Surat uz Zukhruf

Surah: 43

Verse: 89

سورة الزخرف

فَاصۡفَحۡ عَنۡہُمۡ وَ قُلۡ سَلٰمٌ ؕ فَسَوۡفَ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۸۹﴾٪  13

So turn aside from them and say, "Peace." But they are going to know.

پس آپ ان سے منہ پھیر لیں اور کہہ دیں ۔ ( اچھا بھائی ) سلام! انہیں عنقریب ( خود ہی ) معلوم ہو جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَاصْفَحْ عَنْهُمْ ... So turn away from them, means, from the idolators. ... وَقُلْ سَلَمٌ ... and say Salam (peace!) means, `do not respond to them in the same evil manner in which they address you; but try to soften their hearts and forgive them in word and deed.' ... فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ But they will come to know. This is a warning from Allah for them. His punishment, which cannot be warded off, struck them, and His religion and His word was supreme. Subsequently Jihad and striving were prescribed until the people entered the religion of Allah in crowds, and Islam spread throughout the east and the west. And Allah knows best. This is the end of the Tafsir of Surah Az-Zukhruf. All praise and thanks are due to Allah and in Him is all strength and protection.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

89۔ 1 یعنی دین کے معاملے میں میری اور تمہاری راہ الگ الگ ہے، تم اگر باز نہیں آتے تو اپنا عمل کئے جاؤ، میں اپنا کام کئے جا رہا ہوں، عنقریب معلوم ہوجائے گا سچا کون ہے اور جھوٹا کون ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨١] یہ سلام دراصل ترک ملاقات کا سلام ہے جو کسی کی شرارتوں اور حرکتوں سے تنگ آکر کہا جاتا ہے کہ تم اپنے حال میں مگن رہو اور مجھے میرے حال پر چھوڑ دو ۔ یعنی آپ ان کافروں سے اور ان کی کج بحثیوں سے درگزر کیجئے۔ وہ وقت بس آنے ہی والا ہے جب ساری حقیقت کھل کر ان کے سامنے آجائے گی۔ چناچہ اس حقیقت کا بہت حد تک تو ان مشرکوں کو دنیا میں ہی پتا چل گیا۔ اور پورا پتا آخرت کو لگ جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فاصفح عنھم وقل سلم…: یعنی آپ کی فریاد ہم نے سن لی، اب ہم جانیں اور وہ، آپ ان سے درگزر کریں اور ان سے برأت اور قطع تعلق کے اظہار کے لئے کہہ دیں کہ سلام ہے۔ چناچہ وہ بہت جلد جان لیں گے کہ ان کے ایمان نہ لانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَقُلْ سَلَامٌ (and say, Salam [ good-bye ]. Then soon they will come to know---43:89). At the end of the Surah, the same advice has been given to the Holy Prophet t that is always given to every preacher of truth. The gist of the advice is that one may reply to the arguments and doubts of the opponents, but when they start talking ignorantly, foolishly or are involved in hurling abuses, then instead of replying in their language, one should keep quiet. And the instruction to say Salam does not mean that &Assalamu ` alaikum|" is to be said to them, because this salutation is not permissible for any non-Muslim; rather it is an idiomatic expression for parting of ways. As such, the view of those who deduce from this verse that saying |"Assalamu &alaikum|" to non-Muslims is permissible does not carry much weight. (Ruh-ul-Ma’ ani). Alhamdulillah The Commentary on SUrah Az-Zukhruf (The Gold) Ends here

(آیت) وَقُلْ سَلٰمٌ الخ آخر میں وہی تلقین کی گئی ہے جو ہر داعی حق کو ہمیشہ کی گئی کہ مخالفین کے دلائل و شبہات کا جواب تو دے دو لیکن وہ جو جہالت و حماقت یا دشنام طرازی کی بات کریں، اس کا جواب انہی کی زبان میں دینے کے بجائے سکوت اختیار کرو۔ اور یہ جو فرمایا کہ کہہ دو تم کو سلام کرتا ہوں، اس سے مقصد یہ نہیں ہے کہ انہیں السلام علیکم کہا جائے، کیونکہ کسی غیر مسلم کو ان الفاظ سے سلام کرنا جائز نہیں، بلکہ یہ ایک محاورہ ہے کہ جب کسی شخص سے قطع تعلق کرنا ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ ” میری طرف سے سلام “ یا تمہیں سلام کرتا ہوں۔ اس سے حقیقی طور پر سلام کرنا مقصد نہیں ہوتا، بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں خوبصورتی کے ساتھ تم سے قطع تعلق کرنا چاہتا ہوں۔ لہٰذا جن حضرات نے اس آیت سے استدلال کر کے کافروں کو السلام علیکم یا سلام کہنا جائز قرار دیا ہے ان کا قول مرجوح ہے۔ (روح المعانی) الحمد للہ آج بتاریخ 3 رجب بروز دوشنبہ بوقت عشاء سورة زخرف کی تفسیر سات روز میں مکمل ہوئی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاصْفَحْ عَنْہُمْ وَقُلْ سَلٰمٌ۝ ٠ ۭ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ۝ ٨٩ۧ صفح صَفْحُ الشیءِ : عرضه وجانبه، كَصَفْحَةِ الوجهِ ، وصَفْحَةِ السّيفِ ، وصَفْحَةِ الحَجَرِ. والصَّفْحُ : تركُ التّثریب، وهو أبلغ من العفو، ولذلک قال : فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [ البقرة/ 109] ، وقد يعفو الإنسان ولا يَصْفَحُ. قال : فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] ، فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] ، وصَفَحْتُ عنه : أولیته مني صَفْحَةٍ جمیلةٍ معرضا عن ذنبه، أو لقیت صَفْحَتَهُ متجافیا عنه، أو تجاوزت الصَّفْحَةَ التي أثبتّ فيها ذنبه من الکتاب إلى غيرها، من قولک : تَصَفَّحْتُ الکتابَ ، وقوله : إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] ، فأمر له عليه السلام أن يخفّف کفر من کفر کما قال : وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ [ النحل/ 127] ، والمُصَافَحَةُ : الإفضاء بِصَفْحَةِ الیدِ. ( ص ف ح ) صفح ۔ کے معنی ہر چیز کا چوڑا پہلو یا جانب کے مثلا صفحۃ السیف ( تلوار کا چوڑا پہلو ) صفحتہ الحجر ( پتھر کی چوڑی جانب وغیرہ ۔ الصفح ۔ ( مصدر ) کے معنی ترک ملامت اور عفو کے ہیں مگر یہ عفو سے زیادہ بلیغ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ : فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [ البقرة/ 109] تو تم معاف کرو داور درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا دوسرا حکم بھیجے ۔ میں عفو کے بعد صفح کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات انسان عفو یعنی درگزر تو کرلیتا ہے لیکن صفح سے کا م نہیں لیتا یعنی کسی سے اس قدر درگزر کرنا کہ اسے مجرم ہی نہ گروانا جائزنیز فرمایا : فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] اس لئے درگذر کرو اور اسلام کہہ دو ۔ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] تو تم ان سے اچھی طرح درگزر کرو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] بھلا اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوئے لوگ ہو ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ صفحت عنہ (1) میں نے اس سے درگذر کرتے ہوئے اسے صفح جمیل کا والی بنایا یعنی اسکے جرم سے کلیۃ اعراض برتا (2) اس سے دور ہوتے ہوئے ایک جانب سے ملا (3) میں نے کتاب کے اس صفحہ سے تجاوز کیا جس میں اس کا جرم لکھ رکھا تھا ۔ اس صورت میں یہ تصفحت الکتاب سے ماخوذ ہوگا ۔ جس کے معنی کتاب کے صفحات کو الٹ پلٹ کردیکھنے کے ہیں قرآن میں ہے : إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] اور قیامت توضرور آکر رہے گی لہذا تم ( ان سے ) ا چھی طرح سے درگذر کرو ۔ اس آیت میں آنحضرت کو حکم دیا گیا ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے غم کھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ [ النحل/ 127] اور ان کے بارے میں غم نہ کرو اور جو یہ بد اندیش کر رہے ہیں اس سے تنگ دل نہ ہو ۔ المصافحۃ مصافحہ کرنا ۔ ہاتھ ملانا ۔ سلام السِّلْمُ والسَّلَامَةُ : التّعرّي من الآفات الظاهرة والباطنة، قال : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] ، أي : متعرّ من الدّغل، فهذا في الباطن، وقال تعالی: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها [ البقرة/ 71] ، فهذا في الظاهر، وقد سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامَةً ، وسَلَاماً ، وسَلَّمَهُ الله، قال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] ، وقال : ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ، أي : سلامة، وکذا قوله : اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] . والسّلامة الحقیقيّة ليست إلّا في الجنّة، إذ فيها بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وصحّة بلا سقم، كما قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : السلام ة، قال : وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] ، وقال تعالی: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] ، يجوز أن يكون کلّ ذلک من السّلامة . وقیل : السَّلَامُ اسم من أسماء اللہ تعالیٰ «1» ، وکذا قيل في قوله : لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] ، والسَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] ، قيل : وصف بذلک من حيث لا يلحقه العیوب والآفات التي تلحق الخلق، وقوله : سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] ، سلام علی آل ياسین «2» كلّ ذلک من الناس بالقول، ومن اللہ تعالیٰ بالفعل، وهو إعطاء ما تقدّم ذكره ممّا يكون في الجنّة من السّلامة، وقوله : وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] ، أي : نطلب منکم السّلامة، فيكون قوله ( سلاما) نصبا بإضمار فعل، وقیل : معناه : قالوا سَلَاماً ، أي : سدادا من القول، فعلی هذا يكون صفة لمصدر محذوف . وقوله تعالی: إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] ، فإنما رفع الثاني، لأنّ الرّفع في باب الدّعاء أبلغ «3» ، فكأنّه تحرّى في باب الأدب المأمور به في قوله : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] ، ومن قرأ سلم «4» فلأنّ السّلام لمّا کان يقتضي السّلم، وکان إبراهيم عليه السلام قد أوجس منهم خيفة، فلمّا رآهم مُسَلِّمِينَ تصوّر من تَسْلِيمِهِمْ أنهم قد بذلوا له سلما، فقال في جو ابهم : ( سلم) ، تنبيها أنّ ذلک من جهتي لکم كما حصل من جهتكم لي . وقوله تعالی: لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] ، فهذا لا يكون لهم بالقول فقط، بل ذلک بالقول والفعل جمیعا . وعلی ذلک قوله تعالی: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] ، وقوله : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] ، فهذا في الظاهر أن تُسَلِّمَ عليهم، وفي الحقیقة سؤال اللہ السَّلَامَةَ منهم، وقوله تعالی: سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79] ، سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ، سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] ، كلّ هذا تنبيه من اللہ تعالیٰ أنّه جعلهم بحیث يثنی __________ عليهم، ويدعی لهم . وقال تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] ، أي : ليسلّم بعضکم علی بعض . ( س ل م ) السلم والسلامۃ کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] پاک دل ( لے کر آیا وہ بچ جائیگا یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا : مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها[ البقرة/ 71] اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو ۔ پس سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنی سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ ( تفعیل ) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] لیکن خدا نے ( تمہیں ) اس سے بچالیا ۔ ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ان میں سلامتی اور ( خاطر جمع ) سے داخل ہوجاؤ ۔ اسی طرح فرمایا :۔ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقائ ہے ۔ فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا :۔ لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ۔ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے ۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنی آیت لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور آیت :۔ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] سلامتی امن دینے والا نگہبان ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ۔ اور آیت :۔ سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] پروردگار مہربان کی طرف سے سلام ( کہاجائیگا ) سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] اور کہیں گے ) تم رحمت ہو ( یہ ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔ سلام علی آل ياسین «2» کہ ایسا پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطافرمانا ۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت :۔ وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] اور جب جاہل لوگ ان سے ( جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں ۔ تو سلام کہتے ہیں ۔ مٰیں قالوا سلاما کے معنی ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں ۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاحا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف ( یعنی قولا ) کی صٖت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی ( جواب میں ) سلام کہا ۔ میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس اد ب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] اور جب تم کوئی دعا دے تو ( جواب میں ) تم اس سے بہتر ( کا مے) سے ( اسے ) دعا دو ۔ میں ھکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم ( صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے ار نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام ( ہوگا ) کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی ۔ بلکہ اور فعلا دونوں طرح ہوگئی ۔ اسی طرح آیت :: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] تو ( کہا جائیگا کہ ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] اور سلام کہدو ۔ میں بظارہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سللامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79]( یعنی ) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا : فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہاکرو ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ سے کہا گیا تو ایسی صورت میں آپ ان سے بےرخی کیجیے اور نرمی سے کہہ دیجیے کہ تمہیں سلام کرتا ہوں عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ بدر احد اور خندق کے دن تمہارے ساتھ کیا برتاؤ ہوگا اور کیا کیا مصلحتیں قحط سالی اور دخان وغیرہ کی تم پر نازل ہوں گے یہ اللہ کی طرف سے ان کفار کے لیے وعید تھی اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم نازل فرمایا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٩ { فَاصْفَحْ عَنْہُمْ } ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ ان سے در گزر کیجیے “ میرے خیال کے مطابق یہ سورة ٤ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ٨ نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیانی عرصے میں نازل ہوئی ہے۔ اس وقت تک چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو شروع ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا ‘ اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ان کی طرف سے اپنا رخ پھیر لیں اور فی الحال انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ { وَقُلْ سَلٰمٌ} ” اور کہیے سلام ہے ! “ اگر یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الجھتے ہیں ‘ دعوت کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استہزاء کرتے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو سلام کہہ کر نظر انداز کردیں۔ سورة الفرقان میں ہم نے ” عباد الرحمن “ کی جو صفات پڑھی ہیں ان میں ایک صفت یہ بھی ہے : { وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ ” اور جب ان سے مخاطب ہوتے ہیں جاہل لوگ تو وہ ان کو سلام کہہ دیتے ہیں۔ “ { فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ } ” تو بہت جلد یہ لوگ جان جائیں گے۔ “ اب وہ وقت زیادہ دور نہیں جب حقیقت ان پر منکشف ہوجائے گی۔ بہت جلد حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ثابت ہونے والا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

71 That is, "You should neither curse them for their scornful words and attitude of mockery and derision, nor respond with harsh words: just wish them well and take your leave."

سورة الزُّخْرُف حاشیہ نمبر :71 یعنی ان کی سخت باتوں اور تضحیک و استہزاء پر نہ ان کے لیے بد دعا کرو اور نہ ان کے جواب میں کوئی سخت بات کہو ، بس سلام کر کے ان سے الگ ہو جاؤ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

24: یہاں سلام کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے خوبصورتی کے ساتھ قطع تعلق کرلیا جائے، یعنی تمہاری کٹ حجتی کے بعد اب میں تم سے مزید بحث کرنے کے بجائے تم سے شائستگی کے ساتھ علیحدگی اختیار کرلیتا ہوں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(43:89) فاصفح : ف سببیہ ہے۔ اصفح امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر صفح باب فتح مصدر۔ تو درگزر کر۔ تو اعراض کر۔ صفح مصدر کے معنی ترک ملامت اور عفو کے ہیں مگر یہ عفو سے زیادہ بلیغ ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے فاعفوا واصفحوا حتی یاتی اللّٰہ بامرہ (2:106) تو تم معاف کر دو اور درگزر کرو یہاں تک خدا اپنا دوسرا حکم بھیجے۔ اس میں عفو کے بعد صفح کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات انسان عفو یعنی درگزر تو کرلیتا ہے لیکن صفح سے کام نہیں لیتا۔ یعنی کسی سے اس قدر درگزر کرنا کہ اسے مجرم ہی نہ گردانا جائے۔ وقل سلام۔ اور کہو سلام ہے تم پر۔ اس کی مندرجہ ذیل دو صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) اگر اصفح سے مراد اس قدر درگزر کرنا کہ دوسرے کو مجرم ہی نہ گردانا جائے۔ مراد لیا جائے تو قل سلام سے مراد ہوگا کہ ان کے لئے سلامتی اور ہدایت کی دعا مانگتے رہا کیجئے۔ عنقریب ان کی آنکھیں کھل جائیں گی اور حقیقت حال جان لیں گے اگر حق کو قبول نہ کیا تو اپنی سزا پائیں گے اور اگر قبول کرلیا تو فردوس بریں کے دروازے ان پر کھول دئیے جائیں گے۔ (تفسیر ضیاء القرآن) (2) اگر اصفح سے مراد اعراض کرنا لیا جائے تو مطلب ہوگا :۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سرکش لوگ گمراہ ازلی میں نہیں مانیں گے ان سے اعراض کیجئے اور سلام کہئے۔ سلام کرنا محاورہ ہے رخصت کرنے اور علیحدہ ہونے سے۔ اس کو سلام رخصت کہتے ہیں ۔ فسوف یعلمون : ان کو ابھی معلوم ہوجائے گا ۔ یعنی موت ہر شخص کے قریب ہے مرتے ہی سب نیک و بد کا نتیجہ سامنے آجائے گا۔ (تفسیر حقانی) سوف، عنقریب، جلد۔ سوف افعال مضارع پر داخل ہو کر ان کو مستقبل کے معنی کے ساتھ خاص کرکے حال سے علیحدہ کردیتا ہے۔ یعلمون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ وہ عنقریب ہی جان لیں گے (اور اپنے اعمال نیک و بد کا بدلہ پالیں گے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یہ اظہار بیزاری و قطع تعلق کا سلام ہے۔ 7 یعنی قیامت کے روز یا اسی دنیا میں آگے چل کر انہیں معلوم ہوجائے گا کہ ان کی سرکشی انہیں کس انجام بد سے دو چار کرتی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی ان کے ایمان کا اہتمام اور اس کی امید نہ کیجئے، کیونکہ جب ان کا یہ انجام مقدر ہے تو یہ کیا ایمان لاویں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ نے آپ کی درخواست کے جواب میں فرمایا ﴿ فَاصْفَحْ عَنْهُمْ ﴾ (سو آپ ان سے اعراض کیجیے) یعنی ان کے ایمان لانے کی امید نہ رکھیے (كما فی الروح) ﴿ وَ قُلْ سَلٰمٌ١ؕ﴾ اور آپ ان سے فرمائیے کہ میرا سلام ہے یہ سلام وہ نہیں جو ملاقات کے وقت دعا دینے کے لیے کیا جاتا ہے بلکہ سلام متارکت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا تمہارا کوئی تعلق نہیں اسی کو سورة القصص میں فرمایا ﴿ وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْٞ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْٞ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ ٠٠٥٥﴾ اور جب کوئی لغو بات سنتے ہیں تو اس کو ٹال جاتے ہیں۔ اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں تمہارے لیے تمہارے اعمال تم پر سلام ہو ہم جاہلوں سے الجھنا نہیں چاہتے۔ ﴿فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ (رح) ٠٠٨٩﴾ سو یہ لوگ عنقریب جان لیں گے یعنی کفر و شرک کا عذاب ان کے سامنے آجائے گا۔ ولقدتم تفسیر سورة الزخرف والحمد للّٰہ اولاً واخرًا والصلوٰة والسلام علی من ارسل طیبًا وطاھرًا وعلی من تبعہ باطنًا وظاھرًا

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(89) لہٰذا اے پیغمبر آپ ان سے بےرخی کا برتائو کیجئے اور ان سے منہ پھیر لیجئے اور یوں کہئے کہ بس میرا سلام ہے یا یہ کہ تم کو سلام کرتا ہوں یہ لوگ اب تھوڑے دنوں میں اپنا انجام معلوم کرلیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قوم کی بےرخی اور بےاعتنائی اور معاندانہ مظاہروں سے تنگ آکر فرمایا ۔ یارب ان ھولائقوم لا یومنون۔ یعنی اے میرے پروردگار یہ ایسے لوگ ہیں کہ باوجود میری فہمائش اور میرے سمجھانے کے ایمان نہیں لاتے حضرت حق تعالیٰ نے ان معصومانہ اور افسوس میں ڈوبے ہوئے جملوں کی قسم کھا کر فرمایا اور آپ کی ہ مت افزائی فرمائی کہ پیغمبر کے اس کہنے کی قسم بعض حضرات نے وقیلہ کا عطف علم الساعۃ۔ پر کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور پیغمبر کے اس کہنے کا بھی علم ہے کہ یارب ان ہولا ۔ قوم لا یومنون۔ صاحب مدارک نے اس معنی کو اختیار کیا ہے ظاہر ہے کہ یہ لوگ جو اپنے پیغمبر کو اس طرح تنگ کرتے ہیں وہ سخت عذاب کے مستحق ہوں گے اسی لئے آگے تفریع فرمائی کہ آپ ان سے اعرض کیجئے اپنا منہ پھیر لیجئے اور ان کو سلام وداع کہیے۔ جیسا کہ ترک تعلق کے موقعہ پر ایسا کیا کرتے ہیں کہ اچھا بھائی سلام نہیں مانتے تو جائو ان سے کہیے کہ تم کو سلام کرتا ہوں اب عنقریب ان کو اپنا انجام معلوم ہوجائے گا یعنی مرنے کے بعد ہی پتہ چل جائے گا اور قیامت میں تو جو کچھ ہونا ہے وہ ہونا ہی ہے تب ان کو اپنی سرکشی اور نافرمانی کا انجام معلوم ہوجائے گا۔ تم سورة زخرف