Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 4

سورة الزخرف

وَ اِنَّہٗ فِیۡۤ اُمِّ الۡکِتٰبِ لَدَیۡنَا لَعَلِیٌّ حَکِیۡمٌ ؕ﴿۴﴾

And indeed it is, in the Mother of the Book with Us, exalted and full of wisdom.

یقیناً یہ لوح محفوظ میں ہے اور ہمارے نزدیک بلند مرتبہ حکمت والی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And verily, it is in the Mother of the Book with Us, indeed exalted, full of wisdom. This explains the high status of the Qur'an among the hosts on high (the angels), so that the people of earth will respect it, venerate it and obey it. وَإِنَّهُ (And verily, it), means, the Qur'an, فِي أُمِّ الْكِتَاب (is in the Mother of the Book), meaning, Al-Lawh Al-Mahfuz (the Preserved Tablet). This was the view of Ibn `Abbas and Mujahid. لَدَيْنَا (with Us,) means, in Our presence. This was the view of Qatadah and others. لَعَلِيٌّ (indeed exalted), means, occupying a position of honor and virtue. This was the view of Qatadah. حَكِيمٌ (full of wisdom), means, clear, with no confusion or deviation. All of this indicates its noble status and virtue, as Allah says elsewhere: إِنَّهُ لَقُرْءَانٌ كَرِيمٌ فِى كِتَـبٍ مَّكْنُونٍ لااَّ يَمَسُّهُ إِلااَّ الْمُطَهَّرُونَ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَـلَمِينَ That (this) is indeed an honorable recitation. In a Book well-guarded. Which none can touch but the pure. A revelation from the Lord of the all that exists. (56:77-80) كَلَّ إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ فَمَن شَأءَ ذَكَرَهُ فَى صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ بِأَيْدِى سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَرَةٍ Nay, indeed it is an admonition. So whoever wills, let him pay attention to it. (It is) in Records held (greatly) in honor, exalted, purified, in the hands of scribes (angels), honorable and obedient. (80:11-16) أَفَنَضْرِبُ عَنكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا أَن كُنتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِينَ

قرآن کی قسم کھائی جو واضح ہے جس کے معانی روشن ہیں جس کے الفاظ نورانی ہیں جو سب سے زیادہ فصیح و بلیغ عربی زبان میں نازل ہوا ہے یہ اس لئے کہ لوگ سوچیں سمجھیں اور وعظ و پند نصیحت و عبرت حاصل کریں ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل فرمایا ہے جیسے اور جگہ ہے عربی واضح زبان میں اسے نازل فرمایا ہے ، اس کی شرافت و مرتبت جو عالم بالا میں ہے اسے بیان فرمایا تاکہ زمین والے اس کی منزلت و توقیر معلوم کرلیں ۔ فرمایا کہ یہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے ( لدینا ) سے مراد ہمارے پاس ( لعلی ) سے مراد مرتبے والا عزت ولا شرافت اور فضیلت والا ہے ۔ ( حکیم ) سے مراد ( محکم ) مضبوط جو باطل کے ملنے اور ناحق سے خلط ملط ہو جانے سے پاک ہے اور آیت میں اس پاک کلام کی بزرگی کا بیان ان الفاظ میں ہے آیت ( اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ 77۝ۙ ) 56- الواقعة:77 ) ، اور جگہ ہے آیت ( كَلَّآ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ 11۝ۚ ) 80-عبس:11 ) ، یعنی یہ قرآن کریم لوح محفوظ میں درج ہے اسے بجز پاک فرشتوں کے اور کوئی ہاتھ لگا نہیں پاتا یہ رب العالمین کی طرف سے اترا ہوا ہے اور فرمایا قرآن نصیحت کی چیز ہے جس کا جی چاہے اسے قبول کرے وہ ایسے صحیفوں میں سے ہے جو معزز ہیں بلند مرتبہ ہیں اور مقدس ہیں جو ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو ذی عزت اور پاک ہیں ان دونوں آیتوں سے علماء نے استنباط کیا ہے کہ بےوضو قرآن کریم کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے جیسے کہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے بشرطیکہ وہ صحیح ثابت ہو جائے ۔ اس لئے کہ عالم بالا میں فرشتے اس کتاب کی عزت و تعظیم کرتے ہیں جس میں یہ قرآن لکھا ہوا ہے ۔ پس اس عالم میں ہمیں بطور اولیٰ اسکی بہت زیادہ تکریم و تعظیم کرنی چاہیے کیونکہ یہ زمین والوں کی طرف ہی بھیجا گیا ہے اور اس کا خطاب انہی سے ہے تو انہیں اس کی بہت زیادہ تعظیم اور ادب کرنا چاہیے اور ساتھ ہی اس کے احکام کو تسلیم کر کے ان پر عامل بن جانا چاہیے کیونکہ رب کا فرمان ہے کہ یہ ہمارے ہاں ام الکتاب میں ہے اور بلند پایہ اور باحکمت ہے اس کے بعد کی آیت کے ایک معنی تو یہ کئے گئے ہیں کہ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ باوجود اطاعت گذاری اور فرمانبرداری نہ کرنے کے ہم تم کو چھوڑ دیں گے اور تمہیں عذاب نہ کریں گے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اس امت کے پہلے گزرنے والوں نے جب اس قرآن کو جھٹلایا اسی وقت اگر یہ اٹھا لیا جاتا تو تمام دنیا ہلاک کر دی جاتی لیکن اللہ کی وسیع رحمت نے اسے پسند نہ فرمایا اور برابر بیس سال سے زیادہ تک یہ قرآن اترتا رہا اس قول کا مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کی لطف و رحمت ہے کہ وہ نہ ماننے والوں کے انکار اور بد باطن لوگوں کی شرارت کی وجہ سے انہیں نصیحت و موعظت کرنی نہیں چھوڑتا تاکہ جو ان میں نیکی والے ہیں وہ درست ہو جائیں اور جو درست نہیں ہوتے ان پر حجت تمام ہو جائے پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی اکرم آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ آپ اپنی قوم کی تکذیب پر گھبرائیں نہیں ۔ صبر و برداشت کیجئے ۔ ان سے پہلے کی جو قومیں تھیں ان کے پاس بھی ہم نے اپنے رسول و نبی بھیجے تھے اور انہیں ہلاک کر دیا وہ آپ کے زمانے کے لوگوں سے زیادہ زور اور اور باہمت اور توانا ہاتھوں والے تھے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر نہیں ؟ کہ ان سے پہلے کے لوگوں کا کیا انجام ہوا ؟ جو ان سے تعداد میں اور قوت میں بہت زیادہ بڑھے ہوئے تھے اور بھی آیتیں اس مضمون کی بہت سی ہیں پھر فرماتا ہے اگلوں کی مثالیں گذر چکیں یعنی عادتیں ، سزائیں ، عبرتیں ۔ جیسے اس سورت کے آخر میں فرمایا ہے ہم نے انہیں گذرے ہوئے اور بعد والوں کے لئے عبرتیں بنا دیا ۔ اور جیسے فرمان ہے آیت ( سُـنَّةَ اللّٰهِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ ښ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا 23؀ ) 48- الفتح:23 ) ، یعنی اللہ کا طریقہ جو اپنے بندوں میں پہلے سے چلا آیا ہے اور تو اسے بدلتا ہوا نہ پائے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 اس میں قرآن کریم کی اس عظمت اور شرف کا بیان ہے جو ملاء اعلٰی میں اسے حاصل ہے تاکہ اہل زمین بھی اس کے شرف و عظمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کو قرار واقعی اہمیت دیں اور اس سے ہدایت کا وہ مقصد حاصل کریں جس کے لئے اسے دنیا میں اتارا گیا ہے اُمْ الْکِتَابِ سے مراد لوح محفوظ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] یعنی اس کے مضامین اور اصول دین چونکہ ایک ہی جیسے رہے ہیں۔ اور پہلی آسمانی کتابوں سے ملتے جلتے ہیں۔ اس لیے یہ سب کچھ پہلے سے ہی ہمارے پاس اصل کتاب میں لکھا ہوا موجود ہے۔ جسے ہم مختلف ادوار میں، مختلف انبیاء پر انہی کی اپنی اپنی زبانوں میں نازل کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح ہم نے قرآن کو لوح محفوظ سے عربی زبان میں رسول اللہ پر نازل کیا ہے۔ [٤] قرآن کے مخلوق ہونے سے متعلق معتزلہ کا استدلال اور اس کا جواب :۔ اس سے مراد ام الکتاب بھی ہوسکتی ہے۔ اور قرآن کریم بھی۔ یعنی تم لوگ اگر اس کی قدرو منزلت نہیں کرتے تو اس سے حقیقت میں کچھ فرق نہیں پڑ سکتا۔ واضح رہے کہ عقل پرست فرقہ معتزلہ نے قرآن کے متعلق إنَّا جَعَلْنَاہ سے یہ استدلال کیا کہ قرآن مخلوق ہے۔ یہ استدلال غلط اور باطل ہے کیونکہ جَعَلَ کا لفظ صرف ایجاد اور تخلیق کے معنوں میں نہیں آتا بلکہ اور بھی کئی معنی دیتا ہے مثلاً درج ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیے : (وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى 40؀) 9 ۔ التوبہ :40) && اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کی بات کو نیچا کردیا && (جَعَلَ السِّقَايَةَ فِيْ رَحْلِ اَخِيْهِ 70؀) 12 ۔ یوسف :70) && اور (یوسف نے) پیالہ اپنے بھائی کے سامان میں رکھ دیا && (وَجَعَلَ لَهُمْ اَجَلًا لَّا رَيْبَ فِيْهِ 99؀) 17 ۔ الإسراء :99) && اور ان کے لیے ایک مدت مقرر کی جس میں کوئی شک نہیں && اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ قدیم ہے۔ اس کی صفات بھی قدیم ہیں۔ اور قرآن اللہ کا کلام ہے اور یہ اس کی صفت ہے۔ اس کے مقابلہ میں معتزلہ کا استدلال یہ ہے کہ اگر اللہ کے ساتھ اللہ کی صفات کو بھی قدیم مانا جائے تو تعدد قدماء لازم آتا ہے اور یہ شرک ہے اسی لیے وہ اپنے آپ کو اہل العدل و التوحید کہتے تھے اور دوسرے سب مسلمانوں کو مشرک سمجھتے تھے۔ مگر انہوں نے اس طرف غور نہ کیا کہ جو چیز مخلوق یا حادث ہو وہ کسی وقت فنا بھی ضرور ہوگی تو کیا نعوذ باللہ اللہ کی صفات یا مثلاً یہی قرآن کسی وقت فنا بھی ہوسکتا ہے ؟ چونکہ کچھ عباسی خلیفے بھی اس اعتزال سے متاثر تھے اور مامون الرشید پکا معتزلی تھا۔ لہذا قرآن کے مخلوق ہونے کی بحث یا مناسب الفاظ میں اس فتنہ نے پوری ایک صدی طوفان کھڑا کئے رکھا۔ بعد میں خلیفوں کو ہی اللہ نے سیدھی راہ دکھا دی تو یہ اپنی موت آپ مرگیا۔ سیدنا امام احمد بن حنبل نے اسی فتنہ کے خلاف بڑی مدت تک قید و بند اور مار پیٹ کی مصیبتیں جھیلی تھیں اور ایسی ہی باتیں اللہ کی صفات میں الحاد کے ضمن میں آتی ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے میری تصنیف آئینہ پرویزیت۔ معتزلہ سے طلوع اسلام تک) اور اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر زبان میں کلام کرسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ ام الکتاب یا لوح محفوظ کس زبان میں ہے تو یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہم اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جیسا کہ اس کی دوسری صفت کی کیفیت اور ماہیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وانہ فی ام الکتب :” ام الکتب “ کا معنی ہے ” کتاب کا اصل۔ “ اکثر مفسرین نے اس سے مراد لوح محفوظ لیا ہے، جہاں سے تمام آسانی کتابیں نازل ہوئی ہیں، جیسا کہ فرمایا (بل ھو قرآن مجید فی لوح محفوظ) (البروح :22, 21)” بلکہ وہ ایک بڑی شان والا قرآن ہے۔ اس تخی میں (لکھا ہوا) ہے جس کی حفاظت کی گئی ہے ۔ “ اور فرمایا :(انہ لقرآن کریم فی کتب مکنون لایمسہ الا المطھرون تنزیل من رب العلمین) (الواقعہ :88 تا 80)” کہ بلاشبہ یہ یقیناً ایک باعزت پڑھی جانے والی چیز ہے۔ ایک ایسی کتاب میں جو چھپا کر رکھی ہوئی ہے۔ اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا مگر جو بہت پاک کئے ہوئے ہیں۔ تمام جہانوں کے رب کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔ “ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ” ام الکتب “ سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم ہے جو ہر آسمانی کتاب کا اصل ہے۔ لوح محفوظ کا اصل قرآن ایک کمال حکمت والے، سب کچھ جاننے والے کے پاس سے عطا کیا جاتا ہے۔ “ (٢) لدینا لعلی حکیم :” لذی “ اور ” عند “ دونوں کا معنی ” کسی کے پاس “ ہونا ہے۔ مگر ” لدی “ خاص قرب کے لئے ہے اور ” عند “ عام کے لئے ۔ چناچہ ” المال عند زید “ (مال زید کے پاس ہے) اس مال کیلئے بھی آتا ہے جو اس کے پاس حاضر ہو اور اس مال کے لئے بھی جو اس کے خزانے میں ہو، جبکہ ” المال لدی زید “ صرف اس مال کے لئے آتا ہے جو اس کے پاس حاضر ہو۔ (تفسیر ثنائی)” لعلی “ یعنی یہ قرآن ہمارے علم میں (یا لوح محفوظ میں) ہمارے پاس یعنی ہمارے خاص قرب میں بہت بلند مرتبے والا ہے، ملاء اعلیٰ میں اس کا بہت اونچا مقام ہے، تمام کتابوں اور تمام علوم سے برتر اور بلند ہے۔ ” حکیم “ یعنی کمال حکمت اور دانئای کی باتوں سے بھرا ہوا ہے، اس کی ہر بات دانائی پر مشتمل اور صحیح عقل کے عین مطابق ہے۔ ” حکیم “ کا معنی محکم بھی ہے، یعنی یہ قرآن ایسا مضبوط و محکم ہے کہ نہ اس میں کسی طرح باطل کی آمیزش ہوسکتی ہے نہ باطل اس کے مقابلے میں ٹھہر سکتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ، تنزیل من حکیم حمید) (حم السجدۃ : ٣٢)” اس کے پاس باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کیپ یچھے سے، ایک کمال حکمت والے، تمام خوبیوں الے کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔ “ مزید دیکھیے سورة ہود (١) مراد اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قرآن کی قدر و منلزت ذہن نشین کروانا ہے، تاکہ کوئی شخص اسے معمولی سمجھ کر اس پر ایمان لانے اور اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم نہ رہے۔ اسی بلند متر بےکا اظہار ” انہ لقران کریم “ اور ” بل ھو قرآن مجید “ کے الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة واقعہ (٧٧) اور سورة بروج (٢١) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّہٗ فِيْٓ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيْمٌ۝ ٤ ۭ أمّ الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته . ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف/ 4] أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام/ 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک وقیل : أم الأضياف وأم المساکين کقولهم : أبو الأضياف ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید/ 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه/ 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه وکذا : هوت أمّه والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان . ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ } ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ { لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا } ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ } ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق { وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ } ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ { وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ { يَا ابْنَ أُمَّ } ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ لدی لَدَى يقارب لدن . قال تعالی: وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] . ( ل د ی ) لدی یہ تقریبا لدن کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف/ 25] اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا علي العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعَليُّ : هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل/ 63] ( ع ل و ) العلو العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( مکسر اللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔ حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ { وَاِنَّہٗ فِیْٓ اُمِّ الْـکِتٰبِ لَدَیْنَا لَـعَلِیٌّ حَکِیْمٌ} ” اور یہ اُمّ الکتاب میں ہے ہمارے پاس بہت بلند وبالا ‘ بہت حکمت والی ! “ یعنی اصل قرآن تو ” اُمّ الکتاب “ میں ہے۔ دنیا کو اس کی عربی زبان میں مصدقہ نقول فراہم کی گئی ہیں۔ اسی ” اُمّ الکتاب “ کو سورة الواقعہ کی آیت ٧٨ میں کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ اور سورة البروج کی آخری آیت میں لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ بھی کہا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 "Umm al-Kitab": the "Original Book": the Book from which alI the Books sent down to the Prophets have been derived. In Surah AI-Waqi`ah the same thing has been described as Kitab-um-Maknun (the hidden and preserved Book) and in Surah AI-Buruj 22 as Lauh-i Mahfuz (the Preserved Tablet), that is, the Tablet whose writing cannot be effaced, which is secure from every kind of interference. By saying that the Qur'an is inscribed in Umm al-Kitab, attention has been drawn to an important truth. Different Books had been revealed by Allah in different ages to different Prophets for the guidance of different nations in different languages, but aII these Books invited mankind to one and the same Faith: they regarded one and the same thing as the Truth; they presented one and the same criterion of good and evil; they propounded the same principles of morality and civilization; in short, they brought one and the same Din (Religion). The reason was that their source and origin was the same, only words were different; they had the same meaning and theme which is inscribed in a Source Book with Allah, and whenever there was a need, He raised a Prophet and sent down the same meaning and subject-matter clothed in a particular diction according to the environment and occasion. Had Allah willed to raise the Prophet Muhammad (upon whom be His peace) in another nation instead of the Arabs, He would have sent down the same Qur'an in the language of that nation. In it the meaning and content would have been expressed according to the environments and conditions of the people and land; the words would have been different and the language also different but the teaching and guidance the same basically, and it would be the same Qur'an though not the Arabic Qur'an. This same thing has been expressed in Surah Ash-Shu`ara, thus: "This (Book) has been revealed by the Lord of the worlds. The trustworthy Spirit has come down with it upon your heart so that you may become one of those who are (appointed by God) to warn (the people) in plain Arabic language; and this is also contained in the scriptures of the former peoples." (vv. 192-196). (For explanation, see Ash-Shu`ara: 192196 and the E.N.'s on it). 3 This sentence is related both to Kitab-i mubin and to Umm al-Kitab. Thus, it is in praise of boththe Qur'an and the Original Book from which the Qur'an has been derived. This praise is meant to impress the fact that if a person dces not recognize the true worth of this Book and dces not benefit from its wise teachings because of his own folly, it would be his own misfortune. If someone tried to degrade it and found fault with it, it would be his own meanness. It cannot become worthless on account of someone's lack of appreciation of it, and its wisdom cannot be eclipsed by anyone's throwing dust at it. This is by itself a glorious Book, which stands exalted by its matchless teaching, miraculous eloquence, faultless wisdom and the sublime personality of its great Author. Therefore, none can succeed in minimizing its value and worth. In verse 44 below the Quraish in particular and the Arabs in general have been told that the revelation of the Book for which they are showing such lack of appreciation had provided them a unique opportunity of honour, which if they lost, would subject them to a severe accountability before God. (Please see E.N. 39 below).

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :2 امّ الکتاب سے مراد ہے اصل الکتاب یعنی وہ کتاب جس سے تمام انبیاء علیہم السلام پر نازل ہونے والی کتابیں ماخوذ ہیں ۔ اسی کو سورہ واقعہ میں : کِتَابٌ مَّکْنُوْنٌ ( پوشیدہ اور محفوظ کتاب ) کہا گیا ہے ، اور سورہ بُروج میں اس کے لیے لوح محفوظ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ، یعنی ایسی لوح جس کا لکھا مٹ نہیں سکتا اور جو ہر قسم کی در اندازی سے محفوظ ہے ۔ قرآن کے متعلق یہ فرما کر کہ یہ امّ الکتاب میں ہے ایک اہم حقیقت پر متنبہ فرمایا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف زمانوں میں مختلف ملکوں اور قوموں کی ہدایت کے لیے مختلف انبیاء پر مختلف زبانوں میں کتابیں نازل ہوتی رہی ہیں ، مگر ان سب میں دعوت ایک ہی عقیدے کی طرف دی گئی ہے ، حق ایک ہی سچائی کو قرار دیا گیا ہے ، خیر و شر کا ایک ہی معیار پیش کیا گیا ہے ، اخلاق و تہذیب کے یکساں اصول بیان کیے گئے ہیں اور فی ا لجملہ ایک ہی دین ہے جسے یہ سب کتابیں لے کر آئی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کی اصل ایک ہے اور صرف عبارتیں مختلف ہیں ۔ ایک ہی معنی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک بنیادی کتاب میں ثبت ہیں اور جب کبھی ضرورت پیش آئی ہے ، اس نے کسی نبی کو مبعوث کر کے وہ معنی حال اور موقع کی مناسبت سے ایک خاص عبارت اور خاص زبان میں نازل فرما دیے ہیں ۔ اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کا فیصلہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب کے بجائے کسی اور قوم میں پیدا کرنے کا ہوتا تو یہی قرآن وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی قوم کی زبان میں نازل کرتا ۔ اس میں بات اسی قوم اور ملک کے حالات کے لحاظ سے کی جاتی ، عبارتیں کچھ اور ہوتیں ، زبان بھی دوسری ہوتی ، لیکن بنیادی طور پر تعلیم و ہدایت یہی ہوتی ، اور وہ یہی قرآن ہوتا ( اگرچہ قرآن عربی نہ ہوتا اسی مضمون کو سورہ شعراء میں یوں ادا کیا گیا ہے : وَ اِنَّہ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ............ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ وَّ اِنَّہ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ ( 192 ۔ 196 ) ۔ یہ رب العٰلمین کی نازل کردہ کتاب ہے ............. صاف صاف عربی زبان میں ، اور یہ اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، الشعراء ، حواشی ۱۱۹ ۔ ۱۲۱ ) سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :3 اس فقرے کا تعلق کتاب مبین سے بھی ہے اور امّ الکتاب سے بھی ۔ یعنی یہ تعریف قرآن کی بھی ہے اور اس اصل کتاب کی بھی جس سے قرآن منقول یا ماخوذ ہے ۔ اس تعریف سے یہ بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ کوئی شخص اپنی نادانی سے اس کتاب کی قدر و منزلت نہ پہچانے اور اس کی حکیمانہ تعلیم سے فائدہ نہ اٹھائے تو یہ اسکی اپنی بد قسمتی ہے ۔ کوئی اگر اس کی حیثیت کو گرانے کی کوشش کرے اور اس کی باتوں میں کیڑے ڈالے تو یہ اس کی اپنی رذالت ہے ۔ کسی کی ناقدری سے یہ بے قدر نہیں ہو سکتی ، اور کسی کے خاک ڈالنے سے اس کی حکمت چھپ نہیں سکتی ۔ یہ تو بجائے خود ایک بلند مرتبہ کتاب ہے جسے اس کی بے نظیر تعلیم ، اس کی معجزانہ بلاغت ، اس کی بے عیب حکمت اور اس کے عالی شان مصنف کی شخصیت نے بلند کیا ہے ۔ یہ کسی کے گرائے کیسے گر جائے گی ۔ آگے چل کر آیت 44 میں قریش کو خاص طور پر اور اہل عرب کو بالعموم یہ بتایا گیا ہے کہ جس کتاب کی تم اس طرح ناقدری کر رہے ہو اس کے نزول نے تم کو ایک بہت بڑے شرف کا موقع عطا کیا ہے جسے اگر تم نے کھو دیا تو خدا کے سامنے تمہیں سخت جوابدہی کرنی ہو گی ۔ ( ملاحظہ ہو حاشیہ 39 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: قرآن کریم ازل سے لوح محفوظ میں موجود تھا، پھر وہاں سے آسمان دنیا پر، اور اس کے بعد حسب موقع حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:4) انہ فی ام الکتب۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع الکتب (آیت نمبر 2) ام الکتب مضاف مضاف الیہ۔ بمعنی تمام کتابوں کی ماں۔ یا اصل۔ اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔ جیسا کہ اور جگہ فرمایا بل ھو قرآن مجید فی لوح محفوظ (85:2123) بلکہ یہ قرآن مجید ہے لوح محفوظ میں (لکھا ہوا) ۔ لدینا : لدی مضاف نا ضمیر جمع متکلم مضاف الیہ۔ ہمارے پاس ، ہمارے نزدیک اللہ کے پاس ہونا بےکیف اور تصور مکانیت سے پاک پے (قرب الٰہی نہ مکانی ہے نہ کسی جسمانی کیفیت کا حامل) بعض کے نزدیک لدینا سے پہلے محفوظا کا لفظ محذوف ہے یعنی قرآن ہمارے پاس تغیر سے محفوظ ہے۔ لعلی حکیم : لام تحقیق کے لئے ہے ۔ علی حکیم قرآن مجید کی صفات ہیں۔ علی بڑے رتبے والا۔ کسی کا ادراک وہاں تک نہیں پہنچ نہیں سکتا۔ یا اس کا یہ مطلب ہے کہ تمام آسمانی کتابوں میں اس کی شان بلند ہے۔ حکیم حکمت سے بھرا ہوا۔ یا محکم جس کو کوئی کتاب منسوخ نہیں کرسکتی (نیز ملاحظہ ہو 42:51)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 گو تم اس کی قدر و منزلت نہ کرو غظ حکیم کے دوسرے معنی محکم بھی ہوسکتے ہیں۔ یعنی اس کے دلائل نہیں مضبوط اور احکام غیر منسوخ ہیں اور اس کے مضامین میں کسی قسم کا تضاد یا اختلاف بیان نہیں پایا جاتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ پس جب یہ سمجھنے میں آسان ہے اور خاص ہماری زیر حفاظت اور بوجہ اعجاز کے عظیم المرتبہ اور اپنی حقیقت پر دال۔ پھر منافع و مصالح پر مشتمل تو ایسی کتاب کو ضرور ماننا چاہئے، لیکن اگر تم نہ بھی مانو تب بھی ہم بوجہ اقتضائے حکمت کے اس کا بھیجنا اور تم کو اس کا مخاطب بنانا نہ چھوڑیں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) اور وہ یقینا ہمارے پاس ام الکتاب یعنی لوح محفوظ میں بڑی بلند قدر اور حکمت سے لبریز کتاب ہے۔ دو باتیں فرمائیں اول اس کی حفاظت کا یہ حال ہے کہ وہ لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے جیسا کہ تمام کتب سماویہ لوح محفوظ میں ثبت ہیں بل ھو قرآن مجید فی لوح محفوظ گویا ہماری خاص نگرانی میں ہے اور ہماری زیر حفاظت ہے۔ دوسری بات یہ کہ اپنے اعجاز اور کلام الٰہی ہونے کے اعتبار سے بڑی عظیم المرتبت اپنے منافع اور اپنے مصالح کے اعتبار سے پراز حکمت ہے اور یہ جو فرمایا ہمارے پاس یہ باعتبار شرف اور باعتبار اختصاص فرمایا یعنی قرب مکافی نہیں بلکہ قرب مرتبہ کے اعتبار سے لدینا ارشاد فرمایا گیا ہے۔