Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 51

سورة الزخرف

وَ نَادٰی فِرۡعَوۡنُ فِیۡ قَوۡمِہٖ قَالَ یٰقَوۡمِ اَلَیۡسَ لِیۡ مُلۡکُ مِصۡرَ وَ ہٰذِہِ الۡاَنۡہٰرُ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِیۡ ۚ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿ؕ۵۱﴾

And Pharaoh called out among his people; he said, "O my people, does not the kingdom of Egypt belong to me, and these rivers flowing beneath me; then do you not see?

اور فرعوں نے اپنی قوم میں منادی کرائی اور کہا اے میری قوم! کیا مصر کا ملک میرا نہیں؟ اور میرے ( محلوں کے ) نیچے یہ نہریں بہہ رہی ہیں کیا تم دیکھتے نہیں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Fir`awn's Address to His People and how Allah punished Him Allah informs that; وَنَادَى فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَا قَوْمِ ... And Fir`awn proclaimed among his people (saying): "O my people! Allah tells us how Fir`awn stubbornly persisted in his rebellion and disbelief. He assembled his people and addressed them in a vainglorious fashion, boasting of his dominion over Egypt. ... أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَذِهِ الاَْنْهَارُ تَجْرِي مِن تَحْتِي ... Is not mine the dominion of Egypt, and these rivers flowing underneath me? Qatadah said, "They had gardens and rivers of flowing water." ... أَفَلَ تُبْصِرُونَ See you not then? means, `do you not see my position of might and power' -- implying that Musa and his followers were poor and weak. This is like the Ayah: فَحَشَرَ فَنَادَى فَقَالَ أَنَاْ رَبُّكُمُ الاٌّعْلَى فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الاٌّخِرَةِ وَالاٍّوْلَى Then he gathered (his people) and cried aloud, saying: "I am your lord, most high." So Allah seized him with punishment for his last and first transgression. (79:23-25)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 اس سے مراد دریائے نیل یا اس کی بعض شاخیں ہیں جو اس کے محل کے نیچے سے گزرتی تھیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] یہاں && اپنی قوم میں && سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنے درباریوں سے پکار پکار کر یہ باتیں کی ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنی ان باتوں کا اتنا پرزور پروپیگنڈا کیا ہو کہ اس کی قوم کے ہر فرد کے کانوں تک فرعون کی یہ آواز پہنچ گئی ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ونادی فرعون فی قومہ : فرعون اور اس کے سرداروں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے، جن سے انھیں ان کی نبوت کا یقین ہوگیا ، اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے، بلکہ مقابلے میں جادو گروں کو لے آئے۔ اس میں منہ کی کھائی پھر بھی ایمان نہ لائے ، پھر بطور نشانی کتنے عذاب ان پر آئے جو اس وعدے کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کروانے پر دور ہوئے کہ ہم عذاب دور ہونے پر ایمان لے آئیں گے اور تمہارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دیں گے ، مگر وہ کسی صورت موسیٰ (علیہ السلام) کو رسول ماننے پر تیار نہ تھے۔ ادھر انھیں خطرہ تھا کہ عوام ان معجزات کے نتیجے میں ان کی طرف مائل ہوجائیں گے، اس لئے فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے رسالت کے اہل نہ ہونے کے اپنے خیال میں کئی دلائل گھڑے اور ابلاغ کے جتنے وسائل ہوسکتے تھے ان کے ساتھ پوری قوم میں ان کی منادی کروائی ، جیسا کہ اس نے عصائے موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے کے لئے تمام شہروں میں آدمی بھیج کر جادو گر اکٹھے کئے تھے، فرمایا :” فارسل فرعون فی المدآئن خشرین) (الشعرائ : ٥٣)” تو فرعون نے شہروں میں اکٹھا کرنے والے بھیج دیئے۔ “ (فی قومہ) کے الفاظ اس منادی کی وسعت پر دلالت کر رہے ہیں۔ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ قصہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو تسلیم نہ کرنے کے لئے کفار نے جو دلائل تصنیف کئے ہیں وہ سبھی اس سے پہلے فرعون بھی پیش کرچکا ہے۔ وہ دلائل نہ اسے عذاب سے بچا سکے اور نہ ان لوگوں کو کفرپر اصرار کی صورت میں بچا سکیں گے۔ (٢) قال یقوم الیس لی ملک مصر و ھذہ الانھر تجزی من تختی : یعنی برتری اور ا فضیلت کا پیمانہ دنیاوی مال و دولت اور حکومت و اقتدار ہے، جو موسیٰ کے پاس نہیں میرے پاس ہے۔ کیا میں مصر کے اقتدار کا مالک نہیں ہوں ؟ دریائے نیل سے نکالی القرآن علی رجل من القریتین عظیم) (الزخرف : ٣١) کہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی عظیم آدمی پر اترنا چاہیے تھا۔ (٣) افلا تبصرون : مصر کے لوگ جو موسیٰ (علیہ السلام) کے کمالات اور معجزات دیکھ کر متاثر ہو رہے تھے، فرعون انھیں اپنی مادی اور دنیوی شان و شوکت کی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ حقیقت میں یہ اس کی شکست خوردگی کی دلیل ہے، کیونکہ یہ سب کچھ تو وہ مدت سے دیکھتے چلے آرہے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَنَادٰى فِرْعَوْنُ فِيْ قَوْمِہٖ قَالَ يٰقَوْمِ اَلَيْسَ لِيْ مُلْكُ مِصْرَ وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِيْ۝ ٠ ۚ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۝ ٥١ ۭ ندا النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر : 435- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال : فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف . ( ن د ی ) الندآ ء کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔ فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) ملك المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور، وذلک يختصّ بسیاسة الناطقین، ولهذا يقال : مَلِكُ الناسِ ، ولا يقال : مَلِك الأشياءِ ، وقوله : مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] فتقدیره : الملک في يوم الدین، وذلک لقوله : لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [ غافر/ 16] ( م ل ک ) الملک ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے یہی وجہ ہے کہ ملک امن اس تو کہا جاتا ہے لیکن ملک الاشیاء کہنا صحیح نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة/ 3] انصاف کے دن کا حاکم ۔ میں ملک کی اضافت یوم کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ اسل میں ملک الملک فی یوم دین ہے ۔ یعنی قیامت کے دن اسی کی بادشاہت ہوگی ۔ جسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [ غافر/ 16] آج کسی کی بادشاہت ہے ۔ خدا کی کو اکیلا ادر غالب ہے ۔ مصر المِصْرُ اسم لكلّ بلد ممصور، أي : محدود، وقوله تعالی: اهْبِطُوا مِصْراً [ البقرة/ 61] فهو البلد المعروف، ( م ص ر ) المصر ہر محدود شہر کو ( جس کے گرد فصیل ہو ) مصر کہتے ہیں ۔ اور مصرت مصرا دو چیزوں کے مابین حد کو کہتے ہیں۔ اور آیت کریمہ : ۔ اهْبِطُوا مِصْراً [ البقرة/ 61] مصر میں داخل ہو جایئے ۔ میں مصر سے مشہور شہر مصر مراد ہے نهر النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، ( ن ھ ر ) النھر ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة «2» ، إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] . ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔ تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور فرعون نے اپنی قبطی قوم میں اعلان کرایا کہ اے میری قوم کیا مصر کے چالیس فرسخ علاقہ میں حکومت میری نہیں اور یہ نہریں جو میرے چاروں طرف یا یہ کہ جو میرے محل کے نیچے بہہ رہی ہیں کیا میری نہیں کیا تم غور نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ { وَنَادٰی فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِہٖ } ” اور فرعون نے اپنی قوم میں ڈھنڈورا پٹوا دیا “ { قَالَ یٰـــقَوْمِ اَلَـیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ } ” اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے ؟ “ نوٹ کیجیے ! یہ سیاسی شرک شرک کی بد ترین قسم ہے۔ حاکمیت صرف اللہ کی ہے ‘ اس کے علاوہ جو کوئی بھی حاکمیت کا مدعی ہو ‘ چاہے وہ ایک فرد ہو ‘ ایک قوم ہو یا پوری نسل انسانی ‘ وہ اللہ کے ساتھ برابری کا دعویدار ہے۔ اور فرعون نے خدائی کا دعویٰ اسی مدعیت کے ساتھ اور اسی مفہوم میں کیا تھا ‘ ورنہ وہ زمین و آسمان کے خالق ہونے کا دعویدار تو ہرگز نہیں تھا۔ وہ خود بھی جانتا تھا کہ جس طرح تمام انسان پیدا ہوتے ہیں وہ بھی اسی طرح پیدا ہوا ہے اور سب کی نظروں کے سامنے پلابڑھا ہے۔ چناچہ اس کے خدائی کے دعوے کی اصل حقیقت یہی تھی کہ وہ حاکمیت ِمطلق کا دعویدار تھا ‘ جو کہ صرف اور صرف اللہ کا حق ہے۔ Divine Rights of the Kings کا ذکر آپ کو اہل یورپ کی تاریخ میں بھی ملے گا۔ ان کے ہاں بھی قدیم زمانے سے یہ تصور چلا آ رہا ہے کہ بادشاہوں کو خدائی اختیارات حاصل ہیں ‘ ان کا اختیار مطلق ہے ‘ وہ final legistative authority ہیں۔ ان کی مرضی ہے وہ جو چاہیں قانون بنا دیں۔ جبکہ یہ سوچ اور یہ دعویٰ بد ترین شرک ہے ‘ جسے اہل یورپ نے دور حاضر میں جمہوریت کے نام سے عوام الناس میں تقسیم کردیا ہے۔ چناچہ جو گندگی کسی زمانے میں فرعون یا نمرود کے سر پر ٹنوں کے حساب سے لدی ہوتی تھی اسے انہوں نے تولوں اور ماشوں میں تقسیم کر کے اپنے ہر شہری کی جیب میں ڈال دیا ہے ‘ کہ یہ لو ووٹ کی اس پرچی کے بل پر اب تم میں سے ہر ایک حکومت میں حصہ دار ہے۔ اب تم اپنی اکثریت کے ذریعے جو قانون چاہو بنا لو۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم ” ابلیس کی مجلس شوریٰ “ میں اس شیطانی فریب کو خوب بےنقاب کیا ہے۔ ابلیس کا ایک مشیر (اقبالؔ کے الفاظ میں) دوسرے مشیر سے کہتا ہے : ؎ خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر ؟ ُتو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے با خبر ! کہ اب دنیا میں سلطانی جمہور (عوام کی حکمرانی) کے نام پر جو شور و غوغا اٹھا ہے وہ ابلیسی نظام کے لیے ایک بہت بڑا فتنہ اور خطرہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انسان ہمارے سب ہتھکنڈوں کا توڑ ڈھونڈنے پر تلا بیٹھا ہے۔ اگر انسانوں کا بنایا ہوا عوامی حاکمیت کا یہ سکہ دنیا میں چل گیا تو ہمارا کاروبار تو ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔ اس کی اس بات پر دوسرا مشیر کہتا ہے : ؎ ہوں ‘ مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے جو ملوکیت کا اک پردہ ہو کیا اس سے خطر ! کہ میں اس ” فتنے “ کی اصلیت سے خوب باخبر ہوں ‘ بہر حال تشویش کی کوئی بات نہیں۔ یہ جمہوریت بھی ملوکیت ہی کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے : ؎ ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر ! اصل میں جب ہم نے دیکھا کہ انسان اپنے ” بنیادی حقوق “ کے بارے میں کچھ زیادہ ہی حساس ہوتا چلا جا رہا ہے تو ہم نے ” شاہی “ کو ” جمہوری “ لباس پہنا کر اس کے سامنے لا کھڑا کیا ہے کہ لو بھئی اب تو تمہارا عام شخص بھی حاکم بن گیا ہے ‘ اب تو ہر شہری کو شاہی اختیار میں سے برابر کا حصہ مل گیا ہے۔ لہٰذا سلطانی ٔ جمہور کا یہ شوشہ ہماری ” ابلیسیت “ کے لیے کوئی خطرہ نہیں بلکہ ہمارا اپنا ہی تیار کردہ منصوبہ ہے۔ ملوکیت اور جمہوریت کی حقیقت کو اس مثال سے سمجھنا چاہیے کہ گندگی تو گندگی ہی ہے چاہے ٹنوں کے حساب سے کسی ایک شخص کے سر پر لاد دی جائے یا ایک کروڑ انسانوں میں تولہ تولہ ماشہ ماشہ تقسیم کردی جائے۔ چناچہ فرعون کو اسی ” خدائی “ کا دعویٰ تھا اور اس نے اپنی ” خدائی “ کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے اعلان کیا کہ لوگو ! دیکھو کیا مصر کی حکومت میرے قبضے میں نہیں ہے ؟ { وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ } ” اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں ؟ “ اس فقرے کا مفہوم ہمارے ہاں عام طور پر یوں سمجھ لیا جاتا ہے جیسے فرعون نے اپنے محل کے نیچے بہنے والے دریا کا ذکر کیا تھا ‘ جبکہ اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ ملک کے اندر آب پاشی کا پورا نظام جس پر تمہاری معیشت کا انحصار ہے ‘ میرے حکم کے تابع ہے۔ میں جسے چاہوں اور جس قدر چاہوں پانی مہیا کروں۔ جس کو چاہوں کم پانی دوں ‘ جس کو چاہوں زیادہ دوں اور جسے چاہوں پانی سے محروم کر دوں ‘ مجھے کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ { اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ۔ } ” تو کیا تم دیکھتے نہیں ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

45 Pharaoh probably sent heralds to the cities and towns throughout the country to proclaim what he said in his address to his ministers and courtiers in the capital. Pharaoh could not have availed of the services of a sycophantic press, controlled news agencies and official radio. 46 The words of the proclamation clearly show that ground was slipping from under the Pharaoh's feet. The miracles performed one after the other by the Prophet Moses had caused the common people's beliefs in their gods to waver and the Pharaoh's spell under which their dynasty was ruling over Egypt as representatives of the gods, was shattered. Thereupon, Pharaoh cried out: "O wretched people, can't you see who is ruling over this land and under whose control are the canals which have been dug out from the Nile, upon which depends your whole economy ? All these developments in this country have been brought about by me and my predecessors, but you arc being devoted, charmed and fascinated 6y this pauper! "

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :45 غالباً پوری قوم میں پکارنے کی عملی صورت یہ رہی ہو گی کہ فرعون نے جو بات اپنے دربار میں سلطنت کے اعیان و اکابر اور قوم کے بڑے بڑے سرداروں کو مخاطب کر کے کہی تھی ، اسی کو منادیوں کے ذریعہ سے پورے ملک کے شہروں اور قریوں میں نشر کرایا گیا ہو گا ۔ بے چارے کے پاس اس زمانہ میں یہ ذرائع نہ تھے کہ خوشامدی پریس ، خانہ ساز خبر رساں ایجنسیوں اور سرکاری ریڈیو سے منادی کراتا ۔ سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :46 منادی کا یہ مضمون ہی صاف بتا رہا ہے کہ ہز میجسٹی کے پاؤں تلے زمین نکلی جا رہی تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پے در پے معجزات نے ملک کے عوام کا عقیدہ اپنے دیوتاؤں پر سے متزلزل کر دیا تھا ۔ اور فراعنہ کا باندھا ہوا وہ سارا طلسم ٹوٹ گیا تھا جس کے ذریعہ سے خداؤں کا اوتار بن کر یہ خاندان مصر اپنی خداوندی چلا رہا تھا ۔ اسی صورت حال کو دیکھ کر فرعون چیخ اٹھا کہ کم بختو ، تمہیں آنکھوں سے نظر نہیں آتا کہ اس ملک میں بادشاہی کس کی ہے اور دریائے نیل سے نکلی ہوئی یہ نہریں جن پر تمہاری ساری معیشت کا انحصار ہے ، کس کے حکم سے جاری ہیں؟ یہ ترقیات ( Developments ) کے کام تو میرے اور میرے خاندان کے لیے ہوئے ہیں ، اور تم گرویدہ ہو رہے ہو اس فقیر کے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:51) نادی۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ نداء (باب مفاعلۃ) مصدر ن د ء مادہ۔ اس نے پکارا۔ یعنی عذاب دور ہوجانے کے بعد فرعون نے اپنی قوم کے مجمع میں پکار کر کہا۔ ملک مصر : ملک مضاف مصر مضاف الیہ غیر منصرف ہونے کی وجہ سے مفتوح ہے۔ وھذہ الانھر : اس کا عطف لک مصر پر ہے اور یہ نہریں (جو دریائے نیل سے نکلتی تھیں جن میں چار بڑی نہریں یہ تھیں۔ نہر الملک۔ نہر طوفان۔ نہر دمیاط اور نہر تینیس۔ تجری من تحتی۔ جملہ حالیہ ہے ھذہ الانھر سے۔ تجری مضارع واحد مؤنث غائب۔ جری وجریان (باب ضرب) مصدر۔ وہ چلتی ہیں ، وہ جاری ہیں۔ من تحتی میرے محلات کے نیچے سے۔ میرے ماتحت۔ میرے زیر حکم یا میرے سامنے باغوں میں۔ افلا تبصرون : ہمزہ استفہامیہ ہے لا تبصرون کا مفول محذوف ہے۔ ای فلا تبصرون ذلک او عظمتی اوقرتی : کیا تم یہ چیزیں نہیں دیکھ رہے ہو یا کیا تم میری عظمت اور قوت کو نہیں دیکھ رہے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) میرا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ فرعون نے جب وہ نشانیاں دیکھیں تو ڈر گیا کہ کہیں عوام حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی طرف مائل نہ ہوجائیں اس لئے یہ بات کہی۔ ( قرطبی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فرعون کا تکبر کی انتہا اور اس کی ہرزہ سرائی۔ فرعون اور اس کے ساتھی عذاب ٹل جانے کے بعد بار بار عہد شکنی کرتے اور موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر کہہ کر بلاتے تھے۔ اس کے باوجود لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بےمثال جدوجہد سے متاثر ہورہے تھے۔ متاثر ہونے والوں میں فرعون کا ایک قریبی رشتہ دار بھی تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آیا۔ قریب تھا کہ جادو گروں کی طرح فرعون کے اور رشتہ دار بھی موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا اظہار کرتے۔ لیکن فرعون بڑا جابر اور شاطر انسان تھا۔ جونہی وہ لوگوں کو موسیٰ (علیہ السلام) سے متاثر ہوتے ہوئے محسوس کرتا تو وہ کوئی نہ کوئی نیا ہتھکنڈا اور پراپیگنڈہ شروع کردیتا۔ اس بار اس نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے ایک طرف تکبر کی انتہا کردی اور دوسری طرف اپنے کارناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اے میری محبوب عوام ! تم خواہ مخواہ موسیٰ سے متاثر ہوئے جارہے ہو۔ دیکھو اور غور کرو ! کہ ملک کا حکمران میں ہوں یا کوئی اور ؟ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ میں نے اپنے محل کے نیچے نہریں جاری کر رکھی ہیں۔ یعنی دیکھو کہ ملک کا دارالخلافہ کس قدر خوبصورت ہے اس کے ساتھ میرے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تجزیہ کرو ! کیا میں بہتر ہوں یا وہ ذلیل شخص (نعوذ باللہ) جو صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ؟ اس کی غربت اور کمپرسی کا یہ عالم ہے کہ نہ اس کے پاس سونے کے کنگن ہیں اور نہ ہی کوئی اس کے باڈی گارڈ۔ اس طرح اس نے عوام کو موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ فرعون نے اپنے ملک کی ترقی بالخصوص شہروں میں ترسیلِ آب اور زراعت کے لیے آب پاشی کے نظام کا حوالہ دے کر قوم کو ورغلایا اور اپنے آپ کو ممتاز اور منفرد شخصیت کے طور پر پیش کرتے ہوئے ملک کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ فرعون نے اپنے مقابلے میں موسیٰ (علیہ السلام) کو حقیر اور گونگا کہا اور ملک کی خوشحالی کا حوالہ دیتے ہوئے قوم کو اپنی کلائیوں کے سونے کے کنگن دکھلائے اور جاہ و حشمت کے اظہار کے لیے اپنے لشکر و سپاہ کا حوالہ دیا۔ یاد رہے کہ ہر ڈکٹیٹر اپنے بارے میں یہی سوچتا ہے اور تاثر دیا کرتا ہے یاد رہے اس قسم کے خیالات کا اظہار اہل مکہ بھی کیا کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ یہ تو غریب ہے نبی تو طائف یا مکہ کے فلاں سردار کو ہونا چاہیے تھا، جس لیے فرعون کی اس گفتگو کا قدرتفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ فرعون نے اس بات کا بھی اظہار کرتا تھا کہ اگر واقعی موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا رسول ہوتا تو اس کے ساتھ ہر وقت ملائکہ کا دستہ ہونا چاہیے تھا تاکہ وہ ہر موقع پر اس کی تائید اور مدد کرتے۔ ایسی ہی گفتگو اہل مکہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کیا کرتے تھے۔ اہل مکہ کو یہ کہہ کر سمجھایا گیا کہ تم ملائکہ کی آمد کا مطالبہ کرتے ہو۔ (وَ قَالُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ) [ الانعام : ٨] ” اور انہوں نے کہا اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا ؟ “ زمانہ قدیم کے بادشاہ اور مالدار لوگ دولت کی نمائش کے لیے اپنی کلائیوں میں سونے کے کنگن پہنا کرتے تھے جس طرح آج کل کچھ لوگ کلائی میں کڑا، اور ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی پہنتے ہیں اور گلے میں سونے کی زنجیر لٹکاتے ہیں۔ کچھ لوگ سونے کی گھڑی پہننے پر فخر محسوس کرتے ہیں حالانکہ ہماری شریعت میں مردوں کو سونا پہننے سے منع کیا گیا ہے۔ (عَنْ عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ یُخْبِرُ عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ کَانَ یَمْنَعُ أَہْلَ الْحِلْیَۃِ وَالْحَرِیرِ وَیَقُولُ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ حِلْیَۃَ الْجَنَّۃِ وَحَرِیرَہَا فَلاَ تَلْبَسُوہَا فِی الدُّنْیَا)[ رواہ احمد : باب حدیث عقبۃ بن عامر الجھنی ] ” حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انے زیور اور ریشم سے منع کرتے اور فرماتے تھے کہ اگر تم جنت میں زیور اور ریشم پہننا چاہتے ہو تو دنیا میں نہ پہنا کرو ! “ (عن عَبْد اللّٰہِ بْنَ عُکَیْمٍ قَالَ کُنَّا مَعَ حُذَیْفَۃَ (رض) بِالْمَدَآءِنِ فَاسْتَسْقٰی حُذَیْفَۃُ فَجَآ ءَ ہٗ دِہْقَانٌ بِشَرَابٍ فِیْٓ إِنَاءٍ مِّنْ فِضَّۃٍ فَرَمَاہُ بِہٖ وَقَالَ إِنِّیْٓ أُخْبِرُکُمْ أَنِّیْ قَدْ أَمَرْتُہٗ أَنْ لاَّ یَسْقِیَنِیْ فِیْہِ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَشْرَبُوْا فِیْٓ إِنَآء الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَلاَ تَلْبَسُوا الدِّیْبَاجَ وَالْحَرِیْرَ فَإِنَّہٗ لَہُمْ فِی الدُّنْیَا وَہُوَ لَکُمْ فِی الآخِرَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )[ رواہ مسلم : کتاب اللباس والزینۃ، باب تَحْرِیمِ اسْتِعْمَالِ إِنَاءِ ۔۔] ” حضرت عبداللہ بن عکیم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم حذیفہ (رض) کے ساتھ مدائن میں تھے۔ حذیفہ (رض) نے پانی طلب کیا تو ایک کاشتکار چاندی کے برتن میں پانی لے کر حاضر ہوا حضرت حذیفہ نے اسے پھینک دیا اور فرمانے لگے کہ میں تمہیں یہ بات بتلاتے ہوئے حکم دیتا ہوں کہ کوئی مجھے ایسے برتن میں نہ پلائے۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پیو۔ زیور اور ریشمی لباس نہ پہنو (مرد) یقیناً یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہے اور تمہارے لیے آخرت میں ہے۔ “ مسائل ١۔ فرعون نے اپنی قوم کو ملک کی ترقی کا حوالہ دے کر ورغلایا۔ ٢۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسے صاحب جمال اور جلیل القدر پیغمبر کو اپنے مقابلے میں ذلیل کہا۔ (نعوذباللہ) ٣۔ فرعون نے اپنے مقابلے میں موسیٰ (علیہ السلام) کو گونگا قرار دیا۔ ٤۔ فرعون نے اپنی جاہ و حشمت کا مظاہرہ کیا۔ تفسیر بالقرآن نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اہل مکہ کے مطالبات : ١۔ منکرین حق اس قرآن کے علاوہ قرآن یا اس میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ (یونس : ١٥) ٢۔ کافر کہتے ہیں کہ نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں نازل ہوئی۔ (یونس : ٢٠) ٣۔ کفار کہتے ہیں کہ نبی پر اس کے رب کی طرف سے معجزات کیوں نازل نہیں ہوتے۔ (العنکبوت : ٥٠) ٤۔ کفارنے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری کردے۔ (بنی اسرائیل : ٩٠) ٥۔ کفار نے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کیا کہ تیرے لیے کھجور اور انگور کا ایک باغ ہو پھر اس کے درمیان نہریں جاری کر دے۔ (بنی اسرائیل : ٩١) ٦۔ آسمان کو ٹکڑے کرکے ہم پر گرا دے جیسا کہ تو نے دعویٰ کیا ہے۔ یا تو اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔ (بنی اسرائیل : ٩٢) ٧۔ تیرے لیے سونے کا ایک گھر ہو یا تو آسمان میں چڑھ جائے اور ہم تیرے چڑھنے کا یقین نہیں کریں گے یہاں تک کہ تو ہم پر کتاب لے آئے جسے ہم پڑھیں۔ آپ فرما دیں میرا رب پاک ہے میں تو ایک پیغام پہنچانے والا بشر ہوں۔ “ (٩٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٥١ تا ٥٣ مصر کی بادشاہت ، مصر کی نہریں فرعون کے زیر انتظام تھیں اور جمہور عوام کو نظر آتی تھیں۔ یہ ان کی آنکھوں کو چکا چوند کردیتی تھیں۔ اس لیے لوگ دھوکہ کھا جاتے تھے ۔ رہی آسمانوں اور زمین کی بادشاہت جس میں مصر ایک ذرہ ہے ، تو اس کو سمجھنے کے لئے مومن دلوں کی ضرورت ہوتی ہے ، جو اس بات کو سمجھ سکیں اور اللہ کی بادشاہت اور مصر کی بادشاہت کے درمیان موازنہ کرسکیں۔ رہے غلامی کے خوگر عوام جن کا ہر دور میں استحصال کیا جاتا ہے تو ان کو قریب کی دنیاوی چمک دمک متاثر کردیتی ہے اس لیے ان کی نظریں ، ان کے دل اور ان کے دماغ اللہ کی بلند حکومت اور بادشاہت کو سمجھنے کے لئے سر بلند ہی نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ فرعون نے ان عوام کے غافل اور سطحی دلوں کے سامنے ترقیات کا زرق برق نقشہ پیش کیا اور کہا۔ ام انا خیر ۔۔۔۔۔ یکاد یبین (٤٣ : ٥٢) “ میں بہتر ہوں یا یہ جو ذلیل و حقیر ہے اور اپنی بات بھی کھول کر بیان نہیں کر سکتا ”۔ یہاں ذلت سے اس کی مراد یہ تھی کہ یہ نہ امیر ہے ، نہ صاحب اقتدار اور نہ اس کے پاس نظر آنے والی مالی پوزیشن ہے۔ لفظ ام سے وہ اشارہ بنی اسرائیل کی غلام قوم کی طرف کرتا ہے ، اور “ اپنی بات کھول کر بیان نہیں کر سکتا ” اس طرف کہ مصر سے جانے سے پہلے آپ کی زبان میں لکنت تھی۔ یہ پہلے کی بات تھی ورنہ اب لکنت نہ تھی۔ حضرت موسیٰ علی السلام نے دعا فرمائی تھی۔ رب اشرح لی ۔۔۔۔۔۔ یفقھوا قولی “ اے میرے رب میرے سینہ کو کھول دے ، میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے ، اور میری زبان میں لکنت ہے ، اسے کھول دے تا کہ وہ میری بات کو سمجھیں ”۔ اس وقت آپ کی زبان کا عقدہ کھل گیا تھا اور آپ اب بات بیان کرسکتے تھے۔ اور جمہور عوام کا ظاہر ہے کہ فیصلہ یہی ہوگا کہ فرعون جو مصر کا بادشاہ ہے ، مصر میں نہریں اس نے جاری کر رکھی ہیں۔ وہ موسیٰ (علیہ السلام) سے بہتر ہوگا ۔ کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس تو حق بات ، نبوت کا پیغام ، نجات کی دعوت اور دردناک عذاب سے بچنے کی راہ تھی۔ فلو لا القی علیہ اسورۃ من ذھب (٤٣ : ٥٣) “ کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے ”۔ یہ ہے ذہنیت وڈیروں کی۔ اس دنیا کا حقیر سازو سامان ، نبوت کی حقانیت کے لئے بطور علامت تجویز ہو رہا ہے۔ سونے کے کنگن ، ان معجزات سے بھاری ہوگئے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوئے۔ مطلب یہ تھا کہ اسے مصر کا اقتدار کیوں نہیں دیا گیا۔ کیونکہ مصر کے بادشاہ کی تاج پوشی کے موقعہ پر سونے کے کنگن اتارے جاتے تھے۔ یہ ان کی رسم تھی۔ یوں وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ رسول کو مقتدر اعلیٰ ہونا چاہئے اور یہ میں ہوں۔ اوجاء معہ الملئکۃ مقترنین ( ٤٣ : ٥٣) “ یا فرشتوں کا ایک دستہ اس کی اردلی میں نہ آیا ”۔ یہ بھی ایک اعتراض تھا ، جس کا تعلق اس دنیا کی چمک دمک سے تھا۔ اور عوام پر اثر انداز ہوتا تھا۔ یہ بھی ایک بنا بنایا اعتراض ہے جو ہر رسول پر کیا گیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32:۔ ” ونادی فرعون “ تا ” مقترنین “ فرعون کے غرور و استکبار اور اس کی تعلی کا بیان ہے۔ فرعون نے جب دیکھا کہ بار بار موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے عذاب ہٹ جاتا ہے، تو اسے خطرہ لاحق ہوا کہیں اس کی قوم کے دلوں میں اس کی عظمت نہ بیٹھ جائے اور ان کے دل اس کی طرف مائل نہ ہوجائیں اس لیے اپنی ساری رعیت میں یہ اعلان کرایا تاکہ اس کی حکومت و سلطنت اور شان و شوکت کا رعب قوم کے دلوں پر مضبوط ہوجائے۔ اور وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر اس کو ترجیح دیں۔ میری قوم کے لوگو ! کیا تم دیکھتے نہیں کہ میں ملک مصر کا مطلق العنان حکمران ہوں اور یہ نہریں میرے حکم سے چل رہی ہیں۔ کیا میں جو اس وسیع سلطنت کا بادشاہ اور اس ملک میں پورے اختیارات کا مالک ہوں، تمہارے لیے بہتر ہوں، یا یہ موسیٰ جو میرے مقابلہ میں نہایت حقیر اور ناچیز ہے اور اپنے مدعا پر واضح اور روشن حجت بھی پیش نہیں کرسکتا۔ یا صاف اور روانی سے بول بھی نہیں سکتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں معمولی سی لکنت باقی تھی لیکن فرعون نے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے اور اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے ” ولا یکاد یبین “ کہہ دیا۔ یا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مدعا پر واضح برہان نہیں لاسکتا اس صورت میں بھی یہ کلام محض عناد و مکابرہ پر مبنی ہے۔ لایبین حجتہ الدالۃ علی صدقہ فیما یدعی۔ (بحر ج 8 ص 23) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(51) اور فرعون نے اپنی قوم میں منادی کرائی اور ان کو پکارا اور کہا اے میری قوم کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے اور میرے نیچے یہ نہریں بہہ رہی ہیں کیا تم دیکھتے نہیں۔ یعنی فرعون نے خیال کیا کہیں یہ عذاب کا سلسلہ اور یہ معجزات دیکھ کر میری قوم ڈگمگا نہ جائے اس خوف سے اپنی عظمت قائم رکھنے کو پکارا۔ یا تو لوگوں کو جمع کرکے کوئی خطاب کیا ہوگا یا منادی کے ذریعے لئے اعلان کرایا ہوگا کہ سلطنت مصر تمام کی تمام میری ہے اور میرے محل کے پائیں اور باغات میں نہریں بہہ رہی ہیں میری بارہ دری کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اب تم غور کرو کہ مجھ میں اور موسیٰ میں کون بہتر ہے جو بہتر ہو اس کے ساتھ دو ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اس گردوپیش کے ملکوں میں مصر کا حاکم بڑا ہوتا تھا اور نہریں اس نے بنائی تھیں دریائے نیل کا پانی اپنے باغ میں لایا تھا کاٹ کر۔