Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 12

سورة الجاثية

اَللّٰہُ الَّذِیۡ سَخَّرَ لَکُمُ الۡبَحۡرَ لِتَجۡرِیَ الۡفُلۡکُ فِیۡہِ بِاَمۡرِہٖ وَ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿ۚ۱۲﴾

It is Allah who subjected to you the sea so that ships may sail upon it by His command and that you may seek of His bounty; and perhaps you will be grateful.

اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے دریا کو تابع بنا دیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر بجا لاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Subjugation of the Sea, etc., is among Allah's Signs Allah the Exalted says, اللَّهُ الَّذِي سخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ ... Allah, it is He Who has subjected to you the sea, Allah the Exalted mentions some of the favors He gave to His servants, such as subjecting the sea for their service, ... لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِهِ ... that ships may sail through the sea by His command, i.e., of Allah the Exalted, Who ordered the sea to carry ships, ... وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ ... and that you may seek of His bounty, i.e. in commercial and business transactions, ... وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ and that you may be thankful. i.e. for earning various provisions brought to you from far away provinces and distant areas through the sea. Allah the Exalted said,

اللہ تعالیٰ کے ابن آدم پر احسانات اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں بیان فرما رہا ہے کہ اسی کے حکم سے سمندر میں اپنی مرضی کے مطابق سفر طے کرتے ہوئے بڑی بڑی کشتیاں مال اور سواریوں سے لدی ہوئی ادھر سے ادھر لے جاتے ہو تجارتیں اور کمائی کرتے ہو ۔ یہ اس لئے بھی ہے کہ تم اللہ کا شکر بجا لاؤ نفع حاصل کر کے رب کا احسان مانو پھر اس نے آسمان کی چیز جیسے سورج چاند ستارے اور زمین کی چیز جیسے پہاڑ نہریں اور تمہارے فائدے کی بیشمار چیزیں تمہارے لئے مسخر کر دی ، یہ سب اس کا فضل و احسان انعام و اکرام ہے اور اسی ایک کی طرف سے ہے ، جیسے ارشاد ہے آیت ( وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْهِ تَجْــــَٔــرُوْنَ 53؀ۚ ) 16- النحل:53 ) ، یعنی تمہارے پاس جو نعمتیں ہیں سب اللہ کی دی ہوئی ہیں اور ابھی بھی سختی کے وقت تم اسی کی طرف گڑگڑاتے ہو ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ہر چیز اللہ ہی کی طرف سے ہے اور یہ نام اس میں نام ہے اس کے ناموں میں سے پس یہ سب اس کی جانب سے ہے کوئی نہیں جو اس سے چھینا چھپٹی یا جھگڑا کر سکے ہر ایک اس یقین پر ہے کہ وہ اسی طرح ہے ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر سے سوال کیا کہ مخلوق کس چیز سے بنائی گئی ہے ؟ آپ نے فرمایا نور سے اور آگ سے اور اندھیرے سے اور مٹی سے اور کہا جاؤ ابن عباس کو اگر دیکھو تو ان سے بھی دریافت کر لو ۔ اس نے آپ سے بھی پوچھا یہی جواب پایا پھر فرمایا واپس ان کے پاس جاؤ اور پوچھا کہ یہ سب کس چیز سے پیدا کئے گئے ؟ وہ لوٹا اور سوال کیا تو آپ نے یہی سوال کیا تو آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی ۔ یہ اثر غریب ہے ۔ اور ساتھ ہی منکر بھی ہے غور و فکر کی عادت رکھنے والوں کے لئے اس میں بھی بہت نشانیاں ہیں پھر فرماتا ہے کہ صبر و تحمل کی عادت ڈالو منکرین قیامت کی کڑوی کسیلی سن لیا کرو ، مشرک اور اہل کتاب کی ایذاؤں کو برداشت کر لیا کرو ۔ یہ حکم شروع اسلام میں تھا لیکن بعد میں جہاد اور جلا وطنی کے احکام نازل ہوئے ۔ اللہ کے دنوں کی امید نہیں رکھتے یعنی اللہ کی نعمتوں کے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ پھر فرمایا کہ ان سے تم چشم پوشی کرو ان کے اعمال کی سزا خود ہم انہیں دیں گے اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر نیکی بدی کی جزا سزا پاؤ گے ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یعنی اس کو ایسا بنادیا کہ تم کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے اس پر سفر کرسکو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] سمندر کو مسخر کرنا :۔ پانی کے لیے اللہ نے یہ قانون بنایا ہے کہ وہ ہر چیز کو اوپر اپنی سطح کی طرف اچھالتا ہے۔ لہذا جو چیزیں اپنے مساوی الحجم پانی سے ہلکی ہوتی ہیں وہ پانی کی سطح پر آکر تیرنے لگتی ہیں۔ جیسے لکڑی، کاغذ، تنکے، گتا وغیرہ اور جو بھاری ہوتی ہیں & وہ پانی میں ڈوب جاتی ہیں۔ جیسے پتھر اور دھاتیں، تاہم پانی میں اچھالنے کی قوت کی وجہ سے ان کا وزن کم ہوجاتا ہے اور اتنا ہی کم ہوتا ہے اس کے مساوی الحجم پانی کا وزن ہوتا ہے پھر اگر کسی چیز کی شکل ہی کشتی یا پیالہ یا گلاس کی بنادی جائے تو بھاری چیزیں مثلاً لو ہا وغیرہ کی طرح کی چیزیں پانی میں تیرنے اور بہت سا بوجھ اٹھا کر پانی میں تیرنے کے قابل بن جاتی ہیں۔ بس یہی وہ قانون ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انسان دریاؤں اور سمندروں میں کشتیوں اور لوہے کے دیو ہیکل جہازوں کے ذریعے سفر کرنے کے قابل ہوگیا ہے اور اسی بات کو اللہ نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے کہ ہم نے سمندر کو انسان کے تابع بنادیا۔ [١٦] سمندروں سے انسان کئی طرح کے فوائد حاصل کرتا ہے۔ ان سے موتی اور جواہرات نکالتا ہے۔ آبی جانوروں کا شکار کرکے گوشت حاصل کرتا ہے۔ تجارتی سفر کرکے روزی کماتا ہے اور خشکی کے ایک حصہ سے منتقل ہو کر زمین کے کسی دوسرے حصہ میں میں جا آباد ہوتا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا کہ اللہ نے سمندروں جیسی خوفناک چیز کو بھی انسان کے بس میں کردیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) اللہ الذی سخرلکم البحر …: اس سے پہلی آیات میں کائنات کی تخلیق اور اس میں موجود بہت سی چیزوں کا ذکر اس لحاظ سے ہوا ہے کہ وہ سب اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت اور قیامت پر دلالت کرتی ہیں۔ یہاں سے سمندر کی تسخیر اور دوسری چیزوں کا اس لحاظ سے ذکر شروع ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں، جن کا شکر اس پر واجب ہے، مگر انہوں نے اسے چھوڑ کر ایسی ہستیوں کو اپنا داتا و دستگیر، مشکل کشا اور حاجت روا بنا رکھا ہے جن کا ان نعمتوں میں کوئی دخل نہیں اور اس طرح وہ یہ تمام نعمتیں عطا کرنے والے کے شکر کے بجائے اس کی نعمتوں کا صاف انکار اور ناشکری کر رہے ہیں۔ (٢) لفظ ” اللہ “ مبتدا اور ” الذی سخرلکم البحر…“ اس کی خبر ہے ، جو معرفہ ہے، اس سے کلام میں حصر پیدا ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تمہاری خاطر سمندر کو مسخر کر رکھا ہے۔ اس آیت کی مزید تفسیر کے لئے دیکھیے سورة نحل کی آیت (١٤) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary اللَّـهُ الَّذِي سَخَّرَ‌ لَكُمُ الْبَحْرَ‌ لِتَجْرِ‌يَ الْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِ‌هِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ (|"Allah is the One who has subjugated for you the sea, so that you may seek His grace, ... 45:12) |". Generally, when Qur&an uses the expression ` to seek His grace& it refers to exerting oneself in seeking one&s livelihood. Another meaning of the phrase could be that man has been given the skill to move the boats or pilot the ships on the surface of the waters so that he may carry out his commercial activities across the globe. It is possible that ` seeking grace& does not have anything to do with the sailing of the boats or the ships. Therefore, a third meaning is possible. ` Subjugating the sea& has a special meaning, that is, Allah has created many useful things in the sea and subjugated the sea for the benefit of mankind so that they may exploit the minerals and other wealth. Contemporary science confirms that the oceans and seas have much more minerals and much more wealth hidden in them than in the dry land.

خلاصہ تفسیر اللہ ہی ہے جس نے تمہارے (فائدہ کے) لئے دریا کو مسخر (قدرت) بنایا تاکہ اس کے حکمل سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ (ان کشتیوں میں سفر کر کے) تم اس کی روزی تلاش کرو اور تاکہ (وہ روزی حاصل کر کے) تم شکر کرو اور (اسی طرح) جتنی چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جتنی چیزیں زمین میں ہیں، ان سب کو اپنی طرف سے (یعنی اپنے حکم اور فضل سے) مسخر (قدرت) بنایا (تاکہ تمہارے منافع کا سبب ہو) بیشک ان باتوں میں ان لوگوں کے لئے دلائل (قدرت) ہیں جو غور کرتے رہتے ہیں (اور کفار کی شرارتوں پر بعض اوقات مسلمانوں کو غصہ آ جایا کرتا تھا، آگے ان کو درگزر کرنے کا حکم ہے) آپ ایمان والوں سے فرما دیجئے کہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو خدا تعالیٰ کے معاملات (یعنی آخرت کی جزا و سزا) کا یقین نہیں رکھتے، تاکہ اللہ تعالیٰ ایک قوم کو (یعنی مسلمانوں کو) ان کے (اس) عمل (نیک) کا (اچھا) صلہ دے (کیونکہ وہاں کا قاعدہ کلیہ ہے کہ) جو شخص نیک کام کرتا ہے سو اپنے ذاتی نفع (وثواب) کے لئے (کرتا ہے) اور جو شخص برا کام کرتا ہے اس کا وبال اسی پر پڑتا ہے پھر (سب نیک اور بد کام کرنے کے بعد) تم کو اپنے پروردگار کے پاس لوٹ کر جانا ہے (پس وہاں تم کو تمہارے اچھے اعمال و اخلاق کا بہترین صلہ اور تمہارے مخالفین کو ان کے کفر و معاصی پر بدترین سزا دی جائیگی۔ لہٰذا تم کو یہاں درگزر ہی مناسب ہے۔ ) معارف و مسائل (آیت) اَللّٰهُ الَّذِيْ سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ فِيْهِ بِاَمْرِهٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ ۔ قرآن کریم میں فضل تلاش کرنے سے مراد عموماً کسب معاش کی جدوجہد ہوتی ہے۔ یہاں اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمہیں سمندر میں کشتی رانی پر اس لئے قدرت دی گئی تاکہ اس کے ذریعہ تم تجارت کرسکو اور یہ بھی ممکن ہے کہ فضل تلاش کرنے کا کشتی رانی سے کوئی تعلق نہ ہو بلکہ یہ تسخیر بحر کی ایک مستقل قسم ہو اور مطلب یہ ہو کہ سمندر میں ہم نے بہت سی نفع بخش چیزیں پیدا کر کے سمندر کو تمہارے لئے مسخر کردیا ہے تاکہ تم انہیں تلاش کر کے نفع اٹھاؤ چناچہ جدید سائنس کی رو سے یہ معلوم ہے کہ سمندر میں اس قدر معدنی ذخائر اور زمین کی پوشیدہ دولتیں ہیں کہ اتنی خشکی میں بھی نہیں ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَللہُ الَّذِيْ سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ فِيْہِ بِاَمْرِہٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝ ١٢ ۚ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) سخر التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] ( س خ ر ) التسخیر ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔ بحر أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر : 39- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره . ( ب ح ر) البحر ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة «2» ، إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] . ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔ فلك الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر . قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع . ( ف ل ک ) الفلک کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور فلک کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔ ابتغاء (ينبغي) البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48] ، وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟ فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] . ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔ الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو ) فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ ہی نے تمہارے لیے دریا کو مسخر بنایا کہ اس میں اس کے حکم سے کشتیاں چلتی ہیں اور تاکہ تم اس کی روزی تلاش کرو اور تاکہ تم اس کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ { اَللّٰہُ الَّذِیْ سَخَّرَ لَکُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْکُ فِیْہِ بِاَمْرِہٖ } ” اللہ ہی ہے جس نے مسخر کردیا تمہارے لیے سمندر کو تاکہ اس میں کشتیاں چلیں اس کے حکم سے “ { وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ } ” تاکہ تم تلاش کرو اس کا فضل اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔ “ اللہ کا فضل تلاش کرنے سے یہاں تجارت کے ذریعے روزی تلاش کرنا مراد ہے ‘ جبکہ کشتیاں اور جہاز سمندروں اور دریائوں میں سامانِ تجارت کی نقل و حمل کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 For explanation, see Bani Isra'il: 66-67, Ar-Rum: 46 and the corresponding E.N.'s, and E.N. 55 of Luqman, E.N. 110 of Al Mu'min, and E.N. 54 of Ash-Shura. 14 "Seek His bounty": Seek lawful provisions by trade, fishing, diving, navigation and other means in the sea.

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :13 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن ، جلد دوم ، بنی اسرائیل ، حاشیہ ۸۳ ، جلد سوم ، الروم ، حاشیہ٦۹ ، جلد چہارم ، لقمان ، حاشیہ 55 ، المومن ، حاشیہ ۔ 11 ، الشوریٰ ، حاشیہ 54 ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :14 یعنی سمندر میں تجارت ، ماہی گیری ، غواصی ، جہاز رانی اور دوسرے ذرائع سے رزق حلال حاصل کرنے کی کوشش کرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: جیسا کہ پہلے کئی بار عرض کیا گیا، اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنا قرآن کریم کی اصطلاح میں روزی تلاش کرنے کو کہا جاتا ہے۔ یہاں سمندری تجارت مراد ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:12) سخر ماضی واحد مذکر غائب تسخیر (تفعیل) مصدر اس نے بس میں کردیا۔ اس نے تابع کردیا۔ تسخیر کے معنی جس میں کونے اور کبھی زبردستی کسی خاص کام میں لگا دینے کے ہیں۔ لتجری : لام تعلیل کا ہے۔ تجری : مضارع واحد مؤنث غائب۔ جری وجریان (باب ضرب) مصدر۔ وہ جاری ہے، وہ چلتی ہے۔ الفلک۔ کشتی، کشتیاں، واحد اور جمع دونوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ فیہ ای فی البحر تاکہ اس (دریا، یا سمندر میں) کشتیاں چلیں۔ بامرہ ای باذنہ اس کے حکم سے۔ ولتبلغوا : واؤ عاطفہ۔ لام تعلیل کا ۔ تبتغوا مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ ابتغاء (افتعال) مصدر تبتغوا اصل میں تبتغون تھا نون اعرابی عامل لام تعلیل کے آنے سے گرگیا۔ تاکہ تم تلاش کرو۔ ڈھونڈو۔ من فضلہ اور تکاہ تم اس کی طرف سے عطا کردہ رزق کی تلاش کرو۔ من فضلہ اس کے فضل میں سے۔ فضل بمعنی بزرگی۔ بخشش۔ جمع افضال۔ فضل کے اصل معنی زیادتی کے ہیں۔ اس لئے اس کا اطلاق اس مال و دولت پر بھی ہوتا ہے جو بطور نفع انسان کو حاصل ہو۔ اور خداوند تعالیٰ کے عطیہ پر بھی خواہ وہ دنیوی ہو یا اخری ، کیونکہ وہ انسان کو اس کے استحقاق سے زیادہ دیا جاتا ہے۔ یہاں آیت ہذا میں فضل سے مراد وہی مال و دولت و رزق مراد ہے۔ اسی معنی میں اور جگہ قرآن مجید میں ہے فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللّٰہ (62:10) اور جب نماز پوری ہوچکے تو زمین پر پھرو چلو۔ اور اللہ کی روزی تلاش کرو۔ ولعلکم تشکرون اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔ ول کی تشکروا النعم المترتبۃ علی ذلک تاکہ اس رلاش پر مبنی جو نعمتیں حاصل ہوں ان کا تم شکر بجالاؤ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی پانی میں باوجود اس کے گہرا ہونے کے جہاز اور کشتیاں غرق نہیں ہوتیں اور یہ محض اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نظام تکوینی ایسا بنایا ہے کہ انسان برویجر میں نقل و حرکت کرسکے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم ایسا نہ ہوتا تو سمندر میں جہازوں اور کشتیوں کے چلنے کا ہرگز امکان نہ ہوتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١٢ تا ٢١۔ اسرار ومعارف۔ اللہ تو وہ کریم ذات ہے سمندروں اور پانیوں کو بھی تمہارے لیے مسخر کردیا کہ تم ان میں جہاز رانی کروسمندری مع دنیات اور رزق کے ذرائع تلاش کرو تجارت کے راستے کے طور پر استعمال کروغرض سمندری اور آبی وسائل بھی تمہاری خدمت میں لگادیے کہ تم اللہ کا شکر ادا کرو نیز آسمانی اور زمینی ہر شے کو تمہاری خدمت پر لگادیا ہے کہ سورج چاند ہوابادل ستارے ہوں یاسیارے سب کے سب کی توجہ کامرکز زمین ہے ان کی حرکات واثرات سے زمین پر تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ سب تبدیلیاں بالآخر بنی آدم کے کام آتی ہیں اگر کوئی ان سب باتوں پہ غور کرے تو سب کی سب عظمت الٰہی پر اور اس کے احسانات پر دلالت کرتی ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے معاملات میں درگذر کی جائے۔ آپ اہل ایمان سے فرمادیجئے کہ روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے معاملات مہ نہ الجھیں ا اور ان لوگوں سے درگزر کریں کہ یہ بدبخت تو اللہ کے معاملات یعنی جزاوسزا پر یقین ہی نہیں رکھتے ان سے اعلی اخلاق کی کیا توقع کی جاسکتی ہے اور عنقریب یہ اپنے اعمال کی سزا پائیں گے اور اصولی بات ہے جو نیک کام کرے گا وہ خود ہی اس کا فائدہ حاصل کرے گا اور جو کوئی برائی کرے خود بھگتے گا کہ سب لوگوں کو لوٹ کر اللہ کی بارگاہ میں ہی حاضر ہوتا ہے۔ ہم نے بنی اسرائیل کو بھی کتاب دی حکومت سے نوازا اور نبوت سے سرفراز فرمایا اور انہیں بہترین نعمتیں عطا کیں مادی اور حسی بھی اور معنوی اعتبار سے بھی اور اس دور کے سارے لوگوں پر فضیلت اور بزرگی عطا کی اور دین کے تمام احکام و عقائد دلائل سے واضح کردیے مگر انہوں نے سب حقائق کا علم ہونے کے بعد اپنی خواہشات میں مبتلا ہوکربغاوت کی اور ان کی نفسانیت اور ایک دوسرے سے حسد کی وجہ سے اختلاف میں مبتلا ہوگئے ۔ اللہ کریم یوم قیامت ان کے اختلافات کا فیصلہ فرمادیں گے کہ اہل حق سرفراز ہوں گے اور نفس کے اسیر اپنی سزا پائیں گے۔ احکام میں صرف اسلام پر عمل ہوگا۔ پھر ہم نے آپ کو ایک خاص طریقہ عمل اور احکام عطا فرمادیا یہاں علماء کا ارشاد ہے کہ اصول یعنی عقاید میں تو سب دین پر متفق ہیں توحید و رسالت اور آخرت وغیرہ مگر احکام ہر دین کے اپنے ہیں لوگوں کے مزاج اور زمانہ کی ضرورت نیز حکمت الٰہیہ کے مطابق لہذا احکام میں اب صرف اسلامی شریعت پر ہی عمل ہوگا لہذا آپ احکام دین میں اسی پر عمل کیجئے اور ان نادانوں کی خواہشات کی کوئی پرواہ نہ کیجئے کہ یہ اللہ کے مقابلے میں کسی کے کیا کام آئیں گے کہ اللہ کے احکام کے مقابل ان کی بات مانی جائے یہ ایک دوسرے کی بات مانتے ہیں کہ ظالم ظالموں کے دوست ہیں کافر کافروں کادوست ہے مگر مومن کادوست تو اللہ رب العزت ہے اسے تو اس کی بات ماننا چاہے یہ سب دانش اور بصیرت کی باتیں اور اہل یقین کے لیے رحمت کا سبب اور ہدایت کی راہ ہے۔ ان بیوقوفوں کا خیال ہے کہ بدکار اور کافر ان لوگوں کے برابر رہیں گے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کیے ۔ جزاوسزا تو عقلا بھی لازم ہے۔ یہ تو عقلا بھی لازم ہے کہ بھلائی اور برائی اپنے اپنے انجام کو پہنچیں جبکہ دار دنیا تو محض دار عمل ہے کتنے نیک اور دیانت دار یہاں تکلیف برداشت کرتے ہیں کتنے چور اور بدکار دولت جمع کرکے عیش کرتے ہیں اگرچہ ان کی دنیا کی زندگی بھی برابر تو نہیں ہوتی کہ نیک کا دل سکون سے لبریز جبکہ بدکار اور کافر کا دل کا سکون ناآشنا ہوتا ہے موت کی کیفیات بھی الگ الگ اور اس کے بعد بھر کے کردار کا صلہ بھی ضروری ہے ورنہ پھیر نیکی کا تصور بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اور بدی کرنے والے کامیاب ٹھہرتے ہیں جو بات عقلا بھی درست نہیں یہ ان کی بات کہ موت کے بعد حیات یا بدلہ نہیں ہے نہایت احمقانہ بھی ہے اور بری بھی کہ انصاف کے خلاف ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مجرموں کو عذاب کی خوشخبری سنانے کے بعد ایک دفعہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مرتبہ لیل ونہار کی گردش چاند، سورج کا آنا جانا بارش کا برسنا اور کشتیوں کا سمندر میں چلناان سب کو اپنی قدرت کی نشانیاں بتلایا ہے۔ لیکن جہاں بھی ان چیزوں کا ذکر کیا ہے انداز اور استدلال جدا جدا ہے۔ غور فرمائی ! اس مقام پر کشتیوں کا سمند میں چلنے کے عمل کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم کے ساتھ منسوب کیا اور فرمایا ہے کہ یہ کشتیاں میرے حکم کے ساتھ سمندر میں چلتی ہیں تاکہ تم سمندر سے اللہ کا فضل تلاش کرو اور اس کا شکریہ ادا کرتے رہو ! دنیا میں کشتیوں اور بحری جہازوں کے کاروبار کے ساتھ لاکھوں نہیں کروڑوں انسان وابستہ ہیں۔ جو کشتیوں کے ذریعے محنت مزدوری کرتے ہیں اور سمندر سے مچھلیاں اور ہیرے جواہرات نکال کر اربوں، کھربوں روپے کما رہے ہیں مگر ان کی اکثریت کفار کی ہے۔ جو مسلمان اس کاروبار کے ساتھ وابستہ ہیں ان کی غالب اکثریت بےدین طبقہ پر مشتمل ہے۔ حالانکہ سمندر میں کاروبار کرنے والے جانتے ہیں کہ جب سمندر میں طوفان آتا ہے تو جدید ٹیکنالوجی کے باوجود غوطہ زنی اور ماہی گیری کا سارے کا سارا نظام معطل ہوجاتا ہے۔ اس وقت پرلے درجے کا کافر اور مشرک بھی صرف اور صرف ایک رب کو پکارتا ہے۔ لیکن جونہی ان لوگوں کو سمندری طوفان سے نجات ملتی ہے تو پھر شرک و کفر کرنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف سمندروں اور کشتیوں کو انسان کے تابع کیا ہے بلکہ اس نے جو کچھ بھی زمین و آسمانوں میں پیدا کیا ہے۔ سب کو انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ نباتات ہوں یا جمادات، حیوانات ہوں یا کوئی اور چیز یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مقرب ترین فرشتے کو بھی انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا شکر گزار ہوجائے کیونکہ شکر گزار ہی اس کے تابعدار ہوتے ہیں۔ تابعدار اور شکر گزار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے رب کی عطا کردہ نعمتوں پر غور کرے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر اور دریاؤں کو انسان کے تابع کردیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے کشتیوں کو انسان کے اس لیے تابع کیا ہے تاکہ انسان سمندر سے اپنے رب کا فضل تلاش کرے اور اس کا شکر ادا کرے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی ہر چیز انسان کی خدمت میں لگا رکھی ہے۔ ٤۔ قدرت کی نشانیوں میں اللہ تعالیٰ کی پہچان پائی جاتی ہے لیکن اس قوم کے لیے جو غور وفکر کرتی ہے۔ تفسیر بالقرآن شکر گزاری کا حکم اور اس کے فوائد : ١۔ لوگو ! اللہ کو یاد کرو اللہ تمہیں یاد کرے گا اور اس کا شکر ادا کرو کفر نہ کرو۔ (البقرۃ : ١٥٢) ٢۔ اللہ نے تمہیں دل، آنکھیں اور کان دیے تاکہ تم شکرادا کرو۔ (السجدۃ : ٩) ٣۔ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے شکر گزار بندوں میں شامل ہوجائیے۔ (الزمر : ٦٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو جزا دے گا۔ (آل عمران : ١٤٤۔ ١٤٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے سماعت، بصارت اور دل بنایا تاکہ تم شکر کرو۔ (النحل : ٧٨) ٦۔ اللہ کی پاکیزہ نعمتیں کھا کر اس کا شکر کرو۔ (البقرۃ : ١٧٢) ٧۔ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرو۔ (العنکبوت : ١٧) ٨۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والے کو زیادہ عطا کرتا ہے۔ (ابراہیم : ٧) ٩۔ شکر کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔ (الزمر : ٧) ١٠۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو بہتر جزا دیتا ہے۔ (القمر : ٣٥) ١١۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کا قدردان ہے۔ (النساء : ١٤٧) ١٢۔ جو شخص شکر کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو ناشکری کرتا ہے میرا رب اس سے بےپروا ہے۔ (النمل : ٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ١٢ تا ١٣ اللہ کی یہ چھوٹی سی مخلوق انسان پر اللہ کے بڑے کرم ہیں کہ اس نے اس کے لئے اس کائنات کی عظیم مخلوقات کو مسخر کردیا ہے۔ اور ان مخلوقات سے یہ مختلف طریقوں سے فائدہ اٹھا تا ہے اور اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ سمجھایا ہے کہ اس کائنات کا قانون فطرت کیا ہے ؟ جس کے مطابق یہ کائنات چلتی ہے اور اس کے خلاف نہیں جاسکتی۔ اگر اللہ کی جانب سے انسان کو اس قدر علمی صلاحیت نہ دی گئی ہوتی تو اس کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ ان کائناتی قوتوں کو اس طرح مسخر کر کے ان سے اس طرح استفادہ کرتا بلکہ اس کے لئے ان قوتوں کے اندر زندہ رہنا بھی مشکل ہوجاتا کیونکہ انسان ایک چھوٹا سا کیڑا ہے اور فطرت کی قوتیں نہایت ہی عظیم القوت ، عظیم الجثہ اور بڑے بڑے افلاک ہیں۔ سمندر ان بڑی قوتوں میں سے ایک ہے جسے انسان نے مسخر کرلیا ہے۔ انسان کو اللہ نے اس کی ساخت اور خصوصیات کا علم دیا اور انسان نے معلوم کیا کہ کشتی اس عظیم اور سرکش سمندر کے اوپر چل سکتی ہے اور اس کی بھپری ہوئی جبار موجوں کے ساتھ ٹکرا سکتی ہے اور اسے ان سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ لتجری الفلک فیہ بامرہ (٤٥ : ١٢) “ تا کہ اس کے حکم سے کشتیاں اس میں چلیں ”۔ اللہ ہی ہے جس نے سمندر کو یہ خصوصیات دیں اور کشتی کے مواد کو تیرنے کی خصوصیات دیں۔ فضا کے دباؤ، ہواؤں کی تیزی اور زمین کی کشش کی خصوصیات پیدا کیں اور وہ دوسرے خصائص اس میں رکھے جن کی وجہ سے بحری سفر آسان ہوا اور انسان کو اس کام کا علم دیا کہ وہ سمندر مخلوق سے نفع اٹھائے اور دوسرے فوائد بھی حاصل کرے۔ ولتبتغوا من فضلہ (٤٥ : ١٢) “ اور تم اس کا فضل تلاش کرو ”۔ مثلاً سمندر میں شکار ، زیب وزینت کا سامان ، تجارت ، معلوماتی سفر ، تجربات ، مشقیں ، ورزش اور تفریح وغیرہ۔ غرض وہ سارے فوائد جو یہ چھوٹا سا انسان سمندروں سے حاصل کرتا ہے۔ غرض اللہ نے انسان کے لئے کشتی اور سمندر دونوں کو مسخر کیا کہ وہ اللہ کے فضل کی تلاش کرے۔ پھر اللہ کا شکر کرے کہ اللہ نے یہ فضل و کرم ، یہ انعامات اور یہ تسخیر اور یہ علم اسے دیا۔ ولعلم تشکرون (٤٥ : ١٢) “ اور تم شکر گزار بنو ”۔ اللہ تعالیٰ پھر اس قرآن کے ذریعہ انسان کو ہدایت کرتا ہے کہ اس ذات باری کی وفاداری کرو ، اس سے تعلق قائم کرو ، اور یہ بات معلوم کرو کہ تمہارے اور اس کائنات کے درمیان ایک تعلق ہے اور وہ یہ کہ تم اس کا حصہ ہو اور ایک ناموس فطرت کے تحت چل رہے ہو اور تم دونوں کا رخ اللہ ہی کی طرف ہے۔ سمندروں کی تسخیر کے خصوصی ذکر کے ساتھ یہ پوری کائنات بھی بالعموم تمہارے لیے مسخر کردی گئی ہے۔ زمین اور آسمانوں کے درمیان پائے جانے والی تمام قوتیں ، نعمتیں اور مفید چیزیں جو اس کے لئے فرائض منصب خلافت کی ادائیگی میں مفید و معاون ہیں۔ وسخر لکم ۔۔۔۔۔۔ جمیعا منہ (٤٥ : ١٣) “ اس نے زمین اور آسمان کی ساری ہی چیزیں تمہارے لیے مسخر کردیں ، سب کچھ اپنے پاس سے ”۔ اس کائنات میں جتنی چیزیں بھی ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہیں اور اسی کی ہیں۔ وہی ان کا پیدا کرنے والا اور مدبر ہے۔ اس نے ان کو مسخر کر رکھا ہے۔ اور ان پر اس چھوٹی سی مخلوق کو مسلط کردیا ہے۔ انسان جسے اللہ نے اس کائنات کے مزاج اور اس کے قوانین کو سمجھنے کی قوت دی اور وہ اپنی قوت اور طاقت سے کہیں بڑی قوتوں کو مسخر کرتا ہے۔ یہ سب کام اللہ کا فضل و کرم ہے۔ اس انسان پر اور جو لوگ تفکر اور تدبر سے کام لیتے ہیں ان کے لئے اس میں آیات و نشانات ہیں بشرطیکہ وہ اپنی اس عقل سے یہ فائدہ بھی اٹھائیں کہ اس کائنات اور اس انسان کا ایک پیدا کرنے والا بھی ہے جس نے اسے یہ سب کچھ دیا ہے اپنے کرم خاص سے : ان فی ذلک لایت لقوم یتفکرون (٤٥ : ١٣) “ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غوروفکر کرنے والے ہیں ”۔ یہ فکر اور یہ تدبر اس وقت تک صحیح ، جامع اور گہرا نہ ہو سکے گا جب تک وہ ان قوتوں ، مسخر شدہ قوتوں کے پیچھے اس بڑی قوت کی طرف جھانکنے کی کوشش نہ کرے گا ، جس نے ان تمام قوتوں کو پیدا کیا اور جس نے انسان کو پیدا کیا اور پھر انسان کو ان رازوں سے آگاہ کیا کہ ان کا راز یہ ہے اور ان کا قانون قدرت یہ ہے اور فطرت کائنات اور فطرت انسان ایک ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان یہ تعلق ہے۔ اس تعلق کا یہ نتیجہ ہے کہ انسان کو علم حاصل ہوا ، اسے قوت اور کنٹرول حاصل ہوا ، اس نے ان قوتوں کو مسخر کر کے اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا۔ اگر یہ تعلق نہ ہوتا تو انسان کو ان چیزوں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوتا۔ ٭٭٭ جب بات یہاں تک پہنچی ہے اور ایک مومن اس کائنات کے قلب تک جا پہنچتا ہے۔ اسے شعور حاصل ہوجاتا ہے کہ قوت کا حقیقی سرچشمہ کیا ہے ، یہ کہ اس کائنات کے اسرار و رموز کی آگاہی دراصل قوت کا حقیقی سرچشمہ ہے۔ اب مومنین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ شرافت ، اخلاق عالیہ ، وسعت قلبی اور رواداری اختیار کریں اور جو ضعیف ، ناتواں اور جاہل لوگ اس خزانے اور اس بھرپور خزانہ علم و معرفت سے محروم ہیں ، ان پر رحم کریں ، ان کے ساتھ ہمدردی کریں کہ یہ لوگ ان عظیم حقائق سے محروم ہیں۔ جو اللہ کے نوامیس فطرت کو نہیں دیکھتے ، جو تاریخ میں سنن الٰہیہ کو تلاش نہیں کرتے جو اس کائنات کے اسر اور موز سے واقف نہیں اور اس لیے وہ اس خالق کی عظمت سے بھی بیخبر ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تسخیر بحر اور تسخیر ما فی السمٰوٰت والارض میں فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے انعامات اور دلائل توحید بیان فرمائے ہیں۔ اولاً : سمندر کا تذکرہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سمندر کو تمہارے لیے مسخر فرما دیا یعنی تمہاری ضرورتوں میں کام آنے والا بنا دیا اس تسخیر کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلتی ہیں ان کشتیوں میں سفر کرتے ہو اور ایک جگہ سے دوسری جگہ سامان بھی لے جاتے ہو اور اللہ کا فضل بھی تلاش کرتے ہو تجارت کے ذریعے فائدہ اٹھاتے ہو سمندر میں غوطے مارتے ہو موتی نکالتے ہو شکار پکڑتے ہو یہ سب اللہ کا فضل ہے تمہیں چاہیے کہ اللہ کا شکر ادا کرو، ثانیاً یہ فرمایا کہ آسمانوں میں اور زمینوں میں جو چیزیں ہیں اللہ نے ان کو تمہارے کام میں لگا دیا یعنی ان چیزوں کو تمہارے کام میں آنے والا بنا دیا، یہ چیزیں اللہ کی طرف سے تمہارے لیے مسخر ہیں اللہ کی مشیت اور ارادہ کے مطابق تمہارے منافع کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں بعض منافع آخرت سے متعلق ہیں آخر میں فرمایا کہ یہ جو سب کچھ مذکور ہوا اس میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں فکر کرنے والے لوگوں کے لیے (جو لوگ فکر کرتے ہیں وہ عبرت حاصل کرتے ہیں۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9:۔ ” اللہ الذی سخر “ تا ” لقوم یتفکرون “ یہ توحید پر دوسری عقلی دلیل ہے بطور ترقی۔ پہلی دلیل میں عجائب قدرت اور غرائب فطرت کا ذکر تھا اب اس سے اگلا درجہ ذکر فرمایا کہ اس نے ساری کائنات کیا علوی کیا سفلی پیدا فرما کر اپنے حکم و اختیار سے تمہارے کام میں لگا رکھی ہے دریاؤ اور سمندروں کو اس نے اپنے حکم سے تمہارے کام میں لگا رکھا ہے کہ اس میں کشتیاں چلتی ہیں تاکہ اپنا سامان اور مال تجارت ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا کر نفع کماؤ اور اس انعام الٰہی پر اس کا شکر بجا لاؤ۔ اس کے علاوہ زمین و آسمان میں جو کچھ بھی ہے سب ہی اللہ کے حکم سے تمہاری خدمت میں مصروف ہے۔ جمیعا اور منہ دونوں ما فی السموات وما فی الارض سے حال ہیں (مدارک، روح) ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان تمام اشیاء کو مسخر کیا ہے اور یہ سب کچھ اسی کی طرف سے ہے اور وہی ہر چیز کا خالق ہے۔ اور یہ سب اسی کا انعام و احسان ہے۔ جمیعا منہ یعنی ان ذالک فعلہ وخلقہ و احسان منہ و انعام (قرطبی ج 16 ص 160) ۔ والمعنی سخر ھذہ الاشیاء جمیعا کائنۃ منہ وحاصلۃ من عندہ یعنی انہ سبحانہ مکونہا وموجدھا بقدرتہ و حکمتہ ثم سخرھا لخلقہ (روح ج 25 ص 145، بحر ج 8 ص 45) ۔ اس میں سوچ بچار کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ، قدرت کاملہ اور اس کی وحدانیت کے بیشمار نشانات موجود ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے دریا کو تمہارے لئے تمسخر کردیا اور دریا کو تمہارے بس میں کردیا تاکہ اللہ کے حکم سے دریا میں کشتیاں اور جہاز چلیں اور تاکہ تم لوگ اس کا فضل یعنی روزی تلاش کرو اور طلب معیشت کرو۔ اور تاکہ تم اس کا شکر بجالائو۔ یہاں سے توحید کا بیان فرمایا دریائوں کی تسخیر اور دریائی سفر سے بیشمار منافع کا حصول ظاہر ہے اور ان انعامات پر شکر بجا لانا انسانیت کا بڑا وظیفہ ہے بلکہ انسانیت کی دلیل ہے۔