Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 17

سورة الدخان

وَ لَقَدۡ فَتَنَّا قَبۡلَہُمۡ قَوۡمَ فِرۡعَوۡنَ وَ جَآءَہُمۡ رَسُوۡلٌ کَرِیۡمٌ ﴿ۙ۱۷﴾

And We had already tried before them the people of Pharaoh, and there came to them a noble messenger,

یقیناً ان سے پہلے ہم قوم فرعون کو ( بھی ) آزما چکے ہیں جن کے پاس ( اللہ کا ) با عزت رسول آیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Musa and Fir`awn, and how the Children of Israel were saved Allah says, وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ ... And indeed We tried before them Fir`awn's people, Allah tells us, `before these idolators, We tested the people of Fir`awn, the Copts of Egypt.' ... وَجَاءهُمْ رَسُولٌ كَرِيمٌ when there came to them a noble Messenger. means, Musa, peace be upon him, the one to whom Allah spoke.

قبطیوں کا انجام ارشاد ہوتا ہے کہ ان مشرکین سے پہلے مصر کے قبطیوں کو ہم نے جانچا ان کی طرف اپنے بزرگ رسول حضرت موسیٰ کو بھیجا انہوں نے میرا پیغام پہنچایا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ کر دو انہیں دکھ نہ دو میں اپنی نبوت پر گواہی دینے والے معجزے اپنے ساتھ لایا ہوں اور ہدایت کے ماننے والے سلامتی سے رہیں گے مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کا امانت دار بنا کر تمہاری طرف بھیجا ہے میں تمہیں اس کا پیغام پہنچا رہا ہوں تمہیں رب کی باتوں کے ماننے سے سرکشی نہ کرنی چاہئے اس کے بیان کردہ دلائل و احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے ۔ اس کی عبادتوں سے جی چرانے والے ذلیل و خوار ہو کر جہنم واصل ہوتے ہیں میں تو تمہارے سامنے کھلی دلیل اور واضح آیت رکھتا ہوں میں تمہاری بدگوئی اور اہتمام سے اللہ کی پناہ لیتا ہوں ۔ ابن عباس اور ابو صالہ تو یہی کہتے ہیں اور قتادہ کہتے ہیں مراد پتھراؤ کرنا پتھروں سے مار ڈالنا ہے یعنی زبانی ایذاء سے اور دستی ایذاء سے میں اپنے رب کی جو تمہارا بھی مالک ہے پناہ چاہتا ہوں اچھا اگر تم میری نہیں مانتے مجھ پر بھروسہ نہیں کرتے اللہ پر ایمان نہیں لاتے تو کم از کم میری تکلیف دہی اور ایذاء رسانی سے تو باز رہو ۔ اور اس کے منتظر رہو جب کہ خود اللہ ہم میں تم میں فیصلہ کر دے گا پھر جب اللہ کے نبی کلیم اللہ حضرت موسیٰ نے ایک لمبی مدت ان میں گذاری خوب دل کھول کھول کر تبلیغ کر لی ہر طرح کی خیر خواہی کی ان کی ہدایت کے لئے ہر چند جتن کر لئے اور دیکھا کہ وہ روز بروز اپنے کفر میں بڑھتے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے انکے لئے بددعا کی جیسے اور آیت میں ہے کہ حضرت موسیٰ نے کہا اے ہمارے رب تو نے فرعون اور اس کے امراء کو دنیوی نمائش اور مال و متاع دے رکھی ہے اے اللہ یہ اس سے دوسروں کو بھی تیری راہ سے بھٹکا رہے ہیں تو ان کا مال غارت کر اور ان کے دل اور سخت کر دے تاکہ دردناک عذابوں کے معائنہ تک انہیں ایمان نصیب ہی نہ ہو اللہ کی طرف سے جواب ملا کہ اے موسیٰ اور اے ہارون میں نے تمہاری دعا قبول کر لی اب تم استقامت پر تل جاؤ یہاں فرماتا ہے کہ ہم نے موسیٰ سے کہا کہ میرے بندوں یعنی بنی اسرائیل کو راتوں رات فرعون اور فرعونیوں کی بےخبری میں یہاں سے لے کر چلے جاؤ ۔ یہ کفار تمہارا پیچھا کریں گے لیکن تم بےخوف و خطر چلے جاؤ میں تمہارے لئے دریا کو خشک کر دوں گا اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر چل پڑے فرعونی لشکر مع فرعون کے ان کے پکڑنے کو چلا بیچ میں دریا حائل ہوا آپ بنی اسرائیل کو لے کر اس میں اتر گئے دریا کا پانی سوکھ گیا اور آپ اپنے ساتھیوں سمیت پار ہوگئے تو چاہا کہ دریا پر لکڑی مار کر اسے کہدیں کہ اب تو اپنی روانی پر آجا تاکہ فرعون اس سے گزر نہ سکے وہیں اللہ نے وحی بھیجی کہ اسے اسی حال میں سکون کے ساتھ ہی رہنے دو ساتھ ہی اس کی وجہ بھی بتا دی کہ یہ سب اسی میں ڈوب مریں گے ۔ پھر تو تم سب بالکل ہی مطمئن اور بےخوف ہو جاؤ گے غرض حکم ہوا تھا کہ دریا کو خشک چھوڑ کر چل دیں ( رھواً ) کے معنی سوکھا راستہ جو اصلی حالت پر ہو ۔ مقصد یہ ہے کہ پار ہو کہ دریا کو روانی کا حکم نہ دینا یہاں تک کہ دشمنوں میں سے ایک ایک اس میں آ نہ جائے اب اسے جاری ہونے کا حکم ملتے ہی سب کو غرق کر دے گا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو کیسے غارت ہوئے ۔ باغات کھتیاں نہریں مکانات اور بیٹھکیں سب چھوڑ کر فنا ہوگئے حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں مصر کا دریائے نیل مشرق مغرب کے دریاؤں کا سردار ہے اور سب نہریں اس کے ماتحت ہیں جب اس کی روانی اللہ کو منظور ہوتی ہیں تو تمام نہروں کو اس میں پانی پہنچانے کا حکم ہوتا ہے جہاں تک رب کو منظور ہو اس میں پانی آ جاتا ہے پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اور نہروں کو روک دیتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ اب اپنی اپنی جگہ چلی جاؤ اور فرعونیوں کے یہ باغات دریائے نیل کے دونوں کناروں پر مسلسل چلے گئے تھے رسواں سے لے کر رشید تک اس کا سلسلہ تھا اور اس کی نو خلیجیں تھیں ۔ خلیج اسکندریہ ، دمیاط ، خلیج سردوس ، خلیج منصف ، خلیج منتہی اور ان سب میں اتصال تھا ایک دوسرے سے متصل تھیں اور پہاڑوں کے دامن میں ان کی کھیتیاں تھیں جو مصر سے لے کر دریا تک برابر چلی آتی تھیں ان تمام کو بھی دریا سیراب کرتا تھا بڑے امن چین کی زندگی گذار رہے تھے لیکن مغرور ہوگئے اور آخر ساری نعمتیں یونہی چھوڑ کر تباہ کر دئیے گئے ۔ مال اولاد جاہ و مال سلطنت و عزت ایک ہی رات میں چھوڑ گئے اور بھس کی طرح اڑا دئیے گئے اور گذشتہ کل کی طرح بےنشان کر دئیے گئے ایسے ڈبوئے گئے کہ ابھر نہ سکے جہنم واصل ہوگئے اور بدترین جگہ پہنچ گئے ان کی یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دے دیں ۔ جیسے اور آیت میں فرمایا ہے کہ ہم نے ان کمزوروں کو ان کے صبر کے بدلے اس سرکش قوم کی کل نعمتیں عطافرمادیں اور بے ایمانوں کا بھرکس نکال ڈالا یہاں بھی دوسری قوم جسے وارث بنایا اس سے مراد بھی بنی اسرائیل ہیں پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان پر زمین و آسمان نہ روئے کیونکہ ان پاپیوں کے نیک اعمال تھے ہی نہیں جو آسمانوں پر چڑھتے ہوں اور اب ان کے نہ چڑھنے کی وجہ سے وہ افسوس کریں نہ زمین میں ان کی جگہیں ایسی تھیں کہ جہاں بیٹھ کر یہ اللہ کی عبادت کرتے ہوں اور آج انہیں نہ پا کر زمین کی وہ جگہ ان کا ماتم کرے انہیں مہلت نہ دی گئی ۔ مسند ابو یعلی موصلی میں ہے ہر بندے کے لئے آسمان میں دو دروازے ہیں ایک سے اس کی روزی اترتی ہے دوسرے سے اس کے اعمال اور اس کے کلام چڑھتے ہیں ۔ جب یہ مر جاتا ہے اور وہ عمل و رزق کو گم شدہ پاتے ہیں تو روتے ہیں پھر اسی آیت کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت کی ابن ابی حاتم میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اسلام غربت سے شروع ہوا اور پھر غربت پر آجائے گا یاد رکھو مومن کہیں انجام مسافر کی طرح نہیں مومن جہاں کہیں سفر میں ہوتا ہے جہاں اس کا کوئی رونے والا نہ ہو وہاں بھی اس کے رونے والے آسمان و زمین موجود ہیں پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا یہ دونوں کفار پر روتے نہیں حضرت علی سے کسی نے پوچھا کہ آسمان و زمین کبھی کسی پر روئے بھی ہیں ؟ آپ نے فرمایا آج تو نے وہ بات دریافت کی ہے کہ تجھ سے پہلے مجھ سے اس کا سوال کسی نے نہیں کیا ۔ سنو ہر بندے کے لئے زمین میں ایک نماز کی جگہ ہوتی ہے اور ایک جگہ آسمان میں اس کے عمل کے چڑھنے کی ہوتی ہے اور آل فرعون کے نیک اعمال ہی نہ تھے اس وجہ سے نہ زمین ان پر روئی نہ آسمان کو ان پر رونا آیا اور نہ انہیں ڈھیل دی گئی کہ کوئی نیکی بجا لاسکیں ، حضرت ابن عباس سے یہ سوال ہوا تو آپ نے بھی قریب قریب یہی جواب دیا بلکہ آپ سے مروی ہے کہ چالیس دن تک زمین مومن پر روتی رہتی ہے حضرت مجاہد نے جب یہ بیان فرمایا تو کسی نے اس پر تعجب کا اظہار کیا آپ نے فرمایا سبحان اللہ اس میں تعجب کی کونسی بات ہے جو بندہ زمین کو اپنے رکوع و سجود سے آباد رکھتا تھا جس بندے کی تکبیر و تسبیح کی آوازیں آسمان برابر سنتا رہا تھا بھلا یہ دونوں اس عابد اللہ پر روئیں گے نہیں ؟ حضرت قتادہ فرماتے ہیں فرعونیوں جیسے ذلیل و خوار لوگوں پر یہ کیوں روتے ؟ حضرت ابراہیم فرماتے ہیں دنیا جب سے رچائی گئی ہے تب سے آسمان صرف دو شخصوں پر رویا ہے ان کے شاگرد سے سوال ہوا کہ کیا آسمان وزمین ہر ایمان دار پر روتے نہیں ؟ فرمایا صرف اتنا حصہ جس حصے سے اس کا نیک عمل چڑھتا تھا سنو آسمان کا رونا اس کا سرخ ہونا اور مثل نری کے گلابی ہو جانا ہے سو یہ حال صرف دو شخصوں کی شہادت پر ہوا ہے ۔ حضرت یحییٰ کے قتل کے موقعے پر تو آسمان سرخ ہو گیا اور خون برسانے لگا اور دوسرے حضرت حسین کے قتل پر بھی آسمان کا رنگ سرخ ہو گیا تھا ( ابن ابی حاتم ) یزید ابن ابو زیاد کا قول ہے کہ قتل حسین کی وجہ سے چار ماہ تک آسمان کے کنارے سرخ رہے اور یہی سرخی اس کا رونا ہے حضرت عطا فرماتے ہیں اس کے کناروں کا سرخ ہو جانا اس کا رونا ہے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ قتل حسین کے دن جس پتھر کو الٹا جاتا تھا اس کے نیچے سے منجمند خون نکلتا تھا ۔ اس دن سورج کو بھی گہن لگا ہوا تھا آسمان کے کنارے بھی سرخ تھے اور پتھر گرے تھے ۔ لیکن یہ سب باتیں بےبنیاد ہیں اور شیعوں کے گھڑے ہوئے افسانے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کا واقعہ نہایت درد انگیز اور حسرت و افسوس والا ہے لیکن اس پر شیعوں نے جو حاشیہ چڑھایا ہے اور گھڑ گھڑا کر جو باتیں پھیلا دی ہیں وہ محض جھوٹ اور بالکل گپ ہیں ۔ خیال تو فرمائیے کہ اس سے بہت زیادہ اہم واقعات ہوئے اور قتل حسین سے بہت بڑی وارداتیں ہوئیں لیکن ان کے ہونے پر بھی آسمان و زمین وغیرہ میں یہ انقلاب نہ ہو ا ۔ آپ ہی کے والد ماجد حضرت علی بھی قتل کئے گئے جو بالاجماع آپ سے افضل تھے لیکن نہ تو پتھروں تلے سے خون نکلا اور کچھ ہوا ۔ حضرت عثمان بن عفان کو گھیر لیا جاتا ہے اور نہایت بےدردی سے بلاوجہ ظلم و ستم کے ساتھ انہیں قتل کیا جاتا ہے فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب کو صبح کی نماز پڑھاتے ہوئے نماز کی جگہ ہی قتل کیا جاتا ہے یہ وہ زبردست مصیبت تھی کہ اس سے پہلے مسلمان کبھی ایسی مصیبت نہیں پہنچائے گئے تھے لیکن ان واقعات میں سے کسی واقعہ کے وقت اب میں سے ایک بھی بات نہیں جو شیعوں نے مقتل حسین کی نسبت مشہور کر رکھی ہے ۔ ان سب کو بھی جانے دیجئے تمام انسانوں کے دینی اور دنیوی سردار سید البشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیجئے جس روز آپ رحلت فرماتے ہیں ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا اور سنئے جس روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوتا ہے اتفاقاً اسی روز سورج گہن ہوتا ہے اور کوئی کہہ دیتا ہے کہ ابراہیم کے انتقال کی وجہ سورج کو گہن لگا ہے ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم گہن کی نماز ادا کر کے فوراً خطبے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور فرماتے ہیں سورج چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت زندگی کی وجہ سے انہیں گہن نہیں لگتا اس کے بعد کی آیت میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ ہم نے انہیں فرعون جیسے متکبر حدود شکن کے ذلیل عذابوں سے نجات دی اس نے بنی اسرائیل کو پست و خوار کر رکھا تھا ذلیل خدمتیں ان سے لیتا تھا اور اپنے نفس کو تولتا رہتا تھا خودی اور خود بینی میں لگا ہوا تھا بیوقوفی سے کسی چیز کی حد بندی کا خیال نہیں کرتا تھا اللہ کی زمین میں سرکشی کئے ہوئے تھا ۔ اور ان بدکاریوں میں اس کی قوم بھی اس کے ساتھ تھی پھر بنی اسرائیل پر ایک اور مہربانی کا ذکر فرما رہا ہے کہ اس زمانے کے تمام لوگوں پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ہر زمانے کو عالم کہا جاتا ہے یہ مراد نہیں کہ تمام اگلوں پچھلوں پر انہیں بزرگی دی یہ آیت بھی اس آیت کی طرح ہے جس میں فرمان ہے آیت ( قَالَ يٰمُوْسٰٓي اِنِّى اصْطَفَيْتُكَ عَلَي النَّاسِ بِرِسٰلٰتِيْ وَبِكَلَامِيْ ڮ فَخُذْ مَآ اٰتَيْتُكَ وَكُنْ مِّنَ الشّٰكِرِيْنَ ١٤٤؁ ) 7- الاعراف:144 ) اس سے بھی یہی مطلب ہے کہ اس زمانے کی تمام عورتوں پر آپ کو فضیلت ہے اس لئے کہ ام المومنین حضرت خدیجہ ان سے یقینا افضل ہیں یا کم ازکم برابر ۔ اسی طرح حضرت آسیہ بنت مزاحم جو فرعون کی بیوی تھیں اور ام المومنین حضرت عائشہ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسی فضیلت شوربے میں بھگوئی روٹی کی اور کھانوں پر پھر بنی اسرائیل پر ایک اور احسان بیان ہو رہا ہے کہ ہم نے انہیں وہ حجت و برہان دلیل و نشان اور معجزات و کرامات عطا فرمائے جن میں ہدایت کی تلاش کرنے والوں کے لئے صاف صاف امتحان تھا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 آزمانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے انہیں دنیاوی خوشی، خوشحالی و فراغت سے نوازا اور پھر اپنا جلیل القدر پیغمبر بھی ان کی طرف ارسال کیا لیکن انہوں نے رب کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا اور نہ پیغمبر پر ایمان لائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] فرعونیوں کی باربار کی عہد شکنی :۔ یعنی وہ بھی انتہائی ہٹ دھرم اور عہد شکن لوگ تھے۔ جب ان پر کوئی عذاب آتا تو سیدنا موسیٰ سے التجا کرتے کہ اللہ سے دعا کرو ہم پر سے یہ عذاب ہٹا دے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ پھر جب سیدناموسیٰ کی دعا سے وہ عذاب دور ہوجاتا تو وہ پھر اکڑ جاتے۔ اور انہوں نے بار بار ایسی عہد شکنی کی تھی۔ یہ کفار مکہ بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ [١٢] یعنی ایسا رسول جو نہایت اعلیٰ اور بلند سیرت و کردار کا مالک تھا۔ مراد سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) ولقد فتنا قبلھم قوم فرعون : یعنی ان کفار مکہ سے پہلے ہم نے فرعون کی قوم کو آزمایا، کبھی وسعت اور فراخی دے کر اور کبھی کوئی عذاب بھیج کر۔ ان کا بھی یہی حال تھا کہ جب ان پر خوش حالی آتی تو کہتے، یہ ہمارے ہنر کا کمال ہے اور جب ان پر عذاب آتا تو اے موسیٰ (علیہ السلام) کی نحوست قرار دیتے، مگر پھر انھی سے درخواست کرتے کہ اپنے رب سے دعا کر، اگر اس نے یہ عذاب ہم سے ہٹا دیا تو ہم تجھ پر ایمان لے آئیں گے اور تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دیں گے۔ مگر جب ان کی دعا سے وہ عذاب دور ہوتا تو فوراً عہد توڑ ڈالتے۔ آخر انجام ان کا یہ ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی بد دعا سے ہم نے انھیں سمندر میں غرق کردیا۔ (دیکھیے اعراف :130 تا 136) مقصود ان آیات سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اور کفار کو عبرت دلانا ہے۔ (٢) وجآء ھم رسول کریم :” کریم “ کا لفظ کسی بھی چیز میں سے اعلیٰ درجے کی چیز پر بولا جاتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو کریم اس لئے فرمایا کہ وہ حسب نسب میں ان سب سے اونچے اور اخلاق وصفات میں نہایت بلند تھے اور اللہ کے ہاں اتنے عالی مرتبے والے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان سے کلام فرمایا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور ہم نے ان سے پہلے قوم فرعون کو آزمایا تھا اور (وہ آزمائش یہ تھی کہ) ان کے پاس ایک معزز پیغمبر (یعنی موسیٰ (علیہ السلام) آئے تھے (پیغمبر کے آنے سے آزمائش ہی ہوتی ہے کہ کون ایمان لاتا ہے اور کون نہیں لاتا اور انہوں نے آ کر فرعون اور فرعون کی قوم سے فرمایا) کہ ان اللہ کے بندوں (یعنی بنی اسرائیل کو ( جن کو تم نے طرح طرح کی تکالیف میں پھنسا رکھا ہے) میرے حوالے کردو ( اور ان سے دست بردار ہوجاؤ کہ میں جہاں اور جس طرح مناسب ہو ان کو آزاد کر کے رکھوں) میں تمہاری طرف (خدا کا) فرستادہ (ہو کر آیا) ہوں (اور) دیانتدار ہوں (کوئی بات وحی سے کمی بیشی نہیں کرتا ہوں جو حکم ہوتا ہے پہنچاتا ہوں پس تم کو ماننا چاہئے اور یہ (بھی فرمایا) کہ تم خدا سے سرکشی مت کرو (اور حق العباد کا امر تھا اور یہاں حق اللہ کا) میں تمہارے سامنے ایک واضح دلیل (اپنی نبوت کی) پیش کرتا ہوں (مراد اس سے معجزہ عصا و ید بیضاء ہے) اور (جب فرعون و اہل فرعون نے نہ مانا بلکہ باہم مشورہ آپ کے قتل کا ہوا اس وقت آپ نے سن کر فرمایا کہ) میں اپنے پروردگار اور تمہارے پروردگار کی پناہ لیتا ہوں اس سے کہ تم لوگ مجھ کو پتھر (وغیرہ) سے قتل کرو اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو تم مجھ سے الگ ہی رہو (یعنی مجھے تکلیف پہنچانے کے درپے مت ہو کیونکہ مجھ کو تو کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ مجھ سے اللہ کا وعدہ ہے (آیت) فلا یصلون الیکما۔ الخ لیکن تمہارا جرم اور شدید ہوجائے گا، اس لئے خیر خواہی سے کہتا ہوں کہ ایسا مت کرو۔ مگر وہ کب باز آتے تھے) تب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی کہ یہ بڑے سخت مجرم لوگ ہیں (جرم سے باز نہیں آتے، اب ان کا فیصلہ کر دیجئے۔ ارشاد ہوا کہ ہم نے دعا قبول کی اور ان کے فیصلہ کا وقت آ گیا) تو اب میرے بندوں (یعنی بنی اسرائیل) کو تم رات ہی رات میں لے کر چلے جاؤ (کیونکہ) تم لوگوں کا (فرعون کی طرف سے) تعاقب (بھی) ہوگا (اس لئے رات میں نکل جانے سے اتنی دور تو نکل جاؤ گے کہ یہ تعاقب کر کے تم کو پا نہ سکے) اور (اثنائے سفر میں جو دریا حائل ہوگا) تم اس دریا کو (اول عصا مارنا کہ وہ خشک ہو کر رستہ دے دے گا، پھر پار ہونے کے بعد جب اس کو اسی حالت پر دیکھو تو فکر نہ کرنا کہ اسی طرح فرعون بھی شاید پار ہوجائے گا بلکہ تم اس کو اسی) سکون کی حالت میں (یعنی پانی کے ہٹ جانے اور راستہ کے خشک ہوجانے سے دریا کی جو ہئیت پیدا ہوئی ہے اسی ہئیت پر) چھوڑ دینا (اور بےفکر رہنا، کیونکہ اس کے اس حالت میں رہنے کی یہ حکمت ہے کہ) ان (فرعونیوں) کا سارا لشکر (اس دریا میں) ڈبویا جاوے گا ( اس طرح کہ وہ اس میں گھسیں گے اور جب اس میں آ جاویں گے تو چہار طرف سے پانی آ ملے گا چناچہ ایسا ہی ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پار ہوگئے اور فرعونی غرق ہوئے اور) وہ لوگ کتنے ہی باغ اور (کتنے ہی) چشمے (یعنی نہریں) اور (کتنی ہی) کھیتیاں اور (کتنے ہی) عمدہ مکانات (اور کتنے ہی) آرام کے سامان جس میں وہ خوش رہا کرتے تھے چھوڑ گئے (یہ قصہ) اسی طرح ہوا اور ہم نے ایک دوسری قوم کو ان کا مالک بنادیا (مراد بنی اسرائیل ہیں) سو (چونکہ وہ نہایت مبغوض تھے اس لئے) نہ تو ان پر آسمان و زمین کو رونا آیا اور نہ ان کو (عذاب سے کچھ اور) مہلت دی گئی (یعنی اگر کچھ اور جیتے تو عذاب جہنم سے کچھ اور دن بچے رہتے) اور ہم نے (اس طرح) بنی اسرائیل کو سخت ذلت کے عذاب یعنی فرعون (کے ظلم و ستم) سے نجات دی۔ واقعی وہ (فرعون) بڑا سرکش (اور) حد (عبودیت) سے نکل جانیوالوں میں سے تھا (ایک نعمت تو بنی اسرائیل پر یہ ہوئی) اور (اس کے علاوہ) ہم نے بنی اسرائیل کو (اور بھی نعمتیں دے کر) اپنے علم (اور حکمت) کی رو سے (بعض امور میں تمام) دنیا جہان والوں پر (یا تمام امور میں ایک بڑے حصہ مخلوق پر مثلاً اس زمانے کے لوگوں پر) فوقیت دی اور (ان نعمتوں میں انعام ہونے کے علاوہ اللہ کی قدرت پر دلالت بھی تھی جس کا حاصل یہ ہے کہ) ہم نے ان کو (اپنی قدرت کی) ایسی (بڑی بڑی) نشانیاں دیں جن میں صریح انعام (پایا جاتا) تھا (یعنی جو احسان ان پر کیا گیا اس میں دو وصف پائے جاتے تھے، انعام ہونا بھی اور دلیل قدرت ہونا بھی۔ پھر بعض ان میں حسی نعمتیں تھیں جیسے فرعون سے نجات دلانا اور بعض معنوی تھیں جیسے علم و کتاب و مشاہدہ معجزات)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَہُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاۗءَہُمْ رَسُوْلٌ كَرِيْمٌ۝ ١٧ ۙ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے قریش سے پہلے فرعون اور اس کی قوم کو آزمایا تھا وہ یہ کہ ان کے پاس ایک معزز پیغمبر حضرت موسیٰ آئے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ { وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَہُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَآئَ ہُمْ رَسُوْلٌ کَرِیْمٌ} ” اور ہم نے آزمایا تھا ان سے پہلے قوم فرعون کو بھی ‘ اور ان کے پاس بھی ایک بہت معزز رسول آیا تھا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14 The words rasul-un karim in the original imply a man who is characterised with most noble traits of character and highly praiseworthy qualities.

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :14 اصل میں رَسُوْلٌ کَرِیْمٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ کریم کا لفظ جب انسان کے لیے بولا جاتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ بہترین شریفانہ خصائل اور نہایت قابل تعریف صفات سے متصف ہے ۔ معمولی خوبیوں کے لیے یہ لفظ نہیں بولا جاتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٧۔ ٢٣۔ اوپر ذکر تھا کہ قریش پر قحط کی آفت آئی تو انہوں نے اپنے بتوں کو چھوڑ کر خالص اللہ سے رفع قحط کی التجا کی اور جب اللہ نے اس بلا کو دفع کردیا تو وہ لوگ پھر وہی شرک کرنے لگے۔ قریش کی یہ حالت فرعون کی قوم کی حالت سے ملتی ہوئی تھی اس واسطے ان آیتوں میں فرعون اور اس کی قوم کا ذکر فرمایا۔ سورة یوسف میں گزر چکا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے مصر کے قیام کے زمانہ میں بنی اسرائیل اپنے اصلی وطن ملک شام کو چھوڑ کر مصر میں آ کر آباد ہوئے اب یوسف (علیہ السلام) کی وفات کے بعد فرعون بنی اسرائیل کو بڑی ذلت سے رکھتا تھا اس واسطے موسیٰ (علیہ السلام) کے نبی ہو کر مصر میں آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ حکم دیا تھا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے لے جا کر شام کے ملک میں بسا دو ۔ ان آیتوں میں وہی ذکر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کی قوم سے یہ درخواست کی کہ بنی اسرائیل کو موسیٰ (علیہ السلام) کے حوالہ کردیا جائے اسی درخواست کی تائید میں موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت دار رسول ہوں جس طرح مجھ کو اللہ کا حکم ہوتا ہے وہی میں تم لوگوں کو پہنچا دیتا ہوں اپنی طرف سے اس میں کچھ خیانت نہیں کرتا اور یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو مان لینے میں تم کو سرکشی مناسب نہیں کیونکہ اس سرکشی کے سب سے قحط کے طوفان کی ٹڈیوں وغیرہ کی آفتوں کو تو تم لوگ میری نبوت کی سند کے طور پر دیکھ چکے ہو۔ اب آئندہ اگر اپنی سرکشی سے باز نہ آؤگے تو تم پر کوئی بڑی آفت آجائے گی جو جو آفتیں قوم فرعون پر آئیں ان کا ذکر سورة اعراف میں گزر چکا ہے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کر ڈالنے کا ڈراوا جو دیا تھا اس کا جواب موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دیا کہ تیرے ظلم سے بچنے کے لئے مجھ کو اللہ تعالیٰ کی پناہ کا سہارا کافی ہے۔ آخر موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کی قوم سے یہ بھی کہا کہ اگر تم لوگ میری نبوت کو نہیں مانتے ہو تو مجھ سے کچھ مزاحمت نہ کرو میں بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے کر مصر سے چلا جاتا ہوں جب فرعون اور اس کی قوم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی کسی نصیحت کو نہ مانا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ شکایت کی کہ یا اللہ یہ گناہ گار قوم کے لوگ کسی طرح اپنی سرکشی سے باز نہیں آتے۔ اب مہلت کا زمانہ پورا ہوگیا اور عذاب الٰہی کے آجانے کے سوا اور کوئی موقع باقی نہ رہا اس لئے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر ایک رات مصر سے چلے جاؤ اور اسی حکم میں یہ بھی جتلا دیا کہ گھبرانا نہیں فرعون اور اس کے ساتھی تمہارا پیچھا کریں گے۔ یہ پیچھا کرنے کا قصہ سورة الشعرا میں گزر چکا ہے کہ جب فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے مصر سے چلے جانے کی خبرسنی تو بہت بڑا لشکر ساتھ لے کر ان کا پیچھا کیا اور دریائے قلزم کے قریب جب بنی اسرائیل کو فرعون کی فوج نظر آنے لگی تو بنی اسرائیل نے گھبرا کر موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اب ہم فرعون کے ہاتھ سے بچ نہیں سکتے کیونکہ ہمارے آگے دریا ہے اور پیچھے فرعون کی فوج دوڑم دوڑ چلی آتی ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ گھبراؤ نہیں ہمارے ساتھ ہمارا اللہ ہے وہ ہماری مدد کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو سچا کیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ تم اپنا عصا دریا کے پانی پر مارو حضرت ١ ؎ عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تھے اس واسطے عصا کے پانی پر مارتے ہی دریا میں بارہ راستے پیدا ہوگئے تفسیر سدی میں ١ ؎ ہے کہ ان پانی کی دیواروں میں جالیاں بھی پیدا ہوگئیں جن میں ہر ایک قبیلہ کے لوگ دوسرے قبیلہ کے لوگوں کو دیکھتے ہوئے ہنسی خوشی دریا سے پار ہوگئے۔ صحیح بخاری ٢ ؎ مسلم نسائی ابن ماجہ اور مسند امام احمد میں جو چند روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ کو آئے تو مدینہ کے گرد نواح میں جو یہود رہتے تھے ان کو عاشورے کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے سنا اس کا سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ آج ہی کے دن بنی اسرائیل صحیح وسالم دریائے قلزم سے پار ہوئے اور فرعون مع اپنے لشکر کے ڈوب کر ہلاک ہوا اللہ تعالیٰ کے اس احسان کے شکریہ میں موسیٰ (علیہ السلام) آج کے دن روزہ رکھا کرتے تھے وہی روزہ بنی اسرائیل میں چلا آتا ہے اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کہ اس سے بنی اسرائیل کے صحیح وسالم دریائے قلزم سے پار ہونے اور فرعون کے ڈوبنے کی تاریخ معلوم ہوتی ہے۔ (١ ؎ تفسیر ابن جریر طبری ص ٨٠ جز ١٩۔ ) (١ ؎ تفسیر ابن جریر طبری ص ٨٠ جز ١٠۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب صیام یوم عاشوراء ص ٢٦٨ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:17) ولقد فتنا۔ واؤ عاطفہ لام تاکید کا۔ قد کے دو فائدے ہیں :۔ (1) ماضی پر داخل ہوکر تحقیق کے معنی دیتا ہے۔ (2) ماضٰ کو زمانہی حال کے قریب کردیتا ہے۔ فتنا ماضی جمع متکلم فتنۃ باب ضرب مصدر۔ آزمانا۔ آزمائش میں ڈالنا۔ اور تحقیق ان سے قبل ہم نے ماضی قریب میں قوم فرعون کو آزمایا تھا۔ فتن کے اصل معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا معلوم ہوجائے اس لئے کسی کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلا قرآن مجید میں ہے یوم ہم علی النار یفتنون (51:13) جس سن ان کو آگ میں (ڈال کر) عذاب دیا جائے گا۔ نفس عذاب پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے مثلا ذوقوا فتنتکم (51:14) اپنے عذاب کا مزہ چکھو۔ قرآن مجید میں فتنہ اور اس کے مشتقات کو مختلف معانی کے لئے استعمال کیا گیا ۔ قبلہم۔ میں ہم ضمیر جمع مذکر غائب مشرکین مکہ کی طرف راجع ہے جن کا ذکر اوپر ہو رہا ہے۔ رسول کریم : عظیم الشان رسول (رسول کی تنوین تعظیم کے لئے ہے) کریم کرم سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ بزرگ۔ بڑا۔ عزت والا۔ شان والا۔ یہاں مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ جن کو خدا تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 17 تا 33 : فتنا ( ہم نے آزمایا) لا تعلوا (تم نہ چڑھو) اعتزلون ( تم مجھ سے دور ہٹ جائو) اسر (تو راتوں رات چل) رھوا ( ٹھہرا ہوا) جند ( لشکر) مابکت (نہ روئی ، نہ رویا) منظرین (مہلت دیئے گئے) اخترانا ( ہم نے پسند کیا) تشریح : آیت نمبر 17 تا 33 : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حق و صداقت کی سر بلندی اور ہدایت و تبلیغ میں ساری زندگی جدوجہد فرمائی فرعون اور آل فرعون نے جس طرح ان کی نافرمانی کی اس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی مختلف سورتوں میں عبرت و نصیحت کے لئے مختصر یا تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہاں ایک مرتبہ پھر حضرت موسیٰ کی زندگی کے ایک اور پہلو کو بیان کرکے کفار قریش کو آگاہ کیا گیا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرعون جیسے نافرمان اور عظیم سلطنت کے مالک فرعونیوں کو غرق کردیا تھا اور بےسرو سرمانی کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں کو کامیاب کر کے نجات عطاء کردی تھی اسی طرح نبی کریم حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ماننے والے صحابہ کرام (رض) بہت جلد کامیاب ہوجائیں گے اور دین اسلام کے منکرین اور مشرکین زبردست طریقے پر ناکام ونا مراد ہوں گے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جب ایک طویل مدت تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت و تبلیغ کی بھر پور کوششوں اور ہر طرح کے معجزات دیکھنے کے باوجود فرعون نے اپنے آپ کو سخت گناہ گار اور مجرم ثابت کردیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی تک کر ڈالی تب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے تو پوری قوم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے اللہ کے بندو ! تم اللہ کے مقابلے میں سر کشی اور نافرمانی اختیار نہ کرو ، میری بات مانو ، میرا حق ادا کرو ، مجھ پر ایمان لائو ، میری ہدایت کی پیروی کرو یہ اللہ کی طرف سے تم پر میرا حق ہے۔ تم مجھ پر زیادتی نہ کرو ، حملہ نہ کرو اگر تم نے مجھ پر حملہ کیا یا سنگسار ( پتھر مار کر ہلاک) کرنے کی کوشش کی تو یاد رکھو میں پہلے ہی اللہ رب العالمین کی پناہ مانگ چکا ہوں ۔ وہ میری حفاظت کرے گا اور تم ہزار کوششوں کے باوجود میرا کچھ نہ بگاڑ سکو گے ۔ البتہ نا فرمانیوں سے تم بد ترین انجام سے دو چار ضرور ہو جائو گے۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے کہا کہ تم اللہ کے بندوں ( بنی اسرائیل) کو میرے حوالے کر دو کیونکہ میں اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں ، دیانت دار رسول بھی ہوں اور اللہ کی نشانیاں (معجزات) بھی دکھا چکا ہوں ۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس بات کو جان لیا کہ فرعون اور آل فرعون پر ان کی نصیحتوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تب انہوں نے بارگاہ الٰہی میں عرض کردیا کہ اے میرے اللہ میں نے اس قوم کو ہر طرح سمجھایا مگر وہ اپنے جرم و گناہ میں اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ میری کسی بات کو سننے اور میری اطاعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ الٰہی ! آپ ان کے اور میرے درمیان فیصلہ فرما دیجئے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! آپ میرے اطاعت گزار بندوں کو رات کی تنہائیوں میں لے کر نکل جائیے۔ جب صبح فرعون کو اطلاع ہوگی تو وہ تمہارا پیچھا کرتے ہوئے اپنے لشکر کے ساتھ تمہاری طرف آئے گا اس وقت تم اپنے عصا کو پانی پر مارنا تمہارے لئے سمندر میں راستے بن جائیں گے اور بنی اسرائیل کو لے کر فلسطین کی طرف نکل جائیے گا اور دوبارہ عصا کو پانی پر نہ مار یئے گا اس سمندر کے راستوں کو اسی حالت پر چھوڑ دیجئے گا کیونکہ ہم نے فرعون اور اس کے ماننے والوں کو غرق کردینے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ چناچہ اللہ کے حکم کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عمل کیا ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والے اہل ایمان سمندر پار آگئے۔ جب فرعون نے ان سمندری راستوں میں اپنے لشکر کو اترنے کا حکم دیا اور وہ اس کے درمیان میں پہنچ گیا تو اللہ نے پانی کو پھر سے مل جانے کا حکم دیا جس سے فرعون اور اس کی پوری قوم پانی میں ڈوب کر ختم ہوگئی۔ اللہ نے فرمایا کہ فرعون اور آل فرعون کے سر سبز و شاداب باغات ، بہتے ہوئے خوبصورت چشمے ، ہری بھری کھیتیاں ، عیش و آرام کے لئے بنائے گئے بڑے بڑے محل اور مکانات اور آبادیاں ان کے کسی کام نہ آسکے اور پھر ہم نے ان کے راحت و آرام اور حکومت و سلطنت کے اسباب کا وارث بنی اسرائیل کو بنا دیا ۔ فرعون اور اس کی قوم کی اتنی بڑی تباہی اور بربادی پر نہ تو آسمان رویا اور نہ زمین روئی اور نہ وہ نافرمان لوگ اللہ کے سخت ترین عذاب سے بچ سکے ۔ اللہ نے ان آیات میں اس بات کو کھول کر بیان کردیا ہے کہ قوموں کا ابھرنا اور تباہ و برباد ہوجانا یہ سب کچھ اللہ کے فیصلے کے مطابق ہوتا ہے۔ اس موقع پر یہ نکتہ بھی بہت دلچسپ ہے کہ زمین و آسمان کا رونا محض ایک محاورہ ہی نہیں ہے بلکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندوں کے اس دنیا سے اٹھ جانے پر زمین و آسمان روتے ہیں چناچہ حضرت انس (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے آپ نے فرمایا کہ آسمان میں ہر بندے کے لئے دو دروازے ہیں ایک سے رزق اتارا جاتا ہے اور دوسرے دروازے سے اس کے اعمال ( کلام ، گفتگو عمل) اللہ کی بارگاہ میں پہنچائے جاتے ہیں جب اللہ کے کسی نیک بندے کا انتقال ہوتا ہے تو یہ دونوں دروازے اسے یاد کر کے روتے ہیں ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر مذکورہ آیت کی تلاوت بھی فرمائی۔ اسی طرح حضرت شریح ابن عبد حضرمی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مومن غریب الوطنی کی حالت میں ا انتقال کرتا ہے جس پر کوئی رونے والا نہیں ہوتا تو اس پر زمین و آسمان روتے ہیں ۔ اس موقع پر بھی آپ نے اسی مذکورہ آیت کی تلاوت فرمائی ( ابن کثیر) اب رہا یہ سوال کہ زمین و آسمان کس طرح روتے ہیں تو بات بالکل واضح ہے کہ ان کارونا ہماری طرح کا رونا نہیں ہے بلکہ اس کی صحیح کیفیت کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو زندگی بھر اپنے مال و دولت ، حکومت و اقتدار اور خوبصورت بلڈنگوں پر بےجا فخر و غرور کرتے ہیں اور اللہ کی نا فرمانیوں سے باز نہیں آتے ان پر زمین و آسمان بھی نہیں روتے لیکن اللہ کے نیک ، برگزیدہ اور پاکیزگی کے ساتھ زندگی گزارنے والے جب اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو زمین و آسمان ہی نہیں بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ ان کی جدائی پر روتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) ۔ (فائدہ) پیغمبر کے آنے سے آزمائش یہ ہوتی ہے کہ کون ایمان لاتا ہے اور کون نہیں لاتا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح مکہ والوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں عذاب میں مبتلا کیا اسی طرح ہی قوم فرعون کو مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے تمہاری طرف ایسا رسول بھیجا ہے جس طرح قوم فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔ لیکن فرعون نے اسے ماننے سے انکار کردیا تھا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اسے بڑے عذاب میں مبتلا کیا۔ (المزمل : ١٥، ١٦) ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس سے پہلے ایک معزز رسول کے ذریعے قوم فرعون کو آزمایا۔ اس کے رسول نے فرعون کو یہ بات کہی تھی کہ اللہ کے بندوں یعنی بنی اسرائیل کو میرے حوالے کر دو ۔ میں تمہارے لیے امین اور ذمہ دار رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی بغاوت نہ کرنا کیونکہ میں تمہارے پاس واضح دلیل لے کر آیا ہوں۔ اس مقام پر موسیٰ (علیہ السلام) کو کریم نبی کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں رؤف رحیم اور رحمت للعالمین کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عظیم اور طویل جدو جہد کو اس مقام پر اشارات کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔ ان کی طویل جدوجہد کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے قوم فرعون کی طرف معزز رسول طرف معزز رسول کو بھیجا اور اس نے اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا جس کی مختصر روئیداد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو فرعون کی طرف بھیجا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے سب سے پہلے فرعون اور اس کی قوم کو اللہ کی توحید کی دعوت دی اور اس کے ساتھ ہی اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ جب فرعون نے انہیں ماننے سے انکار کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے سامنے دو عظیم معجزے پیش فرمائے۔ مگر فرعون نے انہیں جادوگر کہہ کر ٹھکرا دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی عظیم اور طویل جدوجہد کے دوران فرعون کے ساتھ کئی معرکے ہوئے۔ مگر فرعون اور اس کی قوم موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں راہ راست پر لانے کے لیے ان پر کئی عذاب نازل کیے لیکن پھر بھی وہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ البتہ موسیٰ (علیہ السلام) کی جد وجہد کا یہ نتیجہ نکلا کہ بنی اسرائیل کے علاوہ فرعون کی قوم کے نوجوان اور کچھ سر کردہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے۔ جس کے رد عمل میں فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو رجم اور قتل کرنے کی دھمکی دی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس دھمکی کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مجھے تمہاری دھمکیوں کا کوئی ڈر نہیں کیونکہ میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آچکا ہوں۔ اگر تم مجھ پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں تو میرا راستہ چھوڑ دو ! مگر فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کا ایک دفعہ پھر قتل عام شروع کردیا۔ نہ معلوم یہ قتل عام کتنا عرصہ جاری رہا۔ بالآخر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور التجا کی کہ اے میرے رب ! یہ قوم جرائم میں آگے ہی بڑھتی جارہی ہے اس لیے آپ سے عاجزانہ التجا ہے ہے کہ اب انہیں تہس نہس کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی التجا قبول فرمائی اور انہیں مصر سے ہجرت کرجانے کا حکم دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے آخری دفعہ پھر فرعون کو توحید کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ میرا اور تمہارا رب ” اللہ “ ہے جس نے مجھے واضح دلائل اور بڑے بڑے معجزات کیساتھ تمہاری طرف بھیجا ہے۔ میں اسی کی طرف سے امانت دار رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ یعنی جو کچھ میں تمہیں کہہ رہا ہوں اس میں میری ذات کا کوئی عمل دخل نہیں اور جو کچھ تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں وہ پوری ذمہ داری سے پیش کررہا ہوں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی سرکشی چھوڑ کر اس کی تابعداری اختیار کرو یہی تمہارے لیے بہتری کا راستہ ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کی طرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی توحید سمجھانے کے ساتھ بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بڑے ہی معزز اور امانت دار رسول تھے۔ ٤۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو رجم کردینے دھمکی دی۔ ٥۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے واضح دلائل اور بڑے بڑے معجزات کے ساتھ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو توحید کی دعوت دی اور فرمایا کہ تمہیں اللہ کی سرکشی سے بازآنا چاہیے۔ ٦۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر تم ایمان نہیں لاتے تو میرا راستہ چھوڑ دو ۔ ٧۔ فرعون کے بےانتہا مظالم کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے مجرموں کی تباہی کی بدعا کی۔ تفسیر بالقرآن مجرم اقوام کی انبیائے کرام (علیہ السلام) کو دھمکیاں : ١۔ مشرکوں کی حضرت نوح (علیہ السلام) کو دھمکی اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کردیا جائے گا۔ (الشعراء : ١١٦) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ نے کہا اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا بس تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہوجا۔ (مریم : ٤٦) ٣۔ حکمران اور قوم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینک دیا۔ ( الانبیاء : ٦٨) ٤۔ قوم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو رجم کرنے کی دھمکی دی۔ (ہود : ٩١ ) ٥۔ مشرکوں کی حضرت لوط (علیہ السلام) کو دھمکی کہ اگر تو باز نہ آیا تو تمہیں شہر بدر کردیں گے۔ (الشعراء : ١٦٧) ٦۔ فرعون کی ایمانداروں کو دھمکیاں کہ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دوں گا اور تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھا دوں گا۔ (طٰہٰ : ٧١) ٧۔ فرعون کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دھمکی کہ میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ ( الدخان : ٢٠) ٨۔ فرعون نے اپنی قوم کو کہا کہ میرا راستہ چھوڑ دو کیونکہ میں موسیٰ کو قتل کرنا چاہتا ہوں۔ (المومن : ٢٦) ٩۔ مشرکوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم تجھے اور تیرے ساتھ ایمان لانے والوں کو شہر سے نکال دیں گے۔ (الاعراف : ٨٨) ١٠۔ یہودیوں نے اپنے طور پر عیسیٰ ( علیہ السلام) کو سولی پر لٹکایا لیکن اللہ تعالیٰ انہیں اپنے پاس اٹھا لیا۔ ( النساء : ١٥٧۔ ١٥٨) ١١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل اور ملک بدر کرنے کی سازش۔ (الانفال : ٣٠) ١٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی ہدایت سے پھیر دینے کی سازش۔ (البقرۃ : ١٠٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ١٧ تا ٣٣ اس وادی کے دروازے ہی پر یہ خوفناک اعلان لکھا ہوا ہے کہ یاد رکھو ، کسی قوم کی طرف رسول کا بھیجا جانا اس کی آزمائش ہوتی ہے۔ مکذبین کو یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ وقت بہت تھورا ہے ، اس میں تم تکذیب بھی کرسکتے ہو ، تکبر اور غرور بھی کرسکتے ہو۔ رسول کو ایذا بھی دے سکتے ہو ، تکبر اور غرور بھی کرسکتے ہو۔ رسول کو ایذا بھی دے سکتے ہو ، مومنین پر ظلم و ستم بھی ڈھا سکتے ہو لیکن آخر میں غرور کا سر نیچا ہوتا ہے اور تم جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طیش دلاتے ہو ، ان کا پیمانہ صبر لبریز کرتے ہو ، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدستور صبر کا پیکر بنے ہوئے ہیں اور تمہاری ہدایت ہی کے امیدوار ہیں ، اس کا انجام برا بھی ہو سکتا ہے اور تم فرعون کی طرح سخت پکڑ میں بھی آسکتے ہو۔ ولقد فتنا قبلھم قوم فرعون (٤٤ : ١٧) “ ہم اس سے قبل فرعون کی قوم کو اس آزمائش میں ڈال چکے ہیں ”۔ ان کو نعمتیں دے کر اور بادشاہت دے کر اور زمین میں نہایت ہی تمکنت دے کر آزما چکے ہیں۔ اور پھر خوشحالی ، دولت کے اسباب اور سر بلندی میں ان کو طویل مہلت بھی دی گئی : وجاءھم رسول کریم (٤٤ : ١٧) “ اور ان کے پاس ایک نہایت ہی شریف رسول آیا ”۔ اور یہ بھی آزمائش کا ایک پہو تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم نے ان سے کیا بات تسلیم کرنے کے لئے کہا تھا۔ آپ نے ان سے کوئی بات چیز اپنے لیے طلب نہ کی تھی۔ آپ ان کو اللہ کی طرف بلاتے تھے اور آپ کا مطالبہ یہ تھا کہ ہر بات اللہ کے لئے ادا کرو اور کوئی چیز بخل کرکے اللہ کے مقابلے میں اپنے لیے نہ رکھو۔ ان ادوا ۔۔۔۔۔ رسول امین (٤٤ : ١٨) وان لا تعلوا ۔۔۔۔۔ مبین (٤٤ : ١٩) وانی عذت ۔۔۔۔۔ ترجمون (٤٤ : ٢٠) وان لم ۔۔۔۔ فاعتزلون (٤٤ : ٢١) کہ “ اللہ بندو ! سب کچھ میرے حوالے کر دو ” یا “ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو ، میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ اللہ کے مقابلے میں سر کشی نہ کرو۔ میں تمہارے سامنے (اپنی ماموریت کی) صریح سند پیش کرتا ہوں اور میں اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ لے چکا ہوں ، اس سے کہ تم مجھ پر حملہ آور ہو۔ اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھ پر ہاتھ ڈالنے سے باز رہو ”۔ یہ ہے وہ مختصر دعوت جسے رسول کریم یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) لے کر آئے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ تم کلی طور پر اللہ کے سامنے سر تسلیم ختم کردو ، پوری ادائیگی کرو ، اور سب کچھ اللہ کے لئے دو ، جس کے تم بندے ہو ، بندوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اللہ کے مقابلے میں سرکشی کریں۔ یہ اللہ کی دعوت ہے اور ایک شریف رسول لے کر تمہارے پاس آیا ہے اور اس کے پاس رسول ہونے کی سند بھی ہے۔ ایک مضبوط اور قوی دلیل ہے۔ اگر کھلے دل سے غور کیا جائے تو ایسے براہین پر یقین آنا چاہئے۔ آپ ان کے تشدد کے مقابلے میں اللہ کی پناہ لیتے ہیں کہ وہ آپ کو پکڑ کر رجم کردیں۔ اگر وہ ایمان کا انکار کرتے ہیں اور رسول سے الگ ہوتے ہیں تو آپ ان کو یہ پیشکش کرتے ہیں کہ میں بھی تم سے علیحدہ ہوجاؤں گا۔ اور یہ ایک نہایت ہی منصفانہ بات ہے کہ اگر تم میری بات نہیں مانتے تو میری راہ نہ روکو۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے۔ ان ادوا الی عباد اللہ (٤٤ : ١٨) “ کہ اللہ کے بندوں (بنی اسرائیل ) کو میرے حوالے کر دو ” اور ان کو تشدد اور ظلم کا نشانہ نہ بناؤ۔ دوسری جگہ تصریح آئی ہے۔ ان ارسل معنا بنی اسرائیل ” یہ کہ ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دو “ ۔ لیکن سرکشوں نے کبھی بھی کسی کے معقول اور منصفانہ مطالبات نہیں مانے ۔ سرکش سچائی کو آزاد دیکھنا پسند نہیں کرتے کہ وہ سہولت کے ساتھ عوام تک پہنچ جائے ، چناچہ ہر سرکش سچائی کو اپنی گرفت میں لینا پسند کرتا ہے اور کبھی اس کے ساتھ مصالحت نہیں کرتا۔ کیونکہ سرکشوں اور سچائی کے درمیان اگر صلح ہوجائے تو پھر سچائی تو چھانے لگتی ہے۔ اور عوام کے دل و دماغ کو فتح کرتی چلی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باطل حق پر ہاتھ ڈالتا ہے۔ اہل حق کو رجم کرتا ہے۔ وہ حق کو الگ بھی رہنے نہیں دیتا کہ وہ صحیح سلامت اور آرام سے رہے۔ یہاں سیاق کلام میں قصے کی کئی کڑیوں کو مختصر کر کے پیش کیا گیا ہے تا کہ قارئین کو جلد انجام تک پہنچایا جائے ، جبکہ آزمائش انتہا کو پہنچ جائے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) محسوس کردیں کہ یہ لوگ دعوت کو ہرگز قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ اور نہ اس کے لئے تیار ہیں کہ ہمیں گوارا کر کے اپنا کام کرنے دیں۔ اور آپ کو معلوم ہوجائے کہ ان کی مجرمانہ ذہنیت بہت ہی گہری اور ٹھوس ہے اور ان کی اصلاح کی کوئی امید نہیں ہے۔ اور وہ اس ذہنیت کو چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ یہاں آکر پھر اپنے رب کے ہاں آخری پکار کرتے ہیں اور مکمل طور پر اس کی پناہ میں آجاتے ہیں۔ فدعا ربہ ان ھولاء قوم مجرمون (٤٤ : ٢٢) ” آخر کار انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ یہ لوگ مجرم ہیں “۔ آخرت ایک رسول اس کے سوا اور کیا کرسکتا ہے کہ وہ اپنی جدو جہد کی پوری کمائی لے کر اپنے رب کے دربار میں پیش کر دے اور اسے اللہ کے سامنے رکھ دے اور اگلا اقدام اللہ پر چھوڑ دے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے بارے میں جو تبصرہ اور رپورٹ کی تھی ، اللہ نے اسے قبول کرلیا کہ یہ درست ہے کہ یہ لوگ فی الواقع مجرم ہیں۔ فاسر بعبادی لیلا انکم متبعون (٤٤ : ٢٣) واترک البحر رھوا انھم جند مغرقون (٤٤ : ٢٤) ” اچھا تو راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑو تم لوگوں کا پیچھا کیا جائے گا۔ سمندر کو اس کے حال پر چھوڑ دے۔ یہ سارا لشکر غرق ہونے والا ہے “۔ السری اس سفر کو کہتے ہیں جو رات کے وقت ہو ، اس کے بعد ” لیلا “ کا لفظ منظر کو دوبارہ ذہن میں لاتا ہے کہ اللہ کے کچھ بندے بنی اسرائیل رات کے وقت سفر میں ہیں۔ یہ لفظ اس وقت راز داری کی فضا کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے ۔ کیونکہ ان کا یہ شبینہ سفر دراصل تھا ہی فرعون سے خفیہ اور حکومت کی لاعلمی سے تھا۔ ” الرہو “ کے معنی ہوتے ہیں سکون کے۔ یہاں اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ آپ اور آپ کی قوم گزر جائیں اور اپنے پیچھے سمندر کو سکون کی حالت میں چھوڑ دیں۔ ایسی ہی حالت پر جس میں آپ اس سے گزرے تا کہ فرعون اور اس کی فوج دھوکہ کھا کر تمہارا پیچھا کرے اور اس طرح اللہ کا حکم پورا ہوجائے۔ انھم جند مغرقون (٤٤ : ٢٤) ” یہ سارا لشکر غرق ہونے والا ہے “۔ یوں اللہ کی تقدیر کا فیصلہ اسباب ظاہریہ کے مطابق پورا ہوا ، اور یہ اسباب بھی در حقیقت اللہ کے فیصلے ہی کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہاں سیاق کلام میں فرعون کی غرقابی کے واقعات کو مجمل چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ بطور فیصلہ یہ کہہ دیا گیا کہ یہ غرق ہونے والا لشکر ہے۔ اب اس منظر کو چھوڑ کر اس پر تبصرہ کیا جاتا ہے اور یہ تبصرہ بھی ایک زبردست منظر ہے جو سرکش اور متکبر فرعون اور اس کے سرداروں کی زبوں حالی کی داستان ہے۔ یہی لوگ تھے جو اسے ظلم اور سرکشی پر آمادہ رکھتے تھے۔ ان کا ہلاک و برباد کرنا ، اللہ کے لئے کس قدر سہل رہا۔ اپنی اس حیثیت کے ساتھ وہ غرور کرتا تھا۔ اور اس کے یہ پیروکار اس پر نثار ہوتے تھے۔ حالانکہ یہ سب لوگ اس قدر چھوٹے اور اس قدر معمولی تھے کہ اس کائنات نے ان کی غرقابی کا کوئی احساس ہی نہ کیا۔ فرعون سے سب کچھ چھین لیا گیا اور کوئی رونے والا نہ تھا۔ کسی نے بھی اس کی اس بربادی پر مرتبہ نہ لکھا ، نہ زمین نے ، نہ آسمان نے۔ کم ترکوا من جنت وعیون (٤٤ : ٢٥) وزروع و مقام کریم (٤٤ : ٢٦) ونعمۃ کانوا فیھا فکھین (٤٤ : ٢٧) کذلک وارثنھا قوما اخرین (٤٤ : ٢٨) فما بکت علیھم ۔۔۔۔۔۔ منظرین (٤٤ : ٢٩) ” کتنے ہی باغ اور چشمے اور کھیت اور شاندار محل تھے جو وہ چھوڑ گئے ۔ کتنے ہی عیش کے سروسامان ، جن میں وہ مزے کر رہے تھے ، ان کے پیچھے دھرے رہ گئے۔ یہ ہوا ان کا انجام ، اور ہم نے دوسروں کو ان چیزوں کا وارث بنا دیا۔ پھر نہ آسمان ان پر رویا ، نہ زمین اور ذرا سی مہلت بھی ان کو نہ دی گئی “۔ اس منظر میں وہ انعامات بھی دکھائے گئے ہیں جن میں وہ داد عیش دیتے تھے۔ باغات ، چشمے ، قسم قسم کی زراعت ، بڑے بڑے محل ، جہاں ان کو بڑا اعزاز ملا ہوا تھا۔ ان نعمتوں میں کھاتے پیتے اور داد عیش دیتے تھے اور مسرور اور مست تھے۔ اس کے بعد ان سے یہ سب کچھ چھین لیا جاتا ہے اور دوسری اقوام کو ان کا وارث بنا دیا جاتا ہے اور دوسری جگہ یوں کہا گیا ہے۔ کذلک واورثنھا بنی اسرائیل ” یونہی ، اور وارث بنا دیا ہم نے ان چیزوں کا بنی اسرائیل کو “۔ بنی اسرائیل تو فرعون کی بادشاہت کے وارث نہ بنائے گئے تھے لیکن فلسطین میں ان کو زبردست عروج نصیب ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ اسی قسم کی نعمتوں کا ان کو وارث بنایا گیا جیسی فرعونیوں سے چھینی گئی تھیں۔ پھر کیا ہوا ، فرعون اور اس کے سردار نیست و نابود ہوگئے۔ ایک وقت تھا کہ اس زمین پر وہ لوگوں کی آنکھ کا تارا تھا اور لوگوں کے دلوں میں ان کا بےحد رعب تھا ، یا یہ وقت ہے کہ ان کے نیست و نابود ہونے پر کوئی آنکھ نہیں روئی۔ نہ آسمان کو اس احساس ہوا اور نہ زمین کو ، نہ ان کو مہلت ملی اور ان کے معاملے کو اٹھا کر رکھا گیا۔ فما بکت علیھم السماء والارض وما کانوا منظرین (٤٤ : ٢٩) ” نہ آسمان ان پر رویا اور نہ زمین اور ذرا سی مہلت بھی ان کو نہ دی گئی “۔ یہ ایک ایسا انداز تعبیر ہے جو ان کی کسمپری اور دنیا کی بےوفائی اور آنکھیں پھیر لینے کو ظاہر لینے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ سرکش اور مغرور لوگ اس دنیا سے چلے گئے اور ان کے لئے رونے والی آنکھ نہ زمین و آسمان میں کوئی نہ تاسف کا اظہار کرتا ، وہ اس طرح چلے گئے جس طرح کوئی چیونٹیوں کو روند ڈالے۔ جبکہ وہ اس قدر جبار وقہار تھے کہ انسانوں کو چیونٹیوں کی طرح روندتے چلے جاتے تھے۔ یہ کیوں ہوا ، اس لیے کہ یہ اس کائنات سے منقطع تھے۔ یہ پوری کائنات مسلم تھی اور یہ کافر تھے ، یہ خبیث ، دھتکارے ہوئے اور شریر لوگ تھے اور یہ پوری کائنات ان سے نفرت کرتی تھی۔ اس دنیا کے ڈکٹیٹر اگر ان باتوں کو سمجھتے اور ان ہدایات کو اپناتے جو ان آیات میں ہیں تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ وہ اس کائنات میں کتنے ہلکے ہیں اور اللہ کے ہاں وہ کس قدر ہلکے ہیں ۔ اور ان کو یہ معلوم ہوتا کہ وہ اس زمین پر نہایت ہی تنہا ، دھتکارے ہوئے اور پوری کائنات اور خالق کائنات سے کٹے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں ، یہ کیوں اس لیے کہ وہ ایمانی رابطوں سے کٹے ہوئے اور مجرم ہیں۔ اور ان کے ان برے دنوں کے مقابلے میں اہل ایمان کی عزت اور تکریم : ولقد نجینا۔۔۔۔۔ المھین (٤٤ : ٣٠) من فرعون ۔۔۔۔۔ المسرفین (٤٤ : ٣١) ولقد اخترنھم علم علی العلمین (٤٤ : ٣٢) واتینھم من الایت ما فیہ بلوا مبین (٤٤ : ٣٣) ” اس طرح بنی اسرائیل کو ہم نے سخت ذلت کے عذاب ، فرعون سے نجات دی جو حد سے گزر جانے والوں میں فی الواقع بڑے اونچے درجے کا آدمی تھا ، اور ان کی حالت جانتے ہوئے ان کو دنیا کی دوسری قوموں پر ترجیح دی ، اور انہیں ایسی نشانیاں دکھائیں جن میں صریح آزمائش تھی “۔ یہاں توہین آمیز عذاب سے بنی اسرائیل کی نجات کا ذکر ہے۔ جبکہ یہ عذاب دینے والے جباروں کو نیست و نابود کردیا گیا ۔ جو کبرو غرور کرنے والے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والے تھے۔ من فرعون انہ کان عالیا من المسرفین (٤٤ : ٣١) ” فرعون سے جو حد سے گزرنے والوں میں فی الواقع اونچے درجے کا آدمی تھا “۔ اس کے بعد اس بات کا ذکر ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو دوسری قوموں پر ترجیح دی اور ان کی حقیقت کو جانتے ہوئے دی۔ ان کی اچھائی بھی ہماری نظروں میں تھی اور ان کا شر بھی ہماری نظروں میں تھا۔ اس لیے ان کو اپنے دور میں تمام اقوام پر سربلند کردیا ، کیونکہ اللہ کو معلوم تھا کہ اپنے زمانے کی اقوام میں یہ اعلیٰ و افضل اور برتر ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنی نصرت ، اور امداد سے اس قوم کو بھی نوازتا ہے جو اپنے اہل زمانہ سے افضل ہوتے ہیں۔ اگرچہ وہ لوگ ایمان و یقین میں اعلیٰ معیار تک نہ پہنچے ہوئے ہیں۔ بشرطیکہ ان کی قیادت اچھی ہو اور ان کو ہدایت ، علم اور بصیرت کے ساتھ اور ثابت قدمی کے ساتھ بلندی کی طرف لے جارہی ہو۔ واتینھم من الایت ما فیہ بلؤا مبین (٤٤ : ٣٣) ” اور انہیں ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح آزمائش تھی “۔ اس طرح ان نشانیوں کے ذریعہ ان کو آزمایا گیا ۔ جب ان کا امتحان اور ان کی آزمائش پوری ہوگئی اور ان کی خلافت اور اقوام عالم پر ترجیح کا زمانہ ختم ہوگیا تو ان کے انحراف اور گمراہی کی وجہ سے ان کو پکڑا گیا اور ان پر دوسری اقوام کو مسلط کردیا گیا ، پھر ان کو بار بار ملک بدری کا سامنا کرنا پڑا اور خواری لکھ دی گئی اور ان کو کہہ دیا گیا کہ جب بھی تم حد سے بڑھے اور سرکشی اختیار کی تو تمہیں ذلیل و خوار کیا جائے گا۔ یہ حالت تمہاری قیامت تک ہوگی۔ ٭٭٭ فرعون اور اس کے سرداروں کی ہلاکت خیز سفر کے مشاہدات کے بعد جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کو بات دی گئی اور اس کے ان کو آزمایا گیا۔ اب دوبارہ مشرکین کے عقیدہ بعث بعد الموت کی طرف بات کا رخ ہوتا ہے۔ یہ لوگ مرنے کے بعد اٹھائے جانے میں شک کرتے تھے بلکہ انکار کرتے تھے۔ اس موضوع کو دوبارہ اس زاویہ سے لیا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد اٹھایا جانا اس کائنات کے اصل نقشے کا حصہ ہے کیونکہ یہ حق ہے اور اس کائنات کا وجود ہی حق پر ہے اور حق کا تقاضا ہے کہ موت کے بعد لوگوں کو اٹھایا جائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قوم فرعون کے پاس اللہ تعالیٰ کا رسول آنا، اور نافرمانی کی وجہ سے ان لوگوں کا غرق ہونا، بنی اسرائیل کا فرعون سے نجات پانا اور انعامات ربانیہ سے نوازا جانا ان آیات میں فرعون کی نافرمانی کا اور بطور سزا لشکروں سمیت سمندر میں ڈوب جانے کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ ہم نے ان سے یعنی قریش مکہ سے پہلے قوم فرعون کو آزمایا ان کے پاس رسول کریم یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائے۔ جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مکرم و معظم تھے انہوں نے فرعون سے اور اس کی جماعت سے کہا کہ بنی اسرائیل کو تم دکھ تکلیف دیتے ہو انہیں مصیبت میں مبتلا کر رکھا ہے ان اللہ کے بندوں کو تم میرے حوالے کردو اور میرے ساتھ بھیج دو میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے میں اس کا رسول امین ہوں تم سے یہ بھی کہتا ہوں کہ سرکشی نہ کرو۔ اللہ کے مقابلے میں مت آؤ۔ اس کی اطاعت کرو میں تمہارے پاس واضح دلیل یعنی معجزات کثیرہ لے کر آیا ہوں۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تبلیغ فرمائی اور حق بات پہنچائی تو فرعون اور اس کی جماعت نے ان کے قتل کے مشورے شروع کردئیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اس سے اپنے رب کی پناہ لیتا ہوں کہ تم مجھے سنگسار کرو یعنی مجھے پتھروں سے مار کر ہلاک کرو۔ مزید فرمایا کہ اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو کم از کم یہ کرو کہ مجھ سے دور رہو مجھے کسی قسم کی تکلیف مت پہنچاؤ کیونکہ اس سے تمہارا جرم اور زیادہ شدید ہوجائے گا وہ لوگ ہدایت پر نہ آئے اور سرکشی کرتے رہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی کہ یہ لوگ مجرم ہیں ان کو سزا دی جائے اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر روانہ ہوجاؤ آبادی سے نکل جاؤ اور سمندر کی راہ لے لو جب تم روانہ ہوجاؤ گے تو تمہارا پیچھا کیا جائے گا یعنی فرعون اور اس کا لشکر تمہارے پیچھے آپہنچے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر رات کے وقت روانہ ہوگئے، فرعون کو پتہ چلا تو وہ بھی اپنے لشکروں کو لے کر ان کے پیچھے چل دیا اللہ تعالیٰ شانہٗ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلے سے ہی ہدایت کردی تھی کہ جب سمندر پر پہنچو تو سمندر میں اپنی لاٹھی مار دینا اس کا معجزہ والا اثر یہ ہوگا کہ پانی رک جائے گا اور جگہ خشک ہوجائے گی اور اس میں راستے نکل آئیں گے تم اس سمندر کو اس کی حالت پر ٹھہرا چھوڑ کر پار ہوجانا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا کہ ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں راستے بن گیا جگہ خشک ہوگئی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے ساتھ ان راستوں میں داخل ہوگئے اور سمندر اپنی ہیبت اور حالت پر سکون کے ساتھ ٹھہرا ہوا رہ گیا پیچھے سے فرعون اپنے لشکر کو لے کر آیا اور بنی اسرائیل کے پیچھے اپنی فوجیں ڈال دیں بنی اسرائیل پار ہوگئے اور فرعون اپنے لشکروں سمیت ڈوب گیا سمندر میں راستے بن جانے کی وجہ سے جو قرار و سکون ہوگیا تھا، اللہ تعالیٰ نے اسے دور فرما دیا پانی آپس میں مل گیا جیسا کہ پہلے ہی فرما دیا تھا جو راستے بن گئے تھے وہ ختم ہوگئے اور فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہوگیا اسی کو فرمایا ﴿ وَ اتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا ١ؕ اِنَّهُمْ جُنْدٌ مُّغْرَقُوْنَ ٠٠٢٤﴾

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ ” ولقد فتنا “ تا ” مافیہ بلاء مبین “ یہ تخویف دنیوی کا ایک نمونہ ہے۔ اور ” فارتقب یوم الخ “ سے متعلق ہے جس طرح ان سے پہلے فرعون اور اس کی قوم کو دنیا ہی میں سرکشی کی سزا ملی اسی طرح ان کو بھی دنیا میں سزا ملے گی۔ ان سے پہلے ہم نے فرعون اور اس کی قوم کو آزمایا یعنی اپنے احکام کی اطاعت کا حکم دیا اور ان کے پاس ایک نہایت معزز رسول یہ پیغام لے کر آیا کہ اے اللہ کے بندو، جو حقوق تم پر واجب ہیں میری طرف ادا کرو۔ اس صورت میں عباد اللہ منادی ہوگا اور حرف ندا مقدر ہوگا۔ حقوق واجبہ سے ایمان اور قبول دعوت مراد ہے۔ ادوا الی ھق اللہ تعالیٰ من الایمان و قبول الدعوۃ یا عباد اللہ علی ان مفعول (ادو) محذوف وعباد منادی (روح ج 25 ص 121) ۔ یا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو اس صورت میں عباد اللہ، ادوا کا مفعول ہوگا اور اس سے مراد وہ اسرائیلی ہیں جنہیں قوم فرعون نے غلام بنا رکھا تھا اطلقوھم وسلم وھم الی، والمراد بھم بنو اسرائیل الذین کان فرعون مستعبدھم (ایضا) انی لکم رسول امین۔ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور اس کی وحی پر امین ہوں، اس لیے میری پند و نصیحت کو قبول کرو اور مسئلہ توحید کو مان لو اور سرکشی اور غرور و استکبار نہ کرو اور اللہ کے احکام مت ٹھکراؤ۔ میں تمہارے پاس ایسے دلائل واضحہ لے کر آیا ہوں جو میرے دعوے کی سچائی کا کھلا ثبوت ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) اور بلاشبہ ہم نے ان لوگوں سے پہلے فرعون کی قوم کو جانچا اور آزمایا تھا اور ان کے پاس ایک معزز اور گرامی قدر رسول پیغام لے کر آیا تھا۔