Surat ud Dukhaan

Surah: 44

Verse: 31

سورة الدخان

مِنۡ فِرۡعَوۡنَ ؕ اِنَّہٗ کَانَ عَالِیًا مِّنَ الۡمُسۡرِفِیۡنَ ﴿۳۱﴾

From Pharaoh. Indeed, he was a haughty one among the transgressors.

۔ ( جو ) فرعون کی طرف سے ( ہو رہی ) تھی ۔ فی الواقع وہ سرکش اور حد سے گزر جانے والوں میں سےتھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And indeed We saved the Children of Israel from the humiliating torment from Fir`awn; verily, he was arrogant and was of the excessive. Here Allah reminds them of how He saved them from their humiliation and subjugation at the hands of Fir`awn, when they were forced to do menial tasks. إِنَّهُ كَانَ عَالِيًا مِّنَ الْمُسْرِفِينَ (verily, he was arrogant), means, he was proud and stubborn. This is like the Ayah: إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَ فِى الاٌّرْضِ Verily, Fir`awn exalted himself in the land, (28:4) فَاسْتَكْبَرُواْ وَكَانُواْ قَوْماً عَـلِينَ but they behaved insolently and they were people self-exalting, (23:46) He was one of the excessive and held a foolish opinion of himself. وَلَقَدِ اخْتَرْنَاهُمْ عَلَى عِلْمٍ عَلَى الْعَالَمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] یعنی فرعون کی ذات ہی بنی اسرائیل کے حق میں مجسم عذاب بنی ہوئی تھی جس کا ہر وقت کام یہ سوچنا ہوتا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ رسوا کن سزائیں کیسے دے سکتا ہے ؟ [٢٣] یعنی حد سے بڑھنے والے تو اور بھی بہت سے لوگ تھے۔ ایسے لوگوں میں بھی فرعون کا سر سب سے اونچا تھا۔ جس کی حکومت اپنے دور میں سب سے بڑی اور مستحکم تھی۔ جس کا خاندان اپنے آپ کو سورج بنسی خاندان سے منسوب کرتا تھا اور جو اپنی رعایا کا قانونی اور سیاسی خدا بنا ہوا تھا اور ایسی خدائی کا دھڑلے سے دعویٰ بھی رکھتا تھا۔ اس نے جب اللہ کے رسول کو جھٹلایا اور اس کی مخالفت پر اتر آیا تو اے کفار مکہ ! تم نے اس کا حشر دیکھ لیا اور تم تو اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں اپنی چھوٹی چھوٹی قبائلی سرداریوں پر اتراتے پھرتے ہو۔ تم اگر وہی فرعون والی سرکشی کی راہ اختیار کرو گے تو اپنا انجام خود سوچ لو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) من فرعون : وہ عذاب کیا تھاڈ وہ فرعون تھا، اس کی ذات ہی بنی اسرائیل کے لئے مجسمہ عذاب تھی۔ (٢) انہ کان عالیاً من المسرفین : اس کی سرکشی اور زیادتی کے لئے دیکھیے سورة قصص کی آیت (٤) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مِنْ فِرْعَوْنَ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ كَانَ عَالِيًا مِّنَ الْمُسْرِفِيْنَ۝ ٣١ فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ علا العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی: عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] . وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] ( ع ل و ) العلو کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان/ 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص/ 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔ سرف السَّرَفُ : تجاوز الحدّ في كلّ فعل يفعله الإنسان، وإن کان ذلک في الإنفاق أشهر . قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] ، وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] ، ويقال تارة اعتبارا بالقدر، وتارة بالکيفيّة، ولهذا قال سفیان : ( ما أنفقت في غير طاعة اللہ فهو سَرَفٌ ، وإن کان قلیلا) قال اللہ تعالی: وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] ، وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] ، أي : المتجاوزین الحدّ في أمورهم، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] ، وسمّي قوم لوط مسرفین من حيث إنهم تعدّوا في وضع البذر في الحرث المخصوص له المعنيّ بقوله : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] ، وقوله : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ، فتناول الإسراف في المال، وفي غيره . وقوله في القصاص : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] ، فسرفه أن يقتل غير قاتله، إمّا بالعدول عنه إلى من هو أشرف منه، أو بتجاوز قتل القاتل إلى غيره حسبما کانت الجاهلية تفعله، وقولهم : مررت بکم فَسَرِفْتُكُمْ أي : جهلتكم، من هذا، وذاک أنه تجاوز ما لم يكن حقّه أن يتجاوز فجهل، فلذلک فسّر به، والسُّرْفَةُ : دویبّة تأكل الورق، وسمّي بذلک لتصوّر معنی الإسراف منه، يقال : سُرِفَتِ الشجرةُ فهي مسروفة . ( س ر ف ) السرف کے معنی انسان کے کسی کام میں حد اعتدال سے تجاوز کر جانے کے ہیں مگر عام طور پر استعمال اتفاق یعنی خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرجانے پر ہوتا پے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیچا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں ۔ وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے ( یعنی بڑی ہو کہ تم سے اپنا کا مال واپس لے لیں گے ) اسے فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ اور یہ یعنی بےجا سرف کرنا مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے بولاجاتا ہے چناچہ حضرت سفیان ( ثوری ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں ایک حبہ بھی صرف کیا جائے تو وہ اسراف میں داخل ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] اور بےجانہ اڑان کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں ۔ یعنی جو اپنے امور میں احد اعتدال سے تجاوز کرتے ہیں إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جا حد سے نکل جانے والا ( اور ) جھوٹا ہے ۔ اور قوم لوط (علیہ السلام) کو بھی مسرفین ( حد سے تجاوز کرنے والے ) کیا گیا ۔ کیونکہ وہ بھی خلاف فطرف فعل کا ارتکاب کرکے جائز حدود سے تجاوز کرتے تھے اور عورت جسے آیت : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ میں حرث قرار دیا گیا ہے ۔ میں بیچ بونے کی بجائے اسے بےمحل ضائع کر ہے تھے اور آیت : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ( اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدد کہ ) اے میرے بندو جہنوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی میں اسرفوا کا لفظ مال وغیرہ ہر قسم کے اسراف کو شامل ہے اور قصاص کے متعلق آیت : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] تو اس کا چاہئے کہ قتل ( کے قصاص ) میں زیادتی نہ کرے ۔ میں اسراف فی القتل یہ ہے کہ غیر قاتل کو قتل کرے اس کی دو صورتیں ہی ۔ مقتول سے بڑھ کر باشرف آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کرے ۔ یا قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرے جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا ۔ عام محاورہ ہے ۔ کہ تمہارے پاس سے بیخبر ی میں گزر گیا ۔ تو یہاں سرفت بمعنی جھلت کے ہے یعنی اس نے بیخبر ی میں اس حد سے تجاوز کیا جس سے اسے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا اور یہی معنی جہالت کے ہیں ۔ السرفتہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو درخت کے پتے کھا جاتا ہے ۔ اس میں اسراف کو تصور کر کے اسے سرفتہ کہا جاتا ہے پھر اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سرفت الشجرۃ درخت کرم خور دہ ہوگیا ۔ اور ایسے درخت کو سرقتہ ( کرم خوردہ ) کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ { مِنْ فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ کَانَ عَالِیًا مِّنَ الْمُسْرِفِیْنَ } ” یعنی فرعون سے ‘ یقینا وہ بڑا ہی سرکش ‘ حد سے نکل جانے والوں میں سے تھا۔ “ ایک طرف تو وہ معصیت کے ارتکاب میں حد سے بڑھا ہوا تھا اور دوسری طرف اس کی سرشت میں سرکشی بھی بہت تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 That is, Pharaoh by himself was an abasing torment for them and aII other torments wen indeed offshoots of the same great torment . 27 There is a subtle satire in it on the chiefs of the disbelieving Quraish. It means to say this: "You do not enjoy any place of distinction among the transgressors against AIlah. Pharaoh indeed was a rebel of the highest order who was ruling on the throne of the largest kingdom of the time as a god. When he was swept away like straw, how can you prevent the Divine wrath?"

سورة الدُّخَان حاشیہ نمبر :27 اس میں ایک لطیف طنز ہے کفار قریش کے سرداروں پر ۔ مطلب یہ ہے کہ حد بندگی سے تجاوز کرنے والوں میں تمہارا مرتبہ اور مقام ہی کیا ہے ۔ بڑے اونچے درجے کا سرکش تو وہ تھا جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے تحت خدائی کا روپ دھارے بیٹھا تھا ۔ اسے جب خس و خاشاک کی طرح بہا دیا گیا تو تمہاری کیا ہستی ہے کہ قہر الٰہی کے آگے ٹھہر سکو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(44:31) من فرعون : العذاب سے بدل ہے بحذف مضاف ان من عذاب فرعون۔ عالیا۔ سرکش ، متکبر۔ جبر کرنے والا۔ اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ منصوب بوجہ خبرکان علو باب نصر مصدر۔ علو مادہ۔ من المسرفین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ اسراف (افعال) مصدر ۔ حد اعتدال سے آگے بڑھنے والے۔ بیہودہ صرف کرنے والے۔ حد حلال سے حرام کی طرف بڑھنے والے۔ شر اور فساد میں آگے بڑھنے والے۔ یہ یا تو کان کی خبرثانی ہے ای کان متکبرا مغرقا فی الاسراف۔ یا ۔ عالیا میں ضمیر مستتر سے حال ہے۔ ای کان متکبرا فی حال اغراقہ فی الاسراف۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) جو فرعون کی جانب سے ہوتا تھا وہ فرعون واقعی بڑا سرکش اور حد سے بڑھ جانے والوں میں سے تھا۔ یعنی متکبر بھی تھا اور ظلم بھی کرتا تھا اور حد عبودیت سے نکل جانے والوں میں سے تھا۔