Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 22

سورة الجاثية

وَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ وَ لِتُجۡزٰی کُلُّ نَفۡسٍۭ بِمَا کَسَبَتۡ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ ﴿۲۲﴾

And Allah created the heavens and earth in truth and so that every soul may be recompensed for what it has earned, and they will not be wronged.

اور آسمانوں اور زمین کو اللہ نے بہت ہی عدل کے ساتھ پیدا کیا ہے اور تاکہ ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے کام کا پورا بدلہ دیا جائے اور ان پر ظلم نہ کیا جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَخَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضَ بِالْحَقِّ ... And Allah has created the heavens and the earth with truth, meaning, in justice, ... وَلِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ in order that each person may be recompensed what he has earned, and they will not be wronged. Allah the Exalted said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] آخرت پر دوسری عقلی دلیل & اللہ کی حکمتیں اور ان کا تقاضا & کوئی چیز عبث پیدا نہیں کی گئی :۔ یہ معاد یا عالم آخرت کے قیام پر دوسری دلیل ہے اور یہ اللہ کی صفت حکیم ہونے کے تقاضا کے مطابق ہے۔ یعنی اللہ کا کوئی کام بھی حکمت اور مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ پھر کیا یہ سارا کارخانہ کائنات حکمت سے خالی ہوسکتا ہے۔ جس کی ایک ایک چیز انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے اور انسان ہر چیز سے فائدہ بھی اٹھا رہا ہے۔ اب اگر انسان اچھے یا برے اعمال، جیسے بھی اس سے بن پڑیں اس دنیا میں کرکے مرجاتا ہے اور اس سے کچھ بھی مؤاخذہ نہیں کیا جاتا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کائنات کو پیدا کرنا، پھر اس کائنات کی چیزوں سے انسان کو فائدہ اٹھانے کا موقعہ دینا سب کچھ بےسود، عبث اور ایک بےنتیجہ کھیل تھا۔ اور ایسا کام کرنا اللہ کی حکمت کے سراسر منافی ہے۔ لہذا لازمی ہے کہ اس دنیا کا نتیجہ ایک دوسرے عالم کی صورت میں نکلے جس میں ہر طرح کے انسانوں کا پورا پورامحاسبہ کیا جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وخلق اللہ السموت والارض بالحق …: یہ آخرت کے حق ہونے کی دوسری دلیل ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة ص (٢٧) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَخَلَقَ اللہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسِ بِمَا كَسَبَتْ وَہُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۝ ٢٢ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو اظہار حق کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ ہر ایک نیک و بد کو اس کی نیکی اور برائی کا بدلہ دیا جائے اور کسی کی نیکی میں اور گناہوں میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ { وَخَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍم بِمَا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ } ” اور اللہ نے تو آسمان اور زمین کو حق (عدل) کے ساتھ پیدا کیا ہے تاکہ پورا پورا بدلہ دیا جائے ہر جان کو جو کچھ اس نے کمایا ہو ‘ اور ان پر کوئی ظلم نہ ہو۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28 That is, 'Allah has not created the earth and the heavens for mere sport, but it is a wise system with a purpose. In this system it is absolutely unimaginable that the people who may have accomplished good deeds by the right use of the powers and means and resouces granted by AIlah and the people who may have spread mischief and wickedness by their wrong use, should end up ultimately in the dust after death, and there should be no life hereafter in which their good and bad deeds should lead to good or bad results according to justice. If this were so, this universe would be the plaything of a thoughtless being, and not a purposeful system devised by a Wise Being." (For further explanation, sec AIAn'am: 73, Yunus: 5-6, Ibrahim: 19, An-Nahl: 3, AI-'Ankabut: 44 and E.N.'s 75, 76; Ar-Rum: 8 and E.N. 6 on it). 29 In this context the sentence clearly means: 'If the good people are not rewarded for their goodness, and the wicked are not punished for their wickedness, and the grievances of the oppressed are not redressed, it would be injustice. There cannot be such an injustice in the Kingdom of God. Likewise, there cannot also be the other kind of injustice that a good man be given a lesser reward Matt what is due to him, or a bad man given a greater punishment than what he deserves. "

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :28 یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کی تخلیق کھیل کے طور پر نہیں کی ہے بلکہ یہ ایک با مقصد حکیمانہ نظام ہے ۔ اس نظام میں یہ بات بالکل ناقابل تصور ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے اختیارات اور ذرائع و وسائل کو صحیح طریقہ سے استعمال کر کے جن لوگوں نے اچھا کارنامہ انجام دیا ہو ، اور انہیں غلط طریقے سے استعمال کر کے جن دوسرے لوگوں نے ظلم و فساد برپا کیا ہو ، یہ دونوں قسم کے انسان آخر کار مر کر مٹی ہو جائیں اور اس موت کے بعد کائنات ایک کھلنڈرے کا کھلونا ہو گی نہ کہ ایک حکیم کا بنایا ہوا با مقصد نظام ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، الانعام ، حاشیہ٤٦ ، جلد دوم ، یونس ، حاشیہ۱۱ ، ابراہیم ، حاشیہ ۲٦ ، النحل ، حاشیہ٦ ، جلد سوم ، العنکبوت ، حاشیہ ۷۵ ، الروم ، حاشیہ٦ ) ۔ سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :29 اس سیاق و سباق میں اس فقرے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر نیک انسانوں کو ان کی نیکی کا اجر نہ ملے ، اور ظالموں کو ان کے ظلم کی سزا نہ دی جائے ، اور مظلوموں کی کبھی داد رسی نہ ہو تو یہ ظلم ہوگا ۔ خدا کی خدائی میں ایسا ظلم ہرگز نہیں ہو سکتا ۔ اسی طرح خدا کے ہاں ظلم کی یہ دوسری صورت بھی کبھی رونما نہیں ہو سکتی کہ کسی نیک انسان کو اس کے استحقاق سے کم اجر دیا جائے ، یا کسی بد انسان کو اس کے استحقاق سے زیادہ سزا دے دی جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: یہ ترجمہ وَھُمْ لَایُظْلَمُوْنَ کے جملے کو تُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ سے حال قرار دینے پر مبنی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٢۔ ٢٧۔ مشرکین مکہ یہ جو کہتے تھے کہ مرنے کے بعد خاک ہو کر سب برابر ہوجائیں گے کیونکہ انسان کا پھر دوبارہ جینا اور جزا و سزا کا دیا جانا کچھ سمجھ میں نہیں آتا اوپر کی آیت میں اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا تھا کہ ایسی ناانصافی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا نہیں کیا کہ نیک و بد دونوں کے مر کر خاک ہوجانے کے بعد پھر خبر نہ لی جائے کہ نیک شخص نے نیکی جو کی تھی اس کی جزا اور بد شخص نے بدی جو کی تھی اس کی سزا کچھ ہونے کی ہے یا نہیں ان آیتوں میں اس جواب کو پورا کرنے کے لئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اس انصاف کی بنیاد پر پیدا کیا ہے کہ آخر عمر تک نیکی بدی جو جس کا جی چاہے کرلے پھر اس طرح ہر شخص کی عمر آخر ہوتے ہوتے جب دنیا ختم ہوجائے تو تمام دنیا کی نیکی و بدی کی جزا و سزا کا فیصلہ ایک دن کردیا جائے اور یہ فیصلہ اس طرح انصاف سے ہو کہ اس میں کسی پر ظلم نہ ہو کیونکہ ظلم اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا ا لیا ہے۔ صحیح ١ ؎ مسلم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے کہ ظلم اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک پر حرام کرلیا ہے آگے فرمایا اے رسول اللہ کے ان مشرکوں کی بےٹھکانے باتوں کا کچھ تعجب نہ کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کو دین ٹھہرایا ہے ان کو تو یہ لوگ جانتے نہیں اس لئے ان کی ہر بات بےسند اور دل کی خواہش پر ہے جس بات کو ان کا دل چاہتا ہے اس کو یہ اپنا دین ٹھہرا لیتے ہیں جس بات کی پوجا کو ان کا دل چاہتا ہے اس کی پوجا کرنے لگتے ہیں اسی واسطے ان کے ہر ایک قبیلہ کے بت الگ الگ ہیں ‘ پھر فرمایا جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں گمراہ ٹھہر چکے ہیں وہ ایسی ہی باتیں کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق نیک بات کے سننے سے انکے کانوں پر اور سمجھنے سے دل پر مہر لگی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں کے دیکھنے سے ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی ان کو راہ راست پر نہیں لاسکتا اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو گمراہی کی حالت پر چھوڑ رکھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں یہ بات قرار پا چکی ہے کہ اس طرح کے لوگ کبھی اپنے ارادہ سے راہ راست پر آنے والے نہیں اور مجبور کرکے کسی کو راہ راست پر لانا اللہ تعالیٰ کے انتظام کے برخلاف ہے کس لئے کہ دنیا و بد کے امتحان کے لئے پیدا کیا ہے کسی کو مجبور کرکے راہ راست پر لانے کے لئے نہیں پیدا کیا آخر آیت میں افلا تذکرون جو فرمایا اسکا مطلب یہ ہے کہ جن مسلمانوں کو یہ تعجب ہے کہ ہر وقت کی نصیحت سے بعض مشرک راہ راست پر کیوں نہیں آتے ان کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں گمراہ ٹھہر چکے ہیں وہ کسی طرح راہ راست پر آنے والے نہیں آگے مشرکین مکہ کی ایک اور نادانی کا ذکر فرمایا کہ یہ لوگ قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونے کے جو قائل نہیں یہ فقط ان کی اٹکل ہے کوئی سند اس بات کی انکے پاس نہیں ہے یہ نہیں سمجھتے کہ جزا و سزا کے لئے دوبارہ زندہ کیا جانا نہ ہو تو دنیا کا پیدا ہونا بیکار ٹھہرتا ہے جو اللہ کے شان سے بہت بعید ہے باقی تفسیر اس آیت کی اوپر کی آیت کی تفسیر میں گزر چکی ہے آگے ایک اور نادانی مشرکین مکہ کی بیان فرمائی کہ حشر کی آیتیں سن کر وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر حشر کا ہونا سچ ہے تو ہمارے بڑوں کو زندہ کیا جا کر ہم سے ملا دیا جائے اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ دوبارہ زندہ ہونے کے لئے قیامت کا دن مقرر ہے اب نہیں ہے پھر فرمایا بہت لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ جس نے ایک دفعہ پیدا کیا اس کو وقت مقررہ پر دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے اس لئے وہ لوگ جو حشر کے منکر ہیں اگر سمجھیں تو حشر کچھ مشکل نہیں ہے پھر فرمایا جب آسمان و زمین کی سب مخلوقات پر اللہ کا حکم جاری ہے تو اس طرح کی عاجز چیزوں میں سے کسی چیز کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہرایا جاسکتا اس واسطے جو لوگ کسی کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں وہ قیامت کے دن جھوٹے قرار پا کر بڑی خرابی میں پڑجائیں گے ‘ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے اب تو یہ لوگ سرکشی کی باتیں کرتے ہیں مگر قیامت کے ہول سے پریشان ہو کر جب یہ لوگ حساب کے وقت سر جھکا کے گھنٹوں کے بل بیٹھ جائیں گے تو وہ حالت ان لوگوں کی دیکھنے کے قابل ہوگی۔ صحیح ١ ؎ مسلم کے حوالہ سے عبد (رض) اللہ بن مسعود کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ ستر ہزار نکیلیں لگا کر دوزخ کو محشر کے میدان میں لایا جائے گا سورة الفرقان میں یہ بھی گزر چکا ہے کہ جب دوزخ کو منکرین حشر کی صورت دکھائی دے گی تو غصہ کے مارے دوزخ میں سے طرح طرح کی خوفناک آوازیں آئیں گی علما نے لکھا ہے کہ ایسے ہی ہول کے وقت لوگ گردنیں ڈال کر گھٹنوں کے بل بیٹھ جائیں گے۔ (١ ؎ صحیح مسلم باب تحریم الظلم ص ٣١٨ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب جھنم اعاذنا اللہ منھا۔ ص ٣٨١ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:22) بالحق : حق کے ساتھ ۔ نیز ملاحظہ ہو 45:6 متذکرہ بالا۔ ولتجزی۔ واؤ عاطفہ لام تعلیل کا۔ تجزی مضارع مجہول واحد مؤنث غائب۔ جزاء باب ضرب۔ مصدر۔ وہ بدلہ دی جائے گی۔ اس کی جزاء دی جائے گی۔ بما کسبت : جو کچھ اس نے کمایا۔ جو کچھ اس نے کیا۔ لا یظلمون : مضارع منفی مجہول جمع مذکر غائب ظلم (باب ضرب) مصدر۔ ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ ان کے ساتھ ناانصافی نہیں کی جائے گی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی زمین و آسمان کا یہ نظام محض کھیل نہیں بنایا بلکہ یہ ایک بامقصد حکیمانہ نظام ہے جس میں ضروری ہے کہ ہر شخص کو اس کی نیکی اور بدی کا بدلہ دیا جائے اور دنیا و آخرت میں کسی پر ظلم نہ ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٢٢ تا ٢٦۔ اسرار ومعارف۔ اللہ نے یہ سارانظام آسمانوں اور زمین کا بھی حق و انصاف پر بنایا ہے جس طرح اس کی تعمیر و تخلیق میں ہے ہر شے کو ایک حیثیت اور حق دیا گیا ہے اسی طرح سے اعمال کا بدلہ بھی یقینا دیاجائے گا مثلا جیسے کھانا کھانے کا نتیجہ ہے کہ بھوک ختم ہوجاتی ہے پھر اگر درست ہوتوصحت ہوتی ہے خراب ہوتوبیمار کردیتا ہے اسی طرح ایک نتیجہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جائز وسائل سے حاصل کیا گیا تھا یا نہیں جس کا اظہار یقینا قیامت کو ہوگا اور وہاں کسی کے ساتھ زیادتی نہ کی جائے گی مگر ان کی مصیبت یہ کہ آپ دیکھیں انہوں نے اپنی خواہش نفس کو ہی اپنا معبود بنارکھا ہے۔ خواہش نفس کو معبود بنارکھا ہے۔ کوئی بھی شخص یہ نہیں کہتا کہ میں اپنی خواہش نفس کی عبادت کرتا ہوں مگر عبادت سے مراد اور حقیقت عبادت تو اطاعت ہے اگر اللہ کے مقابل کسی کی بھی اطاعت کی گئی تو اس کا معنی ہے اس کی عبادت کی گئی رسول اللہ کے ارشاد کے مطابق اللہ کے نزدیک سب سے مبغوض خواہش نفس ہے۔ اللہ کریم اسے بچنے کی توفیق دے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ کریم توفیق ہدایت سلب کرلیتے ہیں اور آدمی جانتا بوجھتا غلط راستے پر چل پڑتا ہے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے کہ قرب الٰہی یا اطاعت الٰہی کی خواہش ہی پیدا نہیں ہوتی کان ہدایت کی اور حق کی بات سننے سے بند ہوجاتے ہیں اور آنکھوں تک پر پردہ پڑجاتا ہے اور یہ اس گستاخی کی سزا ہے جو دنیا میں ملتی ہے اور یہ ایسی خوفناک سزا ہے کہ جب اللہ ہی نے راستے دیکھنے اور ہدایت پرچلنے کی توفیق سلب کرلی تو پھر ایسے لوگوں کے لیے کوئی بھی ہدایت کا سامان نہیں کرسکتا۔ گمراہی یاثواب۔ جس طرح بعض اعمال کے نتیجے میں دل پر مہر ہوجاتی ہے کان اور آنکھیں حق سننے یا دیکھنے سے محروم ہوجاتی ہیں اور خصوصا ایک حال میں کہ جب کوئی اپنی خواہشات کی پیروی کرکے اسے درست سمجھنا شروع کردے اور احکام الٰہی سے نامناسب یا دوسرے لفظوں میں غلط نظر آنے لگیں تو اس کی سزا یہ ہوتی ہے جو دنیا میں مل جاتی ہے اور آخرت کی تباہی اور دائمی جہنم کا سبب بنتی ہے صدافسوس کہ یہ صرف مرض آج کل کے نام نہاد ترقی یافتہ طبقے میں پھیل رہا ہے اسی طرح ہر نیک عمل کا ثواب یہ ہے کہ دل میں ایک کیفیت ایک جذبہ پیدا ہوتا ہے جو مزید اطاعت الٰہی کی خواہش کہہ لیجئے اور مزید خلوص پیدا ہوتا ہے نیکی میں لذت محسوس ہوتی ہے اور گناہ سے نفرت بڑھتی ہے جو آخرت کے انعامات کا سبب بنتی ہے لہذا ہر آدمی کو اپناثواب ایک طرح سے جانچنا چاہیے یہ تصور درست نہیں کہ ادھاری مزدوری ہے عبادت کا ساراثواب آخرت میں ملے گا یہ بات سمجھنے کی ہے۔ ان سب باتوں کے بعد بھی یہ لوگ نصیحت حاصل نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ آخرت نہ ہوگی بلکہ یہی ہمارا مرناجینا ہے اور یہ سب تو زمانے کا وقت کا اور گزرتے ہوئے وقت کی خصوصیات کا اثر ہے کہ انسانی قوی کمزور ہوتے ہوئے موت تک پہنچادیتے ہیں۔ زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب ، موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشان ہونا ، لیکن کیا گزرتے وقت زمانے یادہر میں یہ خصوصیات از خود پیدا ہوسکتی ہیں جبکہ عقلا بھی ہر شے کا سبب تلاش کرتے ہو اور موت وحیات کا سبب دہر کو قرار دیا گیا اگر ایسا بھی ہوتودہر کو کس نے پیدا کیا کس نے یہ خصوصیات رکھ دیں اور اگر وہ اپنی ذات سے خود ہے سب کمالات اس کے ذاتی ہیں تو پھر وہی اللہ ہے جس کا نام تم نے اطاعت سے بچنے اور عظمت سے انکار کرنے کے لیے دہر اور زمانہ رکھ دیا ہے اسی لیے نبی کریم زمانے کو برابھلا کہنے سے منع فرماتے ہیں کہ انہوں نے اللہ ہی کی صفات کا اس نام میں اقرار کررکھا ہے اگرچہ دہر اسمائے الٰہی میں نہیں اور اس نظریے پر اس کے پاس عقلی دلیل تو پہلے نہ تھی کہ کوئی علمی دلیل بھی نہیں محض اٹکل پچو لگاتے ہیں اور جب اللہ کی واضح آیات اور عقلی وعلمی دلائل پیش کیے جاتے ہیں تو لاجواب ہو کر کہنے لگتے ہیں کہ اگر آپ کی بات سچی ہے اور موت کے بعد حیات ہے تو ہمارے باپ دادوں کو زندہ کرکے لائیں ۔ یہ کتنی بودی بات ہے دوبارہ دنیا میں آنے کی تو بات ہی نہیں ہورہی اور اگر قیامت کی زندگی پہ شبے ہے کہ کوئی ایسا نہیں کرسکتا توفرمادیجئے کہ اپنی تخلیق کو دیکھ کر جو قادر مطلق ایک قطرے سے پیدا کرتا ہے اور پھر بڑے بڑے شہ زوروں کو موت دے دیتا ہے وہی تمہیں پھر سے پیدا کرکے میدان محشر میں جمع فرمائے گا جس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں لیکن بہت سے لوگوں کو اس کی سمجھ ہی نہیں آتی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 22 تا 24 : تجزی ( بدلہ دیا گیا) ھوا ( خواہش) الدھر ( زمانہ) یظنون (وہ گمان کرتے ہیں) تشریح : آیت نمبر 22 تا 24 : ان تین آیات میں تین باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں (1) آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور قیامت کا قائم ہونا (2) جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اس کو ہدایت نصیب نہ ہونا (3) جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد دوسری کوئی زندگی نہیں ہے اور ہمیں زندگی اور موت زمانے کی وجہ سے آتی ہے۔ پہلی بات کو قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ اس ساری کائنات کو اللہ نے پیدا کیا ہے وہی اس کے انتظام کو اس طرح چلا رہا ہے کہ وہ اس کے چلانے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان جتنی چیزیں ہیں ان کو اللہ نے بےمقصد پیدا نہیں کیا ہے بلکہ ان کا مقصد انسانوں کا امتحان ہے جب اللہ چاہے گا اس انتظام کائنات کو ختم کر دے گا اور قیامت قائم ہوجائے گی تا کہ ہر شخص کے اعمال کے مطابق اس کو جزا یا سزا دی جاسکے۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ وہ شخص راستے سے بھٹک جاتا ہے جو اپنی خواہش نفس کو اس حد تک برتر مقام دے دیتا ہے کہ اس کا ہر کام عقل و فہم ہونے کے باوجود اپنی خواہش نفس کے تحت ہوجاتا ہے۔ اور وہ اپنے نفس کی اس طرح اطاعت کرتا ہے جیسے اللہ کی اطاعت کی جاتی ہے۔ وہ اپنی نفسانی خواہشات کا اس طرح غلام بن جاتا ہے کہ اس کا نفس اس کو جس طرف بلاتا ہے وہ اسی طرف چل پڑتا ہے اس کو جائز اور ناجائز ، حرام اور حلال کی پرواہ نہیں ہوتی ۔ اس کی عقل اس حد تک گر جاتی ہے کہ ایک حق بات کو اس کے کان سنتے ہیں مگر اس کے معنی اور مفہوم تک نہیں پہنچتے ۔ اس کی آنکھ دیکھتی ہے مگر وہ اس سے سبق حاصل نہیں کرتا ۔ اس کے پاس دل ہوتا ہے مگر وہ عقل و فہم سے خالی ہوجاتا ہے ۔ حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے سنا ہے کہ آسمان کے نیچے دنیا میں جتنے معبودوں کی عبادت کی گئی ہے ان میں سب سے زیادہ اللہ کی نا راضگی کا سبب نفسانی خواہشات کی پیروی کرتا ہے ( قرطبی) اسی طرح حضرت شداد (رض) ابن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقل مند وہ شخص ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھتا ہے اور مرنے کے بعد کی زندگی کے لئے عمل کرتا ہے اور فاجر و فاسق شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنی خواہشات کے پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور اس کے باوجود اللہ سے آخرت کی بہتری کی تمنا رکھتا ہے۔ ( قرطبی) خلاصہ یہ ہے کہ خواہش نفس کو مبعود بنانے سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی نفسانی خواہشات کا اس طرح غلام بن جائے کہ اس کو جائز و ناجائز ، حرام و حلال اور حق و باطل کی پرواہ نہ رہے۔ جس بات کی طرف اس کا نفس اس کو لے جانا چاہتا ہے وہ بلا تکلف اس طرف بڑھنا چلا جاتا ہے۔ تیسری بات یہ فرمائی گئی کہ وہ لوگ جو آخرت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی کے بعد دوسری کوئی زندگی نہیں ہے۔ دین و مذہب کی پابندیاں ، جائز و ناجائز ، نیکی اور بدی یہ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ زمانہ اور اس کی رفتار ہے وہی ہمیں پیدا کرتا ہے اور وہی ہمیں مار دیتا ہے۔ اگر مر نے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کی کوئی حقیقت ہوتی تو ہمارے باپ دادا جو ہزاروں سال پہلے مرکھپ گئے ہیں وہ زندہ ہوجاتے اور ہم ان کو دیکھ کر ایمان لے آتے ۔ اللہ تعالیٰ نے دھریوں ( باطل پرستوں) کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ ان مردوں کو ضرور پیدا کرے گا مگر اس کے لئے ایک دن مقرر ہے اور وہ قیامت کا دن ہے اور وہ ان منکرین آخرت پر بڑا سخت دن ہوگا کیونکہ یہ فیصلے کا دن ہوگا جس میں نیکیوں پر قائم رہنے والوں کو بہترین انعام ، جزا اور بدلہ دیا جائے گا اور ان کو ابدی راجت بھری جنتوں میں داخل کیا جائے گا۔ اس کے بر خلاف وہ لوگ جنہوں نے پوری زندگی برائیوں ، گناہوں ، ظلم ، زیادتی ، کفر اور شرک میں گزاری ہوگی وہ جہنم کی سخت سزا سے نہ بچ سکیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں فرمایا کہ ہر نفس کو اور زمینوں کو حق (یعنی حکمت) کے ساتھ پیدا فرمایا اور اس لیے پیدا فرمایا کہ انہیں دیکھنے والے یہ سمجھ لیں کہ ہر نفس کو اس کے اپنے کیے ہوئے اعمال کا بدلہ ملے گا کسی پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا۔ آسمان اور زمین کے پیدا کرنے میں جو حکمتیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کو دیکھنے والے پیدا کرنے والے کی قدرت کاملہ پر استدلال کریں اور یہ بھی سمجھ لیں کہ جس ذات نے ان کو پیدا فرمایا ہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ فرما دے حساب کتاب کے لیے حاضر کردے اور ان کے اعمال کی جزاء، سزا دیدے۔ سورة الاحقاف میں فرمایا ﴿ اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ لَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰۤى اَنْ يُّحْيِۧ الْمَوْتٰى ١ؕ بَلٰۤى اِنَّهٗ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ٠٠٣٣﴾ (کیا ان لوگوں نے یہ نہ جانا کہ جس خدا نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے میں ذرا نہیں تھکا وہ اس پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کردے کیوں کر نہیں بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ) وقولہ تعالیٰ ﴿لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ ﴾ معطوف علی لفظة بالحق ای خلقھا لیدل سبحانہ وتعالیٰ بھا علی قدرتہ ولیعلم الناس انہ تعالیٰ یجزی کل نفس بما کسبت فان الخالق جل مجدہ لم یخلق السمٰوٰت والارض عبثا بلا حكمةٍ ولا الانس والجان عبثًا بل خلقھم لیجزیھم باعمالھم قال تعالیٰ ﴿اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ٠٠١١٥﴾ ﴿وَ لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ ﴾ بِالْحَقِّ کے لفظ پر معطوف ہے۔ معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس سے اپنی قدرت کی دلیل دے اور تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ ہر نفس کو اس کے کیے کا بدلہ دے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمینوں کو بےفائدہ اور بےحکمت پیدا نہیں فرمایا اور نہ انسان و جن بےکار پیدا ہوئے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے پیدا کیا تاکہ ان کو ان کے اعمال کا صلہ دے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ٠٠١١٥﴾

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:َ ” وخلق اللہ۔ الایۃ “ یہ توحید کی تیسری عقلی دلیل ہے۔ اللہ تعالیی نے زمین و آسمان اور اس ساری کائنات کو اظہار حق کے لیے پیدا فرمایا ہے تاکہ کائنات کو اظہار حق کے لیے پیدا فرمایا ہے تاکہ کائنات کا ذر ذرہ اس کی قدرت کاملہ اور اس کی صفات کارسازی پر دلالت کرے اور اس طرح اس کی وحدانیت پر ذرہ کائنات سے ظاہر ہو۔ بالھق لیدل علی قدرتہ (مدارک ج 4 ص 104) ۔ ای لید علی وجودہ وقدرتہ وصفات کمالہ (مظہری ج 8 ص 386) ۔ ” ولتجزی کل نفس الخ “ یہ تخویف اخروی ہے اور بالحق پر معطوف ہے (روح) اس کائنات کو پیدا کرنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے تاکہ بندوں کا امتحان ہو اور ان میں نیکو کار اور بدکار کے درمیان امتیاز ہوجائے اور ہر ایک کو اس کے عمال کے مطابق جزاء سزا دی ئجائے اور کسی کی حق تلفی نہ ہو اور کسی پر زیادتی نہ ہونے پائے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(22) اور اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو کمال حکمت کے ساتھ بنایا ہے اور جیسا بنانا چاہیے تھا ویسا بنایا اور اس لئے کہ ہر شخص کو اس کے کئے کا بدلا دیاجائے گا اور لوگوں پر کسی قسم کا ظلم اور زیادتی نہیں کی جائے گی یعنی آسمان و زمین کا پیدا کرنا حکمت اور کمال تدبیر پر مبنی ہے تاکہ اس کی قدرت اور اس کی توحید پر استدلال کیا جاسکے اور قدرت علی البعث پر استدلال ہوسکے اور تاکہ ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلا دیا جاسکے اور چونکہ دنیا میں پورا بدلہ ملنے کی صورت نہیں اس لئے بعث یعنی مرنے کے بعد زندہ ہونا ضروری ہے اور ہر شخص کو اس کے کئے کا پھل ملنا ضروری ہے۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا مخلوق کی معیشت کے لئے تھا اس لئے ان کو کمال حکمت کے ساتھ بنایا پھر جب مخلوق یہاں زندگی گزارے گی تو ان میں اچھے بھی ہوں اور برے بھی ان کے لئے کوئی مقرر ہونا چاہیے ۔ لہٰذا یہی آسمان و زمین اس پر دلالت کرتے ہیں کہ بدلے کا دن کوئی اور ہوگا اور اس دن آسمان و زمین کی یہ شکل نہ ہوگی آخر میں اس دن کے لئے ظلم کی نفی فرمائی۔