The Conviction of the Disbelievers, Their Argument and the Refutation of it
Allah mentions here the creed of Ad-Dahriyyah and the Arab idolators who embraced their creed, denying Resurrection,
وَقَالُوا مَا هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا
...
And they say: "There is nothing but our life of this world, we die and we live...."
They say that there is only this life, some people die while others are born to life, without Resurrection or Judgement.
This was the creed of Arab idolators who used to deny Resurrection, in addition to, the creed of the atheist philosophers among them who denied the creation and Resurrection.
This was also the statement of atheist philosophers who deny the Creator and think that the world will return to its original form once every thirty--six thousand years, when everything will restart its life--cycle again! They claim that this cycle was repeated for infinity, thus contradicting the sound reason and the divine revelation.
They said,
...
وَمَا يُهْلِكُنَا إِلاَّ الدَّهْرُ
...
and nothing destroys us except Ad-Dahr (time).
Allah the Exalted said in reply,
...
وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلاَّ يَظُنُّونَ
And they have no knowledge of it, they only presume.
they speculate and guess!
As for the Hadith recorded by the two collectors of the Sahih, and Abu Dawud and An-Nasa'i, from Abu Hurayrah that the Messenger of Allah said,
يَقُولُ تَعَالَى
يُوْذِينِي ابْنُ ادَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِيَ الاَْمْرُ أُقَلِّبُ لَيْلَهُ وَنَهَارَه
Allah the Exalted says,
"The Son of `Adam annoys Me when he curses Ad-Dahr (time), while I am Ad-Dahr. In My Hand are all matters; I cause the alternation of his days and nights."
In another narration;
لاَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ فَإِنَّ اللهَ تَعَالَى هُوَ الدَّهْر
Do not curse Ad-Dahr (time), for Allah is Ad-Dahr.
Ash-Shafi`i, Abu Ubaydah and several other Imams of Tafsir explained the meaning of the Prophet's statement,
لاَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ فَإِنَّ اللهَ تَعَالَى هُوَ الدَّهْر
(Do not abuse Ad-Dahr (time), for Allah is Ad-Dahr.) They said,
"During the time of Jahiliyyah, when an affliction, a calamity or a disaster struck them, the Arabs used to say,
`Woe to Ad-Dahr (time)!'
So they used to blame such incidents on Ad-Dahr, cursing Ad-Dahr in the process. Surely, it is Allah the Exalted and Most Honored Who causes these (and all) things to happen. This is why when they cursed Ad-Dahr, it was as if they were cursing Allah Himself, since truthfully, He causes all incidents to happen. Therefore, abusing Ad-Dahr was prohibited due to this consideration, for it was Allah Whom they meant by abusing Ad-Dahr, which -- as we said-- they accused of causing (distressful) incidents."
This is the best explanation for this subject, and it is the desired meaning. Allah knows best.
We should mention that Ibn Hazm and those of the Zahiriyyah like him made an error when they used this Hadith to include Ad-Dahr among Allah's most beautiful Names.
Allah's statement,
زمانے کو گالی مت دو
دہریہ کفار اور ان کے ہم عقیدہ مشرکین کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ قیامت کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا ہی ابتداء اور انتہاء ہے کچھ جیتے ہیں کچھ مرتے ہیں قیامت کوئی چیز نہیں فلاسفہ اور علم کلام کے قائل یہی کہتے تھے یہ لوگ ابتداء اور انتہاء کے قائل نہ تھے اور فلاسفہ میں سے جو لوگ دھریہ اور دوریہ تھے وہ خالق کے بھی منکر تھے ان کا خیال تھا کہ ہر چھتیس ہزار سال کے بعد زمانے کا ایک دور ختم ہوتا ہے اور ہر چیز اپنی اصلی حالت پر آجاتی ہے اور ایسے کئی دور کے وہ قائل تھے دراصل یہ معقول سے بھی بیکار جھگڑتے تھے اور منقول سے بھی روگردانی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ گردش زمانہ ہی ہلاک کرنے والی ہے نہ کہ اللہ ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں اور بجز و ہم و خیال کے کوئی سند وہ پیش نہیں کر سکتے ۔ ابو داؤد وغیرہ کی صحیح حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم ایذاء دیتا ہے وہ دہر کو ( یعنی زمانے کو ) گالیاں دیتا ہے دراصل زمانہ میں ہی ہوں تمام کام میرے ہاتھ ہیں دن رات کا ہیر پھیر کرتا ہوں ۔ ایک روایت میں ہے دہر ( زمانہ ) کو گالی نہ دو اللہ ہی زمانہ ہے ۔ ابن جریر نے اسے ایک بالکل غریب سند سے وارد کیا ہے اس میں ہے اہل جاہلیت کا خیال تھا کہ ہمیں دن رات ہی ہلاک کرتے ہیں وہی ہمیں مارتے جلاتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کریم میں اسے نقل فرمایا وہ زمانے کو برا کہتے تھے پس اللہ عزوجل نے فرمایا مجھے ابن آدم ایذاء پہنچاتا ہے وہ زمانے کو برا کہتا ہے اور زمانہ میں ہوں میرے ہاتھ میں سب کام ہیں میں دن رات کا لے آنے لے جانے والا ہوں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ابن آدم زمانے کو گالیاں دیتا ہے میں زمانہ ہوں دن رات میرے ہاتھ میں ہیں ۔ اور حدیث میں ہے میں نے اپنے بندے سے قرض طلب کیا اس نے مجھے نہ دیا مجھے میرے بندے گالیاں دیں وہ کہتا ہے ہائے ہائے زمانہ اور زمانہ میں ہوں ۔ امام شافعی اور ابو عبیدہ وغیرہ ائمہ لغت و تفسیر اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے عربوں کو جب کوئی بلا اور شدت و تکلیف پہنچتی تو وہ اسے زمانے کی طرف نسبت کرتے اور زمانے کو برا کہتے دراصل زمانہ خود تو کچھ کرتا نہیں ہر کام کا کرتا دھرتا اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئے اس کا زمانے کا گالی دینا فی الواقع اسے برا کہنا تھا جس کی ہاتھ میں اور جس کے بس میں زمانہ ہے جو راحت و رنج کا مالک ہے اور وہ ذات باری تعالیٰ عزاسمہ ہے پس وہ گالی حقیقی فاعل یعنی اللہ تعالیٰ پر پڑتی ہے اس لئے اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا اور لوگوں کو اس سے روک دیا یہی شرح بہت ٹھیک اور بالکل درست ہے امام ابن حزم وغیرہ نے اس حدیث سے جو یہ سمجھ لیا ہے کہ دہر اللہ کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک نام ہے یہ بالکل غلط ہے واللہ اعلم پھر ان بےعلموں کی کج بخشی بیان ہو رہی ہے کہ قیامت قائم ہونے کی اور دوبارہ جلائے جانے کی بالکل صاف دلیلیں جب انہیں دی جاتی ہیں اور قائل معقول کر دیا جاتا ہے تو چونکہ جب کچھ بن نہیں پڑتا جھٹ سے کہدیتے ہیں کہ اچھا پھر ہمارے مردہ باپ دادوں پردادوں کو زندہ کر کے ہمیں دکھا دو تو ہم مان لیں گے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اپنا پیدا کیا جانا اور مر جانا تو اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہو کہ تم کچھ نہ تھے اور اس نے تمہیں موجود کر دیا پھر وہ تمہیں مار ڈالتا ہے تو جو ابتدا پیدا کرنے پر قادر ہے وہ دوبارہ جی اٹھانے پر قادر کیسے نہ ہو گا ؟ بلکہ عقلًا ہدایت ( واضح طور پر ) کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ جو شروع شروع کسی چیز کو بنا دے اس پر دوبارہ اس کا بنانا بہ نسبت پہلی دفعہ کے بہت آسان ہوتا ہے ، پس یہاں فرمایا کہ پھر وہ تمہیں قیامت کے دن جس کے آنے میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا ۔ وہ دنیا میں تمہیں دوبارہ لانے کا نہیں جو تم کہہ رہے ہو کہ ہمارے باپ دادوں کو زندہ کر لاؤ ۔ یہ تو دار عمل ہے دار جزا قیامت کا دن ہے یہاں تو ہر ایک کو تھوڑی بہت تاخیر مل جاتی ہے جس میں وہ اگر چاہے اس دوسرے گھر کے لئے تیاریاں کر سکتا ہے بس اپنی بےعلمی کی بناء پر تمہیں اس کا انکار نہ کرنا چاہیے تم گو اسے دور جان رہے ہو لیکن دراصل وہ قریب ہی ہے تم گو اس کا آنا محال سمجھ رہے ہو لیکن فی الواقع اس کا آنا یقینی ہے مومن باعلم اور ذی عقل ہیں کہ وہ اس پر یقین کامل رکھ کر عمل میں لگے ہوئے ہیں ۔