Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 55

سورة الزخرف

فَلَمَّاۤ اٰسَفُوۡنَا انۡتَقَمۡنَا مِنۡہُمۡ فَاَغۡرَقۡنٰہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۙ۵۵﴾

And when they angered Us, We took retribution from them and drowned them all.

پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور سب کو ڈبو دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So when they angered Us, We punished them, and drowned them all. Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, said it means: "When they angered Us means, they provoked Our wrath." Ad-Dahhak said, it means "They made Us angry." This was also the view of Ibn Abbas, Mujahid, Ikrimah, Sa`id bin Jubayr, Muhammad bin Ka`b Al-Qurazi, Qatadah, As-Suddi and other scholars of Tafsir. Ibn Abi Hatim recorded that Uqbah bin `Amir, may Allah be pleased with him, said that the Messenger of Allah said: إِذَا رَأَيْتَ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يُعْطِي الْعَبْدَ مَا يَشَاءُ وَهُوَ مُقِيمٌ عَلى مَعَاصِيهِ فَإِنَّمَا ذَلِكَ اسْتِدْرَاجٌ مِنْهُ لَه When you see that Allah gives a person what he wants even though he is persisting in sin, that means that Allah is enticing him into destruction. Then he recited: فَلَمَّا اسَفُونَا انتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ (So when they angered Us, We punished them, and drowned them all). It was reported that Tariq bin Shihab said, "I was with Abdullah, may Allah be pleased with him, and the issue of sudden death was mentioned. He said, `It is a relief for the believer and a source of regret for the disbeliever.' Then he recited the Ayah: فَلَمَّا اسَفُونَا انتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ (So when they angered Us, We punished them, and drowned them all)." Umar bin Abdul-Aziz, may Allah be pleased with him, said, "I found that punishment comes with negligence, meaning the Ayah: فَلَمَّا اسَفُونَا انتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ (So when they angered Us, We punished them, and drowned them all)." فَجَعَلْنَاهُمْ سَلَفًا وَمَثَلً لِلْخِرِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فلما اسفونا انتقمنا منھم…: اس ایٓ سے ظاہر ہے کہ غصے ہونا اور انتقام لینا بھی اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، جیسا کہ راضی ہونا اور انعام دینا اس کی صفات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ بھی انہیں ہلاک کرسکتا تھا، مگر فرعون نے نہروں کے اپنے تحت چلنے پر فخر کیا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے اسے پانی ہی میں غقر کر کے انتقام لیا۔ عموماً انسان جس چیز پر فخر کرتا ہے اللہ کی طرف سے وہی چیز اس کی ہلاکت کا سامان بن جاتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَلَمَّا آسَفُونَا (So, when they provoked our anger, - 43:55). Since Allah Almighty is pure of the states of anger and sorrow, the meaning is that their behavior caused Us to decide that they should be punished. (Ruh-ul-Ma’ ani)

(آیت) (اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا، یہ اسف سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی ہیں افسوس، لہٰذا اس جملے کے لفظی معنی ہوئے ” پس جب انہوں نے ہمیں افسوس دلایا “ اور افسوس بکثرت غصہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے اس کا با محاورہ ترجمہ عموماً اس طرح کیا جاتا ہے کہ ” جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا۔ “ اور چونکہ باری تعالیٰ افسوس اور غصہ کی انفعالی کیفیات سے پاک ہے اس لئے اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے کام ایسے کئے جس سے ہم نے انہیں سزا دینے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ (روح)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّآ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنٰہُمْ اَجْمَعِيْنَ۝ ٥٥ ۙ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ أسِف الأَسَفُ : الحزن والغضب معاً ، وقد يقال لکل واحدٍ منهما علی الانفراد، وحقیقته : ثوران دم القلب شهوة الانتقام، فمتی کان ذلک علی من دونه انتشر فصار غضبا، ومتی کان علی من فوقه انقبض فصار حزنا، ولذلک سئل ابن عباس عن الحزن والغضب فقال : مخرجهما واحد واللفظ مختلف فمن نازع من يقوی عليه أظهره غيظاً وغضباً ، ومن نازع من لا يقوی عليه أظهره حزناً وجزعاً ، وقوله تعالی: فَلَمَّا آسَفُونا انْتَقَمْنا مِنْهُمْ [ الزخرف/ 55] أي : أغضبونا . ( ا س ف ) الاسف ۔ حزن اور غضب کے مجموعہ کو کہتے ہیں کبھی آسف کا لفظ حزن اور غضب میں سے ہر ایک پر انفراد ابھی بولا جاتا ہے اصل میں اس کے معنی جذبہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ کیفیت اپنے سے کمزور آدمی پر پیش آئے تو پھیل کر غضب کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور اگر اپنے سے قوی آدمی پر ہو تو منقبض ہوکر حزن بن جاتی ہے اس لئے جب حضرت ابن عباس سے حزن اور غضب کی حقیقت دریافت کی گئی تو انہوں نے فرمایا : لفظ دو ہیں مگر ان کی اصل ایک ہی ہے جب کوئی شخص اپنے سے کمزور کے ساتھ جھگڑتا ہے تو غیظ و غضب کا اظہار کرتا ہے اور جب اپنے سے قوی کے ساتھ جھگڑتا ہے تو واویلا اور غم کا اظہار کرتا ہے اور آیت کریمہ :۔ { فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ } ( سورة الزخرف 55) کے معنی یہ ہیں کہ جب انہوں نے ہمیں غضب ناک کیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا ۔ نقم نَقِمْتُ الشَّيْءَ ونَقَمْتُهُ : إذا أَنْكَرْتُهُ ، إِمَّا باللِّسانِ ، وإِمَّا بالعُقُوبةِ. قال تعالی: وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة/ 74] ، وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج/ 8] ، هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة/ 59] . والنِّقْمَةُ : العقوبةُ. قال : فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف/ 136] ، فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم/ 47] ، فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف/ 25] . ( ن ق م ) نقمت الشئی ونقمتہ کسی چیز کو برا سمجھنا یہ کبھی زبان کے ساتھ لگانے اور کبھی عقوبت سزا دینے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج/ 8] ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی ۔ کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة/ 74] اور انہوں نے ( مسلمانوں میں عیب ہی کو کونسا دیکھا ہے سیلا س کے کہ خدا نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا ۔ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة/ 59] تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو ۔ اور اسی سے نقمۃ بمعنی عذاب ہے قرآن میں ہے ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف/ 136] تو ہم نے ان سے بدلہ لے کر ہی چھوڑا گر ان کو در یا میں غرق کردیا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم/ 47] سو جو لوگ نافر مانی کرتے تھے ہم نے ان سے بدلہ لے کر چھوڑا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف/ 25] تو ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ۔ غرق الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، ( غ ر ق ) الغرق پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٥۔ ٥٦) غرض کہ جب انہوں نے ہمارے نبی حضرت موسیٰ کو غصہ دلایا اور ہمیں بھی غصہ دلایا تو ہم نے بذریعہ عذاب ان سے بدلہ لیا، ہم نے سب کو دریا میں غرق کردیا اور ان کے بعد میں آنے والوں کے لیے عذاب کے ذریعے ہلاکت کا نمونہ بنا دیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ { فَلَمَّآ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنٰہُمْ اَجْمَعِیْنَ } ” تو جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا ‘ پس ہم نے ان سب کو غرق کردیا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:55) فلما : لما حرف شرط (کلمہ ظرف) پھر جب۔ اسفونا انتقمنا : اسفوا۔ ماضی جمع مذکر غائب ۔ ایساف (افعال) مصدر نا ضمیر مفعول جمع متکلم۔ انہوں نے ہم کو غصہ دلایا۔ اسف باب سمع سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی جب وہ اپنی سرکشی اور نافرمانی میں بڑھتے ہی چلے گئے تو ہم نے ان سے انتقام لیا پس گناہ گار کو چاہیے کہ اللہ کے غضب سے ڈر کر توبہ کرے اور اس کے علم و عفو پر مغرور نہ ہو (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٥٥ تا ٦٧۔ اسرار ومعارف۔ اسی طرح کی جہالت اب ان سے ظاہر ہورہی ہے جن سے آپ کو واسطہ ہے جیسے بھی دیکھ لیجئے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال پیش کی گیء تو آپ کی قوم نے شور مچادیا اور لگے چلانے اور کہنے لگے کہ آپ کہتے ہیں کہ جن کی عبادت کی جاتی ہے ان میں کوئی بھلائی نہیں یا وہ دوزخ میں جائیں گے تو اب فرمائیے کہ عبادت توعیسی کی بھی کی جاتی ہے چلو آپ کے نزدیک ہمارے بتوں سے بہتر سہی مگر کیا ان میں بھی کوئی خیر نہیں یامعاذ اللہ وہ بھی جہنم میں جائیں گے تو یہ اعتراض محض جھگڑنے کے لیے کر رہے ہیں انہیں ہدایت مطلوب نہیں کہ یہ بات واضح ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی یہ تعلیمات نہیں ہیں نہ کتب سابقہ اس کی تائید کرتی ہیں اور نہ قرآن کریم نیز جہنم میں تو وہ جائیں گے جو اپنی عبادت پر راضی ہیں جیسے فرعون ، نمرود ، شیاطین ، یا بتوں کو بطور ایندھن ڈالاجائے گا کہ مشرکین میں حسرت بڑھے ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تو صرف اللہ کے بندے تھے اور اللہ کا ان پر بہت بڑا انعام تھا خود ان کا وجود مبارک بنی اسرائیل کے لیے عظمت الٰہی کی بہت بڑی دلیل تھا کہ انہیں خلاف عادت بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور انہوں نے پیدا ہوتے ہی قوم سے کلام فرمایا اور اپنی نبوت کا اعلان فرمایا نیز اللہ کی طرف دعوت دی اور اگر ہم چاہیں تو اسے بڑی نشانیاں پیدا کرنے پر قادر ہیں کہ انسانوں سے فرشتے پیدا کردیں اور آئندہ زمین پر ایسی نسل آباد کردیں نیز عیسیٰ (علیہ السلام) تو قیامت کے دلائل میں سے ہیں کہ جس طرح وہ خلاف عادت پیدا ہوئے اسی طرح مردے بھی زندہ ہوجائیں گے یا ان کا دوبارہ نزول اور دجال وغیرہ کو قتل کرنا قرب قیامت کی دلیل ہوگاسو اے لوگو قیامت قائم ہونے میں شبہ نہ رکھو اور میرا اتباع اختیار کرو کہہ یہی سیدھاراستہ ہے اور کہیں شیطان تمہیں اس سے روک نہ دے کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ جب عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے اور معجزات و دلائل پیش کیے اور فرمایا کہ میں تمہارے پاس حکمت و دانائی یعنی حق بات لایا ہوں جن باتوں میں تمہیں اختلاف ہے ان میں فیصلہ ہوجائے اور حق واضح ہوجائے کہ بنی اسرائیل نے بھی بہت سے عقائد میں تحریف کررکھی تھی اور اللہ سے ڈرو اور اس کے ساتھ رشتہ استوار کرو اور میری اطاعت اختیار کرو کہ اللہ سے رشتہ جوڑنے کا یہی طریقہ ہے بیشک اللہ میرا پروردگار بھی ہے اور میں بھی اسی کا بندہ ہوں اور تمہارا پالنے والا بھی لہذا صرف اس کی عبادت کرو کہ یہی طریقہ حق ہے اور یہی سیدھاراستہ ہے اس کے باوجود انہوں نے اختلاف نہ چھوڑا اور کئی فرقے بن گئے سو حسرت ہے ایسے ظالموں کے لیے ایک بہت دردناک دن یعنی یوم حشر کے عذاب کی کہ کیا یہ اسی روز کا انتظار کر رہے ہیں کہ قیامت آئے اسے دیکھیں تب مانیں حالانکہ جب قیامت آئے گی تو ایسی ناگہانی ٹوٹ پڑے گی کہ کسی کو کچھ ہوش ہی نہ رہے گا اور دنیا میں دوستی کے دعویدار اس دن دشمن بن رہے ہوں گے اور برائی کا ذمہ دار دوستوں کو ٹھہرانے لگیں گے سوائے نیک لوگوں کے ایسے لوگ جن کے رشتے محض اللہ کے لیے تھے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٥٥ تا ٥٦ ذات باری کے غضب اور انتقام اور تباہی مچانے والے اقدام کو پیش کرنا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے غضب کے نتیجے میں اس کی قوت جو کام کرتی ہے وہ تاریخ میں مثال ہوتی ہے۔ فلما اسفونا (٤٣ : ٥٥) “ جب انہوں نے ہمیں غضب ناک کر دیا ”۔ یعنی بہت زیادہ ناراض کردیا۔ انتقمنا منھم فاغرقنھم اجمعین (٤٣ : ٥٥) “ ہم نے ان سے انتقام لیا اور سب کو اکٹھا غرق کر دیا ”۔ فرعون ، اس کے سرداروں اور لشکر کو۔ یہی لوگ تھے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تعاقب میں ہلاک ہوئے ، ان کو پیشوا بنا دیا کہ ہر ظالم یہی کام کرے اور اسی انجام تک پہنچے۔ ومثلا للاخرین (٤٣ : ٥٦) “ اور نمونہ عبرت پچھلوں کے لئے ”۔ یعنی ان لوگوں کے لئے جو فرعون کے بعد ایسے کام کرنے والے تھے اور جو ان کے قصے کو معلوم کر کے اس سے عبرت حاصل کرنے والے تھے۔ ٭٭٭ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کی یہ کڑی یہاں ختم ہوتی ہے۔ یہ کڑی ان حالات کے مشابہ تھی جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بمقابلہ قریش درپیش تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھ مومنین نے سخت بےجگری سے ان کا مقابلہ کیا۔ اس قصے کے ذریعہ عرب کے مشرکین کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ تم جس طرح کے اعتراضات کرتے ہو ، یہی اعتراضات فرعون اور اس کی قوم نے کئے تھے اور ان کا یہ انجام ہوا تھا۔ اس طرح اس قصے میں جو حقائق بیان کئے گئے ہیں ، وہ قصہ فرعون و موسیٰ اور حالات موجودہ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل قریش کے حالات پر پوری طرح منطبق ہوتے ہیں ، اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سورت میں بیان کردہ حالات میں قصے کی اس کڑی کو کیوں لایا گیا ہے ، پھر اس طرح یہ قصہ الٰہی منہاج تربیت کے مطابق مسلمانوں کے لئے بہترین ذریعہ تربیت بھی ہے۔ اب قصہ موسیٰ (علیہ السلام) کی اس کڑی سے بات حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کی ایک کڑی کی طرف منتقل ہوتی ہے۔ اور یہ کڑی اس نکتے پر لائی گئی ہے کہ مشرکین فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں سمجھ کر ان کی عبادت کرتے تھے اور پیرو کار ان مسیح ان کو خدا کا بیٹا سمجھ کر ان کی بندگی کرتے ہیں اور یہ اس سورت کا آخری سبق ہے۔ ٭٭٭٭٭

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿فَلَمَّاۤ اٰسَفُوْنَا ﴾ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس کا معنی ہے انہوں نے ہمیں غضبناک کیا اور غصہ دلایا، اور اللہ تعالیٰ کے غصہ کا مطلب اگر سزا دینے کا ارادہ ہو تو یہ ذات الٰہی کی صفت ہے اگر مراد سزا ہے تو یہ فعل کی صفت ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(55) پھرجب انہوں نے اپنے عناد اور سرکشی سے ہم کو سخت غصہ دلایا تو ہم نے ان سے بدلا لیا اور ان سب کو ڈبو دیا۔ یعنی ان کی سرکشی کا انجام یہ ہوا کہ ہمارے تحمل کی انتہا ہوگئی اور ان کی ان حرکات نے ہم کو غصہ دلایا اور ہم نے ان سے بدلا لیا اور ان سے غرق کردیا۔