Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 16

سورة الدخان

یَوۡمَ نَبۡطِشُ الۡبَطۡشَۃَ الۡکُبۡرٰی ۚ اِنَّا مُنۡتَقِمُوۡنَ ﴿۱۶﴾

The Day We will strike with the greatest assault, indeed, We will take retribution.

جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ، بالیقین ہم بدلہ لینے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

On the Day when We shall strike you with the great Batshah. Verily, We will exact retribution. Ibn Mas`ud interpreted this to mean the day of Badr. This is also the view of a group who agreed with Ibn Mas`ud, may Allah be pleased with him, about the meaning of the smoke, as discussed above. It was also narrated from Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, in a report related to him from Al-`Awfi and from Ubayy bin Ka`b, may Allah be pleased with him. This is possible, but the apparent meaning is that it refers to the Day of Resurrection, although the day of Badr was also a day of vengeance. Ibn Jarir said, "Ya`qub narrated to me; Ibn `Ulayyah narrated to me, Khalid Al-Hadhdha' narrated to us, from Ikrimah who said, Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, said, "Ibn Mas`ud, may Allah be pleased with him, said that; "the great Batshah" is the day of Badr, and I say that it is the Day of Resurrection." This chain of narration is Sahih to him. This is also the view of Al-Hasan Al-Basri and of Ikrimah according to the more authentic of the two reports narrated from him. And Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 اس سے مراد جنگ بدر کی گرفت ہے، جس میں ستر کافر مارے گئے اور ستر قیدی بنا لئے گئے۔ دوسری تفسیر کی رو سے یہ سخت گرفت قیامت والے دن ہوگی۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ اس گرفت خاص کا ذکر ہے جو جنگ بدر میں ہوئی، کیونکہ قریش کے سیاق میں ہی اس کا ذکر ہے، اگرچہ قیامت والے دن بھی اللہ تعالیٰ سخت گرفت فرمائے گا تاہم وہ گرفت عام ہوگی، ہر نافرمان اس میں شامل ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یوم نبطش البطشۃ الکبری انا منقمون :” ان “ علت بیان کرنے کے لئے ہے۔ یعنی یہ قحط کا عذاب تو ہم نے ہٹا لیا مگر قیامت کے دن جب ہم تمہیں بڑی گرفت میں پکڑیں گے تو وہ کسی صورت دور نہیں ہوگی، ، کیونکہ ہم انتقام لے رہے ہوں گے۔ دنیا کی گرفت تمہیں کفر سے واپس لانے کے لئے تھی، اس لئے اس کے بعد تمہیں رجوع کا موقع ملتا تھا، جیسا کہ فرمایا :(ولنذیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر لعلھم یرجعون) (السجدۃ : ٢١) ” اور یقینا ہم انھیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔ “ لیکن قیامت کے دن کی بڑی گرفت انتقام کے لئے ہوگی، اس کے بعد تمہیں مہلت نہیں ملے گی۔ طبری نے اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ ابن عباس (رض) نے فرمایا :(قال ابن مسعود البطشۃ الکبری “ یوم بدر، وانا اقولھی یوم القیامۃ) (الطبری : 28/21 ح :31338)” ابن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ ” البطشۃ الکبری “ (بڑی پکڑ) یوم بدر ہے اور میں کہتا ہوں کہ وہ قیامت کا دن ہے۔ “ ابن کثیر رحمتہ اللہ نے اس قول کی سند کو صحیح کہا ہے۔ ان کی تفسیر کے محقق دکتور حکمت بن بشیر نے بھی اس قول کی سند کو صحیح کہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں ابن عباس (رض) کی بات قوی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْكُبْرٰى۝ ٠ ۚ اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ۝ ١٦ بطش البَطْشُ : تناول الشیء بصولة، قال تعالی: وَإِذا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ [ الشعراء/ 130] ، يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان/ 16] ، وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنا [ القمر/ 36] ، إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ [ البروج/ 12] . يقال : يد بَاطِشَة . ( ب ط ش ) البطش کے معنی کوئی چیز زبردستی لے لینا کے ہیں قرآن میں : { وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ } ( سورة الشعراء 130) اور جب کسی کو پکڑتے تو ظالمانہ پکڑتے ہو ۔ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان/ 16] جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ۔ وَلَقَدْ أَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنا [ القمر/ 36] اور لوط نے ان کو ہماری گرفت سے ڈرایا ۔ إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ [ البروج/ 12] بیشک تمہاری پروردگار کی گرفت بڑی سخت ہے ید کا طشۃ سخت گیر ہاتھ ۔ تَّكْبِيرُ ، اکبر، کبار والتَّكْبِيرُ يقال لذلک، ولتعظیم اللہ تعالیٰ بقولهم : اللہ أَكْبَرُ ، ولعبادته واستشعار تعظیمه، وعلی ذلك : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة/ 185] ، وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء/ 111] ، وقوله : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر/ 57] فهي إشارة إلى ما خصّهما اللہ تعالیٰ به من عجائب صنعه، وحکمته التي لا يعلمها إلّا قلیل ممّن وصفهم بقوله : وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران/ 191] فأمّا عظم جثّتهما فأكثرهم يعلمونه . وقوله : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان/ 16] فتنبيه أنّ كلّ ما ينال الکافر من العذاب قبل ذلک في الدّنيا وفي البرزخ صغیر في جنب عذاب ذلک الیوم . والْكُبَارُ أبلغ من الْكَبِيرُ ، والْكُبَّارُ أبلغ من ذلك . قال تعالی: وَمَكَرُوا مَكْراً كُبَّاراً [ نوح/ 22] . التکبیر ( تفعیل ) اس کے ) ایک معنی تو کسی کو بڑا سمجھنے کے ہیں ۔ اور دوم اللہ اکبر کہہ کر اللہ تعالیٰ کی عظمت کو ظاہر کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی عظمت کا احساس ر کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة/ 185] اور اس احسان کے بدلے کو خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو ۔۔ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء/ 111] اور اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی کرتے رہو ۔ اور آیت : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر/ 57] آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کر نا لوگوں کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے ۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ میں اکبر کا لفظ سے قدرت الہی کی کاریگری اور حکمت کے ان عجائب کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ جو آسمان اور زمین کی خلق میں پائے جاتے ہیں ۔ اور جن کو کہ وہ خاص لوگ ہی جان سکتے ہیں ۔ جن کی وصف میں فرمایا ۔ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران/ 191] اور آسمان اور زمین پیدا ئش میں غور کرتے ہیں ۔ ور نہ ان کی ظاہری عظمت کو تو عوام الناس بھی سمجھتے ہیں ( اس لئے یہ معنی یہاں مراد نہیں ہیں ) اور آیت : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان/ 16] جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ روز قیامت سے پہلے دنیا یا علم برزخ میں کافر کو جس قد ر بھی عذاب ہوتا ہے عذاب آخرت کے مقابلہ میں ہیچ ہے ۔ الکبار ۔ اس میں کبیر کے لفظ سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے اور کبار ( بتشدید یاء ) اس سے بھی زیادہ بلیغ ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَمَكَرُوا مَكْراً كُبَّاراً [ نوح/ 22] اور وہ بڑی بڑی چالیں چلے ۔ نقم نَقِمْتُ الشَّيْءَ ونَقَمْتُهُ : إذا أَنْكَرْتُهُ ، إِمَّا باللِّسانِ ، وإِمَّا بالعُقُوبةِ. قال تعالی: وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة/ 74] ، وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج/ 8] ، هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة/ 59] . والنِّقْمَةُ : العقوبةُ. قال : فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف/ 136] ، فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم/ 47] ، فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف/ 25] . ( ن ق م ) نقمت الشئی ونقمتہ کسی چیز کو برا سمجھنا یہ کبھی زبان کے ساتھ لگانے اور کبھی عقوبت سزا دینے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج/ 8] ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی ۔ کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة/ 74] اور انہوں نے ( مسلمانوں میں عیب ہی کو کونسا دیکھا ہے سیلا س کے کہ خدا نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا ۔ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة/ 59] تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو ۔ اور اسی سے نقمۃ بمعنی عذاب ہے قرآن میں ہے ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف/ 136] تو ہم نے ان سے بدلہ لے کر ہی چھوڑا گر ان کو در یا میں غرق کردیا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم/ 47] سو جو لوگ نافر مانی کرتے تھے ہم نے ان سے بدلہ لے کر چھوڑا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف/ 25] تو ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جس کی طرف اللہ تعالیٰ اگلی آیت میں اشارہ فرما رہا ہے بدر کے دن بذریعہ تلوار جب ان کی بہت سخت پکڑ کریں گے تو اس روز ہم بذریعہ عذاب ان سے پورا پورا بدلہ لیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ { یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرٰیج اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ } ” جس دن ہم پکڑیں گے بڑی پکڑ ‘ (اُس دن) یقینا ہم پورا پورا انتقام لیں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 The commentators have seriously disputed the meaning of these verses, and the difference of opinion existed even in the time of the Companions. Masruq, the well-known pupil of Hadrat 'Abdullah bin Mas'ud, states: One day when we entered the mosque of Kufah, we saw a preacher addressing the people. He recited the verse: Yauma ta'tis-sama-u bidukhan-im-mubin, then asked: "Do you know what kind of smoke it is ? This smoke will appear on the Day of Resurrection and will make the disbelievers and the hypocrites blind and deaf, but the believers will be affected only to the extent as if they had caught cold.' Hearing this commentary we went to Hadrat 'Abdullah bin Mas'ud and reported to him what the preacher had said. Hadrat 'Abdullah at that time was lying down. On hearing this commentary he sat up startled and said: "When a person does not have the knowledge he should ask those who have it. The fact is that when the people of the Quraish went on refusing to accept Islam and continued to oppose the Holy Prophet, the Holy Prophet prayed: O God, help me with a famine like the famine of Joseph (peace be upon him); consequently, a very severe famine overtook Makkah and the people were forced to eat bones, skins and carrion. The conditions became so bad that whoever looked up to the sky would see nothing but smoke due to intensity of hunger. At last, Abu Sufyan came to the Holy Prophet and said: "You tell the people to treat their kindred kindly: your own people are starving: kindly pray to God to remove this calamity." This was the time when the people of the Quraish had started saying: "O God, if You remove this torment from us, we will believe." This same event has been referred to in these verses; and the severest blow implies the calamity that was inflicted on the Quraish in the Battle of Badr. " This tradition has been related by Imam Ahmad, Bukhari Tirmidhi, Nasa'i, Ibn Jarir and Ibn Abi Hatim from Masruq with several chains of authorities. Besides Masruq, Ibrahim Nakha'i Qatadah. `Asim and 'Amir also have related that Hadrat 'Abdullah bin Mas'ud had given the same commentary of this verse. Therefore there cannot be any doubt that Ibn Mas'ud actually held this same opinion. Among the immediate followers of the Companions, Mujahid, Qatadah. Abul 'Aliyah, Muqatil, Ibrahim Nakha'i, Dahhak and 'Atiyyah al-'Aufi and others havc also concurred with Ibn Mas'ud in this commentary. On the contrary, scholars like Hadrat 'Ali, Ibn 'Umar, Ibn 'Abbas, Abu Said Khudri, Zaid bin 'AIi, and Hasan Basri say that in these verses mention has been made of the time just before Resurrection, and the smoke that has been foretold will envelop the earth at that time. This commentary is further strengthened by the Traditions that havc been reported from the Holy Prophet. Hudhaifah bin Asid al-Ghifari says: One day when we were talking about Resurrection, the Holy Prophet came out to us and said: "Resurrection will not be established till ten Signs have appeared one after the other: Rising of the sun in the west, smoke, the beast, emergence of God and Magog, descent of Jesus son of Mary, sinking of the earth in the East, in the West and in the Arabian Peninsula, and the appearance of a fire from Yaman, which will drive the people away." (Muslim) This is confirmed by Abu Malik Ash`ari's tradition which has been related by Ibn Jarir and Tabarani, and Abu Said Khudri's tradition which has been related by Ibn Abi Hatim. Both these traditions show that the Holy Prophet regarded the smoke as one of the Signs of Resurrection and also said that when that smoke will spread, it will affect the believer only like a cold, but will infuse every nerve of the disbeliever and come out from every part of his body. A study of the verses under consideration can remove the disparity between the two commentaries. As for the commentary of Hadrat 'Abdullah bin Mas'ud, it is a fact that a severe famine had hit Makkah resulting from the Holy Prophet's prayer and it had unnerved the disbelievers considerably and they had requested the Holy Prophet to pray for its removal, as referred to at several places in the Qur'an. (See AI-An'am: 43, AI-A'raf: 94-95, Yunus: 21, AI-Mu'minun: 75-77 and the corresponding E.N.'s). In these verses also there is a clear pointer to the same conditions. The disbelievers' saying: "Our Lord, remove this torment from us: we will believe," Allah's saying: "How can they rid themselves of their heedlessness? Even when a manifest Messenger came to them, they paid no heed to hira, and said: He is a madman taught by others,"- then saying: "Were We to remove the torment a little, you would revert to the same that you were doing before." aII this can be relevant only if it refers to the conditions of the Holy Prophet's time. To apply them to what will happen near the time of Resurrection, is not correct. Therefore, in view of this, Hadrat `Abdullah bin Mas'ud's commentary seems to be correct, but its this part that "the smoke" also had appeared in that very time, in that when the people in their extreme state of hunger looked up to the sky, they could see nothing but smoke, dces not seem to be correct. It also dces not conform to the apparent words of the Qur'an and is against the Traditions as well. The Qur'an does not say: the sky brought forth the smoke and it spread over the people; but it says: "Wait for the Day when the sky will appear with a visible smoke, and it will envelop mankind. " A study of the subsequent verses clearly points to this meaning: "When you do not believe even after the Messenger's admonition, nor take heed from the warning given in the shape of the famine, then you should wait for Resurrection. At that time when you sec your doom confronting you, you will fully realize what was the truth and what was falsehood." Therefore, as for the smoke, the correct view is that it has nothing to do with the time of the famine, but it is a Sign of Resurrection and the same is also confirmed by the Hadith. It is surprising that those commentators who confirmed what Hadrat Ibn Mas`ud said confirmed him wholly and those who refined what he said refined him wholly, whereas a study of the verses and the Hadith clearly shows how far he was correct and how far he was wrong.

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :13 ان آیات کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان بڑا اختلاف واقع ہوا ہے اور یہ اختلاف صحابہ کرام کے زمانے میں بھی پایا جاتا تھا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مشہور شاگرد مسروق کہتے ہیں کہ ایک روز ہم کوفے کی مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک واعظ لوگوں کے سامنے تقریر کر رہا ہے ۔ اس نے آیت : یَوْمَ تَأتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ پڑھی ، پھر کہنے لگا ، جانتے ہو یہ کیسا دھواں ہے ؟ یہ دھواں قیامت کے روز آئے گا اور کفار و منافقین کو اندھا بہرا کر دے گا ، مگر اہل ایمان پر اس کا اثر بس اس قدر ہوگا کہ جیسے زکام لاحق ہوگیا ہو ۔ اس کی یہ بات سن کر ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے واعظ کی یہ تفسیر بیان کی ۔ حضرت عبداللہ لیٹے ہوئے تھے ۔ یہ تفسیر سن کر گھبرا کے اٹھ بیٹھے اور کہنے لگے کہ آدمی کو علم نہ ہو تو اسے جاننے والوں سے پوچھ لینا چاہیے ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب قریش کے لوگ اسلام قبول کرنے سے انکار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہی چلے گئے تو حضور نے دعا کی کہ خدایا یوسف علیہ السلام کے قحط جیسے قحط سے میری مدد فرما ۔ چنانچہ ایسا شدید کال پڑا کہ لوگ ہڈیاں اور چمڑا اور مردار تک کھا گئے ۔ اس زمانے میں حالت یہ تھی کہ جو شخص آسمان کی طرف دیکھتا تھا اسے بھوک کی شدت میں بس دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا ۔ آخر کار ابو سفیان نے آ کر حضور سے کہا کہ آپ تو صلہ رحمی کی دعوت دیتے ہیں ۔ آپ کی قوم بھوکوں مر رہی ہے ۔ اللہ سے دعا کیجیے کہ اس مصیبت کو دور کر دے ۔ یہی زمانہ تھا جب قریش کے لوگ کہتے لگے تھے کہ خدایا ہم پر سے یہ عذاب دور کر دے تو ہم ایمان لے آئیں گے ۔ اسی واقعہ کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے ۔ اور بڑی ضرب سے مراد وہ ضرب ہے جو آخر کار جنگ بدر کے روز قریش کو لگائی گئی ۔ یہ روایت امام احمد ، بخاری ، ترمذی ، نسائی ، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے متعدد سندوں کے ساتھ مسروق سے نقل کی ہے ۔ اور مسروق کے علاوہ ابراہیم نخعی ، قتادہ ، عاصم اور عامر کا بھی یہی بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی یہ تفسیر ارشاد فرمائی تھی ۔ اس لیے اس امر میں کوئی شک نہیں رہتا کہ حضرت موصوف کی رائے فی الواقع یہی تھی ۔ تابعین میں سے مجاہد ، قتادہ ، ابو العالیہ ، مقاتل ، ابراہیم النخعی ، ضحاک اور عطیۃ العوفی وغیرہ حضرات نے بھی اس تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے اتفاق کیا ہے ۔ دوسری طرف حضرت علی ، ابن عمر ، ابن عباس ، ابو سعید خدری ، زید بن علی اور حسن بصری جیسے اکابر کہتے ہیں کہ ان آیات میں سارا ذکر قیامت کے قریب زمانے کا کیا گیا ہے اور وہ دھواں جس کی خبر دی گئی ہے ، اسی زمانے میں زمین پر چھائے گا ۔ مزید تقویت اس تفسیر کو ان روایات سے ملتی ہے جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں ۔ خذیفہ بن اَسید الغفاری کہتے ہیں کہ ایک روز ہم قیامت کے متعلق آپس میں گفتگو کر رہے تھے ۔ اتنے میں حضور برآمد ہوئے اور فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی جب تک دس علامات یکے بعد دیگرے ظاہر نہ ہو لیں گی : سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ۔ دھواں ۔ دابہ ۔ یاجوج و ماجوج کا خروج ، عیسی ابن مریم کا نزول ۔ زمین کا دھنسنا مشرق میں ، مغرب میں اور جزیرۃالعرب میں ۔ اور عدن سے آگ کا نکلنا جو لوگوں کو ہانکتی ہوئی لے جائے گی ( مسلم ) ۔ اسی کی تائید ابو مالک اشعری کی وہ روایت کرتی ہے جسے ابن جریر اور طبرانی نے نقل کیا ہے ، اور ابو سعید خدری کی روایت جسے ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے ۔ ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوئیں کو علامات قیامت میں شمار کیا ہے ، اور یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ دھواں جب چھائے گا تو مومن پر اس کا اثر صرف زکام جیسا ہوگا ، اور کافر کی نس نس میں وہ بھر جائے گا اور اس کے ہر منفذ سے نکلے گا ۔ ان دونوں تفسیروں کا تعارض اوپر کی آیات پر غور کرنے سے بآسانی رفع ہوسکتا ہے ۔ جہاں تک حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تفسیر کا تعلق ہے ، یہ امر واقعہ ہے کہ مکہ معظمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے سخت قحط رونما ہوا تھا جس سے کچار کے خنّے بہت کچھ ڈھیلے پڑ گئے تھے ، اور انہوں نے اسے رفع کرانے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی تھی ۔ اس واقعہ کی طرف قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اشارے کیے گئے ہیں ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، الانعام ، حاشیہ۲۹ ، جلد دوم ، الاعراف ، حاشیہ ۷۷ ، یونس ، حواشی۱٤ ۔ ۱۵ ۔ ۲۹ ، جلد سوم ، المومنون حاشیہ۷۲ ) ۔ ان آیات میں بھی صاف محسوس ہوتا ہے کہ اشارہ اسی صورت حال کی طرف ہے ۔ کفار کا یہ کہنا کہ پروردگار ، ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے ، ہم ایمان لاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ان کی غفلت کہاں دور ہوتی ہے جبکہ رسول مبین آ گیا ، پھر بھی یہ اس کی طرف ملتفت نہ ہوئے اور کہا کہ یہ تو سکھایا پڑھایا باؤلا ہے ۔ پھر یہ فرمانا کہ ہم ذرا عذاب ہٹائے دیتے ہیں ، تم لوگ پھر وہی کچھ کرو گے جو پہلے کر رہے تھے ۔ یہ ساری باتیں اسی صورت میں راست آ سکتی ہیں جبکہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانے کا ہو ۔ قیامت کے قریب ہونے والے واقعات پر ان کا اطلاق بعید از فہم ہے ۔ اس لیے اس حد تک تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تفسیر ہی صحیح معلوم ہوتی ہے ۔ لیکن اس کا یہ حصہ صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ دھواں بھی اسی زمانے میں ظاہر ہوا تھا ، اور اس شکل میں ظاہر ہوا تھا کہ بھوک کی شدت میں جب لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تھے تو دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا ، یہ بات قرآن مجید کے ظاہر الفاظ سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ، اور احادیث کے بھی خلاف ہے ۔ قرآن میں یہ کہاں کہا گیا ہے کہ آسمان دھواں لیے ہوئے آگیا اور لوگوں پر چھا گیا ۔ وہاں تو کہا گیا ہے کہ اچھا تو اس دن کا انتظار کرو جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا اور وہ لوگوں پر چھا جائے گا ۔ بعد کی آیات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اس ارشاد کا صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب تم نہ رسول کے سمجھانے سے مانتے ہو ، نہ قحط کی شکل میں جو تنبیہ تمہیں کی گئی ہے اس سے ہی ہوش میں آتے ہو ، تو پھر قیامت کا انتظار کرو ، اس وقت جب پوری طرح شامت آئے گی تب تمہیں پتہ چل جائے گا کہ حق کیا تھا ۔ پس جہاں تک دھوئیں کا تعلق ہے ، اس کے بارے میں صحیح بات یہی ہے کہ وہ قحط کے زمانے کی چیز نہیں ہے بلکہ علامات قیامت میں سے ہے ، اور یہی بات احادیث سے بھی معلوم ہوتی ہے ۔ تعجب ہے کہ مفسرین کبار میں سے جنہوں نے حضرت ابن مسعود کی تائید کی انہوں نے پوری بات کی تائید کر دی ، اور جنہوں نے ان کی تردید کی انہوں نے پوری بات کی تردید کر دی ، حالانکہ آیات اور احادیث پر غور کرنے سے یہ صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کا کونسا حصہ صحیح ہے اور کون سا غلط ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: یعنی اس وقت تو یہ عذاب ان سے دور کردیا جائے گا، لیکن جب قیامت میں ان کی پکڑ ہوگی، اس وقت انہیں پورے عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:16) یوم نبطش البطشۃ الکبری : یوم مفعول فعل مقدر کا۔ ای ذکر یوم : نبطش مضارع جمع متکلم بطش (باب ضرب) مصدر۔ ہم سختی سے پکڑیں گے۔ بطش، سختی اور قوت کے ساتھ پکڑنے کو کہتے ہیں ۔ البطشہ الکبری موصوف و صفت سخت پکڑ۔ مضبوط گرفت۔ موصوف و صفت مل کر مفعول فعل نبطش کا ۔ وہ دن یاد کرو جب ہم پوری شدت سے پکڑیں گے۔ یا جملہ یوم نبطش البطشۃ الکبری بدل ہے جملہ یوم تاتی السماء بدخان مبین کا۔ سخت پکڑ کے دن سے مراد قیامت کا دن۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد یوم بدر ہے۔ اول الذکر زیادہ صحیح ہے۔ انا منتقمون (اس دن) ہم بدلہ لینے والے ہوں گے ۔ یعنی اس روز ہم پورا پورا بدلہ لیں گے۔ منتقمون : اسم فاعل جمع مذکر۔ انتقام (افتعال) مصدر۔ بدلہ لینے والے۔ انتقام لینے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) جس روز ہم بڑی سخت گرفت کریں گے تو اس روز ہم پورا بدلہ لیں گے۔ یہ پیشین گوئی بدر میں پوری ہوئی اور کافروں سے پورا انتقام لیا گیا ہوسکتا ہے کہ یہ وعید قیامت کے دن کے لئے ہو کہ اس دن پوری طرح بدلہ لے لیا جائے گا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی آٓخرت کا عذاب نہیں ٹلتا۔ خلاصہ : یہ کہ بڑی پکڑ پکڑنا اگر دنیوی عذاب کی طرف اشارہ ہے تو بدر میں منکرین مکہ کی کافی ذلت و رسوائی ہوئی اور خوب انتقام لیا گیا اور اگر یہ پکڑ آخرت کی ہے تو ظاہر ہے کہ نہ وہ عذاب ٹلنے والا ہے اور دنیا کے عذاب سے بہت زیادہ رسوا کن ہے۔ اللھم اجرنا منہ۔