Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 24

سورة الجاثية

وَ قَالُوۡا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا وَ مَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ ۚ وَ مَا لَہُمۡ بِذٰلِکَ مِنۡ عِلۡمٍ ۚ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَظُنُّوۡنَ ﴿۲۴﴾

And they say, "There is not but our worldly life; we die and live, and nothing destroys us except time." And they have of that no knowledge; they are only assuming.

کیا اب بھی تم نصیحت نہیں پکڑتے انہوں نے کہا کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا کی زندگی ہی ہے ۔ ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مار ڈالتا ہے ( دراصل ) انہیں اس کا کچھ علم ہی ۔ نہیں یہ تو صرف ( قیاس اور ) اٹکل سے ہی کام لے رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Conviction of the Disbelievers, Their Argument and the Refutation of it Allah mentions here the creed of Ad-Dahriyyah and the Arab idolators who embraced their creed, denying Resurrection, وَقَالُوا مَا هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا ... And they say: "There is nothing but our life of this world, we die and we live...." They say that there is only this life, some people die while others are born to life, without Resurrection or Judgement. This was the creed of Arab idolators who used to deny Resurrection, in addition to, the creed of the atheist philosophers among them who denied the creation and Resurrection. This was also the statement of atheist philosophers who deny the Creator and think that the world will return to its original form once every thirty--six thousand years, when everything will restart its life--cycle again! They claim that this cycle was repeated for infinity, thus contradicting the sound reason and the divine revelation. They said, ... وَمَا يُهْلِكُنَا إِلاَّ الدَّهْرُ ... and nothing destroys us except Ad-Dahr (time). Allah the Exalted said in reply, ... وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلاَّ يَظُنُّونَ And they have no knowledge of it, they only presume. they speculate and guess! As for the Hadith recorded by the two collectors of the Sahih, and Abu Dawud and An-Nasa'i, from Abu Hurayrah that the Messenger of Allah said, يَقُولُ تَعَالَى يُوْذِينِي ابْنُ ادَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِيَ الاَْمْرُ أُقَلِّبُ لَيْلَهُ وَنَهَارَه Allah the Exalted says, "The Son of `Adam annoys Me when he curses Ad-Dahr (time), while I am Ad-Dahr. In My Hand are all matters; I cause the alternation of his days and nights." In another narration; لاَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ فَإِنَّ اللهَ تَعَالَى هُوَ الدَّهْر Do not curse Ad-Dahr (time), for Allah is Ad-Dahr. Ash-Shafi`i, Abu Ubaydah and several other Imams of Tafsir explained the meaning of the Prophet's statement, لاَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ فَإِنَّ اللهَ تَعَالَى هُوَ الدَّهْر (Do not abuse Ad-Dahr (time), for Allah is Ad-Dahr.) They said, "During the time of Jahiliyyah, when an affliction, a calamity or a disaster struck them, the Arabs used to say, `Woe to Ad-Dahr (time)!' So they used to blame such incidents on Ad-Dahr, cursing Ad-Dahr in the process. Surely, it is Allah the Exalted and Most Honored Who causes these (and all) things to happen. This is why when they cursed Ad-Dahr, it was as if they were cursing Allah Himself, since truthfully, He causes all incidents to happen. Therefore, abusing Ad-Dahr was prohibited due to this consideration, for it was Allah Whom they meant by abusing Ad-Dahr, which -- as we said-- they accused of causing (distressful) incidents." This is the best explanation for this subject, and it is the desired meaning. Allah knows best. We should mention that Ibn Hazm and those of the Zahiriyyah like him made an error when they used this Hadith to include Ad-Dahr among Allah's most beautiful Names. Allah's statement,

زمانے کو گالی مت دو دہریہ کفار اور ان کے ہم عقیدہ مشرکین کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ قیامت کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا ہی ابتداء اور انتہاء ہے کچھ جیتے ہیں کچھ مرتے ہیں قیامت کوئی چیز نہیں فلاسفہ اور علم کلام کے قائل یہی کہتے تھے یہ لوگ ابتداء اور انتہاء کے قائل نہ تھے اور فلاسفہ میں سے جو لوگ دھریہ اور دوریہ تھے وہ خالق کے بھی منکر تھے ان کا خیال تھا کہ ہر چھتیس ہزار سال کے بعد زمانے کا ایک دور ختم ہوتا ہے اور ہر چیز اپنی اصلی حالت پر آجاتی ہے اور ایسے کئی دور کے وہ قائل تھے دراصل یہ معقول سے بھی بیکار جھگڑتے تھے اور منقول سے بھی روگردانی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ گردش زمانہ ہی ہلاک کرنے والی ہے نہ کہ اللہ ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں اور بجز و ہم و خیال کے کوئی سند وہ پیش نہیں کر سکتے ۔ ابو داؤد وغیرہ کی صحیح حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم ایذاء دیتا ہے وہ دہر کو ( یعنی زمانے کو ) گالیاں دیتا ہے دراصل زمانہ میں ہی ہوں تمام کام میرے ہاتھ ہیں دن رات کا ہیر پھیر کرتا ہوں ۔ ایک روایت میں ہے دہر ( زمانہ ) کو گالی نہ دو اللہ ہی زمانہ ہے ۔ ابن جریر نے اسے ایک بالکل غریب سند سے وارد کیا ہے اس میں ہے اہل جاہلیت کا خیال تھا کہ ہمیں دن رات ہی ہلاک کرتے ہیں وہی ہمیں مارتے جلاتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کریم میں اسے نقل فرمایا وہ زمانے کو برا کہتے تھے پس اللہ عزوجل نے فرمایا مجھے ابن آدم ایذاء پہنچاتا ہے وہ زمانے کو برا کہتا ہے اور زمانہ میں ہوں میرے ہاتھ میں سب کام ہیں میں دن رات کا لے آنے لے جانے والا ہوں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ابن آدم زمانے کو گالیاں دیتا ہے میں زمانہ ہوں دن رات میرے ہاتھ میں ہیں ۔ اور حدیث میں ہے میں نے اپنے بندے سے قرض طلب کیا اس نے مجھے نہ دیا مجھے میرے بندے گالیاں دیں وہ کہتا ہے ہائے ہائے زمانہ اور زمانہ میں ہوں ۔ امام شافعی اور ابو عبیدہ وغیرہ ائمہ لغت و تفسیر اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے عربوں کو جب کوئی بلا اور شدت و تکلیف پہنچتی تو وہ اسے زمانے کی طرف نسبت کرتے اور زمانے کو برا کہتے دراصل زمانہ خود تو کچھ کرتا نہیں ہر کام کا کرتا دھرتا اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئے اس کا زمانے کا گالی دینا فی الواقع اسے برا کہنا تھا جس کی ہاتھ میں اور جس کے بس میں زمانہ ہے جو راحت و رنج کا مالک ہے اور وہ ذات باری تعالیٰ عزاسمہ ہے پس وہ گالی حقیقی فاعل یعنی اللہ تعالیٰ پر پڑتی ہے اس لئے اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا اور لوگوں کو اس سے روک دیا یہی شرح بہت ٹھیک اور بالکل درست ہے امام ابن حزم وغیرہ نے اس حدیث سے جو یہ سمجھ لیا ہے کہ دہر اللہ کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک نام ہے یہ بالکل غلط ہے واللہ اعلم پھر ان بےعلموں کی کج بخشی بیان ہو رہی ہے کہ قیامت قائم ہونے کی اور دوبارہ جلائے جانے کی بالکل صاف دلیلیں جب انہیں دی جاتی ہیں اور قائل معقول کر دیا جاتا ہے تو چونکہ جب کچھ بن نہیں پڑتا جھٹ سے کہدیتے ہیں کہ اچھا پھر ہمارے مردہ باپ دادوں پردادوں کو زندہ کر کے ہمیں دکھا دو تو ہم مان لیں گے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اپنا پیدا کیا جانا اور مر جانا تو اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہو کہ تم کچھ نہ تھے اور اس نے تمہیں موجود کر دیا پھر وہ تمہیں مار ڈالتا ہے تو جو ابتدا پیدا کرنے پر قادر ہے وہ دوبارہ جی اٹھانے پر قادر کیسے نہ ہو گا ؟ بلکہ عقلًا ہدایت ( واضح طور پر ) کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ جو شروع شروع کسی چیز کو بنا دے اس پر دوبارہ اس کا بنانا بہ نسبت پہلی دفعہ کے بہت آسان ہوتا ہے ، پس یہاں فرمایا کہ پھر وہ تمہیں قیامت کے دن جس کے آنے میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا ۔ وہ دنیا میں تمہیں دوبارہ لانے کا نہیں جو تم کہہ رہے ہو کہ ہمارے باپ دادوں کو زندہ کر لاؤ ۔ یہ تو دار عمل ہے دار جزا قیامت کا دن ہے یہاں تو ہر ایک کو تھوڑی بہت تاخیر مل جاتی ہے جس میں وہ اگر چاہے اس دوسرے گھر کے لئے تیاریاں کر سکتا ہے بس اپنی بےعلمی کی بناء پر تمہیں اس کا انکار نہ کرنا چاہیے تم گو اسے دور جان رہے ہو لیکن دراصل وہ قریب ہی ہے تم گو اس کا آنا محال سمجھ رہے ہو لیکن فی الواقع اس کا آنا یقینی ہے مومن باعلم اور ذی عقل ہیں کہ وہ اس پر یقین کامل رکھ کر عمل میں لگے ہوئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 یہ دہریہ اور ان کے ہم نوا مشرکین مکہ کا قول ہے جو آخرت کے منکر تھے وہ کہتے تھے کہ بس یہ دنیا کی زندگی ہی پہلی اور آخری زندگی ہے، اس کے بعد کوئی زندگی نہیں اور اس میں موت وحیات کا سلسلہ، محض زمانے کی گردش کا نتیجہ ہے، جیسے فلاسفر کا ایک گروہ کہتا ہے چھتیس ہزار سال کے بعد ہر چیز دوبارہ اپنی حالت لوٹ آتی ہے اور یہ سلسلہ، بغیر کسی سانح اور مدبر کے، یوں ہی چل رہا ہے اور چلتا رہے گا نہ اس کی کوئی ابتداء ہے نہ انتہاء۔ یہ گروہ دوریہ کہلاتا ہے (ابن کثیر) ظاہر بات ہے یہ نظریہ، اسے عقل بھی قبول نہیں کرتی اور نقل کے بھی خلاف ہے، حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ' ابن آدم مجھے ایذاء پہنچاتا ہے۔ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے (یعنی اس کی طرف افعال کی نسبت کرکے، اسے برا کہتا ہے، حالانکہ (زمانہ بجائے خود کوئی چیز نہیں) میں خود زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں تمام اختیارات ہیں، رات دن بھی میں ہی پھیرتا ہوں ' (البخاری) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥] فلسفہ دہریت اور اس کا رد :۔ ان لوگوں کا فلسفہ یہ ہے کہ یہ کائنات ایک اتھاہ سمندر ہے۔ جس میں ہر وقت لہریں اٹھتی ہیں پھر اسی سمندر میں مدغم ہوجاتی ہیں۔ حباب اٹھتے ہیں تو وہ پھر اسی میں جذب ہوجاتے ہیں۔ یہی صورت حال اس دنیا میں واقعات و حوادث کی ہے اور ہماری مثال بس ایک حباب یا بلبلہ کی ہے جو پیدا ہوتا پھر اسی سمندر میں گم ہوجاتا ہے۔ ہم پیدا ہوتے ہیں پھر مر کر اسی میں مل جاتے ہیں۔ یہ زمانے کے حوادث ہیں کہ ہم پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں۔ کائنات اسی طرح چل رہی ہے اور چلتی رہے گی۔ جس میں کسی کے مر کر دوبارہ جینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ [٣٦] آخرت سے انکار کی بنیاد محض وہم و قیاس ہے جس پر کوئی علمی دلیل پیش نہیں کی جاسکتی :۔ اس فلسفہ سے نتیجہ اخذ کرنے میں غلطی آپ سے آپ ظاہر ہے۔ سمندر میں ایک موج اٹھی پھر اسی میں گم ہوگئی پھر اسی سمندر سے موج اٹھی گویا اگر سمندر سے دوبارہ بھی موج اٹھ سکتی ہے تو مٹی سے پیدا ہو کر انسان مٹی میں مل جانے کے بعد دوبادہ اسی مٹی سے کیوں پیدا نہیں ہوسکتا ؟ نیز مرنے کے بعد کے حالات سے متعلق اگر کچھ انسانی علم کی بنا پر کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ && ہم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی ہے یا نہیں && یہ نہیں کہا جاسکتا کہ && مرنے کے بعد دوسری زندگی نہیں ہے && انسان کے پاس تحقیق کا کوئی ذریعہ ایسا نہیں جس سے وہ دعویٰ کے طور پر کہہ سکے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں && پھر یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ مرنے کے بعد روح کہاں جاتی ہے ؟ ظاہر ہے کہ وہ تو نہیں مرتی کیونکہ روح کے متعلق سب لوگوں کا ایسا ہی عقیدہ رہا ہے۔ انسان کی موت کوئی ایسا حادثہ تو نہیں جیسے ایک گھڑی چلتے چلتے رک جائے۔ ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ظن غالب بھی دوبارہ زندہ ہونے کی طرف ہی ہے۔ مر کر بالکل فنا ہوجانے کی طرف نہیں۔ اور یہ لوگ جو دوبارہ زندگی کا انکار کرتے ہیں تو یہ بات کسی علم کی بنا پر نہیں کہتے بلکہ ان کا دل یہ نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہو۔ جس میں ان سے ان کے برے اعمال کی باز پرس ہو لہذا وہ اس کا سرے سے انکار کردینے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ اور یہ محض ان کا وہم و گمان ہی ہوتا ہے۔ کوئی علمی دلیل اس پر وہ کبھی پیش نہیں کرسکتے۔ دہریوں کی فریب خوردگی & دہر تو اللہ ہے :۔ دہریہ لوگ دراصل فریب خوردگی میں مبتلا ہوتے ہیں اور اسی میں مبتلا رہنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ && ہمیں زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے۔ حالانکہ زمانہ تو گردش لیل و نہار کا ہی دوسرا نام ہے۔ جس میں نہ حس ہے نہ شعور، نہ تصرف نہ اختیار پھر وہ ہمیں ہلاک کیسے کرتا ہے ؟ لامحالہ ان کے ذہن میں کوئی اور چیز ہوتی ہے جو حس شعور، تصرف اور اختیار رکھتی ہو مگر وہ اس کا نام نہیں لینا چاہتے اور اس کے بجائے زمانہ کا نام لے لیتے ہیں اور جس چیز کا وہ نام نہیں لینا چاہتے وہ اللہ ہے۔ جس کا وجود اور علی الاطلاق تصرف واضح دلائل سے ثابت ہے اور زمانہ کا الٹ پھیر اور گردش لیل ونہار بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ چناچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ : && ابن آدم مجھے دکھ پہنچاتا ہے جب وہ دہر (زمانہ) کو گالی دیتا ہے۔ حالانکہ دہر میں خود ہوں۔ تمام معاملات میرے ہی ہاتھ میں ہیں۔ میں ہی رات اور دن پھیر کر لاتا ہوں && (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة الجاثیہ۔ زیر آیت مذکورہ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وقالوا ماھی الاحیاتنا الدنیا نموت و نحیا : اس کی تفسیر کے لئے دیکھیے سورة مومنون (٣٧) ، یہاں ایک سوال ہے کہ یہ کہنے کے بجائے کہ ” نحیا و نموت “ (ہم جیتے ہیں اور مرتے ہیں) یہ کیوں کہا :(نموت و نحیا) ” ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں ؟ “ اس کا جواب کئی طرح سے ہے، ایک تو یہ کہ ” واؤ “ میں ترتیب ضروری نہیں ہوتی اور یہاں ان کی بات نقل کرتے ہوئے کلام کے حسن کے لئے ایسا کیا گیا ہے، کیونکہ ” ماھی الاحیاتنا الدنیا “ کے بعد ” نموت و نحیا “ جیسے جملے میں جو حسن اور موافقت ہے وہ ” نحیا و نموت “ میں نہیں۔ دوسرا جواب یہ کہ ” نموت ونحیا “ کا مطلب یہ ہے کہ ہم مرجاتے ہیں اور ہماری اولادیں رہتی ہیں، یا ہم میں سے کچھ مرجاتے ہیں کچھ جیتے رہتے ہیں اور تیسرا جواب یہ کہ ہم مرجاتے ہیں اور ہماری اولادیں رہتی ہیں، یا ہم میں سے کچھ مرجاتے ہیں کچھ جیتے رہتے ہیں اور تیسرا جواب یہ کہ ” نموت “ کا مطلب ہے کہ پہلے ہم عدم اور متو کی حالت میں ہوتے ہیں اور ” نحیا “ کا مطلب ہے کہ پھر ہم دنیا کی حیات کی حالت میں آجاتے ہیں، سو زندگی ہے تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے، اس کے بعد اور کوئی زندگی نہیں۔ (٢) وما یھلکنا الا الدھر : ان کی اس بات سے ظاہر ہے کہ وہ یہ مانتے ہیں کہ انھیں ہلاک کرنے والا کوئی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے، کیونکہ وہی پوری کائنات کا خلاق ومالک اور مدبر ہے، مگر چونکہ ان کی بےقید خواہشات کی راہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے سامنے پیش ہونے کا عقیدہ زبردست رکاوٹ ہے، اس لئے انہوں نے آخرت کی زندگی ہی کا انکار کردیا اور یہ ماننے کے بجائے کہ موت و حیات اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، وہ جب چاہے پہلے کی طرح انھیں دوبارہ زندہ کرسکتا ہے اور کرے گا، یہ کہہ دیاک ہ زمانے کے سوا کوئی نہیں جو ہمیں ہلاک کرے، بس یہ دن رات کی گردش ہی ہے جو ہمیں فنا کردیتی ہے۔ درحقیقت یہ ان کا اپنے آپ کو فریب دینا ہے، کیونکہ زمانہ اور دن رات کی گردش اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کرسکتے، ان کی ڈور تو ایک مالک کے ہاتھ میں ہے جو اللہ تعالیٰ ہے، جس کا نام وہ نہیں لینا چاہتے، اس کے بجائیز مانے کا نام لیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ہمارے زمانے کے ملحد مسلمان ہیں جو خود بدکردار ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی حدود کو وحشیانہ سزائیں قرار دیتے ہیں، مگر کھل کر یہ کہہ نہیں سکتے، اس لئے مولوی کو گالی دیتے ہیں کہ مولوی لوگوں کو وحشیانہ سزائیں دلانا چات ہے ہیں۔ چوروں کے ہاتھ کٹوانا، زانی کو درے مروانا اور قاتل کو قتل کروانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ بےچارے مولوی کا اس میں کیا قصور ہے ؟ اس نے تو وہ حکم سنایا جو اس کے مالک نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے۔ اسی طرح وہ مشرک اپنی ہلاکت اور فنا کا باعث زمانے کو ق رار دے رہے ہیں، حالانکہ بےچارہ زمانہ تو اللہ تعالیٰ کے حکم کا پابند ہے، اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زمانے کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(قال اللہ عزوجل یو ذنبی ابن آدم یسب الدھر و انا الدھر، بیدی الامر، اقلب اللیل والنھار) (بخاری، التفسیر، سورة الجاثیہ :3826)” اللہ عزوجل نے فرمایا، ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے، وہ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے، حالانکہ زمان ہتو میں ہوں، تمام معاملہ میرے ہاتھ میں ہے، دن رات کو الٹ پلٹ میں کرتا ہوں۔ “ اور ابوہریرہ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لاتسبوا الدھر فان اللہ ھو الدھر) (مسلم الالفاظ من الادب وغیرھا، باب النھی عن سب الدھر :2236/5” زمانے کو برا بھلا مت کہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی زمانہ ہے۔ “ ابوہریرہ (رض) کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(قال اللہ عزو جل یوذنبی ابن آدم یقول یا خیبۃ الدھر ! فلا یقولن اخذکم یا خیۃ الدھر ! فبانی انا الدھر اقلب لیلۃ ونھار ، فاذا شئت قبضتھما) (مسلم ، الالفاظ من الادب وغیرہ ھاء باب النھی عن سب الدھر :2236/3)” اللہ عزو جل نے فرمایا، ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے۔ کہتا ہے، ہائے زمانے کی ناکامی ! سو تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ ہائے زمانے کی ناکامی ! کیونکہ میں ہی تو زمانہ ہوں۔ اس کے رات دن کو الٹ پلٹ میں کرتا ہوں، پھر جب چاہں گا دونوں کو قبض کرلوں گا۔ “ ابن کثیر رحمتہ اللہ لکھتے ہیں :” شافعی، ابوعبیدہ اور کئی اور ائمہ رحمتہ اللہ نے ” لاتسبوالدھر فان اللہ ھو الدھر “ (زمانے کو برا بھلا نہ کہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی زمانہ ہے) کی تفسیر میں فرمایا :” عرب اپنی جاہلیت میں جب انھیں کوئی شدت یا بلایا تکلیف پہنچی تو کہتے تھے :” یا خبیۃ الدھر ! “ (ہائے زمانے کی ناکامی ! ) چناچہ وہ ان کاموں کو زمانے کی طرف منسوب کرتے اور اسے برا بھلا کہتے، حالانکہ وہ سب کام کرنے والا تو اللہ تعالیٰ تھا، تو گویا انہوں نے اللہ تعالیٰ ہی کو برا بھلا کہا، کیونکہ حقیقی فاعل وہی ہے۔ اس لئے اس اعتبار سے زمانے کو برا بھلا کہنے سے منع فرما دیا، کیونکہ وہ جسے مراد لے رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ “ اس کی یہ شرح سب سے اچھی ہے اور یہی مراد ہے۔ (واللہ اعلم) اور ابن حزم اور ان کے طریقے پر چلتے ہوئے جن لوگوں نے اس حدیث کو لے کر اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ” الدھر “ (زمانہ) کو شمار کیا ہے انہوں نے غلطی کی ہے۔ “ (ابن کثیر) (٣) ومالھم بذلک من علم ان ھم الایظنون : ینی وہ یہ بات کہ ” اس زندگی کے بعد کوئی زندگی نہیں “ اور یہ کہ ” انسان کو فوت کرنے والا اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ زمانہ ہی اسے ہلاک کرتا ہے “ کسی علم کی بنا پر نہیں کہہ رہے ، بلکہ صرف گمان کی بنا پر کہہ رہے ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ” ہم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہے یا نہیں اور ہم نہیں جانتے کہ روح کیسے نکلتی ہے اور ہمیں کون ہلاک کرتا ہے۔ “ کیونکہ جب وہ آئندہ ہونے والی کسی بات کا علم ہی نہیں رکھتے تو وہ یہ بات یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی زندگی نہیں۔ دراصل ان کی خواہش یہ ہے کہ نہ موت کے بعد کوئی زندگی ہو اور نہ ان سے کوئی پوچھنے والا ہو کہ تم نے کیا کیا، تاکہ وہ اپنی من مانی کرتے رہیں۔ اس طرح انہوں نے اپنی خواہش نفس ہی کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور جانتے بوجھتے ہوئے اپنے مالک سے اور قیامت کے دن کی باز پرس سے آنکھیں اور کان بند کر رکھے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ‌ |"...and nothing destroys us except time...(45:24) |" The word dahr means ` time from the beginning of the world to its end&. It also refers to ` a very long period of time&. The atheists alleged that their life and death have nothing to do with Divine will and command. They happen under natural causes. Death is a process which they say they experience when their human limbs, organs and abilities diminish on account of constant use and, with the passage of time, the matter becomes dissolved and is destroyed; and that this is the be-all and end-all of human existence, there being no life hereafter. Likewise, life has nothing to do with Divine will and command. Life too, like death, happens under movement of material causes. Reviling Time Is Inappropriate Atheists believed that ` Time& is the cause of life, death, vicissitudes of conditions and adversities, and also the cause of the revolution of the entire universe. Every happening used to be attributed to ` Time& by them as indicated in this verse, whereas the fact is that everything happens with the Divine will and volition. Therefore, authentic Traditions prohibit reviling of time. The power which the unbelievers describe as ` time& is in fact the Divine power. When people curse or revile time for their adversities, they are in fact directing their reproach to Allah. The Messenger of Allah said: |"Do not revile time because time actually is Allah.|" The ignorant who claim that a particular work was done by time is actually the work of Divine power - time is nothing. It does not necessarily follow from this proposition that ad-dahr is one of the names of Allah. Here Allah is referred to as ad-dahr metaphorically or figuratively.

(آیت) وَمَا يُهْلِكُنَآ اِلَّا الدَّهْرُ ۔ لفظ دہر دراصل اس تمام مدت کے مجموعہ کا نام ہے جو اس عالم کی ابتدا سے انتہا تک ہے اور کبھی بہت بڑی مدت کو بھی دہر کہہ دیا جاتا ہے۔ کفار نے یہ قول بطور دلیل کے پیش کیا ہے کہ ہماری موت وحیات کا خدا کے حکم و مشیت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اسباب طبعیہ کے تابع ہے جس کا مشاہدہ موت کے متعلق تو سب کرتے ہیں کہ اعضاء انسانی اور اس کی قوتیں استعمال کے سبب گھٹتی رہتی ہیں اور ایک زمانہ دراز گزر جانے کے بعد وہ بالکل معطل ہوجاتی ہیں اسی کا نام موت ہے اسی پر حیات کو بھی قیاس کرلو کہ وہ بھی کسی خدائی حکم سے نہیں بلکہ مادہ کی طبعی حرکتوں سے حاصل ہوتی ہے۔ دہر، یا زمانے کو برا کہنا اچھا نہیں :۔ کفار و مشرکین زمانے کے گردش ہی کو ساری کائنات اور انکے سارے حالات کی علت قرار دیتے تھے اور اسی کی طرف منسوب کرتے تھے جیسا کہ اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے حالانکہ درحقیقت یہ سب افعال اللہ تعالیٰ جل شانہ کی قدرت و ارادے سے ہوتے ہیں۔ اسی لئے احادیث صحیحہ میں دہر یا زمانے کو برا کہنے کی ممانعت آئی ہے کیونکہ کفار جس قوت کو دہر کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں در حقیقت وہ قوت وقدرت حق تعالیٰ کی ہے اس لئے دہر کو برا کہنے کا نتیجہ درحقیقت خدا تعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دہر کو برا نہ کہو کیونکہ دہر درحقیقت اللہ ہی ہے مراد یہ ہے کہ یہ جاہل جس کام کو دہر کا کام کہتے ہیں وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی قوت وقدرت کا کام ہے، دہر کوئی چیز نہیں۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دہر اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے کوئی نام ہو کیونکہ یہاں مجازا اللہ تعالیٰ کو دہر کہا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا مَا ہِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَنَحْيَا وَمَا يُہْلِكُنَآ اِلَّا الدَّہْرُ۝ ٠ ۚ وَمَا لَہُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ۝ ٠ ۚ اِنْ ہُمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ۝ ٢٤ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ «أَلَا»«إِلَّا»هؤلاء «أَلَا» للاستفتاح، و «إِلَّا» للاستثناء، وأُولَاءِ في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] وقوله : أولئك : اسم مبهم موضوع للإشارة إلى جمع المذکر والمؤنث، ولا واحد له من لفظه، وقد يقصر نحو قول الأعشی: هؤلا ثم هؤلا کلّا أع طيت نوالا محذوّة بمثال الا) الا یہ حرف استفتاح ہے ( یعنی کلام کے ابتداء میں تنبیہ کے لئے آتا ہے ) ( الا) الا یہ حرف استثناء ہے اولاء ( اولا) یہ اسم مبہم ہے جو جمع مذکر و مؤنث کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس کا مفرد من لفظہ نہیں آتا ( کبھی اس کے شروع ۔ میں ھا تنبیہ بھی آجاتا ہے ) قرآن میں ہے :۔ { هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ } ( سورة آل عمران 119) دیکھو ! تم ایسے لوگ ہو کچھ ان سے دوستی رکھتے ہواولائک علیٰ ھدی (2 ۔ 5) یہی لوگ ہدایت پر ہیں اور کبھی اس میں تصرف ( یعنی بحذف ہمزہ آخر ) بھی کرلیا جاتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع (22) ھؤلا ثم ھؤلاء کلا اعطیتہ ت نوالا محذوۃ بمشال ( ان سب لوگوں کو میں نے بڑے بڑے گرانقدر عطیئے دیئے ہیں حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ دهر الدّهر في الأصل : اسم لمدّة العالم من مبدأ وجوده إلى انقضائه، وعلی ذلک قوله تعالی: هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ [ الدهر/ 1] ، ثمّ يعبّر به عن کلّ مدّة كثيرة، وهو خلاف الزمان، فإنّ الزّمان يقع علی المدّة القلیلة والکثيرة، ودَهْرُ فلان : مدّة حياته، واستعیر للعادة الباقية مدّة الحیاة، فقیل : ما دهري بکذا، ويقال : دَهَرَ فلانا نائبة دَهْراً ، أي : نزلت به، حكاه ( الخلیل) فالدّهر هاهنا مصدر، وقیل : دَهْدَرَهُ دَهْدَرَةً ، ودَهْرٌ دَاهِرٌ ودَهِيرٌ. وقوله عليه الصلاة والسلام : «لا تسبّوا الدّهر فإنّ اللہ هو الدّهر» قد قيل معناه : إنّ اللہ فاعل ما يضاف إلى الدّهر من الخیر والشّرّ والمسرّة والمساءة، فإذا سببتم الذي تعتقدون أنه فاعل ذلک فقد سببتموه تعالیٰ عن ذلک وقال بعضهم : الدّهر الثاني في الخبر غير الدّهر الأوّل، وإنما هو مصدر بمعنی الفاعل، ومعناه : أنّ اللہ هو الدّاهر، أي : المصرّف المدبّر المفیض لما يحدث، والأول أظهر وقوله تعالیٰ إخبارا عن مشرکي العرب : ما هِيَ إِلَّا حَياتُنَا الدُّنْيا نَمُوتُ وَنَحْيا وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] ، قيل : عني به الزمان . ( د ھ ر ) الدھر ( زمانہ ) اصل میں مدت عالم کو کہتے ہیں یعنی ابتدا آفرینش سے لے کر اس کے اختتام تک کا عرصہ ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ [ الدهر/ 1] بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے ۔ میں الدھر سے یہی معنی مراد ہیں پھر ( مجاز ) اس سے ہر طویل مدت مراد لی جاتی ہے برخلف لفظ زمان ، ، کے یہ مدت قبیلہ اور کثیرہ دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ اور دھرفلان کے معنی اس کی مدت حیاۃ کے ہیں اور جو عادت زندگی پھر باقی رہے اس پر بھی استعارہ کدھر کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ مثلا کہاجاتا ہے ۔ مادھری بکذا میں اس کا عادی نہیں ہوں ۔ اور خلیل (رح) نے حکایت کی ہے : ۔ یعنی فلاں پر مصیبت نازل ہوگئی تو یہاں دھر کا لفظ مصدر ہے اور بعض نے دھدرۃ دھرۃ بھی کہا ہے دھرداھر ودھیر زمانہ بےانتہا وقت ایک حدیث میں ہے کہ زمانہ کو برا مت کہو کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی زمانہ ہی بعض نے اللہ تعالیٰ کے دھر ہونے کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جو خیر وشر اور خوشی وناخوشی زمانہ کی طرف منسوب ہوتی ہے اس کا فاعل حقیقی چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے لہذا جب تم زمانہ کو برا بھلا کہو گے جو تمہارے اعتقاد کے مطابق فاعل ہے ۔ تو گویا اللہ تبارک وتعالٰی کو گالیاں دے رہے ہو ۔ اور بعض نے کہا کہ حدیث میں دھر ثانی دھر اول کا غیر ہے اور یہ مصدر بمعنی فاعل ہے یعنی اور معنی یہ ہیں کہ ہر قسم کا تصرف وتدبیر اور جو کچھ رونما ہوتا ہے اس کا فیضان اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے مگر معنی اول ظہرو انسب ہے ۔ اور قرآن پاک نے مشرکین عرب کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا : ۔ هِيَ إِلَّا حَياتُنَا الدُّنْيا نَمُوتُ وَنَحْيا وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا ہی کی ہے کہ ( یہیں ) مرتے اور جیتے ہیں اور یہ صرف زمانہ ہی ہے جو ہمیں ہلاک کردیتا ہے ۔ اس کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یاہں دھو سے مراد زمانہ ہی ہے ۔ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (وقالوا ماھی الا حیاتنا الدنیا نموت ونحیا وما یھلکنا الا الدھر۔ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ بجز ہماری اس دنیوی زندگی کے اور کوئی زندگی نہیں۔ ہم بس ایک ہی بار مرتے اور بس ایک ہی بار زندگی پاتے ہیں۔ اور ہم کو صرف زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے۔ ) ایک قول کے مطابق آیت کے الفاظ میں تقدیم و تاخیر ہے یعنی (ہم زندگی پاتے اور مرجاتے ہیں جس کے بعد لوٹنا نہیں ہے) ایک قول کے مطابق مفہوم یہ کہ ” ہم مرجاتے ہیں اور ہماری اولاد زندہ رہتی ہے۔ جس طرح مقولہ ہے۔” جس شخص نے فلاں شخص جیسا بیٹا اپنے پیچھے چھوڑا ہو وہ کبھی مر نہیں سکتا۔ “ قول باری (وما یھلکنا الا الدھر ) کی تفسیر کے سلسلے میں ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت سنائی انہیں حسن نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمرنے قتادہ سے کہ یہ بات قریش کے مشرکین نے کہی تھی ۔ وہ یہ کہتے تھے کہ ہمیں صرف زمانہ یعنی ہماری عمر ہی ہلاک کرتی ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قریش کے زندیق قسم کے لوگوں کا یہ قول تھا جو صانع حکیم کا انکار کرلے تھے اور کہتے کہ زمانہ اور اوقات کی رفتار ہی دنیا میں پیش آنے والے واقعات وحوادث کی ذمہ دار ہے۔ دہر کا اسم عمر کے زمانہ پر واقع ہوتا ہے۔ جس طرح قتادہ کا قول ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ” فلاں یصوم الدھر “ یعنی فلاں شخص اپنی ساری عمر روزہ رکھتا چلا آرہا ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جو شخص یہ قسم کھالے کہ میں فلاں شخص سے زمانہ بھر نہیں بولوں گا اس کی قسم اس شخص کو پوری عمر بھر پر محمول ہوگی۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک اس کے اس قول کی وہی حیثیت ہے جو اس قول کی ” بخدا میں تم سے تا ابد نہیں بولوں گا۔ “ امام ابویوسف اور امام محمد کے نزدیک ” بخدا میں تم سے ایک زمانہ نہیں بولوں گا۔ “ کی قسم چھ ماہ کی مدت پر محمول ہوتی ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک چونکہ ” دہرا “ (ایک زمانہ) کے کوئی معنی نہیں ہیں اس لئے نہیں ہیں اس لئے انہوں نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک حدیث مروی ہے جس کے بعض طرق کے الفاظ یہ ہیں (لا تسبوا الدھرفان اللہ ھوالدھر۔ زمانے کو گالی نہ دو کیونکہ اللہ ہی زمانہ ہے) اس کی توجیہ اہل علم نے یہ کی ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ تکلیف وہ مصیبتوں ، آفات سماویہ اور نقصان وہ حوادث کی نسبت زمانہ کی طرف کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ زمانہ نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا اور زمانہ کے ہاتھوں ہم برباد ہوگئے وغیرہ اور پھر زمانہ کو برا بھلا کہتے جس طرح ہمارے زمانے میں لوگوں کو عادت ہے کہ وہ اپنی زبان پر یہ کلمات لاتے ہیں کہ ” ہمارے ساتھ زمانے نے بڑا براسلوک کیا۔ “ یا اسی طرح کے اور کلمات کہتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس چیز کو روکنے کے لئے فرمایا کہ تم لوگ ان حوادث اور ان امور کے فاعل کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان امور کا فاعل اور انہیں وجود میں لانے والا ہے۔ اس حدیث کی اصل وہ ہے جس کی ہمیں محمد بن بکر نے روایت کی ہے، انہیں ابودائود نے، انہیں محمد بن الصباح نے، انہیں سفیان نے زہری سے، انہوں نے سعید سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (یقول اللہ یوذینی ابن ادم یسب الدھروانا الدھر بیدی الامرا قلب الیل والنھار اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ابن آدمی مجھے اذیت دیتا ہے وہ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہوں۔ میرے قبضہ قدرت میں تمام امور ہیں۔ میں دن اور رات کو ادلتا بدلتا ہوں) ابن السرح نے اپنی روایت میں سعید کی بجائے ابن المسیب کہا ہے (دونوں کا مصداق سعید بن المسیب ہی ہیں) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد (وانا الدھر) میں لفظ الدھر ظرفیت کی بنا پر منصوب ہے جس طرح یہ قول ہے (انا ابداً بیدی الامر اقلب اللیل والنھار میں وہ ہوں کہ ہمیشہ میرے قبضہ قدرت میں تمام اموررہتے ہیں اور میں ہی دن اور رات کو ادلتا بدلتا ہوں) یا جس طرح کہنے والا کہتا ہے ” انا الیوم بیدی الامر ا فعل کذا وکذا “ (آج میرے ہاتھ میں اختیارات ہیں میں فلاں فلاں کام کروں گا۔ ) اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں لفظ الدھر کو مرفوع مانا جاتا تو وہ اللہ کا اسم بن جاتا جبکہ کوئی بھی مسلمان اللہ کو دہر کے اسم سے موسوم نہیں کرتا۔ ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے زہری سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا (ان اللہ یقول لا یقولن احدکم یا خیبۃ الدھر فانی انا الدھر افلت لیلہ ونھارہ فاذا شئت قبضتھما) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم سے کوئی شخص ہرگز یہ نہ کے ” ہائے زمانے کی نامرادی ! “ کیونکہ میں ہی زمانہ ہوں میں زمانہ کے دن اور رات کو چھوڑتا ہوں پھر جب میں چاہوں گا انہیں اپنے قبضہ میں کرلوں گا۔ یہ دونوں روایتیں اس بارے میں حدیث کی اصل ہیں اور حدیث کی توجیہ وہی ہے جس کا ہم نے ذکر کردیا۔ بعض راویوں کو غلطی لگی ہے، انہوںں نے اس مفہوم کی روایت کردی جو حدیث سے انہوں نے اخذ کیا تھا اور یہ نقل کردیا کہ (لا تسبوا الدھرفان اللہ ھوالدھر) پہلی حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (یو ذبنی ابن آدم یسب الدھر) اللہ تعالیٰ کو نہ تو کوئی اذیت لاحق ہے نہ منافع اور نہ ہی مضرتیں۔ یہ دراصل مجاز پر محمول ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ ابن آدم میرے دوستوں کو تکلیف پہنچاتا ہے کیونکہ انہیں یہ علم ہوتا ہے کہ ان تمام امور کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے جنہیں جاہل لوگ زمانے کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اس سے اللہ کے دوستوں کو اذیت ہوتی ہے جس طرح یہ قول باری ہے (ان الذین یوذون اللہ ورسولہ۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں) اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ اللہ کے دوستوں کو اذیت پہنچاتے ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور کفار مکہ یوں کہتے ہیں کہ سوائے ہماری اس دنیوی زندگی کے اور کوئی زندگی نہیں ہے، یہیں آباء مرتے ہیں اور یہیں اولاد پیدا ہوتی ہے اور ہمیں صرف رات و دن اور مہینوں اور گھنٹوں کی گردش سے موت آجاتی ہے اور ان کی اس بکواس کی ان کے پاس کوئی بھی دلیل نہیں محض گمان سے ایسی باتیں کہہ رہے ہیں۔ شان نزول : وَقَالُوْا مَا هِىَ (الخ) ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ جاہل کہا کرتے تھے کہ ہمیں تو رات و دن کی آمد و رفت سے موت آجاتی ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی سوائے ہماری اس دنیوی زندگی کے اور کوئی زندگی نہیں۔ الخ

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ { وَقَالُوْا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا } ” وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہے (کوئی اور زندگی ) سوائے ہماری دنیا کی زندگی کے ‘ ہم خود ہی مرتے ہیں اور خود ہی جیتے ہیں “ اس ایک جملے میں یوں سمجھئے کہ دہریت اور مادّیت (Materialism) کی پوری حقیقت سمو دی گئی ہے۔ اس فلسفے کے مطابق اس کائنات کی اصل اور سب سے بڑی حقیقت مادّہ (matter) ہے ‘ مادّے کے علاوہ کسی اور شے کا کوئی وجود نہیں ‘ مادّے کی اپنی صفات ہیں ‘ کائنات میں جہاں کہیں بھی کوئی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی تبدیلی آتی ہے وہ مادّے کی ہیئت میں تبدیلیوں (physical and chemical changes) کے باعث ہی ممکن ہے۔ یہ کائنات مادّے سے خود ہی وجود میں آئی تھی اور مادّے کے اٹل قوانین کے باعث خود ہی چل رہی ہے۔ انسانی زندگی بھی انہی اٹل قوانین کے تابع ہے۔ انہی لگے بندھے قوانین کے تحت انسان پیدا ہوتے ہیں ‘ اپنی طبعی عمر کے مطابق زندہ رہتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ نہ تو مرنے کے بعد انسان دوبارہ زندہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس زندگی کے بعد کسی اور زندگی کا کوئی امکان ہے۔ یہ فلسفہ دہریت کے بنیادی نکات ہیں ‘ جبکہ تجربیت پسندی بحیثیت نظریہ علم (Empiricism) اور منطقی اثباتیت (Logical Positivism) بھی اسی فلسفے کی ذیلی شاخیں ہیں اور مذکورہ نکات ان سب کے ہاں مشترک ہیں۔ { وَمَا یُہْلِکُنَآ اِلَّا الدَّہْرُ } ” اور ہمیں نہیں ہلاک کرتا مگر زمانہ “ کہ ہم تو محض زمانے کی گردش سے ہلاک ہوتے ہیں۔ نہ تو کوئی اللہ ہے جو انسانوں کی موت کے پروانے جاری کرتا ہو اور نہ ہی کسی فرشتے وغیرہ کا کوئی وجود ہے جو آکر کسی کی جان قبض کرتا ہو۔ { وَمَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍج اِنْ ہُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ } ” حالانکہ ان کے پاس (اس بارے میں) کوئی علم نہیں ہے ‘ وہ تو صرف ظن سے کام لے رہے ہیں۔ “ محض اٹکل کے تیر ُ تکے ّچلا رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

34 This is, "There is no means of knowledge by which they might have known with certainty that after this life there is no other life for Tnan, and that man's soul is not seized by the Command of God, but he dies and perishes merely in the course of time. The deniers of the Hereafter say these things not on the basis of any knowledge but on mere conjecture. The maximum that they could say scientifically is: "We do not know whether there is any life after death or not;" but they cannot say: "We know that there is no other life after this life." Likewise, they cannot make the claim of knowing scientifically that man's soul is not seized by God's Command but he perishes after death just like a watch which suddenly stops functioning. The most they can say is just this: "We do not know what exactly happens in either cast." Now the question is: When to the extent of the means of human knowledge there is an equal possibility of there being life after death or there being no life after death, and the soul's being seized by Allah's Command, or man's dying of himself in the course of time, what is the reason that these people abandon the probability of the possibility of the Hereafter and give their judgement in favour of its denial? Do they have any other reason than this that they, in fact, decide this question on the basis of their desire and not by any argument? As they do not like that there should be any life after death and death should mean total annihilation and not seizure of the soul by Allah's Command, they make their heart's desire their creed and deny the other probability."

سورة الْجَاثِیَة حاشیہ نمبر :34 یعنی کوئی ذریعہ علم ایسا نہیں ہے جس سے ان کو بتحقیق یہ معلوم ہو گیا ہو کہ اس زندگی کے بعد انسان کے لیے کوئی دوسری زندگی نہیں ہے ، اور یہ بات بھی انہیں معلوم ہو گئی ہو کہ انسان کی روح کسی خدا کے حکم سے قبض نہیں کی جاتی ہے بلکہ آدمی محض گردش ایام سے مر کر فنا ہو جاتا ہے ۔ منکرین آخرت یہ باتیں کسی علم کی بنا پر نہیں بلکہ محض گمان کی بنا پر کرتے ہیں ۔ علمی حیثیت سے اگر وہ بات کریں تو زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ بس یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہے یا نہیں ، لیکن یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ ہم جانتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے ۔ اسی طرح علمی طریقہ پر وہ یہ جاننے کا دعویٰ نہیں کر سکتے کہ آدمی کی روح خدا کے حکم سے نکالی نہیں جاتی ہے بلکہ وہ محض اس طرح مر کر ختم ہو جاتا ہے جیسے ایک گھڑی چلتے چلتے رک جائے ۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کہہ سکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ ہم ان دونوں میں سے کسی کے متعلق یہ نہیں جانتے کہ فی الواقع کیا صورت پیش آتی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب انسانی ذرائع علم کی حد تک زندگی بعد موت کے ہونے یا نہ ہونے ، اور قبض روح واقع ہونے یا گردش ایام سے آپ ہی آپ مر جانے کا یکساں احتمال ہے ، تو آخر کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ امکان آخرت کے احتمال کو چھوڑ کر حتمی طور پر انکار آخرت کے حق میں فیصلہ کر ڈالتے ہیں ۔ کیا اس کی وجہ اس کے سوا کچھ اور ہے کہ دراصل اس مسئلے کا آخری فیصلہ وہ دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ اپنی خواہش کی بنا پر کرتے ہیں؟ چونکہ اس کا دل یہ نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہو اور موت کی حقیقت نیستی اور عدم نہیں بلکہ خدا کی طرف سے قبض روح ہو ، اس لیے وہ اپنے دل کی مانگ کو اپنا عقیدہ بنا لیتے ہیں اور دوسری بات کا انکار کر دیتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:24) قالوا۔ یعنی منکرین بعث کہتے ہیں۔ ماہی : ما الحیوہ۔ زندگی کیا ہے ما استفہامیہ کی صورت میں۔ اگر ما نافیہ لیا جائے تو ترجمہ ہوگا :۔ زندگی کھر نہیں (سوائے ہماری دنیا دی زندگی کے) ۔ الا : مگر۔ سوائے۔ حرف استثنائ۔ حیاتنا الدنیا : حیاتنا مضاف الیہ مل کر مضاف الدنیا مضاف الیہ۔ ہماری دنیا کی زندگی۔ نموت۔ مضارع جمع متکلم۔ موت باب نصر مصدر۔ ہم مرتے ہیں۔ یعنی ہم میں سے بعض مرتے ہیں۔ نحیا : نحیی مضارع جمع متکلم ۔ حیوۃ (باب سمع) مصدر۔ ہم جیتے ہیں (یعنی ہم میں سے بعض جیتے ہیں۔ نموت اور نحیی میں واؤ صرف عطف کے لئے ہے۔ ترتیب ماتعقیب کے لئے نہیں ۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور وہ (منکرین بعث روز قیامت) کہتے ہیں نہیں (کوئی دوسری) زندگی بجز ہماری دنیا کی زندگی کے (یہیں) ہم نے زندہ رہنا اور مرنا ہے۔ ما یھلکنا۔ مضارع منفی واحد مذکر غائب، اھلاک (افعال) مصدر۔ ہم کو نہیں ہلاک کرتا ہے۔ الا الدھر۔ اور ہمیں نہیں ہلاک کرتا مگر زمانہ۔ الدھر (زمانہ) اصل میں مدت عالم کو کہتے ہیں یعنی ابتدائے آفرنیش سے لیکر اس کے اختتام کا عرصہ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ ہل انی علی الانسان حین من الدھر (76:1) بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے میں الدھر سے یہی معنی مراد ہیں پھر (مجازا) اس سے طویل مدت لی جاتی ہے برخلاف لفظ ” زبان “ کے کہ یہ مدت قلیلہ اور کثیرہ دونوں پر بولا جاتا ہے۔ بذلک : ب حرف جر ہے ذلک ان کا یہ کہنا : ما یہلکنا الا الدھر : من علم ای علی علم : ای ما یقولون ذلک من علم و یقین ولکن من ظن وتخمین۔ وہ یہ بات علم و یقین کی بنا پر نہیں کہہ رہے بلکہ اپنے خیال اور تخمینے کی بناء پر کہہ رہے ہیں۔ ان ہم الا یظنون ان نافیہ ہے الا حرف استثناء یظنون مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب ظن (باب نصر) مصدر۔ وہ گمان کرتے ہیں ۔ وہ محض ظن سے کام لے رہے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی خدا کا حکم اور ملک الموت وغریہ کچھ نہیں ہے، بس زمانہ کی گردش ہے جس سے ہم بوڑھے ہوجاتے ہیں اور جب اتنے کمزور ہوجاتے ہیں کہ زندہ نہیں ہوسکتے تو مرجاتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ مطلب یہ کہ مرور زمانہ سے قوی بدنیہ تحلیل ہوتے ہیں اور ان اسباب طبیعہ سے موت آجاتی ہے، اور اس طرح حیات کا سبب بھی امور طبیعہ ہیں۔ پس جب موت وحیات مقتضا اسباب طبیعہ کا ہے اور حیات ثانیہ کو اسباب طبعیہ مقتضی ہیں نہیں تو حیات ثانیہ نہ ہوگی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اپنے نفس کو معبود بنانے والا شخص دنیا کی لذات پر اس قدر فریفتہ ہوجاتا ہے کہ اس کا مرنے کو جی نہیں چاہتا اس وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ ہمارا جینا اور مرنا صرف دنیا میں ہے موت کے بعد نہ ہم نے زندہ ہونا ہے اور نہ کسی کے سامنے جواب دینا ہے۔ انسان اپنے نظریات اور جذبات کو اس وقت الٰہ کا درجہ دیتا ہے جب دنیا پر بےحد فریفتہ ہو کر وہ حقیقی الٰہ کو بھول جاتا ہے۔ اس وجہ سے نفس کا بچاری سمجھ بیٹھتا ہے کہ مرنے کے بعد نہ میں نے زندہ ہونا ہے اور نہ کسی کے سامنے حساب دینا ہے۔ اس بنیاد پر کہتا ہے کہ بس ہم نے اسی دنیا میں جینا اور مرنا ہے۔ ہماری زندگی اور موت کا معاملہ زمانے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے زمانے کے ردّ بدل کی وجہ سے ہم جیتے اور مرتے ہیں۔ اس کے سوا ہماری زندگی اور موت کا کوئی مالک نہیں۔ ان کے اپنے اٹکل پچو کے سوا اس نظریے کی کوئی علمی دلیل نہیں۔ جب ان کے سامنے موت وحیات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر قیامت کے بارے میں سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو زندہ کرکے دکھلاؤ ؟ انہیں فرمائیں کہ زمانہ یا کوئی اور موت وحیات کا مالک نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی تمہیں پیدا کرتا ہے اور وہی تمہیں موت دیتا ہے۔ موت دینے کے بعد پھر اسی نے قیامت کے دن تمہیں اٹھانا اور اکٹھا کرنا ہے۔ قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ لیکن لوگوں کی اکثریت اس حقیقت کو جاننے اور ماننے کے لیے تیار نہیں۔ زمین و آسمان کی بادشاہی صرف اللہ کے پاس ہے جس دن قیامت برپا ہوگی۔ جھوٹے نظریات رکھنے اور برے اعمال کرنے والے لوگ نقصان پائیں گے۔ یہاں پہلی آیت میں مادہ پرست لوگوں کا دعویٰ اور نظریہ پیش کیا گیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری موت وحیات زمانے کے تغیر و تبدل کی وجہ سے ہے۔ یہ ایسا نظریہ ہے جسے نہ عقل مانتی ہے اور نہ ہی علم تسلیم کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اپنے آپ کو جدّت پسند اور ترقی یافتہ سمجھنے والے لوگ اہل مکہ کی جہالت کو اپنائے ہوئے ہیں۔ جو سائنسدان کسی آسمانی کتاب پر ایمان نہیں رکھتے وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ مادہ میں از خود یہ صلاحیت ہوتی ہے جس وجہ سے اس میں خود بخود تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ جس کے لیے وہ بگ بینگ (BIG BANG) کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کائنات ایک دھماکہ کے ذریعے معرض وجود میں آئی ہے اور اس کی وجہ سے ہی مادہ معرض وجودآیا۔ مادہ کے بارے میں جس سائنسدان کو سائنس کی دنیا کا باپ تصور کیا جاتا ہے۔ آئن سٹائن (EIEN STIEN) اس کا نظریہ ہے کہ مادہ کو نہ کوئی پیدا کرسکتا ہے اور نہ ہی یہ ختم ہوگا۔ (MATTER CAN NIETHER BE CREATED NOR DESTROYED) (تفصیل کے لیے فہم القرآن جلد ٢: الاعراف : ٥٤ کی تفسیر دیکھیں) آسمانی کتابوں پر یقین رکھنے والے عیسائی، یہودی اور مسلمان سائنسدان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اس کائنات کی ابتدا کرنے والا ” اللہ “ ہے اور اسی کے حکم سے بگ بینگ (BIG BANG) ہوا۔ اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا کائنات کو قائم رکھے گا اور جب چاہے گا اسے فنا کر ڈالے گا۔ اس کے بعد قیامت قائم کرے گا جس میں لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا اور سزا دی جائے گی۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ یُؤْذِینِی ابْنُ آدَمَ ، یَسُبُّ الدَّہْرَ وَأَنَا الدَّہْرُ ، بِیَدِی الأَمْرُ ، أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ ) [ رواہ البخاری : باب (وَمَا یُہْلِکُنَا إِلاَّ الدَّہْرُ )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے۔ وہ زمانے کو گالی دیتا ہے اور زمانہ میں ہوں۔ تمام اختیارات میرے پاس ہیں۔ میں ہی دن رات کو بدلتا ہوں۔ “ جہاں تک قیامت کا انکار کرنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ ہمارے باپ دادا کو زندہ کرکے دکھلایا جائے۔ پہلی بات یہ ہے کہ قیامت کے بارے میں انسان کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے اور ہمیں اس پر اعتراض کیے بغیر من و عن ایمان لانا چاہیے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بڑے بڑے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے سامنے مردوں کو زندہ فرمایا اور اس زمانے کے لوگوں نے انہیں کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا لیکن اس کے باوجود قیامت کا انکار کرنے والے اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ اگر ان لوگوں کے سامنے مردے زندہ کیے جائیں تو یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ (الاعراف : ١١) مسائل ١۔ مادہ پرست لوگوں کا عقیدہ ہے کہ انسان کی موت اور زندگی صرف زمانے کے مدّ و جزر کی وجہ سے واقع ہوتی ہے۔ ٢۔ زمانے کو موت وحیات کا سبب قرار دینے والوں کے پاس عقلی اور علمی دلیل نہیں ہوتی۔ ٣۔ قیامت کا انکار کرنے والے سب سے بڑی دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد کو زندہ کرکے دکھلایا جائے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو پیدا کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور اسی نے قیامت کے دن سب کو اکٹھا کرنا ہے۔ ٥۔ زمین و آسمان کی بادشاہی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور وہی قیامت برپا کرے گا۔ ٦۔ قیامت کو جھٹلانے والے قیامت کے دن لامتناہی نقصان پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن انبیائے کرام (علیہ السلام) کے سامنے مردوں کا زندہ کیا جانا : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے سامنے چار پرندوں کو زندہ کیا۔ (البقرہ : ٢٦٠ ) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے سامنے ان کی قوم کے ستر سرداروں کو موت دے کر دوبارہ زندہ کیا۔ (الاعراف : ١٥٥ ) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو موت دے کر دنیا میں دوبارہ زندہ کیا۔ (البقرۃ : ٢٤٣ ) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کے ہاتھوں مردوں کو زندہ فرمایا۔ (المائدۃ : ١١٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو تین سو نو سال سلاکر بیدار فرمایا۔ (الکہف : ٢٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٢٣٦ ایک نظر میں یہ اس سورت کا آخری پیراگراف ہے۔ اس میں آخرت کے حساب و کتاب اور حشر ونشر کے بارے میں مشرکین کے عقائد و خیالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس پر تردید کے لئے خود ان کے وجود کو پیش کیا گیا ہے کہ آخر تم موجود ہو اور کوئی تمہیں اٹھائے ہوئے ہے۔ اس سے تو تم انکار نہیں کرسکتے ہو۔ اس کے بعد قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر پیش کیا جاتا ہے کہ قیام قیامت کا وقت تو اگرچہ معلوم نہیں ہے لیکن وہاں تمہارے ساتھ یہ کچھ ہونے والا ہے اور یہ منظر نہایت ہی موثر کلمات میں پیش کیا جاتا ہے۔ سورت کا خاتمہ الحمد للہ پر ہوتا ہے کہ اللہ واحد ہے ، وہ رب ہے ، تمام جہان والوں کا رب ہے۔ اس کی عظمت اور اس کی کبریائی بہت ہی بڑی ہے اور تمام آسمانوں اور زمینوں میں وہ منفرد ہے۔ کوئی اس کے مقابل کھڑا نہیں ہو سکتا۔ کوئی اس کی بادشاہت میں دست درازی نہیں کرسکتا اور وہ عزیز و حکیم ہے۔ ٭٭٭٭ درس نمبر ٢٣٦ تشریح آیات ٢٤ ۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ ٣٧ آیت نمبر ٢٤ تا ٢٦ قیامت کے بارے میں ان کا نظریہ اس قدر کوتاہ بینی پر مبنی تھا کہ ان کے نزدیک زندگی بس یہی تھی جسے وہ اس زمین پر گزرتی دیکھ سکتے تھے۔ ایک نسل ہے جو پیدا ہوتی ہے اور گزرتی چلی جاتی ہے۔ بظاہر موت کوئی چیز نہیں ہے سوائے اس کے کہ وقت گزرتا ہے اور ہم مرنتے ہیں اور زمانہ لپیٹتا چلا جاتا ہے۔ گویا یہ زمانہ ہے جو تمام فیصلے کرتا ہے اور ان پر موت طاری کرتا ہے اور وہ مر جاتے ہیں۔ یہ ایک سطحی نظریہ تھا۔ صرف ظاہری حالات کو دیکھ کر اسے اختیار کیا گیا ہے ، زندگی کے پیچھے جو اسر اور موز تھے ان کو تلاش کرنے کی اس میں کوشش ہی نہیں کی گئی تھی۔ سوال یہ تھا کہ زندگی کہاں سے آگئی ؟ اور کون ہے جو زندگی واپس لے لیتا ہے۔ موت کچھ متعین دنوں کے بعد تو نہیں آجاتی کہ انہوں نے زمانے کے ساتھ موت کو وابستہ کردیا۔ بچے بھی بوڑھوں کی طرح مرتے ہیں اور صحت مند لوگ بھی تو مرتے ہیں۔ جس طرح بیمار لوگ مرتے ہیں۔ ضعیف لوگوں کی طرح ہٹے کٹے بھی مرتے ہیں۔ لہٰذا اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو زمانے کا تعلق موت وحیات سے نہیں ہے۔ بشرطیکہ کوئی موت کی حقیقت کو جاننا چاہئے ۔ چناچہ کہا گیا : وما لھم بذلک من علم ان ھم الا یظنون ) ٤٥ : ٢٤) “ در حقیقت اس معاملے میں ان کے پاس کوئی علم نہیں ہے۔ یہ محض گمان کی بنا پر باتیں کرتے ہیں ”۔ یہ محض ظن وتخمین کے پائے چوبین پر چل رہے ہیں۔ ان کے خیالات بجھے ہوئے ہیں اور ان کے نفوش دھندلے ہیں۔ گہرے غوروفکر پر مبنی نہیں ہیں ، نہ کسی علم پر مبنی ہیں۔ اس کائنات کے حقائق کا ادراک ان کو نہیں ۔ موت وحیات کے جو حالات انسان پر طاری ہوتے ہیں ، یہ ان کے صرف سطحی اسباب دیکھتے ہیں۔ حقیقی اسباب نظروں سے اوجھل ہیں۔ انہوں نے صرف اس قدر معلوم کیا ہے کہ زیادہ دن گزر نے کے بعد انسان کمزور ہوتا ہے اور مرجاتا ہے۔ واذا تتلی علیھم ۔۔۔۔۔ کنتم صدقین (٤٥ : ٢٥) “ اور جب ہماری واضح آیات انہیں سنائی جاتی ہیں تو ان کے پاس کوئی حجت اس کے سوا نہیں ہوتی کہ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو ”۔ ان کی یہ بات بھی نہایت سطحی سوچ پر مبنی ہے اور اس سے پہلے انہوں نے اس کائنات کے قوانین فطرت کا مطالعہ نہیں کیا۔ اس دنیا میں اللہ نے حیات و ممات کے لئے جو نظام تحریر کیا ہے اور ان کے جو اسرار و رموز مقررہ کئے ہیں ، ان پر انہوں نے گہرے انداز میں نہیں سوچا۔ اس کے اندر گہری حکمت کارفرما ہے۔ لوگ اس جہاں میں آتے ہیں اور آتے چلے جاتے ہیں۔ اللہ کے نظام میں ان کو یہاں فرصت عمل مہیا کی جا رہی ہے۔ مرنے کے بعد ان کو ایک مقررہ وقت پر دوبارہ اٹھایا جائے گا اور یہاں انہوں نے جو کچھ کیا ، اس پر ان کا حساب و کتاب دینا ہوگا۔ لہٰذا حشر و نشر سے پہلے اللہ کے نظام کے مطابق انہیں یہاں نہیں اٹھایا جاسکتا۔ قیامت کے مقررہ دن سے پہلے یہاں ان کا اٹھانا حکمت آزمائش کے خلاف ہے۔ بعض لوگ یہ تجویز کرتے ہیں کہ ہر پرچہ قبل از وقت آؤٹ کر دیاجائے۔ لیکن اللہ کا اپنا کام اور نظام ہے اور اس کی اپنی حکمت اور اسکیم ہے۔ جس کے اوپر یہ پوری کائنات قائم ہے۔ لہٰذا اس احمقانہ تجویز کے مطابق اللہ کی پوری اسکیم کو نہیں بدلا جاسکتا۔ یہ قرآن استدلال کا کوئی معقول جواب دینے کی بجائے بس یہ کہتے ہیں : ائتوا بابائنا ان کنتم صدقین ) ٤٥ : ٢٥) “ کہ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو ”۔ سوال یہ ہے کہ اللہ وقت مقررہ سے پہلے ان کے باپ دادا کو کیوں اٹھا لائے۔ اس میعاد سے قبل جو اس نے اس پوری کائنات کے لئے مقرر کر رکھی ہے ؟ محض اس لیے کہ ان کو یہ یقین آجائے کہ اللہ مردوں کو دوبارہ اٹھا سکتا ہے ؟ سوال یہ ہے کہ کیا اللہ اپنی سنت کے مطابق ان کی آنکھوں کے سامنے ہر لمحہ اور ہر لحظہ زندگی کو اٹھا نہیں رہا ہے۔ قل اللہ یحییکم ۔۔۔۔۔ لا ریب فیہ (٤٥ : ٢٦) “ ان سے کہو کہ اللہ تمہیں زندگی بخشتا ہے۔ پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے۔ پھر وہی تم کو اس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے ”۔ یہی تو وہ معجزہ ہے جسے وہ اپنے آباؤ اجداد کو لے آنے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ ان کی آنکھوں کے سامنے واقع نہیں ہو رہا ہے۔ بعینہ وہی معجزہ ۔ اللہ ہی تو ہے جو انسان کو پیدا کئے جا رہا ہے۔ وہی تو ہے جو مارتا ہے۔ آخر میں اس میں کیا انہونی بات ہے کہ اللہ قیامت کے دن دوبارہ جمع کرے گا۔ اس میں آخر کیوں وہ شک میں گرفتار ہو رہے ہیں۔ جس چیز سے انہیں ڈرایا جا رہا ہے۔ اس کی نظیر خود ان کی زندگی ہے۔ ولکن اکثر الناس لا یعلمون (٤٥ : ٢٦) “ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ”۔ اللہ زمین و آسمان کی ہر چیز کو کنٹرول کرنے والا ہے۔ وہ ہر چیز کو بنانے والا ہے۔ وہ دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے ، اگر اس نے پہلے پیدا کی ہے اور تم مانتے ہو کہ کیا ہے۔ لیکن اللہ ان کے سامنے منطقی دلائل کی بجائے ایک منظر پیش فرماتا ہے :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دہریوں کی جاہلانہ باتیں اور ان سے ضروری سوال اس کے بعد مشرکین کے انکار قیامت کا تذکرہ فرمایا ﴿ وَ قَالُوْا مَا هِيَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا ﴾ ان لوگوں نے کہا کہ جس کا نام زندگی ہے وہ ہماری اس دنیا والی زندگی کے سوا کچھ نہیں ہے ہمیں ایک ہی بار یہ زندگی ملی ہے مرنے کے بعد پھر جی اٹھنا نہیں ﴿نَمُوْتُ وَ نَحْيَا ﴾ موت وحیات کا یہ سلسلہ جاری ہے ہم مرجائیں گے اور ہماری اولاد اس دنیا میں پیچھے زندہ رہ جائے گی پھر وہ بھی مرجائیں گے اور ان کی اولاد زندہ رہ جائے گی یہ قیامت کا آنا اور حساب کتاب ہونا ہماری سمجھ میں نہیں آتا ﴿ وَ مَا يُهْلِكُنَاۤ اِلَّا الدَّهْرُ ١ۚ﴾ اور ہمیں ہلاک نہیں کرے گا مگر زمانہ۔ عموماً منکرین اسلام کا یہی عقیدہ ہے کہ زمانہ ہی سب کچھ کرتا ہے دنیا میں آتے ہیں مرجاتے ہیں قیامت اور حساب و کتاب کچھ نہیں ان میں بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کے وجود کے بھی قائل ہیں لیکن موت اور حیات اور انقلابات اور حوادث اور مصائب کو زمانہ کی طرف منسوب کرتے ہیں جب تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ زمانہ نے ایسا کیا اور زمانہ کو جو برا کہتے ہیں یہ برا کہنا اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچتا ہے کیونکہ سب کچھ حوادث اور انقلابات اسی کی مشیت اور ارادہ سے وجود میں آتے ہیں اور زمانہ خود اسی کی مخلوق ہے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وجود کو نہیں مانتے اور ہر نشیب و فراز کو زمانہ کی طرف منسوب کرتے ہیں نہ عالم کی ابتداء کے قائل ہیں اور نہ انتہا کے، ان کو عرف عام میں دہریہ کہا جاتا ہے ان لوگوں سے اگر بات کی جائے کہ زمانہ تو رات دن گزرنے کا نام ہے اس میں کوئی تاثیر نہیں پھر زمانہ میں تو خود تغیرات ہیں وہ فاعل مختار کیسے ہوسکتا ہے اور یہ جو مخلوق کی انواع و اقسام ہیں اور آپس میں امتیازات ہیں انسانوں میں قلب ہے اور جوارح ہیں، اور درخت ہیں ان کے پھل مختلف ہیں مزے مختلف ہیں، جانور کی صورتیں اور ان کے اعمال مختلف ہیں اور اس طرح کے ہزاروں امتیازات ہیں یہ صرف رات دن کے گزرنے سے وجود میں سے کیسے آگئے، آم کا پھل بڑا اور جامن کا چھوٹا کیوں ہے کھجور کا تنا لمبا کیوں ہے اس کے پھل چھوٹے کیوں ہیں بڑے بڑے سمندروں کا پانی شور کیوں ہے میٹھا کیوں نہیں ہوتا، کسی کے اولاد ہوتی ہی نہیں کسی کے صرف لڑکے ہوتے ہیں کسی کے صرف لڑکیاں ہوتی ہیں تو ان سب باتوں کے جواب سے دہریہ عاجز رہ جاتے ہیں۔ ﴿وَ مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ١ۚ﴾ (اور انہوں نے جو کچھ کہا ہے اس کے بارے میں ان کے پاس کوئی علم نہیں ہے) ﴿اِنْ هُمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ ٠٠٢٤ ﴾ (بس اٹکل پچو باتیں کرتے ہیں) ان لوگوں کی ان باتوں کی وجہ سے قیامت رک نہ جائے گی، وہ ضرور واقع ہوگی جو اس کے منکروں کے لیے عذاب شدید کا باعث بنے گی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

18:۔ ” وقالوا ماھی۔ تا۔ یظنون “ یہ شکوی اولی ہے۔ یہ حشر و نشر کے بھی منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ زندی صرف یہی دنیا کی زندگی ہی ہے اس زندگی کے ختم ہوجانے کے بعد اور کوئی زندگی نہیں۔ ہم دیکھ رہے کہ کچھ لوگ مر رہے ہیں اور کچھ لوگ پیدا ہورہے ہیں بس یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا اور ہماری موت تو حوادثت زمانہ اور نازل دہر کا نتیجہ ہے۔ یہ مشرکین کے ایک گروہ کا خیال ہے جو تمام وقائع و حوادث کو وقت اور زمانے کی طرف منسوب کرتے تھے۔ وھؤلاء معترفون بوجود اللہ تعالیٰ فہم غیر الدھریۃ۔ والکل یقول باستقلال الدھر بالتاثیر (روح ج 25 ص 103) ۔ یہ لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ محض بےعلمی سے ناشی ہے۔ ان کے پاس کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہیں۔ محض ظن وتخمین سے دعوی کر رہے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(24) اور یہ منکرین قیامت یوں کہتے ہیں کہ ہماری اس دنیوی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی نہیں ہم یہیں ایک مرنا مرتے ہیں اور ایک جینا جیتے ہیں اور ہم کو نہیں مارتا اور نہیں ہلاک کرتا مگر زمانہ اور ان منکروں کے پاس اپنے اس کہنے پر کوئی دلیل نہیں یہ لوگ محض خیال اور اٹکل کی باتیں کیا کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دوسری زندگی کے قائل نہیں ہیں اس لئے دعویٰ کرتے ہیں کہ بس یہی دنیا کی زندگی سے پیدا ہوئے جئے اور مرگئے اس سے زیادہ کچھ نہیں اور ہمارا مرنا بھی کیا مرور زمان کی وجہ قوی مضمحل ہوئے اور مرگئے تو گردش زمانہ ہم کو ماردیتی ہے۔ یہ قول ان کا قائم مقام دلیل کے تھا گویا اپنے جینے اور مرنے پر یہ جملہ بطور دلیل پیش کیا کہ یہاں کا مرنا گردش زمانہ سے ہے۔ حضرت حق تعالیٰ نے فرمایا ان کے پاس کوئی دلیل نہیں محض اٹکل کی باتیں کرتے ہیں اور امور طبعیہ پر موت وحیات کا محول کرتے ہیں چونکہ حیات ثانیہ کے اسباب ان کی سمجھ میں نہیں آتے اس کا انکار کرتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی زمانہ نام ہے دہر کا وہ کچھ کام کرنے والا نہیں مگر کسی اور چیز کو کہتے ہیں جو معلوم نہیں ہوتی اور دنیا میں تصرف اس کا چلتا ہے پھر اللہ ہی کو کیوں نہیں کہیں اس معنی پر حدیث میں آیا کہ دہر اللہ ہے اس کو برا نہ کہیے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) نے خوب بات فرمائی کہ زمانہ خود متصرف نہیں بلکہ متصرف تو کوئی اور پوشیدہ طاقت ہے لوگ زمانے کو کبھی اچھا کبھی برا کہتے ہیں۔ حدیث میں زمانے کو برا کہنے کی ممانعت فرمائی اور فرمایا جس کو تم زمانے کا اثر سمجھتے ہو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا اثر ہے اس لئے وہی زمانہ ہے۔ بہرحال بعض حضرات نے یہاں بہت سے بحثیں کی ہیں، تناسخ کے مسئلے کو بھی چھیڑا ہے صور نوعیہ کا فاعل ہونا اور ہیولی کا قابل ہونا اس قسم کی بہت سی بحثیں کی ہیں لیکن ہم نے صرف آیت کا عام فہم مطلب عرض کردیا ہے اصل بحث دوسرے زندگی کی ہے منکروں کی طرف سے اس کا انکار ہے اللہ تعالیٰ ان کے خیالات کو ظن فرماتا ہے اور صحیح علم اور صحیح سند اور صحیح دلیل سے ان کو عاری فرماتا ہے اور ان سے دلیل کی نفی بیان کرتا ہے۔