Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 14

سورة الجاثية

قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یَغۡفِرُوۡا لِلَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ اَیَّامَ اللّٰہِ لِیَجۡزِیَ قَوۡمًۢا بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۱۴﴾

Say, [O Muhammad], to those who have believed that they [should] forgive those who expect not the days of Allah so that He may recompense a people for what they used to earn.

آپ ایمان والوں سے کہہ دیں کہ وہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو اللہ کے دنوں کی توقع نہیں رکھتے ، تاکہ اللہ تعالٰی ایک قوم کو ان کے کرتوتوں کا بدلہ دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُل لِّلَّذِينَ امَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لا يَرْجُون أَيَّامَ اللَّهِ ... Say to the believers to forgive those who hope not for the Days of Allah, means, let the believers forgive the disbelievers and endure the harm that they direct against them. In the beginning of Islam, Muslims were ordered to observe patience in the face of the oppression of the idolators and the People of the Scriptures so that their hearts may incline towards Islam. However, when the disbelievers persisted in stubbornness, Allah legislated for the believers to fight in Jihad. Statements of this meaning were collected from Abdullah bin Abbas and Qatadah. Mujahid said about Allah's statement, لاا يَرْجُون أَيَّامَ اللَّهِ (those who hope not for the Days of Allah), "They do not appreciate Allah's favors." Allah said, ... لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِما كَانُوا يَكْسِبُونَ that He may recompense people, according to what they have earned. meaning, if the believers forgive the disbelievers in this life, Allah will still punish the disbelievers for their evil in the Hereafter. Allah's statement next, مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاء فَعَلَيْهَا ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] ایام اللہ کا مفہوم اور تذکیر بایام اللہ :۔ ایام اللہ کا لفظی اور لغوی معنی صرف && اللہ کے دن && ہے۔ مگر اس سے مراد عموماً وہ دن لیے جاتے ہیں جو کسی قوم کے تاریخی یادگار دن ہوں۔ اور یہ اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی۔ بلکہ بسا اوقات وہی دن ایک کے لیے برے اور دوسرے کے لیے اچھے ہوتے ہیں۔ مثلاً جس دن فرعون اور آل فرعون غرق ہوئے تو یہ دن ان کے لیے سب سے برا دن تھا لیکن وہی دن بنی اسرائیل کے لیے سب سے اچھا دن تھا کہ انہیں فرعون جیسے ظالم اور جابر حکمران سے نجات نصیب ہوئی۔ اور عرفاً ایام اللہ سے مراد عموماً برے ہی دن لیے جاتے ہیں۔ && تذکیر بایام اللہ && ایک شرعی اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جن جن قوموں پر اللہ کا عذاب آیا تھا اس کی وجوہ تلاش کرکے انسان ان واقعات سے عبرت اور سبق حاصل کرے۔ اور یہ قرآن کا ایک نہایت اہم موضوع ہے۔ اور بار بار اس کا ذکر ہوا ہے۔ [١٩] اس سے مراد کفار مکہ ہیں۔ جو نہ اللہ کا عذاب آنے پر یقین رکھتے ہیں، نہ آخرت پر، بلکہ اللہ کے عذاب کے وعدوں کا مذاق اڑاتے اور پیغمبر کو کہتے کہ جس عذاب کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے ؟ ایسے ہی لوگوں کے متعلق مومنوں کو ہدایت دی جارہی ہے کہ وہ ان کی باتوں کا برا نہ منائیں۔ ان سے الجھیں نہیں۔ بلکہ درگزر سے کام لیں۔ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ وہ خود ان سے نمٹ لے گا اور ان کے اعمال کی انہیں پوری پوری سزا دے گا۔ اس آخری جملہ کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر مومن صبر اور برداشت سے کام لیتے ہوئے ان کافروں سے درگزر کریں گے تو اللہ انہیں اس کا پورا پورا بدلہ دے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) قل للذین امنوا یغفروا للذین لایرجون :” رجا برجو رجآئ “ (ي) کا معنی امید کرنا ہے۔ اس کے ضمن میں خوف بھی ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ امید پوری نہ ہو۔ غرض اس کے معنی امید اور خوف دونوں کر لئے جاتے ہیں۔ (٢)” ایام اللہ “ (اللہ کے دنوں) سے مراد کسی قوم کے یادگار تاریخی دن ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو خاص سزا دیتا ہے، یا اپنے فرماں بردار بندوں کو خاص انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔ بعض اوقات ایسا ایک ہی دن کچھ لوگوں کے لئے سزا اور کچھ لوگوں کے لئے عطا کا دن ہوتا ہے، جیسے آل فرعون کا غرق ہونا ان کے لئے سزا کا دن تھا اور بنی اسرائیل کے لئے نجات کچھ لوگوں کے لئے عطا کا دن ہوتا ہے، جیسے آل فرعون کا غرق ہونا ان کے لئے سزا کا دن تھا اور بنی اسرائیل کے لئے نجات کا۔ صحیح مسلم میں ابی بن کعب (رض) سے مروی لمبی حدیث ہے، جس کے شروع میں ہے :(سمعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقول انہ بینما موسیٰ (علیہ السلام) فی قومہ یذکر ھم بایام اللہ، وایام اللہ نعما وہ بلاوہ) (مسلم الفضائل، باب من فضائل الخضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 182/2380)” میں نے رسول الل ہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرما رہے تھے : ” ایک دفعہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم میں انھیں اللہ کے ایام کے ساتھ نصیحت کر رہے تھے اور ایام اللہ سے مراد اس کی نعمتیں اور اس کی مصیبتیں ہیں۔ “ لہذا ” جو لوگ اللہ کے دنوں کی امید نہیں رکھتے “ یا ” جو لوگ اللہ کے دنوں کا خوف نہیں رکھتے “ سے مراد کفار ہیں جو اسک ی رحمت سے مایوس اور اس کی گرفت سے بےخوف ہیں۔ مومن تو ہر وقت اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے غضب سے ڈرتے رہتے ہیں۔ (٣) یعنی ایمان والوں سے کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ کے دنوں سے بےخوف لوگ یعنی کفار ان پر جو زیادتی کریں یا تکلیف پہنچائیں تو اس کے بدلے کی فکر کے بجائے ان سے درگزر کریں اور انہیں معاف کردیں۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ حکم مکہ معظمہ میں دیا گیا تھا جب کفار کے مقابلے میں تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں تھی، بعد میں جب قتال کی اجازت مل گئی تو یہ حکم منسوخ ہوگیا اور بعض نے فرمایا کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہے، کیونکہ زیادتی برداشت کرنے کی تلقین اب بھی باقی ہے۔ رہی اسلام کی بنا پر کفار سے جنگ، تو اس کا معاملہ دوسرا ہے۔ یہی بات درست معلوم ہوتی ہے، کیونکہ ہجرت اور کفار سے لڑائی کی اجازت کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہی حکم دیا جیسا کہ فرمایا :(لتبلون فی اموالکم وانفسکم ولتسمعن من الذین اوتوا الکتب من قبلکم ومن الذین اشرکوا ذی کثیراً وان تصبروا وتتقوا فان ذلک من عزم الامور) (آل عمران :186) ” یقیناً تم اپنے مالوں اور اپنی جانوں میں ضرور آزمائے جاؤ گے اور یقیناً تم ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا، ضرور بہت سی ایذا سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور متقی بنو تو بلاشبہ یہ ہمت کے کاموں سے ہے۔ “ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ جا کر بھی جب آپ کے پاس قوت و سلطنت موجود تھی، کبھی اپنی ذات پر ہونے والی کسی زیادتی کا اتنقام نہیں لیا۔ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں : (ما انتقم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لنفسہ فی شی یوتی الیہ حتی ینتھک من حرمات اللہ فینتقم اللہ) (بخاری، الحدود، باب کم التعزیر والادب ؟ 6853)” رسولا اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ذات کے لئے کسی چیز کا انتقام نہیں لیا، جس کا آپ سے معاملہ کیا گیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو چاک کیا جاتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے لئے انتقام لیتے تھے۔ “ (٤) لیجزی قوماً بما کانوا یکسبون :” قوماً “ سے مراد کافر ہوں تو مطلب یہ ہے کہ ایمان والوں سے کہہ دے کر ان لوگوں کی زیادتی اور اذیت رسانی کو معاف کردیں جو اللہ کی گرفت کے ایام کی توقع نہیں رکھتے، تاکہ بجائے اس کے کہ وہ ان سے بدلا لیں خود اللہ تعالیٰ انھیں ان کے اعمال کا بدلا دے جو وہ کماتے رہے تھے۔ ” قوما “ نکرہ ہے، اس لئے ترجمہ ” کچھ لوگوں کو “ کیا گیا ہے۔ اور اگر ” قوماً “ سے مراد مومن ہوں تو مطلب ہوگا کہ ایمان والوں سے کہہ دے کہ وہ ان لوگوں کی زیادتی اور تکلیف کو معاف کردیں جو اللہ کی گرفت کے ایام کی توقع نہیں رکھتے، تاکہ اللہ تعالیٰ انھیں اس صبر اور عفو و درگزر کا بدلا عطا فرمائے جو وہ کفار کی اذیت رسانی کے مقابل ی میں کرتے رہے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُ‌وا لِلَّذِينَ لَا يَرْ‌جُونَ أَيَّامَ اللَّـهِ (|"Tell those who believe that they should forgive those who do not believe in Allah&s days ...14) |". There are two narrations recorded relating to its cause of revelation. According to one narration, a pagan in Makkah reviled Sayyidna ` Umar (رض) and the latter intended to retaliate, but this verse came down and asked the believers to forgive the unbelievers and endure their harm that they direct against them. According to this incident the verse is Makki. Another narration reports that on the occasion of the battle of Bani-l-Mustaliq, the Prophet of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his Companions (رض) pitched their tent at a well called Muraisi&. ` Abdullah Ibn &Ubayy, the leader of the hypocrites, was with the Muslims. He sent his servant to fetch water from the well. He was delayed in returning. ` Abdullah Ibn &Ubayy asked him to give reason why he was late. He replied that one of Sayyidna ` Umar&s (رض) servants was sitting on the bank of the well. He did not permit anyone to draw water unless the water-skins of the Prophet of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and Sayyidna Abu Bakr (رض) were filled. ` Abdullah Ibn &Ubayy cynically quoted the following proverb: سمّن کلبک یأکلک |"Fatten your dog and it will eat you up.|" Sayyidna ` Umar (رض) heard about it, he armed himself with his sword and went towards ` Abdullah Ibn &Ubayy. This verse was revealed on that occasion. According to this incident, the verse is Madani. (Qurtubi and Ruh-ul-Ma&ani). If both the chains of transmitters can be authenticated, the two incidents can be synchronized thus: In the first instance, the verse was originally revealed in Makkah. Then a similar incident took place on the occasion of the battle of Bani-l-Mustaliq. The Messenger of Allah recited the verse and applied it to the second incident. This often happened in cases of the causes of Qur&anic revelation. Another likelihood is that when the incident of the battle of Bani-l-Mustaliq took place, Sayyidna Jibra&il (علیہ السلام) might have come down with the verse the second time and reminded that this is an occasion to act upon it. In the technical parlance of Tafsir, it is called نزول مکرر or ` repeated revelation&. The verse contains the expression أَيَّامَ اللَّـهِ , (Allah&s days) which, according to most commentators, refers to ` reward and punishment& which Allah will requite on the Day of Requital. The word ayyam (days) in the Arabic language is abundantly used in the sense of ` turn of events&. Another point worth noting is that when the Qur&an commanded ` Say, [ 0 Muhammad ], to the believers that they should forgive the disbelievers, it did not say, |"forgive the idolaters|"; instead it has said, |"...forgive those who do not believe in Allah&s days ...[ 14] |". This probably purports to say that the real chastisement awaits them in the Hereafter, but because the unbelievers do not believe in the Hereafter, the punishment will be unexpected for them. An unexpected torture is most excruciating, and therefore the torment will be most harrowing and agonizing. Thus they will be recompensed and repaid fully for all their evil deeds. The Muslims are not to bother about taking them to task for every little thing. Some of the scholars maintain that the rule of forgiving the infidels applied only before the revelation of the verse of jihad. When jihad was ordained, the rule of forgiveness, in terms of the current verse, was abrogated. However, most research scholars express the view that this verse has nothing to do with the verse of jihad. The current verse sets down the general social law that the Muslims should not wreak vengeance for every little thing. This law is universally applicable in every age and situation - the social law is needed even at the present time, and therefore it is not accurate to treat it as abrogated - especially if we were to take into account the circumstances under which it was revealed: the battle of Bani-l-Mustaliq. If this battle is the cause of revelation of this verse, then verses of jihad cannot be the abrogators, because they were revealed before this event.

(آیت) قُلْ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يَغْفِرُوْا لِلَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ اَيَّام اللّٰهِ (آپ ایمان والوں سے فرما دیجئے کہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو خدا تعالیٰ کے معاملات کا یقین نہیں رکھتے) اس آیت کے شان نزول میں دو روایت میں ہیں۔ ایک یہ کہ مکہ مکرمہ میں کسی مشرک نے حضرت عمر (رض) پر دشنام طرازی کی تھی۔ حضرت عمر نے اس کے بدلے میں اسے کچھ تکلیف پہنچانے کا ارادہ فرمایا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اس روایت کے مطابق یہ آیت مکی ہے۔ دوسری روایت یہ ہے کہ غزوہ بنو المصطلق کے موقعہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ نے مریسیع نامی ایک کنویں کے قریب پڑاؤ ڈالا۔ منافقین کا سردار عبداللہ بن ابی بھی مسلمانوں کے لشکر میں شامل تھا اس نے اپنے غلام کو کنوئیں سے پانی بھرنے کے لئے بھیجا، اسے واپسی میں دیر ہوگئی۔ عبداللہ بن ابی نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ حضرت عمر کا ایک غلام کنوئیں کے ایک کنارے پر بیٹھا ہوا تھا اس نے کسی کو اس وقت تک پانی بھرنے کی اجازت نہیں دی جب تک کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر کے مشکیزے نہیں بھر گئے اس پر عبداللہ بن ابی نے کہا کہ ” ہم پر اور ان لوگوں پر تو وہی مثل صادق آتی ہے سمن کلبک یاکلک (اپنے کتے کو موٹا کرو تو وہ تم کو کھا جائے گا) “ حضرت عمر کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ تلوار سنبھال کر عبداللہ بن ابی کی طرف چلے، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ اس روایت کے مطابق یہ آیت مدنی ہے (قرطبی و روح المعانی) ان روایتوں کی اسنادی تحقیق سے اگر دونوں کی صحت ثابت ہو تو دونوں میں تطبیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ دراصل یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوچکی تھی، پھر جب غزوہ بنو المصطلق کے موقع پر اسی سے ملتا جلتا واقعہ پیش آیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کو اس موقع پر بھی تلاوت فرما کر واقعہ کو اس پر بھی منطبق فرمایا اور شان نزول کی روایات میں ایسا بکثرت ہوا ہے یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) یاد دہانی کے لئے غزوہ بنوالمصطلق کے واقعہ میں دوبارہ یہ آیت لے آئے ہوں کہ یہ موقع اس آیت پر عمل کرنے کا ہے۔ اصول تفسیر کی اصطلاح میں اسے ” نزول مکرر “ کہا جاتا ہے اور آیت میں ایام اللہ کے لفظ سے مراد بیشتر مفسرین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے وہ معاملات ہیں جو وہ آخرت میں انسانوں کے ساتھ کرے گا یعنی جزا و سزا کیونکہ ” ایام ‘ کا لفظ ” واقعات و معاملات “ کے معنی میں عربی میں بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ یہاں دوسری بات یہ قابل غور ہے کہ بات یوں بھی کہی جاسکتی تھی کہ ” آپ ایمان والوں سے فرما دیجئے کہ وہ مشرکین سے درگزر کریں۔ “ اس کے بجائے کہ یوں کہا گیا ہے کہ ” ان لوگوں سے درگزر کریں، جو خدا تعالیٰ کے معاملات کا یقین نہیں رکھتے۔ “ اس سے شاید اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ ان لوگوں کو اصل سزا آخرت میں دی جائے گی اور چونکہ یہ لوگ آخرت کا یقین نہیں رکھتے اس لئے یہ سزا ان کے لئے غیر متوقع اور اچانک ہوگی اور غیر متوقع تکلیف بہت زیادہ ہوتی ہے اسلئے ان کو پہنچنے والا عذاب بہت سخت ہوگا اور اس کے ذریعہ ان کی تمام بدعنوانیوں کا پورا پورا بدلہ لے لیا جائے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يَغْفِرُوْا لِلَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ اَيَّامَ اللہِ لِيَجْزِيَ قَوْمًۢا بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝ ١٤ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رَّجَاءُ ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد : إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عوامل ووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] ، وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة/ 106] ، وأَرْجَتِ النّاقة : دنا نتاجها، وحقیقته : جعلت لصاحبها رجاء في نفسها بقرب نتاجها . والْأُرْجُوَانَ : لون أحمر يفرّح تفریح الرّجاء . اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة/ 106] اور کچھ اور لوگ ہیں کہ حکم خدا کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے ۔ ارجت الناقۃ اونٹنی کی ولادت کا وقت قریب آگیا ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اونٹنی نے اپنے مالک کو قرب ولادت کی امید دلائی ۔ الارجون ایک قسم کا سرخ رنگ جو رجاء کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے ۔ يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مشرکین سے کیسا برتائو کیا جائے ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے قتادہ سے قول باری (قل للذین امنوا یغفروا للذین لا یرجون ایام اللہ، جو لوگ ایمان لے آئے ہیں آپ ان سے کہہ دیجئے کہ وہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو اللہ کے معاملات کا یقین نہیں رکھتے) کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اسے قول باری (فاقتلوا المشرکین حیث وجد تموھم مشرکین کو قتل کرو انہیں جہاں بھی پائو) نے منسوخ کردیا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ حضرت عمر فاروق اور ان کے ساتھیوں سے فرما دیجیے کہ مکہ والوں سے جو کہ عذاب الہی سے نہیں ڈرتے، درگزر کریں تاکہ اللہ تعالیٰ حضرت عمر اور ان کے ساتھیوں کو ان کے نیک اعمال کا بدلہ دے اور یہ درگرز کرنے کا حکم ہجرت سے پہلے کا تھا پھر سب کو قتال کا حکم دے دیا گیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ { قُلْ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَغْفِرُوْا لِلَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ اَیَّامَ اللّٰہِ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ اہل ِایمان سے کہہ دیجیے کہ وہ ذرا درگزر کریں ان لوگوں سے جو اللہ کے دنوں کی توقع نہیں رکھتے “ اس آیت کے مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورت مکی دور کے تقریباً وسط میں نازل ہوئی ہے۔ گویا اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو شروع ہوئے پانچ چھ سال ہی ہوئے تھے ‘ یعنی ابھی اہل ِمکہ ّپر اتمامِ حجت نہیں ہوا تھا اور ابھی ان کے لیے مزید مہلت درکار تھی۔ چناچہ اہل ایمان کو تلقین کی جارہی ہے کہ وہ مشرکین کے مخالفانہ روییّسے دلبرداشتہ نہ ہوں۔ یہ جہالت میں ڈوبے ہوئے گمراہ لوگ ہیں ‘ انہیں ” ایام اللہ “ کے بارے میں کوئی کھٹکا اور اندیشہ ہے ہی نہیں۔ انہیں ادراک ہی نہیں کہ جس عذاب نے ماضی کی بڑی بڑی اقوام کو نیست و نابود کردیا تھا وہ ان پر بھی آسکتا ہے۔ لہٰذا ا بھی آپ لوگ ان سے درگزر کریں اور ان کے معاملے میں جلدی کرتے ہوئے یہ نہ سوچیں کہ نہ معلوم اللہ نے انہیں اس قدر ڈھیل کیوں دے رکھی ہے اور یہ کہ ان پر عذاب موعود آ کیوں نہیں جاتا ؟ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ابھی مزید مہلت دینا چاہتا ہے۔ { لِیَجْزِیَ قَوْمًام بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ } ” تاکہ اللہ بدلہ دے ایک قوم کو ان کی اپنی کمائی کے مطابق۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18 Literally: `Who do not except the days of Allah." But in Arabic usage on such occasions ayyam does not merely mean days but those memorable days in which important historical events may have taken place. For example, the word ayyam-ul 'Arab is used for the important events of the history of the Arabs and the major battles of the Arab tribes, which the later generations remember for centuries. Here, ayyam-AIlah implies the evil days of a nation when the wrath of Allah may descend on it and ruin it in consequence of its misdeeds. That is who we have translated it: "Those who do not fear the coming of evil days from Allah," i.e. those who do not fear that a day will come when they will be called to account for their actions and deeds, and this same fearlessness has made them bold and stubborn in acts of wickedness. 19 The commentators have given two meanings of this verse and the words of the verse admit of both: (I) "That the believers should pardon the excesses of this wicked group so that AIlah may reward them for their patience and forbearance and nobility from Himself and recompense them for the persecutions they have suffered for His sake." (2) "That the believers should pardon these people so that Allah may Himself punish them for their persecutions of them." Some other commentators have regarded this verse as repealed. They say that this command was applicable only till the Muslims had not been permitted to fight. Then, when they were permitted to fight, this command became abrogated. But a careful study of the words of the verse shows that the claim about abrogation is not correct. The word "pardon" is never used in the sense that when a person is not able to retaliate upon another for the tatter's excesses, he should pardon him, but on such an occasion the usual words are patience and forbearance. Instead of them, when the word "pardon" has been used here, it by itself gives the meaning that the believers, in spite of their ability for retaliation, should refrain from retaliating upon the people for their excesses, whom fearlessness of God has made to transgress all limits of morality and humanity. This command does not contradict those verses in which the Muslims have been permitted to fight. Permission to fight pertains to the condition when the Muslim government has a reasonable ground for taking military action against an unbelieving people, and the command concerning forgiveness and pardon pertains to the common conditions in which the believers have to live in contact with a people who are fearless of God and have to suffer persecutions by them in different ways. The object of this command is that the Muslims should keep their moral superiority and should not stoop to the Level of the morally inferior people by indulging in disputes and wrangling with them and resort to retaliation for every frivolity. As long as it is possible to respond to an accusation or objection gently and rationally, or to defend oneself against an excess, one should not refrain from this, but when things seem to be crossing these limits, one should hold one's peace and entrust the matter to Allah. If the Muslims themselves become involved in a fight or quarrel with them, Allah will leave them alone to deal with them; but if they pardon and forbear, Allah will Himself deal with the wicked people and reward the oppressed ones for their patience.

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :18 اصل الفاظ ہیں اَلَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ اَیَّامَ اللہِ ۔ لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ جو لوگ اللہ کے دنوں کی توقع نہیں رکھتے ۔ لیکن عربی محاورے میں ایسے مواقع پر ایام سے مراد محض دن نہیں بلکہ وہ یادگار دن ہوتے ہیں جن میں اہم تاریخی واقعات پیش آئے ہوں ۔ مثلاً ایام العرب کا لفظ تاریخ عرب کے اہم واقعات اور قبائل عرب کی ان بڑی بڑی لڑائیوں کے لیے بولا جاتا ہے جنہیں بعد کی نسلیں صدیوں تک یاد کرتی رہی ہیں ۔ یہاں ایام اللہ سے مراد کسی قوم کے وہ برے دن ہیں جب اللہ کا غضب اس پر ٹوٹ پڑے اور اپنے کرتوتوں کی پاداش میں وہ تباہ کر کے رکھ دی جائے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے ہم نے اس فقرے کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے برے دن آنے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے ، یعنی جن کو یہ خیال نہیں ہے کہ کبھی وہ دن بھی آئے گا جب ہمارے ان افعال پر ہماری شامت آئے گی ، اور اسی غفلت نے ان کو ظلم و ستم پر دلیر کر دیا ہے ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :19 مفسریں نے اس آیت کے دو مطلب بیان کیے ہیں ، اور آیت کے الفاظ میں دونوں معنوں کی گنجائش ہے ۔ ایک یہ کہ اہل ایمان اس ظالم گروہ کی زیادتیوں پر درگزر سے کام لیں تاکہ اللہ ان کو اپنی طرف سے ان کے صبر و حلم اور ان کی شرافت کی جزا دے اور راہ خدا میں جو اذیتیں انہوں نے برداشت کی ہیں ان کا اجر عطا فرمائے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان اس گروہ سے درگزر کریں تاکہ اللہ خود اس کی زیادتیوں کا بدلہ اسے دے ۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو منسوخ قرار دیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تک تھا جب تک مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہ دی گئی تھی ۔ پھر جب اس کی اجازت آ گئی تو یہ حکم منسوخ ہو گیا ۔ لیکن آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نسخ کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے ۔ درگزر کا لفظ اس معنی میں کبھی نہیں بولا جاتا کہ جب آدمی کسی کی زیادتیوں کا بدلہ لینے پر قادر نہ ہو تو اس سے درگزر کرے ، بلکہ اس موقع پر صبر ، تحمل اور برداشت کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ان الفاظ کو چھوڑ کر جب یہاں درگزر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے تو اس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل ایمان انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود ان لوگوں کی زیادتیوں کا جواب دینے سے پرہیز کریں جنہیں خدا سے بے خوفی نے اخلاق و آدمیت کی حدیں توڑ ڈالنے پر جری کر دیا ہے ۔ اس حکم کا کوئی تعارض ان آیات سے نہیں ہے جن میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی ہے ۔ جنگ کی اجازت کا تعلق اس حالت سے ہے جب مسلمانوں کی حکومت کسی کافر قوم کے خلاف باقاعدہ کارروائی کرنے کی کوئی معقول وجہ پائے ۔ اور عفو و درگزر کا حکم ان عام حالات کے لیے ہے جن میں اہل ایمان کو خدا سے بے خوف لوگوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سے سابقہ پیش آئے اور وہ انہیں اپنی زبان و قلم اور اپنے برتاؤ سے طرح طرح کی اذیتیں دیں ۔ اس حکم کا مقصود یہ ہے کہ مسلمان اپنے مقام بلند سے نیچے اتر کر ان پست اخلاق لوگوں سے الجھنے اور جھگڑنے اور ان کی ہر بیہودگی کا جواب دینے پر نہ اتر آئیں ۔ جب تک شرافت اور معقولیت کے ساتھ کسی الزام یا اعتراض کو جواب دینا یا کسی زیادتی کی مدافعت کرنا ممکن ہو ، اس سے پرہیز نہ کیا جائے ۔ مگر جہاں بات ان حدود سے گزرتی نظر آئے وہاں چپ سادھ لی جائے اور معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا جائے ۔ مسلمان ان سے خود الجھیں گے تو اللہ ان سے نمٹنے کے لیے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے گا ۔ درگزر سے کام لیں گے تو اللہ خود ظالموں سے نمٹے گا اور مظلوموں کو ان کے تحمل کا اجر عطا فرمائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: اللہ کے دنوں سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے اعمال کی سزا یا جزا دے، چاہے دنیا میں یا آخرت میں، اور مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اس بات سے بے فکر ہیں، بلکہ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ کوئی ایسے دن آنے والے ہیں۔ 3: درگزر کرنے کا مطلب یہاں یہ ہے کہ ان کی طرف سے جو تکلیفیں پہنچائی جائیں ان کا بدلہ نہ لیں، یہ حکم مکی زندگی میں دیا گیا تھا جہاں مسلمانوں کو مسلسل صبر کی تلقین کی جارہی تھی، اور ہاتھ اٹھانے سے منع کیا گیا تھا۔ 4: اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ کافر لوگ ان پر جو ستم ڈھارہے ہیں تم ان کا فی الحال بدلہ نہ لو، کیونکہ اللہ تعالیٰ خود ہی ان کا بدلہ لے لے گا، چاہے وہ اسی دنیا میں ہو یا آخرت میں، اور ساتھ ہی یہ مطلب بھی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل میں صبر سے کام لیں گے، اور بدلہ نہیں لیں گے، اللہ تعالیٰ ان کی اس نیکی کا بدلہ آخرت کی نعمتوں کی صورت میں ضرورعطا فرمائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:14) یغفروا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ مغفرۃ (باب ضرب) مصدر سے بمعنی کسی کا گناہ معاف کرنا۔ درگزر کرنا۔ معاف کردیں۔ (ایمان والوں سے فرما دیجئے کہ وہ معاف کردیں۔ یا درگزر کردیں۔ لایرجعون : مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ رجاء (باب نصر) مصدر۔ اندیشہ کرنا۔ خوف رکھنا۔ امید رکھنا۔ یقین رکھنا۔ جو امید نہیں رکھتے اور خوف نہیں رکھتے۔ یعنی اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ایمان والوں سے کہہ دیجئے کہ ان لوگوں سے درگزر کریں یا ان کو معاف کردیا کریں جو ایام اللہ کا یقین نہیں رکھتے۔ ایام اللّٰہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ ایام بوجہ مفعول ہونے کے منصوب ہے اللہ کے دن۔ اللہ کے دنوں سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ سرکشوں سے انتقام لے اور ان کی بدکرداری کے عوض ان کو عذاب دے۔ یا اپنے فرمانبردار بندوں کو اپنے مخصوص فضل و کرم سے نوازے۔ ابن السیکت نے تصریح کی ہے کہ عرب ایام کو وقائع کے معنی میں استعمال کرتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے کہ فلان عالم بایام العرب۔ یعنی وہ عرب کے واقعات و حالات کا عالم ہے۔ یہاں الذین لا یرجون ایام اللّٰہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس پر یقین نہیں رکھتے یا ان کو اللہ کے ان وقائع کا ڈر یا اندیشہ نہیں۔ جب وہ اپنے نیک بندوں کو اپنے فضل و کرم سے نوازے گا۔ اور بدکراروں اور مجرموں کو عذاب دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے بندوں کو جو ایام اللہ کا اندیشہ نہیں رکھتے معاف کردینے میں یہ مصلحت رکھی ہے کہ قیامت کے روز وہ اپنے بندوں کو خود انعام و اکرام دیگا۔ اور بدکرداروں کو سزا دے گا۔ اگر اس کے نیک بندوں نے اپنے مخالفین سے یہاں اس دنیا میں ہی بدلہ لے لیا۔ تو پھر اللہ تعالیٰ ان سے بدلہ نہیں لے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو درگزر کرنے اور معاف کردینے کا حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ بدکرداروں کو خود سزا دے۔ یجزی : مضارع واحد مذکر غائب۔ جزاء (باب ضرب) مصدر۔ مضارع منصوب بوجہ عمل لام تعلیل ہے ۔ وہ بدلہ دیگا۔ بما۔ میں ب سببیہ ہے اور نما موصولہ ۔ بسبب اس کے جو وہ کیا کرتے تھے۔ کانوا یکسبون ماضی استمراری جمع مذکر غائب کسب (باب ضرب) مصدر وہ کمایا کرتے تھے۔ وہ کیا کرتے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ” اللہ تعالیٰ کے دنوں ‘ سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے دنوں “ سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو خاص سزا دیتا ہے یا اپنے فرمانبردار بندوں کو خاص انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔ لہٰذا جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دنوں کی امیدن ہیں رکھتے اس سے مراد کفار ہیں جو اس کی رحمت سے مایوس اور اس کی گرفت سے بےفکر ہیں۔ 8 یعنی ان کی زیادتیوں اور ایذا رسانیوں پر صبر و تحمل سے کام لیں اور ان کا معاوضہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں … واضح رہے کہ مسلمانوں کو یہ حکم مکہ معظمہ میں دیا گیا جب انہیں کفار کے مقابل ہمیں تلوار اٹھانے کی اجازت نہ تھی۔ بعد میں مدینہ پہنچ کر جب جہاد بالسیف کا حکم نازل ہوا تو یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ (ابن کثیر) 9 ” قوما ‘(ان لوگوں کو) کا لفظ عام استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد مسلمان بھی ہوسکتے ہیں اور کافر بھی۔ مسلمان مراد ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ انہیں صبر و تحمل پر مناسب اجر عطا فرمائے گا اور اگر کافر مراد ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان کی شرارتوں پر خود ہی کافی سزا دے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 12 تا 15 : تبتغوا ( تم ڈھونڈتے ہو) یرجون ( تم امید رکھتے ہو) اسائ ( اس نے برا کیا) تشریح : آیت نمبر 16 تا 15 : یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا کرم ہے کہ اس نے انسان کو بیشمار نعمتوں سے نوازرکھا ہے سمندر اور دریا جو بےانتہاء طاقت ور ہیں اور کائنات کی وہ لا تعداد چیزیں جن کے سامنے انسان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ان کو انسانوں کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ آدمی جس طرح چاہتا ہے ان چیزوں کو استعمال کرتا ہے۔ اللہ نے اپنی نعمتوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ سمندر جیسی عظیم قوت کو انسان کے تابع اور مسخر کردیا ہے جس میں جہازوں اور کشتیوں کے ذریعہ گہرے پانیوں تک پہنچنا ممکن ہوتا ہے۔ آدمی ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک آتا اور جاتا ہے اور اپنا رزق تلاش کرتا ہے۔ اسی سمندر سے مچھلیوں کا شکار کر کے ان کے گوشت کو استعمال کرتا ہے قیمتی پتھر ، موتی یہاں تک کہ اب سمندر کے اندر سے تیل اور گیس تک نکال رہا ہے۔ سمندر کے اندر کتنی مع دنیانت ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ کہتے ہیں کہ سمندر کے اندر جتنی مع دنیات کے خزانے بھرے ہوئے ہیں وہ شایدخش کی پر بھی نہیں ہیں بہر حال سمندر ہو یا خشکی ، پہاڑ ہوں یا جنگلات آج کے دور میں اور اس سے پہلے دور میں انسان ان سے فائدے حاصل کرتا رہا ہے اس کو یہ صلاحیت کس نے عطاء فرمائی ؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ ساری صلاحتیں ہم نے انسان کو عطاء کی ہیں جن پر اسے ہر آن شکر ادا کرنا چاہیے لیکن انسان کی کمزوری یہ ہے کہ وہ ان صلاحیتوں کو اپنا کمال سمجھتا ہے اور ان پر شکر ادا نہیں کرتا ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ وہ اور اہل ایمان ان نا شکرے لوگوں کی پرواہ نہ کریں ۔ اپنا کام کئے جائیں ، صبر و تحمل سے کام لیں اور اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ انسان کا اچھا اور برا عمل اللہ کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے سب کو اللہ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے وہ اچھی طرح بتا دے گا کہ اگر انہوں نے بہتر عمل کئے تو اس پر بہترین بدلہ عطاء کیا جائے گا لیکن اگر کسی نے گناہ یا خطا کا کام کیا ہے تو وہ اس گناہ کے وبال سے بچ نہیں سکتا ۔ فرمایا کہ تم ان نا شکرے لوگوں سے انتقام اور بدلہ نہ لو کیونکہ اگر تم نے صبر و تحمل اور برداشت سے کام لیا تو پھر اللہ خود ان سے انتقام لے گا ۔ اللہ کا یہی دستور ہے ” ایام اللہ “ اس پر گواہ ہیں ۔ ایام اللہ سے مراد وہ معاملات ہیں جو آخرت میں انسانوں کے ساتھ کئے جائیں جن میں اللہ اپنے فرماں بردار بندوں کو انعام و اکرام سے نوازے گا اور نافرمانوں کو سخت سزا دے گا یا گزری ہوئی قوموں کے وہ واقعات مراد ہیں کہ جب بھی انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی تو ان کو سخت عذاب دیا گیا اور نیکیوں پر بہترین صلہ عطاء کیا گیا ۔ بہر حال غور و فکر کرنے والوں کے لئے ان تمام باتوں میں بہترین نصیحت اور عبرت کا سامان موجود ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی آخرت کے منکر ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو شخص اپنے رب کی قدرتوں پر غوروفکر اور اس کی نعمتوں کا شکرادا کرتا ہے وہ ہر صورت اپنے رب پر ایمان لاتا ہے۔ ایمان لانے والوں کو خصوصی ہدایت کی گئی ہے۔ ایمان کی ابتدا ” لا الٰہ الا اللہ “ سے ہوتی ہے جس کا معنٰی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی ضرورتیں پوری کرنے اور بگڑی بنانے والا ہے ہے۔ اس بات کا اقرار کرنے سے پہلے ہر معبود کی نفی کرنا فرض ہے۔ جو شخص اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی نفی نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس کا کلمہ قبول نہیں کرتا۔ کلمہ طیبہ میں پہلے معبودان باطلہ کی نفی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب ایماندار اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی نفی کرتا ہے تو کافر اور مشرک کو یہ بات برداشت نہیں ہوتی۔ اس پر کافر اور مشرک موحّد کے خلاف ہر اقدام کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں اور مومن بندوں کو درگزر کرنے کا حکم دیا ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا کہ اے نبی ! ایمان والوں سے فرمائیں کہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو برے اعمال کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے ایام سے نہیں ڈرتے۔ انہیں یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ جو ایمان لانے کے بعد صالح عمل کرے گا اس کا فائدہ اسی کو ہوگا اور جس نے ایمان لانے سے انکار کیا اور برے اعمال کرتارہا اس کا وبال اسی پر ہوگا۔ بالآخر تم سب نے اپنے رب کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق بدلہ دے گا۔ پہلی آیت میں ان لوگوں سے درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو اللہ کے ایام کا خوف نہیں رکھتے۔ ایام کے بارے میں اہل علم کا اتفاق ہے کہ یہاں ایام سے مراد ایسے دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کسی قوم کی پکڑ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے جو لوگ بےپرواہ ہوتے ہیں وہ بات بات پر جنگ وجدال پر اتر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے الجھنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے تبلیغ کے کام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا اور دوسرے مقام پر ایمانداروں کی یہ صفت بیان کی ہے۔ ” اور اگر کبھی آپ کو شیطان ابھارے تو اللہ کی پناہ طلب کریں بیشک وہ سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والا ہے “ (الاعراف : ٢٠٠) یہ خوبی حاصل نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔ “ (حم سجدہ : ٣٥) ” اہل کتاب کے اکثر لوگ چاہتے ہیں کہ حق واضح ہوجانے اور تمہارے ایمان لانے کے بعدوہ تمہیں اپنے حسد و بغض کی بناء پر ایمان سے ہٹا کر کافر بنا دیں۔ بس تم معاف کرو اور درگزر کرو۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ فرما دے یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ “ (البقرۃ : ١٠٩) ” رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اگر ان سے جاہل جھگڑیں تو وہ ان کو سلام کہہ کر چل دیتے ہیں۔ “ (الفرقان : ٦٣) مسائل ١۔ جو لوگ اپنے رب کی پکڑ سے بےخوف ہوتے ہیں۔ ایمانداروں کو ان سے درگزر کرنا چاہیے۔ ٢۔ جو ایماندار صالح عمل کرے گا وہ اس کی جزا پائے گا اور جو برے عمل کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا۔ ہر کسی نے اپنے رب کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ تفسیر بالقرآن حق کا انکار کرنے والوں کے ساتھ مومنوں کا کیا رویہ ہونا چاہیے : ١۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میں آپ لوگوں سے اور جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ان سے کنارہ کش ہوتا ہوں۔ (مریم : ٤٨) ٢۔ اے ایمان والو ! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ (المائدۃ : ٥١) ٣۔ اے ایمان والو ! اگر تمہارے آباء اسلام پر کفر کو ترجیح دیں تو اپنے آباء اور بھائیوں کو دوست نہ بناؤ۔ (التوبۃ : ٢٣) ٤۔ اے ایمان والو ! کفار کو مومنوں کے مقابلہ میں دوست نہ بناؤ۔ (النساء : ١٤٤) ٥۔ اے ایمان والو ! جن لوگوں نے تمہارے دین کو کھیل تماشہ بنا رکھا ہے انہیں دوست نہ بناؤ۔ (المائدۃ : ٥٧) ٦۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے معبودباطل کا انکار کیا اور ان سے براءت کا اظہار کیا۔ (الممتحنہ : ٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ١٤ تا ١٥ اہل ایمان کو ہدایت کی گئی ہے کہ جو لوگ اللہ کے عذاب سے نہیں ڈرے ، ان سے درگزر کرو اور ان کے ساتھ دشمنی کی بجائے ہمدردی کا رویہ اختیار کرو۔ اور شریفانہ اور اخلاق عالیہ کا رویہ اختیار کرو۔ درگزر کرو اور ان پر رحم کرو کہ وہ مساکین ہیں۔ وہ علم و ہدایت اور قوت اور رحمت کے اصل سرچشمے سے محروم ہیں۔ یہ ایمان ہی کا سرچشمہ ہے جو انسان کو غنی ، قوی اور رحیم و کریم بنا دیتا ہے۔ انسان اسی پر بھروسہ کرتا ہے ، مطنئن ہوتا ہے اور مشکل اوقات میں اس کے سامنے سربسجود ہوتا ہے اور اس کے سہارے آہ و فغاں کرتا ہے۔ پھر یہ لوگ ان قوانین فطرت اور سنن الہٰیہ سے بھی ناواقف ہیں جن کے نتیجے میں انسان کو ہر قسم کی قوت حاصل ہوتی ہے۔ اہل ایمان چونکہ ایمان کے خزانے تک رسائی حاصل کرچکے ہیں اور اس کے ذریعہ ان کو مادی اور روحانی اطمینان حاصل ہے اور وہ ایک برتر پوزیشن ہیں اس لیے ان کے شایان شان یہ ہے کہ وہ عفو و درگزر سے کام لیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس درگزر کے نتیجے میں اہل ایمان کا رویہ ہوگا کہ وہ تمام معاملات اللہ کے حوالے کردیں گے جو محسن کو اس کے احسان کی جزاء دے گا اور بدکار کو اس کی بدکاریوں پر سزا دے گا۔ عفو و درگزر کی بجائے اگر اہل ایمان ان بیچاروں کے ساتھ سختی کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو وہ اس نیکی سے محروم ہوجائیں گے بشرطیکہ اس عفو و درگزر کی پالیسی کے نتیجے میں امن وامان کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا ، اور لوگ حدود اللہ پر دست درازی میں جری نہیں ہوجاتے ہوں۔ لیجزی قوما بما کانوا یکسبون (٤٥ : ١٤) “ تا کہ اللہ خود ایک گروہ کو اس کی کمائی کا بدلہ دے ”، اور اس کے بعد یہ بھی تصریح کردی جاتی ہے کہ جزاء و سزا میں ہر شخص اپنے کئے کا ذمہ دار ہے۔ لہٰذا ہر شخص کو اللہ کے سامنے حاضری دینے کے وقت کی فکر کرنی چاہئے۔ من عمل صالحا ۔۔۔۔۔۔۔ ترجعون (٤٥ : ١٥) “ جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے کرے گا اور جو برائی کرے گا وہ آپ ہی اس کا خمیازہ بھگتے گا۔ پھرجانا تو سب کو اپنے رب ہی کی طرف ہے ”۔ یوں ایک مومن کا سینہ فراخ ہوتا ہے۔ اس کی سوچ بلند ہوتی ہے۔ وہ انفرادی مشکلات بھی برداشت کرتا ہے اور احمقوں کی حماقتیں بھی برداشت کرتا ہے اور اندھے اور محروم لوگوں کے طرز عمل کو بھی برداشت کرتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ کمزور ہوتا ہے اور اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دے سکتا۔ یہ برداشت وہ تنگ دلی سے نہیں بلکہ وسعت قلبی سے کرتا ہے۔ کیونکہ وہ مضبوط کردار اور کھلے دل کا مالک ہوتا ہے۔ اور اس نے ان محروم لوگوں کے لئے بھی ہدایت کی مشعل اٹھا رکھی ہوتی ہے۔ اس نے بیماروں کے لئے شفایابی کا تریاق اتھا رکھا ہوتا ہے۔ اور وہ اس پر اجر کا طالب صرف اللہ سے ہوتا ہے اور آخرت میں ہوتا ہے۔ اور آخر کار تمام امور اللہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور ہدایت اور رہنمائی کا سرچشمہ بھی اللہ ہی ہے۔ اور اس کی طرف لوٹنا ہے۔ ٭٭٭٭ اب انسانیت کے لئے مومن قیادت کے کردار کے موضوع پر بات ہوتی ہے۔ یہ قیادت اب اسلامی جماعت کی شکل میں وجود میں لائی گئی ہے۔ اس سے پہلے یہ بنی اسرائیل کے ہاتھ میں تھی۔ ان کو کتاب دی گئی۔ حکومت دی گئی ، نبوت دی گئی مگر انہوں نے اختلافات شروع کر دئیے۔ اور ان سے یہ قیادت اور منصب لے کر اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب آپ کو دے دیا گیا ہے۔ اس وقت آپ مکہ میں تھے۔ اور دعوت اسلامی نہایت ہی مشکل دور سے گزر رہی تھی لیکن آدم (علیہ السلام) سے ادھر اس کا مزاج ، اس کی نوعیت اور مقاصد اور مہم ایک ہی رہی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آپ اہل ایمان سے فرما دیں کہ منکریں سے در گزر کریں، ہر شخص کا نیک عمل اسی کے لیے ہے، اور برے عمل کا وبال بھی عمل کرنے والے پر ہے صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ ﴿ يَغْفِرُوْا ﴾ جو اب امر ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے تقدیر عبارت یوں ہے قُلْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا غَفَرُوْا یَغْفِرُوْا یعنی آپ اپنے ایمان والوں سے فرما دیں کہ درگزر کر وہ اس پر عمل کرتے ہوئے ان لوگوں سے در گزر کریں جو اللہ کے دنوں کی امید نہیں کرتے یعنی کافر لوگ جنہیں اس کا خیال نہیں کہ اللہ تعالیٰ دنوں کو پلٹ دیتا ہے ہمیشہ یکساں زمانہ نہیں رہتا وہ دشمنوں سے انتقام لے لیتا ہے، صاحب روح المعانی نے اس کی دوسری تفسیر حضرت مجاہد تابعی (رض) سے یوں نقل کی ہے کہ ان لوگوں سے درگزر فرمائیں جنہیں ان اوقات کی امید نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ثواب دینے کے لیے مقرر فرمائے ہیں جن میں مومنین کو کامیابی حاصل ہوگی یعنی وہ لوگ آخرت کو مانتے ہی نہیں ان سے درگزر کریں، پھر بعض علماء کا یہ قول بھی لکھا ہے کہ یہ آیت قتال کا حکم نازل ہونے سے پہلے نازل ہوئی تھی جب جہاد کا حکم نازل ہوا تو یہ حکم منسوخ ہوگیا اور بعض علماء کا قول نقل کیا ہے کہ نسخ نہیں ہوا بلکہ چھوٹی چھوٹی باتیں جو دشمنوں کی طرف سے ہوتی رہتی ہیں جن سے ایذا پہنچتی ہے یا وحشت ہوتی ہے ان باتوں سے درگزر کرنا مراد ہے۔ ﴿لِيَجْزِيَ قَوْمًۢا بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ٠٠١٤﴾ (یعنی آپ ایمان والوں کو درگزر کرنے کا حکم دیں وہ درگزر کریں، اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کی انہیں جزا دے گا اور کافروں کے عمل کی کافروں کو سز دے گا۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” قل للذین۔ الایۃ “ یہ تخویف دنیوی ہے۔ یغفروا ای یعفوا ویصفحوا (روح) ۔ لایرجون لا یاملون او لایخافون (قرطبی) ۔ او لایعتقدون (الشیخ قدس سرہ) ۔ ایام اللہ سے مجازا وقائع و حوادث مراد ہیں جو اللہ اپنے دشمنوں پر لاتا ہے (بحر) لیجزی کا متعلق محذوف ہے۔ لتاتین ایام اللہ (الشیخ (رح)) ۔ یا یہ یغفروا سے متعلق ہے۔ (روح) ۔ مطلب یہ ہے کہ ایمان والوں سے فرما دیں کہ وہ ان لوگوں سے نزاع وجدال نہ کریں بلکہ درگذر کریں جو دنیا میں اللہ کے عذاب کی توقع ہی نہیں رکھتے یا اس کے آنے پر ان کا ایمان ہی نہیں اللہ کا عذاب مختلف وقائع و حوادث کی شکل میں ضور آئے گا تاکہ ان منکرین کو ان کے کیے کی سزا دی جائے۔ یا مطلب یہ ہے کہ ایمان والے درگذر کریں تاکہ اللہ ان مجادلین کو سزا دے۔ ” من عمل صالح فلنفسہ “ جو شخص نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے ہی لیے کرتا ہے اور اس کا فائدہ اسی کو ہوتا ہے۔ ” ومن اساء فعیہا “ اور جو بارے کام کرے ان کا وبال اور نقصان بھی اسی کو ہوتا ہے۔ پھر آخرت میں سب اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے اور وہ ہر ایک کو اس کے اعمال کی جزاء سزا دے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) اے پیغمبر آپ ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں فرمادیجئے کہ وہ ان لوگوں سے فی الحال درگزر کریں جو ایام خداوندی یعنی معاملات الٰہی کا یقین نہیں رکھتے تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے ان اعمال کا بدلادے جو وہ کماتے تھے۔ ایام اللہ سے وہ وقائع اور حوادثات مراد ہیں جو کبھی کبھی دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں اور آخرت میں تو ان کا وقوع یقینی ہے مسلمانوں کو صبر کی تلقین فرمائی کہ دشمنوں کی زیادتی پر فی الحال کوئی بدلا نہ لو بلکہ انتظار کرو شاید اللہ تعالیٰ دنیا ہی میں ہی سرکشوں اور ظالموں کو خوار ورسوا کردے یا قیامت میں دشمنوں سے بدلا لے۔ کفار کی تعریف یہاں لا یرجون ایام اللہ کے الفاظ سے فرمائی یعنی نہ تو یہ لوگ وقائع اور حوادثات کے متوقع ہیں اور نہ ہی آخرت پر ان کا ایمان ہے۔ لیجزی کا ایک مطلب یہ ہے کہ دشمنوں کو ان کے کسب اور ان کی کمائی کا بدلا دے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کے صبر کا صلہ عطا فرمائے۔ بہرحال آیت کا ترجمہ کئی طرح کیا گیا ہے ہم نے تمام اقوال کا ایک خلاصہ کردیا ہے۔ کہتے ہیں حضرت عمر (رض) کو کسی مشرک نے جو قبیلہ غفار کا تھا اس نے برا اور سخت وسست کہا۔ حضرت عمر نے اس سے انتقام لینا چاہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی بعض نے کہا مسلمان مکہ معظمہ میں کفار کے ہاتھوں سخت ایزا برداشت کرتے تھے اس کا شکوہ پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں سے فرما دیجئے کہ وہ ان لوگوں کی زیادتیوں سے درگزر کریں جو ایام خداوندی اور اس کی سزاوجزا کے قائل نہیں ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو صبر کا صلہ اور ایذارسانوں کو ان کی ایذا کا بدلہ خود ہی عطا فرمائے ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں معاف کریں یعنی بدلے کی فکر نہ کریں اللہ چھوڑ دیں۔ آگے اسی کی تفصیل ہے۔