And verily, it is in the Mother of the Book with Us, indeed exalted, full of wisdom.
This explains the high status of the Qur'an among the hosts on high (the angels), so that the people of earth will respect it, venerate it and obey it.
وَإِنَّهُ
(And verily, it),
means, the Qur'an,
فِي أُمِّ الْكِتَاب
(is in the Mother of the Book),
meaning, Al-Lawh Al-Mahfuz (the Preserved Tablet).
This was the view of Ibn `Abbas and Mujahid.
لَدَيْنَا
(with Us,)
means, in Our presence.
This was the view of Qatadah and others.
لَعَلِيٌّ
(indeed exalted),
means, occupying a position of honor and virtue.
This was the view of Qatadah.
حَكِيمٌ
(full of wisdom),
means, clear, with no confusion or deviation.
All of this indicates its noble status and virtue, as Allah says elsewhere:
إِنَّهُ لَقُرْءَانٌ كَرِيمٌ
فِى كِتَـبٍ مَّكْنُونٍ
لااَّ يَمَسُّهُ إِلااَّ الْمُطَهَّرُونَ
تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَـلَمِينَ
That (this) is indeed an honorable recitation. In a Book well-guarded. Which none can touch but the pure. A revelation from the Lord of the all that exists. (56:77-80)
كَلَّ إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ
فَمَن شَأءَ ذَكَرَهُ
فَى صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ
مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ
بِأَيْدِى سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَرَةٍ
Nay, indeed it is an admonition. So whoever wills, let him pay attention to it. (It is) in Records held (greatly) in honor, exalted, purified, in the hands of scribes (angels), honorable and obedient. (80:11-16)
أَفَنَضْرِبُ عَنكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا أَن كُنتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِينَ
قرآن کی قسم کھائی جو واضح ہے جس کے معانی روشن ہیں
جس کے الفاظ نورانی ہیں جو سب سے زیادہ فصیح و بلیغ عربی زبان میں نازل ہوا ہے یہ اس لئے کہ لوگ سوچیں سمجھیں اور وعظ و پند نصیحت و عبرت حاصل کریں ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل فرمایا ہے جیسے اور جگہ ہے عربی واضح زبان میں اسے نازل فرمایا ہے ، اس کی شرافت و مرتبت جو عالم بالا میں ہے اسے بیان فرمایا تاکہ زمین والے اس کی منزلت و توقیر معلوم کرلیں ۔ فرمایا کہ یہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے ( لدینا ) سے مراد ہمارے پاس ( لعلی ) سے مراد مرتبے والا عزت ولا شرافت اور فضیلت والا ہے ۔ ( حکیم ) سے مراد ( محکم ) مضبوط جو باطل کے ملنے اور ناحق سے خلط ملط ہو جانے سے پاک ہے اور آیت میں اس پاک کلام کی بزرگی کا بیان ان الفاظ میں ہے آیت ( اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ 77ۙ ) 56- الواقعة:77 ) ، اور جگہ ہے آیت ( كَلَّآ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ 11ۚ ) 80-عبس:11 ) ، یعنی یہ قرآن کریم لوح محفوظ میں درج ہے اسے بجز پاک فرشتوں کے اور کوئی ہاتھ لگا نہیں پاتا یہ رب العالمین کی طرف سے اترا ہوا ہے اور فرمایا قرآن نصیحت کی چیز ہے جس کا جی چاہے اسے قبول کرے وہ ایسے صحیفوں میں سے ہے جو معزز ہیں بلند مرتبہ ہیں اور مقدس ہیں جو ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو ذی عزت اور پاک ہیں ان دونوں آیتوں سے علماء نے استنباط کیا ہے کہ بےوضو قرآن کریم کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے جیسے کہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے بشرطیکہ وہ صحیح ثابت ہو جائے ۔ اس لئے کہ عالم بالا میں فرشتے اس کتاب کی عزت و تعظیم کرتے ہیں جس میں یہ قرآن لکھا ہوا ہے ۔ پس اس عالم میں ہمیں بطور اولیٰ اسکی بہت زیادہ تکریم و تعظیم کرنی چاہیے کیونکہ یہ زمین والوں کی طرف ہی بھیجا گیا ہے اور اس کا خطاب انہی سے ہے تو انہیں اس کی بہت زیادہ تعظیم اور ادب کرنا چاہیے اور ساتھ ہی اس کے احکام کو تسلیم کر کے ان پر عامل بن جانا چاہیے کیونکہ رب کا فرمان ہے کہ یہ ہمارے ہاں ام الکتاب میں ہے اور بلند پایہ اور باحکمت ہے اس کے بعد کی آیت کے ایک معنی تو یہ کئے گئے ہیں کہ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ باوجود اطاعت گذاری اور فرمانبرداری نہ کرنے کے ہم تم کو چھوڑ دیں گے اور تمہیں عذاب نہ کریں گے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اس امت کے پہلے گزرنے والوں نے جب اس قرآن کو جھٹلایا اسی وقت اگر یہ اٹھا لیا جاتا تو تمام دنیا ہلاک کر دی جاتی لیکن اللہ کی وسیع رحمت نے اسے پسند نہ فرمایا اور برابر بیس سال سے زیادہ تک یہ قرآن اترتا رہا اس قول کا مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کی لطف و رحمت ہے کہ وہ نہ ماننے والوں کے انکار اور بد باطن لوگوں کی شرارت کی وجہ سے انہیں نصیحت و موعظت کرنی نہیں چھوڑتا تاکہ جو ان میں نیکی والے ہیں وہ درست ہو جائیں اور جو درست نہیں ہوتے ان پر حجت تمام ہو جائے پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی اکرم آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ آپ اپنی قوم کی تکذیب پر گھبرائیں نہیں ۔ صبر و برداشت کیجئے ۔ ان سے پہلے کی جو قومیں تھیں ان کے پاس بھی ہم نے اپنے رسول و نبی بھیجے تھے اور انہیں ہلاک کر دیا وہ آپ کے زمانے کے لوگوں سے زیادہ زور اور اور باہمت اور توانا ہاتھوں والے تھے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر نہیں ؟ کہ ان سے پہلے کے لوگوں کا کیا انجام ہوا ؟ جو ان سے تعداد میں اور قوت میں بہت زیادہ بڑھے ہوئے تھے اور بھی آیتیں اس مضمون کی بہت سی ہیں پھر فرماتا ہے اگلوں کی مثالیں گذر چکیں یعنی عادتیں ، سزائیں ، عبرتیں ۔ جیسے اس سورت کے آخر میں فرمایا ہے ہم نے انہیں گذرے ہوئے اور بعد والوں کے لئے عبرتیں بنا دیا ۔ اور جیسے فرمان ہے آیت ( سُـنَّةَ اللّٰهِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ ښ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا 23 ) 48- الفتح:23 ) ، یعنی اللہ کا طریقہ جو اپنے بندوں میں پہلے سے چلا آیا ہے اور تو اسے بدلتا ہوا نہ پائے گا ۔