Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 28

سورة الدخان

کَذٰلِکَ ۟ وَ اَوۡرَثۡنٰہَا قَوۡمًا اٰخَرِیۡنَ ﴿۲۸﴾

Thus. And We caused to inherit it another people.

اسی طرح ہوگیا اور ہم نے ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنا دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Thus (it was)! And We made other people inherit them. (namely the Children of Israel).

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 بعض کے نزدیک اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں۔ لیکن بعض کے نزدیک بنی اسرائیل کا دوبارہ مصر آنا تاریخی طور پر ثابت نہیں، اس لئے ملک مصر کی وارث کوئی اور قوم بنی، بنی اسرائیل نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠] یہ دوسری قوم کون تھی جو فرعون اور اٰل فرعون کے محلات، باغات، چشموں اور کھیتوں کی وارث بنی تھی ؟ اس کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بنی اسرائیل ہی کے کچھ لوگ مصر میں باقی رہے گئے تھے۔ جو فرعون اور آل فرعون کے اقتدار کے خاتمہ کے بعد ان چیزوں کے وارث بن گئے تھے۔ اور بعض کا خیال ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے علاوہ کوئی اور لوگ تھے۔ قرآن کریم سے دو باتوں کی تائید ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ یہاں بھی (قَوْمًا اٰخَرِیْنَ ) کے الفاظ دوسری صورت کی تائید کرتے ہیں۔ نیز تاریخ سے بھی فرعون کی غرقابی کے بعد مصر میں بنی اسرائیل کی حکومت ثابت نہیں ہوتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَأَوْرَ‌ثْنَاهَا قَوْمًا آخَرِ‌ينَ And We made other people inherit all this.|" (44:28) In Surah Shu&ara&, it is explicitly stated that &other people& refers to the Children of Israel. It is objected that there is no historical evidence to show that the Children of Israel ever settled again in Egypt. This objection has been rebutted in Surah Shu` ara&.

(آیت) وَاَوْرَثْنٰهَا قَوْمًا اٰخَرِيْنَ (اور ہم نے ان کا وارث ایک دوسری قوم کو بنادیا) سورة شعراء میں تصریح ہے کہ اس ” دوسری قوم “ سے مراد بنی اسرائیل ہیں اور اس پر جو مشہور اشکال ہوتا ہے کہ مشہور تواریخ سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بنی اسرائیل دوبارہ مصر میں آباد ہوئے، اس کا جواب بھی سورة شعراء کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَذٰلِكَ۝ ٠ ۣ وَاَوْرَثْنٰہَا قَوْمًا اٰخَرِيْنَ۝ ٢٨ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ ورث الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي : أصله وبقيّته، قال الشاعر : 461- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً : قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون/ 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ [ مریم/ 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة ( ور ث ) الوارثۃ ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔ وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ہم نے ان کے ساتھ اسی طرح کیا اور ان کے بعد بنی اسرائیل کو ان چیزوں کا مالک بنا دیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ { کَذٰلِکَقف وَاَوْرَثْنٰہَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ } ” یوں ہی ہوا ‘ اور ہم نے وارث بنا دیا ان چیزوں کا دوسرے لوگوں کو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24 Hadrat Hasan Basri says that "others" here implies the children of Israel, whom Allah made heirs of the land of Egypt after Pharaoh's people, and Qatadah says it implies the other people who inherited Egypt after the people of Pharaoh, for the Histories do not make any mention that the Israelites ever returned to Egypt after the exodus and inherited it. This same point has been disputed by the later commentators also. (For a detailed discussion, see AshShua'ra: 57-59 and the E.N.'s on it).

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :24 حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کے بعد مصر کی سرزمین کا وارث بنا دیا ۔ اور قتادہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد دوسرے لوگ ہیں جو آل فرعون کے بعد مصر کے وارث ہوئے ، کیونکہ تاریخوں میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں ملتا کہ مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل کبھی وہاں واپس گئے ہوں اور وہاں اس زمین کے وارث ہوئے ہوں یہی اختلاف بعد کے مفسرین میں بھی پایا جاتا ہے ۔ ( تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، الشعراء ، حاشیہ ٤۵ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:28) کذلک : ای الامر کذلک۔ یہ قصہ ایسے ہی واقع ہوا۔ (حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی دریائے قلزم کے پار گزر گئے۔ اور فرعون اور اس کا لشکر اسی دریا میں غرق ہوگئے۔ اور ثتھا : ادرثنا ماضی جمع متکلم ایراث (افعال) مصدر۔ بمعنی وارث بنانا۔ میراث میں دینا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث مفعول اول۔ کا مرجع وہ نعمتیں اور چیزیں ہیں جو فرعون اور اس کا لشکر پیچھے چھوڑ کر غرق ہوگئے تھے۔ قوم اخرین : موصوف و صفت مل کر مفعول ثانی۔ اور ہم نے وہ نعمتیں اور سامان عشرت دوسرے لوگوں کو میراث میں دے دیا۔ قوم اخرین کے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں :۔ (1) اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں۔ (2) اس سے مراد وہ قبطی لوگ ہیں جو غرق ہونے والے لوگوں کے بعد ان چیزوں کے وارث بنے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 دوسرے لوگوں کا لفظ اگرچہ عام ہے اور اسی لئے بعض مفسرین (رح) نے ان سے مصر کے دوسرے لوگ مراد لئے ہیں، لیکن صحیح یہ ہے کہ ان سے ماراد بنی اسرائیل ہی ہیں جیسا کہ سورة شعراء میں ہے ( کذلک و اور ثنا ھا بنی اسرائیل) اسی طرح اور ہم نے بنی اسرائیل کو اس کا وارث بنادیا) آیت 59) نیز دیکھئے سورة اعراف ( آیت 138) شاہ صاحب (رح) بھی لکھتے ہیں، بعض بنی اسرائیل کو جیسے سورة شعراء سے معلوم ہوتا ہے فرعون کے غرق ہوئے پیچھے بنی اسرائیل کا دخل ہوا مصر میں۔ ( موضح) ایک مطلب یہ بھی ممکن ہے کہ فراعنہ کی شان و شوکت کا وارث بنی اسرائیل کو بنایا، واللہ اعلم۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مراد بنی اسرائیل ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ كَذٰلِكَ ١۫ ﴾ (یہ اسی طرح ہوا) ﴿وَ اَوْرَثْنٰهَا قَوْمًا اٰخَرِيْنَ ٠٠٢٨﴾ (اور ان چیزوں کا وارث دوسری قوموں کو بنا دیا، دوسری قوم سے بنی اسرائیل مراد ہے جیسا کہ سورة الشعراء میں ﴿ وَ اَوْرَثْنَا بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ ﴾ فرمایا ہے۔ اس کے بارے میں ضروری بحث سورة شعراء کی آیات بالا کی تفسیر میں دیکھ لی جائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(28) ہم نے اسی طرح کیا اور ہم نے ان سب چیزوں کا وارث ایک دوسری قوم کو بنادیا۔ یعنی فرعونی غرق کردیئے گئے اور کتنے ہی باغات اور چشمے اور کھیتیاں اور محلات اور بڑی بڑی کوٹھیاں اور بارہ دریاں اور سامان عیش و عشرت جن میں وہ بیٹھ کر مزے اڑاتے تھے سب چھوڑ گئے اور یہ تمام سامان دوسروں کے قبضے میں آگیا۔ یعنی بنی اسرائیل اس سب کے وارث ہوگئے یہ دوسری بات ہے کہ اسی حادثے کے بعد بنی اسرائیل وارث ہوئے یا کچھ عرصے کے بعد زمین مصر کے وارث ہوئے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی بنی اسرائیل کو جیسا کہ سورة شعراء میں ہے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کے غرق ہوئے پیچھے بنی اسرائیل کا دخل ہوا مصر میں۔ یعنی تصرف کا حق ہوگیا اور تمکین فی التصرف حاصل ہوگیا خواہ واپسی کچھ دنوں کے بعد ہوئی بہرحال مصر کے اندرونی معاملات میں دخل ہوگیا اس مسئلے میں بعض مفسرین میں اختلاف تھا جیسے حضرت حسن اور حضرت قتادہ حمہا اللہ تعالیٰ ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) کے لفظ دخل نے دونوں قولوں کو جمع کردیا۔