Surat ul Jasiya

Surah: 45

Verse: 36

سورة الجاثية

فَلِلّٰہِ الۡحَمۡدُ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَ رَبِّ الۡاَرۡضِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۳۶﴾

Then, to Allah belongs [all] praise - Lord of the heavens and Lord of the earth, Lord of the worlds.

پس اللہ کی تعریف ہے جو آسمانوں اور زمین اور تمام جہان کا پالنہار ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلِلَّهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَرَبِّ الاَْرْضِ ... So all praise is due to Allah, the Lord of the heavens and the Lord of the earth, He is their Owner and the Owner of all that is in and on them, and surely, ... رَبِّ الْعَالَمِينَ and the Lord of all that exists. Allah said next, وَلَهُ الْكِبْرِيَاء فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ ... And His is the majesty in the heavens and the earth, meaning, the kingship, according to Mujahid. This Ayah means, Allah is the Almighty, Worthy of all praise; everything and everyone is subservient and in complete need of and dependent upon Him. In an authentic Hadith, the Prophet said, يَقُولُ اللهُ تَعَالَى الْعَظَمَةُ إِزَارِي وَالْكِبْرِيَاءُ رِدَايِي فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا أَسْكَنْتُهُ نَارِي Allah the Exalted said, "Glory is My robe and pride is My garment; whoever rivals Me for either of them, I will make him reside in My Fire!" Muslim collected a similar Hadith. Allah said, ... وَهُوَ الْعَزِيزُ ... and He is the Al-`Aziz, (Who is never resisted or rivaled), ... الْحَكِيمُ Al-Hakim (all wise in His statements, actions, legislation and the decree that He appoints); all glory and praise are due to Him, none has the right to be worshipped but He, Alone. This is the end of the Tafsir of Surah Al-Jathiyah. All praise and thanks are due to Allah alone.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) فللہ الحمد رب السموت و رب الارض …: یہ ان تمام باتوں کا خلاصہ اور نتیجہ ہے جو اس سے پہلے سورت میں بیان ہوئی ہیں۔ جن میں اس اکیلے کا کائنات کو پیدا کرنا، اسے مخسر کرنا، اسے نہایت اعلیٰ انتظام اور عدل کے ساتھ چلانا، مسلمانوں کو دنیا اور آخرت میں اپنے انعامات سے نوازنا، کفار کے آیات الٰہی سے اعرضا کی مذمت، نہایت مضبوط دلائل کے ساتھ ان کے کفر و شرک کی تردید اور آخرت میں انھیں ان کے نہایت برے انجام کی وعید سنانا سب کچھ شامل ہے۔ یہ آیات اور ان میں مذکور حقائق اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام خوبیوں اور صفات کمال کا مالک ہے اور وہ اکیلا تمام نعمتیں عطا فرمانے والا ہے۔ اس بات کو بطور نتیجہ بیان فرمایا۔” فللہ الحمد “ میں ” للہ “ کو پہلے لان سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا اور ” فائ “ کے ساتھ پچھلی ساری سورت کے ساتھ کلام کا تعلق قائم و گیا کہ جب وہ سب کچھ ثابت ہوا جو پہلے مذکور ہے تو ثابت ہوگیا کہ تمام حمد صرف اللہ کے لئے خاص ہے۔ اب ” فللہ الحمد “ سے تین معنی مراد ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ اس میں خبر دی جا رہی ہے کہ تمام حمد اللہ ہی کے لئے ہے، دوسرا یہ کہ حکم دیا جا رہا ہے کہ تم اللہ ہی کی حمد کرو اور تیسرا یہ کہ اس میں حمد کی انشاء ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنی حمد فرما رہا ہے جس کا وہ یقیناً حق دار ہے اور اکیلا حق دار ہے۔ پچھلے کلام کا خلاصہ اور نتیجہ ہونے میں اس آیت کی مثال یہ آیت بھی ہے :(فقطع دابر القوم الذین ظلموا ، والحمد للہ رب العلمین) (الانعام ٣٥)” تو ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا تھا اور سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو سب جہانوں کا رب ہے۔ “ (ابن عاشور) (٢) رب السموت …: یہاں ” رب السماوات والارض “ بھی کہا جاسکتا تھا، مگر حمد کا مستحق ہونے میں رب ہونے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے اسے تین دفعہ دہرایا :(رب السموت و رب الارض رب العلمین) اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت ہماری حمد کا مستحق ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے، کیونکہ ہمارا وجود، ہماری بقاء ہماری زندگی کا ہر لمحہ اور دنیا اور آخرت میں ہمیں ملنے والی ہر نعمت اسی کا نتیجہ ہے، یہ نہ ہو تو ہمارا وجود تک نہ ہو۔ اس لئے قرآن مجید کی سب سے عظمت والی اور پہلی سورت کی ابتدا اسی کے ساتھ فرمائی :(الحمد للہ رب العلمین) (الفاتحۃ : ١)” سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔ “ سورة صافات اور زیر تفسیر سورت کا خاتمہ اس کے ساتھ فرمایا اور جنتیوں کے متعلق بتایا (دعوھم فیھا سبحنک اللھم وتحیتھم فیھا سلم واجردعوھم ان الحمد للہ رب العلمین) (یونس : ١٠)” ان کی دعا ان میں یہ ہوگی ” پاک ہے تو اے اللہ ! “ اور ان کی آپس کی دعا ان (باغات) میں سلام ہوگی اور ان کی دعا کا خاتمہ ہوگا کہ سب تعریف اللہ کے لئے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَرَبِّ الْاَرْضِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٣٦ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] . العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر/ 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة/ 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل/ 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٦۔ ٣٧) سو ہر قسم کے شکر و احسانات اسی ذات کے لیے ہیں جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے اور ہر اس جاندار کا رب ہے جو روئے زمین پر چلتے ہیں۔ اور اسی کے لیے بڑائی اور بادشاہت ہے آسمان اور زمین والوں پر اور وہ اپنی بادشاہت و سلطنت میں غالب اور اپنے حکم و فیصلہ میں حکمت والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ { فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَرَبِّ الْاَرْضِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } ” پس ُ کل تعریف اور کل شکر اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں کا اور زمین کا رب ہے اور تمام جہانوں کا رب ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(45:36) فللّٰہ الحمد : للّٰہ میں لام اختصاص کا ہے۔ الحمد کو اللہ کے ساتھ مختص کیا گیا ہے۔ الحمد میں الف لام استغراق کا ہے یعنی ہر قسم کی تعریف وثناء صرف اور صرف اللہ ہی کو سزاوار ہے۔ الحمد مبتداء للّٰہ اس کی خبر۔ خبر کو تاکید کے لئے مقدم لایا گیا ہے۔ رب السموت ورب الارض۔ اللہ تعالیٰ کی صفت میں ہے۔ رب العالمین ماقبل سے بدل ہے۔ لفظ رب کی تکرار کے لئے ہے رد۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : الجاثیہ کی آیت ٣٢ میں ارشاد ہوا ہے کہ ” اللہ “ کا وعدہ سچا ہے کہ قیامت ہر صورت برپا ہوگی مگر قیامت کے منکر اس پر ایمان لانے کی بجائے اسے مذاق کا نشانہ بناتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دنیا کے اسباب پر اتراتے ہیں۔ حالانکہ ہر قسم کی بڑائی اور کبریائی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو ہر اعتبار سے غالب اور حکمت والا ہے۔ ” اللہ “ ہی کے لیے تمام تعریفات ہیں جو آسمانوں، زمینوں اور پوری کائنات کا رب ہے۔ زمین و آسمانوں میں ہر قسم کی کبریائی اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر غالب ہے اس کے ہر کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ یہاں پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے تین مرتبہ ” رب “ کا لفظ استعمال کیا اور فرمایا کہ تمام تعریفات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق زمین و آسمانوں اور جو ان کے درمیان موجود ہے۔ وہ ” الْعٰلَمِیْنَ “ میں شامل ہے۔ ” الْعٰلَمِیْنَ “ کا لفظ استعمال فرما کر اپنی ساری مخلوقات کا احاطہ کرلیا ہے۔ جس کے بارے میں اس کا ارشاد ہے کہ میری مخلوقات کو میرے سوا کوئی نہیں جانتا (المدثر : ٣١) لفظ رب کے چار معانی ہیں۔ خالق، رازق، مالک اور بادشاہ یہاں بار، بار رب کا لفظ استعمال فرما کر ثابت کیا ہے کہ زمین و آسمان اور پوری کائنات کا صرف ایک ہی رب ہے۔ جب پوری کائنات کا ایک ہی رب ہے تو ہر قسم کی کبریائی اسی کو زیب دیتی ہے۔ وہ ہر اعتبار سے غالب ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ جب کبریائی صرف اسی کو زیب دیتی ہے تو پھر انسان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے رب کی ذات اور اس کے احکامات کے سامنے سرنگوں ہوجائے۔ انسان کے لیے اسی میں دنیا اور آخرت کی بہتری ہے۔ جو لوگ اس کی ذات اور احکامات کے ساتھ تکبر کرتے ہیں انہیں سوچ لینا چاہیے کہ وہ اپنے رب کے سامنے کتنے سامنے بےبس ہیں اور ہوں گے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدَرِیِّ وَأَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالاَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْعِزُّ إِزَارُہُ وَالْکِبْرِیَاءُ رِدَاؤُہُ فَمَنْ یُنَازِعُنِی عَذَّبْتُہُ )[ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب باب تحریم الکبر ) ” حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عزت اللہ تعالیٰ کا ازار ہے اور کبریائی اس کی چادر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو ان کو مجھ سے چھینے گا میں اس کو عذاب دوں گا۔ “ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِيْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِيْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرق ائق والورع ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے باپ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم میں ڈالا جائے گا۔ ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کے پیپ پلائی جائے گی۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمانوں اور پوری کائنات کا رب ہے۔ ٢۔ زمین و آسمانوں میں اللہ ہی کو کبریائی زیب دیتی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب اور اس کے ہر کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے غالب ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٢۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو حکم کرتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ : ١١٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر غالب ہے اس نے اپنے بندوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کیے ہیں۔ (الانعام : ٦١) ٤۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے وہ غالب، حکمت والا ہے۔ (الحشر : ١) ٦۔ اللہ تعالیٰ قوی اور غالب ہے۔ ( المجادلۃ : ٢١) ٧۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ : ٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر ٣٦ تا ٣٧ اللہ کی بڑائی اور اللہ کی عظمت کا اعلان ہوتا ہے۔ آسمانوں میں بھی وہ بڑا ہے اور زمین میں بھی وہی بڑا ہے۔ انسانوں کا بھی وہ حاکم ہے اور جنوں کا بھی وہ حاکم ہے۔ وحوش و طیور کا بھی وہی خالق ہے ، غرض جو کچھ اس کائنات میں ہے وہ اللہ کا ہے سب کے سب ایک ہی رب کی نگرانی میں ہیں۔ اللہ ہی ہے جو مدبر کائنات ہے اور رب کائنات ہے۔ اللہ کی ثنا اور کبریائی کی آواز بلند ہوتی ہے۔ اعلان کیا جاتا ہے کہ اس کائنات میں بڑائی صرف اللہ ہی کی ہے۔ اس کے مقابلے میں ہر بڑا چھوٹا ہوجاتا ہے اور ۔۔۔۔ یہاں گھٹنوں کے بل جھکا ہوا ہے۔ ہر سرکش یہاں سر تسلیم خم کئے ہوئے ہے۔ رب مطلق اور اکبر مطلق کے سامنے۔ اس کبریائی ، اس ربوبیت ، اس قدرت اور اس حکمت اور اس تدبیر کے ساتھ غالب قرار پاتا ہے۔ وھو العزیز الحکیم (٤٥ : ٣٧) “ وہ زبردست اور دانا ہے ”۔ الحمد للہ رب العلمین ! ٭٭٭٭

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ ہی کے لیے حمد ہے اور اسی کے لیے کبریائی ہے ﴿فَلِلّٰهِ الْحَمْدُ ﴾ (الی آخر السورۃ) (سو اللہ ہی کے لیے حمد ہے، جو آسمانوں کا بھی رب ہے اور زمین کا بھی رب ہے اور سارے جہانوں کا رب ہے اور اسی کے لیے بڑائی ہے آسمانوں میں زمین میں اور وہ عزیز بھی ہے اور حکیم بھی ہے اس کا کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں۔ ) وھذا اٰخر تفسیر سورة الجاثیة، والحمد للّٰہ رب کل راکبةٍ وما شیة والسلام علی من علم اعمالاً لھا اجورٌ باقیة، وعلی اٰلہٖ واصحابہٖ الذین جاھدوا کل باغیة وطاغیة

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:َ ” فللہ الحمد رب السموات۔ الایتیں “ فاء تفریعیہ ہے۔ اور یہ پانچویں عقلی دلیل ہے اور دلیل چہارم پر متفرع ہے۔ جب زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہے تو تمام صفات کارسازی کا مالک بھی وہی ہے، زمین و آسمان اور ساری کائنات کا خالق ومالک اور سب کا پروردگار وہی ہے، ساری کائنات میں برتری، بڑائی عظمت اور شان کبریائی اسی کا حصہ ہے اس میں کوئی اس کا شریک وسہیم نہیں۔ وہ سب پر غالب ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ سورة جاثیہ کی خصوصیات اور اس میں آیات توحید 1 ۔ ” وفی خلقکم وما یبث من دابۃ “ تا ” ایت لقوم یعقلون (رکوع 1) ۔ نفی شرک فی التصرف۔ 2 ۔ ” اللہ الذی سخر لکم البحر “ تا ” ان فی ذلک لایات لقوم یتفکرون (رکوع 2) ۔ نفی شرک فی التصرف۔ 3 ۔ وللہ ملک السموات والارض (رکوع 4) ۔ نفی شرک فی التصرف۔ 4 ۔ ” فللہ الحمد رب السموات “ تا ” وھو العزیز الحکیم “ (رکوع 4) ۔ نفی شرک فی التصرف و اثبات تمام صفات کارسازی برائے اللہ تعالی۔ سورة جاثیہ ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(36) پس تمام خوبیاں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں جو پروردگار اور مالک ہے آسمانوں کا اور مالک و پروردگار ہے زمین کا اور پروردگار ہے تمام عالموں کا۔ یعنی تمام آسمانوں و زمین اور گوناگوں عالموں کا وہی پیدا کرنے اور ایجاد کرنے والا ہے اور وہی سب کو باقی رکھنے والا اور سنبھالنے والا ہے۔