Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 15

سورة الدخان

اِنَّا کَاشِفُوا الۡعَذَابِ قَلِیۡلًا اِنَّکُمۡ عَآئِدُوۡنَ ﴿ۘ۱۵﴾

Indeed, We will remove the torment for a little. Indeed, you [disbelievers] will return [to disbelief].

ہم عذاب کو تھوڑا دور کر دیں گے تو تم پھر اپنی اسی حالت پر آجاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, We shall remove the torment for a while. Verily, you will revert. means, `if We were to remove the torment from you for a while, and send you back to the world, you would go back to your former state of disbelief and denial.' This is like the Ayat: وَلَوْ رَحِمْنَـهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِّن ضُرٍّ لَّلَجُّواْ فِى طُغْيَـنِهِمْ يَعْمَهُونَ And though We had mercy on them and removed the distress which is on them, still they would obstinately persist in their transgression, wandering blindly. (23:75) وَلَوْ رُدُّواْ لَعَـدُواْ لِمَا نُهُواْ عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَـذِبُونَ But if they were returned (to the world), they would certainly revert to that which they were forbidden. And indeed they are liars! (6:28) The Meaning of the "Great Batshah" يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنتَقِمُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] یعنی اگر ہم ان پر سے یہ قحط کا عذاب کچھ مدت کے لیے ہٹا بھی دیں تو پھر وہی حرکتیں کرنے لگیں گے جو پہلے کرتے رہے اور اس قحط کے طبعی اسباب تلاش کرنے لگیں گے۔ پھر بھی انہیں یہ خیال نہیں آئے گا کہ ہمیں ہماری شرارتوں کی سزا اس صورت میں ملی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

انا کاشفوا العذاب قلیلاً …: یعنی ہم تمہارے رسول کی دعا سے عذاب کو تھوڑی مدت کے لئے ہٹانے والے ہیں، تاکہ تمہارے ایمان لانے کے وعدے کی حقیقت سامنے آجائے اور تم پر حجت پوری ہوجائے، اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ عذاب ہٹنے پر تم دوبارہ وہی کچھ کرو گے جو پہلے کرتے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِيْلًا اِنَّكُمْ عَاۗىِٕدُوْنَ۝ ١٥ ۘ كشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، ويقال : كَشَفَ غمّه . قال تعالی: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] ( ک ش ف ) الکشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، کا مصدر ہے جس کے معنی چہرہ وغیرہ سے پر دہ اٹھا نا کے ہیں ۔ اور مجازا غم وانداز ہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] اور خدا تم کو سختی پہچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس بھوک کی سزا کو ان سے دور کردیا تو پھر اپنی پچھلی حالت پر آگئے نتیجہ یہ ہوا کہ بدر کے دن ہلاک کردیئے گئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ { اِنَّا کَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِیْلًا اِنَّکُمْ عَآئِدُوْنَ } ” ہم دور کردیں گے اس عذاب کو تھوڑی دیر کے لیے ‘ تو تم لوٹ کر وہی کچھ کرو گے جو پہلے کر رہے تھے۔ “ جیسے آلِ فرعون کے معاملے میں ہم سورة الاعراف کے چھٹے رکوع میں پڑھ چکے ہیں کہ ان پر پے در پے سات عذاب بھیجے گئے تھے۔ ہر مرتبہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ وہ ان کے لیے دعا کریں اور ہر بار وعدہ کیا کہ اگر یہ عذاب ٹل گیا تو وہ ایمان لے آئیں گے۔ مگر جب عذاب ٹل جاتا تو وہ اپنے وعدے سے ِپھر جاتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اس آیت کو اپنے مذکورہ موقف کے حق میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر اس دھویں سے مراد قبل از قیامت کا دھواں ہوتا تو اس کے دور کیے جانے کا کوئی سوال نہیں تھا۔ اس لیے اس سے مراد اسی نوعیت کا عذاب ہے جو کسی رسول کی بعثت کے بعد لوگوں کو خواب غفلت سے جگانے کے لیے بھیجا جاتا ہے اور جس کا مقصد اور اصول سورة السجدۃ میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : { وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ ۔ ” اور ہم انہیں لازماً چکھائیں گے قریب کے کچھ چھوٹے عذاب بڑے عذاب سے پہلے تاکہ یہ باز آجائیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:15) کاشفوا العذاب : کاشفون جمع مذکر قیاسی ہے کاشف سے کاشفوا اصل میں کاشفون تھا ۔ اضافت کی وجہ سے نون اعرابی گرگیا۔ کاشفوا مضاف العذاب مضاف الیہ۔ عذاب کو دور کرنے والے۔ باب ضرب سے کشف کے معنی کھولنا۔ ظاہر کرنا۔ برہنہ کرنا۔ ضرر کو دفع کرنا کے ہیں۔ باب ضرب سے یہ متعدی مستعمل ہے لیکن باب سمع سے لازم آتا ہے بمعنی شکست کھانا۔ قلیلا ای زمانا قلیلا تھوڑی سی مدت کے لئے۔ انکم عائدون : تم (پھر کفر کی طرف) لوٹ جانے والے ہو۔ یعنی لوٹ جاؤ گے۔ عائدون : اسم فاعل جمع مذکر۔ عود (باب نصر) مصدر۔ لوٹ کر آنے والے۔ پھر کر آنے والے۔ پلٹنے والے۔ یعنی ہم اس عذاب کو کچھ عرصہ کیلئے کم کردیں گے۔ لیکن تم ایمان لانا تو کجا تم تو پھر لوٹ کر اسی کفر و شرک کی طرف آجاؤ گے۔ آیت 13 میں مشرکین (مکہ کے مشرکین ، قریش و دیگر مشرکین) نے دعا کی تھی ربنا اکشف عنا العذاب انا مؤمنون ۔ اے ہمارے رب ہم سے یہ عذاب دور کر دے ہم ابھی ایمان لاتے ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے اول تو ایمان تمہارے نصیب ہی میں کہاں ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر نشانیاں تمہارے پاس آچکیں مثلا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مبعوث من اللہ ہوکر تم کو دعوت الی الحق دینا۔ لیکن تم ایمان نہ لائے۔ بلکہ اس کو معلم و مجنون کہا۔ پھر بھی ہم اس عذاب کو کچھ عرصہ کے لئے کم کردیں گے لیکن تم اپنی فطرت سے مجبور ہو تم پھر کفر و شرک کی طرف ہی لوٹنے والے ہو۔ فائدہ : ابتداء سورة سے مختلف اسالیب سے خداوند تعالیٰ نے اپنا رب السموت والارض ہونا۔ موجودہ اور گزشتہ نسلوں کا پروردگار ہونا۔ اپنا سمیع وعلیم ہونا۔ اپنا خالق ومالک ہونا اور اپنے بندوں پر رحیم و کریم ہونا۔ زندگی اور موت پر قادر ہونا۔ بیان کرکے مشرکین مکہ کو متنبہ کیا ہے کہ باوجود اس کی لاتعداد کرم فرمائیوں کے تم صرف زبانی و کلامی اس کی وحدانیت ، الوہیت اور ربوبیت کا دعوی کرتے رہتے ہو جو درحقیقت تم نے ان تمام باتوں کو کھیل سمجھ رکھا ہے اب تم غور سے سن لو۔ کہ ہم تم کو ایک ایسے عذاب سے دوچار کریں گے جو آسمانی دھوئیں کی شکل میں ہوگا تم میں سے ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے لیگا اور اس شدت سے تم چلا اٹھو گے ربنا اکشف عنا العذاب انا مؤمنون۔ ایمان تو خیر تمہارے نصیب میں کیا ہوگا ہم ازراہ تلطف اس عذاب کو کچھ مدت کے لئے کم کردیں گے لیکن تم پھر کفر و شرک کی طرف لوٹنے والے ہو۔ صاحب تفسیر ضیاء القرآن رقمطراز ہیں :۔ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ میں نزول اجلال فرمایا۔ تو اہل مکہ اور گرد و نواح میں بسنے والوں کو قحط نے آلیا۔ نوبت بایں جار سید کو مردار اور کتے کھا کھا کر گزارہ کرنے لگے۔ اپنے چھوٹے بڑے بتوں کے سامنے بڑی درد مندانہ التجائیں کیں لیکن سب بےسود۔ آخر ابو سفیان بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کی کہ آپ خیال فرماتے ہیں کہ آپ کو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے آپ کی قوم بھوک سے ہلاک ہوگئی ہے آپ دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت سے نجات بخشے۔ فدعا رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فسقوا الغیث۔ چناچہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی اور بارش برسنے لگی۔ یہ آیات مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں ان میں قحط شدید کی آمد کی اطلاع دی گئی پھر اس قحط سے مجبور ہو کر مشرکین کے رویہ میں جو تبدیلی آنے والی تھی اس کا ذکر کیا گیا۔ انی لہم سے بتادیا گیا کہ ان کا یہ کہنا (انا مؤمنون) محض وقتی مجبوری کے باعث تھا ورنہ جب انہوں نے حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روشن تعلیمات اور روشن معجزات کے باوجود ایمان قبول نہیں کیا تو اب اتنی سی بات سے وہ ہدایت کیسے قبول کرسکتے ہیں ؟ انا کاشفوا العذاب ۔۔ الخ سے بتادیا کہ ان سے وہ عذاب ایک عرصہ کے لئے ٹال دیا جائے گا لیکن وہ اپنی کرتوتوں سے باز نہیں آئیں گے۔ آیات کی یہ تفسیر جو بخاری سے منقول ہے اس کو ان احادیث سے متعارض کہنا جن میں دخان علامت قیامت کے ضمن میں مذکور ہے قطعا درست نہیں۔ بیشک قیامت سے پہلے بھی دھواں ظاہر ہوگا۔ جیسے حدیث میں مذکور ہے وہ دھواں علامات قیامت میں سے ہوگا اور یہ الگ واقعہ ہے جس کا ذکر ان آیات میں ہے۔ اس لئے قطعا کوئی تعارض نہیں ہے جیسے بعض حضرات کو غلط فہمی ہوئی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) ہم چندے اس عذاب کو ہٹا دیں گے مگر تم پھر اپنی پہلی حالت پر لوٹ جائو گے۔ یعنی ہم اس عذاب کو تھوڑے دنوں کے لئے دور کردیں گے مگر تم پھر کفر کی طرف لوٹ جائو گے یا یہ مطلب کہ پھر عذاب کی طرف لوٹ جائو گے اور پھر عذاب میں مبتلا کردیئے جائو گے چناچہ ایسا ہی ہوا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کی برکت سے اور ثمامہ کو لکھنے سے یمامہ کا غلہ کھل گیا کئی دن تک بارش کا سلسلہ جاری رہا قحط دور ہوا، اس کے بعد ان کے کفروعناد اور استکبار میں اور ترقی ہوگئی اور پیغمبر کی دشمنی اور بڑھ گئی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی عادات یوں ہی ہے۔ خلاصہ : یہ کہ منکروں کی عادت یہی ہے کہ عذاب کو دیکھ کر چیخ و پکار کرتے ہیں۔ عذاب ہٹ جاتا ہے تو پھر کفر کا مظاہرہ کرتی ہیں جیسا کہ کشتی میں بیٹھ کر اس کا بارہا تجربہ ہوچکا ہے کہ طوفان کے وقت موحد اور طوفان سے نجات پانے کے بعد مشرک۔