Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 42

سورة الزخرف

اَوۡ نُرِیَنَّکَ الَّذِیۡ وَعَدۡنٰہُمۡ فَاِنَّا عَلَیۡہِمۡ مُّقۡتَدِرُوۡنَ ﴿۴۲﴾

Or whether [or not] We show you that which We have promised them, indeed, We are Perfect in Ability.

یا جو کچھ ان سے وعدہ کیا ہے وہ تجھے دکھا دیں ہم ان پر بھی قدرت رکھتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Or (if) We show you that wherewith We threaten them, then verily, We have perfect command over them. means, `We are able to do both,' but Allah will not take His Messenger (in death) until He gives him the joy of seeing his enemies brought low and gives him power and authority over them and their wealth. This was the view of As-Suddi and was the opinion favored by Ibn Jarir. Encouragement to adhere to the Qur'an Allah then says; فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ إِنَّكَ عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 یعنی تیری موت سے قبل ہی، یا مکہ میں ہی تیرے رہتے ہوئے عذاب بھیج دیں۔ 42۔ 2 یعنی ہم جب چاہیں ان پر عذاب نازل کرسکتے ہیں، کیونکہ ہم ان پر قادر ہیں۔ چناچہ آپ کی زندگی میں ہی بدر کی جنگ میں کافر عبرت ناک شکست اور ذلت سے دو چار ہوئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤١] مشرکین مکہ کا یہ خیال تھا کہ ان کی ساری پریشانیوں اور مصیبتوں کا باعث رسول اللہ کی ذات ہے۔ یہ کانٹا اگر درمیان سے نکل جائے تو سارا معاملہ درست ہوسکتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ آپ کی جان کے لاگو بنے ہوئے تھے۔ اس آیت میں اگرچہ روئے سخن رسول اللہ کی طرف ہے لیکن یہ وعید دراصل مشرکین مکہ کو سنائی جارہی ہے۔ کہ رسول زندہ رہے یا نہ رہے۔ تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا بہرحال مل کے رہے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا عذاب رسول کی زندگی میں ہی تمہیں پہنچ جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی وفات کے بعدآئے۔ لہذا جو کچھ تم رسول کے متعلق سوچ رہے ہو اس سے تمہاری پریشانیوں اور مصیبتوں میں اضافہ تو ہوسکتا ہے، کمی نہیں ہوسکتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوْ نُرِيَنَّكَ الَّذِيْ وَعَدْنٰہُمْ فَاِنَّا عَلَيْہِمْ مُّقْتَدِرُوْنَ۝ ٤٢ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ { اَوْ نُرِیَنَّکَ الَّذِیْ وَعَدْنٰہُمْ فَاِنَّا عَلَیْہِمْ مُّقْتَدِرُوْنَ } ” یا (یہ بھی ہوسکتا ہے کہ) ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دکھا دیں وہ کچھ جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے ‘ ہمیں یقینا ان پر پوری قدرت حاصل ہے۔ “ ہم چاہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ہی ان پر فیصلہ کن عذاب لے آئیں اور چاہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ان پر گرفت کریں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37 This thing can be understood fully only by keeping in view the background in whicjit was said. The disbelievers of Makkah thought that the person of the Prophet Muhammad (upon whom be Allah's Peace) had become a source of trouble for them. If they could somehow get rid of him, matters would become normal. On the basis of this evil thought they were holding consultations day and night and planning to kill him. At this, Allah addresses His Prophet so as to tell them indirectly: "It doesn't make any difference whether you remain among them or not: if you live, you will see them meet their doom with your own eyes; if you are recalled from the world, they will be sent to their doom in your absence, because they cannot in any case escape the consequences of their misdeeds. "

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :37 اس ارشاد کا مطلب اس ماحول کو نگاہ میں رکھنے سے ہی اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے جس میں یہ بات فرمائی گئی ہے ۔ کفار مکہ یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی ان کے لیے مصیبت بنی ہوئی ہے ، یہ کانٹا درمیان سے نکل جائے تو پھر سب اچھا ہو جائے گا ۔ اسی گمان فاسد کی بنا پر وہ شب و روز بیٹھ بیٹھ کر مشورے کرتے تھے کہ آپ کو کسی نہ کسی طرح ختم کر دیا جائے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے رخ پھیر کر اپنے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تمہارے رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ تم زندہ رہو گے تو تمہاری آنکھوں کے سامنے ان کی شامت آئے گی ، اٹھا لیے جاؤ گے تو تمہارے پیچھے ان کی خبر لی جائے گی ۔ شامت اعمال اب ان کی دامنگیر ہو چکی ہے جس سے یہ بچ نہیں سکتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٢۔ ٤٥۔ اللہ پاک نے اس سے پہلے کی آیت میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ یا تمہاری وفات کے بعد ضرور ہم کافروں پر عذاب نازل کریں گے اور بدلہ لیں گے اور یا تمہاری حیات میں وہ عذاب جس کا ہم نے وعدہ کیا ہے دکھا دیں گے دونوں باتوں پر ہم قدرت رکھتے ہیں اوپر کی آیت کے وعدہ کا جو کچھ ظہور صحابہ کے زمانہ میں ہوا اس کا مختصر ذکر تو اوپر کی آیت کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ بدر کی فتح سے لے کر اللہ کے رسول کی حیات تک جو فتوحات ہوئیں وہ قصے اس دوسرے وعدہ کے ظہور کی گویا تفسیر ہیں اب آگے فرمایا اے رسول اللہ کے تم کسی کے جھٹلانے کی کچھ پرواہ نہ کرو اور قرآن کی نصیحت پر مضبوطی سے قائم رہو اب تو یہ قریش قرآن کو جھٹلاتے ہیں پھر اسی قوم میں ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن کی پیروی کے سبب سے بڑی عزت حاصل کریں گے اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت سے لے کر عباسیہ خلافت کے عروج کے زمانہ تک اس وعدہ کا ظہورا ہوا تاریخ الخلفا کے دیکھنے سے اس کا حال معلوم ہوسکتا ہے پھر جس قدر قرآن کی پیروی قوم سے اٹھتی گئی اسی قدر عزت بھی گھٹتی گئی اسی واسطے فرمایا جن لوگوں نے قرآن کی پیروی میں خلل ڈالا ان سے قیامت کے دن اس کی پوچھ ہوگی قریش کو یہ عزت اسی سبب سے حاصل ہوئی کہ اللہ کے رسول اسی قوم میں سے ہوئے جس سے قرآن شریف قریش کی زبان میں نازل ہوا مشرکین مکہ کہتے تھے کہ کسی پچھلے دین میں خالص ایک اللہ کی عبادت ہم نے تو نہیں سنی چناچہ سورة ص میں اس کا ذکر گزرچکا ہے ان لوگوں کے قائل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مخاطب ٹھہرا کر فرمایا کہ ان لوگوں نے خالص ایک اللہ کی عبادت کسی پچھلے دین میں ان مشرکوں کی بت پرستی کا بھی کہیں کچھ پتہ ہے آگے اسی ذکر کو سچا کرنے کے لئے فرعون کے قصہ کا حوالہ دیا تاکہ قریش کو معلوم ہوجائے کہ پچھلے زمانہ میں خالص ایک اللہ کی عبادت کے انکار سے فرعون اور اس کی قوم کا کیا انجام ہوا مطلب یہ ہے اگر یہ لوگ بھی اسی انکار پر اڑے رہے تو یہی انجام ان کا ہوگا۔ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے اس انکار پر بڑے بڑے اڑے رہنے والوں کا جو انجام بدر کی لڑائی کے وقت ہوا۔ صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم کی انس (رض) بن مالک کی حدیث کے حوالہ سے اس کا تذکرہ کئی جگہ گزر چکا ہے۔ (١ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص ١٦٩۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:42) اونرینک الذی وعدنھم : جملہ شرط ہے ای اوان اردنا ان نریک العذاب الذی وعدنا ہم اور اگر ہمارا ارادہ ہو کہ ہم دکھائیں آپ کو وہ عذاب جن کا ہم نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے۔ نرین مضارع تاکید بانون ثقیلہ جمع متکلم۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ ہم تمہیں ضرور دکھائیں گے۔ فانا علیہم مقتدرون : اسم فاعل جمع مذکر اقتدار (افتعال) مصدر۔ پوری قدرت رکھنے والے۔ تو ہمیں ان پر پوری قدرت حاصل ہے۔ جملہ جواب شرط ہے۔ الکشاف میں ہے وان اردنا ان تجزفی حیاتک ما وعدنا ھم من العذاب النازل بھم فہم تحت ملکتنا وقدرتنا۔ اور اگر ہم چاہیں کہ ہم آپ کی زندگی میں ہی ان کو ان پر آنے والے عذاب کا مزہ چکھائیں تو بھی وہ ہماری ملکیت اور قدرت میں ہیں۔ مطلب آیات 41:42 کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار کو ان کے کئے کی سزا بہرحال ملے گی۔ اگر ہم آپ کو پہلے اس دنیا سے لے جائیں تو پھر بھی ہم ان سے بدلہ ضرور لیں گے یعنی ان کو سزا دیں گے۔ اور اگر ہم چاہیں کہ آپ کی حیات میں ہی ان پر عذاب نازل ہو تو اس کی بھی ہمیں قدرت ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی ان سے انتقام لینے کے لئے ان پر عذاب ضرور بھیجا جائے گا چاہے یہ عذاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں آئے یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد۔ 8 چناچہ ایسا ہی ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ہی میں بدر کے روز کافروں پر عذنب بھیجا۔ بہت سے مفسرین (رح) نے اس آیت کی یہی تشریح کی ہے اور ابن جریر (رح) نے اسے ترجیح دی ہے۔ حسن بصری (رح) اور قتادہ (رح) کہتے ہیں کہ یہ آیت مسلمانوں کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ اور بعض الذی نعدھم سے مرادوہ فتنے ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد مسلمانوں میں نمودار ہوئے لیکن زیادہ صحیح پہلی ہی ہے ( قرطبی، ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مطلب یہ کہ عذاب ضرور ہوگا خواہ کب ہی ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(42) یا ان کافروں سے جو ہم نے عذاب کا وعدہ کررکھا ہے وہ آپ کی زندگی میں آپ کو دکھلا دیں بہرحال ہم ان پر ہر طرح قابو اور قدرت رکھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس عذاب سے ان کو ڈرایا گیا ہے وہ ضرور ہوگا خواہ وہ آپ کی زندگی میں ہو یا آپ کی وفات کے بعد کیونکہ یہ پوری طرح ہمارے بس میں ہیں چناچہ دونوں ہی باتیں ہوئیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات میں بھی کفار کو ذلیل ورسوا کیا گیا اور آپ کی وفات کے بعد بھی۔