۔ فعل لن ینفعکم کی ضمیر فاعل عاشون عن القران کا شور و غوغا (آیت 38) ہے اور مطلب آیت ہذا کا یہ ہے کہ تمہارا یہ شور و غوغا کہ تمہارے اور شیاطینکے درمیان بعد المشرقین ہوتا اور یہ کہ وہ بڑے برے ساتھی تھے آج تمہارے کسی کام نہ آئے گا جبکہ (دنیا میں) تم ظلم کرتے رہے ہو تم سب اس عذاب میں آج حصہ دار ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 عموماً دیکھا جاتا ہے کہ مصیبت عام ہو تو وہ کچھ ہلکی محسوس ہونے لگتی ہے۔ مقولہ مشہور ہے مرگ انبوہ جشنے دارد لیکن دوزخ کا عذاب اس قدر شدید ہوگا کہ تمام جن اور انسان اور شیطان کا اس میں شریک ہونا کسی کے لئے بھی باعث تشفی نہ ہوگا۔ ( قرطبی) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی کافر کہیں گے خوب ہوا کہ انہوں نے ہمیں عذاب میں ڈلوا دیا یہ بھی نہ بچے، لیکن اس کو کیا فائدہ اگر دوسرا بھی پکڑا گیا۔ ( موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ ” ولن ینفکم۔ الایۃ “ اذ ظلمت، مضمون جملہ کی علت ہے اور جملہ کے درمیان واقع ہے۔ اور ” انکم فی العذاب مشترکون “ جملہ بتاویل مفرد، لن ینفع کا فاعل ہے۔ (مدارک) ۔ قیامت کے دن مشرکین کی تمنا کریں گے کہ وہ شیاطین جن و انس جنہوں نے انہیں گمراہ کیا ہے انہیں بھی ان کے ساتھ عذاب میں شریک کیا جائے۔ ان سے کہا جائے گا چونکہ تم خود بھی ظالم اور مشرک ہو، اس لیے اس سے تمہیں کچھ بھی فائدہ نہ ہوگا۔ کہ تمہارے ساتھ تمہارے پیشوایان شرک بھی شریک عذاب ہوں، کیونکہ ان کے شریک ہونے سے تم عذاب سے بچ نہیں جاؤ گے اور نہ تمہارے عذاب میں کوئی تخفیف ہی ہوگی۔ یعنی لاینفعکم الاشتراک فی العذاب ولا یخفف الاشتراک عنکم العذاب لان لکل واحد من الکفار والشیاطین الحظ الاوفر من العذاب۔ (معالم و خازن ج 6 ص 135) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(39) اورجبکہ تم کفر کے مرتکب ہوچکے اور ظالم قرار پاچکے تو آج تم کو یہ بات کوئی نفع نہیں دے سکتی کہ تم سب عذاب میں باہم مشترک ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی کافر کہیں گے خوب ہوا کہ انہوں نے ہم کو عذاب میں ڈلوایا یہ بھی نہ بچے لیکن اس کو کیا فائدہ اگر دوسرا بھی پکڑا گیا۔ خلاصہ : یہ ہے کہ وہ تمام شیاطین اور وہ تمام انسان جن کو یہ شیاطین بہکاتے اور صحیح راہ سے روکتے تھے سب جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے تو اس کو حضرت حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس طرح دنیا میں بلوائے عام کے موقعہ پر ایک دوسرے کی حالت دیکھ کر اپنے دل کو تسلی دے لیا کرتے تھے کہ جو ہمارا حال وہ تمہارا حال یہاں اس کہنے سے کوئی تسلی اور نفع نہیں ہوگا اور یہ اشتراک فی العذاب کسی نفع کا موجب نہیں ہوگا اور کم سے کم تسلی بھی میسر نہیں ہوگی یا یہ کہ آج کوئی عذروندامت قابل قبول نہ ہوگی کیونکہ تم سب ہی عذاب میں مشترک ہو۔